میری تحریر ”خود غرضی یا نِکو کاری“ پر ایک تبصرہ ہوا جس سے کچھ تفصیل بیان کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی ہے
خود اعتمادی بُری چیز نہیں بلکہ اس کا نہ ہونا اچھا نہیں ۔ لیکن خود اعتمادی اور خود پسندی میں بہت فرق ہے بلکہ یہ ایک دوسرے کی ضِد ہیں ۔ کہا جاتا ہے شاخ پر جتنا زیادہ پھل ہو گا ۔ شاخ اتنی زیادہ جھُکی ہو گی ۔ انگریزی کا مقولہ ہے ” Deeds speak louder than words “۔
مندرجہ ذیل شعر میں پنہاں رمز پر بھی غور کییجئے
سچائی چھُپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے
خُوشبُو آ نہیں سکتی کبھی کاغذ کے پھولوں سے
میں نےبڑے بڑے عِلم والے ۔ سائنسدان او ر مُوجد دیکھے ہیں ۔ ان میں سے 2 میرے اُستاذ رہے ہیں ۔ ان سب میں انکساری اور سادگی ہی دیکھی ۔ اُنہوں نے کبھی اپنی اشتہار بازی نہ کی لیکن عِلم کی دنیا میں بسنے والے اُنہیں جانتے ہیں ۔ 1969ء یا 1970ء کا واقعہ ہے جب میں پروڈکشن منیجر تھا دوسرے محکمے کے ایک اسسٹنٹ منیجر جو عمر میں مجھ سے دس بارہ سال بڑے تھے آئے اور بولے ” اجمل صاحب ۔ آجکل لوگ دونوں ہاتھوں سے ڈفلی بجاتے ہیں ۔ آپ دونوں ہاتھوں سے کام کرتے ہیں ۔ میں ایک ہاتھ سے کام کرتا ہوں اور ایک سے ڈفلی بجاتا ہوں ۔ آپ بھی کچھ اس طرف سوچیں“۔ میرے پیارے اللہ نے میرے منہ سے کہلوایا ”حاجی صاحب ۔ اگر میرا کام میرے اللہ کو پسند آ گیا تو ڈفلی کیا ڈھول بجیں گے“۔
میں نے متذکرہ تحریر میں صرف دین کے حوالے سے بات کی تھی ۔ اب اسے دنیا کے حوالے سے پرکھنے کی کوشش کرتا ہوں ۔ میں ہر عمل کو سائنس کے مسلّمہ اصولوں پر پرکھنے کا عادی ہوں ۔ سائنس دین سے باہر نہیں ہے اور میرا یقین ہے کہ ” اللہ ہر قسم کے عِلم سمیت ہر چیز میں ارفع اور یکتاء ہے“۔
عصرِ حاضر میں ہم سائنس کی ترقی پر بغلیں بجاتے ہیں لیکن باوجود سائنس کی بے تحاشہ ترقی کے انسان کا عِلم محدود ہے ۔ سائنس نے گھر بیٹھے ہزاروں انسانوں کی ہلاکت تو آسان بنا دی ہے لیکن انسان کی بہتری کیلئے سائنس نے آج تک کوئی منصوبہ متعارف نہیں کرایا اور نہ مُستقبل میں کوئی ایسی تجویز ہے ۔ سائنس ایک متحرک عِلم ہے ۔ اس کے کُلیئے اور نظریات بدلتے رہتے ہیں ۔ لیکن دین میں اس کی گنجائش نہیں کیونکہ اس کا ترتیب دینے والا یکتا اور تمام خامیوں سے پاک ہے ۔ چنانچہ صرف اللہ کا بھیجا ہوا عِلم ہی مُستنَد ہے
آجکل اشتہار بازی یعنی میڈیا کا دور دورا ہے ۔ میڈیا سرمایہ دار کا خادم ہے کیونکہ میڈیا کو چلانے کیلئے دولت کی ضرورت ہوتی ہے جو سرمایہ دار مہیاء کرتا ہے ۔ زیادہ سے زیادہ دولت کمانے کیلئے سچائی پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ میڈیا نے انسانی دماغوں کو اتنا محسور کر لیا ہے کہ وہ اپنی ذات کی نسبت میڈیا پر زیادہ یقین رکھتے ہیں ۔ اپنی حقیقت (جو اللہ نے بنائی ہے) کا سوچنے کیلئے کسی کے پاس وقت نہٰیں ۔ دیکھا دیکھی افراد نے بھی اپنی اشتیار بازی شروع کر دی ہے اور ہمہ وقت مقابلے کی دوڑ میں شامل ہیں
ڈاکٹر ہو ۔ استاذ (ٹیچر) ہو یا مُفتی ۔ کم ہی کوئی اس یلغار سے محفوظ رہا ہے ۔ تبصرے میں زیادہ زور ڈاکٹر (میڈیکل پریکٹیشنر) کے کام اور رویّے پر دیا گیا ہے ۔ معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ یہ خام خیالی ہے ۔ میں اور میری بیگم عمر کے جس حصے میں ہیں ہمیں ان معالجوں کی آئے دن ضرورت رہتی ہے ۔ میرا تجربہ یہ ہے کہ اشتہاری بڑے نام والے ہسپتال اور ڈاکٹر کی توجہ مریض کی نسبت اُس کی جیب پر زیادہ ہوتی ہے جبکہ ایسے ڈاکٹر بھی ہیں کہ وہ مریض پر اپنی فیس سے زیادہ توجہ دیتے ہیں اور اللہ کے فضل سے اشتہاریوں کی نسبت زیادہ خوشحال ہیں
مکمل مطالعے کے بغیر سُنی سُنائی یا رسالوں کی باتوں پر یقین کیا جائے تو ابو بکر صدیق اور عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہم میں بہت فرق نظر آتا ہے ۔ یہ بھی نہیں سوچا جاتا کہ اگر ان دونوں کا مزاج اتنا مُختلف تھا تو ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ کو خلافت کیلئے کیوں موزوں ترین سمجھا ؟ کیا وہ مؤمنین کو (نعوذ باللہ من ذالک) سیدھا کرنا چاہتے تھے ؟ جب عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ امیر المؤمنین تھے گشت کے دوران بچوں کے رونے کی آواز سُن کر پہنچے اور وجہ پوچھی ۔ جواب ملا ”عمر کی جان کو رو رہے ہیں“۔ بیت المال پہنچے اناج کا تھیلا کندھے پر اُٹھایا اور چل پڑے ۔ بیت المال کے خادم نے اُٹھانے کی درخواست کی تو عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ نے کہا ”کیا قیامت کے روز تو میرا بوجھ اُٹھائے گا“۔ اگر یہ سخت مزاجی ہے تو سُبحان اللہ
انسان کو چاہیئے کہ دین یا اسلاف کے بارے میں زبان کھولنے سے قبل مُستند کُتب کا مطالعہ کر کے ذہن صاف کر لے
لبادہ اوڑھنے کا مطلب بھی شاید آجکل کے جوانوں کے عِلم سے دُور ہے
میں نے صرف اپنے لکھے کی وضاحت کی کوشش کی ہے ۔ جس دن اپنے آپ کو مکمل درست کرلوں گا پھر دوسروں کی سوچ درست کرنے کے متعلق سوچوں گا ۔ فی حال تو میں 7 دہائیوں سے خود ہی سیکھ رہا ہوں اور سامنے عِلم کے پہاڑ نظر آ رہے ہیں میں جن کے قریب بھی نہیں پہنچ پایا ۔ اللہ کریم میری مدد فرمائے