Category Archives: آپ بيتی

ہمارے اطوار

اس سلسہ کی 6 تحاریر ”گفتار و کردار“ ۔ ”پارسل“۔ ”گھر کی مرغی ؟“ ۔ ”میں چور ؟“ ۔ ”غیب سے مدد” ۔ ”کہانی کیا تھی“ ۔ ”یو اے ای اور لبیا کیسے گیا“اور ”انکوائری ۔ تفتیش” لکھ چکا ہوں

اَن پڑھ لوگوں کی کیا بات کرنا ؟ وہ جو دیکھتے اور سُنتے ہیں کرتے ہیں ۔ بات ہے پڑھے لکھے لوگوں کی ۔ بڑی بڑی باتیں تو اخبارات میں پڑھنے کو مل جاتی ہیں ۔ یہ کچھ چھوٹے چھوٹے واقعات ہیں جن کا میں ذاتی طور پر شاہد ہوں یا وہ میرے ساتھ پیش آئے

اس موضوع سے متعلق پچھلے سال اپنے ساتھ پیش آنے والے 2 واقعات ”سینے پر مُونگ“ اور ”وفاداری کس سے“ کے عنوان سے لکھے تھے ۔ آج کچھ اور

مجھے 1966ء میں اسسٹنٹ منیجر پروجیکٹس تعینات کیا گیا ۔ پراجیکٹ شروع ہوا ۔ مجھے دس بارہ گھنٹے روزانہ کام کرنا پڑتا رہا ۔ بعد میں کچھ اور انجنیئر بھی دوسرے پروجیکٹس میں تعینات کئے گئے ۔ اُن کے پراجیکٹس ابھی شروع بھی نہیں ہوئے تھے کہ اُنہیں پراجیکٹ الاؤئنس ملنے لگا لیکن مجھے نہ ملا ۔ میں نے اپنے باس سے کہا تو اُنہوں نے ٹال دیا ۔ یکم جولائی 1969ء کو میری ترقی ہو گئی اور مجھے واپس فیکٹری میں پروڈکشن منیجر لگا دیا گیا ۔ چند دن بعد میں کسی کام سے ایک صاحب کے پاس گیا تو وہ کچھ مغموم بیٹھے تھے ۔ وجہ پوچھی تو بولے ”تنخواہ کم ہو گئی ہے“۔ تفصیل چاہی تو کہا ”مجھے پہلے پراجیکٹ الاؤئنس ملتا تھا جس کی منظوری آپ کے نام پر لی گئی تھی ۔ وہ یکم جولائی سے بند ہو گیا ہے“۔ ان صاحب کا نہ تو کسی پروجیکٹ کے ساتھ تعلق تھا اور نہ پراجیکٹس ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ اور میرے نام پر حاصل کیا ہوا الاؤنس 3 سال وہ کھاتے رہے

سعودی عرب کو منیجر کی سطح کے کچھ انجنیئروں کی ضرورت تھی ۔ سعودی عرب کا مندوب 1973ء میں اس سلسلہ میں آیا ۔ منیجروں کی بجائے اسی تنخواہ پر جنرل منیجر خود جانے کو تیار ہو گئے ۔ جو صاحب ویپنز فیکٹری کیلئے تیار ہوئے انہوں نے ویپنز فیکٹری میں کبھی کام نہ کیا تھا اسلئے اپنی تبدیلی ویپنز فیکٹری میں کروا لی اور چند ماہ بندوق کے پرزوں کے نام اور کام سے واقفیت حاصل کر کے سعودی عرب چلے گئے ۔ کمال یہ ہے کہ جس فیکٹری میں ان صاحب نے اس وقت تک کام کیا تھا وہاں کی پروڈکشن پر اعتراضات ہوئے پھر اعلٰی سطح کی انکوائری ہوئی جس میں ان صاحب کو اور ان کے ماتحت منیجر کو قصور وار ٹھہرایا گیا ۔ ان دونوں کے خلاف تادیبی کاروائی کرنے کی بجائے جنرل منیجر کو سعودی عرب بھیجا گیا اور منیجر کو غیر ملک میں پاکستانی سفارت خانہ میں ٹیکنیکل اتاشی مقرر کر دیا گیا

سعودی عرب جانے والوں میں ہر ایک اپنا ذاتی کنٹریکٹ سائن کر کے گیا تھا ۔ قانون کے مطابق ایسے آدمی کی جب تک وہ اپنے محکمہ میں واپس نہ آئے ترقی نہیں ہوتی لیکن ایک اسسٹنٹ منیجر جس نے سعودی عرب میں متذکرہ بالا جنرل منیجر کی اتنی خدمت کی کہ سعودی عرب میں 9 سال کے دوران وہ اسسٹنٹ منیجر سے منیجر اور پھر جنرل منیجر ہو گیا اور واپس آنے کے 2 سال بعد ایم ڈی بنا دیا گیا کیونکہ جن کی خدمت کی تھی وہ ممبر بورڈ بن گئے تھے

کچھ افسران کو 1975ء اور 1976ء میں سرکاری نوٹیفیکیشن کے تحت لبیا بھیجا گیا ۔ وہ اپنی مرضی سے نہیں گئے تھے ۔ اُنہیں تنخواہ بھی پاکستانی سفارتخانے سے ملتی تھی ۔ ان میں بھی ایک اسسٹنٹ منیجر تھا جو منظورِ نظر تھا وہ 7 سال کے قیام کے دوران منیجر اور پھر جنرل منیجر ہو گیا ۔ اس کے برعکس ایک بہت سینیئر منیجر جو اسی کے ساتھ گیا تھا ۔ اسے کوئی ترقی نہ دی گئی ۔ کہا گیا کہ ”ملک سے باہر ہے جب آئے گا دیکھی جائے گی”۔ اس دوران 14 منیجر جو اس سے جونیئر تھے کو ترقی دے کر جنرل منیجر بنا کر اس سے سینئر کر دیا گیا ۔ واپس پاکستان آنے پر اس منیجر نے درخواست دے دی ۔ آخر بات فیڈرل سروسز ٹربیونل میں پہنچی جس میں مزید 5 سال لگے ۔ فیصلہ اس کے حق میں ہوا مگر 7 سال گذر چکے تھے جس دوران درخواست دینے کی پاداش میں اس کی 6 سالانہ رپورٹوں میں لکھا جا چکا تھا کہ ترقی کے قابل نہیں

ترقی کا عجوبہ روزگار کیس ہے ایک فورمین کا جو چھُٹی پر گیا اور ملک چھوڑ گیا ۔ اُس نے لبیا پہنچ کر ملازمت کر لی ۔ جب تین چار سال گذر گئے ۔ اُسے بھگوڑا قرار دے دیا گیا ۔ پھر ایک خط لبیا میں پاکستانی سفارتخانہ کو موصول ہوا کہ اسے واپس بھیجا جائے ۔ سفارتخانہ نے خط کا جواب لکھا ”۔ ۔ ۔ لبیا میں نہیں ہے“۔ اس واقعہ کے ایک سال بعد ایک نوٹیفیکیشن لبیا میں پاکستانی سفارتخانہ کو موصول ہوا کہ موصوف کی فورمین سے بطور اسسٹنٹ منیجر ترقی ہو گئی ہے حالانکہ وہ پاکستان واپس نہیں گیا تھا

مجھے اپریل 1983ء میں پرنسپل ٹیکنیکل ٹریننگ انسٹیٹیوٹ تعینات کر کے انسٹیٹیوٹ کو جدید خطوط پر استوار کرنے کا پروجیکٹ سونپا گیا ۔ اس کی ایک ٹریننگ ورکشاپ کیلئے خاص قسم کی خراد مشینیں منگوانا تھیں ۔ ایک فیکٹری نے ایک سال قبل 10 خراد مشینیں منگوائی تھیں ۔ وہاں سے دستاویزات منگوا کر مطالعہ کیا ۔ جو مشینیں انہوں نے منگوائی تھیں اُنہی کوبہتر پایا ۔ انہوں نے فی مشین 11 لاکھ کے حساب سے خریدی تھیں ۔ میں نے 1984ء میں قانون کے مطابق سب متعلقہ کمپنیوں سے پیشکشیں (quotations) مانگیں ۔ اتفاق سے اسی کمپنی نے سب سے کم قیمت دی ۔ ان کے مندوب نے زبانی بتایا کہ ”قیمتیں 10 فیصد بڑھ چکی ہیں لیکن ہم آپ کو ایک سال پرانی قیمت پر دے رہے ہیں“۔ میں نے اُسے کہا ”میں نہ آپ سے چائے پیئوں گا نہ پانی اور آپ کو بغیر حیل و حُجت ایک ماہ کے اندر رقم کی ادائیگی کروانا میرے ذمے ہو گا ۔ میں جانتا ہوں اس کیلئے آپ نے 25 فیصد رکھا ہوتا ہے اسلئے آپ قیمتیں 25 فیصد کم کر دیجئے“۔ کہنے لگا ”ایسا ممکن نہیں ہے ۔ میں نے کہا ”آپ اپنے ہیڈ آفس ٹیلیفون کر کے میرا ا نام بتایئے اور اُنہیں بتایئے کہ میں نے آپ کو کیا کہا ہے”۔ 2 ہفتے بعد وہ مندوب نئی کوٹیشن لے کر آیا اور فی مشین قیمت 9 لاکھ 50 ہزار تھی ۔ انسٹیٹیوٹ کیلئے بھی 10 مشینیں چاہئیں تھیں ۔ جو ایک کروڑ 10 لاکھ کی بجائے 95 لاکھ روپے میں آ گئیں

