Category Archives: آپ بيتی

کيا ميں بھول سکتا ہوں ؟

کيا ميں بھول سکتا ہوں ستمبر 1965ء سے دسمبر 1971ء کے اپنے تجربوں کو ؟

ستمبر 1965ء
جب ميں نے سب پاکستانيوں کو جذبہ جہاد ميں سرشار ديکھا تھا
جب لاہوريئے پلاؤ کی ديگيں پکوا کر محاذ پر اپنے فوجی بھائيوں کو پہنچاتے تھے
جب گورنر کے صرف ايک بار کہنے پر گوالوں نے دودھ ميں پانی ملانا چھوڑ ديا تھا اور بازاروں ميں تمام اشيائے ضرورت ارزاں ملنے لگيں تھیں
جب ميں خندق کھودنے لگا تو کارکنوں نے مجھے پکڑ ليا اور کہا ”آپ کا جو کام ہے وہ ہم نہيں کر سکتے ۔ يہ کام ہم کر سکتے ہيں ہميں کرنے ديں“۔
خطرے کا سائرن بجنے پر کارکن ورکشاپوں سے باہر نہ نکلے ۔ میں نے اندر جا کر اُنہیں باہر نکلنے کا کہا تو جواب ملا ”سر مرنا ہوا تو باہر بھی مر جائیں گے ۔ ہمیں کام کرنے دیں ہماری فوج کو اسلحے کی ضرورت ہے“۔
جب اپنے ملک کے دفاع کيلئے ميں نے 15 يوم دن رات کام کيا تھا اور اس دوران روزانہ صرف ايک وقت کھانا کھايا تھا اور میں اکیلا نہیں تھا
جب ہر پاکستانی صرف پاکستانی تھا ۔ نہ بنگالی ۔ نہ مہاجر ۔ نہ سندھی ۔ نہ بلوچ ۔ نہ پٹھان ۔ نہ پنجابی بلکہ صرف اور صرف پاکستانی

پھر ناجانے کس کی بُری نظر یا جادو کام کر گیا اور ۔ ۔ ۔

ملک میں ایک جاگیردار وڈیرے نے مزدروں کو روٹی کپڑا اور مکان کا لالچ دے کر ایسا اُبھارا کہ دنیا بدل گئی
خاکروبوں نے سرکاری کوٹھیوں پر نشان لگانے شروع کئے کہ یہ میری ہو گی یہ تیری ہو گی
سکول کالج کے اساتذہ اور سرکاری محکموں کے افسروں کی بے عزتی کرنا آزادی کا نشان بن گیا
کالجوں میں داخل لڑکوں نے پڑھائی پر جلوسوں کو ترجیح دی ۔ ٹوٹی ٹریفک لائیٹس ۔ سٹریٹ لائیٹس اور گھروں یا دکانوں کے شیشے اُن کی گذرگاہ کا پتہ دیتے

دسمبر 1971ء
دسمبر 1971ء میں بھارت نے پھر پاکستان پر حملہ کر دیا
کارکنوں کے ساتھ مل کر خندقیں کھودنے کی پیشکش کی تو جواب ملا ”آپ خود کھودیں یا ٹھیکے پر کھدوائیں ۔ یہ ہمارا کام نہیں ہے”۔
دوسرے دن صبح اکثر کارکنوں نے یہ کہہ کر کام کرنے سے انکار کر دیا کہ اُن کی جان کو خطرہ ہے ۔ اُنہیں سمجھانے کی کوشش کی تو ان کا ایک نام نہاد نمائندہ بولا ”افسر دولتمند ہیں ۔ مر جائیں گے تو بیوی بچوں کو کوئی پریشانی نہیں ہو گی ۔ ہم مر گئے تو ہمارے بچوں کا کیا بنے گا ۔ آپ کام کریں ہم ورکشاپ کے اندر نہیں جائیں گے“۔

فی زمانہ تو حالات مزید دِگرگوں ہو چکے ہیں

يا اللہ ۔ وہ ستمبر 1965ء والے دن پھر سے لادے
یا اللہ ۔ میرے ہموطنوں کو عقلِ سلیم عطا فرما دے
يہ تيرے اس کمزور بندے ہی کی نہيں تيرے بہت سے بندوں کی التجاء ہے

