Category Archives: تاریخ

وقت کے بوجھ تلے دبے حقائق

میرا حافظہ 28 ستمبر 2010ء کے حادثہ کے بعد بہت مجروح ہو چکا ہے ۔ کچھ عمر کا تقاضہ بھی ہو سکتا ہے ۔ پھر بھی کچھ خاص واقعات ایسے ہوتے ہیں جو ذہن پر کبھی کبھی اُبھرتے رہتے ہیں

ایوب خان جب سیاسی جماعتوں کے مطالبات مان چکے تھے تو اصغر خان نے مجیب الرحمٰن (جو اگرتلہ سازش کیس میں قید کاٹ رہا تھا) کو رہا کرنے کی ضد کی ۔ بعد کے واقعات نے ثابت کیا کہ اگرتلہ سازش ایک حقیقت تھی

دسمبر 1970ء کے انتخابات میں مجیب الرحمٰن کی جماعت نے اکثریت حاصل کی جسے ذوالفقار علی بھٹو نے قبول نہ کیا ۔ قومی اسمبلی کا اجلاس ڈھاکہ میں منعقد ہونے کی مخالفت ان الفاظ میں کی ”جو ڈھاکہ جائے گا ہم اُس کی ٹانگیں تو ڑ دیں گے“۔ پھر ایک جلسہ عام میں خطاب کرتے ہوئے کہا ”اُدھر تُم اِدھر ہم“۔

بھارت کے پاکستان پر حملے کے دوران 12 دسمبر 1971ء کو اعلان ہوا کہ صدر محمد یحیٰ خان قوم سے خطاب کریں گے ۔ یہ تقریر نشر نہ ہوئی ۔ 16 دسمبر 1971ء کو بھارتی فوج ڈھاکہ میں داخل ہونے کے بعد یحیٰ خان کی ایک تقریر نشر کی گئی جس کا زمینی حقائق کے ساتھ کوئی ربط نہ تھا ۔ اگر متذکرہ تقریر 12 دسمبر کو نشر ہوتی تو بامعنی قرار دی جاتی ۔ اس میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ”ہم خون کا آخری قطرہ بہنے تک لڑیں گے”۔ اس وقت تک سارے ملک کی اعلٰی سطح پر تشویش پھیل چکی تھی کہ ”یحیٰ خان کہاں ہے ۔ 12 دسمبر کے بعد نہ کسی نے اُسے دیکھا اور نہ وہ اپنا ٹیلیفون اُٹھاتا ہے ۔ اس کی بجائے کوئی عورت غیرملکی لہجہ میں انگریزی میں جواب دیتی ہے کہ صدر مصروف ہیں“۔

ابھی بھارتی فوج ڈھاکہ میں داخل نہیں ہوئی تھی کہ پولینڈ نے سوویٹ یونین کی ایماء پر اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں جنگ بندی کرانے اور فوجوں کے اپنی اپنی سرحدوں کے اندر واپس جانے کی قرارداد پیش کی ۔ مقتدر طاقت نے ذوالفقار علی بھٹو صاحب کو سکیورٹی کونسل کے اجلاس میں شرکت کیلئے بھیجا ۔ بھٹو صاحب امریکا پہنچ کر زکام کے بہانے ہوٹل میں رہے اور اجلاس میں شرکت کیلئے مشرقی پاکستان پر بھارت کا قبضہ ہو جانے کے بعد پہنچے اور ایک بے ربط جذباتی تقریر کر کے اپنے کچھ کاغذات پھاڑ کر غُصہ دکھاتے ہوئے اجلاس سے باہر نکل گئے

صوبہ سرحد (اب خیبر پختونخوا) میں 7 دسمبر 1970ء کو ہونے والے انتخابات میں پی پی پی کا ایک آدھ نمائندہ منتخب ہوا تھا ۔ بعد میں وہاں کی منتخب حکومت کو ختم کر کے پی پی پی کی حکومت بنا دی گئی اور حیات محمد شیر پاؤ کو وزیرِ اعلٰی بنا دیا گیا جو بعد میں بم دھماکے میں ہلاک ہوئے ۔ سُنا گیا تھا کہ حیات محمد شیر پاؤ کا ذوالفقار علی بھٹو سے کچھ ذاتی اختلاف ہوا تھا جس کے نتیجے میں جان سے ہاتھ دھونا پڑے

29 مئی 1988ء کو محمد خان جونیجو کی حکومت بلا جواز توڑ دی گئی تھی جس کے خلاف سپریم کورٹ میں پٹیشن داخل کی گئی تھی ۔ اس کا فیصلہ محمد خان جونیجو کے حق میں دیا گیا لیکن جونیجو کی حکومت کو بحال نہ کیا گیا جو ناقابلِ فہم تھا

17 اگست 1988ء کو جنرل ضیاء الحق کی ہوائی حادثہ میں موت کے وقت آرمی چیف جنرل اسلم بیگ نے وہی کردار ادا کیا تھا جو بینظیر بھٹو کے سکیورٹی ایڈوائزر رحمٰن ملک نے 27 دسمبر 2007ء کو بینظیر بھٹو کی ہلاکت کے وقت ادا کیا

1988ء کے انتخابات کے بعد آئین کے مطابق قومی اسمبلی نے پہلے سپیکر کا انتخاب کرنا تھا پھر مُنتخب سپیکر نے وزیر اعظم کا انتخاب کرانا تھا مگر سپیکر کا انتخاب کرانے سے قبل ہی بینظیر بھٹو کو وزیر اعظم نامزد کر کے کامیاب کرایا گیا جبکہ پی پی پی کے پاس اکثریت نہ تھی ۔ اکثریت بنانے کیلئے ایم کیو ایم اور فاٹا کے اراکین کو ساتھ ملایا گیا

بھارت کے وزیر اعظم راجِیو گاندھی نے بینظیر بھٹو کے پہلے دورِ حکومت (1988ء تا 1990ء) میں اسلام آباد کا دورہ کیا ۔ جس کے دوران راولپنڈی اور اسلام آباد میں جہاں کہیں بھی جموں کشمیر لکھا تھا وہ مٹا دیا گیا یا بورڈ ہی اُتار یا اُکھاڑ دیا گیا حتٰی کہ کشمیر ہاؤس اور منسٹری آف کشمیر افیئرز کے بورڈ بھی اُکھاڑ کر چھپا دیئے گئے ۔ یہی نہیں ۔ راجِیو گاندھی نے بینظیر بھٹو کے پہلو میں بیٹھے پریس کانفرنس کی جس میں ایک صحافی کے جموں کشمیر کے متعلق سوال پوچھنے پر راجِیو گاندھی نے بہت غُصے میں کہا کہ ”جموں کشمیر نام کا کوئی اِیشو نہیں ہے اور کسی کو اس کے متعلق بات کرنے کا کوئی حق نہیں“ ۔ اس دوران بینظیر بھٹو اپنا چہرہ دوسری طرف کر کے ہنستی رہی

راجِیو گاندھی کے اِسی دورے کے دوران بینظیر بھٹو نے اُسے یقین دہانی کرائی کہ یورینیم کی افسودگی روک دی جائے گی اور بینظیر بھٹو کی حکومت خالصہ تحریک کے خلاف بھارت کی مدد کرے گی ۔ چنانچہ یورینیم کی آسودگی روک دی گئی تھی اور خالصہ تحریک کے سینکڑوں رہنماؤں کی فہرست ایک وزیر کے ہاتھ بھارت بھیجی گئی ۔ بھارت نے چُن چُن کر سکھ راہنما ہلاک کرنے کے بعد مقبوضہ جموں کشمیر میں مسلمانوں پر ظُلم و استبداد کے پہاڑ توڑنے شروع کئے

جنگ بندی لائین جسے ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے بھارت اور امریکا کی اِیماء پر لائین آف کنٹرول مان لیا تھا مقبوضہ جموں کشمیر میں رہنے والے اسے پار کر کے اپنے رشتہ داروں کو ملنے آزاد جموں کشمیر آیا کرتے تھے ۔ سُننے میں آیاتھا کہ بینظیر حکومت نے اُن راستوں کی اطلاع بھارتی حکومت کو دے دی تھی جس کے نتیجہ میں بھارتی فوج نے 1989ء میں 500 سو کے قریب کشمیری ہلاک کئے

