Category Archives: تجزیہ

قوم کیلئے لمحہ فکریہ

تحریر ۔ مشتاق احمد قریشی ۔ بشکریہ جنگ
سوچنے سمجھنے کی بات ہے کہ جب کبھی قوم کو کوئی اہم مسئلہ درپیش ہوتا ہے اور قوم اپنی یکجہتی کا اظہار کرنے لگتی ہے تو قوم کسی نئے حادثے کسی نئی دہشت گردی سے دوچار کردی جاتی ہے۔ کیا صرف اس لئے یہ دہشت گردی ہورہی ہے کہ قوم یکجہت نہ ہوسکے‘ کسی بھی مسئلے پر زبان نہ کھول سکے‘ حکومت اور حکمرانوں کے خلاف اپنے سچے جذبات کا اظہار نہ کرسکے۔ جب جب ملک کسی قسم کے بحران سے دوچار ہوا یا کیا گیا‘ عوام کو دہشت گردی کے ذریعے خوف میں مبتلا کرکے جہاں ان کی توجہ کا مرکز تبدیل کردیا گیا وہیں انہیں ایک ان دیکھے‘ ان چاہے خوف کا بھی شکار کیا جاتا ہے۔ یہ کون لوگ ہیں اور ایسا کیوں کررہے ہیں؟

ذرا سوچئے! جب آٹے اور چینی کا بحران پیدا کیا گیا جس کا مقصد صرف اور صرف ان کی من چاہی قیمتوں کا نفاذ تھا جس میں مل مالکان اور حکمران دونوں کی ملی بھگت تھی اس وقت جب عوام سڑکوں پر نکلنا شروع ہی ہوئے تھے کہ پنجاب میں جہاں حزب اختلاف حکومت کررہی ہے کو بے چین کرنے کے لئے پے درپے دہشت گردی کے واقعات رونما کئے گئے۔ جواب میں عوام خوفزدہ ہوکر خاموش ہوگئے۔

بجلی کا بحران جس پر عوامی ردعمل جگہ جگہ سر ابھار رہا تھا وہ بھی اسی طرح نمٹایا گیا۔ اس کے پس پشت بھی بجلی مہنگی کرنا اور من چاہے دام وصول کرنا ہی ہے ۔ عوام بے چارے مجبور و بے بس جو ہوئے۔ اب جب کہ قوم کو ایک نیا مسئلہ کیری لوگر بِل (Bill) نہیں بلکہ بُل (Bull) سے واسطہ پڑا ہے اور قوم یک زبان ہوکر واویلا کرنے لگی تو اس بُل کی طرف سے توجہ ہٹانے کے لئے ایک بار پھر دہشت گردی کا بازار گرم کردیا گیا۔ اس بار افواج پاکستان کے ہیڈ کوارٹر GHQ کو نشانہ بنا کر انہیں بھی زبان بندی کا پیغام دے دیا گیا ہے کیونکہ وطن عزیز کی تاریخ میں شاید پہلی بار افواج پاکستان کی جانب سے کسی امداد کی کڑی شرائط کے بارے میں کھل کر اظہار خیال کیا گیا تھا جو نہ تو حکومت کو اور نہ ہی حکومتی افراد کے سرپرستوں کو پسند آیا۔ عوام بے چارے تو ویسے ہی خوف کے مارے ہوئے ہیں لیکن افواج پاکستان کی جانب سے ردعمل کے اظہار نے انہیں تقویت دی ہی تھی کہ ایک بار پھر دہشت گردی کا بازار گرم کردیا گیا۔

دوسرا مرحلہ جو قوم کو درپیش تھا جس کے لئے سپریم کورٹ آف پاکستان نے حکم بھی جاری کردیا تھا ‘ این آر او کو قومی اسمبلی سے پاس کرانے کا‘ وہ بھی حکومت نے بصد مجبوری قومی اسمبلی میں پیش تو کردیا لیکن ساتھ ہی کیری لوگر بُل اور این آر او پر کوئی فیصلہ ہونے سے قبل ہی اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کردیا گیا تاکہ کورٹ کے حکم پر عملدرآمد بھی ہوجائے اور معاملہ وہیں کا وہیں پڑا رہے۔ کسی قسم کی کوئی پیشرفت نہ ہو۔ رات گئی بات گئی۔ اس سے پہلے کہ اسمبلی کا اجلاس دوبارہ طلب کیا جائے ملک میں کوئی نیا بحران آسکتا ہے‘ کوئی نیا مسئلہ جنم لے سکتا ہے‘ کوئی دہشت گردی کا بڑاواقعہ رونما ہوسکتا ہے۔ جب ملک کے طول و عرض میں کوئی نئی بے چینی پیدا ہوسکتی ہے اور یوں این آر او ہو یا کیری لوگر بُل ازخود سرد خانے میں پڑے رہیں گے۔

آخر ایسا کب تک ہوتا رہے گا۔ اس ساری کارروائیوں کے پیچھے امریکہ کی مضبوط منصوبہ بندی موجود ہے۔ ملک کے طول و عرض سے لے کر خود دارالحکومت اسلام آباد میں امریکی سی آئی اے کے لوگ حکومت پاکستان کی بجائے اپنی رٹ قائم کرنے میں سرگرم عمل ہیں۔ بلاروک ٹوک جب چاہتے ہیں‘ جسے چاہتے ہیں اٹھا کر لے جاتے ہیں‘ کوئی پرسان حال نہیں۔ جب سے کیری لوگر بل کا چرچا ہوا ہے اس وقت سے امریکی سی آئی اے بذات خود ناصرف اپنی کارروائیوں میں مصروف ہے بلکہ اپنے بھارتی اور اسرائیلی حلیفوں، مددگاروں کے ساتھ مل کر پاکستان میں دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر پوری طرح دہشت گردی میں ملوث ہے۔ ان کا بس نہیں چل رہا کہ کسی طرح وہ پاکستان کی ایٹمی توانائی کو تہس نہس کردیں۔

پاکستانی افواج کو خارجی جنگ کی جگہ داخلی جنگ میں الجھادیا گیا ہے کیونکہ اس میں بھی امریکہ کا ہی مفاد ہے کہ افواج پاکستان جو اسلحہ استعمال کرے گی اس کا بڑا حصہ امریکی اسلحہ سازوں سے ہی خریدا جاتا ہے کیونکہ پاکستان جو قرضے بھاری سود کے بدلے ان سے لیتا ہے وہ پاکستان کو لوز ڈالروں میں نہیں ملتے بلکہ اس قیمت کا سازوسامان مہیا کیا جاتا ہے یعنی اصل کے ساتھ دہرا منافع بھی ان کو ہی جاتا ہے اور وہ سامان بھی پاکستان کی مرضی و منشا کا نہیں، اپنی پسند کے مطابق سپلائی کرتے ہیں۔ پہلی بار ہے کہ کیری لوگر بل کے ذریعے پاکستان کو غیر فوجی امداد سے نوازا جارہا ہے لیکن اس میں بھی ایسی شرائط عائد کی گئیں کہ فوجی قیادت جس پر صحیح بول پڑی اور اپنے تحفظات کا اظہار کرنے پر مجبور ہوگئی۔

امریکی منصوبہ سازوں اور ان کے پاکستان دشمن حلیفوں کے پاکستان پر دو اعتراض ہیں۔ ایک تو پاکستان اسلامی مملکت ہے دوسرا اسلامی ملک ہونے کے باوجود ایٹمی قوت والا ملک بن گیا ہے جو نہ تو بھارت سے برداشت ہورہا ہے اور نہ اسرائیل سے برداشت ہورہا ہے۔ ان کا بس نہیں چل رہا کہ کس طرح جلد از جلد پاکستان، جسے وہ اپنی سازشوں سے پہلے ہی دولخت کرچکے ہیں‘ اب تک کیسے اپنے قدموں پر قائم ہے۔ امریکہ نے پاکستان کو دہشت گردی کے خاتمے کے چکر میں جو اپنے لوگوں پر فوج کشی پر ناصرف مجبور کردیا ہے بلکہ اس کی خواہش ہے ملک میں خانہ جنگی اس قدر بڑھ جائے کہ پاکستان کو توڑنے مروڑنے کی کسی بیرونی قوت کو ضرورت ہی نہ پڑے اور پاکستان کے دائیں بائیں کے پڑوسی بھارت اور افغانستان اطمینان سے محفوظ و مامون رہ سکیں اور وہ جو چاہے اپنی من مانی کارروائیوں سے پاکستان کی اینٹ سے اینٹ بجاتے رہیں۔