ہم تھے بے خبر

ایسی بات نہیں ہے کہ ہم بے خبر تھے اور ہمیں کسی سے یا کسی کو ہم سے عشق ہو گیا تھا

بات یہ ہے بیکار بیٹھے کبھی کبھی ایسی چیز پر نظر پڑ جاتی ہے جس کی کبھی پروہ ہی نہ کی ہو یا جسے کبھی قابلِ التفات ہی نہ سمجھا ہو ۔ میں بیکار تو کبھی نہیں ہوا البتہ کبھی کبھار ایسا ہوتا ہے کہ کچھ کرنے کو جی نہیں چاہتا ۔ آج صبح سویرے ہی گرمی نے ایسا تپایا (گھر کے اندر صبح 4 بجے درجہ حرارت 33.7 سیلسِئس یا سینٹی گریڈ تھا) ۔ ناشتہ کر کے ساڑھے 7 بجے فارغ ہوا ۔ باہر گیا کہ اخبار اُٹھا لاؤں اور اس میں گُم ہو جاؤں مگر ایسی قسمت نہ تھی

8 بجے بجلی حسبِ معمول بھاگ گئی جو ہر ایک گھنٹے کے بعد ایک گھنٹہ غائب رہتی ہے ۔ 9 بجے بجلی صاحبہ تشریف لائیں تو کمپیوٹر چلا کر ڈاک دیکھی مگر کچھ نہ پایا ۔ اپنا بلاگ کھول کر اس پر بیزار سی نظر ڈالنا شروع کی تو ایک جگہ لکھا پایاmeter.asp

وقت گذارنے کی خاطر کمپیوٹر کا حسابدان (calculater) کھولا اور حساب لگانے لگا
مئی 2005ء ۔ 26 دن ۔ یکم جون 2005ء تا 31 مئی 2013ء ۔ 2922 دن ۔ جون 2013ء ۔ 10 دن ۔ کُل 2958 دن
2958 دنوں میں 302859 لوگوں نے میرے بلاگ کی کوئی نا کوئی تحریر پڑھی
چنانچہ ایک دن میں اوسط 102 سے زائد قارئین نے میرے بلاگ کو پڑھا
گویا ہم بھی ہوگئے پھنے خان

کیا نیکی ابھی بھی زندہ ہے ؟

آدمی کی زندگی میں کبھی کبھی ایسے واقعات ہوتے ہیں جو بظاہر معمولی اور لمحہ بھر کیلئے ہوتے ہیں مگر یاد رہ جاتے ہیں

واقعہ
دس بارہ سال قبل میں اور چھوٹا بھائی راولپنڈی میں کچھ سودا سلف لینے گئے ۔ پرانی سبزی منڈی کے باہر بازار تلواڑاں میں ہم نے کار کھڑی کی اور پرانی سبزی منڈی میں داخل ہوئے ۔ ہم جا رہے تھے کہ ایک کار پیچھے سے آئی ۔ سب حیران ہو کر دیکھ رہے تھے کہ کار کیوں اس بھیڑ والے بازار میں آئی ہے ۔ چھابڑی والوں کو مشکل پڑی تھی ۔ چلانے والا نوجوان تھا اور گو آہستہ مگر کار کو دھنساتا ہی چلا جا رہا تھا ۔ میں ایک دم ایک طرف ہوا مگر اس نے خیال نہ کیا اور پہیہ میری ٹانگ سے ٹکرایا ۔ دوسری طرف چھابڑی تھی جس سے میری ٹانگ زخمی ہو گئی ۔ میں ٹانگ کو دیکھ رہا تھا کہ نوجوان نے کار کا شیشہ کھول کر کہا “اندھے ہو ۔ نظر نہیں آتا”۔ میں نے اس کے گال پر تھپڑ جڑ دیا ۔ کچھ دیر بعد ایک سفید ڈاڑھی والے صاحب نے آ میرا راستہ روکا اور بولے ” تم کون ہوتے ہو میرے بیٹے کو تھپڑ مارنے والے ۔ میں تمہیں مزا چکھاتا ہوں”۔ میرا بھائی بیچ میں آ گیا ۔ کچھ لوگ جوشاہد تھے وہ بھی بیچ میں آ گئے تو میں بچ گیا

وہاں سے ہم دوسرے بازار میں چلے گئے اور ایک دکان سے خریداری کر رہے تھے کہ وہی سفید داڑھی والے صاحب آئے اور معافی مانگتے ہوئے بولے ” مجھ سے غلطی ہوئی ۔ مجھے معلوم نہیں تھا کہ میرے بیٹے کی گاڑی نے آپ کو ٹکر ماری تھی ۔ میں نے بیٹے سے پوچھا کہ ” اُنہوں نے تمہیں کیوں تھپڑ مارا ؟ تواس نے بتایا ۔ مجھے معاف کر دیجئے ۔ مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیئے تھا”۔

