Category Archives: آپ بيتی

پريشانی ۔ پھر گھر ميں رونق

ميری بيگم کی طبيعت چند دن کچھ سنبھی تو روبصحت ہونے کی اُميد بندھی تھی ۔ بُدھ بتاريخ 17 اگست 2011ء طبعيت پھر زيادہ خراب ہونا شروع ہوئی اور جمعرات کی صبح بہت زيادہ خراب ہو گئی ۔ ساڑھے 9 بجے بمُشکل کار ميں ڈالا اور ہسپتال کی طرف بھاگا جہاں 10 بجے آئی سی يو ميں داخل کر کے ہارٹ اور بلڈ پريشر مَونيٹر اور آکسيجن لگا دی گئی ۔ بيٹی کو ٹيليفون پر اطلاع دی ۔ وہ دفتر سے چھٹی کر کے پہنچ گئی

ہسپتال ميں مختلف دوائياں ڈرِپ کے ذريعہ دی جانے لگيں مُختلف ٹيسٹ کئے گئے ۔ 4 بجے بعد دوپہر ڈاکٹر سے اجازت لے کر واپس گھر لوٹے ۔ 8 ہفتوں ميں يہ چھٹی بار تھی جن ميں سے ايک بار 50 گھنٹے ہسپتال ميں رہی تھيں ۔ آئی سی يو ميں 1500 روپے فی گھنٹہ کے ساتھ ڈاکٹر کے ہر پھيرے کا 1000 روپيہ ۔ دوائيوں اور ٹيسٹوں کا خرچ الگ ہونے کی وجہ سے جب طبيعت کچھ سنبھل جائے تو ڈاکٹر گھر جانے کی اجازت دے ديتے ہيں

اس بار خيال کيا گيا کہ شايد دوائيوں کا ردِ عمل ہوا ہے جو 6 اگست کو پرانی بند کر کے نئی دی گئی تھيں چنانچہ وہ دوائياں بند کر کے کچھ نئی تجويز کی گئی ہيں ۔ ہميں پرائيويٹ ہسپتال ميں اسلئے جانا پڑ رہا ہے کہ سرکاری ہسپتال ميں اتنے زيادہ مريض ہوتے ہيں کہ علاج ميں تاخير کے سبب مريض کی حالت قابو سے باہر ہونے کا خدشہ ہوتا ہے ۔ اللہ سب پر اپنا کرم کرے

ميں نے بيگم کے يومِ پيدائش پر دعا کی درخواست کی تھی اور اللہ کی مہربانی سے بہت سے قارئين نے نيک دعاؤں سے نواز کر مجھے احسانمند کيا تھا

گھر ميں رونق

جمعہ 19 اگست 2011ء کو ميرا چھوٹا بيٹا ” فوزی ” مع ميری چھوٹی بہو بيٹی اور ميرے پيارے پوتے ” ابراھيم ” کے صبح سويرے دبئی سے اسلام آباد ہمارے پاس پہنچ گئے اور اِن شااللہ عيدالفطر کے بعد واپس جائيں گے ۔ ماشاء اللہ گھر ميں بہت رونق ہو گئی ہے

ابراھيم اپنے دادا ۔ دادی اور پھوپھو کے پاس آ کر بہت خوش ہے ۔ ابراھيم کی عمر 2 سال 3 ہفتے ہے اور کوئی کوئی لفظ بولتا ہے مگر دادا ۔ دادو ۔ پھوپھو ۔ نانا ۔ نانی ۔ ماموں اُس نے بہت جلد سيکھ ليا تھا ۔ ماشاء اللہ خوش مزاج بچہ ہے ۔ سب کا دوست ۔ مگر دادا کے ساتھ دوستی کچھ زيادہ ہے ۔ مجھے اِدھر اُدھر ہونے نہيں ديتا ۔ يہ فجر کی نماز کے بعد کا وقت ہے اور ابراھيم سويا ہوا ہے ورنہ ميں يہ لکھ نہ سکتا

بيگم اس متواتر سمجھ ميں نہ آنے والی بيماری اور پے در پے شديد حملوں کی وجہ سے بہت کمزور ہو چکی ہيں ۔ اُميد ہے کہ پوتے کی موجودگی اور پوتے کے دادی سے پيار کے نتيجہ ميں بيگم کی صحت پر اچھا اثر پڑے گا ۔ اللہ اپنا کرم فرماتے ہوئے انہيں جلد مکمل شفا اور تندرستی عطا فرمائے آمين

ہوشيار ۔ خبردار ۔ اور مدد درکار ہے

فدوی افتخار اجمل بھوپال ہر اُس آدمی سے معذرت خواہ ہے جسے لايعنی يا مخرب الاخلاق برقی چِٹھی [E-mail] فدوی کے نام سے ملی ہے ۔ ہر چند کہ يہ چِٹھياں فدوی کی رضا و رغبت يا رضامندی کے بغير ہر اُس شخص کو گئی ہيں جس کا پتہ ميرے ياہو کے حساب [Yahoo account] ميں موجود ہے ۔ فدوی کا اگر قصور ہے تو اتنا کہ فدوی اپنا وقت بہتر طريقہ سے استعمال کرنے کيلئے ايک کمپيوٹر استعمال کرتا ہے مگر يہ ناہنجار چِٹھياں چونکہ ميرے نام سے جا کر مکتوب عليہان کی دلآزاری کا باعث بنی ہوں گی اسلئے معذرت لازم سمجھی گئی