بینظیر بھٹو نے اپنے پہلے دورِ حکومت (1988ء تا 1990ء) میں جنرل اسلم بیگ کو ”تمغہ جمہوریت“ سے نوازا تھا

آئی جے آئی کی تخلیق 1988ء میں ہوئی تھی ۔ اس کے سربراہ غلام مصطفٰی جتوئی تھے جو 1988ء میں منتخب نہ ہوئے ۔ 1989ء میں پنجاب میں ایک نشست خالی کرا کے اسے جتوا کر قومی اسمبلی میں لایا گیا حالانکہ اس کا تعلق اور رہائش صوبہ سندھ کی تھی

وسط 1990ء میں اپوزیشن کی طرف سے بینظیر بھٹو کے خلاف تحریک عدمِ اعتماد آنے کی خبر تھی لیکن حکومت ختم کر دی گئی اور غلام مصطفٰی جتوئی کو نگران وزیرِ اعظم بنا دیا گیا تھا

آجکل جسے مہران بنک سکینڈل کہا جا رہا ہے وہ دراصل حبیب بنک سکینڈل ہے ۔ 1990ء میں تو مہران بنک کہیں کاغذوں میں بھی نہیں آیا تھا ۔ البتہ اس کا مجرم یونس حبیب ہی ہے جو بعد میں وقوع پذیر ہونے والے مہران بنک سکینڈل میں بھی ملوّث تھا

غلام مصطفٰی جتوئی نے نگران وزیرِ اعظم ہونے کے باوجود انتخابات کے عمل میں حصہ لیا ۔ راولپنڈی سے ایک جلوس کی سربراہی کی جو ملتان جانا تھا مگر جلوس لاہور کے قریب پہنچنے پر نواز شریف کے نعرے لگنے شروع ہو گئے اور جتوئی جلوس سے الگ ہو گئے ۔ عوام نے کھیل بگاڑ دیا اور نواز شریف وزیرِ اعظم بن گئے

جو واقعہ کئی ذہنوں نے قبول نہ کیا یا اس پر ذہن حیران تھے وہ جام صادق کا وزیرِ اعلٰی سندھ بننا تھا کیونکہ اُسے کسی لحاظ سے بھی نواز شریف کا ساتھی نہیں کہا جا سکتا تھا

کراچی میں ستمبر 1991ء کے آخری حصے میں گورنر سٹیٹ بنک کا بیٹا دفتر اور گھر کے راستے میں اغواء ہو گیا ۔ انگلیاں جام صادق کی طرف اُٹھیں مگر بغیر آواز کیونکہ وہ اس کا خطرناک ماہر سمجھا جاتا تھا

جام صادق علی کے (جبری) حکم سے گورنر سٹیٹ بنک نے یونس حبیب کو مہران بنک کا لائسنس 1992ء کے اوائل میں جاری کر دیا

نواز شریف نے اسلم بیگ کی ریٹائرمنٹ کی تاریخ سے کئی ماہ قبل ہی آصف نواز جنجوعہ کی بطور چیف آف آرمی سٹاف تقرری کا اعلان کر دیا تھا

مہران بنک جسے بنانے کا لائسنس یونس حبیب کو 1992ء میں ملا تھا کچھ ہی سال بعد دیوالیہ ہو گیا تھا ۔ ستمبر 1992ء اور جون 1993ء کے درمیان مہران بنک سے 59 کروڑ روپے نکلوا کر متعلقہ افسران اور ان کے لواحقین میں تقسیم کئے گئے تھے ۔ پھر مہران بنک کے اربوں روپے نواز شریف کی جماعت کے وزیرِ اعلٰی صوبہ سرحد (اب خیبر پختونخوا) پیر صابر شاہ کی حکومت گرانے کیلئے استعمال کئے گئے ۔ خبر تھی کہ 10 کروڑ آفتاب شیر پاؤ کو دیئے گئے تھے

جب 1993ء میں نواز شریف کی حکومت مع اسمبلی توڑ دی گئی تو اس کے خلاف سپریم کورٹ میں رٹ دائر کی گئی ۔ سپریم کورٹ نے نواز شریف کی حکومت اور اسمبلی بحال کر دی مگر طاقت رکھنے والوں نے چلتا کر دیا اور غلام اسحاق خان کو بھی فارغ کر دیا

جب 1996ء میں چیف جسٹس سجاد علی شاہ اور حکومت کے درمیان چپقلش ہوئی تو اصغر خان نے نصیر اللہ بابر کے اخباری بیانات کے حوالے سے سپریم کورٹ میں رٹ دائر کی ۔ یہ کیس اکتوبر 1999ء میں نواز شریف کی حکومت ختم ہونے تک چلتا رہا ۔ اس کے بعد نہ پرویز مشرف کی حکومت نے اور نہ موجودہ حکومت نے اس کیس کی خبر لی مگر پچھلے سال سے پی پی پی نے اس سے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کی اور اب تک جاری ہے

اصغر خان نے دسمبر 2011ء میں تحریکِ استقلال کو عمران خان کی تحریکِ انصاف میں ضم کر دیا تھا

کیا پاکستان ایک مسلم ریاست ہے اسلامی نہیں ؟

پاکستان میں نام نہاد روشن خیال لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ قائد اعظم پاکستان کو ایک مسلم ریاست بنانا چاہتے تھے اسلامی نہیں ۔ اس سلسلہ میں محمد آصف بھلّی صاحب کی تحریر جو نوائے وقت مورخہ 29 اگست 2012ء میں شائع ہوئی تھی کے اقتباسات

جن نام نہاد دانشوروں اور صحافیوں کی مُٹھی بھر تعداد کو پاکستان کا اسلامی تشخص ہضم نہیں ہوتا، وہ کبھی کبھار اس طرح کا شگوفہ بھی چھوڑ دیتے ہیں کہ پاکستان ایک مسلم ریاست کے طور پر معرض وجود میں آیا تھا، ایک اسلامی ریاست کے طور پر نہیں اور قائداعظم کا منشاء و منصوبہ بھی ایک مسلم ریاست کا قیام تھا۔ سیکولر ازم کے علمبردار طبقہ کی فتنہ انگیزی اور عیاری دیکھیئے کہ جب انہیں پاکستان میں سیکولر ازم کی دال گلتی نظر نہیں آتی تو وہ اسلامی ریاست سے خوفزدہ ہو کر اپنے پاس سے مسلم ریاست کا نظریہ گھڑ لیتے ہیں حالانکہ جس ریاست میں مسلمانوں کی واضح اکثریت ہوگی وہاں یقینا قانون سازی اور دستور سازی کرتے ہوئے دین اسلام کو پیش نظر رکھا جائے گا۔ ایک سادہ سی بات ہے کہ اگر ایک آزاد مسلم ریاست میں مسلمانوں نے اپنی اجتماعی زندگی کو اسلام کے مطابق بسر کرنے کا اہتمام نہیں کرنا اور اسلامی قوانین کا نفاذ عمل میں نہیں لانا تو پھر وہ مسلم ریاست کیوں کر کہلائے گی؟ کیا قائداعظم نے صرف ایک برائے نام مسلم ریاست کی سُرخی استعمال کرنے کیلئے پاکستان بنایا تھا ؟ میرے خیال میں پاکستان کا بطور ایک اسلامی ریاست کے جتنا واضح اور صاف تصوّر قائداعظم کے ذہن میں موجود تھا۔ اتنا واضح تصوّر اُس دور کے کسی بڑے عالم دین کے ذہن میں بھی نہیں تھا۔ علامہ اقبال نے بھی بار بار اپنے خطبہ الہ آباد میں اسلامی ریاست کے الفاظ استعمال کئے تھے، مسلم ریاست کے نہیں

اب بانیءِ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کا بھی تصوّر اسلام دیکھیئے۔ وہ فرماتے ہیں کہ