واپسی پر ہم دونوں بھائی کہہ رہے تھے کہ نیکی ابھی زندہ ہے

برادری نظام ۔ دوسری اور آخری قسط

پہلی قسط 24 مئی 2013ء کو لکھی تھی
میرے دادا کے دور میں دو بہت کٹھن معاملات بطور چوہدری اُن کے سامنے آئے ۔ ایک بھتیجی کی طلاق اور ایک دوسری بھتیجی کی شادی کا ۔ پہلی بھتیجی کی شادی ہونے کے بعد اس کا خاوند گھر سے بھاگ گیا اور کچھ دن بعد اس کا خط اس کے سسرال میں موصول ہوا کہ وہ اپنی ہونے والی بیوی کو ہمیشہ اپنی بہن سمجھتا رہا اسلئے اُسے اپنی بیوی نہیں سمجھ سکتا اور اسے طلاق دے رہا ہے ۔ پنچائت بلائی گئی جس میں فیصلہ ہوا کہ لڑکے کے والدین کا تین ماہ کیلئے حقہ پانی بند کیا جائے اور تین ماہ ختم ہونے سے پہلے وہ مطلقہ لڑکی کی شادی کا مناسب بندوبست کریں ورنہ اُنہیں برادری سے نکال دیا جائے گا ۔ یہ واقعہ میرے والد صاحب کی طالب علمی کے زمانہ کا ہے

میرے نانا کے تین بھائی اور ایک بہن تھی جو میری دادی تھیں ۔ جب میری والدہ پیدا ہوئیں تو میری دادی نے اپنے اکلوتے بیٹے کیلئے اپنی بھتیجی کو چُن لیا ۔ جب میرے والد نے میٹرک کرنے کے بعد میرے دادا کا کاروبار سنبھالا تو میرے دادا کی بھابھی نے اپنے خاوند کو کہا کہ اپنی بیٹی کی شادی اپنے بھتیجے سے کرو ۔ میرے دادا سے بات کرنے پر اُنہیں معلوم ہوا کہ میری دادی اپنے بیٹے کا رشتہ اپنی بھتیجی سے طے کر چکی ہے ۔ اس پر میرے دادا کے بھائی جو میرے دادا سے بڑے تھے نے کہا کہ ہمارے فلاں رشتہ دار کے بیٹے کا کاروبار بھی اچھا چل رہا ہے وہ لوگ تمہاری بات مان لیں گے ۔ تم اس لڑکے کے ساتھ میری بیٹی کا رشتہ طے کرا دو جو کہ میرے دادا نے کرا دیا ۔

متذکرہ بالا لڑکے کی ماں جس نے دوسری بھتیجی کو طلاق دی تھی اور دادا نے جس بھتیجی کی شادی کرائی اس کی ماں آپس میں بہنیں تھیں ۔ اُن کے خاندان نے میرے دادا کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈہ شروع کر دیا ۔ صحت کے علاوہ میرے دادا کی سُبکدوشی کی وجہ یہ تھی

برادری نظام میں کبھی کبھی دلچسپ واقعات بھی ہوتے ۔ جب میرے دادا نے چوہدری کی ذمہ داری سے سُبکدوشی اختیار کی تو جس شخص کو چوہدری بنایا گیا وہ متذکرہ بالا طلاق دینے والے لڑکے کا چھوٹا بھائی تھا کیونکہ میرے دادا سے پہلے اُن کے والد برادری کے چوہدری تھے اور اُن کے عزیز و اقارب ہی میرے دادا کے خلاف شور کئے ہوئے تھے ۔ وہ اُنہی دنوں سوڈان میں اپنا کارو بار اپنے بڑے بیٹے کے حوالے کر کے وطن واپس آئے تھے ۔۔ یہ واقعہ پاکستان بننے سے چند سال پہلے کا ہے ۔ بہرکیف چوہدری بننے کے بعد بھی وہ اپنے قریبی عزیزوں کو درست نہ کر سکے

