Category Archives: منافقت

مسٹر کلِين ؟ ؟ ؟

جنرل ريٹائرڈ پرویز مشرف پاکستان کے مسٹر کلین [دیانتدار شخص] ہونے کے دعویدار ہیں ۔ ريٹائر ہونے سے کچھ پہلے پرویز مشرف نے اپنی خود نوشت میں اعتراف کیا تھا کہ ان کا تعلق ایک غریب خاندان سے تھا ۔ نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹنے کے چند ماہ بعد پرویز مشرف نے اپنے اثاثے ظاہر کئے تھے جن کے مطابق ان کے پاس بمشکل ہی نقد رقم اور ملک کے مختلف حصوں میں چند پلاٹ تھے

اب پرویز مشرف پاکستان میں موجود اپنے ذاتی ملازمین کو کم از کم 500000 روپے ماہانہ تنخواہ ادا کر رہے ہیں

مزيد پرویز مشرف نے غیر ملکی بینکوں میں اکاؤنٹس کے علاوہ غير ممالک میں سرمایہ کاری بھی کر رکھی ہے۔ پرویز مشرف اور صہبا مشرف کے 8 مشترکہ اکاؤنٹ ہيں جن میں علی الترتيب
17000000 اماراتی درہم
535000 امريکی ڈالر
7600000 اماراتی درہم
8000000 اماراتی درہم
8000000 امريکی ڈالر
8000000 اماراتی درہم
8000000 اماراتی درہم
اور 130000 امريکی ڈالر موجود ہيں

مزيد دبئی کی ایک آن لائن ٹریڈنگ سروس میں پرویز مشرف نے گزشتہ سال کے وسط میں 1600000 ڈالر کی سرمایہ کاری کی

يہ عِلم ميں آنے والے اثاثے صرف متحدہ عرب امارات ميں ہيں
پاکستان ۔ امريکا ۔ برطانيہ يا دوسرے ممالک کے اثاثے اس کے علاوہ ہوں گے
پاکستان اور دوسرے ممالک ميں عالی شان مکانات بھی ہيں

تفصيلات يہاں اور يہاں کلک کر کے پڑھی جا سکتی ہيں

روحانی بيٹا

يکم دسمبر جمعرات کو سپریم کورٹ کی طرف سے میمو گیٹ اسکینڈل کی تحقیقات کیلئے کمیشن کی تشکیل کے فیصلے سے پیدا شدہ صورتحال اور اپنی حکومت کو لاحق خطرات پر صدر مملکت اور پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے اپنے اتحادیوں سے ہنگامی رابطے کئے اور کہا کہ “بھٹو کا روحانی بیٹا اور بینظیر کا بااعتماد ساتھی ہوں ۔ قوم شہید بینظیر بھٹو کے بااعتماد ساتھی پر اعتبار کرے”

ماضی پر ايک نظر

آصف علی زرداری بينظير بھٹو کے دورِ حکومت ميں مِسٹر ٹين پرسينٹ [10 percent] کے نام سے جانا جاتا تھا

بیگم نصرت بھٹو نے اپنی بیٹی وزیرِ اعظم بے نظیر سے کہا تھا کہ
“میر مرتضیٰ بھٹو کے دو مطالبات ہیں۔ ایک یہ کہ پارٹی میں انتخابات کرائے جائيں اور دوسرا یہ کہ حکومت کو بدترین کرپشن سے پاک صاف کیا جائے۔ یہ دونوں مطالبات درست ہیں اور اُنہیں تسلیم کیا جائے”
اس دوٹوک اعلان کے بعد ستمبر 1996ء ميں 70 کلفٹن کے سامنے میر مرتضیٰ بھٹو گولیوں سے بھون دیئے گئے کیونکہ وہ جناب آصف زرداری اور بے نظیر کے اقتدار کو چیلنج کر رہے تھے

بیگم نصرت بھٹو پر مرتضٰے بھٹو کی ہلاکت کا بہت اثر ہوا ۔ اُسے دبئی لے جا کر وہيں رکھا گيا اور نيند کے ٹيکے سالہا سال لگائے جاتے رہے بالآخر وہ اکتوبر 2010ء ميں اس دنيا کو چھوڑ کر سُکھی ہوئی

