Category Archives: تاریخ

یومِ ولادت قائدِ اعظم کے حوالے سے

اللہ کے حُکم سے پاکستان بنانے والے مسلمانانِ ہند کے عظیم راہنما قائد اعظم محمد علی جناح کا آج یومِ ولادت ہے ۔ میں اس حولے سے قائد اعظم کے متعلق لکھی ہوئی چند اہم تحاریر کے عنوان مع روابط لکھ رہا ہوں ۔ اُمید ہے کہ قارئین اان سے مُستفید ہوں گے
پڑھنے کیلئے مندرجہ ذیل عنوانات پر باری باری کلِک کیجئے

قائد اعظم کا خطاب ۔ 15 اگست 1947ء

اُردو قومی زبان کیسے بنی ۔ بہتان اور حقیقت

قائد اعظم اور قرآن

قائدِ اعظم پاکستان کو سیکولر ریاست بنانا چاہتے تھے ؟

حُسن جوانی

بابا عالم سیاہ پوش نے کہا تھا
حُسن جوانی دُنیا فانی ۔ ہر شے آنی جانی ۔ رہے مَولا نام
(مکمل اس تحریر کے آخر میں ملاحظہ فرمایئے)

اسی موضوع پر میں میاں محمد بخش کے شعر جو 3 اکتوبر 2015ء کو بھی لکھ چکا ہوں دوبارہ نقل کر رہا ہوں ۔ وجہ یہ ہے کہ یہ شعر میں نے ایک اہم موقع پر پہلی بار سُنے تھے اور مُجھے لکھنے والے کی کھوج ہوئی تھی ۔ 19 اپریل 1974ء کو سابق آرمی چیف اور صدر محمد ایوب خان نے وفات پائی ۔ اُس وقت کی حکومت (ذوالفقار علی بھٹو کی) نے ایوب خان کا جنازہ اسلام آباد میں اُن کی رہائشگاہ سے وقت مقررہ سے ایک گھنٹہ قبل زبردستی اُٹھوا دیا اور ٹرک پر رکھ کر لیجانے لگے جبکہ فیصلہ کندھوں پر لیجانے کا ہوا تھا ۔ جب ٹرک چلا تو سوگوار لوگ سڑک پر ٹرک کے آگے لیٹ گئے ۔ پولیس نے اُنہیں زبردستی اُٹھانا شروع کر دیا ۔ اس بھگدڑ میں ایک سُریلی آواز اُبھری ۔ ایک سپاہی جو لاٹھیاں برسا رہا تھا ایکدم پیچھے ہٹ گیا اور اُس کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے

سدا نہ مانیئے حُسن جوانی ۔ سدا نہ صحبت یاراں
سدا نہ باغیں بُلبل بولے ۔ سدا نہ رہن بہاراں
دُشمن مَرے تے خوشی نہ کریئے ۔ سجناں وی ٹُر جانا

کلام بابا عالم سیاہ پوش

بھاگا والیو ۔ نام جپُوں مَولا نام نام ۔ نام جپُوں مَولا نام نام
بندہ مَکری ۔ تولے تَکڑی ۔ ہَتھ وِچ تَسبیح ۔ جَپدا جاوے مَولا نام نام
حُسن جوانی ۔ دُنیا فانی ۔ ہر شے آنی جانی ۔ رہے مَولا نام نام
لَوک بُپاری ۔ پیار دے وَیری ۔ عِشقے دی رَمز نوں جانَن نہ ۔ رہے مَولا نام نام
اَوکھیاں راہواں پہنچ نہ پاواں ۔ لَمبیاں نے مَنز لاں پیار دِیاں ۔ رہے مَولا نام نام

ترقی پذیر سائنس اور زوال پذیرانسانیت

سائنس اور سائنس کی بنیاد پر ترتیب شُدا ٹیکنالوجی کی مدد سے جدید معاشرے نے بڑی مادی ترقی کی ہے لیکن سائنسی معلومات سے ہی پتہ چلتا ہے کہ اس کامیابی کے حصول انسانی سے معاشرے کا مُستقبل خطرے میں ہے ۔ زمینی ماحول کی ترتیبِ نَو کرتے ہوئے جدید معاشرہ اس کے طفیل زمین پر بسنے والوں کی زندگی پر مرتب ہونے والے اثرات کو مدِ نظر رکھنے میں ناکام رہا ہے ۔ مفروضے اور رویّئے جو صدیوں سے انسانی ضروریات پوری کرتے آ رہے ہیں مناسب نہیں رہیں گے ۔ جن صلاحیتوں نے جدید معاشرے کی موجودہ تمدن حاصل کرنے میں مدد کی ہے وہ اس سے پیدا ہونے والے خدشات و خطرات کا مداوا کرنے میں ناکام رہا ہے ۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی بڑھتی ہوئی پیش رفت نے انسان کو دنیا کو زیادہ تیز رفتار سے نئے راستے پر لگانے کے قابل بنا دیا ہے لیکن پیش رفت کے فوائد اور خطرات کو سمجھنے کے سلسلہ میں خاطر خواہ نشو و نما نہیں ہوئی

