Category Archives: تجزیہ

دکھاتا ہے آسماں رنگ کیسے کیسے

طارق سرمد صاحب نے 22 مئی 2013ء کو لکھا

آج سے پورے 22 سال قبل 22 مئی 1991ء کو میں نے اپنے قیاس سے بہت کم گہرے پانی میں چھلانگ لگائی جس کے نتیجہ میں زندگی بھر کیلئے اپاہج ہو گیا لیکن یہ واقعہ مجھے مذہب کی دنیا میں لے گیا ۔ ڈاکٹروں کا خیال تھا کہ میں زندہ نہیں رہوں گا اور شاید میں ہسپتال تک بھی زندہ نہ پہنچنے پاؤں گا ۔ منطقی طور پر میری موت کے آثار بہت زیادہ تھے

اب ماضی کی طرف دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ میں واقعی مر گیا تھا ۔ معجزہ یہ ہوا کہ میں دوسری بار بطور ایک بالکل مُختلِف فرد کے پیدا ہوا ۔ صرف پانی میں چھلانگ لگانے والے لمحہ نے مجھے زندگی کو ایک بالکل مُختلِف رنگ میں دکھایا ۔ مجھے بہت سخت لمحات میں سے گذرنا پڑا اور اب بھی گذر رہا ہوں ۔ شاید اب پہلے سے زیادہ لیکن اُس واقعہ کے سبب مجھ پر مندرجہ ذیل انکشافات ہوئے

1 ۔ اللہ موجود ہے
2 ۔ مجھے اتنے زیادہ لوگ چاہتے ہیں
3 ۔ زندگی کچھ حاصل کر لینے کیلئے بہت چھوٹی ہے اور جب تک سانس اور سوچ باقی ہے زندگی کی ممکنات لاتعداد ہیں
4 ۔ میں وہیل چیئر پر بھی اتنا کچھ کر سکتا ہوں کہ میری زندگی اس کا آدھا بھی حاصل کرنے کیلئے کم ہے چنانچہ جو پاس نہیں اور جو حاصل نہیں کر پائے اس کی شکائت کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ۔ اپنی توجہ صرف جو پاس ہے اور جو آپ کر سکتے ہیں پر مرکوز رکھی جائے تو
اللہ کی عنائت و کرم کا احساس ہوتا ہے
5 ۔ بہت سے لوگ ساری زندگی شکوے شکائتوں میں گذار دیتے ہیں ۔ میں اِن کی سوچ کو بدل کر انہیں شاکی سے تحصیل کنندہ بنانے کا سبب بنوں
6 ۔ مشکلات بڑی نہیں ہوتیں ۔ ہم کسی وقت چھوٹے بن جاتے ہیں
7 ۔ دنیا میں کوئی عمل ناممکن نہیں ہے
8 ۔ اپنی استداد سے زیادہ محنت کرنے میں زندگی گذارنا ہی اصل زندگی ہے
9 ۔ جو لوگ اپنی قسمت خود بناتے ہیں وہی کامیاب ہوتے ہیں اور جو دوسروں کی مدد یا قسمت کی طرف دیکھتے رہتے ہیں وہ ہمشہ انتظار ہی کرتے رہتے رہتے ہیں
10 ۔ زندگی کیسی بھی ہو اچھی ہوتی ہے

کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کاش ان باتوں کا احساس مجھے میرے حادثہ سے قبل ہو جاتا ۔ کبھی میں سوچتا ہوں کہ کیا حادثہ میری زندگی میں پیش آنے والی بہترین چیز تھی ۔ کبھی میں سوچتا ہوں کہ آدمی اپنی زندگی کی قدر کرنا کب سیکھے گا اور اس کیلئے حادثوں کا انتظار نہیں کرے گا

دہشتگرد ۔ ہم اور سکیوریٹی

پشاور میں آرمی پبلک سکول پر 16 دسمبر 2014ء کو دہشتگرد حملہ ہوا ۔ بتایا گیا تھا کہ سکول کے ہال میں کسی تقریب کے سلسلے میں سب اکٹھے ہوئے تھے اور یہ کہ دہشتگرد پچھلی دیوار سے داخل ہوئے
ایک سال 7 ہفتے بعد یعنی 20 جنوری 2016ء کو چارسدہ میں باچا خان یونیورسٹی پر دہشتگرد حملہ ہوا ۔ اس کے بارے میں بھی یہی بتایا گیا کہ سکول کے ہال میں کسی تقریب کے سلسلے میں سب اکٹھے ہوئے تھے اور یہ کہ دہشتگرد پچھلی دیوار سے داخل ہوئے