نومبر 1996ء ميں بينظير بھٹو کی حکومت ختم کر دی گئی اور آصف علی زرداری کو گرفتار کر ليا گيا ۔ آصف زرداری پر مرتضٰے بھٹو کے قتل اور کرپشن سميت 8 مختلف مقدمات تھے

نومبر 2004ء ميں آصف زرداری نے فوجی آمر جنرل پرويز مشرف کے ساتھ کچھ مُک مُکا کيا اور اُسے ضمانت پر رہا کر ديا گيا
اُنہی دنوں خبر پھيلی تھی کہ آصف علی زرداری اور بينظير بھٹو کے درميان ناچاقی [separation] ہو چکی ہے
چاہيئے تھا کہ آصف علی زرداری رہا ہو کر اپنے بيوی بچوں کے پاس جا کر رہتے مگر وہ امريکہ چلے گئے جس سے اس بات کو تقويت ملی کہ بينظير بھٹو اور آصف علی زرداری کے درميان عليحدگی ہو چکی ہے

نومبر 2007ء ميں بينظير بھٹو کو ہلاک کر ديا گيا ۔ اس قتل کی نہ تو آصف زرداری نے ايف آئی آر درج کرائی اور نہ کسی قسم کا ملکی عدالت ميں مقدمہ دائر کيا ۔ اُلٹا معاملہ کو طويل دينے اور عوام کو بيوقوف بنانے کی خاطر ايک بے معنی تفتيش اقوامِ متحدہ کے حوالے کر کے عوام کا لاکھوں ڈالر برباد کيا ۔ 4 سال ہونے کو ہيں جن ميں پونے 4 سال پيپلز پارٹی کی حکومت رہی ہے اور ساڑھے 3 سال خود آصف علی زرداری صدر رہے ہيں مگر بينظير کے قاتلوں کی مناسب نشاندہی کيلئے کچھ نہيں کيا گيا

ذولفقار علی بھٹو کی چھوٹی بيٹی صنم بھٹو باپ کی جائيداد سے محروم پرديس ميں بيٹھی بمشکل اپنے اور اپنے بچوں کے اخراجات پورے کر رہی ہے

ذولفقار علی بھٹو کی پوتی فاطمہ بھٹو اور پوتا ذوالفقار جونيئر دادا کی ہر قسم کی وراثت سے محروم خوف ميں زندگی بسر کر رہے ہيں

کيا يہ حقائق اس بات کی نشاندہی کرتے ہيں کہ آصف علی زرداری روحانی بيٹا ہيں ذوالفقار علی بھٹو کا ؟

کامياب منصوبہ بندی

ہماری عوام دوست حکومت کی کامياب منصوبہ بندی کی چند جھلکياں

يکم جنوری 2011ء سے 30 ستمبر 2011ء تک 9 ماہ ميں 2400 افراد نے غُربت اور بے روزگاری سے تنگ آ کر خُود کُشی کی کوشش کی
ان 2400 ميں سے 800 افراد کو بچا ليا گيا مگر 1600 افراد جان سے ہاتھ دھو بيٹھے
يعنی اوسط روزانہ 6 افراد
51 فيصد شہری غُربت کا شکار ہيں
جس دن کنڈیارو [سندھ] کے راجا خان نے غُربت اور بے روزگاری سے تنگ آ کر اسلام آباد پارلیمنٹ کے سامنے اپنی جان دی اور ریلوے کے 68 سالہ محمود خان نے 4 ہزار 8 سو روپے کی پینشن کا دو ماہ تک انتظار کرنے کے بعد لاہور کی سڑک پر اپنی جان دی ۔ اسی روز پاکستان کی وفاقی حکومت نے آئين ميں اٹھارويں ترميم کے تحت وزارتيں کم کرنے کی بجائے اس کی صريح خلاف ورزی کرتے ہوئے 4 نئی وزارتوں کی تشکیل کا اعلان کیا

سچائی ؟ ؟ ؟

ديکھيئے قبل اس کے کہ ويب سائٹ سے ہٹا دی جائے

1۔ لبيا پر قابض موجودہ حکمرانوں کا دعوٰی کہ معمر قذافی مقابلے ميں مارا گيا ۔
2 ۔ اتحادی فوجوں کے ترجمان کا دعوٰی کہ ہم نے قافلے کو نشانہ بنايا تھا ۔ ہميں عِلم نہيں تھا کہ اس ميں قذافی بھی ہے

