Category Archives: منافقت

بابری مسجد شہيد کرنے ميں امريکا کا کردار

بھارت کے سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن کے سولہویں گواہ ایودھیا کے مہنت یوگل کشور سرن شاستری نے بابری مسجد شہادت کیس کی سماعت کے دوران اسپیشل جج وریندر کمار کی عدالت کو بتایا کہ “جب ان کی ملاقات اس وقت کے وزیراعظم نرسہماراؤ سے ہوئی تو سشل منی نے انہیں بتایا کہ “ویشوا ہندو پریشد نے بابری مسجد شہید کرنے کے لئے امریکی خفیہ ایجنسی [CIA] اور ایک امریکی کمپنی سے کروڑوں روپے لئے ہیں”

وکیل صفائی کے کے مشرا کے ایک سوال کے جواب میں مہنت یوگل کشور سرن شاستری نے بتایا کہ “6 دسمبر کی صبح کارسہو کوں کا رویہ دیکھ کر واضح ہو گیا تھا کہ بابری مسجد اس روز شہید ہونے والی ہے”

مہنت یوگل کشور سرن شاستری نے عدالت سے کہا کہ “ایودھیا میں موجود لوگوں کے لباس سے کوئی بھی سمجھ سکتا تھا کہ کار سیوک کون ہے اور عام آدمی کون ہے”

مہنت یوگل کشور سرن شاستری کئی برس ویشوا ہندو پریشد کے رکن اور لیڈروں کے انتہائی قریب رہے ۔ بقول مہنت یوگل کشور سرن شاستری جب انہوں نے وی ایچ پی کا اصل چہرہ دیکھا جو رام جنم بھومی موومنٹ کے ذریعہ مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلارہی ہے اور اس طرح ملک کو توڑنے کی سازش کررہی ہے تو انہوں نے ویشوا ہندو پریشد سے تعلق ختم کر لیا

بشکريہ ۔ جنگ

مجھے سمجھائے کوئی

اس دنيا ميں ميرے جيسا کم عِلم ہونا بھی ايک مُشکل کام ہے ۔ جب محفلِ اجارا داراں جو اپنے آپ کو يو اين سيکيوريٹی کونسل کہتی ہے نے قراداد منظور کی کہ لبيا کو “نَو فلائی زَون” قرار دے ديا گيا ہے تو ميں سمجھا کہ اب ليبيا کی فضا ميں کوئی جہاز نہيں اُڑے گا

مگر عملی طور پر اس کا مطلب يہ نکلا کہ امريکا اور اس کے ساتھی دہشتگردوں کے جہاز لبيا کی فضا ميں نہ صرف پرواز کريں گے بلکہ بے شمار مزائل اور بم بھی لبيا کے مختلف علاقوں ميں گرائيں گے ۔ اس دہشتگردی کے نتيجہ ميں جتنے انسان ہلاک ہوں گے اُنہيں ظالم کہا جائے گا ۔ مزيد يہ کہ تباہی اتنی مچائی جائے گی کہ لبيا کا اپنا کوئی ہوائی جہاز برسوں نہ اُڑ سکے

چنانچہ “نَو فلائی زون” کا مطلب يہ نکلا کہ لبيا کا يہ حال کر ديا جائے کہ لبيا کا کوئی جہاز اگلے کئی سالوں تک نہ اُڑ پائے اور پھر کوئی اور الزام لگا کر لبيا کے تيل کے ذخائر پر قبضہ کر ليا جائے جيسے “ڈبليو ايم ڈی [Weapons of Mass Destruction]” کا الزام لگا کر عراق پر قبضہ کيا تھا اور اوسامہ بن لادن [جو شايد عرصہ قبل طبعی موت مر چکا] کا بہانہ بنا کر افغانستان پر قبضہ کيا تھا جو قبضے آج تک جاری ہيں اور ختم ہونے کی کوئی اُميد نہيں ہے

اقوامِ متحدہ يا مسلم دُشمن متحدہ ؟

اقوامِ متحدہ جس پر مُسلم دُشمن قوتوں کی اجاراہ داری ہے نے آج تک جو فيصلہ بھی کيا وہ ان اجارہ داروں کی مرضی کے مطابق کيا جو انتہائی خود غرض اور متعصب ہيں

