آج کے دن سیکولرزم کا پرچار کرنے والوں نے دنیا کی تاریخ کی بدترین خونی تاریخ رقم کی ۔ ریاست جموں کشمیر کے ضلع جموں کی صرف ایک تحصیل جموں توی میں ایک لاکھ سے زائد مسلمان مرد عورتیں جوان بوڑھے اور بچے صرف چند گھنٹوں میں تہہ تیغ کر دئیے اور نعرہ لگایا کہ ہم نے ان کا پاکستان بنا دیا ہے
وسط اکتوبر 1947 عیسوی کو مجھے اور میری دو بہنوں کو ہمارے ہمسایہ کے خاندان والے اپنے ساتھ جموں چھاؤنی ستواری لے گئے تھے ۔ ہمارے ساتھ اس کوٹھی میں کوئی بڑا مرد نہیں رہ رہا تھا ۔ ہم کل 5 لڑکے تھے ۔ سب سے بڑا 18 سال کا اور سب سے چھوٹا میں 10 سال کا ۔ نلکے میں پانی بہت کم آتا تھا اس لئے 6 نومبر 1947 عیسوی کو بعد دوپہر ہم لڑکے قریبی نہر پر نہانے گئے ۔ ہم نے دیکھا کہ نہر کے پانی میں خون کے لوتھڑے بہتے جا رہے ہیں ۔ ہم ڈر گئے اور اُلٹے پاؤں بھاگے ۔ ہمارے واپس پہنچنے کے کوئی ایک گھنٹہ بعد کسی نے بڑے زور سے دروازہ کھٹکھٹایا ۔ جونہی کُنڈی کھولی ایک 6 فٹ کا نوجوان دروازے کو دھکا دیکر اندر داخل ہوا ۔ سب مر گئے کہہ کر اوندھے منہ گرا اور بیہوش ہو گیا ۔ اسے سیدھا کیا تو لڑکوں میں سے کوئی چیخا “بھائی جان ؟ کیا ہوا ؟” اُس کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے ۔ وہ ہوش میں آ کر پھر چیخا سب مر گئے اور دوبارہ بیہوش ہو گیا ۔ وہ لڑکا خاتون خانہ کے جیٹھ اور ہمارے ساتھی لڑکوں کے تایا کا بیٹا تھا ۔
ہوش میں آنے پر اُس نوجوان نے بتایا کہ ہمارے جموں سے نکلنے کے بعد گولیاں چلتی رہیں اور جو کوئی بھی چھت پر گیا کم ہی سلامت واپس آیا ۔ جموں کے نواحی ہندو اکثریتی علاقوں سے زخمی اور بے خانماں مسلمان جموں پہنچ رہے تھے اور مسلمانوں کے ہندوؤں سکھوں اور بھارتی فوج کے ہاتھوں بیہیمانہ قتل کی خبریں سنا رہے تھے ۔ جموں کے دو اطراف درجن سے زیادہ گاؤں جلتے رات کو نظر آتے تھے ۔ نیشنل کانفرنس کے کرنل ریٹائرڈ پیر محمد کی طرف سے 4 نومبر 1947 کو سارے شہر میں اعلان کیا گیا کہ جس نے پاکستان جانا ہے وہ پولیس لائنز پہنچ جائے وہاں بسیں پاکستان جانے کے لئے تیار کھڑی ہیں ۔ 24 اکتوبر 1947 کو مسلمانوں کی طرف سے جنگ آزادی کے شروع ہونے کی خبر بھی پھیل چکی تھی ۔ مسلمانوں نے سمجھا کہ یہ بندوبست مسلمان شہریوں کی حفاظت کے لئے ہے ۔ دوسرے مسلمانوں کے پاس راشن تقریبا ختم تھا ۔ سو جموں شہر کے مسلمان پولیس لائنز پہنچنا شروع ہو گئے ۔
بسوں کا پہلا قافلہ 5 نومبر کو روانہ ہوا اور دوسرا 6 نومبر کو صبح سویرے ۔ وہ نوجوان اور اس کے گھر والے 6 نومبر کے قافلہ میں روانہ ہوئے ۔ جموں چھاؤنی سے آگے جنگل میں نہر کے قریب بسیں رُک گئیں وہاں دونوں طرف بھارتی فوجی بندوقیں اور مشین گنیں تانے کھڑے تھے ۔ تھوڑی دیر بعد جے ہند اور ست سری اکال کے نعرے بلند ہوئے اور ہزاروں کی تعداد میں مسلحہ ہندوؤں اور سکھوں نے بسوں پر دھاوہ بول دیا ۔ جن مسلمانوں کو بسوں سے نکلنے کا موقع مل گیا وہ اِدھر اُدھر بھاگے ان میں سے کئی بھارتی فوجیوں کی گولیوں کا نشانہ بنے اور بہت کم زخمی یا صحیح حالت میں بچ نکلنے میں کامیاب ہو ئے ۔ وہ جوان اور اس کے گھر والے بس کے دروازے کے پاس بیٹھے تھے اس لئے بس سے جلدی نکل کر بھاگے کچھ نیزوں اور خنجروں کا نشانہ بنے اور کچھ گولیوں کا ۔ اس جوان نے نہر میں چھلانگ لگائی اور پانی کے نیچے تیرتا ہوا جتنی دور جا سکتا تھا گیا پھر باہر نکل کر بھاگ کھڑا ہوا ۔ کچھ دیر بعد اسے احساس ہوا کہ وہ جموں چھاؤنی سے دور بھا گ رہا تھا ۔ وہ اُلٹے پاؤں واپس بھاگنا شروع ہو گیا اور جس جگہ حملہ ہوا تھا وہاں پہنچ گیا ۔ حملہ آور جا چکے تھے ۔ اس نے اپنے گھر والوں کو ڈھونڈنا شروع کیا مرد عورت بوڑھوں سے لے کر شیرخوار بچوں تک سب کی ہزاروں لاشیں ہر طرف بکھری پڑی تھیں ۔ اسے اپنے والدین کی لاشیں ملیں ۔ اس کی ہمت جواب دے گئی اور وہ گر گیا ۔ ہوش آیا تو اپنے باقی عزیزوں کی لاشیں ڈھونڈنے لگا اتنے میں دور سے نعروں کی آوازیں سنائی دیں اور اس نے پھر بھاگنا شروع کر دیا ۔ نہر کے کنارے بھاگتا ہوا وہ ہمارے پاس پہنچ گیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ [جاری ہے]
آپ ابھی تک وہ پیراگراف والا کوڈ استعمال کر رہے ہیں؟ اب تو آپ کی اپنی ہوسٹنگ ہے۔ اپنے تھیم میں سیٹنگ کرا لیجیے تاکہ آپ کو ہر پیراگراف میں کوڈ نہ ڈالنا پڑے۔ کسی قابل شخص سے کہہ دیجیے یا مجھے بتائیے۔
فدوی صاحب
میرے بلاگ پر تبصرہ کرنے کا شکریہ ۔ آپ کی پیشکش کیلئے مشکور ہوں ۔ آجکل میں دبئی میں ہوں اور میرے پاس اردو لکھنے کی سہولت نہیں ہے سوائے جہاں اردو خود بخود لکھی جائے ۔ آج جب میں اپنی تحریرشائع کرنے لگا تو بجلی چلی گئ ۔ نتجہ آپ دیکھ چکے ہیں ۔ مصروفیت کی وجہ سے میں ابھی تک پورا سانچہ اردوا نہیں سکا ۔ اگر جلد نہ کر سکا تو آپ سے انشا اللہ رابطہ کروں گا ۔ انشا اللہ نومبر کے آخر تک واپس اسلام آباد چلا جاؤں گا ۔ پھر ہی آپ سے رابطہ ہو سکے گا
دبئی میں بجلی چلی گئی ؟ تعجب ہے اور حیرت بھی ـ
گوگل پر مجھے ایک لنک ملا جس نے عرصہ بعد آپ کے بلاگ تک پہنچایا ـ
ایک دفعہ میں پنجاب (بھارت) گیا تھا جہاں 110 سالہ ایک بزرگ جو نہر کے سامنے کھڑے رو رہے تھے، ماجرا پوچھنے پر بتایا:
اس نہر کا پانی 1947ء میں پوری طرح لال رنگ کا ہوگیا تھا پورے پانی میں خون کی بو آرہی تھی، ہر طرف لاشیں ہی لاشیں ـ ـ اور پھر یہ بزرگ زار و قطار روئے جا رہے تھے اور کہہ رہے تھے:
“یہ کسی ہندو مسلمان کا خون نہیں، بلکہ انسانوں کا خون ہے جس کے ذمہ دار خون انسان ہیں” ـ
* خود انسان ہیں” –
شعیب صاحب
خوش آمدید
پورے دبئی کی نھیں صرف گرینز کے کچھ حصہ کی بجلی تین گھنٹوں کیلئے بند ہوئی تھی ۔
ان بزرگ صاحب نے درست کہا ۔ انسان واقعی درندوں سے زیادہ ظالم ہے ۔ امریتا پریتم کی نظم تو آپ نے پڑھی ہوگی
انکل اِسے کب مکمل کریں گے؟؟؟؟
نئی نسل (ہمارے لئے بھی( آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے!!!
