دسمبر 2008ء کے پہلے ہفتے میں دبئی کی میری دوسری سیاحت کا حال لکھنا شروع کیا تھا لیکن دوسرے اہم مسائل نے آگے نہ بڑھنے دیا
سڑکیں
دبئی میں پہلی چیز جو ہمیں نظر آئی وہ کشادہ اور دو سے چار رویہ اور کبھی اُوپر نیچے ہو کر چھ رویہ سڑکیں ہیں جن پر سینکڑوں کاریں ہر وقت دوڑ رہی ہوتی ہیں اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ سب اِدھر سے اُدھر جا کر واپس آ رہی ہیں اور یونہی دن گذار دیتی ہیں ۔ اس سب کے باوجود کسی کسی علاقہ میں پیدل چلنے والا ۔ کار سواروں سے پہلے منزلِ مقصود پر پہنچ جاتا ہے ۔ مگر میں نے پیدل چلنے کی سعی اسلئے نہ کی کہ کہیں ان کاروں اور سڑکوں میں گم ہو گیا تو لواحقین کم از کم چند گھنٹے پریشان رہیں گے ۔ میں بیگم اور بیٹی کو خوش ہونے کیلئے دبئی لے گیا تھا پریشان ہونے کیلئے نہیں ۔
ایک منظر پریشان کُن تھا کہ کئی سڑکوں کو کشادہ کرنے کی کوشش میں فی الحال روکاوٹیں کھڑی کر کے اُنہیں تنگ کر دیا گیا ہے ۔ اس کے علاوہ میٹرو ٹرین چلانے کیلئے اُس کی معلق [Over-head] گذرگاہ زیرِتعمیر ہے جو سڑکوں کی کشادگی کو محدود کئے ہوئے ہے ۔
عمارات
دبئی میں جو دوسری چیز ہمیں نظر آئی وہ وہاں کی بلند و بالا عمارات ہیں جن کی بلندی دیکھنے کی کوشش میں سر سے پگڑی گِر جائے ۔ عمارات قسم قسم کی نِت نئی اشکال کی ہیں جو انجنیئرز اور آرکیٹیکٹ صاحبان کی کرامات کا مظہر ہیں ۔ سمندر کے اندر کھجور کے درخت سے ملتی زمین بنا کر اس پر ایک شہر بسا دیا گیا ہے جس کا نام النخلہ جمیرہ [Jumeirah Palm Island] ہے اس مصنوعی جزیرے کو ایک پُل کے ذریع دبئی سے ملا دیا گیا ہے ۔ سننے میں آیا ہےکہ ایسے دو اور مصنوعی جزیرے بنانے کا منصوبہ ہے ۔
تمام عمارات کے اندر کافی جگہ گاڑیاں پارک کرنے کیلئے ہے تاکہ متعلقہ عمارت میں رہائش پذیر یا اس میں بنے دفاتر میں کام کرنے والوں کو اپنی گاڑیاں پارک کرنے کی پریشانی نہ ہو ۔ ان پارکنگ کی جگہوں میں عام طور پر مہمانوں کو گاڑی کھڑی کرنے کی اجازت نہیں جس کی وجہ سے مہمان کو اگر عام پارکنگ میں جگہ نہ ملے تو وہ بہت پریشانی کا شکار ہو سکتا ہے ۔ عام طور پر مراکز للتسویق [Shopping Malls] اور کچھ دوسری جگہوں پر بلامعاوضہ پارکنگ ہے اور کچھ جگہوں پر معاوضہ دینا ہوتا ہے ۔ کچھ مراکز للتسویق میں بلامعاوضہ پارکنگ کی شرط ہے کہ کم از کم 100 درہم کا سودا خریدا جائے
اجمل صاحب! دبئی کی خوب سیر کروا رہے ہیں۔
نخلہ جمیرہ تو میرے خیال میں تقریباً تیار ہے جبکہ ایک مصنوعی جزیرے کا نام غالباً نخلہ دیرہ ہے، تیسرے کا یاد نہیں، وہ بھی تعمیری مراحل میں ہیں۔ علاوہ ازیں ایک “The World” کے نام سے بھی مصنوعی مجموعۂ الجزائر (archipelago) بنا رہے ہیں۔ عمارتوں میں برج دبئی (دنیا کی بلند ترین عمارت) زیر تعمیر ہے جبکہ برج العرب کا تو کیا کہنا !!
۔۔۔۔۔۔ لیکن اس تمام امر کے باوجود مجھے افسوس رہتا ہے کہ پوری اسلامی دنیا کی معیشت کا سہارا دینے کو تو ان حکمرانوں کے پاس کچھ نہيں لیکن اپنی عیاشی کے لیے ان کے خزانوں کے منہ کھلے ہوئے ہیں۔
ابوشامل صاحب
سُننے میں آیا ہے کہ امریکہ کو معاشی بحران میں سے نکالنے کیلئے متحدہ امارات نے 287 ارب ڈالر اُن کے بنکوں میں جمع کرائے
یعنی میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی کم تھا۔ :sad:
محمد سعد صاحب
اللہ آپ کی کشتی کو تیرتا رکھے ۔ آپ کیوں پریشان ہو رہے ہیں ؟
میں اس بات پر پریشان ہو رہا ہوں۔
“سُننے میں آیا ہے کہ امریکہ کو معاشی بحران میں سے نکالنے کیلئے متحدہ امارات نے 287 ارب ڈالر اُن کے بنکوں میں جمع کرائے”
:sad:
محمد سعد صاحب
یہ بات مجھے دبئی میں معلوم ہوئی تھی ۔ بُش نے باقاعدہ متحدہ امارات سے درخواست کی تھی جس کے بعد خاموشی سے اس قدر رقم امریکہ کے بینکوں میں پہنچ گئی گو کہا جاتا ہے کہ یہ رقم ملکیت متحدہ امارات ہی رہی ۔
Pingback: What Am I میں کیا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ » Blog Archive » دبئی میں ہماری دوڑ دھوپ