گو مندرجہ بالا دعوے متضاد ہيں نيچے ديئے ربط پر وِڈيو سے معلوم ہوتا کہ دونوں دعوے غلط بھی ہيں
http://gawker.com/5851757/gaddafis-last-moments-caught-on-video

ايک قيدی کو ہلاک کرنا دُنيا کے کس قانون يا کس اخلاقی معيار کے مطابق درست ہے ؟

معمر قذافی کی منظر عام پر آنے والی نئی ویڈیو نے گذشتہ روز عبوری کونسل کے اس بیان کو تو یکسر غلط ثابت کردیا ہے کہ یہ لوگ دوران لڑائی مارے گئے۔ معمر قذافی کی گرفتاری کے فورا بعد کی ویڈیو کچھ اور ہی کہانی سنا رہی ہے۔ یہ ویڈیو ایک امریکی ویب سائٹ نے اپ لوڈ کی ہے

ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ کس طرح قذافی کو مارتے ہوئے لے جایا جا رہا ہے ۔ انہیں لاتیں اور گھونسے مارے جا رہے ہیں ۔ کچھ لوگ آوازیں بھی لگا رہے ہیں کہ جان سے نہ مارنا ۔ لیکن بالآخر قذافی کو گولی مار کر ہلاک کردیا گیا

آزاد دنيا اور اس کا ميڈيا

6 ہفتے قبل ايک غير مُسلم گورے نے اوسلو [ناروے] ميں پہلے بم دھماکہ کيا اور پھر ڈيڑھ گھنٹہ فائرنگ کرتا رہا جس کے نتيجہ ميں 93 افراد ہلاک ہوئے ۔ اُس کے متعلق ميڈيا نے کيا کہا

رائٹر نے کہا ۔ حملہ آور [an ‘Assailant’, ‘Attacker’]
بی بی سی نے کہا ۔ اسلحہ بردار [a ‘Gunman’]
سی اين اين نے کہا ۔ اسلحہ بردار [a ‘Gunman’]
الجزيزہ نے کہا ۔ اسلحہ بردار [a ‘Gunman’]
امريکا کا سرکاری بيان ۔ زيادتی کا عمل[an ‘Act of Violence’]

26 دن قبل امريکی ریاست اوہائیو کے کوہلی ٹاؤن شپ کے علاقے میں ایک مسلح شخص [غير مُسلم گورے] نے پہلے اپنی گرل فرینڈ کو گولی ماری ۔ اس کے بعد وہ اپنے محلے میں واقع ایک گھر میں داخل ہوا جہاں اس نے اپنی گرل فرینڈ کے بھائی سمیت 6 افراد کو ہلاک کيا ۔ ملزم فائرنگ کرتے ہوئے ایک اور گھر میں داخل ہوا جہاں فائرنگ سے اس نے ایک اور شخص کو ہلاک کر ديا ۔ ہلاک ہونے والوں ميں ايک 11 سالہ لڑکا بھی شامل ہے ۔ اسے کسی نے دہشتگردی تو کيا انتہاء پسندی بھی نہيں کہا ۔ پولیس کے مطابق واقعہ گھریلوں تنازع کا شاخسانہ ہے اور ميڈيا نے بھی اسے ذاتی معاملہ قرار ديا

25 دن قبل جو فساد برطانيہ ميں شروع ہوا اُسے بھی کسی نے دہشگردی يا انتہاء پسندی نہيں کہا

کيا دہشتگرد کا لفظ صرف مسلمانوں کيلئے مخصوص ہے ؟
کيا يہ صريح منافقت نہيں ہے ؟

اس نام نہاد آزاد دنيا کی چکا چوند ميں عقل کھونے والے مسلمانوں ۔ ہوش ميں آؤ

پوشاکيں اور نيمِ دروں

سائنس بہت ترقی کر گئی ۔ انسان بہت پڑھ لکھ گيا اور جديد ہو گيا ۔ مگر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
طور طريقے ميں پرانے جاہليت کے زمانہ ميں چلے گئے ہيں