1984ء میں مجھے کہا گیا کہ اخبارات میں دیئے گئے اشتہار کے نتیجہ میں آئی ہوئی بھرتی کی درخواستوں کی چھانٹی کراؤں ۔ انٹرویو بورڈز مقرر کروں اور مطلوبہ اسامیوں کے مطابق منتخب اُمیدواروں کی بھرتی کی سفارش کروں ۔ جب اُمیدوار انٹرویو کیلئے بلائے گئے تو مجھے ایک ڈاکٹر صاحب جو ہمارے ہسپتال میں میڈیکل سپرنٹنڈنٹ تھے کا ٹیلیفون آیا کہ ”فلاں لڑکے کا ذارا خیال رکھیں”۔ میں میرٹ پر بھرتی کا حامی تھا لیکن بلاوجہ کی بحث سے بچنے کیلئے میں نے کال نمبر اپنے پاس لکھ لیا اور ایڈمن افسر کو دیا کہ اُس کی صورتِ حال معلوم کرے ۔ دوسرے دن ایڈمن افسر نے بتایا کہ سرکاری حُکمنامے اور اشتہار کے مطابق کم از کم 50 فیصد نمبر حاصل کرنے والوں سے درخواستیں طلب کی گئیں تھیں اور متعلقہ لڑکے کے 50 فیصد سے کم نمبر ہیں ۔ میں نے متذکرہ ڈاکٹر صاحب کو صورتِ حال بتائی تو بولے ”اگر 50 فیصد نمبر لئے ہوتے تو پھر تمہارا احسان لینے کی کیا ضرورت تھی“

جولائی 1985ء کی بات ہے کہ انسٹیٹیوٹ کی ایک اور ورکشاپ کیلئے سی این سی مشینیں (Computerised Numerical Control Machines) خریدنا تھیں ۔ میں نے یورپ کی مختلف کمپنیوں سے کوٹیشنز منگوائیں اور ان کی مشینوں کی صلاحیت اور قیمتوں کا تقابلی جائزہ تیار کیا ۔ میرے باس جو ممبر پی او ایف بورڈ تھے نے ایک کوٹیشن بھیج دی کہ اس کمپنی کو ترجیح دی جائے ۔ اس میں پیش کی گئی مشینیں ایک تو ٹریننگ کیلئے موزوں نہ تھیں ۔ دوسرے قیمت بہت زیادہ تھی ۔ بہترین کوٹیشن میں 25 چھوٹی مشینیں تھیں اور ہر ایک کے ساتھ ایک پی سی (Personal Computer) تھا جن پر مشین کا پروگرام لکھنے کے علاوہ ورڈ پروسیسنگ بھی ہو سکتی تھی ۔ ساتھ 2 سال کے مینٹننس سپریئر پارٹس تھے ۔کل قیمت 50 لاکھ روپے ۔ جو کوٹیشن باس نے بھیجی تھی اُس میں 7 بڑی بڑی مشینیں تھیں جنہیں تربیت پانے والے نہیں چلا سکتے تھے اور مشین کے پروگرام لکھنے کا کوئی بندوبست نہ تھا ۔ سپیئر پارٹس نہ تھے اور نہ ہی اُن کی فہرست دی گئی تھی ۔ قیمت ایک کروڑ روپے تھی ۔ میں نے سب کچھ لکھ کر بھیج دیا ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ میرا وہاں سے تبادلہ کر دیا گیا اور میری سالانہ رپورٹ میں لکھا گیا ”ترقی کا اہل نہیں“۔ میری جگہ آنے والے نے مجھے کہا ”آپ تو مجاہد ہیں ۔ میں کمزور آدمی ہوں ۔ مجھے جو باس کہے گا میں کر دوں گا”۔ سو وہی غیرموزوں اور مہنگی مشینیں آرڈر کر دی گئیں

1976ء میں منسٹری سے ھدائت آئی کہ کچھ انجنیئرز کو کمپیوٹر کی تعلیم و تربیت دلائی جائے ۔ میں نے اپنے ماتحت ایک اسسٹنٹ منیجر کو نامزد کر دیا ۔ مجھے مئی 1976ء میں لبیا بھیج دیا گیا ۔ میں 1983ء میں واپس آیا تو مذکورہ شخص جنرل منیجر بن چکا تھا اور کمپیوٹر سینٹر کا انچارج تھا ۔ مجھے سارا سیٹ اَپ دکھایا اور شکائت کی کہ بڑے افسران انجنیئرز کو کمپیوٹر سینٹر آنے نہیں دیتے البتہ ایڈمنسٹریشن ڈیپارٹمنٹ نے اپنے ایک اسسٹنٹ منیجر ”ن“ کو بھیجا جو ایم اے ایس (Master Admin Science) ہے ۔ ”ن“ اب منیجر ہو چکا ہے ۔ 1985ء میں اس انجنیئر کی دوبارہ فیکٹری میں پوسٹنگ ہو گئی اور ”ن“ کو ترقی دے دی گئی ۔ اس طرح کمپیوٹر سینٹر کا انچارج ”ن“ (نان ٹیکنیکل آدمی) بن گیا
ستمبر 1985ء میں میری پوسٹنگ بطور جنرل منیجر ایم آئی ایس ڈیپارٹمنٹ ہو گئی ۔ کمپیوٹر سینٹر ایم آئی ایس ڈیپارٹمنٹ کا حصہ تھا ۔ 1987ء میں انوَینٹری منیجمنٹ کی کمپیوٹرائزیشن میرے ذمہ کر دی گئی جس سے ”ن“ کو پریشانی لاحق ہوئی ۔ کمپیوٹر پر کام کرنے والوں کیلئے الاؤنس مقرر ہوا تو ”ن“ نے اپنے ایڈمن کے محکمہ کو استعمال کرتے ہوئے مجھے کمپیوٹر الاؤنس نہ ملنے دیا ۔ 1988ء میں مجھے ایم آئی ایس ڈیپارٹمنٹ کا سربراہ بنا دیا گیا ۔ میں 1989ء کے شروع میں چیئرمین کے ساتھ میٹنگ میں تھا تو کسی طرح کمپیوٹر الاؤنس کا ذکر ہوا ۔ میں نے طرح لگائی ”کام میں 12 گھنٹے کروں اور کمپیوٹر الاؤنس 7 گھنٹے کام کرنے والوں کو ملے“۔ چیئرمین بہت حیران ہوئے اور اگلے ماہ میرے لئے کمپیوٹر الاؤنس کی منظوری دے دی گئی ۔ کچھ ماہ بعد مجھے نقصان پہنچانے کیلئے ”ن“ نے ایک بہت غلط حرکت کی ۔ انکوائری ہوئی اور پکڑے گئے ۔ چیئرمین ”ن“ کو ملازمت سے فارغ کرنا چاہتے تھے ۔ میرے منت سماجت کرنے پر سزا کم کر دی اور ”ن“ کا ایم آئی ایس ڈیپارٹمنٹ سے ایڈمن ڈیپارٹمنٹ میں تبادلہ کر دیا گیا

شروع 1991ء میں میرے والد صاحب شدید بیمار ہو گئے ۔ میں نے 3 ماہ کی چھٹی لے لی ۔ اور ساتھ ہی 3 ماہ ختم ہونے کے بعد سے ایک سال کی ایل پی آر (LPR= leave pending retirement) لے لی ۔ انہی دنوں چیئرمین صاحب کا تبادلہ بطور چیئرمین سٹیل مل کراچی ہو گیا اور کنٹرولر آف اکاؤنٹس بھی کوئی نئے آ گئے ۔ میری چھٹی کے دوران ”ن“ نے میرا کمپیوٹر الاؤنس ناجائز قرار دلوا کر اس کی کٹوتی (recovery) شروع کروا دی جس کا مجھے ریٹائر ہونے کے بعد پتہ چلا ۔ یہی کم نہ تھا ۔ میں 4 اگست 1992ء سے آدھی پنشن لے رہا تھا ۔ مکمل پنشن 4 اگست 2012ء کو بحال ہونا تھی لیکن نہ ہوئی ۔ میں نے متعلقہ اکاؤنٹس آفس کو دسمبر 2012ء میں خط لکھا ۔ پیچھا کرنے پر معلوم ہوا کہ اُنہوں نے میرے ذمہ 51133 روپے نکالے ہوئے ہیں جس کی بنیاد ایک ایل پی سی (LPC = Last Pay Certificate) ہے جو 17 مارچ 1999ء کو جاری کیا گیا (ملاحظہ ہو پہلے عکس کا پیرا 2) ۔ میرا اصلی ایل پی سی 16 نومبر 1991ء کو جاری کیا گیا تھا جو تیسرے عکس میں موجود ہے ۔ میں نے بہت سمجھانے کی کوشش کی مگر وہاں قصہ ”مرغے کی ایک ٹانگ“ والا تھا اسلئے مجھے ہار ماننا پڑی اور 51133 روپے ملٹری اکاؤنٹس کے نام جمع کرا دیئے کیونکہ نہ وہ کچھ لکھ کر دینے کو تیار تھے اور نہ پنشن بحال کر رہے تھے ۔ ایک ہی رَٹ تھی کہ یہ پیسے جمع کراؤ ۔ خط کی انگریزی پر نظر ڈالنے سے آدمی سوچتا ہے کہ جس کا تعلیمی معیار اتنا ہے وہ قوانین کو کیا سمجھ پاتا ہو گا