غلط پروپیگنڈہ کی وجہ سے اُن کے خاندان کے ساتھ ہمارے خاندان کی بول چال بند ہو گئی ۔ کچھ سال بعد شائد 1950ء کی بات ہے اُنہوں نے کسی ذریعہ سے والد صاحب کو مع بیوی بچوں کے اپنے گھر ضیافت پر بُلوایا ۔ جب ہم سب کھانا کھا چکے تو انہوں نے اپنی پگڑی اُتار کر میرے والد صاحب کے سر پر رکھ دی اور کہا “بھائی ۔ یہ پگڑی آپ ہی کے سر پر اچھی لگتی ہے ۔ آپ یہ ذمہ داری سنبھالیں ۔ مجھے حالات معلوم نہ تھے ۔ آپ لوگ سچے ہیں اور میرے خاندان والے جھوٹے ۔ انہوں نے مجھے بہکا دیا تھا”۔

میں جب انجنیئرنگ کالج میں فرسٹ ایئر میں تھا تو جن صاحب نے چوہدری کی پگڑی میرے والد کے سر پر رکھی تھی اُن کی پوتی کی شادی ہونا تھی ۔ اُنہوں نے میرے والد صاحب سے کہا کہ آ کر سارا بندوبست کریں ۔ اُن دنوں والد صاحب کی صحت ٹھیک نہ تھی سو اُنہوں نے معذرت کی ۔ انہوں نے کہا “اجمل کو بھیج دیں” ۔ والد صاحب نے کہا “اجمل ابھی بچہ ہے” تو اُنہوں نے کہا “جس کا دادا برادری کا بہترین چوہدری تھا اور باپ بھی چوہدری ہے وہ انتظام اچھا کر سکتا ہے ۔ آگے دو چھٹیاں اکٹھی آ رہی ہیں ۔ ہم اس کی سہولت کی خاطر شادی ان چھٹیوں میں رکھ دیتے ہیں”۔ والد صاحب نے حُکمنامہ جاری کر دیا اور مجھے وہاں اپنے انتظامی جوہر دکھانا پڑے لیکن میری کامیابی کا سبب وہ بزرگ ہی تھے

انگریز حُکمرانوں کی سازش اور مادہ پرستی کی وجہ سے برادری نظام میں خودغرضی عود آئی اور یہ نظام بدنام ہو گیا ۔ اس کے باوجود اگر یہ نظام بحال رہتا تو فعال بن سکتا تھا ۔ لیکن جدیدیت کے شوق نے جوانوں کو غلط راستے پر دھکیل دیا اور یہ نظام عملی طور پر ختم ہو گیا گو کہ برائے نام برادریاں ابھی چل رہی ہیں ۔ بہت سے جدیدیت کے پرستار راہی ءِ مُلکِ عدم ہو چکے ہیں جو باقی ہیں وہ اب صرف سُہانے وقتوں کی کہانیاں سُنا کر شائد اپنے دل کو خوش کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں

ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو برادری نظام ایک فطری نظام تھا اور دین سے بھی اس کی قربت تھی جس کا اشارہ قرآن شریف میں ملتا ہے

سورت ۔ 4 ۔ النسآ ۔ آیت ۔ 35 اور اگر تم کو معلوم ہو کہ میاں بیوی میں ان بن ہے تو ایک منصف مرد کے خاندان میں سے اور ایک منصف عورت کے خاندان میں سے مقرر کرو وہ اگر صلح کرا دینی چاہیں گے تو اللہ ان میں موافقت پیدا کردے گا کچھ شک نہیں کہ اللہ سب کچھ جانتا اور سب باتوں سے خبردار ہے

سورت ۔ 4 ۔ النسآ ۔ آیت ۔ 59مومنو! اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرو اور جو تم میں سے صاحب امر ہیں ان کی بھی اور اگر کسی بات میں تم میں اختلاف واقع ہو تو اگر اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو اس میں اللہ اور اس کے رسول [کے حکم] کی طرف رجوع کرو یہ بہت اچھی بات ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی اچھا ہے