لگ بھگ 6 دہائياں پرانی بات ہے کہ بچوں کے رسالے ميں ايک کارٹون چھپا تھا کہ ايک آدمی ننگ دھڑگ صرف جانگيہ يا کاچھا يا چڈی پہنے ہوئے بيری [بير کا درخت] پر چڑھا تھا اور بير توڑ کے کھا رہا تھا
ايک راہگذر ا نے پوچھا “صاحب ۔ کيا ہو رہا ہے ؟”
درخت پر چڑھے آدمی نے جواب ديا “اپنے تو 2 ہی شوق ہيں ۔ پوشاکيں پہننا اور پھل فروٹ کھانا”

ہماری موجودہ حکومت کے بھی 2 ہی شوق ہيں ۔ “جمہوريت پہننا اور مفاہمت کھانا”
:lol:

ميری بات کا يقين نہ ہو تو يہ خبريں پڑھ ليجئے

جمعہ [22 جولائی 2011ء] کے روز قومی اسمبلی میں بحث کے دوران وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ
کراچی ميں بدامنی برداشت نہیں کریں گے

President Zardari expressed concerned over the violent situation of the city

نيمِ دروں

پرانے وقتوں کی بات ہے کہ فرماں روائے مغليہ شہنشاہِ محبت شاہجہان کی بيٹی محل کی کھڑکی سے باہر ديکھ رہی تھی ۔ اُس کی نظر ايک گدھے اور گدھی پر پڑی تو منہ سے نکل گيا “نيمِ دروں نيمِ بروں”
باپ نے پوچھا “بيٹی کيا ہوا ؟

بيٹی شاعرہ تھی شعر کہہ ديا
“در ہيبتِ شاہِ جہاں ۔ لَرزَد زمين و آسماں
اُنگُشت در دَنداں نہاں نيمِ درُوں نيمِ برُوں”

درست کہا تھا اُس نے ۔ عشرت العباد “درُوں”۔ اور ايم کيو ايم “برُوں”

[“دروں” معنی “اندر” اور “بروں” معنی “باہر”]

لبيا کا کرزئی تياری ميں

دوسرا کرزئی جو تيار کيا جا رہا ہے کے ذکر سے پہلے موجودہ کرزئی يعنی افغانستان کے صدر حامد کرزئی کے پسَ منظر کے متعلق معلوم ہونا ضروری ہے ۔ حامد کرزئی کے آباؤ اجداد افغانستان کے سابق بادشاہ ظاہر شاہ کے نمک خوار تھے ۔ حامد کرزئی نے بھارت سے ماسٹرز کيا اور امريکا کے ايماء پر 1980ء ميں روس کے خلاف جنگ کيلئے چندہ جمع کرنے کے نام پر پاکستان ميں مقيم ہوا ليکن دراصل وہ يہاں امريکی سی آئی اے کا رابطہ تھا ۔ انہی دنوں حامد کرزئی کا باقی خاندان امريکا منتقل ہو گيا تھا پھر جب ڈاکٹر عبداللہ امريکا سے لا کر افغانستان صدر بنانے کی کوشش ناکامم ہوئی تو حامد کرزئی کے حق ميں قرہ نکلا ۔ يہ تو سب جانتے ہيں کہ افغانستان کا صدر ہوتے ہوئے حامد کرزئی کے اختيار ميں کچھ بھی نہيں ۔ اُس کی حيثيت ايک کٹھ پُتلی سے زيادہ نہيں