نيچے درج تازہ فيصلہ پڑھنے سے پہلے تصور ميں جموں کشمير کے باشندوں کا جمہوری حق [جد و جہد آزادی] اور بھارتی افواج کے عوام پر کئی دہائيوں پر محيط ظُلم و استبداد کو مدِ نظر رکھا جائے تو اقوامِ متحدہ کی مُسلم دُشمنی کھُل کر سامنے آ جاتی ہے ۔ بالخصوص جب جموں کشمير ميں عوام کو اُن کا حق دينے کی قراداديں اسی نام نہاد اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے منظور کی تھيں جو 63 سال سے عمل کيلئے چيخ رہی ہيں

نیویارک میں ہونے والے اجلاس میں اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل نے لیبیا پر فضائی حملے کی منظوری دی ۔ لیبیا کو نو فلائی زون قراردینے کی بھی منظوری دی گئی ہے ۔ ووٹنگ میں 10 اراکين نے حصہ لیا جب کہ روس اور چین سمیت 5 ارکين نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا ۔ سلامتی کونسل کے کسی رکن نے قرارداد کو ویٹو نہیں کیا ۔ قرار داد میں کہا گیا ہے کہ لیبیا کے شہریوں کی حفاظت کے لئے تمام اقدامات کئے جائیں گے اور حکومت مخالف قوتوں کو تحفظ فراہم کیا جائے گا

لیبیا نے سلامتی کونسل کی قرارداد کو ملکی وحدت اور استحکام کے لیے خطرہ قرار دیدیااور کہا ہے کہ باغیوں کے ساتھ جنگ بندی کے لیے تیار ہیں

امن کی آشا اور بھارت

پاکستانی لوگ معدودے چند بھارتی صحافيوں کو ساتھ ملا کر جتنا چاہے “امن کی آشا” کا پرچار کر ليں جب تک بھارتی حکومت يا بھارتيوں کی اکثريت ظُلم کی دو دھاری تلوار ميان ميں نہيں ڈالے گی “امن” بھارت اور پاکستان ميں انجان کا خواب ہی رہے گا

اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کا سولہواں اجلاس [28 فروری سے 25 مارچ 2011ء] جنیوا ميں جاری ہے جس ميں ساری دنيا سے انسانی حقوق کے کئی نمائندے شريک ہيں ۔ کانفرنس کے ايک اجلاس ميں ایک افریقی انسانی حقوق کارکن مچیلن ڈجوما نے ايک 17 سالہ کشمیری لڑکی انیسہ نبی کو پيش کيا کہ وہ جموں کشمير ميں اپنے پر بيتی روداد سنائے

انیسہ نبی نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی جانب سے اپنے والدین کے ساتھ ظلم و زیادتی کی روداد سنائی تو اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے اجلاس میں موجود سفارتکار اور کارکن اپنے آنسو ضبط نہ کرسکے۔ انیسہ نبی نے سفارتکاروں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کی توجہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے مظالم اور ان کی جانب سے انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کی جانب مبذول کرائی ۔ اس موقع پر ایک کشمیری این جی او ، کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف انٹر نیشنل افیئرز(کے ایچ اے) کے نمائندے بھی پیلس آف نیشنز، جنیوا میں سفارتکاروں میں لابنگ کررہے تھے ۔کے ایچ اے کے پروگرام ڈائرکٹر الطاف حسین وانی نے کہا کہ انیسہ ایک ہفتے سے ہمارے ساتھ ہے لیکن آج اس نے ہم سب کو رونے پر مجبور کردیا

اس موقع پر مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم اور قتل عام کا نشانہ بننے والوں کی تصویروں کی ایک نمائش بھی ہوئی جس نے انیسہ کے کیس کو مزید موثر اور مضبوط کردیا

انیسہ نبی نے اپنی تقریر نارمل انداز میں شروع کی لیکن جب اس نے اپنے والد کا تذکرہ کیا تو اس کی آواز گھٹنے لگی۔ اس کے والد کو 24 جولائی 1996ء کو بھارتی اہلکار اغوا کرکے لے گئے تھے لیکن آج تک اس کا پتہ نہیں چلا۔ اس وقت انیسہ کی عمر صرف چار سال تھی۔ اس کی والدہ نے انیسہ کے والد کی تلاش کے لئے مہم چلائی اور جموں و کشمیر ہائی کورٹ میں اس کی بازیابی کے لئے مقدمہ دائر کیا۔ انیسہ کی والدہ کو بدترین نتائج کی دھمکیاں دی گئیں

