Category Archives: معلومات

کیا صرف پاکستانی گھورتے ہیں ؟

یہ میری 17 دسمبر 2007ء کی تحریر کا دوسرا باب سمجھ لیجئے ۔ میرا مشاہدہ ہے کہ پاکستانیوں کو جتنی اپنے ہموطنوں سے شکائت رہتی ہے کسی اور قوم کو نہیں ۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ سب پاکستانی بُرے ہیں بلکہ پاکستانیوں کی اکثریت کسی وجہ سے احساسِ کمتری میں مبتلا ہے اور ایسے لوگوں کو غیر کے سامنے اچھا بننے کا ایک ہی طریقہ سمجھ آیا ہے کہ اپنوں کو بُرا کہیں ۔ اس طرح وہ دوسرے لفظوں میں اپنے آپ کو بُرا کہہ رہے ہوتے ہیں ۔

ہمارے ہموطنوں میں قباحت یہ ہے کہ ٹکٹِکی لگا کر دیکھتے ہی چلے جاتے ہیں جو معیوب سمجھا جاتا ہے ۔ اگر لفظ گھورنا کی بجائے بُری نظر سے دیکھنا کہا جائے تو ایسا یورپ اور امریکہ میں بھی ہوتا ہے حالانکہ ان ملکوں میں جنسی آزادی انتہاء کو پہنچ چکی ہے ۔ یورپ اور امریکہ میں کسی لڑکی یا عورت کو گھورنے یا غلط نظروں سے دیکھنے کے علاوہ اور بھی بہت کچھ ہوتا ہے یعنی کسی عورت یا لڑکی میں کشش محسوس ہوئی تو موقع پا کر اس کا بھوسہ لے لیا ۔ یہ عمل زبردستی بھی کیا جاتا ہے ۔ میں یورپ کے ایک شاپنگ سنٹر میں کچھ خریدنے کیلئے اس کی تلاش میں تھا ۔ دوپہر کے کھانے کا وقت تھا اور بہت کم لوگ موجود تھے ۔ میں نے دیکھا کہ ایک کونے میں ایک مرد گاہک نے ایک سیلز وومن کا بھوسہ لینے کی کوشش کی وہ ایکدم پیچھے ہٹ گئی تو اس نے آگے بڑھ کر اسے دبوچ کر بھوسہ لینے کی کوشش کی ۔ عورت نے اپنے آپ کو چھڑانے کی پوری کوشش کی ۔ اتنی دیر میں میں قریب پہنچ گیا ۔ جونہی مرد نے مجھے دیکھا وہ عورت کو چھوڑ کر بھاگ گیا ۔

اطالوی چُٹکی لینے میں مشہور ہیں ۔ یہ میرا مشاہدہ بھی ہے ۔ کئی ملکوں میں مرد یا لڑکا گذرتے گذرتے کسی عورت یا لڑکی کے ساتھ کچھ کر جاتا ہے جس پر عام طور پر لڑکی یا عورت مسکرا دیتی ہے لیکن کبھی کبھی لال پیلی ہو جاتی ہے ۔ ایک بار پیرس ۔ فرانس میں ایک عورت نے پیچھے بھاگ کر مرد کو تھپڑ لگایا ۔ 1980ء یا اس کے آس پاس کا واقعہ ہے کہ طرابلس ۔ لبیا میں ایک سوڈانی عورت گوشت کی دکان پر کھڑی تھی کہ ایک یورپین مرد نے ناجانے کیا کیا کہ عورت نے تیزی سے پلٹ کر اُسے دو چار دوہتھڑ مارے ۔ قبل اس کے کہ کوئی یورپین کو پکڑنے کا سوچتا وہ بھاگ کر مارکیٹ سے باہر نکل گیا ۔

یورپ اور امریکہ میں لڑکیاں اور عورتیں بھی لڑکوں یا مردوں سے اس سلسلہ میں پیچھے نہیں ۔ میں امریکہ میں صرف 20 دن رہا اور اس دوران اس قسم کے 2 واقعات دیکھنے کو ملے ۔ البتہ یورپ میں ایسے بہت سے واقعات دیکھنے میں آئے ۔

محرم الحرام

آج محرم الحرام کی پہلی تاریخ ہے اور ہجری سال 1429 کی ابتداء ہو رہی ہے ۔ عام طور پر اس مہینہ کو صرف 10 محرم 61 ھ کے دن میدانِ کربلا میں نواسۂ رسول حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے اہلِ خانہ رضی اللہ عنہم کی شہادت کے حوالے سے جانا جاتا ہے ۔ متذکرہ واقع سے 37 سال قبل یکم محرم 24 ھ کو رسول اللہ سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کے قریبی ساتھی دوسرے خلیفہ راشد امیرالمؤمنین عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ کو شہید کیا گیا تھا ۔