فطرت کو قابو کرنے کی کوشش میں فطری دنیا کے ساتھ رعائت باہمی کو خیر باد کہہ دیا گیا اور جدید تمدن نے فطرت کے ساتھ قدیم بندھن توڑ ڈالا ۔ انسان صدیوں فطرت کی مناسب حدود میں رہ کر فطرت کی کرم فرمائی سے مستفید ہوا ۔ فطرت کی تال اختیار کرتا اور سختیاں برداشت کرتا رہا ۔ ابھی تک فطری دنیا سے نتھی ہونے کے باعث جدید انسانیت ایک ایجاد کردہ ماحول میں رہتی ہے جو بظاہر تیزی سے ترقی کر رہا ہے بنسبت انسانوں کے جو حیاتی استداد رکھتے ہیں ۔ انجام یہ کہ انسان کا جسم و دماغ ۔ قیاس اور طرزِ عمل تناؤ میں آ چکے ہیں
گو انسان نے مصنوعی ماحول تخلیق کر لیا ہے جسے تمدن (Civilization) کہا جاتا ہے لیکن اس کی بقاء فطری نظام میں نظر آتی ہے بجائے اس کے تخلیق کردہ نظام کے ۔ انسان کیلئے اس فطری اور مصنوعی دو نسلے ماحول میں رہنا ایک بہت بڑا چیلنج ہے
یہ پیشگوئی کرنا نہائت مُشکل ہے کہ انسان اس انسانی ایجاد کی حیاتی اور نفسیاتی تبدیلی کو اپنانے میں کتنا عرصہ لے گا اور کس حد تک اپنائے گا

فطرت کی اُن قوّتوں کو جنہیں انسان اپنے آپ کو استوار کرنے سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتا ۔جو لوگ پالیسی ترتیب دیتے ہیں اُنہیں سمجھنا چاہیئے اگر انسان فطرت سنساری قسم کی بنیادی حرکیات کے مقابلے میں کھڑا ہو جائے گا تو اس کا ہارنا لازم ہے ۔ فطری نظام اور روِش ٹھیک ٹھیک سمجھتے ہوئے فطرت کے اشتراک سے انسان نظام کو چلا سکتا ہے ۔ فرانسس بیکن (Francis Bacon) کا دعوٰی ہے کہ”فطرت پر قابو حاصل کرنے سے قبل فطرت کی تابعداری ضروری ہے

عوامی پالیسی کے انتظامی اصولوں کی مضبوط حدود کے بغیر انسانی حاضر دماغی اُسے اپنی موت کی طرف لے جا سکتی ہے ۔ حدود ہر قسم کی زندگی پر صادق آتی ہیں اور بالآخر انسانی نشو و نما کی سمت کو محدود کر دیتی ہے ۔ عوام اور پالیسی بنانے والوں کو اس اصول پر آگے بڑھنا چاہیئے کہ مفید نظام میں آزاد نشو و نما اور بے لگام کشادگی ایسی بند گلی میں پہنچا دے گی جس سے واپسی ممکن نہیں ہو گی اور نتیجہ تباہی پر منتج ہو گا ۔ جدید سوسائٹی کے رجحان کے خطرناک ہونے کا کافی خدشہ موجود ہے جو اس گُتھی ہوئی حکمت عملی کے ممکنہ نتائج حکم عملی کی مربوط تحقیق و تفتیش کی طرف مائل کرتا ہے

اگر ہم اپنے متناسب خطرات ۔ امکانات اور مفید ممکنات کو پوری طرح سمجھ لیں پھر شاید ہم اپنی مجموعی کوششوں کو یقین کے ساتھ قابلِ تائید اور بہتر مستقبل کی طرف گامزن کر سکیں

تحقیقی مقالہ از سمیع سعید
اُردو ترجمہ اور تلخیص ۔ افتخار اجمل بھوپال

جانوروں کو زلزلہ کا پیشگی عِلم ہو جاتا ہے

گو سائنسدان نہیں مانتےکہ جانوروں کو زلزلے کا پہلے عِلم ہو جاتا ہے (وجہ شاید یہ ہے کہ اسے ثابت کرنے کیلئے سائنس کا کوئی کُلیہ ابھی تک دریافت نہیں ہوا) ۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ اشرف المخلوقات انسان کو زلزلہ آنے پر عِلم ہوتا ہے کہ زلزلہ آیا ہے لیکن پرندوں ۔ چوپایوں ۔ بحری مخلوق اور حشرات کو زلزلہ آنے سے پہلے عِلم ہو جاتا ہے کہ زلزلہ آنے والا ہے ۔ ان میں سے بعض کو بہت پہلے عِلم ہو جاتا ہے