سوال پیدا ہوتا ہے کہ پہلے واقعہ کے بعد ایسی تقریبوں کیلئے بالخصوص پچھلی دیوار کے حفاظتی اقدامات کیوں نہ کئے گئے ؟
جواب ظاہر ہے کہ ہمارے ذہن ابھی تک حقیقت پہچاننے سے محروم ہیں
ہم لوگ تقاریر اور مباحث کے شوقین بن چکے ہیں اور عمل ہم دوسروں کی ذمہ داری سمجھتے ہیں ۔ اس سب سے قطع نظر میں وہ حقائق لکھنا چاہتا ہوں جو اِسی مُلک پاکستان کے ماضی کا حصہ بن چکے ہیں یا بنا دیئے گئے ہیں

میں نے 1963ء میں پاکستان آرڈننس فیکٹریز (پی او ایف) میں ملازمت شروع کی تو وہاں سکیورٹی کا ایک سادہ لیکن مؤثر نظام قائم تھا ۔ اُس زمانے میں 7 بڑی فیکٹریاں تھیں ۔ ہر فیکٹری کا سربراہ جنرل منیجر ہوتا تھا ۔ جس کے ماتحت کچھ منیجر ہوتے تھے ۔ ہر فیکٹری میں پیداوار (پروڈکشن) کے انچارج 4 سے 6 اسسٹنٹ منیجر ہوتے تھے ۔ ہر اسسٹنٹ منیجر کو اپنے علاقے کا سکیورٹی آفیسر بھی سمجھا جاتا تھا ۔ سکیورٹی کا چھوٹا سا محکمہ تھا جس کے کارندے ظاہر نہیں ہوتے تھے ۔ وہ فیکٹریوں اور متعلقہ محکموں میں کھُلی آنکھوں اور کھُلے دماغوں کے ساتھ گھومتے رہتے اور کوئی مشکوک چیز یا حرکت نظر آنے پر اپنے سربراہ اور متعلقہ ورکشاپ کے اسسٹنٹ منیجر کو مطلع کرتے ۔ اس اطلاع پر فوری کاروائی کی جاتی ۔ اگر اسسٹنٹ منیجر کی طرف سے کچھ سُستی ہوتی یا وہ موجود نہ ہوتا تو سکیورٹی کا سربراہ وہاں پہنچ جاتا ۔ ورنہ اپنے دفتر میں بیٹھا جائزہ لیتا رہتا (مانیٹرنگ کرتا) ۔
کوئی اہل کار اپنی فیکٹری کے بارے میں کسی قسم کی معلومات کسی غیر متعلقہ آدمی کو نہیں بتاتا تھا اور ساتھ ہی اپنے اِرد گِرد بھی نظر رکھتا تھا اور ذرا سے شک پر اپنے افسر کو مطلع کرتا تھا

پی او ایف کے اہل کار اچھے طریقہ سے سکیورٹی کلیئرنس کے بعد بھرتی کئے جاتے ۔ میرے بھرتی کیلئے مُنتخِب ہو جانے کے بعد پولیس سمیت 3 خُفیہ اداروں کے اہلکاروں نے میرے متعلق تحقیقات کی تھیں۔ یہ لوگ جہاں جہاں قیام رہا وہاں کے محلے داروں اور سکول کالج جہاں تعلیم حاصل کی تھی سے معلومات حاصل کرتے تھے ۔ یہ سب کچھ مجھے ملازمت شروع کرنے کے کئی سال بعد معلوم ہوا تھا جب مجھے ایک سکیورٹی ڈیوٹی پر لگایا گیا تھا
بھرتی ہو جانے کے بعد بھی کئی بار میری سکیورٹی کلیئرنس ہوئی جس کا عَلم مجھے ریٹائرمنٹ سے ایک دو سال قبل ہوا تھا

