Category Archives: آپ بيتی

دبئی میں ہماری دوڑ دھوپ

دوبئی کی سیر کی دوسری قسط 12 جنوری کو لکھی تھی

بیٹے نے بتایا کہ دبئی میں عمارات ۔ مراکز للتسویق [Shopping Malls] کے علاوہ عجائب گھر [Museum] اور ساحِل سمندر [Beach] ہی دیکھا جا سکتا ہے ۔ سو عجائب گھر جو ایک پرانے محل کے اندر بنا ہوا ہے دیکھا ۔ اس میں پرانے زمانہ کی کِشتیاں ۔ آلاتِ حرب ۔ لباس ۔ برتن وغیرہ رکھے ہیں ۔ پرانے زمانہ میں اس علاقہ میں جس طرح کے باورچی خانے ۔ غُسلخانے اور سونے اور بیٹھنے کے کمرے ہوتے تھے وہ بنائے ہوئے ہیں ۔ پرانے زمانہ کے ہُنر اور تعلیم و تربیت کے مراکز کی بھی نمائش کی گئی ہے

ہم نے ایک کے بعد دوسرا مرکز للتسویق دیکھنا شروع کئے ۔ ان میں پھرنے سے قبل کئی کلو میٹر پیدل چلنے کا کئی سالہ تجربہ ہونا چاہیئے جو ہمیں دس پندرہ سال قبل تو تھا اب نہیں ہے لیکن اپنی عزت کی خاطر ہم نے مردانہ وار مقابلہ کیا ۔ مرکز للتسویق جہاں ہم گئے ان میں سے جن کے نام یاد رہے وہ حسب ذیل ہیں ۔

مرکز امارات للتسویق ۔ Mall of the Emirates ۔ مول امارات ۔ اس میں برف پر پھِسلنے [Ice Skiing] کا انتظام بھی ہے

مرکز مدینہ الدیرہ ۔ Daira City Centre

مدینہ مھرجان الدبئی ۔ Dubai Festival City

وافی ۔ Wafi ۔ اس کے ساتھ ہی ملحق ایک پرانے بازار کا اصل بحال رکھتے ہوئے اس کی جدید تعمیر کی گئی ہے جس کا نام خان مرجان ہے ۔ یہ بہت خوبصورت سہ منزلہ بازار ہے ۔ اس میں روائتی اشیاء فروخت ہوتی ہیں اور روائتی قہوہ خانہ بھی ہے ۔

ابنِ بطوطہ مرکز للتسویق ۔ اس میں مختلف تہذیبوں کے مطابق حصے بنے ہوئے ہیں اور چھتیں [Ceiling ] بھی مُختلف مگر دلچسپ بنائی گئی ہیں ۔ ایک حصہ میں چھت اس طرح ہے جیسے آسمان جس پر بادل بھی ہیں اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ شاید تھوڑی دیر میں بارش شروع ہو جائے

سوق مدینہ الجمیرہ . Souk Madinat Jumeirah

مرکز دبئی للتسویق ۔ The Dubai Mall ۔ یہ ابھی نیا نیا بنا ہے ۔ ابھی صرف 500 دکانوں نے کام شروع کیا ہے ۔ 1000 سے زیادہ بند پڑی ہیں ۔ اس میں برف پر پھِسلنے کا دائرہ [Ice Skiing Ring] بھی بن رہا ہے ۔ اس میں بہت بڑا مچھلی گھر [Aquarium] ہے جس میں کبھی ایک اور کبھی دو غوطہ خور بھی تیر رہے ہوتے ہیں ۔

القریہ العالمیہ ۔ Global Village ۔ یہ ایک بین الاقوامی میلہ شاید 18 نومبر کو شروع ہوا اور 22 فروری تک رہے گا ۔ ہم 20 نومبر کو گئے۔ اس میں کچھ دکانیں شروع ہو چکی تھی ۔ اس میں وطنِ عزیز کا بھی ایک بڑا حصہ تھا جس میں قالین ۔ پارچہ جات اور برتنوں کی دکانیں کچھ لگ چکی تھیں باقی سامان آ رہا تھا ۔ اس حصہ کا ماتھا بہت خوبصورت تھا ۔ لاہور کے قلعہ کی شکل بنائی گئی ہے ۔ اس کے سامنے ہی پاکستان کے کھانوں کی دکانیں ہیں بشمول راوی ۔ بندو خان وغیرہ