”اسلامی حکومت کے تصوّر کا یہ امتیاز پیش نظر رہنا چاہیئے کہ اس میں اطاعت اور وفاکیشی کا مرجع اللہ کی ذات ہے جس کی تعمیل کا عملی ذریعہ قرآن مجید کے احکام اور اصول ہیں۔ اسلام میں اصلاً کسی بادشاہ کی اطاعت ہے، نہ پارلیمنٹ کی، نہ کسی شخص اور ادارے کی۔ قرآن کریم کے احکام ہی سیاست و معاشرت میں ہماری آزادی کی حدود متعین کرتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں اسلامی حکومت قرآن کے اصول و احکام کی حکومت ہوگی“

اب اگر قائداعظم کے ارشاد کے مطابق پاکستان میں صدر، وزیراعظم، پارلیمنٹ اور دیگرادارے قرآن کے اصول و احکام کے پابند بنا دیئے جائیں اور افراد کی بجائے قرآن کی حکمرانی تسلیم کرلی جائے تو یہ ایک اسلامی ریاست ہوگی یا محض نمائشی مسلم ریاست ؟ قائداعظم نے 1945ء میں اپنے پیغام عید میں ایسے سخت الفاظ استعمال کئے کہ شاید ہی انہوں نے اپنی زندگی میں اس طرح کے سخت الفاظ بولے ہوں۔ یہ الفاظ انہوں نے کن لوگوں کے بارے میں استعمال کئے۔ آپ کو قائداعظم کا پیغام عید پڑھ کر خود ہی معلوم ہو جائے گا
پاکستان کے لئے سیکولر ریاست کے بارے بار بار الفاظ استعمال کرنے والے گمراہ طبقہ کو بھی قائداعظم کی یہ تقریر یاد رکھنی چاہئے کہ

”جاہلوں کی بات الگ ہے ورنہ ہر کوئی جانتا ہے کہ قرآن مسلمانوں کا ایک ہمہ گیر ضابطہءِ حیات ہے۔ قرآن محض دینیات نہیں بلکہ سول اور تعزیری قوانین کی بھی بنیاد ہے۔ وہ قوانین جن سے بنی نوع انسان کے اعمال اور حقوق کی حدبندی ہوتی ہے۔ وہ بھی اللہ کے نہ تبدیل ہونے والے احکام سے متعین ہوتے ہیں“

اب جو لوگ اپنا شمار جاہلوں میں نہیں کرنا چاہتے، انہیں قرآن کو ایک ہمہ گیر ضابطہءِ حیات تسلیم کرنا ہوگا۔ قرآن کی تعلیمات ہمارے مذہبی، سماجی، سیاسی، معاشی، فوجی، سول، عدالتی اور قانونی تمام معاملات زندگی پر محیط ہے۔ قرآن حکیم میں سیرت رسول کے حوالے سے ایک انتہائی مختصر اور جامع حکم ہے کہ ”یقیناً تمہارے واسطے اللہ کے رسول میں زندگی کا بہترین نمونہ ہے“۔

قرآن کے اس ارشاد کی روشنی میں اب سبی دربار بلوچستان سے قائداعظم کے خطاب کا ایک مشہور اقتباس پڑھئے

”میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات کا واحد ذریعہ اس سنہری اصولوں والے ضابطہءِحیات پر عمل کرنا ہے جو ہمارے قانون دینے والے عظیم پیغمبر حضرت محمد مصطفی ﷺ نے ہمارے لئے قائم کر رکھا ہے، ہمیں اپنی جمہوریت کی بنیادیں سچے اسلامی اصولوں اور تصورات پر رکھنی چاہئیں۔ اسلام کا سبق یہ ہے کہ مملکت کے امور و مسائل باہمی بحث و تمحیص اور مشوروں سے طے کیا کرو“

قائداعظم نے جمہوریت کا سبق اسلام اور قرآن سے لیا تھا۔ ان کے نزدیک اسلام صرف چند رسوم، روایات اور مذہبی اصولوں کا نام نہیں تھا بلکہ مسلمانوں کے سیاسی، اقتصادی اور دیگر مسائل کی راہبری کے لئے اسلام ایک مکمل ضابطہ ءِ حیات تھا۔ انہوں نے اپنے ان خیالات کا اظہار متعدد بار بڑے بڑے عوامی جلسوں میں کیا، اس کے باوجود اگر کچھ لوگ پاکستان کے اسلامی تشخص کے منکر ہیں تو یہ ان کی اپنی عقل کا قصور ہے ورنہ قائداعظم کے تصورات میں تو کہیں ابہام موجود نہیں

قائداعظم نے فروری 1948ءمیں امریکی نامہ نگار کو انٹرویو دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ

”پاکستان کا دستور ابھی بننا ہے اور یہ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی بنائے گی۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس دستور کی حقیقی شکل کیا ہوگی
لیکن ایک بات میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ جمہوری نوعیت کا ہو گا اور اسلام کے بنیادی اصولوں پر مشتمل ہوگا۔ اسلامی اصولوں کا اطلاق ہماری آج کی عملی زندگی پر بھی ویسے ہی ہوسکتا ہے جس طرح 1300 سال قبل یہ اصول قابل عمل تھے۔ اسلام نے ہمیں انسانی مساوات، انصاف اور ہر ایک سے رواداری کا درس دیا ہے۔ ہم ان عظیم الشان روایات کے وارث اور امین ہیں اور پاکستان کے آئیندہ دستور کے معمار کی حیثیت سے ہم اپنی ذمہ داریوں اور فرائض سے اچھی طرح آگاہ ہیں“

قائداعظم کے ان فرمودات کے مطالعہ کے بعد بھی اگر کوئی مخصوص گروہ پھر بھی یہ اصرار کرتا ہے کہ قائداعظم پاکستان کو ایک سیکولر ریاست بنانا چاہتے تھے تو میں ان کی خدمت میں صرف یہی عرض کروں گاکہ جھوٹ بولتے ہوئے کچھ تو شرم محسوس کرو ۔ تمہارے نظریات اور تمہاری گمراہی تمہیں مبارک لیکن یہ قوم تمہیں قائداعظم کے افکار و تعلیمات اور قیام پاکستان کی تاریخ کو مسخ کرنے کی اجازت نہیں دے سکتی اور پاکستان کے اسلامی تشخص کو تبدیل کرنے کا تمہارا خواب کبھی پورا نہیں ہو گا

قائدِ اعظم پاکستان کو سیکولر ریاست بنانا چاہتے تھے؟

دانشوروں کا ایک منظم گروہ گزشتہ کچھ برسوں سے یہ ڈھنڈورا پیٹنے میں مصروف ہے کہ قائداعظم سیکولر ذہن کے مالک تھے اور وہ پاکستان میں سیکولر نظام نافذ کرنا چاہتے تھے ۔ یہ حضرات قائداعظم کی 11 اگست 1947ء کی تقریر کو اپنا سیکولر ایجنڈا آگے بڑھانے کے لئے استعمال کرتے ہیں ۔ قائداعظم کی دیگر سینکڑوں تقاریر جو شاید انہوں نے پڑھی نہیں میں مسلمانوں کی علیحدہ مملکت کی بنیاد اسلام کو ہی بتایا گیا ہے ۔ متذکرہ تقریر دستور ساز اسمبلی کا صدر منتخب ہونے کے بعد دستور ساز اسمبلی سے قائداعظم کا پہلا خطاب تھا ۔ یہ تقریر (پوری تقریر اس مضمون کے آخر میں منقول ہے) نہ تو لکھی ہوئی تھی اور نہ تیار کردہ بلکہ فی البدیہہ تھی۔ اس تقریر کے آخر میں قائد اعظم نے کہا تھا