شيطان کا کام تو شيطانی کرنا ہی ہے مگر ايسا ميرے نام سے کيوں ہوا ؟

کمپيوٹر اور انٹرنيٹ استعمال کرنے والے کچھ معصوم لوگ شيطان کی موجودگی سے بے خبر اپنے تجسس کی تسکين کی خاطر اِدھر اُدھر ہاتھ مارتے رہتے ہيں جس کے نتيجہ ميں شيطان اُن کے کمپيوٹر ميں آ بيٹھتا ہے اور شرارتيں شروع کر ديتا ہے ۔ مجھ سے غلطی يہ ہوئی کہ ايک مانوس بلکہ قريبی نام سے چِٹھی آئی ۔ بظاہر اُس ميں کچھ نہيں تھا اور جواب طلب تھی ۔ اسلئے ميں نے جواب لکھ بھيجا ۔ گويا اپنے پاؤں پر کُلہاڑا مار ليا ۔ اگلے روز لايعنی چِٹھياں ميرے نام سے چلی گئيں ۔ تحقيق کے بعد معلوم ہوا کہ ميرا ياہو کا حساب چوری [hack] ہو گيا ہے

ميں نے ياہو کے حساب کا شناختی لفظ [Password] بدل ديا ہے مگر چوروں نے سائنس ميں ہم سے زيادہ ترقی کر لی ہے اسلئے مستقبل کے ہر لمحے سے ڈر لگتا ہے

اتنی لمبی روئيداد يا تمہيد پيش کرنے کے بعد درخواست ہے اہلِ عِلمِ کمپيوٹر و انٹرنيٹ سے کہ مجھ” دو جماعت پاس ناتجربہ کار شہر ميں نووارد ديہاتی” کی رہنمائی فرمائيں ۔ اور کوئی مُجرّب مگر سہل طريقہ شيطانوں کی ايسی شرارتوں سے محفوظ رہنے کا بتا کر ميری دعاؤں کے حقدار بنيں ۔ بڑے شيطانوں سے تو ہم اللہ کی پناہ مانگ ليتے ہيں مگر چھوٹے شيطان کسی طرح چين سے نہيں رہنے ديتے

يا حَیُّ یآ قیّوُم بِرَحْمَتِکَ آسْتَغِيث

ميں بہت احسانمند اور شکر گذار ہوں اُن قارئين کا جنہوں نے ميری بيگم کی جلد شفاء کيلئے دعا کی ہے ۔ اللہ کريم جزائے خير دے اور سب کو صحتمند ۔ خوش اور خوشحال رکھے ۔ آمين

کل يعنی رمضان المبارک کے پہلے جمعہ کو شام 6 بجے ميری بيگم کی طبيت پھر اچانک خراب ہوئی ۔ خون کا دباؤ تيزی کے ساتھ بہت زيادہ اور کم ہونے لگا ۔ دل کی دھڑکن کبھی بہت تيز ہو جاتی اور کبھی دل ڈوبتا ہوا محسوس ہوتا ۔ ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہو گئے ۔ سانس لينے ميں دقت ہونے لگی

اُسی وقت ہسپتال بھاگنے کے سوا چارہ نہ تھا ۔ ميں اور بيٹی نے کسی طرح سنبھال کر اُسے پورچ ميں کھڑی کار ميں لٹايا اور 10 منٹوں ميں ہسپتال پہنچے جہاں اُسے سيدھا سخت نگہداشت کے کمرے ميں ليجايا گيا ۔ نرس نے فوراً آکسيجن لگا کر مانيٹر بھی لگا ديا ۔ ميڈيکل کالج کے ايک پروفيسر ماہر امراضِ قلب سے رابطہ کيا اور ھدايات ليتی رہی ۔ دوا دارو بشمول ايک ٹيکہ کے کيا گيا ۔ سوا 9 بجے رات طبيعت سنبھلی تو واپس گھر آئے

21 جون سے اب تک يعنی 44 دنوں ميں يہ صورتِ حال پانچويں بار ہوئی ہے ۔ صرف اس بار نبض 50 سے نيچے نہيں گئی تھی ورنہ پہلے 30 تک چلی جاتی تھی ۔ ميں پورے خاندان بلکہ برادری اور دوستوں ميں بہت حوصلہ مند ۔ بُردبار اور باتدبير مشہور ہوں مگر ايسی صورتِ حال ميں ميری بردباری ۔ تحمّل اور عقل بيکار نظر آنے لگتے ہيں کيونکہ ميں صورتِ حال ميں کوئی بہتری پيدا کرنے سے معذور ہوتا ہوں

ہمدرد قارئين سے استدعا ہے کہ اللہ تعالٰی کے حضور ميں دعا کرتے رہيں کہ اللہ ہماری غلطياں معاف فرمائے اور سب مريضوں کو شفاء مرحمت فرمائے