امریکہ سے ہمارے تعلقات نہ تو دوستانہ ہیں نہ برادرانہ بلکہ خالص کاروباری تعلقات ہیں۔ ہم چاہے انہیں کوئی نام کیوں نہ دیتے رہیں۔ پاکستانی عوام اور تمام اہل سیاست کے لئے یہ بڑا ہی نازک لمحہٴ فکر ہے کہ ہمیں بحیثیت قوم انگریز کی غلامی سے نکلنے کی سزا کے طور پر امریکہ کے دام غلامی کا شکار بنایا جارہا ہے۔

اگر اب بھی ہماری آنکھیں نہ کھلیں تو پھر ہمیں کسی شکوے کا بھی موقع نہیں ملے گا کیونکہ امریکی گھیرا جو پہلے بھی تنگ تھا اب مزید تنگ کیا جارہا ہے اور یہ سب کچھ خالص عوامی حکومت کے دورمیں ہورہا ہے۔ عوامی حکمران بہ رضا ورغبت اپنی گردنوں میں امریکی پھندے ڈلوانا اپنے لئے بڑے اعزاز کی بات سمجھ رہے ہیں لیکن جب یہ پھندے سخت ہونا شروع ہوجائیں گے تو پھر کون انہیں بچا سکے گا۔اب بھی وقت ہے گوکہ کمر کمر دلدل میں دھنس چکے ہیں۔ اگر کوشش کریں تو امریکی دلدل سے نکلا جاسکتا ہے لیکن اس کے لئے حب الوطنی‘ اخلاص اور ہمت و حوصلے کی ضرورت ہے جو فی الحال اہل سیاست چاہے وہ حزب اقتدار کے ہوں یا حزب اختلاف کے ناپید نظر آرہا ہے۔ کوئی ایک لیڈر ایسا نہیں نظر آرہا جو قوم کی درست رہنمائی پورے خلوص نیت سے کرسکے۔ سب کے سب اس حمام میں ننگے ہیں۔ سب کے اپنے اپنے مفادات ہیں۔ اللہ تعالیٰ پاکستان کی‘ پاکستانی قوم کی‘ اس کے قیمتی اثاثوں کی حفاظت فرمائے‘ آمین۔

رنگ رنگیلی دُنیا

رنگ رنگیلی دُنیا میں ہیں رنگ رنگ کے دھوکے
سوچ کے قدم اُٹھانا ۔ بعد میں نہ پچھتانا دل والے

پچھلے سال جب پہلی بار مناواں میں قائم پولیس کے تربیتی مرکز پر حملہ ہوا تو میرا ماتھا ٹھنکا تھا کہ طالبان کا پردہ ہماری آنکھوں کے سامنے لٹکا دیا گیا ہے اور اس پر جو فلم چلائی جاتی ہے ہم اُسے دیکھ کر تالیاں بجا رہے ہیں لیکن پردے کے پیچھے کوئی ہولناک ڈرامہ چل رہا ہے ۔ میں نے اپنے ہموطنوں کی توجہ اس خطرے کی طرف مبذول کرنے کی کوشش کی ۔ بہت کم کو میری بات سمجھ آئی ۔ وجہ واضح تھی کہ جس نے ہاتھی نہ دیکھا ہو وہ سمجھ نہیں سکتا کہ ہاتھی کس بلا کا نام ہے ۔ حیرت یہ ہے کچھ لوگ جو بظاہر پڑھے لکھے اور بڑے ہوشیار تھے نامعلوم کیوں اس طرف نہ صرف طائرانہ نظر ڈالنے سے گریز کرتے رہے بلکہ شدت سے اس خیال کی مخالفت پر اُتر آئے ۔ مدعا بیان کرنے سے قبل میں ماضی کے کچھ واقعات کا مختصر حوالہ دینا چاہتا ہوں

لاہور کے قریب جو بی آر بی نہر ہے اس کی منصوبہ بندی پاکستان بننے سے قبل ہوئی تھی اور اس کی تمام تفصیل بھارت کے پاس موجود تھی ۔ ستمبر 1965ء کی جنگ میں پہلے ہی ہلّے میں بھارت کی فوج اور ٹینک بی آر بی نہر کے کنارے پہنچ گئے تھے وہ ٹینکوں سمیت بی آر بی نہر پار کر کے لاہور پر قبضہ کر سکتے تھے لیکن بی آر بی نہر کو پار کرنے کی جرآت نہ کی اور پاکستانی فوج کو ان کے مقابلہ کیلئے پہنچنے کا وقت مل گیا ۔ ظاہر ہے کہ نہر کی گہرائی کے متعلق وہ شک میں پڑ گئے تھے اور کوئی ان کا شک دور کرنے والا نہ تھا

ستمبر 1965ء کی جنگ جب بھارت نے شروع کی تو بھارتی فوج واہگہ چوکی پر بارڈر ملیشا کے جوانوں کو شہید کرتے ہوئے جلّو سے آگے نکل کر نہ صرف رُک گئی بلکہ کچھ پسپائی اختیار کی اس خیال سے کہ اُن کا کسی مضبوط فوج سے ٹکراؤ نہیں ہوا کہیں پاکستانی فوج نے اُنہیں گھیرے میں لینے کیلئے چال تو نہیں چلی ۔ اگر انہیں کوئی بتا دیتا کہ پاکستانی فوج تو موجود ہی نہیں تو نتیجہ ظاہر ہے کیا ہوتا

کوئی 40 سال پیچھے کی بات ہے کہ میں نے اپنے ایک اسسٹنٹ منیجر جو مینٹننس کا انچارج تھا کو سیکیورٹی کیموفلاج کورس کیلئے بھیجا ۔ واپس آنے پر اس نے مجھے حیرت کے ساتھ بتایا کہ اسے کہا گیا کہ جب آپ کو اپنی فیکٹری نظر آئے تو آپ نے بتانا ہے پھر ہیلی کاپٹر میں راولپنڈی سے حسن ابدال اور درمیانی علاقہ کے چکر لگوائے گئے ۔ سفر ختم ہو گیا مگر اسے اتنے بڑے رقبہ پر پھیلی ہوئی فیکٹری نظر نہ آئی حالانہ فیکٹری کا “لے آؤٹ” [layout] اس کے دفتر میں دیوار پر لٹکا رہتا تھا ۔ اگر زمین سے کوئی سگنل بھیج دیتا تو وہ فوراً بتا دیتے یہ ہے میری فیکٹری

دسمبر 1971ء کی جنگ کے دوران دن کے وقت بھارتی ہوائی فوج کا ایک سکوارڈن نیچی پرواز کرتا ہوا پاکستان آرڈننس فیکٹری کے کافی بڑے حصے کے اُوپر سے گذرا ۔ اُسی شام بھارتی ٹی وی اور ریڈیو پر اعلان ہوا کہ بھارتی ہوائی فوج نے پاکستان آرڈننس فیکٹری پر بم گرائے ۔ یہ بم پاکستان آرڈننس فیکٹری سے ہی نہیں ٹيکسلا سے بھی راولپنڈی کی طرف مرگلہ کی پہاڑیوں سے کچھ پہلے گرے تھے ۔ اگر زمین سے کوئی سگنل بھیج دیتا تو گئی تھی فیکٹری