ان مراکز کی خصوصیات

زیادہتر مراکز کا رقبہ میرے خیال کے مطابق ایک کلو میٹر سکوائر یازیادہ ہے
مرکز کے ساتھ دو سے تین منزلہ پارکنگ کا علاقہ ہوتا ہے جس میں سینکڑوں گاڑیاں کھڑا کرنے کی گنجائش ہوتی ہے
ان میں انسان کی ضرورت کی تقریباً ہر شٔے ملتی ہے شرط جیب بھری ہونا ہے یا بغیر حد کےکریڈٹ کارڈ
سوائے الیکٹریکل اور الیکٹرانکس کے سامان کے ہر چیز وطنِ عزیز کی نسبت مہنگی ہے
ہر قسم کے آدمی کیلئے کھانا کھانے کا بندوبست ہے
زائرین کیلئے مناسب تفریح اور بچوں کی دلچسپی کا سامان موجود ہے
فضا کو صحتمند رکھنے کیلئے فوارے یا آبشار یا نہر ۔ بعض نہروں میں کِشتی چلتی جس سے زائرین لُطف اندوز ہوتے ہیں
کسی کسی مرکز میں ایک چھوٹا سا حصہ ہوتا جس پر واضح طور پر لکھا ہوتا ہے غیرمُسلموں کیلئے
آرام کرنے کیلئے راہداریوں میں صوفے یا بینچ پڑے ہوتے ہیں
کچھ میں سینما ہاؤس ہوتا ہے جہاں سارا دن فلمیں دکھائی جاتی ہیں ۔ ان کے سامنے ٹکٹ خریدنے والوں کی ہر وقت قطاریں لگی رہتی ہیں

زائرین میں لباس کے لحاظ سے غنیم ترین سے مِسکین ترین عورتیں ہوتی ہیں ۔ غنیم ترین یعنی سر سے پاؤں تک مکمل ڈھکی ہوئی اور مِسکین ترین جن بیچاریوں نے ایک یا آدھی بنیان اور کچھہ یا چڈی پہنی ہوتی ہے

ان مراکز کی ایک اہم اور دل خوش کُن خصوصیت یہ ہے کہ عورتوں اور مردوں کیلئے نماز پڑھنے کا علیحدہ علیحدہ انتظام ہے اور ہر نماز کی اذان پورے مرکز اور پارکنگ ایریا میں واضح طور پر سنائی دیتی ہے ۔ مرکز کی وسعت کی وجہ سے سب لوگ ایک وقت پر مسجد میں نہیں پہنچ سکتے اسلئے جماعت کئی بار ہوتی ہے ۔ نماز پڑھنے والوں میں میرے جیسے بھی ہوتے ہیں اور جینز اور ٹی شرٹ پہننے والے بھی ۔ میری بیگم نے بتایا کہ عورتوں کی مسجد میں بہت سے عبایہ اور رومال رکھے ہوتے ہیں ۔ جو عورتیں انگریزی لباس میں ہوتی ہیں وہ نماز کے وقت پہن لیتی ہیں

ایک دن بیٹا کہنے لگا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ داخلہ فیس والے ساحلِ سمندر کے بالکل ایک طرف جا کر شریفانہ طریقہ سے تفریح کے ساتھ دوپہر کا کھانا کھایا جا سکتا ہے ۔ ایک جمعہ کو نماز کے بعد روانہ ہوئے اور اس جگہ پہنچ گئے ۔ فیس کی ادائیگی کے بعد داخل ہو کر آخری سِرے پر کار پارک کی اور چٹائیاں اُٹھا کر ساحل کی طرف چل پڑے ۔ ساحل کے قریب پہنچ کر لوہے کی چادر سے بنی دیوار کے قریب براجمان ہو گئے ۔ بیٹا ۔ بیٹی اور بہو بیٹی کھانا لینے چلے گئے ۔ اُس وقت سمندر کے ہمارے سامنے والے حصہ میں چار پانچ کالی اور گوری عورتیں نہا رہیں تھیں تو ہم منہ خُشکی کی طرف کر کے بیٹھ گئے ۔ شاید اُنہیں اس کا احساس ہو گیا اور وہ کچھ دیر بعد وہاں سے دور چلی گئیں اور گویا ہم آزاد ہو گئے یعنی سمندر کی طرف منہ کر کے سمندر کی لہروں ۔ اس میں چلتی کِشتیوں اور سکیٹس [Skates] کا نظارہ کرنے لگے ۔
عجائب گھر