لیکن اس مہینہ کی عظمت بہت پہلے سے مقرر ہے ۔ محرم اور احرام کے معنی تقریباً ایک ہی ہیں ۔ حرام کا لاحقہ اس مہینہ کی حُرمت کو بڑھانے کیلئے استعمال ہوتا ہے ۔ قمری جنتری جو کہ آجکل ہجری جنتری کہلاتی ہے سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم سے ہزاروں سال قبل سے نافذ العمل ہے کے چار مہینوں کو احترام والے مہینے کہا گیا جن میں ایک محرم الحرام بھی ہے ۔ جب تک ماہِ رمضان میں روزے رکھنے کا حکم نہیں آیا تھا رسول اکرم سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم نے 10 محرم کا روزہ واجب فرمایا تھا ۔

اس مہینہ کو یہودی بھی عظمت والا مہینہ سمجھتے تھے اور 10 محرم کو روزہ رکھتے تھے کیونکہ ان کے مطابق 10 محرم کو سیْدنا موسٰی علیہ السلام اپنی قوم سمیت دریا میں سے بحاظت گذر گئے تھے اور فرعون مع اپنے پیروکاروں کے غرق ہو گیا تھا ۔

آخرِ عمر میں رسول اکرم سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کو کے علم میں آیا کہ یہودی بھی 10 محرم کا روزہ رکھتے ہیں ۔ یہودیوں کے ساتھ مماثلت سے بچنے کیلئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم نے فرمایا ” آج کے بعد ہم 10 محرم کے ساتھ ایک اور دن ملا کر دو دن کے روزے رکھا کریں گے”۔ حضور کا تو وصال ہو گیا لیکن صحابہ کرام رضی اللہ علیہم اجمٰعین 9 اور 10 یا 10 اور 11 محرم کو جس طرح انہیں سہولت ہوئی روزے رکھتے رہے ۔

ان دو دنوں یعنی 9 اور 10 یا 10 اور 11 محرم کو روزہ رکھنا بڑے ثواب کا کام ہے ۔ اگر صرف 10 محرم کا ہی روزہ رکھا جائے تو بھی ثواب ہے ۔

حساب کی جادو گری

چھ دنوں کیلئے بہت مصروف ہوں ۔ اسلئے اپنی کالج کے زمانہ کی ڈائری سے کچھ نقل کر رہا ہوں ۔ میں نے 5 اگست 2006ء کو حساب کی جادو گری کے چند نمونے پیش کئے تھے ۔
اب کچھ اورمضروب 1 سے 9 کی طرف جاتا ہے اور حاصل ضرب 9 سے ایک کی طرف

1 x 8 + 1 = 9
12 x 8 + 2 = 98
123 x 8 + 3 = 987
1234 x 8 + 4 = 9876
12345 x 8 + 5 = 98765
123456 x 8 + 6 = 987654
1234567 x 8 + 7 = 9876543
12345678 x 8 + 8 = 98765432
123456789 x 8 + 9 = 987654321

مضروب 1 سے 9 کی طرف بڑھتا ہے مگر حاصل ضرب میں 1 بڑھتا جاتا ہے

1 x 9 + 2 = 11
12 x 9 + 3 = 111
123 x 9 + 4 = 1111
1234 x 9 + 5 = 11111
12345 x 9 + 6 = 111111
123456 x 9 + 7 = 1111111
1234567 x 9 + 8 = 11111111
12345678 x 9 + 9 = 111111111
123456789 x 9 +10= 1111111111

مضروب 9 سے 2 کی طرف لپکتا ہے مگر حاصل جمع میں 8 کا اضافہ ہوتا جاتا ہے

9 x 9 + 7 = 88
98 x 9 + 6 = 888
987 x 9 + 5 = 8888
9876 x 9 + 4 = 88888
98765 x 9 + 3 = 888888
987654 x 9 + 2 = 8888888
9876543 x 9 + 1 = 88888888
98765432 x 9 + 0 = 888888888

اب دیکھئے ایک نمونہ حاصل ضرب میں متناسب موزونیت کا جبکہ مضروب میں 1 کا اضافہ ہوتا ہے

1 x 1 = 1
11 x 11 = 121
111 x 111 = 12321
1111 x 1111 = 1234321
11111 x 11111 = 123454321
111111 x 111111 = 12345654321
1111111 x 1111111 = 1234567654321
11111111 x 11111111 = 123456787654321
111111111 x 111111111=12345678987654321