دسمبر 1971ء کی جنگ کے دوران رات کے وقت بھارتی ہوائی فوج نے بالائی سندھ میں صادق آباد کے قریب مسافر ٹرین پر حملہ کیا تھا ۔ رات اندھیری تھی اور ٹرین کی بجلیاں بند تھیں ۔ اس میں دو عمل توجہ طلب تھے ۔ ایک ۔ ریلوے حکام کی ہدائت کی خلاف ورزی کرتے ہوئے روہڑی سٹیشن پر ایک ٹرین روکے رکھی گئی اور دوسری ٹرین آنے پر مزید حُکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دونوں ٹرینوں کو جوڑ کر روانہ کیا گیا ۔ اور دوسرا ۔ جس علاقہ میں ٹرین پر حملہ ہوا اُس کے قریب ایک چاردیواری کے اندر سے طاقتور ٹارچ کے ذریعہ اشارے [signal] دیئے گئے جس کے بعد ہوائی جہاز ٹرین کی سیدھ میں آیا اور حملہ کیا ۔ اس چاردیواری میں کچھ سالوں سے ایک شخص رہتا تھا جسے علاقہ کے لوگ سائیں بابا کہتے تھے ۔ گذری شام تک وہ وہیں تھا لیکن اُس رات کے بعد وہ نظر نہیں آیا

ان واقعات کے مختصر بیان سے غرض یہ تھی کہ پچھلے ڈیڑھ سال میں متعدد دوسرے اہم حملوں کے علاوہ مناواں اور لاہور میں ایف آئی اے کے دفتر پر دو دو حملے ۔ بیدیاں روڈ پر ايلیٹ فورس کے تربیتی مرکز پر ایک اور جی ایچ کیو پر ایک حملہ ہو چکا ہے ۔ ان سب حملوں کے طریقہ کار سے ایک تو فوجی کمانڈوز جیسی مہارت کا پتہ چلتا ہے ۔ طالبان کا طریقہ کار بالخصوص شہروں میں ایسا ماہرانہ نہیں ہے ۔ دوسرے ۔ یہ کہ ان علاقوں کے اندر کے حالات طالبان کو کیسے معلوم ہو سکتے ہیں ؟ حملہ آوروں کو ایسے اشخاص کا تعاون حاصل تھا جو متعلقہ اداروں کے اندرونی حالات سے واقف ہیں یا تھے ۔ خدشہ ہے کہ بڑی خطرناک کھچڑی پک رہی ہے اور قوم سوئی ہوئی ہے

ایک اور بات جو دماغ کو کُریدے جا رہی ہے ۔ عقیل عُرف ڈاکٹر عثمان تين سال سے زائد قبل فوج سے بھگوڑا [absconder] ہو گیا تھا ۔ پچھلے سال میریئٹ ہوٹل پر حملے کے سلسلہ میں وہ اتفاق سے اکتوبر 2008ء میں گرفتار ہوا ۔ بعد میں اُسے چھوڑ دیا گیا ۔ اگر اس کا تعلق میریئٹ ہوٹل پر حملہ سے نہیں بھی تھا تو اُسے قید میں رکھنے اور تفتیش کرنے کیلئے اُس کا فوج سے بھگوڑا ہونا ہی کافی تھا ۔ اُسے کیوں اور کس کے کہنے پر چھوڑا گیا ؟؟؟ صاف ظاہر ہے کہ کوئی سرکار کا بارسوخ آدمی ہو گا جس کی ایماء پر چھوڑا گیا

اب وقت بہت کم رہ گیا ہے ۔ ہمیں اپنے دماغ سے غیرملکی چِپ [chip] نکال کر اپنے اصل دماغ سے سوچنا شروع کرنا ہو گا
اگر ہم اپنے آپ کو اور اپنی اگلی نسلوں کو بچانا چاہتے ہیں تو ہمیں ابھی سے خود محنت سے کام کرنا ہو گا ۔ اپنے دماغ سے سوچنا ہو گا اور اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا ہو گا

منافقت کا انجام

وار آن ٹیرر کی بنیادی طور پر دو متحارب قوتیں ہیں
ایک ۔ امریکہ (نیٹو )، پاکستان اورافغان حکومت
دوسرا ۔ القاعدہ ، افغان طالبان، پاکستانی طالبان اور پاکستان کی کالعدم فرقہ پرست تنظیمیں ۔ القاعدہ میں عرب، افریقی، ازبک، چیچن اور پاکستانیوں سمیت کئی دیگر ایشیائی ممالک کے جنگجو شامل ہیں ۔ ایک زمانہ تھا جب یہ لوگ گلبدین حکمتیار اور دیگر جہادی کمانڈروں کے ساتھی تھے اور ان کی صفوں میں شامل رہ کرطالبان کے خلاف لڑ رہے تھے
طالبان کٹر حنفی اور القاعدہ کے بیشتر رہنما وہابی تھے لیکن امریکہ دشمنی بنیاد بنی اور کچھ قوتوں نے ان کو ملا کر ایسا شیروشکر کردیا کہ طالبان نے القاعدہ کی خاطر اپنی حکومت تک قربان کردی
پاکستانی طالبان کسی ایک مسلک یا ایک پس منظر کے لوگ نہیں۔ سوات کے طالبان پر ایک رنگ، باجوڑ کے طالبان پر دوسرارنگ، مہند ایجنسی کے طالبان پر کوئی اور رنگ اور وزیرستان کے طالبان پر کوئی اور رنگ غالب رہا۔ مسلکی حوالو ں سے بھی فرق موجود تھا۔ لیکن القاعدہ اورافغان طالبان نے ان کو امریکہ اوراس کے اتحادیوں کے خلاف جنگ کے ایک نکاتی ایجنڈے پر جمع کیا۔ پاکستان کی کالعدم جہادی اور فرقہ پرست تنظیموں کی امریکہ دشمنی کے جذبے کو ایکسپلائٹ کراکر انہیں بھی پاکستانی طالبان سے منسلک کردیا گیا۔
ان چار عناصر کا آپس میں بھرپور کوآرڈینیشن ہے ۔ نعرہ ایک ،جذبہ ایک اور طریق کار ایک ۔ یہ باقاعدہ اور منظم فوج ہر گز نہیں۔ ہر جگہ سرگرمیوں میں مقامی رنگ بھی غالب نظر آتا ہے ۔ گاہے بگاہے سٹریٹجی بھی مختلف ہوتی ہے لیکن بنیادی طور پر سوچ اور فکر ایک ہی ہے ۔
افغان طالبان ، پاکستانی فورسز کے ساتھ لڑنے کے مخالف ہیں لیکن ایسے بھی نہیں کہ اس وجہ سے پاکستانی طالبان سے دشمنی مول لیں۔ جنوبی وزیرستان کے مولوی نذیر اور شمالی وزیرستان کے حافظ گل بہادر بھی پاکستان میں کاروائیوں کے مخالف ہیں لیکن اسامہ بن لادن کو ہیرو اور ملا محمد عمر کو امیرالمومنین سب ایک جیسا مانتے ہیں ۔ نسلی اور قبائلی اختلاف بھی گاہے گاہے نظر آتاہے ۔ احمد زئی وزیروں اورمحسود وں کا تناؤ صدیوں سے چلا آرہا ہے ۔ ہر قوم اور ہر قبیلے کا عسکریت پسند اپنی ہی قوم یا اپنے ہی قبیلے سے تعلق رکھنے والے کمانڈر کے زیرکمانڈ لڑتا ہے ۔ وسائل اور اختیارات بھی بسااوقات اختلاف اورجھگڑے کا موجب بن جاتے ہیں ، لیکن مشترکہ مقاصد، القاعدہ کی سرپرستی اور حکومتی اداروں کی پلاننگ نہ ہونے کی وجہ سے غیرمعمولی صورت اختیار نہیں کرتے ۔