انکوائری ۔ تفتیش

اس سلسہ میں 7 واقعات بعنوانات ”گفتار و کردار“ ۔ ”پارسل“۔ ”گھر کی مرغی ؟“ ۔ ”میں چور ؟“ ۔ ”غیب سے مدد” ۔ ”کہانی کیا تھی“اور ”یو اے ای اور لبیا کیسے گیا“لکھ چکا ہوں

ہمارے ہاں اول تو مجرم پکڑا ہی نہیں جاتا اور اگر پکڑا جائے تو اسے سزا نہیں ہوتی ۔ اس کی ایک مثال میں ” غیب سے مدد“ میں لکھ چکا ہوں کہ بندوقیں چوری کرنے والے کیسے رہا ہو گئے تھے ۔ اپنی تحریر ”پارسل“ میں لکڑی غائب ہونے کی انکوائری کا حال بھی لکھ چکا ہوں

آج میں ایسے 2 واقعات رقم کر رہا ہوں کہ جس تفتیش یا انکوائری میں بیان دینے والا میں خود تھا

یہ واقعہ ہے 1959ء کا جب میں انجنیئرنگ کالج لاہور میں پڑھتا تھا ۔ میں اور میرے 3 ہم جماعت لاہور شہر سے واپس ہوسٹل جا رہے تھے ریلوے سٹیشن کے قریب ایک چوراہے پر سپاہی نے میرے ایک ہمجماعت کے بائیسائکل کو پیچھے سے پکڑ کر کھینچا ۔ میرا ہمجماعت گر گیا اور اسے چوٹیں لگیں جس پر اس کا پولیس والے سے جھگڑا ہو گیا ۔ ہم آگے نکل چکے تھے واپس آ کر بیچ بچاؤ کی کوشش کی مگر پولیس والے کی منہ زوری کی وجہ سے بات بڑھ گئی ۔ اور پولیس والے بھی آ گئے اور ہمیں بھی ساتھ تھانے لیجانے لگے ۔ کافی لوگ اکٹھے ہو گئے تھے جو ہماری حمائت میں ساتھ تھانے چلے گئے ۔ وہاں ہم چاروں کو پولیس والے تھانے میں لے گئے ۔ باقی لوگ بھی اندر جانا چاہتے تھے مگر اُنہیں دھکے دیئے گئے اور تھانے کا بڑا سا آہنی دروازہ بند کر دیا گیا ۔ ہمیں اندر لیجا کر ایک بنچ پر بٹھا دیا ۔ باہر لوگ نعرے لگاتے رہے اور دروازہ کھولنے کا مطالبہ بھی کرتے رہے ۔ پندرہ بیس منٹ بعد آوازیں کم ہونا شروع ہوئیں اور پنتالیس پچاس منٹ بعد شاید سب لوگ چلے گئے ۔ اس دوران ہم چاروں کو چالان تھما دیئے گئے کہ ہم ایک ایک بائیسائکل پر دو دو بیٹھے ہوئے تھے ۔ پولیس والے نے ہمیں روکا تو ہم نے اس کی مار پیٹ کی اور لوگوں نے چھڑایا ۔ حقیقت یہ تھی کہ پولیس والے نے ہمارے ہمجماعت کو مارا اور لوگوں نے چھڑایا تھا ۔ ہم 3 جب پہنچے تو لوگ ہمارے ہمجماعت کو بچا رہے تھے

ہم نے احتجاج کیا تو کہا گیا ”پہلے دستخط کر کے چالان وصول کریں اور پھر اس کے خلاف درخواست دیں ۔ اس کے بعد کہا گیا کہ تھانیدار صاحب انکوائری کر رہے ہیں ۔ اپنے بیان لکھوائیں ۔ ہمیں ایک ایک کر کے بُلایا گیا ۔ میری باری آخر میں آئی ۔ میں نے جو دیکھا تھا بول دیا ۔ وہاں ایک پولیس والا بیان لکھ رہا تھا ۔ دستخط کرنے کیلئے مجھے بیان دیا گیا ۔ نیچے لکھا تھا ”میں نے پڑھا اور پڑھ کر قبول کیا”۔ میں نے پڑھنا شروع کیا تو پولیس والا بولا ”جو تم نے کہا وہ لکھا ہے ۔ دستخط کرو“۔ میں نے پڑھنا جاری رکھا تو اُس نے کاغذ میرے ہاتھ سے چھین کر پھاڑ دیا اور مجھے باہر نکال دیا ۔ بعد میں ایک ہمجماعت دوسرے کے ساتھ جھگڑنے لگا ”تم سب کچھ غلط مان کر آ گئے ہو“۔ جس کے ساتھ وہ جھگڑ رہا تھا اُس سے میں نے پوچھا ”آپ نے اپنے بیان پر دستخط کرنے سے پہلے اسے پڑھا تھا ؟“ وہ بولا ”نہیں“۔ سو بات واضح ہو گئی کہ میرے ہمجماعت بیان کچھ دے رہے تھے اور لکھا کچھ اور جا رہا تھا

دوسرا واقعہ 1973ء کا ہے جب میں ویپنز فیکٹری کا پروڈکشن منیجر اور قائم مقام جنرل منیجر تھا ۔ فیکٹری کے گیٹ پر معمور فوجی نے ایک چپڑاسی کی پٹائی کر دی ۔ فیکٹری کے ورکر بھی اکٹھے ہوگئے ۔ مسئلہ بڑھ گیا ۔ میں نے جا کر بڑی مشکل سے بیچ بچاؤ کرایا ۔ معاملے کی اعلٰی سطح کی انکوائری شروع ہوئی ۔ انکوائری افسر ایک کرنل تھے ۔ مجھے بھی بیان دینے کیلئے بُلایا گیا ۔ بیان کے بعد مجھ سے سوالات بھی پوچھے گئے ۔ دوسرے دن ٹائپ شُدہ بیان مجھے دستخط کرنے کیلئے دیا گیا ۔ ایک تو مجھے یہ تحریر اپنے بیان سے بہت زیادہ طویل لگ رہی تھی دوسرے نیچے لکھا تھا ”میں نے اپنا بیان پڑھ کر درست پایا“۔ میں نے بیان پڑھنا شروع کر دیا ۔ کرنل صاحب بولے ”جو آپ نے کہا وہی لکھا ہے ۔ دستخط کریں“۔ میں نے کہا ”میں پڑھے بغیر دستخط نہیں کروں گا“۔ کاغذات میرے ہاتھ سے چھین کر کہا ”آپ جا سکتے ہیں“۔

یو اے ای اور لبیا کیسے گیا

اس سلسلہ میں 6 واقعات بعنوانات ”گفتار و کردار“ ۔ ”پارسل“۔ ”گھر کی مرغی ؟“ ۔ ”میں چور ؟“ ۔ ”غیب سے مدد” اور ”کہانی کیا تھی“لکھ چکا ہوں

مئی 1975ء میں میں واہ چھاؤنی سے سرکاری کام کے سلسلہ میں راولپنڈی گیا ہوا تھا ۔ اہم کام سٹیٹ بنک میں تھا اسلئے پہلے وہاں جا کر متعلقہ افسر سے ملا ۔ اُس نے بتایا کہ بعد دوپہر 2 بجے تک کام ہو جائے گا سہ پہر 4 بجے تک لیجاجائیں ۔ میں کچھ کاموں سے فارغ ہو کر 4 بجے پہنچا تو ماتحت افسر نے بتایا کہ وزارتِ مالیات میں اچانک ایک اعلٰی سطح کی میٹنگ ہو گئی ہے اور صاحب وہاں پھنسے ہوئے ہیں ۔ اُن کے دستخط ہونا باقی ہیں ۔ کچھ دیر بعد وہ کہنے لگا ”کوئی اور کام آپ نے کرنا ہے تو کر آئیں ۔ ہم تو روزانہ مغرب (6 بجے) کے بعد بھی یہیں ہوتے ہیں“۔ سب کام ختم کر کے میں سوا 6 بجے پہنچا اور مطلوبہ دستاویز لے لی ۔ ماتحت افسر نے راستے میں روک کر بتایا ”آپ کے ادارہ کے ایک افسر ایک گھنٹہ آپ کی انتظار میں بیٹھ کر گئے ہیں ۔ آپ منسٹری آف ڈیفینس میں سیکریٹری صاحب آپ کی انتظار میں ہیں“۔ میرے لئے یہ عجوبہ تھا کہ سیکریٹری صاحب بغیر پیشگی اطلاع کے میری انتظار میں بیٹھے ہیں

خیر میں نے گاڑی میں بیٹھتے ہوئے ڈرائیور سے کہا ”منسٹری چلو“۔ ڈرائیور نے پریشان ہو کر کہا ”سر ۔ خیریت تو ہے ؟“ میں نے پتہ نہیں کہہ کر اُسے چلنے کا اشارہ کیا ۔ منسٹری کے گیٹ پر پہنچے تو میرے ساتھ اس طرح کا سلوک ہوا جیسے میں ملک کا صدر یا وزیر اعظم تھا ۔ ایک صاحب مجھے ہاتھوں ہاتھ سیکریٹری صاحب کے دفتر لے گئے ۔ سیکریٹری صاحب نے بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے پوچھا ”آپ آئے نہیں ؟“۔ میں نے بتایا کہ مجھے تو کچھ معلوم نہیں مجھے کیوں بُلایا گیا ہے۔ اس پر سیکریٹری صاحب بولے ”کیا آپ نے فلاں کام نہیں کئے تھے اور فلاں رپورٹ نہیں لکھی تھی ؟“ میں نے ہاں میں جواب دیا تو بولے ”آپ نے پرسوں صبح سویرے ساڑھے 4 بجےیو اے ای روانہ ہونا ہے ۔ جوائنٹ سیکریٹری صاحب کے پاس جائیں میں نے اُنہیں سمجھا دیا ہے“۔