بقیہ تصاویر کیلئے تھوڑا سا انتظار کیجئے ۔

سڑکوں اور عمارتوں کی دنیا

دسمبر 2008ء کے پہلے ہفتے میں دبئی کی میری دوسری سیاحت کا حال لکھنا شروع کیا تھا لیکن دوسرے اہم مسائل نے آگے نہ بڑھنے دیا

سڑکیں
دبئی میں پہلی چیز جو ہمیں نظر آئی وہ کشادہ اور دو سے چار رویہ اور کبھی اُوپر نیچے ہو کر چھ رویہ سڑکیں ہیں جن پر سینکڑوں کاریں ہر وقت دوڑ رہی ہوتی ہیں اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ سب اِدھر سے اُدھر جا کر واپس آ رہی ہیں اور یونہی دن گذار دیتی ہیں ۔ اس سب کے باوجود کسی کسی علاقہ میں پیدل چلنے والا ۔ کار سواروں سے پہلے منزلِ مقصود پر پہنچ جاتا ہے ۔ مگر میں نے پیدل چلنے کی سعی اسلئے نہ کی کہ کہیں ان کاروں اور سڑکوں میں گم ہو گیا تو لواحقین کم از کم چند گھنٹے پریشان رہیں گے ۔ میں بیگم اور بیٹی کو خوش ہونے کیلئے دبئی لے گیا تھا پریشان ہونے کیلئے نہیں ۔

ایک منظر پریشان کُن تھا کہ کئی سڑکوں کو کشادہ کرنے کی کوشش میں فی الحال روکاوٹیں کھڑی کر کے اُنہیں تنگ کر دیا گیا ہے ۔ اس کے علاوہ میٹرو ٹرین چلانے کیلئے اُس کی معلق [Over-head] گذرگاہ زیرِتعمیر ہے جو سڑکوں کی کشادگی کو محدود کئے ہوئے ہے ۔

عمارات

دبئی میں جو دوسری چیز ہمیں نظر آئی وہ وہاں کی بلند و بالا عمارات ہیں جن کی بلندی دیکھنے کی کوشش میں سر سے پگڑی گِر جائے ۔ عمارات قسم قسم کی نِت نئی اشکال کی ہیں جو انجنیئرز اور آرکیٹیکٹ صاحبان کی کرامات کا مظہر ہیں ۔ سمندر کے اندر کھجور کے درخت سے ملتی زمین بنا کر اس پر ایک شہر بسا دیا گیا ہے جس کا نام النخلہ جمیرہ [Jumeirah Palm Island] ہے اس مصنوعی جزیرے کو ایک پُل کے ذریع دبئی سے ملا دیا گیا ہے ۔ سننے میں آیا ہےکہ ایسے دو اور مصنوعی جزیرے بنانے کا منصوبہ ہے ۔

تمام عمارات کے اندر کافی جگہ گاڑیاں پارک کرنے کیلئے ہے تاکہ متعلقہ عمارت میں رہائش پذیر یا اس میں بنے دفاتر میں کام کرنے والوں کو اپنی گاڑیاں پارک کرنے کی پریشانی نہ ہو ۔ ان پارکنگ کی جگہوں میں عام طور پر مہمانوں کو گاڑی کھڑی کرنے کی اجازت نہیں جس کی وجہ سے مہمان کو اگر عام پارکنگ میں جگہ نہ ملے تو وہ بہت پریشانی کا شکار ہو سکتا ہے ۔ عام طور پر مراکز للتسویق [Shopping Malls] اور کچھ دوسری جگہوں پر بلامعاوضہ پارکنگ ہے اور کچھ جگہوں پر معاوضہ دینا ہوتا ہے ۔ کچھ مراکز للتسویق میں بلامعاوضہ پارکنگ کی شرط ہے کہ کم از کم 100 درہم کا سودا خریدا جائے