ميرا خيال تھا کہ بيگم اس سال رمضان ميں اپنے پر زيادہ بوجھ نہ ڈالے مگر عادت بدلنا مشکل ہوتا ہے ۔ محلے کی چند خواتين کی فرمائش پر ہميشہ کی طرح عشاء کے وقت نماز تراويح کے ساتھ تفسير قرآن شريف شروع کر دی جس کا دورانيہ 2 گھنٹے سے کچھ اُوپر ہوتا ہے جو گذشتہ رات نہ ہو سکا ۔ دن ميں اپنے طور پر بھی تلاوت اور ملازمہ نئی رکھی ہے اُسے ھدايات بلکہ سر کھپانا ۔ ہمارے ہاں دی نيوز اور ڈان اخبار آتے ہيں جنہيں پڑھنا بھی لازمی سمجھتی ہے ۔ روزے نہيں رکھ رہی مگر نمازِ تہجد نہيں چھوڑتی ۔ اور پھر ميری فکر کہ سحری کو کھانا درست اور وقت پر مل جائے ۔ اللہ کی بندی کو سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں تو کہتی ہے “ميں کيا کرتی ہوں ؟ آپ زيادہ تھکتے ہيں اپنی صحت کا خيال نہيں رکھتے”۔ اس پر الفاظ ميرے حلق ميں پھنس کے رہ جاتے ہيں

ناقابلِ فراموش اور دعا کی درخواست

وہ 4 اگست کو مصر کے شہر قاہرہ میں پیدا ہوئی ۔ اُس کے والد صاحب کے آباؤ اجداد جس علاقہ میں رہتے تھے وہ 6 سال قبل پاکستان بن چکا تھا ۔ اُن کے دل میں پاکستان کی محبت نے زور کيا اور وہ سب کچھ چھوڑ کر 1953ء ميں پاکستان آ گئے
وہ پاکستان کی کوئی زبان نہ بول سکتی تھی اور نہ سمجھ سکتی تھی
اُردو پڑھ لکھ نہ سکنے کی وجہ سے اسے چوتھی جماعت میں داخل کیا گیا
اس نے محنت کی اور چند ماہ میں تھوڑی بہت اردو بولنے لکھنے لگی ۔ وہ سب امتحانات ميں کامياب ہوتی چلی گئی اور 1964ء ميں پنجاب یونیورسٹی سے بی ایس سی کی سند حاصل کر لی ۔ مگر اُردو بولتے ہوئے وہ ٹ ۔ چ ۔ ڈ ۔ ڑ ۔ چھ صحیح طرح نہیں بول سکتی تھی
وہ کم گو ۔ شرميلی اور صورت و سيرت کے حُسن سے آراستہ ہے

21 جون 2011ء کو شام 7 بجے اچانک اس کا خون کا دباؤ 186 ۔ 76 اور نبض 37 ہو گئی ۔ دل کی دھڑکن بہت تيز ہو گئی ۔ ہاتھ پاؤں سرد ہو گئے اور ٹھنڈے پسينے آنے لگے ۔ ايمرجنسی میں ايک رات ہسپتال گذاری ۔ طبيعت سنبھلنے پر واپس آ گئی ۔ چند دن بعد پھر ہسپتال کے سخت نگہداشت کے کمرے ميں 2 دن رہنا پڑا جہاں ہر قسم کے ٹيسٹ کئے گئے ۔ علاج شروع ہے مگر ابھی تک حال تسلی بخش نہيں ہے ۔ علاج کی خاطر زندگی ميں پہلی بار اُسے روزے چھوڑنا پڑ رہے ہيں جس کا اُسے بہت دُکھ ہے

نيک دل خواتين و حضرات سے التماس ہے کہ اُس کی جلد مکمل شفا يابی کيلئے دعا کريں

46 سال قبل 14 اگست کو اُس کی منگنی ميرے ساتھ کر دی گئی اور ہمارا ملنا ممنوع قرار دے ديا گيا ۔ گو پہلے بھی ہم کوئی خاص ملتے نہ تھے مگر يہ پابندی مجھے محسوس ہوئی
ميں لڑکيوں کے ساتھ روکھا پيش آيا کرتا تھا اور گفتگو ميں بھی روکھا پن ہوتا تھا مگر منگنی کے بعد غير محسوس طور پر ميری عادت بدلنے لگی
10 نومبر 1967ء کو ہماری شادی ہوئی ۔ وہ میرے گھر آئی تو اسے قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ۔ میرے دل میں اس کے لئے قدر اور محبت جاگی اور بڑھتی چلی گئی ۔ محبت و اُلفت کا يہ انداز نہ افسانوں ميں ملتا ہے نہ ناولوں ميں ۔ ايک راحت بخش مٹھاس ۔ ايک اطمينان بخش احساس ۔ ہمدردی جو الفاظ ميں بيان نہ کی جاسکے
اُس نے سُرخی پاؤڈر کا استعمال [make-up] ہميشہ غير ضروری سمجھا
اس کے ہاتھ سے پکے کھانے پاکستانی ہی نہیں چین ۔ مصر ۔ اٹلی اور ترکی کےبھی بہت اچھے اور مزے دار ہوتے ہيں۔ گلاب جامن ۔ رس ملائی ۔ سموسے اور کچھ عربی ميٹھے بھی بہت عمدہ بناتی ہے
کبھی کسی سے ناراض نہيں ہوتی ۔ دوسرا زيادتی کرے تو اس کا اثر بھی” رات گئی بات گئی” کے مصداق ہوتا ہے
پتہ چلے کہ عزيز و اقارب ميں کوئی آپس ميں ناراض ہيں تو صُلح کرا ديتی ہے ۔ اس کام کی ماہر سمجھی جاتی ہے
اپنے ملازمين اور دوسرے مساکين سے اُس کا برتاؤ نہائت مُشفقانہ رہا ہے
کوئی مزدور ۔ پلمبر ۔ اليکٹريشن يا مالی جو بھی گھر پر کام کرنے آئے ۔ اُجرت کے ساتھ اُسے شربت يا چائے بسکٹ يا کيک کے ساتھ۔ کھانے کا وقت ہو تو کھانا دينا اپنا فرض سمجھتی ہے ۔ پچھلے جمعہ ميں نے پلمبر کو کام کيلئے بُلايا تھا ۔ پہلے اُسے جامِ شيريں کا گلاس ديا ۔ پھر چائے کے ساتھ کچھ نہ تھا تو دودھ سويّاں اُسی وقت بنا کر ديں ۔ دوپہر کو کھانا اور جاتے وقت چائے پلا کر بھيجا