میں نے جوائنٹ سیکریٹری صاحب کو بتایا کہ میرا پاسپورٹ بھی بنوانا ہے ۔ وہ بولے ”فکر نہ کریں جتنا وقت آپ کی تلاش میں لگا اس دوران یہ انتظامات کر لئے تھے اب آپ کے کوائف درج کر کے فنانشل ایڈوائزر سے منظوری لے کر نوٹیفائی کرنا ہے ۔ ٹائپسٹ سارے چھٹی کر چکے تھے ۔ ڈپٹی سیکریٹری صاحب نے نوٹیفیکیشن ٹائپ کیا ۔ دستخط کئے اور سائکلوسٹائل کر کے 3 کاپیاں 8 بجے رات میرے ہاتھ پکڑائیں ۔ میں جوائنٹ سیکریٹری صاحب کے پاس گیا تو اُنہوں نے کہا ”امیریکن ایکسپرس میں آدمی آپ کی انتظار میں ہے ۔ اُس سے 500 ڈالر لیتے جائیں“۔

واپسی پر میں نے اس افسر کو اپنے ساتھ بٹھا لیا جو مجھے تلاش کرتا رہا تھا ۔ اُس نے بتایا ”سر ۔ بنیادی طور پر آپ نے جانا تھا بطور ٹیم لیڈر ۔ باقی فوجی افسران اور فوجی تھے ۔ پھر ٹیم بنائی گئی اور مجھے بطور آپ کے نائب کے اور آپ کی فیکٹری کے ایک مستری کو ڈالا گیا۔ جب جانے کے دن قریب آئے تو آپ کا نام غائب تھا اور سربراہ کے طور پر جوائنٹ سیکریٹری صاحب تھے اور اُن کی بیگم بھی جا رہی تھیں ۔ میٹنگ میں آتے ہی سیکریٹری صاحب نے کہا ”وہ ۔ وہ کہاں ہیں ؟ جس نے سارا کام کیا ہے ؟ اُس کے نام کے ساتھ ایک خاص لفظ ہے” ہمارے چیئرمین سمیت کوئی نہ بولا”۔ کرنل ۔ ۔ ۔ ۔ نے کہا ”سر آپ مسٹر بھوپال کی بات کر رہے ہیں ؟ اس کا تو ٹیم میں نام ہی نہیں ہے”۔ سیکریٹری صاحب یہ کہتے ہوئے کانفرنس ہال سے اُٹھ کر چلے گئےکہ بھوپال کو لائیں جہاں کہیں بھی ہے ۔ میں اُس کے آنے تک یہیں ہوں ۔ آپ کو تلاش کرنے کی ڈیوٹی مجھے دی گئی ۔ میں نے آپ کے دفتر ٹیلیفون کیا تو پی اے نے بتایا کہ آپ راولپنڈی میں ہیں اور جہاں جہاں جائیں گے اُس کی تفصیل بتائی ۔ میں جہاں جاتا آپ وہاں سے جا چکے ہوتے ۔ آخر سٹیٹ بنک میں معلوم ہوا کہ آپ دوبارہ آئیں گے“۔

دوسرے دن صبح 8 بجے فوٹوگرافر میرے دفتر آیا اور میری تصویر کھینچ کر چلا گیا ۔ ایک ہیڈکلرک آیا اور ایک فارم پر میرے دستخط کروا کر لے گیا ۔ شام مغرب سے پہلے وہ مجھے میرا نیا پاسپورٹ دے گیا ۔ اگلے روز صبح ساڑھے 4 بجے جوائنٹ سیکریٹری اُن کی بیگم ۔ ایک کرنل ۔ مجھے ڈھونڈنے والا اسسٹنٹ منیجر اور میں چکلالہ سے سی 130 میں کوئٹہ روانہ ہوئے ۔ کوئٹہ سے 2 میجر اور کچھ فوجی سوار ہوئے اور ہم جا پہنچے دبئی ۔ پوری ٹیم میں صرف میں تھا جسے تمام تکنیکی معلومات تھیں ۔ فوجیوں نے ڈَیمنسٹریشن کا متعلقہ کام کرنا تھا لیکن تینوں فوجی افسروں نے کہا کہ میں ہی ساری مینجمنٹ کروں ۔ چنانچہ سب نے مل کر میری مدد کی اور دبئی کے چند فوجیوں نے بھی ہماری مدد کی جس کے نتیجہ میں اللہ نے ہمیں متعلقہ کام میں کامیاب فرمایا

لبیا بھی مجھے حکومت نے ہی بھیجا تھا جس کی کچھ اسی طرح کی کہانی ہے لیکن اُس میں مجھے نقصان یہ ہوا کہ مئی 1976ء سے مارچ 1983ء تک میری عدم موجودگی کو بہانہ بنا کر مجھے ترقی نہ دی گئی اور مجھ سے جونیئر 14 افسران کو ترقی دے کر مجھ سے سینیئر کر دیا گیا ۔ یہ خلافِ قانون تھا ۔ شاید اسی لئے مجھے اس کی خبر نہ ہونے دی گئی ۔ واپس آ کر میں نے اس کے خلاف اپیل کی مگر تحریری یاد دہانیوں کے باوجود سال بھر کوئی جواب نہ دیا ۔ میں نے سیکریٹری کو اپیل بھیجی ۔ منسٹری نے ہمارے ادارے سے پوچھا جس جواب سال بعد دیا گیا کہ سب ٹھیک ہے ۔ پھر میں نے سروسز ٹریبیونل میں دعوٰی دائر کر دیا جس کا فیصلہ 5 سال بعد 1991ء میں اس وقت ہوا جب میں ایل پی آر پر تھا ۔ ہمارے مُلک کا قانون ہے کہ ایل پی آر کے دوران مالی فائدہ نہیں ہوتا ۔ کسی نے مجھے مشورہ دیا کہ میں دوبارہ سروسز ٹریبیونل میں دعوٰی دائر کروں تو پنشن میں فائدہ ہو جائے گا ۔ لیکن مجھ میں پھر 8 سال کے چکر میں پڑنے کی ہمت نہ تھی کیونکہ میرے والد صاحب پر فالج کا حملہ دوسری بار ہو چکا تھا اور مجھے سوائے ان کی تیمار داری کے کسی کا ہوش نہ تھا

کہانی کیا تھی؟

قبل ازیں ”میں چور ؟” اور ”غیب سے مدد“ کے عنوانات سے ایک واقعہ مع پس منظر اور پیش منظر بیان کر چکا ہوں ۔ اس واقعہ کا ایک اور پہلو ہے کہ ملک و قوم کی بہتری کیلئے جس پر سنجیدہ غور و فکر کی اشد ضرورت ہے ۔ کہانی جس پر تفتیش شروع کی گئی یہ تھی

مُخبر نے بتایا ”اجمل بھوپال نے منصوبہ بنایا ۔ منصوبے کو عملی جامہ پہنانے میں فورمین ”ح“ نے مدد کی ۔ گوڈؤن کیپر اور اُس کا ہیلپر(Helper) ہفتے کو ورکشاپ کے اندر ہی رہے ۔ اتوار اور پیر کی درمیانی رات کو منیجر ”ع“ اپنی سفید کار میں فورمین ”ت“ کو ساتھ لے کر آیا ۔ اندر سے بندوقیں گوڈؤن کیپر اور اس کے مددگار نے نکالیں ۔ چارجمین نے بندوقیں کار میں رکھنے میں مدد دی“

مُخبر کون ؟
متذکرہ بالا کہانی کا مُصنّف اور مُخبر ایک بدنامِ زمانہ ورکر تھا جو فیکٹری میں لیڈر بنا پھرتا تھا اور کاروبار اس کا تھا کہ ٹھرا (دیسی شراب) بیچتا تھا اور جُوے کا اڈا چلاتا تھا ۔ ایک بار اسے فیکٹری کے اندر جوا کھلاتے پکڑا گیا تھا ۔ میرے پاس لائے تو میں نے اُسے سخت تنبیہ کی تھی اور اُس کے اسسٹنٹ منیجر ”ع“ کو حکم دیا تھا کہ اُسے نظر میں رکھے جب تک وہ اپنا چال چلن درست نہ کر لے ۔ منیجر ”ع“ اُن دنوں اسسٹنٹ منیجر تھا ۔ فورمین ”ح“ اُس ورکشاپ کا فورمین تھا اور مُخبر کا بھی ۔ فورمین ”ت“ کا اس ورکشاپ سے تعلق نہ تھا مگر وہ نہ غلط کام کرتا تھا نہ کسی کو کرنے دیتا تھا ۔ چارجمین کا بھی اس ورکشاپ سے کوئی تعلق نہ تھا

حقیقت
ہمارے لوگوں پر یہ محاورہ صادق آتا ہے کہ کوئی کہے ”کُتا تمہارا کان لے گیا“ تو کُتے کے پیچھے بھاگنا شروع کر دیتے ہیں ۔ یہ نہیں دیکھتے کہ کان موجود ہے یا نہیں ۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں ابھی تک ہندوستان پر قابض انگریزوں کا بنایا ہوا فرسودہ نظامِ پولیس جاری ہے جو کہ مزید خراب ہو چکا ہے ۔ تفتیش کا طریقہ کار یہ ہے کہ پہلے یہ فیصلہ کیا جاتا ہے کہ پھندا کس کے گلے میں ڈالنا ہے پھر ایک کہانی بنائی جاتی ہے اور اس کہانی کو سچ ثابت کرنے کی پوری کوشش کی جاتی ہے