پینڈُو گیا دبئی

کراچی اور لاہور کے مقابلہ میں اسلام آباد ایک دہ یعنی گاؤں جسے پنجابی میں پِنڈ کہتے ہیں سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا چنانچہ اسلام آباد کا باشندہ دیہاتی ہوا جسے پنجابی میں پینڈُو کہتے ہیں ۔ قصہ مختصر یہ کہ اسلام آباد کا باشندہ یعنی خاکسار 24 اکتوبر کی صبح مع اہلِ خانہ دبئی روانہ ہوا اور 22 نومبر کو رات گئے واپس پہنچا ۔ کوئی پوچھے کہ اس افراتفری کے زمانہ میں ہمیں دبئی سدھارنے کی کیوں سُوجھی تو جناب ہمارا چھوٹا بیٹا جو ہمارے ساتھ ہی رہ رہا تھا اسی سال فروری میں دبئی چلا گیا جہاں اُسے بنک میں منیجر کی اسامی کی پیشکش ہوئی تھی اور اُس نے وطنِ عزیز کی افراتفری کی وجہ سے قبول کر لی تھی ۔

بیٹے نے جانے سے قبل وعدہ لیا تھا کہ وہ رہائش کا بندوبست کر کے جب کار خرید لے گا تو ہمیں اُس کے پاس دبئی جانا ہو گا ۔ رہائش کا بندو بست ہو گیا تو وہ ڈرائیونگ کی از سرِ نو تربیت حاصل کرنے میں لگ گیا کیونکہ وہاں پاکستان کا ڈرائیونگ لائسنس نہیں مانا جاتا اور وہاں تربیت لینا بھی ضروری ہے ۔ لائسنس ملنے کے بعد اس نے اقساط پر کار خریدی تو جون کا مہینہ شروع ہو چکا تھا ۔ بیٹے نے تقاضہ شروع کر دیا کہ پہنچیں ۔ میں مارچ اپریل 1975ء میں 15 دن کیلئے متحدہ عرب امارات کے حکمرانوں کا مہمان ہوا تھا اور اچھی طرح یاد تھا کہ کار ۔ ہوٹل یا سرکاری دفتر سے نکلتے ہوئے چند لمحے جو کھلی فضا میں ہوتے تھے یوں محسوس ہوتا تھا کہ تنّور یا تندور میں سے گذرے ہیں سو میں سخت گرمی کا بہانہ کرتا رہا جون جولائی اسی طرح گذرا ۔ اگست میں قریبی عزیزوں میں ایک شادی آ گئی ۔ پھر رمضان المبارک شروع ہو گیا ۔ عید الفطر کے بعد بڑا بیٹا زکریا مع بیگم اور ننھی بچی کے 15 دن کیلئے آ گیا ۔ ان کے واپس جانے کے چند دن بعد ہم روانہ ہوئے ۔

اسلام آباد ایئرپورٹ پہنچے ۔ پہلے باہر کے پھاٹک [gate] پر ہماری پڑتال ہوئی ۔ پھر عمارت کے دروازے پر ہماری پڑتال ہوئی ۔ آگے بڑھے تو سامان مشین میں سے گذارہ گیا اور ہماری تلاشی لی گئی ۔ خیر خیریت سے نکل جانے پر اللہ کا شکر ادا کر رہے تھے ایک بار پھر کاغذات کی پڑتال کیلئے قطار میں لگنا پڑا ۔ کوئی بیس پچیس لوگ ہم سے آگے تھے ۔ ہمیں اُس وقت اپنی بزرگی پر فخر ہوا جب ایک آفیسر نے ہمیں قطار میں سے نکال کر کاغذات دیکھے اور دوسرے نمبر پر بورڈنگ کارڈ لینے کیلئے بھیج دیا ۔ بورڈنگ کارڈ ملا تو تسلّی ہوئی کہ اب روانگی ہو سکتی ہے لیکن ابھی ایک اور تلاشی ہونا باقی تھی امیگریشن والوں سے ۔ بیوی اور بیٹی کو کیبن میں سے گذارہ گیا اور مجھے پتلون کی بیلٹ اُتار کر دروازے میں سے گذرنے کو کہا گیا ۔ خیریت سے تمام مراحل عبور کرنے پر اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کا شُکر ادا کیا اور اوپر جا کر ہوائی جہاز کی روانگی کا انٹظار کرنے لگے ۔