لبيا ميں 1969ء کے انقلاب کے بعد امريکی اور يورپی کمپنيوں کو ملک سے نکال ديا گيا تھا ۔ 30 سال بعد فرانس کے صدر نے دوستی کا ہاتھ بڑھايا تو شايد مغربی دنيا کو خوش کرنے کيلئے معمر قذافی نے يورپی کمپنيوں کو لبيا ميں کام کرنے کی اجازت دے دی ۔ عام رائے يہی ہے کہ شروع ميں فرانس کی خفيہ ايجنسيوں نے کام دکھايا اور پھر برطانيہ کی خفيہ ايجنسی ايم آئی 6 نے بات آگے بڑھائی ۔ ہر مُلک ميں کچھ لوگ حکمرانوں سے ناراض ہوتے ہی ہيں مزيد لبيا کی قبيلاتی طرزِ زندگی سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے کچھ لوگوں کو راہ پر لگا ليا گيا ۔ يہ کام بنغازی ميں شروع کيا گيا جہاں معمر قذافی کا قبيلہ نہيں ہے ۔ برطانوی ايم آئی 6 کے لوگوں نے تو يہاں تک کيا کہ لبيا کے صدر معمر قذافی کو سپورٹ کرنے والے اعلٰی فوجی افسروں کو ٹيليفون پر بغاوت کا ساتھ دينے يا موت کيلئے تيار رہنے کا پيغام ديا اُسی طرح جيسے امريکی سيکريٹری آف سٹيٹ ريٹائرڈ جنرل کولن لوتھر پاول نے جنرل پرويز مشرف کو ٹيليفون پر کہا تھا “تم ہمارے ساتھ ہو يا ہمارے ساتھ نہيں ہو ؟ اگر ہمارے ساتھ نہيں ہو تو پتھر کے زمانہ ميں جانے کيلئے تيار ہو جاؤ”۔ پرويز مشرف کی تو يہ سُنتے ہی پتلون گيلی ہو گئی تھی مگر ليبی فوجی افسر نہ ڈرے

بالآخر انسانيت کے نام پر امريکا ۔ برطانيہ اور فرانس نے اقوامِ متحدہ کی ايک مُبہم قرارداد کا سہارا لے کر لبيا پر حملہ کر ديا جس کی تياری اُنہوں نے بہت پہلے سے کر رکھی تھی ۔ يہ بھی حقيقت ہے کہ سلامتی کونسل امريکا کے ہاتھ کا اوزار سے زيادہ حقيقت نہيں رکھتی ۔ مگر يہ سب کچھ اچانک نہيں ہوا ۔ پہلے مغربی ذرائع ابلاغ نے بالکل اُسی طرح معمر قذافی کے خلاف فضا قائم کی جس طرح 2003ء ميں عراق پر حملہ کرنے سے قبل ڈبليو ايم ڈی کا جھوٹ بول کر امريکا نے صدام حسين کے خلاف فضا قائم کی تھی

لبيا پر حملے کا مقصد بھی وہی ہے جو عراق پر حملہ کرنے کا تھا ۔ ان مُلکوں کی قدرتی دولت يعنی تيل کے ذخائر پر قبضہ کرنا ۔ عراق ميں اپنے فوجی اُتار کر چونکہ بھاری نقصان اُٹھا چکے ہيں اسلئے لبيا ميں اپنی فوج اُتارنا نہيں چاہتے چنانچہ افغانستان کے حامد کرزئی کی طرح ايک اور کرزئی کی ضرورت تھی جو تلاش کيا جا چکا ہے ۔ وہ لبيا ميں فرنگی کی پشت پناہی سے چلنے والی نام نہاد تحريک انسانيت کا سربراہ “محمود جبريل” ہے جو عرصہ سے امريکا ميں رہائش پذير تھا اور اُس کے رابطے براہِ راست فرانسيسی انٹيلی جنس ۔ برطانوی ايم آئی 6 اور امريکی سی آئی اے سے ہيں ۔ ہاں اگر وہ ان کے سانچے ميں پورا نہ اُترا تو کسی اور کو لے آئيں گے

وجہ انسانی جانوں اور جمہوريت کو بچانا بتائی جا رہی ہے ۔ گويا ان بے مہار طاقتوں کے برسائے گئے بموں اور مزائلوں سے نہ تو کوئی انسان مر رہا ہے اور نہ ہی انسانوں کے اثاثوں کو نقصان پہنچ رہا ۔ جس معمر قذافی کو اب عفريت [monster] کہا جا رہا ہے اسی کے متعلق چند سال قبل امريکا کے صدر جارج ڈبليو بُش نے کہا تھا “قذافی دہشتگردی کے خلاف ہمارا قابلِ اعتماد ساتھی ہے”۔ انسانيت اور جمہوريت کا فريب رچا کر کسی خود مُختار مُلک پر حملہ کرنا منافقت اور جنگ جُوئی کے سوا کيا ہو سکتا ہے ؟ ان فرنگيوں کو انسانيت کی اتنی پروا ہے کہ ہر طرف انسانوں کی لاشيں بکھير رہے ہيں ۔ جمہوريت کی امريکا اتنی قدر کرتا ہے کہ ہميشہ آمريت کی پُشت پناہی کی ہے اور اب بھی کر رہا ہے