15 سال قبل اُس نے 12 ماہ پر محيط قرآن و سُنت کا زِيرک کورس کيا اور بچيوں اور خواتين کو قرآن شريف ناظرہ اور ترجمہ و تفسير کی تعليم شروع کی ۔ محلہ ميں لوگوں کی ذاتی ملازمائيں ۔ اُن کی بيٹياں اور اعلٰی تعليم يافتہ اور اعلٰی عہدوں پر فائز لوگوں کی بيوياں اور بيٹياں بھی قرآن شريف و ترجمہ پڑھنے آتی رہی ہيں
وہ میری ہر خوشی میں شامل رہی اور میرے غم میں میری ڈھارس بندھائی
ہمیشہ اس نے میرے آرام کا اپنے آرام سے زیادہ خیال رکھا ۔ جب ہم کراچی ميں رہائش پذير تھے تو 10 جنوری 2005ء کو ميرے شياٹيکا کے شديد درد ميں مبتلا ہونے کے دوران 3 ماہ اور پھر 28 ستمبر 2010ء کو حادثہ ميں ميرے زخمی ہونے سے لے کر ہپيٹائٹس سی ميں مبتلا ہونے اور بحالی صحت تک 8 ماہ ميری خوراک ۔ علاج ۔ آرام اور خوشی کا جس طرح خيال رکھا شايد ہی کوئی بيوی اپنے خاوند کا اس طور خيال رکھ سکتی ہو گی
وہ مجھ سے 2 دن کم 5 سال چھوٹی ہے
اُس کا نام والدين نے نوال رکھا جس کا مطلب ہے تحفہ ۔ عطيہ ۔ ھديہ ۔ اُس نے ميرے لئے اپنے نام کو سچ ثابت کيا ہے
[اُوپر والی تصوير شادی کے چند دن بعد کی ہے اور نيچے والی 28 ستمبر 2010ء کے حادثہ کے 20 دن بعد ميری پٹی کھُلنے کے بعد کی ۔ ساتھ ميرا بڑا بيٹا زکريا بيٹھا ہے]

مانگنے والے ۔ جو ياد رہ جاتے ہيں

مانگنے والوں کی لاتعداد اقسام ہوں گی ميں صرف اُن اچھے يا بُرے مانگنے والوں کی بات کر رہا ہوں جو اپنی کسی حرکت يا عمل کی وجہ سے ياد رہ جاتے ہيں ۔ اِن ميں بھيک مانگنے والے بھی ہيں اور مسجد کے نام پر مانگنے والے بھی ۔ پہلے ناپسنديدہ واقعات پھر وہ جو اپنے پيچھے ايک اچھا تاءثر چھوڑ گئے

ہم جھنگی محلہ راولپنڈی ميں رہتے تھے ۔ مغرب کے بعد ايک بہت مسکين اور نحيف آواز آتی “مائی جی ۔ روٹی”
ايک جھُکا ہوا آدمی اپنے سر اور جسم پر کمبل ڈالے ہوئے بھيک مانگ رہا ہوتا تھا ۔ ايک دن ميں مغرب کے بعد گھر واپس آ رہا تھا کہ يہی آواز ہماری گلی ميں سے سُنائی دی ۔ جب ميں اپنی گلی کی طرف مُڑا تو گلی ميں کوئی نہ تھا ۔ ميں حيران ہو کر واپس بھاگا اور اس جوان صحتمند کو ديکھا جو ايک لمحہ پہلے گلی سے نکل کر گيا تھا ۔ اگلے دن “مائی جی ۔ روٹی’ کی نحيف آواز آئی تو ميں گھر سے نکل کر جا کر وہاں کھڑا ہو گيا جہاں ہماری گلی بڑی گلی سے ملتی تھی ۔ جونہی وہ مانگنے والا اُسی طرح کمبل ڈالے نکلا ميں نے پيچھے سے کمبل پکڑ ليا ۔ اندر سے ہٹا کٹا جوان نکل آيا جو کمبل سنبھال کر بھاگ گيا ۔ اس دن کے بعد ہماری گلی ميں اُس کی آواز نہ آئی