میرا اپنا مشاہدہ ہے کہ چند دہائیاں قبل ایک دن میں باہر کھڑا تھا ۔ کیا دیکھتا ہوں کہ سارے پرندے یکدم اپنے ٹھکانوں سے اُڑ کر فضا میں پہنچ کر شور کرنے لگے جیسا وہ پریشانی کی حالت میں کرتے ہیں ۔ میں حیران ہو کر پرندوں کو دیکھ رہا تھا کہ چند منٹ بعد زلزلے کے شدید جھٹکے شروع ہوئے
دوسرا تجربہ بارہ تیرہ سال قبل کا ہے ۔ اُن دنوں ہم نے ایک بِلی پالی ہوئی تھی ۔ میں اپنے گھر کے لاؤنج میں بیٹھا تھا ۔ بِلی میرے سامنے بیٹھی تھی ۔ میں بِلی سے باتیں کر رہا تھا جس کا جواب بلی مختلف حرکات سے دے رہی تھی ۔ اچانک بلی اُچھل کر صوفے کے نیچے گھُس گئی ۔ میں نے دیکھا تو بلی بہت پریشان دُبکی بیٹھی تھی ۔ میں نے بلی کو پچکارنا اور بُلانا شروع کیا لیکن وہ اُسی طرح بیٹھی پھٹی پھٹی آنکھوں کے ساتھ مجھے دیکھتی رہی ۔ بلی میری ہر بات مانتی تھی لیکن اس وقت ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چند منٹ بعد زلزلے کے جھٹکے شروع ہو گئے

لا ۔ اقیلا اطالیہ (L’Aquila, Italy) میں 2009ء میں زلزلہ سے کئی روز قبل سارے مینڈک (toads) اپنے تالاب سے ہجرت کر کے کہیں اور چلے گئے تھے ۔ اس سلسلے میں سائنسدانوں کی تحقیق یہاں اور یہاں کلک کر کے پڑھی جا سکتی ہے ۔ صرف مینڈک ہی نہیں پانی میں یا پانی کے قریب رہنے والے اور رینگنے والے جانور بھی ماحولیاتی تبدیلی کو محسوس کر لیتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اُنہیں دنوں پہلے احساس ہو جاتا ہے کہ زلزلہ آنے والا ہے ۔ ہاچنگ (Haicheng) چین میں 1975ء میں خوفناک زلزلہ آنے سے ایک ماہ قبل جبکہ جما دینے والی سردی تھی سانپ اپنے بِلوں سے نکل کر کہیں چلے گئے تھے حالانکہ کہ سانپ سردیوں میں بِلوں سے باہر نہیں نکلتے ۔

اللہ ہمیں مندرجہ ذیل کو ہمیشہ یاد رکھنے اور اس وقت میں بہتری کیلئے ابھی سے تیاری کی توفیق عطا فرمائے

اِذَا زُلۡزِلَتِ الۡاَرۡضُ زِلۡزَالَہَا ۙ ﴿۱﴾ وَ اَخۡرَجَتِ الۡاَرۡضُ اَثۡقَالَہَا ۙ ﴿۲﴾ وَ قَالَ الۡاِنۡسَانُ مَا لَہَا ۚ ﴿۳﴾ یَوۡمَئِذٍ تُحَدِّثُ اَخۡبَارَہَا ۙ ﴿۴﴾ بِاَنَّ رَبَّکَ اَوۡحٰی لَہَا ؕ ﴿۵﴾ یَوۡمَئِذٍ یَّصۡدُرُ النَّاسُ اَشۡتَاتًا ۬ۙ لِّیُرَوۡا اَعۡمَالَہُمۡ ؕ ﴿۶﴾ فَمَنۡ یَّعۡمَلۡ مِثۡقَالَ ذَرَّۃٍ خَیۡرًا یَّرَہٗ ؕ ﴿۷﴾ وَ مَنۡ یَّعۡمَلۡ مِثۡقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّرَہٗ ٪ ﴿۸﴾

جب زمین بھونچال سے ہلا دی جائے گی ‏(1) اور زمین اپنے (اندر) کے بوجھ نکال ڈالے گی ‏(2) اور انسان کہے گا کہ اس کو کیا ہوا ہے (3) اس روز وہ اپنے حالات بیان کر دے گی (4) کیونکہ تمہارے پروردگار نے اس کو حکم بھیجا (ہوگا) ‏(5) اس دن لوگ گروہ در گروہ ہو کر آئیں گے تاکہ ان کو ان کے اعمال دکھائے جائیں (6) تو جس نے ذرہ بھر نیکی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا (7) اور جس نے ذرہ بھر برائی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا (8) ‏

میری 60 سال پرانی ڈائری کا ایک ورق

From my diary of July, 1955
Weep not over precious changes past
Wait not over golden ages on the wane
Each night I burn the records of the day
At sun rise every soul is born again – – – – – – Walter Melone

یہاں کلک کر کے پڑھیئے ” Failutre of Modern Society-2 (Majority / Minority Syndrome) “