انیسہ کی و الدہ کو اس کی سزا یہ ملی کہ 2003ء میں بھارتی فوجیوں نے گھر میں گھس کر اس پر گولیاں چلائیں اور انہیں شہید کردیا ۔ اس وقت انیسہ کی والدہ انیسہ کے چھوٹے بھائی کو گود میں اٹھائے ہوئے تھیں۔ بھارتی فوجیوں نے ان کی گود میں اس بچے کی پروا بھی نہیں کی اور وہ شدید زخمی ہوا ۔ اگرچہ اس کی زندگی بچ گئی لیکن گولیوں سے اس کی ایک ٹانگ معذ ور ہوگئی

جب انیسہ نبی تقریر کے دوران اس واقعہ کے تذکرے پر پہنچی تو اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے ۔ انیسہ نے جب اپنی گفتگو شروع کی تو ہال میں انتہائی خاموشی تھی حالانکہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے سائڈ لائن سمیناروں میں ایسا کبھی نہیں ہوتا

انیسہ نبی کی کہانی سن کر ایک بھارتی سفارتکار جو وہاں موجود تھا اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکا اور اٹھ کر چلا گیا ۔ ایک بھارتی اسکالر ڈاکٹر کرشنا اہوجا نے جو ایک کشمیری ہندو ہیں انیسہ کو اپنی بیٹی کی طرح آغوش میں لے کر تھپکا ۔ اقوام متحدہ کے ایک سینیئر افسر نے انیسہ کو یقین دہانی کرائی کہ وہ اس کو انصاف دلانے کے لئے ہر ممکن کوشش کریں گے اور مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے مظالم کے خلاف اقوام متحدہ کے ہر فورم میں آواز اٹھائیں گے

دوغلا پن یا منافقت ؟

آج کی دنیا میں قدریں بدل چکی ہیں۔ کوئی وقت تھا جب کہا جاتا تھا

سیرت کے ہم غلام ہیں صورت ہوئی تو کیا
سرخ و سفید مٹی کی مورت ہوئی تو کیا

لیکن مادیّت اور دکھاوے نے آدمی کو اتنا گھیر لیا ہے کہ قدریں مٹ چکی ہیں یا خلط ملط ہو کے رہ گئی ہیں۔ آج قابلیت سے زیادہ سندوں کی قیمت ہے اور اس سے بھی زیادہ بے ڈنگ فیشن اور اثر و رسوخ کی۔ آدمی دوغلا پن یا منافقت کا شکار ہو چکا ہے۔ دین کو بھی مذاق بنا کر رکھ دیا گیا ہے ۔ آدمی یہ بھول چکا ہے کہ اس کی پیدائش کیسے ہوئی اور وہ کسی کے آگے جواب دہ بھی ہے

کئی سال قبل ایک محلہ دار کے ہاں سے میری بیوی کو دعوت ملی کہ بیٹے کی شادی سے ایک دن پہلے قرآن خوانی کرنا ہے اس لئے آپ بھی آئیں ۔ میری بیوی چلی گئی ۔ میری بیوی واپس منہ پھُلائے گھر آئی تو وجہ پوچھی ۔ کہنے لگی ” قرآن خوانی کے اختتام پر چائے کیک مٹھائی وغیرہ سے تواضع شروع ہوئی اور ساتھ ہی اُونچی آواز میں پاپ موسیقی لگا دی گئی ۔ میں تو ایک دم اُٹھ کے چلی آئی”

ایک محترمہ اپنی عزیز خواتین کے ہمرا ایک کھاتے پیتے تعلیم یافتہ گھرانہ میں اپنے بیٹے کے لئے رشتہ لینے گئیں اور لڑکی کی ماں سے مخاطب ہوئیں”۔ ہم مذہبی لوگوں کو پسند کرتے ہیں ۔ آپ کا کسی نے بتایا کہ آپ نیک لوگ ہیں تو آ گئے”۔ پھر باتوں باتوں میں کہنے لگیں ” آپ کی بیٹی جسم اور سر اچھی طرح ڈھانپ کے رکھتی ہے ۔ اچھی بات ہے لیکن دیکھیں نا ۔ میرا بیٹا افسر ہے ۔ اس نے دوستوں سے ملنا اور پارٹیوں میں جانا ہوتا ہے ۔ ہائی سوسائٹی میں تو پھر ان کے مطابق ہی کپڑے پہننا ہوتے ہیں نا ”