برادری ۔ چوہدری ۔ پنچائت ۔ خُوبیاں اور خامیاں

برادری نظام افریقہ اور ایشیا کا قدیم معاشرتی نظام تھا ۔ انگریز جہاں بھی پہنچا اُس نے اسے سب سے پہلے نشانہ بنایا کیونکہ اُن کے اجارہ داری نظام کی راہ میں یہ نظام ایک بڑی رکاوٹ تھا ۔ ہندوستان میں عوام کو بیوقوف بنانے کیلئے برادری نظام کے مقابلے میں اُنہوں نے لمبرداری یا نمبرداری نظام تشکیل دیا جس میں لمبردار یا نمبردار برطانوی حکومت کا نمائندہ ہوتا تھا اور اُسے عوام کو لوٹنے اور تنگ کرنے کے کئی اختیارات سونپے گئے تھے ۔ اس مصنوعی نظام نے برادری نظام کو کمزور کرنے میں اور برادریاں توڑنے اور ہندوستان پر انگریزوں کی گرفت مضبوط کرنے میں اہم کردار ادا کیا ۔ انگریز کے بنائے نظام میں بھی ایک چوہدری ہوتا تھا جو برادری کا قابلِ احترام بزرگ ہونے کی بجائے انگریز کا پِٹھو جاگیردار ہوتا تھا جسے اپنی قوم سے غداری کے عوض جاگیر ملی ہوتی تھی

نئی اچھی چیزیں اپنانا انسانی بہتری کیلئے لازم ہے لیکن یہ رویہ بھی غلط ہے کہ جدیدیت کو اپناتے ہوئے اپنے قدیم اچھے اوصاف سے کنارہ کشی اختیار کر لی جائے ۔ برادری نظام جس میں عدالت کا کام پنچائت کرتی تھی اپنی کمزور ترین حالت میں آدھی صدی قبل تک رائج تھا ۔ یہ نظام گو اپنی خُوبیوں میں سے اکثر کھو چکا تھا پھر بھی موجودہ انگریزی نما آدھا تیتر آدھا بٹیر نظام سے بدرجہا بہتر تھا ۔ میں صرف اپنے خاندان کے برادری نظام کے بارے میں لکھنا چاہتا ہوں جو کہ اب مرحوم ہو چکا ہے

ہماری برادری دوسری برادریوں سے ایک لحاظ سے مختلف تھی کہ اس میں اپنے ہی خاندان میں شادی کرنے کی پابندی نہ تھی البتہ ترجیح ضرور تھی ۔ جس دوسرے خاندان میں شادی ہوتی اُسے اُن کی رضامندی سے اپنی برادری میں شامل کر لیا جاتا ۔ جہاں تک میرا خیال ہے کہ اس سوچ کے نتیجہ میں ہماری برادری کا بہت زیادہ پھیل جانا بھی اس برادری نظام کے خاتمہ کی دو بڑی وجوہات میں سے ایک ہے ۔ دوسری بڑی وجہ جدیدیت کا بخار ہے جس نے 1950ء کی دہائی میں جوان ہونے والی نسل کو خودسر بنا دیا تھا

برادری کا ایک چوہدری ہوتا تھا جسے برادری کے بزرگ چُنتے اور وہ اُس وقت تک چوہدری رہتا جب تک وہ صحت یا کسی اور خاص وجہ سے معذوری ظاہر نہ کرتا ۔ چوہدری کے خلاف کوئی بڑی شکائت ملنے پر پنچائت بُلائی جاتی جس کی صدارت تو چودری ہی کرتا لیکن اسے بولنے کا اختیار صرف اس وقت ہوتا جب پنچائت اسے کسی خاص بات کی وضاحت کرنے کو کہے ۔ اگر چوہدری کے خلاف شکایات بڑھ جاتیں تو چوہدری خود ہی کسی غیرمتنازعہ شخص کو اپنی ذمہ داری سونپ کر الگ ہو جاتا

جو خاندان اپنے باہمی فیصلے نہ کر پاتے وہ چوہدری سے رجوع کرتے اور اگر چوہدری اس کا متفقہ فیصلہ نہ کر پاتا تو معاملہ پنچائت تک پہنچایا جاتا ۔ شادی کی بات پکی کر کے چوہدری کو اطلاع دی جاتی ۔ کچھ لوگ شادی کی بات پکی کرنے سے قبل ہی چوہدری کو اعتماد میں لیتے اور کچھ ایسے بھی ہوتے جو اپنے بیٹے یا بیٹی کا رشتہ طے کرنا چوہدری کے ذمہ کر دیتے ۔ شادی کی تاریخ مقرر ہو جانے پر چوہدری سب مہمانوں کو مطلع کرنے کا ذمہ دار ہوتا یہ کام وہ اس کام کیلئے مقرر ایک خاندان سے کرواتا جس کی کُنیت بھَٹ تھی ۔ کسی کی وفات کی صورت میں بھی بھَٹ کو اطلاع دی جاتی جو گھر گھر جا کر وفات کی اطلاع کے ساتھ نماز جنازہ کے وقت اور دفن کی جگہ کی اطلاع دیتا ۔ اس کے علاوہ بھی سب اجتماعی ۔ معاشرتی اور انفرادی مسائل میں چوہدری سے مشورہ کیا جاتا اور اہم معاملات میں پنچائت بُلائی جاتی ۔ چوہدری گاہے بگاہے اپنے انفرادی طور پر کئے ہوئے فیصلوں پر پنچائت کو اعتماد میں لیتا رہتا ۔ چوہدری کسی بھی صورت مطلق العنان نہیں تھا