موازنہ
اگر کوئی متذکرہ بالا کہانی کے حوالے سے زمینی حقائق پر سرسری نظر بھی ڈالتا تو کہانی غلط ثابت ہو جاتی ۔ حقیقت یہ ہے کہ

1۔ منیجر ”ع“ کے پاس کالے رنگ کی کار تھی اور وہ فیکٹری کار پر نہیں آتا تھا ۔ سفید کار جنرل منیجر کے پاس تھی جو کار پر فیکٹری آیا کرتا تھا مگر ان دنوں چھٹی پر تھا اور شہر سے باہر گیا ہوا تھا
2۔ ویپنز فیکٹری کے چاروں طرف خاردار تار کی دبیز باڑ لگی ہوئی تھی ۔ اس باڑ میں سے کوئی گذر نہیں سکتا تھا سوائے اس کے کہ اسے کاٹا جائے اور یہ کہیں سے کٹی ہوئی نہیں تھی
3۔ صرف ایک گیٹ تھا اور اس پر فوج کا پہرا ہوتا تھا ۔ اوقاتِ کار کے دوران اس فیکٹری کے ملازمین پاس دکھا کر اندر آ سکتے تھے ۔ اوقاتِ کار کے بعد اُنہیں آرڈرلی آفیسر (Orderly) کو ساتھ لے کر آنا پڑتا تھا جو کہ تمام فیکٹریوں کا صرف ایک ہوتا تھا اور بغیر اچھی طرح چھان بین کے اجازت نہیں دیتا تھا اور اگر اجازت دے تو اس کا اندراج وہ اپنے ڈیوٹی رجسٹر میں کرتا اور گیٹ کیپر اپنے ڈیوٹی رجسٹر میں ۔ مگر ایسا کچھ موجود نہ تھا
4۔ متذکرہ بالا باڑ کے علاوہ پی او ایف کے گرد 8 فٹ اُونچی دیوار تھی ۔ 3 گیٹ تھے ۔ اوقاتِ کار کے دوران پاس دکھا کر ان میں فیکٹری میں داخل ہوا جا سکتا تھا لیکن اوقاتِ کار کے بعد باقی گیٹ پکے بند ہو جاتے تھے صرف مین گیٹ کھولا جا سکتا تھا جہاں گیٹ سٹاف کے ساتھ سیکیورٹی والے اور فوجی بھی موجود ہوتے تھے ۔ ان دنوں میں اوقاتِ کار کے بعد نہ کوئی داخل ہوا اور نہ باہر نکلا تھا
5۔ ورکشاپوں کے تمام دروازوں کو بڑے بڑے تالے لگا کر چابیاں مین گیٹ پر جمع کرادی جاتی ہیں ۔ اوقاتِ کار کے بعد صرف آرڈرلی آفیسر مین گیٹ کے رجسٹر پر اندراج کر کے چابیاں لے سکتا ہے اور اس کیلئے معقول وجہ لکھنا ہوتی تھی ۔ مگر کسی نے چابیاں نہیں لی تھیں اور چوری کے بعد اگلے دن چابیاں ویپنز فیکٹری کا نمائندہ مین گیٹ سے لے کر آیا تھا

مندرجہ بالا حقائق ثابت کرتے ہیں کہ متذکرہ بالا کہانی بالکل غلط اور بے تُکی تھی اور اشارہ دیتے ہیں کہ مین گیٹ پر مامور لوگوں میں سے کوئی چور یا چور کا معاون تھا

چوری کیسے ہوئی اور کیسے پکڑی گئی ؟
پچھلی تحریر میں ورکشاپ کی دیوار میں سوراخ کا میں ذکر کر چکا ہوں ۔ اس سوراخ والی دیوار کے ساتھ باہر کی طرف سیڑھی لگائی گئی تھی ۔ اس سوراخ میں سے چادر کے ساتھ لٹک کر ایک آدمی جس کا شانہ 18 انچ سے کم تھا ورکشاپ میں اُترا اور بندوقیں چادر کے ساتھ باندھ باندھ کر باہر بھجواتا رہا ۔ تمام بندوقیں سیکیورٹی والوں کی گاڑی پر پی او ایف کے اندر ہی مارشلنگ یارڈ میں چھُپا دی گئیں اور وہاں سے تھوڑی تھوڑی سیکیورٹی والوں کی گاڑی پر سیکیورٹی والوں کا ڈرائیور پی او ایف سے باہر لے جاتا رہا تھا

ورکشاپ میں اُترنے والا وہی ورکر تھا جس کا نام میری دی ہوئی 7 مشکوک آدمیوں کی فہرست میں سب سے اُوپر تھا ۔ مجھے متعلقہ ورکشاپ کے سینئر مستری ۔ چارجمین ۔ اسسٹنٹ فورمین اور فورمین نے اپنی اپنی سوچ اور تحقیق کے مطابق کُل 15 نام دیئے تھے ۔ میں نے ہر ایک کے ساتھ علیحدہ علیحدہ تبادلہ خیال کیا اور 8 نام فہرست میں سے نکال دیئے تھے ۔ بقایا 7 میں سرِ فہرست ایک لیبر کا نام تھا جو سینئر مستری نے دیا تھا ۔ اُس کے مطابق یہ نوجوان حُکم دیئے جانے کے باوجود کبھی ڈانگری نہیں پہنتا تھا اور عام طور پر کام کا وقت شروع ہونے کے ایک سے 5 منٹ بعد آتا تھا ۔ چوری کے بعد والے دن صبح وہ کام کے وقت سے کچھ منٹ پہلے ہی آ گیا ۔ اُس نے ڈانگری پہنی ہوئی تھی اور اس کے چہرے پر مچھروں کے کاٹنے کے نشان تھے جس کا بہانہ بنا کر وہ چھٹی لے کر چلا گیا تھا ۔ مستری کا خیال تھا کہ بندوقیں چوری کر کے مارشلنگ یارڈ میں چھپائی گئی ہوں گی جہاں مچھر بہت ہوتے ہیں ۔ اسی لئے اس نے ڈانگری پہنی اور وہیں سے اسے مچھروں نے کاٹا

مستری کا خیال درست تھا ۔ 2 ہفتے بعد جب میرے بتائے ہوئے کے مطابق تفتیش شروع کی گئی تو 12 بندوقیں مارشلنگ یارڈ سے ہی ملی تھیں ۔ باقی قبائلی علاقہ میں بیچ دی گئی تھیں جن میں سے 3 پیسے دے کر واپس لی گئیں اور باقی کا کچھ پتہ نہ چلا تھا

غیب سے مدد

اس سلسہ میں 4 واقعات بعنوانات ”گفتار و کردار“ ۔ ”پارسل“۔ ”گھر کی مرغی ؟“ اور ”میں چور ؟“ لکھ چکا ہوں

میں نے کچھ طوالت کے باعث اور کچھ تواتر ٹوٹنے کے خدشہ کے تحت اپنی تحریر ”میں چور ؟“ میں چند متعلقہ ظاہر اور پسِ پردہ واقعات رقم نہیں کئے تھے ۔ ان کے ذکر سے قبل ایک اہم حقیقت

اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی پر کامل بھروسہ رکھا جائے اور اُسی کے بتائے ہوئے راستہ پر چلا جائے تو مدد غیب سے آتی ہے ۔ اس کیلئے گناہوں سے مکمل پاک ہونا ضروری نہیں ہے

چوری سے قبل
چوری سے ایک ڈیڑھ ماہ قبل جب میں پروڈکشن منیجر تھا اور جنرل منیجر کا اضافی کام نہیں کر رہا تھا جس ورکشاپ سے چوری ہوئی تھی اُس کے اسسٹنٹ منیجر ”د“ میرے پاس آئے کہ دیوار میں ایک سوراخ کرنا ہے اُس کی اجازت چاہیئے ۔ سوراخ زمین سے 10 فٹ اونچا ہونا تھا پھر بھی خطرناک تھا ۔ میں جواز سے مطمئن نہ ہوا اور اجازت نہ دی ۔ پھر مجھ سے بالا بالا جنرل منیجر یا اُس سے بھی اُوپر سے یہ حُکم میرے ماتحت ایک اسسٹنٹ منیجر ”ن“ کو دیا گیا ۔ وہ میرے پاس صرف مطلع کرنے آیا ۔ میں نے اُسے بھی منع کیا لیکن اس نے کہا ”بڑے صاحب نے حُکم دیا ہے“ تو میں نے کہا ”اگر آپ نے حُکم ماننا ہی ہے تو 18 انچ ضرب 18 انچ بہت بڑا سوراخ ہوتا ہے ۔ سوراخ پر 3 انچ کا اینگل آئرن کا فریم لگا کر اس پر اینگل آئرن اور آدھ انچ کے سریئے جو تین تین انچ پر ہوں کی کھڑکی لگائیں جسے روزانہ چھُٹی سے قبل مضبوط تالہ لگایا جائے ۔ جیسا کہ بعد میں معلوم ہوا کھڑی نہیں لگائی گئی تھی اور بندوقیں اسی سوراخ کے راستے چوری ہوئی تھیں