اب دوسرے فریق کا جائزہ لے لیجئے ۔پرویز مشرف نے امریکہ کا ساتھ دیا تو اس التجا کے ساتھ دیا کہ ماڈریٹ طالبان کو ٹھکانے نہیں لگایا جائے گا لیکن امریکہ نے سب کو ایک لاٹھی سے ہانکنا شروع کیا۔
پھر مطالبہ کیا کہ پاکستان مخالف شمالی اتحاد کو کابل میں نہ آنے دیاجائے، لیکن اسے آنے دیا گیا۔
پھرانہوں نے امریکیوں سے درخواست کی گئی کہ ہندوستان کو افغانستان میں نہ گھسنے دو لیکن اسے گھسنے دیا گیا۔
پاکستان سمجھتا ہے کہ ہندوستان کو افغانستان میں پاکستان مخالف سرگرمیوں کی کھلی چوٹ دی گئی ہے ۔ بلوچستان کی آگ کو وہاں سے بھڑکایا جارہا ہے ۔
خوف کے مارے پاکستان امریکہ کا نام نہیں لے سکتا اور شکایت کرتے ہوئے حامد کرزئی کی حکومت کا نام لیتا ہے لیکن اسے بخوبی علم ہے کہ ہندوستان کی سازشیں امریکی شہہ پر ہی گرم ہیں۔ ریٹائرمنٹ یا حکومت سے فراغت کے بعد تو ہر کوئی بول دیتا ہے لیکن حکومت میں بیٹھے ہوئے پاکستانی ذمہ داروں کو بھی یقین ہے کہ امریکہ پاکستان کے ساتھ کھیل رہا ہے ۔
دوسری طرف امریکہ پاکستان کو شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے ۔ وہ سمجھتا ہے کہ پاکستان ہنوز افغان طالبان کو سپورٹ کررہا ہے ۔ امریکہ کی نظروں میں پاکستان کا کردار کس قدر مشکوک ہے ، اس کا اندازہ کیری لوگر بل کی شرائط سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے ۔
جہاں تک پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کا تعلق ہے تو اتحادی ہو کر بھی دشمنوں جیسے تعلقات کا یہ ایک منفرد نمونہ ہے ۔ طورخم کے اس پارچلے جائیں تو عام افغانی سے لے کر دانشوروں ، سیاستدانوں اور حکمرانوں تک ہر افغانی کے ذہن میں یہ بات بیٹھی ہوئی ہے کہ ان کے ملک میں جو بدامنی ہے ، اس کا ذمہ دار پاکستان ہے ۔ اسی طرح پاکستانیوں کو یقین ہے کہ افغان حکومت کا اس کے ساتھ رویہ دوستوں کا نہیں بلکہ دشمنوں والا ہے ۔ سرحدی علاقوں میں پاکستانی حکام جس قدر ہندوستانی اینٹیلی جنس سے شاکی رہتے ہیں ، اسی طرح وہ افغان اینٹیلی جنس کی سرگرمیوں کے بارے میں بھی پریشان رہتے ہیں ۔کابل میں پاکستانی سفارت خانے کی وہ حیثیت ہے جو دہلی میں اس کی ہے اور پاکستان میں افغانستان کے سفارتخانے کی وہی حیثیت ہے جو یہاں ہندوستان کے سفارتخانے کی ہے ۔ اسلام آباد میں میں کبھی کسی ضرورت کے تحت افغان سفارتخانے جاتا ہوں تو پاکستانی اینٹیلی جنس کے لوگ اس طرح پیچھا کرتے ہیں جیسا کہ میں کسی دشمن ملک کے سفارت خانے میں گیا ہوں اور اسی طرح کابل میں جب میں پاکستانی سفارتخانے کی طرف چل پڑتا ہوں تو میرے افغانی دوست مجھ سے اجازت لے کر دور بھاگنے لگتے ہیں ، کیوں کہ انہیں یقین ہوتا ہے کہ پاکستانی سفارتخانے میں جانے سے ان کی حب الوطنی مشکوک ہوگی ۔
اب تو حامد کرزئی اورامریکی بھی ایک دوسرے سے کھیلنے لگے ہیں۔ امریکیوں نے کرزئی کو ہروانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا اور اب بھی بھرپور کوشش کررہاہے کہ یا تو انتخابات کالعدم قرار دلوادے یا پھر کم ازکم نئے سیٹ اپ میں عبداللہ عبداللہ کوجگہ دلوا دے۔ گویا اس اتحاد میں شامل عناصر کے مقاصد مشترک ہیں اور نہ کوئی کوآرڈینیشن نظر آتی ہے۔وہ بیک وقت دوست بھی ہیں اور دشمن بھی ہیں۔

پاکستانی طالبان ، اپنی حکومت کے ساتھ ، دشمنی کی بنیاد، ہمارا ثانی الذکر اتحاد میں شمولیت بتاتے ہیں ۔ میری گذارش فقط یہ ہے کہ معاہدوں اور آپریشنوں کی بجائے ، ثانی الذکر اتحاد کو حقیقی معنوں میں اتحاد بنادیجئے ۔ امریکہ اور افغانستان کو مجبور کر دیجئے کہ وہ دشمنوں والا رویہ چھوڑ دے اور اگر ایسا نہیں کرسکتے ہو تو پھر اس اتحاد کو اللہ حافظ کہہ دیجئے ۔امریکہ سے دشمنی شاید زیادہ خسارے کا سودہ ہے تو دشمنی نہ کیجئے لیکن کم از کم اس کے اتحاد سے تو نکل جائیے۔ یہ کیا ہم نے اپنے آپ کو ، اپنے بھی خفا ہم سے ہیں ، بیگانے بھی ناخوش ، والی صورت حال سے دوچار کردیا ہے ۔
سچی بات یہ ہے کہ امریکی ہمارے ساتھ منافقت کررہے تھے ، جو ان کے گلے پڑگئی ہے اور ہم نے جواب میں گذشتہ سالوں کے دوران منافقت سے کام لیا ،جو ہمارے لئے مصیبت بن گئی۔
اللہ کا قانون تو اٹل ہے اور اللہ نے منافقین کی سزا کافروں سے بھی بڑھ کر بیان کی ہے۔ منافقت کا وقتی نتیجہ تو فائدے والا نظر آتا ہے لیکن منطقی نتیجے کے طور پر اس کا انجام بہت برا ہوتا ہے ۔شاید اس وقت امریکی اپنی منافقت کی سزا بھگت رہے ہیں اور ہم اپنی منافقت کی۔

تحریر ۔ سلیم صافی ۔ بشکریہ جنگ

انگریزی نہیں آتی

ایک جنگل میں یہ قانون منظور ہوگیا کہ آئندہ کوئی جانور کسی دوسرے جانور کو نہیں کھائے گا۔ دوسرے دن جانوروں نے دیکھا کہ ایک خرگوش بھاگا چلا جارہا ہے ایک گیدڑ نے اس کو آواز دی اور پوچھا ” کیوں بھاگے چلے جارہے ہو ؟”
خرگوش نے کہا ” ایک بھیڑیا میری طرف آرہا ہے “

اس نے کہا۔”تم کو معلوم نہیں کہ قانون جاری ہوگیا ہے؟ اب کوئی جانور دوسرے جانور کو نہیں کھائے گا۔“
خرگوش بولا”ہاں قانون تو جاری ہوگیا ہے۔ لیکن بھیڑیئے کو پڑھنا نہیں آتا۔!!
اب خرگوش پریشان ہیں کہ قانون بن گیا ہے اور جو طاقتور ہیں اور با اثر ہیں ان کو پڑھنا نہیں آتا ایسے میں ہمارا کیا بنے گا……؟

کہتے ہیں کیری لوگر بل کے تخلیق کاروں کو کوئی سمجھا رہا تھا کہ ” لکھ دو ۔ جو مرضی لکھ دو ۔ پاکستانیوں کو انگلش نہیں آتی ۔“ واقعی پاکستانی لوگ انگلش تحریروں کو پڑھ بھی نہیں سکتے۔ اگر پڑھ سکتے تو 2005ء میں شائع ہونے والی کتاب کے مصنف کو اپنا سفیر مقرر کیوں کرتے ؟ اور پاکستان کے حکمرانوں کو بھی انگلش پڑھنی نہیں آتی۔ اگر آتی تو وہ امریکی شہریت کا وہ حلف نامہ تو پڑھ لیتے جس کے تحت حلف اٹھاکر جناب حسین حقانی امریکی شہری بنے تھے ۔ اس میں لکھا ہے