ميں انجنيئرنک کالج لاہور ميں پڑھتا گھر سے کالج جانے کيلئے بس پر جا رہا تھا ۔ بس جہلم رُکی ۔ ميں بس سے نکل کر باہر کھڑا ہو گيا ۔ چند منٹ بعد ايک خانہ بدوش قسم کی جوان پلی ہوئی عورت آ کر بھيک مانگنے لگی ۔ کچھ فاصلے پر اسی کی طرح کی تين چار عورتيں اور تھيں ۔ خطرہ پہچانتے ہوئے ميں نے خيرات دينے کی بجائے “معاف کرو” کہا مگر وہ ميری تھوڑی پکڑ پکڑ کے مانگنے لگ گئی ۔ ميں وہاں سے ہٹ کر بس کے ساتھ لگ کے کھڑا ہوگيا ۔ وہ پيچھے آ گئی اور اتنی قريب کہ اگر ميں يکدم وہاں سے چلا نہ جاتا تو اس کی چھاتی کے اُبھار ميرے سينے سے ٹکراتے ۔ ميں بس کے اندر چلا گيا ۔ کنڈکٹر نے اُسے روک ديا اور کہنے لگا “يہ بے غيرت عورتيں ہيں اسی طرح جوان سواريوں کو تنگ کرتی ہيں

ہم 1994ء ميں اسلام آباد منتقل ہو گئے ۔ گيٹ کے باہر کی گھنٹی بجی ميں نے گھر کے اندر سے انٹرکام کا رسيور اُٹھايا ۔ آواز آئی “آپ خوش قسمت ہيں ۔ آپ سے ملنے کيلئے حضرت خود تشريف لائے ہيں”۔ ميں گيٹ پر پہنچا ۔ داڑھيوں والے 4 آدمی کھڑے تھے ۔ مدعا پوچھا تو کسی مسجد کيلئے چندہ مانگا ۔ ميں نے پوچھا “کونسی مسجد ؟” جواب ملا “يہ جی يہ ساتھ والی”۔ مزيد سوال پوچھنے پر جھوٹ ثابت ہو گيا مگر ان لوگوں کو کوئی شرمندگی نہ ہوئی

بالا کے برعکس

جب ہم 1964ء سے قبل جھنگی محلہ ميں رہتے تھے ايک آدمی صرف رمضان کے مہينہ ميں سحری کے وقت آواز لگاتا ” اللہ کے پيارو ۔ اللہ والو ۔ تيری بستی ميں بولتا سائیں نا”۔ بہت گرجدار مگر من بھاتی آواز ۔ وہ کچھ نہيں مانگتا تھا ۔ صرف ستائيسويں روزے کی سحری کے وقت کہتا “بابا اپنی بستی واپس جا رہا ۔ بابا کو کچھ دے دو”۔ ايک سحری کا مجھے ياد ہے کہ ہمارا دروازہ کھٹکھٹايا ۔ ميں باہر گيا تو کہا “سائيں بابا کو روزہ نہيں رکھواؤ گے ؟” ميں دوڑ کر اندر گيا ۔ جو پراٹھا اور سالن ميں نے کھانا تھا لا کر اُسے ديا ۔ وہ بولا ” مجھے پانی کا ايک گلاس بھی دے جاؤ ۔ پھر اپنا روزہ رکھو”۔ کئی سال وہ آتا رہا ۔ پھر ايک رمضان کا مہينہ آيا مگر سائيں بابا نہ آيا ۔ اگلے روز محلے ميں سب ايک دوسرے کو کہہ رہے تھے “سائیں بابا نہيں آيا ؟” کوئی نہيں جانتا تھا وہ سائيں بابا کہاں سے آتا تھا اور کہاں چلا گيا ۔ اُسے ديکھے 5 پانچ دہائياں ہونے کو ہيں مگر مجھے اُس کی شکل اب بھی ياد ہے اور اُس کی آواز اب بھی ميرے کانوں ميں گونجتی ہے

اسلام آباد ميں ايک مانگنے والی باقاعدہ 2 سے 6 ہفتے کے وقفے سے آتی ۔ کہتی “مدد کر ديں” ۔ ایک دن میں اُسے پيسے دينے گيا تو ديکھا تيس پينتيس سال عمر ہو گی ۔ ميلے کچيلے کپڑے ۔ چہرے پر تھکاوٹ اور پريشانی کے آثار ۔ ساتھ ايک کوئی 3 سال کی بچی اور ايک بچہ چند ماہ کا گود ميں جسے وہ اينٹی بائيوٹک شربت کی ايک خوراک پلا رہی تھی ۔ ميں نے پوچھا “ان بچوں کا باپ کہاں ہے ؟” بولی “نشہ کرتا ہے”۔ اسی حال ميں وہ کئی سال آتی رہی ۔ پيسے لے کر چلی جاتی ۔ جولائی 2009ء ميں ہم لاہور چلے گئے ۔ فروری 2011ء ميں واپس آئے ۔ جون کے شروع ميں ايک دن انٹرکام کی گھنٹی بجی ۔ ميں نے رسيور اُٹھايا ۔ ايک زنانہ آواز آئی “بچے يتيم ہيں ۔ مدد کر ديں”۔ ميں پيسے دينے گيا تو وہی عورت جو پہلے صرف “مدد کر ديں” کہتی تھی ۔ صاف ستھرے کپڑے ۔ چہرے پر پہلے جيسی ہوائياں نہيں اُڑ رہی تھيں ۔ بچے بھی ساتھ نہ تھے ۔ ميں نے پيسے ديئے ۔ وہ چلی گئی ۔ گيٹ سے واپس آتے ہوئے ميں نے سوچا “اس کا خاوند شايد اس کيلئے عذاب تھا ۔ مر گيا تو اس کا بوجھ ہلکا ہو گيا”