دوسری اہم بات یہ ہے کہ شہریوں کی بھاری اکثریت بھی اپنے فرائض بالخصوص مُلکی سکیورٹی کے سلسلے میں اپنی ذمہ داریاں نبھاتے تھے ۔ محلے اور گلی میں سے گذرنے والے ہر شخص پر نظر رکھی جاتی کہ کوئی مشکوک کاروائی تو نہیں کرتا ۔ تمام محلے داروں میں ایک قسم کا بھائی چارہ ہوتا تھا ۔ اس قسم کا رویّہ سب کی بہتری اور حفاظت کا ضامن تھا
صرف ایک واقعہ نمونہ کے طور پر ۔ ہماری گلی میں کوئی شخص آیا اور کچھ دیر بعد واپس چلا گیا تھا ۔ اُسے ہمارے 3 محلہ داروں نے دیکھا ۔ پہلے اُنہوں نے آپس میں سرگوشی کی اور پھر گلی کے ہر گھر کے ایک معتبر شخص سے بات کی سے ۔ اُنہیں اُس وقت تک چین نہ آیا جب تک اطمینان نہ ہو گیا کہ کچھ نہیں ہوا اور کچھ ہونے کا خدشہ بھی نہیں کیونکہ وہ شخص راستہ بھول کر ہماری گلی میں آ گیا تھا

آج کے حالات پر نظر ڈالیئے اور سوچیئے کہ ہم کہاں سے کہاں پہنچ گئے ہیں اور کہاں جا رہے ہیں ؟

آجکل ہم نے ساری ذمہ داری پولیس اور دوسرے سکیورٹی اداروں کے سر پر ڈالی دی ہے اور اپنی کوئی ذمہ داری محسوس نہیں کرتے ۔ جب دِل چاہتا ہے سکیورٹی والوں یا حکومت کو جی بھر کے کوس لیتے ہیں اور پھر اپنے دھندوں میں لگ جاتے ہیں ۔ اپنے ہموطن یا اپنے شہر یا گاؤں والے تو کیا ہمیں اپنے عزیز و اقارب کی بھی پرواہ نہیں ۔ بس ایک فکر ہے کہ ہمیں کرنا کچھ نہ پڑے اور دولت کے انبار لگ جائیں

نتیجہ پھر یہی ہوتا ہے جو ہم دیکھ رہے ہیں
اللہ ہمیں اپنئ ذمہ داریاں سمجھنے اور انہیں نبھانے کی توفیق عطا فرمائے

شعیب سعید شوبی صاحب کی فرمائش

میری تحریر ” میری زندگی کا نچوڑ “ پر تبصرہ کرتے ہوئے شعیب سعید شوبی صاحب نے فرمائش کی
کسی دن اس پر بھی اپنے تجربات کی روشنی میں ضرور لکھیئے کہ کیریئر کے دوران اچانک آنے والے دھچکے یا set back سے کس طرح نکلا جائے؟ مایوسی کو خود پر حاوی ہونے سے کس طرح بچا جائے؟ بعض اوقات کسی مصلحت کی وجہ سے شاید اللہ تعالٰی کے یہاں بھی فوری شنوائی نہیں ہوتی ۔ عبادت میں بھی دل نہیں لگتا ۔ اس کا کیا حل ہے؟

کار و بار ہو یا ملازمت ۔ چلتے چلتے اگر کوئی رکاوٹ آ جائے تو دھچکا لگتا ہے ۔ اگر سکون سے کام چل رہا تھا تو دھچکا زیادہ محسوس ہو گا ۔ اگر پہلے دھچکے کا تجربہ نہ ہو تو دھچکے کا دورانیہ بہت طویل محسوس ہو گا ۔ دھچکا لگنا کوئی بڑی بات نہیں ۔ زیادہ تر لوگ اس کا شکار ہوتے ہیں البتہ کچھ کو کبھی کبھار لگتا ہے اور کچھ کو بار بار ۔ بار بار دھچکا لگنے سے انسان پُختہ یا عادی یا تجربہ کار ہو جاتا ہے اور پھر دھچکے اس پر بُرا اثر نہیں ڈالتے ۔ اصل مُشکل یا مُصیبت دھچکا نہیں بلکہ دھچکے کا اثر محسوس کرنا ہے جو ہر آدمی اپنی اپنی سوچ کے مطابق کرتا ہے ۔ جھٹکے مالی ہو سکتے ہیں اور نفسیاتی بھی

چلتی گاڑی میں سفر کرنے والا یا چلتے کارخانے میں کام کرنے والا یا چلتے کار و بار کو چلانے والا عام طور پر جھٹکوں سے بچا رہتا ہے لیکن وہ کچھ سیکھ نہیں پاتا ۔ ماہر وہی بنتا ہے جس نےکارخانہ بنایا ہو یا کوئی نئی مصنوعات بنا ئی ہوں یا نیا دفتر قائم کر کے چلایا ہو یا نیا کار و بار شروع کیا ہو اور پیش آنے والی مُشکلات کا دلیرانہ مقابلہ کیا ہو ۔ دوسرے معنی میں زندگی کے نشیب و فراز دیکھے ہوں یعنی دھچکے کھائے ہوں