ہمیں اسی لگن کے ساتھ کام کا آغاز کرنا ہے اور وقت گذرنے کے ساتھ اکثریت اور اقلیت کی حصہ داری ، ہندو طبقہ اور مسلم طبقہ کیونکہ مسلمانوں میں بھی پٹھان پنجابی شیعہ سُنّی وغیرہ اور ہندوؤں میں برہمن وشنواس کھتری اور بنگالی مدراسی وغیرہ ختم ہو جائیں گے ۔ درحقیقت اگر آپ مجھ سے پوچھیں، یہ ہندوستان کی آزادی اور خودمختاری حاصل کرنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تھی اگر یہ نہ ہوتا تو ہم بہت پہلے آزاد ہو گئے ہوتے ۔ دنیا کی کوئی قوم کسی دوسری قوم کو خاص کر 400 ملین نفوس کو محکومیت میں نہیں رکھ سکتی ۔ نہ کوئی قوم آپ کو زیر کر سکتی تھی اور نہ مغلوب رکھ سکتی تھی سوائے متذکرہ گروہ بندی کے ۔ اسلئے ہمیں اس سے سبق حاصل کرنا چاہیئے ۔ آپ آزاد ہیں ۔ آپ کو اپنے مندروں میں جانے کی آزادی ہے ۔ آپ اپنی مساجد میں جانے کیلئے آزاد ہیں یا پاکستان کی اس ریاست میں کسی بھی دوسری عبادت کی جگہ ۔ آپ کا تعلق کسی بھی مذہب یا ذات یا مسلک سے ہو اس کا ریاست کے کاروبار کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے

بتایئے اس میں سے سیکولر کیسے اخذ کیا گیا ؟ قائد اعظم نے باقی باتوں کے علاوہ جس طرح مذہبی اقلیتوں کو برابری کے درجے کا وعدہ کیا اور مذہبی آزادی کا پیغام دیا وہ دراصل اسلامی تعلیمات کا ہی ایک جزو ہے ۔ خیال رہے کہ پاکستان کی پہلی کابینہ میں چودھری ظفر اللہ خان (مرزائی) اور جوگندر ناتھ منڈل (ہندو) موجود تھے

قائداعظم نے تقسیم ہند سے قبل لگ بھگ 100 بار یہ اعلان کیا کہ پاکستان کے نظام کی بنیاد اسلامی اصولوں پر اٹھائی جائے گی اور قیام پاکستان کے بعد 14 بار یہ واضح کیا کہ پاکستان کے نظام، آئین اور ملکی ڈھانچے کو اسلامی اصولوں پر استوار کیا جائے گا۔ انہوں نے لاتعداد بار کہا کہ قرآن ہمارا راہنما ہے اور ہمیں قرآن ہی سے راہنمائی کی روشنی حاصل کرنی چاہیئے۔ ان سینکڑوں اعلانات اور وعدوں کے باوجود سیکولر حضرات اپنی ضد پر ڈٹے ہوئے ہیں اور وہ اپنے ذہن کے دریچے کسی اختلافی بات پر کھولنے کے لئے تیار نہیں

جنرل اکبر کے مطابق قائداعظم سے ملاقات میں اُس (جنرل اکبر) نے فوجی میسوں میں انگریز حکومت کی شروع کی گئی شراب نوشی کی رسم کو ختم کرنے کی تجویز دی جس کے جواب میں قائداعظم نے اپنے اے ڈی سی کو بلایا اور کانفیڈریشن بکس لانے کو کہا۔ قائداعظم نے بکس کو کھول کر چمڑے سے جلد بند ایک کتاب نکالی ۔ انہوں نے اسے کھولا اور فرمایا ”جنرل یہ قرآن مجید ہے ۔ اس میں لکھا ہے کہ شراب و منشیات حرام ہیں“۔ میں (جنرل اکبر) نے عرض کیا کہ ”آپ ایک حُکم جاری کریں اور افسروں کو مُتنبہ کریں کہ شراب حرام اور منع ہے“۔ قائداعظم مسکرائے اور فرمایا کہ ”کیا تم سمجھتے ہو کہ قائداعظم کا حُکم قرآن مجید کے احکامات سے زیادہ موثر ہوگا ؟“ سٹینو کو بُلایا گیا اور قائداعظم نے ایک مسودہ تیار کیا جس میں قرآنی آیات کی جانب توجہ دلا کر فرمایا کہ ”شراب و منشیات حرام ہیں“۔ میں (جنرل اکبر) نے اس مسودے کی نقل لگا کر شراب نوشی بند کرنے کا حکم جاری کر دیا کہ جس پر میری (جنرل اکبر کی) ریٹائرمنٹ تک عمل ہوتا رہے

قائد اعظم محمد علی جناح کے پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کے صدر منتخب ہونے پر دستور ساز اسمبلی سے پہلے خطاب کا متن

Mr. President, Ladies and Gentlemen!

I cordially thank you, with the utmost sincerity, for the honour you have conferred upon me – the greatest honour that is possible to confer – by electing me as your first President. I also thank those leaders who have spoken in appreciation of my services and their personal references to me. I sincerely hope that with your support and your co-operation we shall make this Constituent Assembly an example to the world. The Constituent Assembly has got two main functions to perform. The first is the very onerous and responsible task of framing the future constitution of Pakistan and the second of functioning as a full and complete sovereign body as the Federal Legislature of Pakistan. We have to do the best we can in adopting a provisional constitution for the Federal Legislature of Pakistan. You know really that not only we ourselves are wondering but, I think, the whole world is wondering at this unprecedented cyclonic revolution which has brought about the clan of creating and establishing two independent sovereign Dominions in this sub-continent. As it is, it has been unprecedented; there is no parallel in the history of the world. This mighty sub-continent with all kinds of inhabitants has been brought under a plan which is titanic, unknown, unparalleled. And what is very important with regards to it is that we have achieved it peacefully and by means of an evolution of the greatest possible character.

Dealing with our first function in this Assembly, I cannot make any well-considered pronouncement at this moment, but I shall say a few things as they occur to me. The first and the foremost thing that I would like to emphasize is this: remember that you are now a sovereign legislative body and you have got all the powers. It, therefore, places on you the gravest responsibility as to how you should take your decisions. The first observation that I would like to make is this: You will no doubt agree with me that the first duty of a government is to maintain law and order, so that the life, property and religious beliefs of its subjects are fully protected by the State.

The second thing that occurs to me is this: One of the biggest curses from which India is suffering – I do not say that other countries are free from it, but, I think our condition is much worse – is bribery and corruption. That really is a poison. We must put that down with an iron hand and I hope that you will take adequate measures as soon as it is possible for this Assembly to do so.

Black-marketing is another curse. Well, I know that blackmarketeers are frequently caught and punished. Judicial sentences are passed or sometimes fines only are imposed. Now you have to tackle this monster, which today is a colossal crime against society, in our distressed conditions, when we constantly face shortage of food and other essential commodities of life. A citizen who does black-marketing commits, I think, a greater crime than the biggest and most grievous of crimes. These blackmarketeers are really knowing, intelligent and ordinarily responsible people, and when they indulge in black-marketing, I think they ought to be very severely punished, because the entire system of control and regulation of foodstuffs and essential commodities, and cause wholesale starvation and want and even death.

The next thing that strikes me is this: Here again it is a legacy which has been passed on to us. Along with many other things, good and bad, has arrived this great evil, the evil of nepotism and jobbery. I want to make it quite clear that I shall never tolerate any kind of jobbery, nepotism or any influence directly or indirectly brought to bear upon me. Whenever I will find that such a practice is in vogue or is continuing anywhere, low or high, I shall certainly not countenance it.

I know there are people who do not quite agree with the division of India and the partition of the Punjab and Bengal. Much has been said against it, but now that it has been accepted, it is the duty of everyone of us to loyally abide by it and honourably act according to the agreement which is now final and binding on all. But you must remember, as I have said, that this mighty revolution that has taken place is unprecedented. One can quite understand the feeling that exists between the two communities wherever one community is in majority and the other is in minority. But the question is, whether it was possible or practicable to act otherwise than what has been done, A division had to take place. On both sides, in Hindustan and Pakistan, there are sections of people who may not agree with it, who may not like it, but in my judgement there was no other solution and I am sure future history will record is verdict in favour of it. And what is more, it will be proved by actual experience as we go on that was the only solution of India’s constitutional problem. Any idea of a united India could never have worked and in my judgement it would have led us to terrific disaster. Maybe that view is correct; maybe it is not; that remains to be seen. All the same, in this division it was impossible to avoid the question of minorities being in one Dominion or the other. Now that was unavoidable. There is no other solution. Now what shall we do? Now, if we want to make this great State of Pakistan happy and prosperous, we should wholly and solely concentrate on the well-being of the people, and especially of the masses and the poor. If you will work in co-operation, forgetting the past, burying the hatchet, you are bound to succeed. If you change your past and work together in a spirit that everyone of you, no matter to what community he belongs, no matter what relations he had with you in the past, no matter what is his colour, caste or creed, is first, second and last a citizen of this State with equal rights, privileges, and obligations, there will be no end to the progress you will make.