چوری کے بعد
میری لڑکپن کے زمانہ سے عادت ہے کہ صبح پَو پھٹتے ہی اُٹھ جاتا ہوں ۔ چوری کے 6 دن بعد بروز ہفتہ میں ابھی جاگا نہیں تھا کہ ٹیلیفون کی گھنٹی بجی ۔ میں نے ٹیلیفون اُٹھایا تو آواز آئی ” سر ۔ آپ بچوں کو لے کر راولپنڈی اپنے گھر چلے جائیں اور روزانہ وہیں سے بس پر آیا کریں”۔ اور ٹیلیفون بند ۔ کچھ سمجھ میں نہ آیا ۔ تھوڑی دیر بعد فجر کی نماز کا وقت ہو گیا ۔ نماز کے بعد میں معمول میں لگ گیا اور ٹیلیفون ذہن سے محو ہو گیا ۔ سہ پہر کے وقت اچانک ٹیلیفون پر سُنا ہوا فقرہ میرے ذہن میں اُبھرا ۔ سوچا مشورہ درست ہے ۔ اپنی بیگم سے عمل کا کہا ۔ بیگم نے ٹکا سا جواب دیا ”آپ چھٹی لے لیں اور ہمارے ساتھ راولپنڈی میں ہی رہیں ورنہ میں یہیں رہوں گی“۔

میں نے ٹیلیفون اُٹھایا اور اپنے ماتحت منیجر ”ع“ کو حُکم دے ڈالا جو مجھے بطور مشورہ ملا تھا ۔ لیکن اُنہوں نے اپنی پرانی کار کی نوک پلک درست کرنے میں اتوار کا دن ضائع کر دیا اور رات آئی تو اُٹھا لئے گے جس کا مجھے پیر کی صبح پَو پھٹنے سے قبل ڈھائی بجے پتہ چلا

منگل کی صبح میں سویا ہوا تھا کہ پھر پَو پھٹنے سے کچھ پہلے ٹیلیفون کی گھنٹی بجی ۔ اُٹھایا تو آواز تھی ”سر آپ گئے نہیں ۔ اب مہربانی کریں دروازے کھڑکیاں بند رکھیں باہر نکلنے سے قبل چاروں طرف دیکھ لیں”۔ اور ٹیلیفون بند ۔ اس کے بعد میں سویا نہیں اور اس آواز پر بہت غور کرتا رہا مگر 2 بار سُننے کے باوجود میں نہ جان سکا کون تھا ؟ آج تک مجھے معلوم نہیں ہو سکا کہ وہ اللہ کا بندہ کون تھا ۔ بہر حال اُس کی نصحیت پر احتیاط کے ساتھ عمل کیا ۔ اللہ کے حکم کے بغیر تو کچھ ہو نہیں سکتا لیکن میرا خیال ہے کہ اس نصیحت پر عمل کرنے کے نتیجہ میں آزاد رہا

ہماری فیکٹری کے 6 اہلکار اُٹھائے جانے کے بعد 4 دن تک میں تن تنہا لڑتا رہا ۔ اس کے ساتھ ساتھ فیکٹری میں کام بھی میری ذمہ داری تھی اور وہ بھی 3 آدمیوں کا (اپنا ۔ جنرل منیجر کا جو چھُٹی پر تھا اور منیجر کا جو اُٹھا لیا گیا) ۔ میں کوئی پہلو کمزور چھوڑنا نہیں چاہتا تھا ۔ پانچویں دن دوسری فیکٹریوں سے اسسٹنٹ منیجر اور منیجر صاحبان کے ٹیلیفون آنے شروع ہوئے ۔ پورے ادارے میں طوفان اُٹھنے کا احساس مجھے اُس وقت ہوا جب فورمین ۔ اسسٹنٹ فورمین ۔ چارجمین ۔ گوڈاؤن کیپرز اور ورکمین کی ایسوسی ایشنز کے نمائندے الگ الگ میرے پاس آئے اور ہر ایک نے مختلف الفاظ میں کہا ”جناب ۔ ہم آپ کے ساتھ ہیں ۔ ہم انتہائی اقدام کیلئے بھی تیار ہیں“۔ میں نے ہر ایک وفد کا شکریہ ادا کرنے کے بعد کہا”متحد رہیں اور اللہ سے بہتری کی دعا کریں ۔ اپنا کام تندہی کے ساتھ کرتے رہیں“۔

وہ مجھے یہ کہتے ہوئے چلے گئے ”ہمارا ایک ایک رُکن آپ کے ساتھ ہے ۔ آج سے آپ ہمارے لیڈر ہیں”۔ میں نے دل میں کہا ”اللہ تیری شان ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو بار بار کام کی تاکید کرنے کے باعث میرے ساتھ ناراض رہتے تھے“ ۔

اُنہوں نے بغیر مجھے بتائے چوکھا چندہ اکٹھا کر لیا اور مجھے قانونی چارہ جوئی کیلئے کوئی بہت بڑا وکیل کرنے کا کہا ۔ میں پہلے ہی اپنے پاس سے خرچ کر کے منیجر اور دو فورمینوں کے لواحقین سے دستخط کروا کر حبسِ بے جا کا کیس عدالت میں داخل کروا چکا تھا ۔ اُنہوں نے تحمکانہ لہجہ اختیار کرتے ہوئے میں نے جو خرچ کیا تھا مجھے دے دیا ۔ کیس کی پہلی پیشی ہوتے ہی سب اہلکاروں رہا کر دیا گیا تھا

ان لوگوں کے ساتھ کیا ہوا ؟

اگلے دن منیجر ”ع“ نے بتایا ”مجھے ایک کمرے میں ایک کرسی پر بٹھا دیا گیا تھا اور ایک بڑا سا بلب روشن کر دیا گیا تھا ۔ مجھے اُونگ آ جائے تو جھٹکا دے کر جگا دیتے تھے ۔ بلب پر آنے والے بیشمار پتنگے میرے اُوپر گرتے میرے اُوپر چلتے رہتے ۔ ایک دن مجھے ایک آڈیو ٹیپ سُنائی گئی جس میں گوڈاؤن کیپر نے اقبالِ جُرم کیا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ بندوقیں منیجر ”ع“صاحب اپنی کار میں باہر لے کر گئے تھے جس کا رنگ سفید تھا ۔ کچھ دیر بعد گوڈاؤن کیپر کو گھسیٹتے ہوئے لائے اور بولے بتاؤ ان کو ۔ گوڈاؤن کیپر بولا کہ ‘آپ بندوقیں لے کر گئے تھے اپنی کار میں’ ۔ میں نے غصے سے کہا کہ ‘کیا بکواس کر رہے ہو’ ۔ وہ گوڈاؤن کیپر کو چھوڑ کر چلے گئے تو وہ زمین پر گھسٹتا ہوا آیا اور میرے پاؤں چوم کر گڑگڑا کر کہنے لگا ۔ سر مجھے معاف کر دیں ۔ دیکھیں انہوں نے میری کیا حالت بنا دی ہے ۔ میں مزید برداشت نہیں کر سکتا تھا ۔ اُنہوں نے جو کہا میں نے بول دیا“۔

فورمین ”ت“ (جو باعمل مسلمان تھا) نے بتایا ”صاحب ۔ میری داڑھی کھینچتے ۔ گالیاں دیتے ۔ مجھے ننگا بھی کیا ۔ میں جھوٹ نہیں بول سکتا تھا ۔ اللہ نے بڑا کرم کیا کہ ہم رہا ہو گئے ۔ اگر ایک دن اور رہ جاتے تو میں نے اقبالِ جُرم کر لینا تھا“۔
یہ فورمین محنتی اور دیانتدار تھے ۔ میں نے کہا ”ت ؟ یہ آپ کہہ رہے ہیں ؟“
وہ بولا ”ہاں صاحب ۔ ایک دن قبل اُنہوں نے کہا تھا کہ اگر تم نہیں مانو گے تو کل تمہاری بیٹیوں کو یہاں لے کر آئیں گے اور اُن کے سامنے تمہیں ننگا کریں گے ۔ صاحب ۔ میری 20 اور 22 برس کی بیٹیاں ہیں جن کی شکل آج تک کسی غیر نے نہیں دیکھی ۔ میں اُن کی ناموس کی خاطر اپنی جان دے دیتا“

ہفتہ عشرہ بعد میں گوڈاؤن کیپر کا حال پوچھنے گیا تو اُس نے بتایا ”سر جی ۔ میرے ٹخنوں سے رسی باندھ کر مجھے اُلٹا لٹکائے رکھتے تھے ۔ دن میں ایک بار ایک لکھے ہوئے بیان کو بلند آواز میں پڑھنے کا کہتے تھے جس کے شروع میں تھا کہ میں حلفیہ بیان کرتا ہوں ۔ میں انکار کرتا تو مجھے پھر اُلٹا لٹکا دیتے ۔ میں پانی مانگوں تو پانی میرے چہرے پر پھینکتے ۔ کئی دن لٹکے رہنے کے بعد میرا دماغ کام نہیں کرتا تھا ۔ پھر ایک دن میں نے بیان پڑھ دیا ۔ میرے ٹخنے سُوج گئے تھے اور میں کھڑا نہیں ہو سکتا تھا ۔ ابھی بھی میں ٹھیک طرح سے چل نہیں سکتا“۔

دونوں فورمینوں نے ریٹائرمنٹ لے لی ۔ چارجمین ۔ گوڈاؤن کیپر اور ورکر ملازمت چھوڑ کر چلے گئے ۔ منیجر صاحب نمعلوم کس طرح صاحب لوگوں کے منظورِ نظر بن گئے ۔ ان کی خاطر میں نے اپنا بلکہ اپنے بیوی بچوں کا مستقبل بھی داؤ پر لگا دیا تھا اور بعد میں یہ صاحب در پردہ میرے خلاف بڑے افسروں کو لکھ کر دیتے رہے جو مجھے کسی نے میرے ریٹائرمنٹ لینے کے بعد دکھایا