پہلی جماعت سے لے کر کالج اور یونیورسٹی تک بہت سے امتحانات دیئے جاتے ہیں ۔ کسی امتحان کا نتیجہ توقع سے بہتر آتا ہے ۔ کسی کا توقع کے مطابق اور کسی کا توقع سے خراب ۔ وہاں ممتحن انسان ہوتے ہیں تو توقع سے خراب نتیجہ آنے پر ہم اپنی خامیاں تلاش کرتے اور مزید محنت کرتے ہیں ۔ لیکن معاملہ اللہ کا ہوتا ہے تو ہم کہتے ہیں ”اللہ بھی بے کسوں کی نہیں سُنتا“۔
کیا یہ ہمارا انصاف ہے ؟

آجکل جھٹکوں کا سبب زیادہ تر انسان کی تبدیل شدہ اس عادت کا شاخسانہ ہوتا ہے کہ وہ مُستقبل کی مناسب منصوبہ بندی نہیں کرتا ۔
محاورے اور ضرب المثل کسی زمانہ میں تاکید کے ساتھ پڑھائے جاتے تھے ۔ یہ انسان کیلئے مشعلِ راہ بھی ہوتے تھے ۔ جب سے جدیدیت نے ہمں گھیرا ہے ہمارا طریقہءِ تعلیم ہی بدل گیا ہے اور محاوروں کی اہمیت ختم ہو گئی ہے ۔ ایک ضرب المثل تھی ”اتنے پاؤں پھیلاؤ جتنی چادر ہو اور بُرے وقت کیلئے پس انداز کرو“۔ چیونٹیوں کو کس نے نہیں دیکھا کہ سردیوں اور بارشوں کے موسم سے قبل اپنے بِلوں میں اناج اکٹھا کرتی ہیں ۔ ہم انسان ہوتے ہوئے وقت کے ساتھ ساتھ اپنے اخراجات بڑھاتے چلے جاتے ہیں اور بُرے وقت کیلئے پس انداز نہیں کرتے ۔ پھر جب تنگی یا کوئی رکاوٹ آئے تو ہمارے ہاتھ پاؤں پھُول جاتے ہیں

اللہ پر یقین کا دَم تو سب ہی بھرتے ہیں لیکن دھچکا لگنے پر اصلیت معلوم ہوتی ہے کہ اللہ پر کتنا یقین ہے ۔ دھچکے کی شدت کا تناسب اللہ پر یقین سے مُنسلک ہے ۔ اگر اللہ پر یقین کامل ہے تو دھچکا لگنے کے بعد احساس یہ ہوتا ہے کہ اللہ نے شاید اس میں میرے لئے کوئی بہتری رکھی ہے ۔ اور آدمی اپنی خامیاں تلاش کرتا اور انہیں دُور کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ ساتھ ہی محنت جاری رکھتا ہے ۔ ایسا کرنے والا سکون میں رہتا ہے

صرف اس دنیا کا ہی نہیں کُل کائنات کا نظام چلانے والا صرف اللہ ہے ۔ کون ایسا مُسلمان ہے جو سورت اخلاص نہ جانتا ہو ؟ اس کے ترجمہ پر غور کیجئے ” کہو کہ وہ اللہ ایک ہے ‏۔ معبود برحق جو بےنیاز ہے ۔ نہ کسی کا باپ ہے۔ اور نہ کسی کا بیٹا اور کوئی اس کا ہمسر نہیں“۔

‏اللہ نے انسان کیلئے چند اصول وضع کر رکھے ہیں جن میں سے ایک یہ ہے ۔ سورت 53 النّجم آیت 39 ۔ اور یہ کہ ہر انسان کیلئے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی

اللہ اپنے بندوں کو آزماتا بھی ہے ۔ سورت 29 العنکبوت آیت 2 ۔ کیا لوگ یہ خیال کئے ہوئے ہیں کہ (صرف) یہ کہنے سے کہ ہم ایمان لے آئے چھوڑ دیئے جائیں گے اور انکی آزمائش نہیں کی جائے گی ؟