کچھ سال پيشتر ايک دن دوپہر کے ڈھائی بجے تھے ۔ گيٹ کی گھنٹی بجی ۔ رسيور اُٹھايا ۔ آواز آئی ” بھوکا ہوں بابا ۔ کھانا کھلا دو”۔ ميں پيسے لے کر باہر نکلا ۔ اُس نے پيسے لينے سے انکار کر ديا ۔ ميں نے کہا ” اس وقت روٹی يا چاول کچھ بھی نہيں ہے”۔ کہنے لگا “بابا ۔ 2 دن کی باسی ہو تو وہ لا دو”۔ ميں اندر گيا بيوی سے پوچھا “انڈے ہيں ؟” بولی “نہيں”۔ ميں نے کہا “اچھا روٹی پکوا دو يا پکا دو ۔ سالن ميں قريبی مارکيٹ سے لے آتا ہوں”۔ گوندھا ہوا آٹا بھی صرف ايک روٹی کا تھا ۔ ميں وہی لے کر باہر گيا ۔ اور مانگنے والے سے کہا “ميں ابھی بازار سے سالن لے کر آتا ہوں”۔ بولا “کہاں جاؤ گے ۔ بابا ۔ پانی لادو ميں پانی سے کھا لوں گا”۔ ساتھ والوں کا نوکر کھڑا سُن رہا تھا بولا “سر ۔ ميں ابھی اندر سے کچھ لے کر آتا ہوں”۔ وہ اچار سے بھری پيالی لے کر آ گيا ۔ بابا نے روٹی پر اچار اُنڈيل ليا ۔ کھا کر پانی پيا ۔ اللہ کا شکر ادا کيا اور بولا “بابا ۔ دو دن سے بھوکا تھا ۔ آج پيٹ ميں کچھ چلا گيا ۔ اللہ بھلا کرے”۔ ميں ديکھتا رہا ۔ وہ چلتا ہوا سيدھا گلی سے نکل گيا ۔ مجھے جب بھی وہ شخص ياد آتا ہے ميں آنسو بہائے بغير نہيں رہ سکتا

ہميں اللہ نے اتنی زيادہ نعمتيں دے رکھی ہيں ۔ ہم اللہ کا کتنا شکر ادا کرتے ہيں ؟ ايک وہ کہ 2 دن بعد ايک روٹی مل گئی تو شکر گذار ہوا اور مطمئن بھی

آيئے کچھ دير کيلئے سنجيدہ ہو جائيں

ميرے ہموطنوں کی اکثريت جن ميں حکمران بھی شامل ہيں سنجيدگی کو اپنے قريب نہيں آنے ديتی ۔ سنجيدہ ہوتے ہيں تو صرف اُس وقت جب اپنا ذاتی فائدہ ہو خواہ وہ ديرپا نہ ہو ۔ البتہ سنجيدہ موضوع پر غير سنجيدہ تبصرہ محبوب مشاغل ميں سے ايک ہے ۔ آيئے آج تھوڑی سی دير کيلئے سہی مگر سنجيدہ ہو کر سوچيں

سوال نمبر 1 ۔ پاکستان کے مختلف علاقوں ميں خود کُش حملے ہوتے ہيں تو نقصان کس کا ہوتا ہے ؟ اور کون ہلاک ہوتے ہيں ؟
سوال نمبر 2 ۔ پاکستان پر ڈرون حملے ہوتے ہيں تو نقصان کس کا ہوتا ہے ؟ اور کون ہلاک ہوتے ہيں ؟
سوال نمبر 3 ۔ کراچی ميں آئے دن لاشيں گرتی ہيں تو نقصان کس کا ہوتا ہے ؟ اور کون ہلاک ہوتے ہيں ؟
سوال نمبر 4 ۔ پاکستان کی پوليس يا رينجر يا فوج کاروائی کرتے ہيں تو نقصان کس کا ہوتا ہے ؟ اور کون ہلاک ہوتے ہيں ؟

مندرجہ بالا چاروں سوالات کا جواب ايک ہی ہے کہ نقصان پاکستان کا ہوتا ہے اور ہلاک بھی پاکستانی ہوتے ہيں

يہ کاروائی طالبان يا دہشتگردوں کی ہے يا طالبان نے اس کی ذمہ داری قبول کر لی ہے” کہہ دينے سے
کيا پاکستان کا نقصان پورا ہو جاتا ہے ؟
يا آئيندہ پاکستانی ہلاک ہونا بند ہو جاتے ہيں ؟
ايسا آج تک نہيں ہوا اور نہ ہونے کی توقع ہے

ابھی سنجيدہ ہی رہيئے

اپنے دماغ کو کھُرچئے اور دل کو ٹٹولئے اور بتايئے کہ
ہم کسے بيوقوف بنانے کی کوشش کر رہے ہيں ؟
اور کسے فائدہ پہنچا رہے ہيں ؟