مسروقہ بندوقوں کا کیا ہوا ؟
ان لوگوں کے رہا ہونے کے ایک ہفتہ بعد مجھے کسی میجر صاحب کا ٹیلیفون آیا کہ اُنہیں میری اعانت کی بہت ضرورت ہے اور مجھے گھر پر ملنا چاہتے ہیں لیکن وقت دے کر نہ آئے اور اگلے روز بغیر بتائے آ پہنچے ۔ مجھ سے مدد چاہی ۔ میں نے کہا میرے پاس کچھ لوگوں کی فہرست ہے اور میرا دماغ کہتا ہے کہ ان میں سے کم از کم ایک اس چوری میں ملوّث ہے ۔ دوسرے دن میرے دفتر آ کر اُنہوں نے مجھ سے وہ فہرست لے لی

چند دن بعد میجر ”ش“ صاحب جن کا دھمکیوں والا ٹیلیفون مجھے آیا تھا نے ٹیلیفون پر معذرت کی اور ملاقات کی خواہش ظاہر کی ۔ میں چلا گیا اور اُن کے ساتھ مختلف موضوعات پر بات ہوئی ۔ چوری سے چار ہفتے بعد میجر ”ش“صاحب نے میری دی ہوئی فہرست کے مطابق دو چور بتائے اور بتایا کہ ایک وہ ہے جس کا نام میں نے سرِ فہرست لکھا تھا ۔ اُن کے ساتھیوں کی گرفتاری اور ایک درجن بندوقوں کی برآمدگی کا بھی بتایا اور کہا کہ بقیہ بندوقیں بیچ دی گئی تھیں ۔ کہنے لگے ”سر ۔ میں تو باہر کا آدمی تھا ۔ آپ کے سکیورٹی والوں ( 2 میجر) نے من گھڑت کہانی کو سپورٹ کر کے سب کچھ خراب کیا ۔ ہم تمام بندوقیں برآمد کر سکتے تھے”۔

چند ماہ بعد میجر ”ش“ نے مجھے ٹیلیفون کیا ۔ بہت مایوس لگ رہے تھے کہنے لگے ”سر ۔ برآمد ہونے والی 12 بندوقوں کے نمبر میں نے خود آپ کی دی ہوئی فہرست سے ملائے تھے ۔ وہی بندوقیں پولیس کے حوالے کی تھیں ۔ پھر تھانے میں بندوقیں کیسے بدل گئیں ؟ اور سب مجرم رہا ہو گئے “۔
میں نے کہا ”ہمارے ہاں سے تو بندوقیں پہلی بار چوری ہوئی ہیں مگر یہ تو بڑی خطرناک بات ہے ۔ اس کا مطلب تو یہ بنتا ہے کہ بندوقیں کہیں اور سے چوری ہو رہی ہیں“۔
یہ میجر ”ش“ صاحب کا مجھے آخری ٹیلیفون تھا جس کا آخری فقرہ تھا ”سر ۔ پتہ نہیں اس مُلک کا کیا بنے گا“۔

گھر کی مرغی ؟

اس سلسلہ کی 2 تحاریر ”گفتار و کردار“ اور ”پارسل“ لکھ چکا ہوں

سوال ہے کہ ” تعلیم یافتہ ذہین اور زِیرک جوان مُلک کیوں چھوڑ جاتے ہیں ؟“

محاورہ ہے ”گھر کی مرغی دال برابر“۔ ہونا چاہیئے تھا ”گھر کی دال باہر کی مُرغی کے برابر“۔
اپنے مُلک کے حکومتی نظام کو پَرکھیں تو گھر کی مُرغی دال سے بھی بہت کمتر درجہ میں چلی جاتی ہے ۔ 30 سالہ سرکاری اور 5 سالہ غیرسرکاری ملازمت میں میرے ساتھ کئی حوصلہ شکن واقعات پیش آئے ۔ بات سمجھنے کیلئے اُمید ہے کہ صرف ایک واقعہ کافی ہو گا

پس منظر
پاکستان نے 1966ء میں جرمن مشین گن المعروف مشین گن 42 بنانے کا فیصلہ کیا ۔ اس کی منصوبہ بندی ۔ نشو و نما اور پیداوار (Planning, development and production) کیلئے مجھے مقرر کیا گیا ۔ منصوبہ بندی کے دوران زمینی حقائق (ground realities) کا مطالعہ کرتے ہوئے میں نے دیکھا کہ جرمن مشین گن کی نالی کے سوراخ (Barrel bore) میں جھَریاں (grooves) بنی تھیں جن پر سخت کروم پلیٹنگ (hard chrome plating) کی جاتی تھی جس سے اس کی برداشتی زندگی (endurance life) زیادہ سے زیادہ 16000 کارتوس تک ہو جاتی تھی ۔ اگر سخت کروم پلیٹنگ نہ کی جائے تو برداشتی زندگی زیادہ سے زیادہ 6000 رہ جاتی تھی ۔ سوراخ میں کروم پلیٹنگ کرنا نہائت مشکل کام ہوتا ہے اور اس میں جرمنی کی ایک دوسری کمپنی مہارت رکھتی تھی جسے نالیاں تیار کرنے کے بعد بھیج دی جاتی تھیں ۔ مشین گن کی تیار نالیاں (finished barrels) کروم پلیٹنگ کے بعد 30 فیصد تک ناکارہ (reject) ہو جاتی تھیں ۔ سب سے بڑی بات کہ یہ کمپنی سوراخ میں کروم پلیٹنگ کی ٹیکنالوجی بیچنے کو تیار نہ تھی

ہم اگر ان کا پلانٹ پاکستان میں لگاتے تو ہر وقت اُن کے رحم و کرم پر ہوتے ۔ مزید یہ کہ کسی خرابی کی صورت میں اُن کے ماہرین کو جرمنی سے بُلانا پڑتا ۔ اس طرح خرچہ بھی بہت ہوتا اور وقت بھی ضائع ہوتا ۔ میں نے جرمن انجنئیروں سے بات کی کہ وہ کیوں دوسری کمپنی کے محتاج بنے ہوئے ہیں اور اس کا کوئی بہتر حل نہیں نکالتے ؟ اُنہوں نے بتایا کہ 25 سے 30 فیصد بنی بنائی نالیاں بیکار ہونا اُنہیں بہت کھلتا ہے اسلئے وہ پچھلے 5 سال سے سوراخ کا ڈیزائین بدل بدل کر تجربے کر چکے ہیں مگر کامیابی نہیں ہوئی البتہ کوشش جاری ہے

میں نے اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کی دی ہوئی صلاحیت اور عِلم کو استعمال کرتے ہوئے سوراخ کا ایک ڈیزائن بنایا جس میں جھریوں کے کنارے ختم ہو گئے ۔ اس ڈیزائین کا نام میں نے پولی گون پروفائل (Polygon Profile) رکھا ۔ یہ ڈرائینگ میں نے جرمنی بھیجی کہ اس کے مطابق ایک کھونٹی (Mandrel) بنا کر بھیج دیں ۔ کچھ ماہ بعد اُنہوں نے کھونٹی بنا کر بھیجی اور اس سے بنی ہوئی چند نالیاں بھیجیں کہ ہم اُنہیں مشین گن میں لگا کر امتحانی فائرنگ (Test firing) کریں ۔ ہم نے خود بھی اس کھونٹی کے مطابق چند نالیاں بنائیں اور ان سب نالیوں کی امتحانی فائرنگ کروائی

امتحان لینے والے سینئر انسپکٹنگ آفیسر (ایس آئی او) میجر منیر اکبر ملک تھے جو مکینیکل انجنیئر تھے ۔ 2 روز بعد بہت خوش خوش آئے ۔ بڑے تپاک سے میرے ساتھ ہاتھ ملایا اور بولے ” آپ کو تو سونے میں تولا جانا چاہیئے ۔ وَنڈر فُل وَنڈر فُل ۔ اچھا بتاؤ کتنے کارتوس فائر کئے ہوں گے ؟”۔ میں جو اس وقت شَشدر کھڑا تھا ڈرتے ڈرتے بولا ”12000 ؟” میجر صاحب بولے ”بس س س ؟؟؟ ادھر آؤ ۔ گلے ملو“۔ مجھے بھینچ کر فارغ ہوئے تو بولے ”18000 پلس“۔ اللہ کے فضل سے بغیر سخت کروم پلیٹنگ کے ہم نالی کی 3 گنا زندگی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے جو کرومیئم پلیٹِڈ سے بھی 2000 زیادہ تھی

جرمنی کی جس کمپنی سے پاکستان نے مشین گن بنانے کا لائسنس لیا تھا اُن کے سربراہ اور ٹیکنیکل چیف جرمنی کی حکومت کے متعلقہ وزیر کو ساتھ لئے پاکستان پہنچ گئے ۔ پاکستان آرڈننس فیکٹریز کے چیئرمین جنرل اُمراؤ خان اُنہیں ساتھ لئے میرے پاس آئے اور مجھے کہا ” بھوپال یہ آپ کو لینے آئے ہیں ۔ میں نے ان سے کہا ہے کہ آپ کے پاس تو کئی ایسے آدمی ہیں ۔ ہمارے پاس صرف ایک ہے وہ بھی آپ لیجائیں گے تو ہم کیا کریں گے ۔ تمہارا کیا خیال ہے ؟“ میں کہا ” آپ نے درست کہا ہے ۔ میں کہیں نہیں جاؤں گا“۔ میرا بنا ہوا ڈیزائین ہمیں لائسنس دینے والی کمپنی نے بھی اپنا لیا اور جرمن افواج کو میرے بنائے ڈیزائین کی مشین گن سپلائی ہونے لگی