جب آدمی کسی مُشکل میں گرفتار ہوتا یا اسے جھٹکا لگتا ہے تو یہی وقت ہوتا ہے انسان کے بِدک جانے کا یا درُست راہ کو مضبوطی سے پکڑ لینے کا
ہر پریشانی کا سبب ایک طرف مستقبل کیلئے منصوبہ بندی کا فُقدان یا غلط منصوبہ بندی اور دوسری طرف اللہ پر بھروسے میں فقدان یا نامکمل بھروسہ ہوتا ہے

سِولائیزیشن (Civilization)

آجکل بلکہ چند دہائیوں سے اُردو بولتے ہوئے انگریزی کے کئی لفظ استعمال کرنا رواج پا گیا ہے یا اِسے بڑھائی سمجھا جانے لگا ہے ۔ اس پر اعتراض نہ بھی کیا جائے تو بھی ایک پہلو پریشان کُن ہے کہ انگریزی کے جو الفاظ بولے جاتے ہیں بولنے والا اُن کے اصل معانی سے واقف نہیں ہوتا ۔ ایسے زیادہ بولے جانے والے الفاظ میں سے ایک سِولائیزیشن (Civilization) ہے جسے اُردو میں ” تمدُّن“ کہتے ہیں جسے عام طور پر اکائی کی بجائے جوڑا ” تہذِیب و تمدُّن“ بولا جاتا ہے

ثقافت ۔ تہذیب اور تمدُّن“ ایک ہی ماں باپ کے بچے ہیں ۔ میں ” ثقافت “ اور ” تہذیب “ کے بارے میں سوا تین سال قبل لکھ چکا ہوں ۔ آج بات ” تمدُّن (Civilization)“ کی

عصرِ جدید کے پڑھے لکھے لوگوں کا خیال ہے کہ اُردو والے ” تمدُّن“ کا تعلق مذہب سے ہو سکتا ہے لیکن انگریزی والی سِولائیزیشن کا نہیں ۔ ہر چند کہ میرے لئے دین اوّل ہے لیکن دین کو وقتی طور پر ایک طرف رکھ کر زبانِ فرنگی (انگریزی) میں سے ہی حقیقت تلاش کرتے ہیں
دیکھتے ہیں کہ انگریزی کی معروف ڈکشنریاں سِولائیزیشن (Civilization) کے کیا معنی لکھتی ہیں

سب سے بڑی انگریزی سے اُردو آن لائین ڈِکشنری

تمدن ۔ تہذیب ۔ شائستگی

انگریزی اُردو لغت آن لائین

تہذیب ۔ تمدن ۔ تربیت ۔ انسانیت

ایک اور انگریزی اُردو لغت آن لائین

تہذیب و تمدن

مریم ویبسٹر ڈکشنری

مقابلتاً اعلٰی سطحی ثقافت اور فنی ترقی بالخصوص وہ ثقافتی ترقی جس میں تحریر اور تقاریر کو محفوظ رکھنے کا حصول مقصود ہو ۔ خیالات عادات اور ذائقہ کی شُستگی یا آراستگی

کیمبرج ڈکشنری

اچھی طرح ترقی یافتہ ادارے رکھنے والا انسانی گروہ یا کسی گروہ کے رہن سہن کا طریقہ

رھائیمیزون

اعلٰی سماجی ترقی کا حامل گروہ [مثال کے طور پر پیچیدہ باہمی قانونی اور سیاسی اور مذہبی تنظیم

اینکارٹا آن لائین انسائیکلوپیڈیا

تاریخی اور ثقافتی یگانگی رکھنے والا ترقی یافتہ گروہ ۔ قرونِ وسطہ سے اُنیسویں صدی تک اکثر یورپی مؤرخین نے مذہبی پسِ منظر لیا ہے

الٹرا لِنگوا

ایک گروہ مخصوص ترقی کی حالت میں ۔ کوئی گروہ جو قانون کا پابند ہو اور وحشت کا مخالف ۔ ثقافت کا اعلٰی درجہ

اگر غور سے دیکھا جائے تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ کچھ ڈکشنریوں میں مذہب کا لفظ غائب کر دیا گیا ہے لیکن اشارہ مذہب ہی کی طرف ہے ۔ پانج سات دہائیاں پرانی ڈکشنریوں میں سِولائیزیشن (Civilization) کو مذہب کے زیرِ اثر ہی لکھا جاتا رہا ہے کیونکہ یہودیوں اور عیسائیوں کے مطابق بھی ہر بھلائی کا سرچشمہ زبور ۔ تورات اور انجیل تھیں گو کہ ان کُتب میں بہت تحریف کی جا چکی تھی