کاش کہ اس وقت مسلمانوں میں اتنی ہمت ہوتی کہ اس طرح کے حملوں کا جواب دے سکتے۔ پھر اس تمام جانی نقصان کی نوبت ہی نہ آتی۔
ویسے آپ کو اگر ابھی تک خبر نہ ہوئی ہو تو بتا دوں کہ ایک نیا نستعلیق فانٹ حال ہی میں “علوی نستعلیق” کے نام سے شائع ہوا ہے۔ اگر یہاں پر بھی لگا دیں تو اچھا ہوگا۔ فانٹ کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے لیے اس پتے سے ڈاؤن لوڈ کر لیں۔
http://www.urduweb.org/mehfil/downloads.php?do=file&id=167
شعیب صفدر صاحب
یہاں دبئی میں میرے پاس براہ راست اردو لکھنے کا طریقہ نہیں ہے اسلئے اردو لکھنے میں بہت وقت لگ رہا ہے ۔ انشا اللہ کل یعنی 8 نومبر کو 6 نومبر 1947 عیسوی کے واقعہ کا باقی حصہ شائع کروں گا
محمد سعد صاحب
مسلمان آج کی نسبت ان دنوں زیادہ حوصلہ اور جذبہ رکھتے تھے ۔ جموں کے مسلمانوں کو غیر مسلح کر کے پھر دھوکھ سے مارا گیا ۔ آپ وقت نکال کر پڑھیئے ” تحریک آزادی جموں کشمیر”
https://theajmals.com/blog/?page_id=1031
اسلام علیکم۔
جزاک اللہ۔ آپ نے بہت اچھا کیا جو اس کو لکھنا شروع کیا، تاکہ ہماری اس نئی نسل کو یہ ضرور معلوم ہو کہ یہ ملک اور اس کی آزادی اتنی آسانی سے نہیں ملی، کہ ھم صرف یہ کہہ اور سن کر بری االذمہ ہوجائیں کہ جی پڑوسی ملک کے ساتھ تو ھمارا کوئی جھگڑا ہی نہیں۔
انشااللہ اس کے مکمل ہونے کا انتظار رہےگا۔ اللہ تعالی آپکی عمر اور صحت میں برکت عطا فرمائے۔ آمین۔
غلطی کی تصحیح کے لیے شکریہ۔
اور نستعلیق فانٹ کب لگا رہے ہیں؟ اس میں آپ کا بلاگ اور بھی بہتر نظر آئے گا۔ :smile:
Pingback: What Am I میں کیا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ » Blog Archive » 6 نومبر کا قتل عام ۔ دوسری قسط
جموں کے مسلمانوں کے ساتھ جو ہوا وہ ایک بھیانک داستان اور بر صغیر کے منہ پر کالک ہے۔ذند قومیں اور حرکی مکانیات پر نظر رکنے والے لوگ اپنے نقصانات کو اپنا اثاچہ اور ورثہ بنا لیتے ہیں۔کاش ہم اپنی نئی نسل کو یہ قیمتی ورثہ منتقل کرتے۔آج فراموشی اور خود فراموشی کو دور چلایا جا رہا ہے۔اپ نے بہت قیمت کام شروع کیا ہے۔دوسراں کو جلد شریک کیجئے گا۔
جزاک اللہ
Pingback: منظر نامہ » Blog Archive » نومبر 2008 کے بلاگ
Pingback: نومبر 2008 کے بلاگ | منظرنامہ