شادی کسی کی بھی ہو اس کا منتظمِ اعلٰی چوہدری ہی کو سمجھا جاتا تھا ۔ چوہدری جس کو اس شادی کا منتظم نامزد کر دیتا سب لوگ بالخصوص نوجوان اُس سے تعاون کرنے اور اُس کا حُکم ماننے کے پابند ہوتے ۔ شادی کے کھانے میں جو برتن استعمال ہوتے تھے وہ برادری کی ملکیت ہوتے تھے اور عام طور پر برادری کے چندے سے خریدے جاتے تھے لیکن کوئی چاہے تو چندے کے علاوہ اپنی جیب سے برتن خرید کر دے سکتا تھا ۔ اگر دُلہن بننے والی لڑکی کے والدین کی مالی حالت کمزور ہو تو چوہدری چُپکے سے برادری کے مخیّر حضرات سے مالی تعاون حاصل کر لیتا ۔ کبھی کبھی کوئی مخیّر شخص پوری برادری کی ضیافت بھی کرتا جسے “برادری کا کٹھ” کا نام دیا جاتا ۔ یہ ایک بہت بڑی ضیافت ہوتی تھی جس کا انتظام سب مل کر کرتے تھے ۔ بعض اوقات کچھ لوگ مل کر بھی برادری کے کٹھ کا خرچ اُٹھاتے تھے

میرے والدین کی شادی سے بھی پہلے میرے دادا کو چوہدری بنایا گیا تھا جبکہ برادری میں کئی بزرگ اُن سے عمر میں بڑے تھے اور اُن کے اپنے تینوں بھائی بھی اُن سے بڑے تھے ۔ اُنہوں نے اپنے دور میں برادری کی اجتماعی ضروریات کے سلسلہ میں اپنی جیب سے بہت خرچ کیا جس نے اُنہیں برادری کے عام لوگوں میں ہر دلعزیز بنا دیا لیکن پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے سے کچھ پہلے اُنہوں نے اپنی صحت کے حوالے سے ذمہ داریاں کسی اور سونپ دیں

دوسری قسط کچھ دن میں

دوست۔ آقا نہیں

اس سلسہ میں 9 واقعات بعنوانات ”گفتار و کردار“ ۔ ”پارسل“۔ ”گھر کی مرغی ؟“ ۔ ”میں چور ؟“ ۔ ”غیب سے مدد” ۔ ”کہانی کیا تھی“ ۔ ”یو اے ای اور لبیا کیسے گیا“ ۔ ”انکوائری ۔ تفتیش” اور ” ہمارے اطوار “ لکھ چکا ہوں

میں نے یکم مئی 1963ء کو پاکستان آرڈننس فیکٹریز (پی او ایف) میں ملازمت شروع کی ۔ 6 ماہ کیلئے مختلف فیکٹریوں میں تربیت حاصل کی ۔ پہلے 4 ہفتے سمال آرمز گروپ میں تربیت کے تھے ۔ مجھے کام سیکھنے کا شوق تھا اسی لئے ٹیکنیکل کالج راولپنڈی میں سینئر لیکچرر کی پوسٹ چھوڑ کر پی او ایف میں آیا تھا ۔ اس زمانہ میں سمال آرمز گروپ میں کوئی اسلحہ نہیں بن رہا تھا ۔ اینفیلڈ رائفل نمبر 4 مارک 2 کے چند سپیئر پارٹ بن رہے تھے ۔ میں مشینوں کے مطالعہ کے ساتھ ساتھ ان پرزوں کی پروڈکشن کا بھی مطالعہ کرتا رہا ۔ جب 2 ہفتے گذر چکے تھے تو ایک فورمین صاحب جو پوری پی او ایف میں گھاک مانے جاتے تھے مجھے کہنے لگے ”ہماری مدد کریں ۔ ایک پرزہ ہے جس میں ٹیپر (taper) آ رہا ہے ۔ میں نے انکساری سے کہا ”آپ تو کام کے ماہر ہیں ۔ جو بات آپ کو سمجھ نہیں آئی وہ مجھے کیسے سمجھ آئے گی ؟“ بولے ”میں آپ کے عِلم سے فائدہ اُٹھانا چاہتا ہوں“۔ میں اُن کے ساتھ ورکشاپ میں گیا۔ ورکر نے پرزہ بنا کر دکھایا ۔ مستری بھی موجود تھا ۔ میں نے فورمین صاحب اور مستری سے پوری تاریخ معلوم کرنے کے بعد کچھ ھدایات دیں جن پر عمل کرنے سے پُرزے درست بننے شروع ہوگئے ۔ ایک دن بعد فورمین صاحب ایک اور پرزے کا مسئلہ لے آئے ۔ مطالعہ کے بعد ھدایات دیں تو اللہ کے کرم سے وہ پرزہ بھی درست بننے لگا۔ فورمین صاحب نے منیجر صاحب کو بتایا جنہوں نے مجھ سے ذکر کیا تو میں نے کہا ”کوئی بڑی بات نہ تھی آپ بھی اسے کر سکتے تھے“۔ میرے پاؤں کے نیچے سے اُس وقت زمین سِرکتی محسوس ہوئی جب منیجر صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا ”میں الیکٹریکل انجنیئر ہوں“۔