I cannot emphasize it too much. We should begin to work in that spirit and in course of time all these angularities of the majority and minority communities, the Hindu community and the Muslim community, because even as regards Muslims you have Pathans, Punjabis, Shias, Sunnis and so on, and among the Hindus you have Brahmins, Vashnavas, Khatris, also Bengalis, Madrasis and so on, will vanish. Indeed if you ask me, this has been the biggest hindrance in the way of India to attain the freedom and independence and but for this we would have been free people long long ago. No power can hold another nation, and specially a nation of 400 million souls in subjection; nobody could have conquered you, and even if it had happened, nobody could have continued its hold on you for any length of time, but for this. Therefore, we must learn a lesson from this. You are free; you are free to go to your temples, you are free to go to your mosques or to any other place or worship in this State of Pakistan. You may belong to any religion or caste or creed that has nothing to do with the business of the State. As you know, history shows that in England, conditions, some time ago, were much worse than those prevailing in India today. The Roman Catholics and the Protestants persecuted each other. Even now there are some States in existence where there are discriminations made and bars imposed against a particular class. Thank God, we are not starting in those days. We are starting in the days where there is no discrimination, no distinction between one community and another, no discrimination between one caste or creed and another. We are starting with this fundamental principle that we are all citizens and equal citizens of one State. The people of England in course of time had to face the realities of the situation and had to discharge the responsibilities and burdens placed upon them by the government of their country and they went through that fire step by step. Today, you might say with justice that Roman Catholics and Protestants do not exist; what exists now is that every man is a citizen, an equal citizen of Great Britain and they are all members of the Nation.

Now I think we should keep that in front of us as our ideal and you will find that in course of time Hindus would cease to be Hindus and Muslims would cease to be Muslims, not in the religious sense, because that is the personal faith of each individual, but in the political sense as citizens of the State.

Well, gentlemen, I do not wish to take up any more of your time and thank you again for the honour you have done to me. I shall always be guided by the principles of justice and fairplay without any, as is put in the political language, prejudice or ill-will, in other words, partiality or favouritism. My guiding principle will be justice and complete impartiality, and I am sure that with your support and co-operation, I can look forward to Pakistan becoming one of the greatest nations of the world.

I have received a message from the United States of America addressed to me. It reads:
I have the honour to communicate to you, in Your Excellency’s capacity as President of the Constituent Assembly of Pakistan, the following message which I have just received from the Secretary of State of the United States:
On the occasion of of the first meeting of the Constituent Assembly for Pakistan, I extend to you and to the members of the Assembly, the best wishes of the Government and the people of the United States for the successful conclusion of the great work you are about to undertake.

تقسیم قائد اعظم کی خواہش تھی یا مجبوری ؟

لارڈ کلائيو سے لے کر 1947ء تک جتنے وائسرائے کا انتخاب ہوا وہ ہندوستان ميں سربراہ مملکت کی حيثيت سے آتے تھے ۔ ماؤنٹ بيٹن نے انتہائی جذباتی مرحلہ پر ذمہ داری قبول کرنے کی 3 شرائط پيش کيں ۔ 1 ۔ اپنی پسند کا اسٹاف ۔ 2 ۔ جی 130 کا وہ ہوائی جہاز جو جنگ کے دوران برما کی کمان کے دوران ماؤنٹ بيٹن کے زير استعمال تھا ۔ 3 ۔ فيصلہ کرنے کے مکمل اختيارات ۔ کليمنٹ ايٹلی نے پہلی دونوں شرائط کو بے چوں و چرا منظور کرليا ليکن تيسری پر استعجاب سے کہا ”کیا یہ شہنشاہ معظم کے اختیار میں مداخلت نہیں ہو گی؟(Would it not be an encroachment on H.M Government ?)” ماؤنٹ بيٹن نے کہا يہ ناگزير ہے، چونکہ مقصود يہ تھا کہ ماؤنٹ بيٹن ہندوستانی ليڈروں سے گفت و شنيد کرکے ہر فيصلے کے لئے برطانيہ آئے تو يہ مشکل مرحلہ ہوتا اس لئے کليمنٹ ايٹلی نے ايک سرد آہ بھری اور اسے بھی تسليم کرليا ۔

21مارچ 1947ء کو ماؤنٹ بيٹن بحيثيت آخری وائسرائے نئي دہلي پہنچا ۔ آئی سی ايس افسران ميں کرشنا مينن پہلا سول افسر تھا جسے ماؤنٹ بيٹن نے پنڈت جواہر لال نہرو کے مشورے سے اپنا مشير مقرر کيا ۔ کرشنا مينن بڑا گھاگ، فطين اور اُلجھے ہوئے مسائل کا حل کرنے والا افسر تھا ۔ اگرچہ تقسيم فارمولے ميں بھی کرشنا مينن کے مشورے سے ڈنڈی ماری گئی تھی ليکن کرشنا مينن کا سب سے بڑا کارنامہ جموں کشمير کے مہاراجہ ہری سنگھ سے الحاق کی دستاويز پر دستخط کرانا تھے جبکہ مہاراجہ جموں کشمير کے پاکستان سے الحاق کے بارے ميں بيان دے چکے تھے اور کرشنا مينن کے مشورے پر ہی کشمير ميں فوج کشی کی گئی تھی

انگريز کو ہندوؤں سے نہ تو کوئی سياسی پرخاش تھی نہ معاشی ۔ مسلمانوں سے دونوں کو تھی (یعنی انگریزوں اور ہندوؤں کو)۔ کیونکہ انگريز نے اقتدار مسلمانوں سے چھينا تھا ۔ ماؤنٹ بيٹن نے سب سے پہلے مہاراجہ بيکانير سے ملاقات کي اور دوسری ملاقات پنڈت جواہر لال نہرو سے ہوئی ۔ ماؤنٹ بيٹن نے پنڈت جواہر لال نہرو سے قائد اعظم کے متعلق دريافت کيا ۔ جواہر لال نہرو نے کہا ”مسٹر جناح سياست ميں بہت دير سے داخل ہوئے ۔ اس سے پہلے وہ کوئی خاص اہميت نہيں رکھتے تھے ۔ لارڈ ويول نے بڑی سخت غلطی کی کہ مسلم ليگ کو کابينہ ميں شريک کرليا جو قومی مفاد کے کاموں ميں رکاوٹ پيدا کرتي ہے“۔ نہرو جب رخصت ہونے لگے تو ماؤنٹ بيٹن نے کہا ”پنڈت نہرو آپ مجھے برطانيہ کا وہ آخری وائسرائے نہ سمجھيں جو اقتدار کے خاتمے کے لئے آيا ہے بلکہ ہندوستان کی تعمير و ترقي کے علمبرداروں ميں ميرا شمار کيجئے“۔ پنڈت نہرو مسکرائے اور کہا ”لوگ جو کہتے ہيں کہ آپ کے پاس جادو ہے تو واقعی آج ثابت ہوگيا“۔

ماؤنٹ بيٹن نے تيسری ملاقات قائد اعظم محمد علی جناح سے کی ۔ ماؤنٹ بيٹن نے قائد اعظم سے پنڈت جواہر لال نہرو کے متعلق دريافت کيا ۔ قائد اعظم نے برجستہ فرمايا ”آپ تو اُن سے مل چکے ہيں ۔ آپ جيسے اعلی افسر نے اُن کے متعلق کوئی رائے قائم کرلی ہوگی“۔