ہمارا دورِ حاضر کا معاشرہ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کا نام لینے والوں کو جاہل اور گنوار کا لقب دیتا ہے ۔ مگر کامیاب وہی ہے جو اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی سے محبت کرتا ہے اور اُسی سے ڈرتا ہے ۔ میں ان لوگوں کی حمائت نہیں کرتا جو بظاہر تو مذہبی ہوتے ہیں نماز روزہ بھی کر لیتے ہیں مگر باقی معاملات میں اللہ سُبحانُہُ تعالٰی کے احکام کی پیروی نہیں کرتے

نظر آتے نہیں ۔ بے پردہ حقائق ان کو
آنکھ جن کی ہوئی محکومی و تقلید سے کور

گلستاں میں نہیں حد سے گذرنا اچھا
ناز بھی کر تو باندازہءِ رعنائی کر
پہلے خود دار تو مانند سکندر ہو لے
پھر جہاں میں ہوّسِ شوکتِ دلدائی کر

فروغِ مغربیان خیرہ کر رہا ہے تجھے
تری نظر کا نگہباں ہو صاحب مازاغ
وہ بزمِ عیش ہے مہمان یک نفس دو نفس
چمک رہے ہیں مثال ستارہ جس کے ایاغ
کیا تجھ کو کتابوں نے کور ذوق اتنا
صبا سے بھی نہ ملا تجھ کو بوئےگل کا سُراغ

علامہ اقبال

دہشتگرد صرف مسلمان ہوتے ہيں ۔ امريکا

زبان سے امريکی حکمران کچھ بھی کہتے رہيں اُن کا عمل پُکار پُکار کر کہہ رہا ہے کہ دہشتگرد قرار ديئے جانے کی پہلی اور سب سے اہم شرط مسلمان ہونا ہے

اگر کوئی غير مسلم شخص فائرنگ کر کے درجن بھر بے قصور انسانوں جن ميں کمسن بچے بھی ہوں کو ہلاک کر دے تو امريکا کے حکمران ہی نہيں عدالتيں بھی اُسے صرف ايکيلا واقعہ اور درجن بھر انسانوں کے قتل کو قاتل ذاتی اور وقتی فعل قرار ديتی ہيں

اگر کسی مسلمان کی فائرنگ سے کوئی امريکی مر جائے تو حقائق معلوم کئے بغير فوری طور فائرنگ کرنے والے کو دہشتگرد قرار ديا جاتا ہے اور اس کا تعلق القاعدہ سے جوڑ ديا جاتا ہے

تفصيل پڑھنے کيلئے مندرجہ ذيل موضوع پر کلک کيجئے

What makes Arizona’s killer just a loner, not a terrorist?

احوالِ قوم ۔ 8 ۔ بُغز

اگر اک جواں مرد ہم در انساں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کرتے قوم پر دل سے جان اپنی قرباں
تو خود قوم اس پر لگائے یہ بہتاں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہ ہے اس کی کوئی غرض اس میں پنہاں

وگر نہ پڑی کیا کسی کو کسی کی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ چالیں سراسر ہیں خود مطلبی کی
نکالے گر ان کی بھلائی کی صورت ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو ڈالیں جہاں تک بنے اس میں کھنڈت

سنیں کامیابی میں گر اس کی شہرت ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو دل سے تراشیں کوئی تازہ تہمت
منہ اپنا ہو گو دین و دنیا میں کالا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہ ہو ایک بھائی کا پر بول بالا

اگر پاتے ہیں دو دلوں میں صفائی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو ہیں ڈالتے اس میں طرح جدائی
ٹھنی دو گروہوں میں جس دم لڑائی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو گویا تمنا ہماری بر آئی

اقتباس از مسدسِ حالی
مصنف ۔ خواجہ الطاف حسين حالی