میری تحریر کی وضاحت

میری تحریر ”خود غرضی یا نِکو کاری“ پر ایک تبصرہ ہوا جس سے کچھ تفصیل بیان کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی ہے

خود اعتمادی بُری چیز نہیں بلکہ اس کا نہ ہونا اچھا نہیں ۔ لیکن خود اعتمادی اور خود پسندی میں بہت فرق ہے بلکہ یہ ایک دوسرے کی ضِد ہیں ۔ کہا جاتا ہے شاخ پر جتنا زیادہ پھل ہو گا ۔ شاخ اتنی زیادہ جھُکی ہو گی ۔ انگریزی کا مقولہ ہے ” Deeds speak louder than words “۔
مندرجہ ذیل شعر میں پنہاں رمز پر بھی غور کییجئے
سچائی چھُپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے
خُوشبُو آ نہیں سکتی کبھی کاغذ کے پھولوں سے

میں نےبڑے بڑے عِلم والے ۔ سائنسدان او ر مُوجد دیکھے ہیں ۔ ان میں سے 2 میرے اُستاذ رہے ہیں ۔ ان سب میں انکساری اور سادگی ہی دیکھی ۔ اُنہوں نے کبھی اپنی اشتہار بازی نہ کی لیکن عِلم کی دنیا میں بسنے والے اُنہیں جانتے ہیں ۔ 1969ء یا 1970ء کا واقعہ ہے جب میں پروڈکشن منیجر تھا دوسرے محکمے کے ایک اسسٹنٹ منیجر جو عمر میں مجھ سے دس بارہ سال بڑے تھے آئے اور بولے ” اجمل صاحب ۔ آجکل لوگ دونوں ہاتھوں سے ڈفلی بجاتے ہیں ۔ آپ دونوں ہاتھوں سے کام کرتے ہیں ۔ میں ایک ہاتھ سے کام کرتا ہوں اور ایک سے ڈفلی بجاتا ہوں ۔ آپ بھی کچھ اس طرف سوچیں“۔ میرے پیارے اللہ نے میرے منہ سے کہلوایا ”حاجی صاحب ۔ اگر میرا کام میرے اللہ کو پسند آ گیا تو ڈفلی کیا ڈھول بجیں گے“۔

میں نے متذکرہ تحریر میں صرف دین کے حوالے سے بات کی تھی ۔ اب اسے دنیا کے حوالے سے پرکھنے کی کوشش کرتا ہوں ۔ میں ہر عمل کو سائنس کے مسلّمہ اصولوں پر پرکھنے کا عادی ہوں ۔ سائنس دین سے باہر نہیں ہے اور میرا یقین ہے کہ ” اللہ ہر قسم کے عِلم سمیت ہر چیز میں ارفع اور یکتاء ہے“۔

عصرِ حاضر میں ہم سائنس کی ترقی پر بغلیں بجاتے ہیں لیکن باوجود سائنس کی بے تحاشہ ترقی کے انسان کا عِلم محدود ہے ۔ سائنس نے گھر بیٹھے ہزاروں انسانوں کی ہلاکت تو آسان بنا دی ہے لیکن انسان کی بہتری کیلئے سائنس نے آج تک کوئی منصوبہ متعارف نہیں کرایا اور نہ مُستقبل میں کوئی ایسی تجویز ہے ۔ سائنس ایک متحرک عِلم ہے ۔ اس کے کُلیئے اور نظریات بدلتے رہتے ہیں ۔ لیکن دین میں اس کی گنجائش نہیں کیونکہ اس کا ترتیب دینے والا یکتا اور تمام خامیوں سے پاک ہے ۔ چنانچہ صرف اللہ کا بھیجا ہوا عِلم ہی مُستنَد ہے

آجکل اشتہار بازی یعنی میڈیا کا دور دورا ہے ۔ میڈیا سرمایہ دار کا خادم ہے کیونکہ میڈیا کو چلانے کیلئے دولت کی ضرورت ہوتی ہے جو سرمایہ دار مہیاء کرتا ہے ۔ زیادہ سے زیادہ دولت کمانے کیلئے سچائی پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ میڈیا نے انسانی دماغوں کو اتنا محسور کر لیا ہے کہ وہ اپنی ذات کی نسبت میڈیا پر زیادہ یقین رکھتے ہیں ۔ اپنی حقیقت (جو اللہ نے بنائی ہے) کا سوچنے کیلئے کسی کے پاس وقت نہٰیں ۔ دیکھا دیکھی افراد نے بھی اپنی اشتیار بازی شروع کر دی ہے اور ہمہ وقت مقابلے کی دوڑ میں شامل ہیں