ہم نے اتحاد ایئر لائین کا ٹکٹ لیا تھا جو ابوظہبی جاتی ہے اور وہاں سے بلامعاوضہ کوچ پر دبئی پہنچانا ایئر لائین والوں کے ذمہ ہوتا ہے ۔ وجہ ظاہر ہے دولت کی بچت ۔ دبئی پہنچنے پر ہم امیگریشن ڈیسک پر پہنچے ۔ اُنہوں نے ہیں آنکھ کے سکین [eye scan] کیلئے بھیج دیا جہاں باقی مرد عورتوں کی آنکھوں کا بھی سکین ہو رہا تھا ۔ وہاں بھی میری بزرگی کام آئی اور صرف میری آنکھ کا سکین کئے بغیر پاسپورٹ پر مُہر لگا دی گئی ۔ واپس ہوئے جہاں دو مرد اور دو عورتیں کام کر رہے تھے ۔ تین کاؤنٹروں میں سے ہر ایک کے سامنے دس بارہ لوگ تھے ۔ ایک عورت کے سامنے صرف ایک آدمی تھا تو جلدی فارغ ہونے کی غرض سے ہم اس کے سامنے کھڑے ہو گئے ۔ اس کا شاید اس کام میں پہلا دن تھا ۔ جتنی دیر میں ہم فارغ ہوئے باقی تینوں کاؤنٹرز کے سب لوگ جا چکے تھے ۔

بہرکیف باہر نکلے کہ معلوم کریں کوچ کہاں سے جائے گی تو بیٹے کو سامنے کھڑے پایا اور اللہ کا شکر ادا کیا ۔ اس کے ساتھ کار میں بیٹھے اور دبئی کی طرف روانہ ہوئے ۔ ایک گھنٹہ میں گرینز [دبئی] پہنچ گئے ۔ یہ نیا علاقہ ہے اور ابوظہبی سے پرانے شہر دبئی کی نسبت زیادہ قریب ہے

6 نومبر کا قتل عام ۔ دوسری قسط

پہلے واقع کے تین دن بعد يعنی 9 نومبر کو ایک ادھیڑ عمر اور ایک جوان خاتون اور ایک سترہ اٹھارہ سال کی لڑکی آئے ۔ جوان خاتون کی گردن میں پچھلی طرف ایک انچ چوڑا اور کافی گہرا زخم تھا جس میں پیپ پڑ چکی تھی ۔ یہ لوگ جموں میں ہمارے محلہ دار تھے ۔ لڑکی میرے ہم جماعت لڑکے ممتاز کی بڑی بہن تھی جوان خاتون اُس کی بھابھی اور بڑی خاتون اُس کی والدہ تھیں ۔ اُن کا پورا خاندان 6 نومبر والے قافلہ میں تھا ۔ انہوں نے دیکھا کہ جوان لڑکیوں کو اُٹھا کر لے جا رہے ہیں ۔ وہ بس سے نکل بھاگے ۔ ممتاز کی بھابھی اور دونوں بہنوں نے اغواء سے بچنے کے لئے نہر میں چھلانگیں لگائیں ۔ چھلانگ لگاتے ہوئے ایک کافر نے نیزے سے وار کیا جو بھابھی کی گردن میں لگا ۔ خون کا فوارہ پھوٹا اور وہ گر کر بیہوش ہوگئی ۔ پھر گولیاں چلنی شروع ہو گئیں ۔ ممتاز کی والدہ گولیوں سے بچنے کے لئے زمین پر لیٹ گئیں اس کے اُوپر چار پانچ لاشیں گریں اُس کی ہڈیاں چٹخ رہی تھیں مگر وہ اُسی طرح پڑی رہی ۔ اُس نے دیکھا کہ ایک بلوائی نے ایک شیرخوار بچے کو ماں سے چھین کر ہوا میں اُچھالا اور نیزے سے ہلاک کر دیا ۔