اصل کہانی اب شروع ہوتی ہے

میں نے کمانڈنٹ آئی ڈی اے (Inspection Depot Armament) کے نام معرفت سینئر انسپکٹنگ آفیسر خط لکھا ۔ جس میں ساری روئیداد لکھ کر درخواست کی کہ چیف انسپکٹر آرمامنٹ سے اس ڈرائینگ کی منظوری حاصل کی جائے ۔ کمانڈنٹ آئی ڈی اے نے اس خط کو زبردست قسم کی سفارش (recommendation) کے ساتھ آگے بھیجا ۔ ہفتہ بعد ایس آئی او ”جاہل نالائق” اور پتہ نہیں کیا کیا بولتے ہوئے بڑے پریشان میرے دفتر میں داخل ہوئے ۔ میں نے کھڑے ہو کر پوچھا ”خیریت ؟ کیا ہوا ؟ کسے گالیاں دے رہے ہیں ؟“۔ جواب ملا ”وہی جاہل جو آجکل چیف انسپکٹر آرمامنٹ ہے“۔ پھر ایس آئی او نے بتایا کہ ڈرائینگ اس اعتراض کے ساتھ واپس آ گئی تھی کہ صرف جرمنی کی کمپنی جن سے لائسنس لیا ہے کی ڈرائینگ کی منظوری دی جائے گی

ایک طرف میری محنت یا عزت تھی اور دوسری طرف ملک و قوم کا مفاد ۔ میں نے وہ ڈرائینگ جرمنی بھیج دی کہ اپنی طرف سے مجھے بھیجیں ۔ 2 ہفتے بعد جرمنی سے ایک انجنیئر پاکستان آ گیا ۔ وہ مجھے ملنے آیا اور کہا ”یہ ڈیزائین آپ نے بنایا ہے تو اسے اپنے نام سے کیوں رجسٹر نہیں کراتے ؟” میں نے بڑی مشکل سے اسے سمجھایا تو اُس نے اپنی کمپنی کے نام سے بنی ہوئی وہی ڈرائینگ مجھے دے کر کہا ” کاش آپ جرمنی میں پیدا ہوئے ہوتے”۔

سال کے آخر میں میرے باس نے میری سالانہ رپورٹ میں لکھا
Not yet fit for promotion

عام لوگ

آج کا دن عام لوگوں کے نام جو میری طرح نام نہیں کام کیلئے کام کرتے ہیں ۔ میری یاد داشت چونکہ بہت گڑبڑ ہو چکی ہے اسلئے جس کا نام لکھنے سے رہ گیا وہ اپنے آپ کو شامل سمجھے

عام لوگ عام ہی ہوتے ہیں ۔ یہ باتیں کم اور عمل زیادہ کرتے ہیں ۔ کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اَنٹ شَنٹ باتیں کرتے رہتے ہیں لیکن دل میں سب کی قدر کرتے ہیں اور عمل میں منہمک ہوتے ہیں ۔ ان عام لوگوں کے نام اخبارات میں نہیں چھَپتے اور نہ ٹی چینلز والے انہیں بلاتے ہیں ۔ یہ لوگ خاموشی سے بڑے بڑے کام کرتے جاتے ہیں ۔ میں آج چند ایسے ہی لوگوں کا ذکر کرنا چاہتا ہوں

1 ۔ شروع شروع میں اُردو چابی تختہ میرے پاس نہیں تھا میں بڑی مشکل سے اپنے بلاگ پر لکھتا تھا ۔ میری اس تکلیف کو ایک نوجوان نے بھانپ لیا اور ایک اُردو کا چابی تختہ بھیج دیا جسے انسٹال کر کے میں بلا دقت اُردو لکھنے لگا ۔ یہ نوجوان (جو اب شاید جوان کہلاتا ہو گا) ہے حارث بن خُرم

2 ۔ حدیث کی اہمیت پر لکھنا چاہ رہا تھا لیکن جس کتاب کا میں مطالعہ کرنا چاہتا تھا وہ مجھے اسلام آباد میں نہ ملی ۔ میں نے پوچھا ”کہاں سے ملے گی” تو میرے گھر کا پتہ پوچھا گیا
کچھ دن بعد ایک پارسل ملا جس میں مطلوبہ کتاب کے ساتھ چند اور چھوٹی چھوٹی کُتب تھیں ۔ بھیجنے والے ہیں خاور بلال صاحب جو اُن دنوں کراچی میں تھے ۔ اُن کا ٹیلیفون نمبر لیا ۔ کچھ دن بعد نذرانہ عقیدت پیش کرنے کی غرض سے ٹیلیفون کیا تو جواب ملا ”نہیں ہیں“۔ نمبر کسی دفتر کا تھا ۔ چند دنوں کے وقفے سے ٹیلیفون کرتا رہا مگر بات نہ ہو سکنے پر تشریح چاہی ۔ بتایا گیا کہ وہ ملازمت چھوڑ کر جا چکے ہیں

3 ۔ پھر ایک دن نعیم اختر (الف نظامی) صاحب نے آ کر دروازے کی گھنٹی بجائی اور میرے گھر کو رونق بخشی ۔ کچھ کُتب تحفہ کر کے میرے کندھوں پر وزن اور بڑھا گئے ۔ کچھ روز بعد اُن کے درِ دولت پر نیاز پیش کرنے کیلئے راولپنڈی گیا ۔ گو میں راولپنڈی میں 16 سال رہا ہوں مگر اس علاقے میں پہلی بار جانے کا اتفاق ہوا تھا ۔ میں کوشش کے باوجود الف نظامی صاحب کی رہائش گاہ تک نہ پہنچ سکا

4 ۔ ستمبر 2010ء میں جاپان کی بنی ہوئی ایک پرانی گاڑی خرید لی ۔ اس کے ساتھ صرف ایک چابی ملی ۔ میں احتیاطی آدمی ہوں اسلئے دوسری چابی کیلئے کوشش کی تو معلوم ہوا اس کی نقل شاید نہ بن سکے ۔ جاپان میں کچھ لوگوں سے صرف بلاگی تعارف تھا ۔ اُنہیں درخواست کی ۔ یاسر صاحب نے ریموٹ چابی بھیج دی جو جیب میں ہو تو کار چلائی جا سکتی ہے ۔ قیمت پوچھی تو جواب ملا ”کچھ خیرات کر دیں”۔ سُبحان اللہ ۔ دسمبر 2012ء میں چاپان سے آئے تو ملنے بھی آ گئے

5 ۔ جب بلاگسپاٹ پر حکومت نے پابندی لگائی تو میں نے اپنا بلاگ ورڈ پریس پر منتقل کیا ۔ ملتان والے قدیر صاحب نے زور دار طریقے سے پیشکش کر دی ”انکل ۔ میں آپ کو ایک تھیم اُردوا کر دیتا ہوں وہ لگائیں“۔ پیشکش معصومانہ تھی اسلئے ٹھکرانا مناسب نہ سمجھا ۔ گو اُس تھیم کو اپنے بیٹے زکریا کی مدد سے بہت تبدیل کر چکا ہوں مگر اس کی سی ایس ایس میں قدیر صاحب کا نام قائم رکھا ہوا ہے ۔ 2011ء میں ایک دن قدیر صاحب نے ٹیلیفون پر پتہ پوچھا اور بتایا کہ اسلام آباد آئے ہوئے ہیں ۔ میں نے کہا ”کہاں ہیں ؟ میں لینے آ جاؤں“۔ کہنے لگے ”کافی دور ہوں ۔ میں خود آتا ہوں”۔ اور آگئے

6 ۔ خرم صاحب امریکا میں ہوتے ہیں انہوں نے میرا پتہ پو چھا ۔ پھر ایک دن ٹیلیفون آیا کہ لاہور سے بس میں اسلام آباد آ رہے ہیں ۔ کہنے لگے ”آپ تکلیف نہ کریں ۔ میں خود آ جاؤں گا ” بہر کیف میں اُنہیں پشاور موڑ سے لے آیا ۔ پشاور موڑ میرے گھر سے 2 کلومیٹر ہے اور بس کا اڈا 20 کلو میٹر ۔ مجھے ملنے کے بعد وہ واپس لاہور کی بس پر سوار ہو گئے ۔ یعنی صرف مجھ سے ملاقات کیلئے اسلام آباد آئے تھے ۔ میری اتنی زیادہ عزت افزائی !

7 ۔ پچھلے سال سعد صاحب نے مطلع کیا کہ تعلیم کے سلسلہ میں اسلام آباد آ چکے ہیں اور ملنا چاہتے ہیں ۔ قیام عارضی طور پر سیکٹر جی 9/2 میں بتایا جو کہ ہمارے گھر سے 2 کلو میٹر ہے ۔ پیدل یا ٹیکسی پر آنا چاہتے تھے ۔ میں نے اَن سُنی کی اور جا کر اُنہیں لے آیا ۔ خود بولتے نہ تھے اور مجھے بُلواتے رہے ۔ جب میری باتیں ختم ہو گئیں تو واپس چھوڑ آیا ۔ پھر ایک دن اطلاع دی کہ کوئی تقریب ہو رہی ہے جس سے اُردو بلاگنگ کا تعلق ہے اور داخلہ کھُلا ہے ۔ سو ان کے ساتھ میں بھی گیا ۔ وہاں بڑے بڑے لوگوں یعنی شاکر قادری ۔ امجد علوی ۔ ایم بلال ایم ۔ الف نظامی صاحبان اور کئی دوسرے مہربانوں سے ملاقات ہوئی ۔ سعد صاحب نہ بتاتے تو میں محروم رہ جاتا