ہم مانيں يا نہ مانيں ہم صرف اور صرف اپنے آپ کو بيوقوف ثابت کر رہے ہيں
اور اپنے اور اپنے مُلک کے دُشمنوں کو فائدہ پہنچا رہے ہيں
اُن دُشمنوں کو کاميابی سے ہمکنار کرنے کی کوشش کر رہے ہيں جو ہمارا وجود [پاکستان] کو قائم ہونے سے پہلے ہی اِسے نابُود کرنے پر تُل گئے تھے

کيا ہمارے متعلق يہ درست نہيں ؟ جو ايک فلسفی نے کہا تھا [ميں قوموں کے نام بدل کر لکھ رہا ہوں]

جب فلسطين پر غاصبانہ قبضہ ہوا تو ميں نے کہا ميرا اس سے کيا تعلق ميں تو فلسطينی نہيں ہوں
جب افغانستان پر ناجائز حملہ ہوا تو ميں نے کہا کہ مُلا عمر جانے ۔ اُسے اُس کے کرتُوت کا بدلہ مل رہا ہے
جب عراق پر حملہ ہوا تو ميں نے کہا صدام حسين تھا ہی بڑا جابر اور ظالم حُکمران ۔ اس کے ساتھ يہی ہونا تھا
جب لبيا پر حملہ ہوا تو ميں نے کہا کہ قذافی تو آمر ہے ۔ اپنے عوام پر 41 سال سے جمہوريت کی بجائے آمريت نافذ کی ہوئی ہے ۔ اس کے ساتھ ايسا ہی ہونا چاہيئے
جب ايبٹ آباد پر حملہ ہوا تو ميں نے کہا اُسامہ بن لادن دنيا کا سب سے بڑا دہشتگرد تھا ۔ اُس کو اس کی سزا ملنا ہی تھی

کيا ہم اس وقت کی انتظار ميں ہيں ؟
پھر ايک دن آيا کہ دُشمن ميرے قريب پہنچ گيا ۔ ميں نے چاروں طرف نظر دوڑائی مگر مجھے بچانے والا کوئی نظر نہ آيا
اس کے بعد ميرا حال بتانے والا بھی کوئی نہ بچا تھا

کیا جموں کشمیر کے لوگ پاکستانی ہیں ؟

میں نے جب بھی تحریک آزادی جموں کشمیر کی بات کی مجھ سے کچھ سوال پوچھے گئے اور مجھ پر کچھ اعتراضات کئے گئے ۔ ایک عام اعتراض کچھ اس طرح تھا کہ جموں کشمیر کے لوگ اگر اپنے آپ کو جموں کشمیر کا باشندہ سمجھتے ہیں تو پاکستان سے چلے جائیں ۔ جب دھوکہ دہی سے صوبہ جموں کے مسلمانوں کو گھروں سے نکال کر اُن کا قتلِ عام کیا گیا اور زندہ بچ جانے والوں کو پاکستان دھکیل دیا گیا تو پاکستان میں ان لوگوں کو پہلے شہروں سے باہر کیمپوں میں رکھا گیا اور پھر شہروں کے اندر کچھ خالی متروکہ بڑی عمارات میں رکھا گیا ۔ کئی لوگوں کو اُن کے رشتہ دار اپنے گھروں میں لے گئے جو کیمپوں میں رہے اُن کو شروع میں مفت آٹا ۔ چاول ۔ چینی ۔ دالیں مہیا کئے گئے ۔ جو بتدریج گھٹتے گھٹتے چند سال بعد صرف آٹا رہ گیا

جو لوگ مفت کا راشن پسند نہیں کرتے تھے وہ مختلف شہروں اور قصبوں میں منتقل ہو کر روزگار کی تلاش میں لگ گئے ۔ جو باقی رہ گئے اُن کو کچھ سال بعد حکومت پاکستان نے 25 کنال فی خاندان کے حساب سے غیر آباد بارانی زمینیں بغیر مالکانہ حقوق کے دیں کہ زمین کو قابلِ کاشت بنا کر اپنی گذر اوقات کریں اور مفت راشن بند کر دیا گیا ۔ اس طرح الاٹ کی گئی زیادہ تر زمینوں پر وڈیروں یا پیروں یا جرائم پیشہ لوگوں کی اجارہ داری تھی ۔ ان لوگوں نے یا تو جموں کشمیر کے لوگوں کو آباد ہی نہ ہونے دیا یا ان بے خانماں لوگوں کی ذاتی محنت میں سے زبردستی حصہ وصول کرتے رہے ۔ کچھ زمینیں پتھریلی تھیں اور اس علاقہ میں بارش بھی بہت کم ہوتی تھی اس لئے کاشت کے قابل نہیں تھیں ۔ کچھ ایسے خاندان تھے جن کی سربراہ بیوہ خواتین تھیں اور بچے چھوٹے تھے اس لئے اُن کو دی گئی زمینیں آباد نہ ہو سکیں ۔ قبضہ کرنے والے پیروں میں بڑے بڑے نام شامل ہیں جن کے آستانوں پر ہر سال عرس میں ہزاروں عقیدتمند شریک ہوتے ہیں

جموں کشمیر کے لوگوں کو کیمپوں ہی میں بتایا گیا تھا کہ آپ ہمارے مہمان ہیں اور آپ نے اپنے گھروں کو واپس جانا ہے ۔ فی الحال عارضی طور پر ہم آپ کا بندوبست کر دیتے ہیں ۔ اس مہمان نوازی کے جموں کشمیر کے لوگوں پر مندرجہ ذیل ضمنی نتائج مرتّب ہوئے