شور شرابا ختم ہونے پر اُس خاتون کو خیال ہوا کہ بلوائی چلے گئے ۔ بڑی مشکل سے اُس نے اپنے آپ کو لاشوں کے نیچے سے نکالا اور اپنے پیاروں کو ڈھونڈنے لگی ۔ لاشوں پر اور اپنی بے چارگی پر آنسو بہاتی رہی ۔ اچانک بہو اور بیٹیوں کا خیال آیا اور دیوانہ وار نہر کی طرف بھاگی ۔ بہو نہر کے کنارے پڑی ملی اس کے منہ میں پانی ڈالا تو اس نے آنکھیں کھولیں ۔ تھوڑی دیر بعد بڑی بیٹی آ کر چیختی چلّاتی ماں اور بھابھی کے ساتھ لپٹ گئی ۔ اُس نے بتایا کہ چھوٹی بہن ڈوب گئی ۔ وہ نہر کی تہہ میں تیرتی ہوئی دور نکل گئی تھی اور واپس سب کو ڈھونڈنے آئی تھی ۔

ماں بیٹی نے زخمی خاتون کو سہارا دے کر کھڑا کیا اور اس کے بازو اپنی گردنوں کے گرد رکھ کر چل پڑے ۔ ایک نامعلوم منزل کی طرف ۔ رات ہو گئی تو جنگلی جانوروں سے بے نیاز وہیں پڑ رہیں ۔ صبح ہوئی تو پھر چل پڑیں ۔ چند گھنٹے بعد دور ایک کچا مکان نظر آیا ۔ بہو اور بیٹی کو جھاڑیوں میں چھپا کر بڑی خاتون مکان تک گئی ۔ کھانے کو کچھ نہ لائی ۔ جیب خالی تھی اور مانگنے کی جرأت نہ ہوئی ۔ جموں چھاؤنی کا راستہ پوچھا تو پتا چلا کہ ابھی تک سارا سفر غلط سمت میں طے کیا تھا ۔ چاروناچار اُلٹے پاؤں سفر شروع کیا ۔ بھوک پیاس نے ستایا تو جھاڑیوں کے سبز پتے توڑ کے کھا لئے اور ایک گڑھے میں بارش کا پانی جمع تھا جس میں کیڑے پڑ چکے تھے وہ پی لیا ۔ چلتے چلتے پاؤں سوج گئے ۔ مزید ایک دن کی مسافت کے بعد وہاں پہنچے جہاں سے وہ چلی تھیں ۔ حد نظر تک لاشیں بکھری پڑی تھیں اور ان سے بدبو پھیل رہی تھی ۔ نہر سے پانی پیا تو کچھ افاقہ ہوا اور آگے چل پڑے ۔ قریب ہی ایک ٹرانسفارمر کو اُٹھائے ہوئے چار کھمبے تھے ۔ ان سے ایک عورت کی برہنہ لاش کو اس طرح باندھا گیا تھا کہ ایک بازو ایک کھمبے سے دوسرا بازو دوسرے کھمبے سے ایک ٹانگ تیسرے کھمبے سے اور دوسری ٹانگ چوتھے کھمبے سے ۔ اس کی گردن سے ایک کاغذ لٹکایا ہوا تھا جس پر لکھا تھا یہ ہوائی جہاز پاکستان جا رہا ہے ۔

چار ہفتوں میں جو 6 نومبر 1947 کی شام کو ختم ہوئے بھارتی فوج ۔ راشٹریہ سیوک سنگ ۔ ہندو مہا سبھا اور اکالی دل کے مسلحہ لوگوں نے صوبہ جموں میں دو لاکھ کے قریب مسلمانوں کو قتل کیا جن میں مرد عورتیں جوان بوڑھے اور بچے سب شامل تھے ۔ سینکڑوں جوان لڑکیاں اغواء کر لی گئیں اور لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کو پاکستان کی طرف دھکیل دیا ۔ تیس ہزار سے زائد مسلمان صرف نومبر کے پہلے چھ دنوں میں ہلاک کئے گئے ۔