”میں حلف اٹھا کر کہتا ہوں کہ میں ہر حال میں امریکہ کا وفادار رہوں گا اور ہمیشہ ہر کام امریکہ کے مفاد میں کروں گا “

پورا مضمون پڑھنے کیلئے یہاں کلِک کیجئے

طالبان طالبان کی رَٹ ۔ حقائق سے چشم پوشی

میرے ہموطنوں کی اکثریت کو ٹی وی نشریات اور اخبارات نے اتنا محصور [hypnotise] کیا ہے کہ وہ بھی افسانوی راگ الاپنے لگ گئے ہیں ۔ میں نے پہلے 25 جولائی 2008ء کو طالبان کی پوری تاریخ لکھی پھر سوات کے حوالے سے 24 اور 25 فروری 2009ء کو لکھا ۔ 7 مئی 2009ء کو اسی سلسلہ میں قارئین کے سوالات کے جوابات لکھے ۔ میرے ہموطنوں کے عمومی رویہ سے متعلق میں اپنی 25 فروری 2009ء کی تحریر میں سے ایک اقتباس نقل کر رہا ہوں

یہ واقعہ پینتیس چھتیس سال پیچھے کا ہے جب میں پاکستان آرڈننس فیکٹریز کی پانچ بڑی فیکٹریوں میں سے ایک ویپنز فیکٹری میں دس گیارہ سال نہ صرف گذار چکا تھا بلکہ اللہ کے فضل سے اُسے سمال آرمز گروپ سے ویپنز فیکٹری بنانے میں میرا بہت بڑا حصہ تھا اور اُن دنوں ویپنز فیکٹری کا قائم مقام سربراہ [Acting General Manager] تھا ۔ ایک دن میں ایک عوامی جگہ [public place] پر بیٹھا تھا ۔ میرے قریب ایک شخص بڑی سنجیدگی سے ویپنز فیکٹری کے متعلق اپنی معلومات کے خزانے اپنے دو ساتھیوں پر لُٹا رہا تھا اور وہ بڑے انہماک کے ساتھ سُن رہے تھے ۔ اُس شخص کی یاوہ گوئی جب ناممکنات کی حد پار کر گئی تو مجھ سے نہ رہا گیا ۔ میں نے معذرت طلب کرتے ہوئے مداخلت کی اور کہا “بھائی صاحب ۔ ایسا ممکن نہیں ہے”۔ وہ شخص بڑے وثوق سے بولا “جناب ۔ آپ کو نہیں معلوم میں سب جانتا ہوں ۔ بالکل ایسا ہی ہے”۔ میں نے اُسے پوچھا “آپ فیکٹری میں ملازم ہیں ؟” جواب ملا “نہیں”۔ میں نے پوچھا “آپ کا کوئی قریبی عزیز فیکٹری میں ملازم ہے ؟” جواب ملا “نہیں”

دورِ حاضر کی جواں نسل [عمر 20 تا 40 سال] کی اکثریت کی پہچان ہے کہ ان کا پہلا فقرہ یا ردِ عمل ہوتا ہے “آپ نہیں جانتے” بلکہ درست فقرہ یہ ہے “آپ کو کچھ پتہ نہیں”۔ کوئی اور مزید آگے بڑھے گا اور کہہ دے گا “آپ اب اپنے مصنوعی خول سے نکلیں اور حقائق کو تسلیم کر لیں”۔ پچھلے ماہ میں اپنے ایک ساتھی کے سامنے يہی بات کہہ رہا تھا تو ایک چونتیس پینتیس سالہ اعلٰی تعلیم يافتہ جوان بولا ” آجکل چھوٹے چھوٹے بچے ہمیں کہتے ہیں ۔ آپ کو کیا پتہ”

حقیقت یہ ہے دورِ حاضر کے اکثر لوگوں کو سطحی معلومات تو بہت ہوتی ہیں ۔کسی معاملہ کی گہرائی میں جانے کی یا تو وہ کوشش نہیں کرتے یا زیادہ سے زیادہ معلومات اکٹھا کرنے کی وجہ سے گہرائی میں جانے کا وقت نہیں ملتا ۔ بعض اوقات صورتِ حال یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ سچ سامنے رکھ دیا جائے تو اُسے کسی بہانے ٹالنے پر اصرار ہوتا ہے

مجھے ایک لطیفہ یاد آیا ۔ بے تکلّف احباب کی محفل میں بیٹھے اگر کوئی پوچھے “آجکل کیا ہو رہا ہے ؟” تو میں کہہ دیتا “اپنے تو دو ہی شوق ہیں ۔ کھانا اور سونا”۔ ایک دن جب میں نے ایسا کہا تو وہاں ایک پڑھا لکھا جوان جو مجھے نہیں جانتا تھا موجود تھا ۔ بعد میں اُس جوان کو کچھ عِلمی معلومات کی ضرورت پڑی تو اُس کے ایک بزرگ نے اُسے میرے پاس آنے کو کہا مگر وہ نہ آیا ۔ اتفاق ایسا ہوا کہ وہ معلومات اُسے حاصل نہ ہو سکیں ۔ اس پر اس بزرگ نے اسے کہا “کیا اجمل بھوپال صاحب کو بھی معلوم نہیں ؟” تو جوان بولا “جسے کھانے اور سونے سے فرصت نہیں وہ کیا بتائے گا”۔ اُس کے بزرگ نے اُسے صرف اتنا کہا ” تم لوگ بدقسمت ہو”

میں جب بچپن میں قرآن شریف میں پڑھتا تھا ” اُن کی آنکھوں پر پردہ پڑا ہے”۔ تو سوچتا تھا کہ شاید اُس زمانہ کے لوگ بے علم تھے جب یہ آیت اُتری ۔ 1970ء کی دہائی کے عوامی دور میں معلوم ہوا کے بڑے بڑے تعلیم یافتہ کہلانے والوں کی عقل پر پردہ پڑ جاتا ہے ۔ سو یہ وصف ہماری قوم کی اکثریت کا ہے کہ نجانے کس انجانے خوف کے زیرِ اثر حقائق کا خود سامنا نہیں کرنا چاہتے اور دوسرے کو غیرمصدقہ بات کو حقیقت ماننے پر مجبور کرتے ہیں

اس صورتِ حال کے نتیجہ میں قوم ایک غیر معیّن تیر [misguided missile] بن کے رہ گئی ہے ۔ شور شرابا بہت ہے سُدھار کیلئے عملی طور پر آگے کوئی نہیں بڑھتا ۔ سال سے زائد عرصہ گذرا کہ غریب پختون بچوں کو تعلیم میسر نہ ہونے کا بہت واویلا تھا ۔ ساتھ یہ بھی کہا جاتا تھا کہ اگر وہ مدرسوں کی بجائے انگریزی سکولوں میں نہ گئے تو دہشتگرد بن جائیں گے ۔ میں نے اس سلسلہ میں اپنے بلاگ پر عملی تعاون کی درخواست کی ۔ دو تین جوانوں نے اسلام آباد میں میرے گھر آ کر میری ہمت افزائی کی ۔ میں نے صورتِ حال کی وضاحت کی ۔ بڑا نہیں چھوٹا سا منصوبہ تھا ۔ درجن سے زیادہ بچوں کی ایک اچھے سکول میں تعلیم کی کفالت کی جا چکی تھی ۔ اس سے قبل یہ بچے کوڑا کرکٹ اکٹھا کرتے تھے ۔ اس تعداد کو 24 تک لیجانا چاہ رہے تھے مگر مالی وسائل نہ تھے ۔ فی بچہ 600 روپیہ ماہانہ فیس ۔ اس کے علاوہ کتابیں کاپیاں پنسل وغیرہ اور روزانہ ایک وقت کا کھانا ۔ بس اتنا ہی کرنا تھا