لوگ آج کل کے حالات ديکھ کر ہم سے اکثر يہ سوال کرتے ہيں کہ آپ اور آپ کے بزرگوں نے يہ پاکستان کيوں بنايا تھا؟ اگر يہاں يہي سب کچھ ہونا تھا تو اس سے تو اچھا تھا کہ مولانا ابوالکلام آزاد کے قول کے مطابق ہم متحدہ ہندوستان ميں رہتے ۔ اصل بات يہ ہے کہ لوگوں کو تاريخ کا علم نہيں ۔ حقيقت يہ ہے کہ قائد اعظم تو متحدہ ہندوستان کے لئے راضی ہوگئے تھے ۔ امپیرئل ہوٹل ميں کونسل مسلم ليگ کے اجلاس ميں مولانا حسرت موہانی نے قائد اعظم پر کھل کر نکتہ چينی کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”کيبنٹ مشن نے ہندوستان کو تين حصوں ميں تقسيم کيا ہے (1)بنگال آسام زون (2)پنجاب سندھ بلوچستان صوبہ سرحد زون (3)باقيماندہ ہندوستان زون”۔

کانگريس نے کيبنٹ مشن پلان کو اس نيت سے منظور کيا تھا کہ مسٹر جناح تو پاکستان سے کم کی بات ہی نہيں کرتے لہٰذا اقتدار ہمارا مقدر بن جائے گا ۔ قائد اعظم کا کيبنٹ مشن پلان کا منظور کرنا کانگريس پر ايٹم بم بن کر گرا
کيبنٹ مشن کے سيکرٹری وُڈ رَووِیئٹ (Wood Rowiyt) نے قائد اعظم سے انٹرويو ليا اور کہا ”مسٹر جناح ۔ کیا یہ عظیم تر پاکستان کی طرف قدم نہیں ؟ (Mr. Jinnah is it not a step forward for a greater Pakistan?) ۔ قائد اعظم نے کہا ”بالکل ۔ آپ درست سمجھے ہیں (Exactly you have taken the point)“

آسام کے چيف منسٹر گوپی چند باردولی نے کانگريس ہائی کمانڈ کو لکھا ”رام اے رام ۔ يہ تو ايک ناقابل تسخير اسلامی قلعہ بن گيا ۔ پورا بنگال آسام پنجاب سندھ بلوچستان صوبہ سرحد”۔ صدرکانگريس پنڈت جواہر لال نہرو نے 10جولائی 1947ء کو کيبنٹ مشن پلان کو يہ کہہ کر سبوتاژ کرديا کہ کانگريس کسی شرط کی پابند نہيں اور آئين ساز اسمبلی ميں داخل ہونے کے لئے پلان ميں تبديلی کرسکتی ہے

مولانا ابوالکلام آزاد اپنی تصنيف INDIA WINS FREEDOMکے صفحہ 162 پر تحرير کرتے ہيں ”اپنی جگہ نہرو کو کانگريس کا صدر بنانا ان کی زندگی کی ايسی غلطی تھی جسے وہ کبھی معاف نہيں کرسکتے“۔ کيونکہ اُنہوں نے کيبنٹ مشن پلان کو سبوتاژ کيا ۔ مولانا آزاد نے تقسيم کی ذمہ داری پنڈت جواہر لال نہرو اور مہاتما گاندھی پر ڈالی ہے ۔ يہاں تک کہا ہے کہ ”دس سال بعد وہ اس حقيقت کا اعتراف کرنے پر مجبور ہيں کہ جناح کا موقف مضبوط تھا“۔ مولانا ابوالکلام آزاد ممتاز عالم دين ہيں، صاحب نسبت بزرگ ہيں، علم و فضل ميں يکتائے روزگار ہيں ليکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہندو کانگريس کی تنگ نظری اور تعصب کو سمجھنے ميں غلطی کر بيٹھے

ہندو اور انگريز کے گٹھ جوڑ نے يہ گل کھلائے کہ کيبنٹ مشن پلان کو سبوتاژ کرديا ۔ کانگريس ہندوستان ميں رام راج قائم کرنا چاہتی تھی چانکيہ تہذيب کے پرچار کو فروغ دے رہی تھی ۔ قائد اعظم کی ولولہ انگيز قيادت اور رہنمائی ميں ہندوستان کے 10کروڑ مسلمانوں نے بے مثال قربانياں دے کر پاکستان حاصل کيا ۔ لاہور کے ايک معروف وکيل نے جو تجزيہ کار بھی ہيں، ايک ٹی وی پروگرام ميں معروف تجزيہ نگار ڈاکٹر جميل جالبی سے پوچھا تھا ”ڈاکٹر صاحب ۔ آپ پاکستان کيوں آئے؟“ ڈاکٹر جميل جالبی نے جواب ديا ”ہم نے پاکستان بنايا ۔ ہم تو اپنے گھر ميں آئے ہيں“۔

ميڈيا سے ميری درخواست ہے کہ تاريخ پاکستان کو زيادہ سے زيادہ روشناس کرائيں ۔ محرکات تحريک پاکستان استحکام پاکستان کا موجب بنيں گے

تحریر ۔ سعید صدیقی (جو پاکستان بننے سے قبل حکومت کے ایک عہدیدار تھے اور اعلٰی سطح کی میٹنگز میں شریک ہوتے تھے)

ناموسِ رسول ﷺ

مغربی اقوام جنہوں نے سیکولر ازم کی آڑ میں اپنے نبیوں کو عملی زندگی سے خارج کر دیا ہے۔ آج پھر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر مختلف انداز اور مختلف اطراف سے تیر چلا رہی ہیں اور انہیں یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ مسلمان اپنے نبی کے معاملے میں اتنے حساس کیوں ہیں کہ مرنے مارنے پر تل جاتے ہیں ۔ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ عشق رسول کے بغیر مسلمان کا ایمان ہی مکمل نہیں ہوتا ۔ وہ لوگ صرف نام کے مسلمان ہیں جنہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی ہر شے، والدین، اولاد، دوست وغیرہ سے زیادہ محبت نہیں ہوتی ۔ لیکن اشتعال انگیزی اور توڑ پھوڑ مسلمان کا شیوہ نہیں ۔ اسلام کا مطلب ہی ”امن“ ہے

میں اس موضوع پر لکھنا چاہ رہا تھا اور دماغ میں اتنا کچھ جمع ہو گیا کہ میرے لئے اس کا اختصار ناممکن ہو گیا ۔ اللہ مُشکل کُشا نے میری مُشکل آسان فرمائی اور مجھے ایک مضمون مل گیا جس سے اقتباس حاضر ہے

غزوہ اُحد اپنے عروج پر تھا۔ دونوں طرف سے تیر چلائے جا رہے تھے اور تلوار زنی کے جوہر دکھائے جا رہے تھے۔ کفار کی کوشش تھی کہ وہ کسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گرفتار کر لیں یا شہید کر دیں۔ مشرکین ہر طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ٹوٹ پڑے۔ ان کا حملہ شدت اختیار کر گیا تو حضرت مصعب بن عمیر اور حضرت ابو دجانہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب سے دشمنوں کو بھگاتے ہوئے شدید زخمی ہو گئے۔ مشرکین تیر برسانے لگے۔ وہ مسلمانوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب سے منتشر کرنا چاہتے تھے۔ حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت ابو طلحہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دونوں طرف سے اس طرح گھیر لیا کہ وہ ڈھال بن گئے۔ حضرت قتادہ بن نعمان کی آنکھ میں تیر لگا تو آنکھ کا ڈیلا رخسار پر لٹک گیا۔ مشرکین کے تیروں کا نشانہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ تھی جبکہ صحابہ کرام آپ کے سامنے ڈھال بنے کھڑے تھے

حضرت ابو طلحہ انصاری آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑے ہو کر مشرکین پر تیر چلا رہے تھے۔ دوسری طرف حضرت طلحہ بن عبید اللہ تلوار چلا رہے تھے اور چاروں طرف سے مشرکین کے حملے روک رہے تھے۔ مالک بن زبیر نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ
مبارک کا نشانہ لے کر تیر چلایا تو حضرت طلحہ نے جلدی سے اپنا ہاتھ سامنے کر دیا۔ تیر ان کی انگلی کو چیرتا ہوا نکل گیا۔ بنی عامر بن لوی کا ایک آہن پوش سوار نیزہ لہراتا ہوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ آور ہوا تو حضرت طلحہ نے آگے بڑھ کر اس پر وار کیا۔ اس کا گھوڑا گر گیا۔ حضرت طلحہ نے اس کا نیزہ چھین کر اس زور سے اس کی آنکھ میں چبھویا کہ وہ وہیں ختم ہو گیا