ڈاکٹر ہو ۔ استاذ (ٹیچر) ہو یا مُفتی ۔ کم ہی کوئی اس یلغار سے محفوظ رہا ہے ۔ تبصرے میں زیادہ زور ڈاکٹر (میڈیکل پریکٹیشنر) کے کام اور رویّے پر دیا گیا ہے ۔ معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ یہ خام خیالی ہے ۔ میں اور میری بیگم عمر کے جس حصے میں ہیں ہمیں ان معالجوں کی آئے دن ضرورت رہتی ہے ۔ میرا تجربہ یہ ہے کہ اشتہاری بڑے نام والے ہسپتال اور ڈاکٹر کی توجہ مریض کی نسبت اُس کی جیب پر زیادہ ہوتی ہے جبکہ ایسے ڈاکٹر بھی ہیں کہ وہ مریض پر اپنی فیس سے زیادہ توجہ دیتے ہیں اور اللہ کے فضل سے اشتہاریوں کی نسبت زیادہ خوشحال ہیں

مکمل مطالعے کے بغیر سُنی سُنائی یا رسالوں کی باتوں پر یقین کیا جائے تو ابو بکر صدیق اور عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہم میں بہت فرق نظر آتا ہے ۔ یہ بھی نہیں سوچا جاتا کہ اگر ان دونوں کا مزاج اتنا مُختلف تھا تو ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ کو خلافت کیلئے کیوں موزوں ترین سمجھا ؟ کیا وہ مؤمنین کو (نعوذ باللہ من ذالک) سیدھا کرنا چاہتے تھے ؟ جب عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ امیر المؤمنین تھے گشت کے دوران بچوں کے رونے کی آواز سُن کر پہنچے اور وجہ پوچھی ۔ جواب ملا ”عمر کی جان کو رو رہے ہیں“۔ بیت المال پہنچے اناج کا تھیلا کندھے پر اُٹھایا اور چل پڑے ۔ بیت المال کے خادم نے اُٹھانے کی درخواست کی تو عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ نے کہا ”کیا قیامت کے روز تو میرا بوجھ اُٹھائے گا“۔ اگر یہ سخت مزاجی ہے تو سُبحان اللہ

انسان کو چاہیئے کہ دین یا اسلاف کے بارے میں زبان کھولنے سے قبل مُستند کُتب کا مطالعہ کر کے ذہن صاف کر لے
لبادہ اوڑھنے کا مطلب بھی شاید آجکل کے جوانوں کے عِلم سے دُور ہے

میں نے صرف اپنے لکھے کی وضاحت کی کوشش کی ہے ۔ جس دن اپنے آپ کو مکمل درست کرلوں گا پھر دوسروں کی سوچ درست کرنے کے متعلق سوچوں گا ۔ فی حال تو میں 7 دہائیوں سے خود ہی سیکھ رہا ہوں اور سامنے عِلم کے پہاڑ نظر آ رہے ہیں میں جن کے قریب بھی نہیں پہنچ پایا ۔ اللہ کریم میری مدد فرمائے

خود غرضی یا نیکو کاری

بعض اوقات انسان جتنا مذہب میں آگے بڑھتا جاتا ہے اپنے تئیں اتنا ہی صحیح اور مُنصف سمجھنے لگتا ہے
ایسا انسان کے اندرونی مسئلے کے سبب ہوتا ہے
مذہبی پیش قدمی رحم و دردمندی پیدا کرتی ہے ۔ عدالت نہیں
اللہ کی یاد میں دل نرم ہوتے ہیں ۔ سخت نہیں
اگر دل سخت ہو رہا ہو تو اس کا مطلب ہے دل میں اللہ نہیں بلکہ خود نمائی گھر کر رہی ہے
البتہ لبادہ مذہب کا اوڑھ رکھا ہے

یومِ آزادی اور ہمارا کردار

Flag-1 عصرِ حاضر میں یہ روائت بن گئی ہے کہ شاید اپنے آپ کو اُونچا دکھانے کیلئے اپنے وطن پاکستان کو نِیچا دکھایا جائے
یہ فقرے عام سُننے میں آتے ہیں

