Daily Archives: August 6, 2011

يا حَیُّ یآ قیّوُم بِرَحْمَتِکَ آسْتَغِيث

ميں بہت احسانمند اور شکر گذار ہوں اُن قارئين کا جنہوں نے ميری بيگم کی جلد شفاء کيلئے دعا کی ہے ۔ اللہ کريم جزائے خير دے اور سب کو صحتمند ۔ خوش اور خوشحال رکھے ۔ آمين

کل يعنی رمضان المبارک کے پہلے جمعہ کو شام 6 بجے ميری بيگم کی طبيت پھر اچانک خراب ہوئی ۔ خون کا دباؤ تيزی کے ساتھ بہت زيادہ اور کم ہونے لگا ۔ دل کی دھڑکن کبھی بہت تيز ہو جاتی اور کبھی دل ڈوبتا ہوا محسوس ہوتا ۔ ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہو گئے ۔ سانس لينے ميں دقت ہونے لگی

اُسی وقت ہسپتال بھاگنے کے سوا چارہ نہ تھا ۔ ميں اور بيٹی نے کسی طرح سنبھال کر اُسے پورچ ميں کھڑی کار ميں لٹايا اور 10 منٹوں ميں ہسپتال پہنچے جہاں اُسے سيدھا سخت نگہداشت کے کمرے ميں ليجايا گيا ۔ نرس نے فوراً آکسيجن لگا کر مانيٹر بھی لگا ديا ۔ ميڈيکل کالج کے ايک پروفيسر ماہر امراضِ قلب سے رابطہ کيا اور ھدايات ليتی رہی ۔ دوا دارو بشمول ايک ٹيکہ کے کيا گيا ۔ سوا 9 بجے رات طبيعت سنبھلی تو واپس گھر آئے

21 جون سے اب تک يعنی 44 دنوں ميں يہ صورتِ حال پانچويں بار ہوئی ہے ۔ صرف اس بار نبض 50 سے نيچے نہيں گئی تھی ورنہ پہلے 30 تک چلی جاتی تھی ۔ ميں پورے خاندان بلکہ برادری اور دوستوں ميں بہت حوصلہ مند ۔ بُردبار اور باتدبير مشہور ہوں مگر ايسی صورتِ حال ميں ميری بردباری ۔ تحمّل اور عقل بيکار نظر آنے لگتے ہيں کيونکہ ميں صورتِ حال ميں کوئی بہتری پيدا کرنے سے معذور ہوتا ہوں

ہمدرد قارئين سے استدعا ہے کہ اللہ تعالٰی کے حضور ميں دعا کرتے رہيں کہ اللہ ہماری غلطياں معاف فرمائے اور سب مريضوں کو شفاء مرحمت فرمائے

ميرا خيال تھا کہ بيگم اس سال رمضان ميں اپنے پر زيادہ بوجھ نہ ڈالے مگر عادت بدلنا مشکل ہوتا ہے ۔ محلے کی چند خواتين کی فرمائش پر ہميشہ کی طرح عشاء کے وقت نماز تراويح کے ساتھ تفسير قرآن شريف شروع کر دی جس کا دورانيہ 2 گھنٹے سے کچھ اُوپر ہوتا ہے جو گذشتہ رات نہ ہو سکا ۔ دن ميں اپنے طور پر بھی تلاوت اور ملازمہ نئی رکھی ہے اُسے ھدايات بلکہ سر کھپانا ۔ ہمارے ہاں دی نيوز اور ڈان اخبار آتے ہيں جنہيں پڑھنا بھی لازمی سمجھتی ہے ۔ روزے نہيں رکھ رہی مگر نمازِ تہجد نہيں چھوڑتی ۔ اور پھر ميری فکر کہ سحری کو کھانا درست اور وقت پر مل جائے ۔ اللہ کی بندی کو سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں تو کہتی ہے “ميں کيا کرتی ہوں ؟ آپ زيادہ تھکتے ہيں اپنی صحت کا خيال نہيں رکھتے”۔ اس پر الفاظ ميرے حلق ميں پھنس کے رہ جاتے ہيں