نام نہاد امن کے پجاریوں نے چند گھنٹوں میں ایک لاکھ مسلمان قتل کئے

آج کے دن سیکولرزم کا پرچار کرنے والوں نے دنیا کی تاریخ کی بدترین خونی تاریخ رقم کی ۔ ریاست جموں کشمیر کے ضلع جموں کی صرف ایک تحصیل جموں توی میں ایک لاکھ سے زائد مسلمان مرد عورتیں جوان بوڑھے اور بچے صرف چند گھنٹوں میں تہہ تیغ کر دئیے اور نعرہ لگایا کہ ہم نے ان کا پاکستان بنا دیا ہے

وسط اکتوبر 1947 عیسوی کو مجھے اور میری دو بہنوں کو ہمارے ہمسایہ کے خاندان والے اپنے ساتھ جموں چھاؤنی ستواری لے گئے تھے ۔ ہمارے ساتھ اس کوٹھی میں کوئی بڑا مرد نہیں رہ رہا تھا ۔ ہم کل 5 لڑکے تھے ۔ سب سے بڑا 18 سال کا اور سب سے چھوٹا میں 10 سال کا ۔ نلکے میں پانی بہت کم آتا تھا اس لئے 6 نومبر 1947 عیسوی کو بعد دوپہر ہم لڑکے قریبی نہر پر نہانے گئے ۔ ہم نے دیکھا کہ نہر کے پانی میں خون کے لوتھڑے بہتے جا رہے ہیں ۔ ہم ڈر گئے اور اُلٹے پاؤں بھاگے ۔ ہمارے واپس پہنچنے کے کوئی ایک گھنٹہ بعد کسی نے بڑے زور سے دروازہ کھٹکھٹایا ۔ جونہی کُنڈی کھولی ایک 6 فٹ کا نوجوان دروازے کو دھکا دیکر اندر داخل ہوا ۔ سب مر گئے کہہ کر اوندھے منہ گرا اور بیہوش ہو گیا ۔ اسے سیدھا کیا تو لڑکوں میں سے کوئی چیخا “بھائی جان ؟ کیا ہوا ؟” اُس کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے ۔ وہ ہوش میں آ کر پھر چیخا سب مر گئے اور دوبارہ بیہوش ہو گیا ۔ وہ لڑکا خاتون خانہ کے جیٹھ اور ہمارے ساتھی لڑکوں کے تایا کا بیٹا تھا ۔

ہوش میں آنے پر اُس نوجوان نے بتایا کہ ہمارے جموں سے نکلنے کے بعد گولیاں چلتی رہیں اور جو کوئی بھی چھت پر گیا کم ہی سلامت واپس آیا ۔ جموں کے نواحی ہندو اکثریتی علاقوں سے زخمی اور بے خانماں مسلمان جموں پہنچ رہے تھے اور مسلمانوں کے ہندوؤں سکھوں اور بھارتی فوج کے ہاتھوں بیہیمانہ قتل کی خبریں سنا رہے تھے ۔ جموں کے دو اطراف درجن سے زیادہ گاؤں جلتے رات کو نظر آتے تھے ۔ نیشنل کانفرنس کے کرنل ریٹائرڈ پیر محمد کی طرف سے 4 نومبر 1947 کو سارے شہر میں اعلان کیا گیا کہ جس نے پاکستان جانا ہے وہ پولیس لائنز پہنچ جائے وہاں بسیں پاکستان جانے کے لئے تیار کھڑی ہیں ۔ 24 اکتوبر 1947 کو مسلمانوں کی طرف سے جنگ آزادی کے شروع ہونے کی خبر بھی پھیل چکی تھی ۔ مسلمانوں نے سمجھا کہ یہ بندوبست مسلمان شہریوں کی حفاظت کے لئے ہے ۔ دوسرے مسلمانوں کے پاس راشن تقریبا ختم تھا ۔ سو جموں شہر کے مسلمان پولیس لائنز پہنچنا شروع ہو گئے ۔