حضرت طلحہ اور حضرت سعد بن ابی وقاص اپنے جسموں پر تیر کھاتے اور دشمن کے وار سہتے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جبل احد کی طرف محفوظ مقام پر لے گئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دندان مبارک شہید ہونے کی خبر سن کر حضرت اویس قرنی نے باری باری اپنے تمام دانت نکال دیئے تھے کہ نہ جانے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا کونسا دانت شہید ہوا

غزوہ احد میں حضرت طلحہ کو انتالیس زخم لگے۔ مورخین لکھتے ہیں آپ کا جسم زخموں سے چھلنی ہو گیا تھا۔ حضرت سعد بن ابی وقاص کو بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت میں بے شمار زخم لگے۔ حضرت ابوبکر صدیق فرماتے ہیں ”میں نے دیکھا طلحہ بن عبید اللہ کا بہت زیادہ خون بہہ گیا تھا اور وہ بے ہوش پڑےا تھے۔ میں نے ان کے چہرے پر پانی چھڑکا تو ہوش آ گیا۔ آنکھ کھلتے ہی پہلا سوال یہ کیا ‘رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیسے ہیں اور کیا کر رہے ہیں؟’ میں نے جواب دیا ”بخریت ہیں اور انہوں نے ہی مجھے بھیجا ہے“۔ حضرت طلحہ بن عبید اللہ نے کہا ‘الحمد للہ ہر مصیبت کے بعد آسانی ہوتی ہے’ “۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اگر کوئی ایسے شخص کو دیکھنا چاہے جو زندہ ہے حالانکہ اہل جنت سے ہے (یعنی زندہ شہید ہے) تو وہ طلحہ کو دیکھے“۔ (بحوالہ الامین صلی اللہ علیہ وسلم از محمد رفیق ڈوگر جلد دوم ص 478)۔ غزوہ احد کے دوران یہ افواہ اڑ گئی تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے ہیں لیکن جب اہل مدینہ کو یہ خوشخبری ملی کہ یہ افواہ بے بنیاد ہے تو کچھ خواتین کو یقین نہ آیا اور وہ خود میدان جنگ کی طرف چل دیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں۔ حضرت سمیرا
بنت قیس گھر سے نکلیں اور بنی دینار کی خواتین کے ہمراہ جبل احد کی طرف چل پڑیں۔ وہ ہر ملنے والے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں پوچھتی تھیں۔ کسی نے بتایا ”تمہارے دونوں بیٹے نعمان اور سلیم شہید ہو گئے“۔ حضرت سمیرا نے بات سنی اَن سنی کر کے پوچھا ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حال بتاؤ؟“ جواب ملا ”الحمد للہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ویسے ہی ہیں جیسے تم ان کو دیکھنا چاہتی
ہو“۔ حضرت سمیرا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو کہا ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر سارے مصائب / غم آسان ہو گئے ہیں“۔ (الامین صفحہ 439)

ڈاکٹر صفدر محمود کی تحریر سے اقتباس

پاکستان کیوں بنا ؟ کیسے بنا ؟

my-id-pak
آئیندہ کل یعنی 14 اگست کو پاکستان میں چھیاسٹھواں یومِ آزادی منایا جائے گا ۔ پاکستان میں آنے والے علاقے کی آزادی کا اعلان 14 اور 15 اگست 1947ء کی درمیانی رات 11 بج کر 57 منٹ پر کیا گیا تھا ۔ اُس رات ہند و پاکستان میں رمضان المبارک 1366ھ کی ستائیسویں تاریخ تھی اور اتفاق سے 14 اور 15 اگست 2012ء کو میں دبئی میں ہوں اور یہاں رمضان المبارک 1433ھ کی ستائسویں تاریخ ہو گی

آج کے دور میں کچھ لوگ بے بنیاد باتیں کرنے لگ گئے ہیں جو پاکستان کی بنیادیں کھوکھلا کرنے کی نادانستہ یا دانستہ کوشش ہے ۔ دراصل اس قبیح عمل کی منصوبہ بندی تو پاکستان بننے سے قبل ہی ہو گئی تھی اور عمل قائد اعظم کی 11 ستمبر 1948ء کو وفات کے بعد شروع ہوا جس میں لیاقت علی خان کے 16 اکتوبر 1951ء کو قتل کے بعد تیزی آ گئی تھی

اب مستند تاریخ کے اوراق اُلٹ کر دیکھتے ہیں کہ پاکستان کیسے بنا ؟

برطانوی حکومت کا نمائندہ وائسرائے دراصل ہندوستان کا حکمران ہی ہوتا تھا ۔ آخری وائسرائے ماؤنٹ بيٹن نے انتہائی جذباتی مرحلے پر 21 مارچ 1947ء کو ذمہ داری سنبھالنے کیلئے 3 شرائط پيش کيں تھیں جو برطانیہ کے اس وقت کے وزیر اعظم کليمنٹ ايٹلی نے منظور کر لی تھیں
1 ۔ اپنی پسند کا عملہ
2 ۔ وہ ہوائی جہاز جو جنگ میں برما کی کمان کے دوران ماؤنٹ بيٹن کے زير استعمال تھا
3 ۔ فيصلہ کرنے کے مکمل اختيارات

ماؤنٹ بيٹن نے دہلی پہنچنے پر سب سے پہلے مہاراجہ بيکانير سے ملاقات کی اور دوسری ملاقات پنڈت جواہر لال نہرو سے کی
ماؤنٹ بيٹن نے پنڈت جواہر لال نہرو سے قائد اعظم کے متعلق دريافت کيا
جواہر لال نہرو نے کہا “مسٹر جناح سياست ميں بہت دير سے داخل ہوئے ۔ اس سے پہلے وہ کوئی خاص اہميت نہيں رکھتے تھے” ۔
مزید کہا کہ “لارڈ ويول نے بڑی سخت غلطی کی کہ مسلم ليگ کو کابينہ ميں شريک کرليا جو قومی مفاد کے کاموں ميں رکاوٹ پيدا کرتی ہے” ۔
ماؤنٹ بيٹن نے تيسری ملاقات قائد اعظم محمد علی جناح سے کی ۔ ماؤنٹ بيٹن نے قائد اعظم سے پنڈت جواہر لال نہرو کے متعلق دريافت کيا ۔ قائد اعظم نے برجستہ فرمايا ” آپ تو ان سے مل چکے ہيں ۔ آپ جيسے اعلی افسر نے ان کے متعلق کوئی رائے قائم کرلی ہوگی”۔
ماؤنٹ بيٹن اس جواب پر سمجھ گيا کہ اس ليڈر سے مسائل طے کرنا ٹيڑھی کھير ہے

ماؤنٹ بيٹن نے پنڈت جواہر لال نہرو کے مشورے سے آئی سی ايس افسر کرشنا مينن کو اپنا مشير مقرر کيا ۔ اگرچہ تقسيم فارمولے ميں بھی کرشنا مينن کے مشورے سے ڈنڈی ماری گئی تھی ليکن کرشنا مينن کا سب سے بڑا کارنامہ جموں کشمير کے مہاراجہ ہری سنگھ سے الحاق کی دستاويز پر دستخط کرانا تھےجبکہ مہاراجہ جموں کشمير (ہری سنگھ) پاکستان سے الحاق کا بيان دے چکا تھا ۔ پھر جب مہاراجہ ہری سنگھ نے عوام کے دباؤ کے تحت بھارت سے الحاق نہ کیا توکرشنا مينن کے مشورے پر ہی جموں کشمير ميں فوج کشی بھی کی گئی

انگريز کو ہندوؤں سے نہ تو کوئی سياسی پرخاش تھی نہ معاشی ۔ مسلمانوں سے انگریز اور ہندو دونوں کو تھی ۔ انگريز نے اقتدار مسلمانوں سے چھينا تھا اور ہندو اقدار حاصل کر کے اکھنڈ بھارت بنانا چاہتا تھا