ابھی پھر کوئی اسی طرح کا عنوان چھیڑ دیجئے ۔ اس پر لمبی لمبی تحاریر لکھی جائیں گی مگر جب باری عمل کی آئے گی تو شاید کوئی ڈھونڈے سے نہ ملے ۔ حقیقت یہ ہے کہ وطنِ عزیز کے خواندہ گنے لوگوں میں سے نصف مدرسوں سے پڑھے ہوئے ہیں ۔ دینی مدارس میں پڑھنے والوں کی جاہلیت کے متعلق پچھلے چند سالوں میں سینکڑوں مضامین لکھے گئے ہیں جن میں سے درجنوں بلاگرز نے لکھے ہیں ۔ ان سب لکھنے والوں میں کتنے ہیں جنہوں نے دور نہیں اپنے علاقے کے مدرسہ کی ہی بہتری کیلئے عملی کام کیا ہے ؟ اسے بھی چھوڑیئے کیا کسی نے کبھی کسی مدرسہ کا مطالعاتی دورہ بھی کیا ہے ؟ پوچھیئے تو محلے کی مسجد کے مدرسہ کی بات کریں گے جہاں بچوں کو طوطوں کی طرح قرآن شریف رٹایا جاتا ہے اور وہاں کا بھی مطالعاتی دورہ نہیں کیا ہو گا

بیت اللہ محسود جسے پاکستانی طالبان کا سربراہ کہا جاتا ہے ۔ اس کے متعلق معروف ہے کہ گونٹانامو بے میں 11 ماہ قید کے بعد رہا کر ديا گیا بلکہ کھُلا چھوڑ دیا گیا جبکہ 80 سالہ بوڑھے بیگناہ پاکستانی کو بھی ڈھائی سال بعد اُس وقت چھوڑا گیا تھا جب وہ قریب مرگ تھا اور بات بھی نہیں کر سکتا تھا ۔ باقی پاکستانی جو ڈھائی تین سال بعد وہاں سے چھوٹے وہ کسی اور جگہ قید ہیں ۔ اب شُنید ہے کہ بیت اللہ محسود کی ہلاکت کھیلے جانے والے ڈرامہ کا حصہ ہے اور وہ زندہ ہے مگر غائب ہے ۔ حقیقت جو میں ایک سے زیادہ بار لکھ چکا ہوں یہی ہے کہ پاکستان کے بے گناہ شہریوں کو ہلاک کرنے والے اور فوج کے خلاف لڑنے والے کرائے کے قاتل ہیں جن کے آقا غیر ملک یا ممالک کی حکومتیں ہیں ۔ ان کا افغانستان کے طالبان کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے البتٰہ افغانستان کی کٹھپتلی حکومت کے ساتھ تعلق ہو سکتا ہے

جب تک غیرملکی مفاد کو چھوڑ کر ملکی مفاد کے تحت کام نہیں کیا جائے گا ملک کے حالات بد سے بد تر ہوتے رہیں گے اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ جنگجو حملہ آوروں کی تعداد پہلے سے کہیں زیاد ہو چکی ہے ۔ وہ پہلے سے زیادہ منظم ہیں اور پہلے سے زیادہ بے جگری سے لڑ رہے ہیں ۔ سب کچھ ہمارے سامنے ہو رہا ہے اور ہمیں پھر بھی سمجھ نہیں آتی ۔ اسلام آباد اقوامِ متحدہ کے امدادی دفتر پر حملہ ۔ پھر پشاور میں اہم شہری علاقہ میں دھماکہ پھر فوج کے ہیڈ کوارٹر میں داخل ہو کر حملہ اور آج لاہور شہر کے اہم علاقہ میں واقعہ ایف آئی اے کے دفتر مناواں میں پولیس کے تربیتی مرکز اور بیدیاں میں پولیس کمانڈو تربیتی مرکز پر حملے ہوئے ۔ بڑی ڈھٹائی سے کہہ دیا جاتا ہے کہ حملے کی پہلے سے اطلاع تھی

اسلام آباد میں جگہ جگہ ناکہ بندیاں ہیں ۔ میرے اپنے گھر کے تین راستے مکمل بند کر کے ایک راستہ میں جگہ جگہ بلاک رکھے ہیں جن میں سے بالکل آہستہ ہی گذرا جا سکتا ہے ۔ اقوامِ متحدہ کا امدادی دفتر میرے گھر سے آدھے کلو میٹر کے فاصلہ پر ہے ۔ اُس کی حفاظت کیوں نہ کی جا سکی ؟ آخر ان علاقوں کی درست حفاظت کا بندوبست کیوں نہیں کیا جاتا ؟ وزارتِ داخلہ کیا کر رہی ہے ؟ رحمٰن ملک صرف بیان داغنے کے کی بجائے کوئی عملی کام کیوں نہیں کرتا ؟

آنکھوں [عقل] پر پردہ پڑنا اور کسے کہتے ہیں ؟ اللہ ہمارے حکمرانوں اور ہموطنوں کو سیدھی راہ پر لگائے اور ہمارے ملک کو مزید تباہی سے بچائے