بسوں کا پہلا قافلہ 5 نومبر کو روانہ ہوا اور دوسرا 6 نومبر کو صبح سویرے ۔ وہ نوجوان اور اس کے گھر والے 6 نومبر کے قافلہ میں روانہ ہوئے ۔ جموں چھاؤنی سے آگے جنگل میں نہر کے قریب بسیں رُک گئیں وہاں دونوں طرف بھارتی فوجی بندوقیں اور مشین گنیں تانے کھڑے تھے ۔ تھوڑی دیر بعد جے ہند اور ست سری اکال کے نعرے بلند ہوئے اور ہزاروں کی تعداد میں مسلحہ ہندوؤں اور سکھوں نے بسوں پر دھاوہ بول دیا ۔ جن مسلمانوں کو بسوں سے نکلنے کا موقع مل گیا وہ اِدھر اُدھر بھاگے ان میں سے کئی بھارتی فوجیوں کی گولیوں کا نشانہ بنے اور بہت کم زخمی یا صحیح حالت میں بچ نکلنے میں کامیاب ہو ئے ۔ وہ جوان اور اس کے گھر والے بس کے دروازے کے پاس بیٹھے تھے اس لئے بس سے جلدی نکل کر بھاگے کچھ نیزوں اور خنجروں کا نشانہ بنے اور کچھ گولیوں کا ۔ اس جوان نے نہر میں چھلانگ لگائی اور پانی کے نیچے تیرتا ہوا جتنی دور جا سکتا تھا گیا پھر باہر نکل کر بھاگ کھڑا ہوا ۔ کچھ دیر بعد اسے احساس ہوا کہ وہ جموں چھاؤنی سے دور بھا گ رہا تھا ۔ وہ اُلٹے پاؤں واپس بھاگنا شروع ہو گیا اور جس جگہ حملہ ہوا تھا وہاں پہنچ گیا ۔ حملہ آور جا چکے تھے ۔ اس نے اپنے گھر والوں کو ڈھونڈنا شروع کیا مرد عورت بوڑھوں سے لے کر شیرخوار بچوں تک سب کی ہزاروں لاشیں ہر طرف بکھری پڑی تھیں ۔ اسے اپنے والدین کی لاشیں ملیں ۔ اس کی ہمت جواب دے گئی اور وہ گر گیا ۔ ہوش آیا تو اپنے باقی عزیزوں کی لاشیں ڈھونڈنے لگا اتنے میں دور سے نعروں کی آوازیں سنائی دیں اور اس نے پھر بھاگنا شروع کر دیا ۔ نہر کے کنارے بھاگتا ہوا وہ ہمارے پاس پہنچ گیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ [جاری ہے]

سُہانہ خواب

خواب تین قسم کے ہوتے ہیں

ایک جو آدمی سوتے میں دیکھتا ہے اور عام طور پر بھول جاتا ہے
دوسرا جو آدمی جاگتے میں دیکھتا ہے اور وہ کم کم ہی پورے ہوتے ہیں
تیسرا وہ واقعہ جو گذر جانے کے بعد ایسے محسوس ہوتا ہے کہ ایک سُہانا خواب دیکھا تھا اور ایسے خواب کو خیال کے پردہ سیمیں پر دُہراتے رہنے کو جی چاہتا ہے

میرے پچھلے دو ہفتے ۔ دو گھنٹوں کی طرح بہت مصروف اور شاداں گذر گئے ۔ آج میں اِن دو ہفتوں کے ہر ایک لمحے کو یاد کر رہا ہوں اور سوچتا ہوں کہ کتنا حسِین کتنا سُہانہ خواب تھا ۔

میرا بڑا بیٹا زکریا ۔ بہو بیٹی اور میری پیاری پوتی امریکہ سے پونے تین سال بعد دو ہفتے کی چھٹی آئے تھے اور آج صبح صادق سے قبل واپس روانہ ہو گئے ۔ بیٹے اور بہو کی ہمارے پاس موجودگی بھی کچھ کم فرحان و شاداں نہ تھی لیکن میری پوتی جو ماشاء اللہ اب خوب بولنا سیکھ چُکی ہے کی پیاری پیاری باتوں اور معصوم کھیلوں نے ہمیں وقت کا پتہ ہی نہ چلنے دیا ۔ چوبیس گھنٹوں میں اٹھارا بیس گھنٹے جاگ کر بھی ہمیں تھکاوٹ محسوس نہ ہوئی ۔ اب اُن کے جانے کے بعد ایک ایک لمحہ گذارنا مُشکل ہو رہا ہے ۔

اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی اُنہیں جہاں رکھے شاد و آباد رکھے اور ہماری ملاقات کراتا رہے ۔ آمین یا رب العالمین آمین