حقيقت يہ ہے کہ کانگريس نے کيبنٹ مشن پلان کو اس نيت سے منظور کيا تھا کہ مسٹر جناح تو پاکستان سے کم کی بات ہی نہيں کرتے لہٰذا اقتدار ہمارا (ہندوؤں کا) مقدر بن جائے گا ۔ قائد اعظم کا کيبنٹ مشن پلان کا منظور کرنا کانگريس پر ايٹم بم بن کر گرا

صدرکانگريس پنڈت جواہر لال نہرو نے 10جولائی کو کيبنٹ مشن پلان کو يہ کہہ کر سبوتاژ کرديا کہ کانگريس کسی شرط کی پابند نہيں اور آئين ساز اسمبلی ميں داخل ہونے کے لئے پلان ميں تبديلی کرسکتی ہے ۔ چنانچہ ہندو اور انگريز کے گٹھ جوڑ نے کيبنٹ مشن پلان کو سبوتاژ کرديا ۔ قائد اعظم نے بر وقت اس کا احساس کر کے مترادف مگر مضبوط لائحہ عمل پیش کر دیا تھا ۔ آسام کے چيف منسٹر گوپی چند باردولی نے کانگريس ہائی کمانڈ کو لکھا” رام اے رام ۔ يہ تو ايک ناقابل تسخير اسلامی قلعہ بن گيا ۔ پورا بنگال ۔ آسام ۔ پنجاب ۔ سندھ ۔ بلوچستان ۔ صوبہ سرحد”۔

کيبنٹ مشن کے سيکرٹری (Wood Rowiyt) نے قائد اعظم سے انٹرويو ليا اور کہا ” مسٹر جناح ۔ کیا یہ ایک مضبوط پاکستان کی طرف پیشقدمی نہیں ہے ؟ (Mr. Jinnah! Is it not a step forward for a greater Pakistan?)”۔
قائد اعظم نے کہا ” بالکل ۔ آپ درست سمجھے (Exactly, you have taken the point)”
مگر جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے کرشنا مینن کے فارمولے پر عمل کرتے ہوئے باہمی فیصلے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے انگریز نے بڑی عیّاری سے پنجاب اور بنگال دونوں کو تقسیم کر دیا اور آسام بھی بھارت میں شامل کر دیا

مولانا ابوالکلام آزاد اپنی تصنيف (INDIA WINS FREEDOM) کے صفحہ 162 پر تحرير کرتے ہيں کہ اپنی جگہ نہرو کو کانگريس کا صدر بنانا ان کی زندگی کی ايسی غلطی تھی جسے وہ کبھی معاف نہيں کرسکتے کيونکہ انہوں نے کيبنٹ مشن پلان کو سبوتاژ کيا ۔ مولانا آزاد نے تقسيم کی ذمہ داری پنڈت جواہر لال نہرو اور مہاتما گاندھی پر ڈالی ہے ۔ يہاں تک لکھا ہے کہ 10 سال بعد وہ اس حقيقت کا اعتراف کرنے پر مجبور ہيں کہ جناح کا موقف مضبوط تھا

کچھ لوگ آج کل کے حالات ديکھ کر يہ سوال کرتے ہيں کہ ” پاکستان کيوں بنايا تھا ؟ اگر يہاں يہی سب کچھ ہونا تھا تو اچھا تھا کہ مولانا ابوالکلام آزاد کے قول کے مطابق ہم متحدہ ہندوستان ميں رہتے”۔

کانگريس ہندوستان ميں رام راج قائم کرنا چاہتی تھی ۔ چانکيہ تہذيب کے پرچار کو فروغ دے رہی تھی ۔ قائد اعظم کی ولولہ انگيز قيادت اور رہنمائی ميں ہندوستان کے 10کروڑ مسلمانوں نے بے مثال قربانياں دے کر پاکستان حاصل کیا ۔ اس پاکستان اور اس کے مقصد کے خلاف بات کرنے والے کسی اور نہیں اپنے ہی آباؤ اجداد کے خون پسینے کو پلید کرنے میں کوشاں ہیں

یہ پاکستانی قوم کی بدقسمتی ہی کہی جا سکتی ہے کہ عوام ہی کے ووٹ سے پاکستان کی حکومت آج اُن لوگوں یا جماعتوں کے ہاتھ میں ہے جنہوں نے پاکستان بننے کی مخالفت کی تھی خواہ وہ سرحدی گاندھی کہلانے والے عبدالغفار خان کی اولاد کی جماعت ہو یا قائد اعظم کی مخالفت کرنے والے شاہنواز بھٹو کی اولاد کی یا کانگرسی مولوی مفتی محمود کی اولاد کی یا بھارت جا کر برملا کہنے والے الطاف حسین کی کہ “پاکستان بنانا فاش غلطی تھی”۔

ڈرتے ڈرتے

متعلقہ مضامین پڑھنے کیلئے مندرجہ ذیل عنوانات پر باری باری کلِک کیجئے
پنجابی کوئی زبان نہیں
پنجابی قوم نہیں
اُردو سپیکنگ

ڈھائی سال قبل میں نے لکھا تھا “پنجابی کوئی زبان نہیں“۔ چونکہ متعلقہ کُتب و دیگر علمی مواد میرے سامنے نہ تھا اور میں یاد داشت کی بنیاد پر لکھ رہا تھا تو میں نے ڈرتے ڈرتے لکھا تھا

یہ زبان اپنی افزائش شدہ شکل میں اُنیسویں صدی عیسوی میں بھی بولی جاتی رہی اور بیسویں صدی عیسوی کی شروع کی دہائیوں میں بھی موجودہ پنجاب ۔ موجودہ سندھ اور ان کے قریبی علاقوں ۔ موجودہ صوبہ سرحد کے کچھ حصوں اور گجرات کاٹھیاواڑ میں بھی بولی جاتی تھی

پچھلے دنوں ایک نقشہ دیکھنے کو مل گیا جس پر ستمبر 1872ء تاریخ درج ہے ۔ اس کے مطابق پنجاب میں 6 ڈویژن (Division) تھیں جن کے یہ نام تھے
1 ۔ دہلی ۔ 2 ۔ جالندھر ۔ 3 ۔ لاہور ۔ 4 ۔ راولپنڈی ۔ 5 ۔ پشاور ۔ 6 ۔ ڈیرہ جٹ

جانتے ہیں ڈیرہ جٹ کس علاقے کا نام تھا ؟
موجودہ خیبر پختونخوا ۔ پنجاب اور سندھ کے وہ علاقے جہاں سرائیکی بولنے والے اور بلوچ رہتے ہیں ۔ (مزاری ۔ زرداری وغیرہ سب بلوچ ہیں)

اُس دور کے پنجاب میں 31 اضلاع تھے جن میں سب سے زیادہ یعنی 7 دہلی میں اور سب سے کم یعنی 3 پشاور میں تھے

ہندوستان پر قابض انگریز حکمرانوں نے جب بنگال کو سر کر لیا تو پنجاب اُنہیں سب سے بڑا خطرہ محسوس ہوا ۔ چنانچہ ایک طرف دہلی اور اس کے مشرقی علاقے کو پنجاب سے کاٹ کر الگ کیا ۔ دوسری طرف پشاور اور ڈیرہ جاٹ کے کچھ سرائیکی علاقے کو نارتھ ویسٹرن فرنٹیر (North Western Frontier) کا نام دیا جسے ماضی قریب میں خیبر پختونخوا کا نام دیا گیا ہے ۔ تیسری طرف ڈیرہ جاٹ کے کچھ سرائیکی اور بلوچ علاقے کو دیبل وغیرہ میں شامل کر کے سندھ کا نام دیا ۔ پاکستان بنتے وقت باقی رہ جانے والے پنجاب میں سے بھی آدھا بھارت کے حوالے کر دیا

موجودہ حکومت کو نجانے اس بچے کھچے پنجاب سے جو اصلی پنجاب کا شاید پانچواں حصہ ہے کیا خطرات لاحق ہوئے ہیں کہ اس کا مزید تیا پانچا کرنا چاہتی ہے
۔ ”حیف ایسی قوم پر جو ٹکڑوں میں بٹی ہو اور ہر ٹکڑا اپنے آپ کو ایک الگ قوم سمجھے“۔ خلیل جبران