فری میسن سے بلیک واٹر تک

”بلیک واٹر کا پاکستان میں کوئی وجود نہیں۔ بلیک واٹر کی موجودگی محض افواہ ہے۔ عوام ان افواہوں پر ہرگز کان نہ دھریں۔ اگر کسی کے پاس بلیک واٹر کی موجودگی کے ثبوت ہیں تو وہ فراہم کرے۔ حکومت پاکستان سخت کارروائی کرے گی۔“ یہ الفاظ امریکا میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی کے ہیں۔ چند روز قبل اسی قسم کے الفاظ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے بھی کہے تھے کہ بلیک واٹر کا پاکستان میں کوئی وجود نہیں ہے۔ اگر اس کی موجودگی کے کسی کے پاس ثبوت ہیں تو وہ پیش کرے، ہم کارروائی کریں گے۔“ حیرت کی بات ہے حکومت پاکستان بار بار تردید کررہی ہے کہ بلیک واٹر کا وجود نہیں ہے لیکن پاکستان کے بچے بچے کو معلوم ہے بلیک واٹر کی مشکوک سرگرمیاں بڑھ رہی ہیں۔ ”جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے“ والی بات ہے۔ ہماری ریسرچ، تحقیق اور معلومات کے مطابق اس وقت بلیک واٹر کا نہ صرف وجود ہے بلکہ وہ پاکستان کو افغانستان اور عراق سمجھ کر بڑے منظم اور مربوط طریقے سے اپنا مشن آگے بڑھارہے ہیں۔ یہ بالکل سچ ہے کہ افغانستان اور عراق کے بعد بلیک واٹر کا سب سے مضبوط گڑھ اب پاکستان میں ہے۔ پاکستان میں بلیک واٹر کی سرگرمیوں کا آغاز بہت پہلے کیا جاچکا ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ وزارتِ داخلہ نے 2007ء کو خبردار کیا تھا کہ اس کی سرگرمیوں پر نظر رکھی جائے لیکن ہماری سیکیورٹی ایجنسیوں نے اس پر کوئی ایکشن نہیں لیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بلیک واٹر نے پاکستان میں اپنی جڑیں مضبوط کرلیں۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ بلیک واٹر کے آفسز اس وقت پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں موجود ہے۔ صرف اسلام آباد اور پشاور میں ہی اس کے 700 افراد موجود ہیں جن کی رہائش کے لیے 200 سے زائد گھر کرائے پر لیے گئے ہیں جس کی تصدیق امریکی سفیر بھی کرچکی ہیں۔ حکومت میں شامل اتحادی جماعت کے اہم ارکان کے ساتھ ان کی بات چیت ایک عرصے سے جاری ہے اور ان سے کرائے پر گھر لینے کے لیے بھاری رقوم کی پیشکشیں کی جارہی ہیں۔ مصدقہ رپورٹس ہیں کہ کراچی میں لسانی اور مذہبی فسادات کروانے کا منصوبہ تیار کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ کراچی کے مختلف علاقوں میں 500 سے زائد امریکی موجود ہیں جن کو خفیہ طورپر ملک کے مختلف حصوں میں ٹرانسپورٹ کیا جاتا ہے۔ 19/ اگست کو اخبارات میں ہموی بکتر بند کے بارے میں رپورٹ چھپی۔ یہ گاڑیاں شہروں میں آپریشن کرنے کے لیے انتہائی کارآمد ہوتی ہیں۔ یہ جدید اسلحے سے لیس ہوتی ہیں۔ یہ پاکستانی کرنسی میں ایک کروڑ 40 لاکھ روپے کی ہوتی ہے۔ حاصل یہ کہ کراچی میں بلیک واٹر کی سرگرمیاں بڑھتی جارہی ہیں۔ یہاں اس نے باقاعدہ اپنے دفاتر قائم کرلیے ہیں۔
جب سے محب وطن عوام اور دانشوروں نے واویلا شروع کیا ہے، بلیک واٹر نے اپنا نام تبدیل کرلیا ہے لیکن اب تک اس کا مونوگرام، طریقہ واردات اور لیٹر پیڈ تک وہی پرانا ہے۔ اس معنی میں یہ بات حسین حقانی، وزیراعظم کی درست ہے کہ اس وقت ”بلیک واٹر“ نام سے کسی تنظیم کا وجود نہیں، کیونکہ امریکی اخبار ”نیویارک ٹائمز“ کے مطابق ”بلیک واٹر“ نے افغانستان اور پاکستان میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کے لیے نام تبدیل کرلیے ہیں۔ اب یہ ایک امریکی نجی سیکیورٹی ایجنسی نہیں رہی بلکہ چار پانچ پرائیویٹ امریکی سیکیورٹی ایجنسیوں کا روپ دھار چکی ہیں۔ اب ان کی سرگرمیاں اور کارروائیاں بالکل اسی طرح ہیں جس طرح جب جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت میں یہودیوں کی بدنام زمانہ تنظیم ”فری میسن“ پر پاکستان میں پابندی عائد کی گئی۔ ان کے دفاتر سیل کردیے گئے۔ پشاور میں بڑی تعداد میں ان کے خلاف کارروائی ہوئی تو یہ پڑوسی ممالک میں جاچھپے لیکن کچھ ہی عرصے بعد یہ نام بدل کر پھر سرگرم ہوگئے اور زیر زمین ان کی سرگرمیاں تاحال جاری وساری ہیں۔ پاکستان میں فری میسن کے کارکنوں کے نام پڑھیں تو آپ حیران رہ جائیں گے کہ کیسے کیسے سفید پوشوں کے نام آتے ہیں؟ ماسوائے ایک صدر کے امریکا کے تمام صدور فری میسن سے وابستہ رہے ہیں۔ پشاور میں آج جس جگہ درویش مسجد قائم ہے یہ کسی زمانے میں فری میسن کا دفتر ہوا کرتا تھا۔ کراچی کے علاقے رنچھوڑ لائن میں ان کا ٹمپلر تھا، لیکن سرکاری سطح پر جب پابندی لگی تو پھر اس کا زور نہ رہا۔ اس سے پہلے فری میسن کے کارکن بالکل اسی طرح دندناتے پھرتے تھے جس طرح آج بلیک واٹر کے اہلکار اسلام آباد جیسے حساس علاقے میں پھر رہے ہیں۔ حتیٰ کہ پاکستان کے سیکیورٹی اہلکاروں کو کسی خاطر میں نہیں لاتے۔ اس سے زیادہ سنگین اور خطرناک بات کیا ہوسکتی ہے کہ سیکٹر ای 7 میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی رہائش کے قریب گھر کرائے پر لیے گئے ہیں۔ سیکٹر ای 7 میں 2، ایف 6 میں 37، جی 6 میں 43، ایف 7 میں 47، ایف 8 میں 45، ایف 10 میں 20، ایف 11 میں 25 اور آئی 18 میں 9 اور دیگر سیکٹروں میں گھر کرائے پر لیے گئے ہیں۔ اسی طرح اسلام آباد ہی کے سیکٹر ایف 6، ایف 7 اور ایف 8 کے باشندوں کے مطابق یہاں بلیک واٹر کی مشکوک سرگرمیاں عروج پر ہیں۔ صرف یہ نہیں بلکہ یہ اسلام آباد کی حساس ترین سڑکوں پر دندناتے پھررہے ہیں۔ اسلام آباد میں ایف آئی اے کے صدر دفتر کے قریب ایک سیاہ شیشوں والی گاڑی میں سوار چار مسلح امریکی تھے جب پاکستانی سیکیورٹی اہلکاروں نے پوچھ گچھ کی تو معلوم ہوا یہ بلیک واٹر سے منسلک ہیں۔لیکن پھر کچھ بھی نہیں ہوا۔
قارئین! میں صرف اسلام آباد خاص طورپر اس لیے ذکر کررہا ہوں کہ یہ پاکستان کا دارالحکومت ہے۔ یہاں اہم ترین اداروں کے دفاتر ہیں۔ اہم ترین شخصیات رہائش پذیر ہیں۔ پاکستان کا ایٹمی پلانٹ ہے۔ سب سے بڑھ کر پاکستانی قیادت ہے۔ خاکم بدہن اگر وفاق بھی امریکا کی سیکیورٹی اہلکاروں کی مشکوک سرگرمیوں سے محفوظ نہیں تو پھر کون ہوگا؟ امریکا کا کسی آزاد جمہوری ملک پر اس حد تک کنٹرول اقوام متحدہ کے قوانین کی بھی صریح خلاف ورزی ہے۔ لہٰذاحکومت کو چاہیے جس طرح فری میسن پر پابندی لگائی گئی تھی اسی طرح جرات کامظاہرہ کرتے ہوئے بلیک واٹر اور اس سے منسلکہ اداروں پر بھی پابندی عائد کرے تاکہ پاکستان اور اس کے باشندے محفوظ ہوسکیں۔ افسوس ناک خبریں یہ ہیں کہ ریٹائرڈ پاکستانی بیورو کریٹ، دانشور اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے افراد اس معرکے کے لیے بھرتی کرلیے گئے ہیں جو اس پلان کو عملی جامہ پہنانے میں دست وبازو بنیں گے۔ ایسے ماحول میں جب چاروں جانب سے مایوس یہ قوم جو کبھی ایک سمت دیکھتی ہے، کبھی دوسری سمت اور کبھی اسے منتخب سیاست دانوں کا خیال آتا ہے۔ ہمیں تو یوں لگتا ہے اس بار جو میدان جنگ سجنے جارہا ہے اس
میں ان بے سروسامان پاکستانی عوام کو شاید خود ہی اس سیلاب کے سامنے بند باندھنا پڑے گا۔