” اس مُلک نے ہمیں کیا دیا ہے “۔
”کیا رکھا ہے اس مُلک میں“۔

بہت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ مُلک کے اندر ہی نہیں مُلک کے باہر بھی میرے کچھ ہموطن اپنے مُلک اور اپنے ہموطنوں کو بُرا کہتے ہیں ۔ وہ بھی صرف آپس میں نہیں بلکہ غیر مُلکیوں کے سامنے بھی ۔ حقیقت میں ایسے لوگ عقلمند نہیں بلکہ بیوقوف ہیں کیونکہ وہ نہیں جانتے کہ وہ خود اپنے آپ کو بدنام کر رہے ہیں

اس مُلک پاکستان نے ہمیں ایک شناخت بخشی ہے
اس سے مطالبات کرنے کی بجائے ہمیں یہ سوچنا چاہیئے
کہ
ہم نے اس مُلک کو کیا دیا ہے اور کیا دینا ہے
ہم نے ہی اس مُلک کو بنانا ہے اور ترقی دینا ہے جس کیلئے بہت محنت کی ضرورت ہے ۔ اسی میں ہماری بقاء ہے

یہ وطن پاکستان اللہ سُبحانُہُ و تعالیٰ کا عطا کردہ ایک بے مثال تحفہ بلکہ نعمت ہے
میرے وطن پاکستان کی سرزمین پر موجود ہیں
دنیا کی بلند ترین چوٹیاں ۔ ہر وقت برف پوش رہنے والے پہاڑ ۔ سرسبز پہاڑ اور چٹیّل پہاڑ ۔ سطح مرتفع ۔ سرسبز میدان اور صحرا
چشموں سے نکلنے والی چھوٹی ندیوں سے لے کر بڑے دریا اور سمندر بھی
ہر قسم کے لذیز پھل جن میں آم عمدگی اور لذت میں لاثانی ہے
بہترین سبزیاں اور اناج جس میں باسمتی چاول عمدگی اور معیار میں لاثانی ہے
میرے وطن پاکستان کی کپاس مصر کے بعد دنیا کی بہترین کپاس ہے
میرے وطن پاکستان میں بننے والا کپڑا دنیا کے بہترین معیار کا مقابلہ کرتا ہے
میرے وطن پاکستان کے بچے اور نوجوان دنیا میں اپنی تعلیمی قابلیت اور ذہانت کا سکّہ جما چکے ہیں
پاکستان کے انجنیئر اور ڈاکٹر اپنی قابلیت کا سکہ منوا چکے ہیں
سِوِل انجنیئرنگ میں جرمنی اور کینیڈا سب سے آگے تھے ۔ 1961ء میں پاکستان کے انجنیئروں نے پری سٹرَیسڈ پوسٹ ٹَینشنِنگ ری اِنفَورسڈ کنکرِیٹ بِیمز (Pre-stressed Post-tensioning Re-inforced Concrete Beams) کے استعمال سے مری روڈ کا نالہ لئی پر پُل بنا کر دنیا میں اپنی قابلیت ۔ ذہانت اور محنت کا سکہ منوا لیا تھا ۔ اس پُل کو بنتا دیکھنے کیلئے جرمنی ۔ کینیڈا اور کچھ دوسرے ممالک کے ماہرین آئے اور تعریف کئے بغیر نہ رہ سکے ۔ یہ دنیا میں اس قسم کا پہلا تجربہ تھا ۔ یہ پُل خود اپنے معیار کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ پچھلے 54 سال میں اس پر ٹریفک زیادہ وزنی اور بہت زیادہ ہو چکی ہے لیکن اس پُل پر بنی سڑک میں بھی کبھی ہلکی سی دراڑ نہیں آئی

آیئے آج یہ عہد کریں کہ
ہم اپنے اس وطن کو اپنی محنت سے ترقی دیں گے اور اس کی حفاظت کیلئے تن من دھن کی بازی لگا دیں گے
اللہ کا فرمان اٹل ہے ۔ سورت ۔ 53 ۔ النّجم ۔ آیت ۔ 39

وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَی

(اور یہ کہ ہر انسان کیلئے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی)

سورت ۔ 13 ۔ الرعد ۔ آیت ۔ 11

إِنَّ اللّہَ لاَ يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّی يُغَيِّرُواْ مَا بِأَنْفُسِہِمْ

( اللہ تعالٰی کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اسے نہ بدلیں جو ان کے دلوں میں ہے