دوسرا واقعہ اُس دور کا ہے جب سمال آرمز گروپ بڑھ کر ویپنز فیکٹری بن چکا تھا اور میں پروڈکشن منیجر تھا ۔ ایک صاحب کسی دوسری فیکٹری سے تبدیل کر کے جنرل منیجر ویپنز فیکٹری تعینات کئے گئے ۔ میں اُنہیں پروڈکشن کے معاملات سمجھانے میں دقت محسوس کرتا رہا ۔ آدمی بہت اچھے تھے ۔ میں چند ماہ میں اُن سے بے تکلف ہو گیا ۔ ایک دن اُنہیں ایک بات سمجھ نہیں آ رہی تھی تو میں نے کہا ”انجیئرنگ کالج لاہور کے پڑھے مکینیکل انجنیئر کو تو یہ بات سمجھ لینا چاہیئے”۔ وہ بولے ”میں دراصل سِول انجنیئر ہوں“۔

ایک سینیئر انجیئر صاحب سے کچھ بے تکلفی تھی ۔ میں نے ان سے ذکر کیا ۔ اُنہوں نے بتایا کہ ابتداء میں پی او ایف کی پلاننگ اور انتظام انگریزوں کے پاس تھا ۔ اُنہوں نے حکومت سے منظوری لی کہ بھرتی پبلک سروس کمیشن کی بجائے خود کریں گے ۔ اخبار میں اشتہار دے دیا کہ بٰی ایس سی انجنیئر چاہئیں ۔ پھر مکینکل ۔ الیکٹریکل اور سول انجنئر بھرتی کر کے سب کو مزید تعلیم و تربیت کی غرض سے 3 سال کیلئے برطانیہ بھیج دیا ۔ واپس آنے پر کام زیادہ نہ تھا جس سے بے اطمینانی پیدا ہوئی ۔ کئی انجنیئر شور کرنے لگے کہ ”ہمیں ملازمت چھوڑنے کی اجازت دی جائے“۔ چیئرمین نے کہا ”جو جانا چاہتا ہے جا سکتا ہے“۔ اُن دنوں ملک میں انڈسٹری ترقی پا رہی تھی ۔ سب قابل اور ذھین انجنیئر چھوڑ کر چلے گئے ۔ پیچھے کچھ سول اور الیکٹریکل انجنیئر اور برطانیہ سے فیل ہو کر آنے والے مکینیکل انجنیئر رہ گئے ۔ البتہ 3 سول انجنیئرز میں سے 2 سمجھدار اور محنتی تھے اور محنت کرنے والے کی قدر اور حمائت کرتے تھے ۔ انجنیئرنگ فیکٹریز میں محنتی لوگوں میں سے زیادہ کی رپورٹیں خراب ہوتی رہیں اور نالائق مگر چاپلوس اور ذاتی خدمتگار ترقیاں پاتے رہے ۔ اس کے ذمہ دار وہ مکینکل انجنیئر تھے جو برطانیہ سے ناکام واپس لوٹے تھے یا پھر جو مکینیکل انجنئر نہ تھے سوائے 2 متذکرہ بالا سول انجنیئرز کے ۔ اس کے بر عکس ایکسپلوسِوز فیکٹری میں سارے انجینئر موجود رہے ۔ وہ سب برطانیہ سے کامیاب ہو کر واپس آئے تھے ۔ ایکسپلوسِوز فیکٹری میں کبھی کسی محنتی آفیسر کی رپورٹ خراب نہ ہوئی