تحریر ۔ انور غازی ۔ بشکریہ جنگ 30 ستمبر 2009

اب ویسٹ انڈیا کمپنی

بلیک واٹر کی سرگرمیاں اور ہم خوابیدہ

بلیک واٹر دنیا کی طاقتور امریکی سیکیورٹی کمپنی ہے جو 1997 میں قائم ہوئی تھی اس کا اصل نام بلیک واٹر یو ایس اے تھا اب اس کا نام XE-WORLD WIDEہے۔ یہ امریکی ریاست شمالی کیرولینا میں CIA کے تعاون سے ایک ٹریننگ کیمپ چلاتی ہے جس میں سالانہ 40 ہزار آدمیوں کو جن میں غیر ملکی اور پولیس والے جن کا تعلق امریکا سے ہوتا ہے ان کو سیکیورٹی ٹریننگ دیتی ہے۔ اس سیکیورٹی کمپنی کی بنیاد ایک امریکی ارب پتی پرنس ایرک نے رکھی تھی اور اس کا معاون Al Clock تھا جس نے 6000 ایکڑ زمین خریدی اور وہاں ایک بڑا ٹریننگ سینٹر قائم کیا اس کا تنظیمی ڈھانچہ 9 ڈویژن پر مشتمل ہے امریکن اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی تین بڑی سیکیورٹی کمپنیوں میں سے یہ سب سے بڑی ہے اس کا 90 فیصد سرمایہ امریکی حکومت کو سیکیورٹی فراہم کرنے سے حاصل ہوتا ہے سابق صدربش کی ان کو آشیرواد حاصل تھی یہی وجہ ہے کہ دو تہائی فیصد کنٹریکٹ بولی کے بغیر دیئے جاتے ۔ دنیا بھر میں 987 امریکی سیکیورٹی ٹھیکوں میں سے 788 بلیک واٹر کے پاس ہیں اس کمپنی کے پاس ڈالروں کے انبار لگے ہوئے ہیں ان کے اپنے جہاز، ہیلی کاپٹرز ہیں۔ جدید قسم کی ٹرانسپورٹ جن میں جدید قسم کے آلات نصب ہیں ان کے استعمال میں رہتے ہیں 2003 میں جب امریکہ نے عراق پر حملہ کیا تو بلیک واٹر بھی ان کے پیچھے آگئی 16 ستمبر 2007 کو جب 17 معصوم عراقیوں کو بلیک واٹر نے گولیوں سے بھون دیا تو اس کے نتیجے میں ان کی بڑی بدنامی ہوئی اور عراقی حکومت نے ان کا لائسنس کینسل کر دیا لیکن امریکی دباؤ کے نتیجے میں چند ہزار لوگوں کو ستمبر 2009 تک اجازت دی گئی۔ یاد رہے دنیا میں امریکہ کا سب سے بڑا سفارت خانہ عراق میں ہے اور اس کی سیکیورٹی بلیک واٹر کے سپرد ہے بدنامی سے بچنے کے لئے نیام نام XE ورلڈ وائڈ رکھا گیا تھا۔
ان چند بنیادی باتوں کے بعد اب ہم ان کی سرگرمیوں پر نظر ڈالتے ہیں ۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ چند روز پہلے اسلام آباد میں یو ایس میرینز اور ایک پولیس افسر کے درمیان تلخ کلامی ہوئی تھی لیکن حکومت نے ان کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا۔ میڈیا کے مطابق اب XE نے کھلے عام پاکستان میں اپنی سرگرمیوں کا آغاز کردیا ہے ان کا طریقہ واردات یہ ہے کہ جس ملک میں بھی جاتے ہیں وہاں سے ریٹائرڈ فوجی اور پولیس اور پیراملٹری فورس کے لوگوں کو بھرتی کرتے ہیں اوران کو منہ مانگی تنخواہ دیتے ہیں پاکستان جہاں غربت اور بے روزگاری عروج پر ہے لوگ آسانی سے مل جاتے ہیں اور پھر ان کو ٹریننگ دے کر ان سے ہر قسم کا کام کرواتے ہیں کہیں مسئلہ ہو جائے تو ان کو چھڑا کر لے جاتے ہیں ان کو پشاور اور اسلام آباد میں دیکھا گیا ہے پچھلے دنوں سینیٹر بخاری کے بھتیجے کے ساتھ بھی سفارتی انیکلیو میں واقع پیش آیا جب امریکی اہل کاروں کی اس سے توتکار ہوئی ۔ بقول امریکہ کے چوں کہ پاکستانی فورسز اپنے وزراء کو اسلام میں تحفظ نہیں دے سکتی اس لئے اپنا بندوبست کر رہے ہیں۔ سابق صدر نے امریکہ کو اپنی سرزمین دی اڈے دیئے، ایئرروٹ دیا، لینڈ روٹ دیا، ہر قسم کی لاجسٹک سپورٹ دی، اس پر قوم نے بڑا شور مچایا پھر ڈرون حملے شروع ہوگئے ہم ابھی ڈرون حملوں کو رو رہے تھے جنہیں ہم نے تقدیر مبرم کے طور پر قبول کرلیا ہے اس لئے احتجاج میں وہ شدت نہیں رہی لیکن اب معاملہ بہت آگے نکل گیا ہے، بلیک واٹر کی آمد، سفارت خانہ کی توسیع کے لئے 18 ایکڑ زمین کی فروخت یہ سب کچھ کیا ہے اصل میں امریکہ اسلام آباد میں ایک فوجی بیس بنانا چاہتا ہے جس طرح انہوں نے عراق اور افغانستان میں اپنی بیس بنائی ہیں اب ان کا رخ پاکستان کی طرف ہو گیا ہے سوچنے اور سمجھنے کی بات یہ ہے کہ کسی بھی ملک کے سفارت خانہ کا کیا رول ہوتاہے ان کا رول دونوں ملکوں کے درمیان مختلف امور پر رابطہ کرنا ہوتا ہے منی فوجی اڈے تعمیر کرنا نہیں ہوتا۔ میڈیا میں کافی شور مچایا جا رہا ہے ٹاک شوز ہو رہے ہیں جماعت اسلامی کے امیر مسلسل اپنے تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں لیکن حکومت مکمل طور پر خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہی ہے اس کا پھر مطلب یہی نکلتا ہے کہ XE حکومت کی اجازت سے سرگرم ہے ہماری حکومت کو تو صرف ڈالر چاہئیں وہ ملتے رہیں باقی سب ٹھیک ہے ہماری پارلیمنٹ ٹس سے مس نہیں ہو رہی ہے ایسے موقعوں پر اپوزیشن کا کردار اہم بن جاتا ہے لیکن وہ کولیشن پارٹنر ہے اور منہ میں دانت ہی نہیں ہیں اس لئے وہ بول ہی نہیں سکتے۔ عوام کو اعتماد میں لینے کے بجائے وقفے وقفے سے مہنگائی کے انجکشن دیئے جا رہے ہیں تاکہ وہ بھی نہ بول سکیں اور حکومت اپنی مان مانی کرتی رہے اب یہ کوئی راز نہیں ہے کہ پشاور یونیورسٹی ٹاؤن میں بلیک واٹر یعنی XE نے اپنا ہیڈ کوارٹر بھی قائم کیا ہوا ہے۔
تازہ اطلاعات کے مطابق XE اپنے پوشیدہ اپریشن کیلئے سرحد اور پنجاب سے اردو اور پنجابی بولنے والے لوگوں کو بھرتی کر رہی ہے ان لوگوں میں بیشتر ریٹائرڈ فوجی، پولیس، بیورو کریٹس اور کچھ میڈیا کے لوگوں کو ملازمتیں فراہم کی گئی ہیں۔ آپ ویب سائٹ secure blackwatersa.com پر جائیں تو آپ کو ملازمت حاصل کرنے کیلئے فارم سامنے آجاتا ہے۔ بعض حالتوں میں کمپنی کا نام چھپانے کیلئے پوسٹ بکس کا سہارا لیا جاتا ہے ملک کے مختلف شہروں میں زمین حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے تاکہ وہاں تربیتی مراکز قائم کئے جائیں میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے ایسٹ انڈیا کمپنی چند لوگوں کے ساتھ تجارت کرنے آئی تھی اور ہندوستان پر قبضہ جما لیا تھا۔
پاکستان میں امریکہ کے سفیرنے (جو ہمارے کم اور امریکی مفادات کی نگرانی کرنے میں مشہور ہیں) ایک ماہ میں 360 امریکی ویزے بغیر سیکورٹی کلیئرنس کے اپنے صوابدیدی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے دیئے ہیں۔ اگر ہم نے اس پر دھیان نہ دیا تو یہ لوگ پورے پاکستان میں پھیل جائیں گے ۔ یہ بڑی بدقسمتی ہے کہ ہماری حکومت نے امریکہ کے آگے ہاتھ پھیلائے ہوئے ہیں اور ہم یس سر یس سر کر رہے ہیں لیکن پاکستانی قوم یہ بات کبھی بھی گوارا نہیں کرے گی پاکستانی قوم پہلے ہی امریکہ کے رول کو پسند نہیں کرتی بہتر یہی ہو گا کہ حکومت اپنی پالیسی تبدیل کرے ورنہ عوام کا سمندر سب کچھ بہادے گا۔

تحریر ۔ مختار احمد بٹ بشکریہ جنگ بتایخ 30 ستمبر 2009