پاکستان کے صرف چند محکموں میں اور وہ بھی بہت تھوڑا کوٹہ بھرتی کا مقرر تھا اس سے زائد کسی سرکاری دفتر میں ملازمت نہیں مل سکتی تھی
پاکستان کی تینوں افواج میں بھرتی کی ممانعت تھی باوجود یکہ پاکستان بننے سے پہلے جو جموں کشمیر کے لوگ افواج میں بھرتی ہوئے تھے وہ موجود تھے ۔ ایئر مارشل اصغر خان اس کی اہم مثال ہے
آزاد جموں کشمیر کی فوج اور سول محکموں میں بھرتی کی اجازت تھی مگر ان کا درجہ اور تنخواہ پاکستان کی ملازمت سے کم تھی
پروفیشل کالجوں میں داخلہ کے لئے کوٹہ مقرر تھا جو اتنا کم تھا کہ جموں کشمیر کے بہت سے ہائی میرٹ والے طلباء و طالبات پروفیشل کالجوں میں داخلہ سے محروم رہ جاتے تھے
جموں کشمیر کے لوگ غیر منقولہ جائیداد یعنی زمین ۔ مکان ۔ دکان ۔ کارخانہ ۔ وغیرہ نہیں خرید سکتے تھے ۔ میرے والد صاحب نے نہ مفت راشن لیا نہ کوئی اور مراعات ۔ وہ اپنے ساتھ فلسطین سے جو روپیہ لائے تھے اُس سے 1948ء میں ایک کارخانہ قائم کرنا چاہا تو پتا چلا کہ وہ غیر منقولہ جائیداد نہیں خرید سکتے ۔ ایک مقامی آدمی نے اپنی زمین اِس شرط پر استعمال کرنے کی پیشکش کی کہ وہ گھر بیٹھے 25 فیصد منافع کا حصہ دار ہو گا گو زمین کی مالیت پروجیکٹ کاسٹ کا دسواں حصہ بھی نہ تھی ۔ والد صاحب کو ماننا پڑا ۔ جب کارخانہ تیار ہو کر مال تیار ہونا شروع ہوا تو منڈی میں مال کی طلب دیکھ کر وہ شخص کہنے لگا “مجھے منافع کا 50 فیصد کے علاوہ مینجمنٹ کے اختیارات بھی دو بصورت دیگر اپنا کارخانہ میری زمین سے اٹھا کر لے جاؤ” ۔ والد صاحب کے نہ ماننے پر اس نے دعوی دائر کر دیا ۔ یہ 1949ء کا واقعہ ہے ۔ کمپنی جج نے رشوت کھا کر فیصلہ کیا کہ میرے والد کارخانہ چھوڑ کر چلے جائیں اور اس کے بدلے 30000 روپیہ لے لیں جبکہ والد صاحب نے اُس کارخانہ کی عمارت اور پلانٹ پر ایک لاکھ روپے سے زائد خرچ کیا تھا ۔ وہ شخص تھوڑا تھوڑا کر کے30 سالوں میں 20000 روپیہ دے کر فوت ہوگیا ۔ 10000روپیہ اس کے بیٹے نے میرے والد صاحب کی وفات کے ایک سال بعد 1992ء میں مجھے ادا کیا ۔ جو کارخانہ یا کوٹھی یا زمین 1949ء میں 30000 روپے میں خریدی جاسکتی تھی وہ 1992ء میں 30 لاکھ روپے میں بھی نہیں ملتی تھی

ہم پہلے راولپنڈی میں کرایہ کے مکان میں رہے ۔ اس مکان میں بجلی اور پانی کا بندوبست نہیں تھا ۔ چند ماہ بعد ایک متروکہ مکان ایک شخص سے قیمت دے کر لیا مگر مالکانہ حقوق نہ ملے ۔ بعد میں جب مالکانہ حقوق دینے کا فیصلہ ہوا تو 1962ء میں دوسری بار اس کی قیمت حکومت پاکستان کو ادا کی

پاکستان بننے کے 15 سال بعد 1962ء میں ایک مارشل لاء ریگولیشن جاری ہوا جس میں قرار دیا گیا کہ جموں کشمیر کے لوگوں کو تمام معاملات میں پاکستانیوں کی برابر سمجھا جائے گا ۔ اس کے بعد جموں کشمیر کے لوگوں کو غیر منقولہ جائیداد خریدنے کی اجازت مل گئی اور ان کے بچوں کو جس صوبہ میں وہ رہتے تھے اس کے تعلیمی اداروں میں میرٹ کی بنیاد پر داخلے ملنے لگے ۔ لیکن اب بھی جموں کشمیر کے رہنے والے پاکستانی شہری نہیں ہیں ۔ یہ فیصلہ جموں کشمیر کے فیصلہ سے منسلک ہے ۔ بھارت نے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مقبوضہ جموں کشمیر کے بھارت میں ادغام کا اعلان کر کے وہاں کے باشندوں کو بھارتی قرار دے دیا ہوا ہے اور جو لوگ اپنے آپ کو بھارتی نہیں کہتے اُن کو بھارتی حکومت پاکستان کے درانداز کہہ کر روزانہ قتل کرتی ہے