ایک اور قابلِ ذکر حقیقت ہے کہ ازل سے برطانیہ اور امریکا نہیں چاہتے تھے کہ پاکستان کسی بھی اسلحہ میں خود کفیل ہو سکے ۔ ہو سکتا ہے غلط بھرتی کی یہی وجہ ہو ۔ جب 1962ء میں کم از کم بنیادی اسلحہ میں خود کفیل ہونے کا منصوبہ بنایا گیا ۔ ابتداء جرمن رائفل جی 3 سے ہونا تھی ۔ امریکا نے اس کی بھرپور مخالفت کرتے ہوئے ایک لاکھ ایم 1 رائفلز دینے کی پیش کش کی ۔ افواجِ پاکستان کے کمانڈر انچیف جنرل موسٰی خود کفالت کے حق میں تھے فیصلہ سربراہِ مملکت جنرل محمد ایوب خان نے کرنا تھا جس نے کہا ” ہمیں دوست چاہیئں ۔ آقا نہیں“۔ موجودہ صحافی ہمایوں گوہر کے والد الطاف گوہر صاحب نے اسی عنوان (Friends, Not Masters) سے جنرل ایوب خان کی طرف سے کتاب لکھی تھی

ایک خواہش

شاعر نے کہا تھا
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے

دم نکلنا تو بہت بڑی بات ہے میں نے کبھی ایسی خواہش کی ہی نہیں کہ جس کے پورا ہونے میں کوئی اور فرد شامل ہو ۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ میرے بزرگوں کی تربیت کا اثر ہے یا کہ میرے اساتذہ کی تعلیم کا یا دونوں کا کہ میرے دل و دماغ میں زیادہ تر ایک خواہش ہی رہی ہے جو اُس وقت پیدا ہوئی جب میں چھٹی جماعت (اواخر 1948ء) میں پڑھتا تھا ۔ اس خواہش کے سبب مجھے کبھی ذہنی اور کبھی مالی زک اُٹھانا پڑی ۔ اس کے باوجود یہ خواہش الحمدللہ بدرجہ اتم موجود رہی اور اب تک قائم ہے

اس خواہش کو بیان کرنے کیلئے مجھے دو دہائیاں قبل مناسب زبان مل گئی اور میں نے اِسے جلی حروف میں لکھ کر اپنے مطالعہ کے کمرے میں نمایاں جگہ پر لگا دیا ۔ آتے جاتے نہ صرف میری نظر اس پر پڑتی بلکہ جو بھی اس کمرے میں داخل ہوتا اُس کی نظر اس پر پڑتی

ہم جولائی 2009ء میں لاہور چلے گئے اور فروری 2011ء میں واپس آئے ۔ مجھے شدید کالا یرکان (Hepatitis C) ہو جانے کی وجہ سے میں جون 2011ء تک زیرِ علاج رہا ۔ قبل ازیں 28 ستمبر 2010ء کو سر پر شدید چوٹ لگنے کی وجہ سے میرا حافظہ بگڑ چکا تھا چنانچہ جب میں اپنے مطالعہ کے کمرہ میں گیا تو مجھے یاد نہ تھا کہ میں نے کوئی کاغذ الماری کے شیشہ پر چپکایا تھا ۔ خواہش باقی تھی لیکن وہ کاغذ الماری کے شیشے اور میرے ذہن دونوں سے غائب ہو چکا تھا

سردیوں سے قبل میں الماری میں کچھ ڈھونڈ رہا تھا کہ وہ کاغذ مجھے ملا ۔ میں نے سنبھال کر رکھا کہ اسے نئے کاغذ پر لکھ کر لگانا ہے ۔ حافظہ نے پھر ساتھ نہ دیا ۔ اب مجھے کچھ اور تلاش کرتے ملا تو میں نے اپنے بلاگ پر محفوظ کرنے کا سوچا

میری خواہش

اے خدا جذبہءِ اِیثار عطا کر ہم کو
جو گُفتار ہے وہ کردار عطا کر ہم کو

زندگی اِک نعمتِ رَبّانی ہے
آؤ اِس کی کچھ تعظیم کریں
اسے تھوڑا تھوڑا دوسروں میں تقسیم کریں