دنيا والے کہتے ہيں کہ امريکا لبيا کے لوگوں کو قذافی سے بچائے گا مگر لبيا کے لوگ پوچھتے ہيں کہ “انہيں امريکا سے کون بچائے گا ؟” جب تجارت کو قوميايا گيا تھا تو چند ليبی تاجر بھی اس کی زد ميں آئے تھے ۔ ہو سکتا ہے کہ اُس وقت کا بدلہ لينے کيلئے اُن کی اولاد بھی باغيوں کے ساتھ شامل ہو گئی ہو ۔ امريکا ۔ فرانس اور برطانيہ کے بموں اور مزائلوں سے جو لوگ ہلاک ہو رہے ہيں کيا وہ ليبی نہيں ؟ اور جو اثاثے تباہ ہو رہے ہيں کيا اس کا نقصان پوری ليبی قوم کو نہيں ہو گا ؟

معمر قذافی جو کچھ بھی ہے وہ ايسا اس سال يا پچھلے دو چار سالوں ميں نہيں بنا بلکہ شروع دن يعنی يکم ستمبر 1969ء سے ہی ايسا ہے ۔ جب اُس نے ادريس سنوسی کی حکومت کا تختہ ايک سُپر پاور کی پُشت پناہی سے اُلٹا تھا تو عوام جنہوں نے معمر قذافی کا ساتھ ديا تھا ان کو لبيا کے وسائل پر امريکا اور يورپ کا قبضہ نہ بھاتا تھا ۔ اس زمانہ ميں تيل کے کنووں پر امريکا کا قبضہ تھا اور تجارت پر اٹلی کا ۔ يکم ستمبر 1969ء کے انقلاب کے بعد ان غيرملکيوں کو نکال ديا گيا اور ان کی جگہ مصری ۔ فلسطينی اور بالخصوص پاکستانی تعليم يافتہ لوگوں کو بلايا گيا ۔ 1970ء ميں جنرل آغا محمد يحیٰ خان کے دور ميں معمر قذافی کی درخواست پر پاکستان سے گريجوئيٹ انجيئرز ۔ ڈاکٹرز ۔ ڈپلومہ انجنيئرز ۔ ليباريٹری ٹيکنيشيئنز اور نرسز کی پہلی کھيپ لبيا بھيجی گئی تھی ۔ اس کے بعد مختلف اداروں سے ماہرين بھيجے جاتے رہے

معمر قذافی کے زمانہ کی کچھ باتيں

آٹھويں جماعت تک تعليم بالکل مُفت ۔ اس کے بعد کی تعليم معمولی خرچ کے ساتھ اور ترقی يافتہ ممالک ميں اعلٰی تعليم کيلئے داخلہ حاصل کرنے والے طالب علموں کے سارے اخراجات بھی حکومت کے ذمہ
علاج معالجہ بالکل مفت ہسپتال ميں داخل مريضوں کو کھانا پينا بھی مفت ۔ ہر قسم کا علاج اور دوائی ہسپتال ميں ميسّر ہوتی ہے
بچے کی پيدائش پر 2 سال تک بچے کی خوراک کيلئے خُشک دودھ حکومت مُفت مہياء کرتی ہے
حکومت آٹا ۔ چاول ۔ چينی اور کچھ دوسری روزمرہ کے استعمال کی اشياء پر بھاری سبسڈی ديتی ہے
ہر خواہشمند بالغ ليبی کو ملازمت فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے
ايک انوکھے منصوبہ “بيت لساکنہُ” پر بھی عمل کيا گيا جس کے تحت ہر ليبی خاندان کو رہنے کيلئے مکان مہياء کيا گيا ۔ اس منصوبہ کے اعلان سے قبل سينکڑوں مکانات حکومت نے تعمير کروا لئے تھے ۔ مکان لينے والوں نے تعمير کی لاگت [بغير سود] 360 ماہانہ اقساط ميں تنخواہ ميں سے کٹوانا تھا يا اقساط نقددينا تھيں
لبيا کی فی کس سالانہ آمدن 12000 ڈالر ہے