اسلام آباد سے پہلے

میں نے 30 اکتوبر کو جو وعدہ کیا تھا اللہ کے فضل و کرم سے اُسے پورا کرنے کیلئے قدم بڑھا رہا ہوں ۔ اللہ مجھے اس سلسلہ کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ تاخیر کی وجہ ملک کے حالات ہیں جو بہرحال سب سے اہم مسئلہ ہیں ۔ میں نہ تو صحافی ہوں نہ مصنف لیکن اللہ کی کرم نوازی دیکھئیے کہ پچھلی چار دہائیوں سے صحافی اور مصنف کہلانے والے مختلف حضرات مجھ سے مختلف موضوعات پر لکھنے کی فرمائش کرتے رہے ہیں ۔ بلاگ شروع کیا تو یہ فرمائشیں یہاں بھی شروع ہو گئیں جن میں سے کچھ پوری کر چکا ہوں اور کچھ ابھی باقی ہیں ۔ آج کی تحریر کو ترجیح دینے کی وجہ یہ ہے کہ اس کیلئے میرے پاس بلاگرز کی طرف سے چوتھی فرمائش آ چکی ہے کہ اسلام آباد کی ترقی کے مدارج کے متعلق تاریخ کے جھروکے سے لکھوں ۔ اسلام آباد کے متعلق لکھنے سے قبل یہ جاننا ضروری ہے کہ میرا اس شہر سے کیسے واسطہ پڑا اور یہاں پہلے کیا تھا ؟

میں 14 ۔ 15 اور 16 اگست 2007ء کو لکھ چکا ہوں کہ کس طرح ہمارا خاندان 1947ء میں ہجرت کر کے پاکستان پہنچا اور میں اور میری دو بڑی بہنیں [ 12 اور 15 سال] اپنے گھر والوں کے تقریباً دو ماہ بعد پہنچے ۔ سیالکوٹ میں کسی کے ہاں قیام کیا اور 1948ء کے آخر یا 1949ء کے شروع میں راولپنڈی کے جھنگی محلہ میں کرائے کے مکان میں رہنے لگے ۔ دوسال ہمیں راولپنڈی سے مانوس ہونے میں لگے ۔ 1951ء کی گرمیوں میں ہمیں جموں کی نہریں یاد آنے لگیں تو ہم راولپنڈی کے قریبی دریائے سواں پہنچے ۔ اس میں پانی گدلا تھا اور گہرائی اتنی کہ سارا جسم گیلا کرنے کیلئے ہمیں لیٹنا پڑا ۔ پھر کسی نے بتایا کہ نور پور شاہاں کے پاس پہاڑی نالہ ہے ۔ سوچا کہ پکنک منائیں گے اور شاہ عبداللطیف کی قبر پر فاتحہ بھی کہہ لیں گے ۔ نالہ تو قابلِ ذکر نہ پایا ۔ شاہ عبداللطیف کی قبر پر فاتحہ پڑھ کر لوٹ رہے تھے کہ ایک شخص نے روک کر کہا “خوردہ لے لو”۔ وہ جلے ہوئے اوپلوں کی راکھ ہمیں بیچنا چاہتا تھا کہ شاہ عبداللطیف کا تبرک ہے ۔ ہم نے نہ لی تو اس نے ہمیں بہت بددعائیں دیں ۔ اس زمانہ میں شاھ عبداللطیف کی قبر پتھروں سے بنی تھی اور اردگرد پتھروں کی دو فٹ سے کم اونچی دیوار کے سوا کچھ نہ تھا ۔

پھر کسی نے بتایا کہ سیدپور میں چشمے ہیں ۔ ہمیں کشمیر کے چشمے یاد آئے اور ہم سیدپور پہنچ گئے ۔ وہاں ایک چشمے کے پانی کے آگے کوئی 6 فٹ اونچائی پر ایک پائپ لگایا گیا تھا جس میں سے پانی نل کی طرح گر رہا تھا ۔ بڑے چشمہ کی طرف جانے کی اجازت نہ تھی کیونکہ اس کا پانی پینے کیلئے راولپنڈی کو مہیا کیا جاتا تھا ۔ وہاں ایک واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ بھی تھا ۔ سید پور گاؤں میں ایک کُمہار [خاور صاحب نہیں] نے مٹی سے ریلوے انجن اور ڈبّے اور ریلوے لائین بنائی ہوئی تھی جو قابلِ دید تھی ۔ وہاں کے لوگوں سے پوچھ کر ہم نے ایک چٹان کے پیچھے پکنک منائی اور چشمے کا پانی پیا ۔ پھر کسی نے بتایا کہ راول میں پہاڑی نالہ ہے اس میں بہت پانی ہوتا ہے ۔ وہاں پہنچے ۔ پانی سواں سے زیادہ تھا اور صاف بھی مگر پینے کے قابل نہ تھا ۔ پانی کے اندر نوکیلی چٹانیں تھیں جس سے ایک ساتھی کا پاؤں زخمی ہو گیا ۔ بہر حال ہم نے پکنک منا ہی لی ۔ اس کے بعد چھتر کا علم ہو تو وہاں پہنچے ۔ وہاں ایک پہاڑی نالہ بہہ رہا تھا جس میں پانی تیرنے کیلئے ناکافی تھا البتہ چٹانیں نہیں تھیں ۔ اس علاقہ میں لوکاٹ کے بہت پودے تھے ۔ چھتر کے لوکاٹ چھوٹے چھوٹے مگر میٹھے ہوتے تھے ۔ یہ پکنک کیلئے اچھی جگہ تھی ۔ اس کے بعد ہم شاہدرہ گاؤں گئے ۔ وہاں کافی بڑا پہاڑی نالہ تھا ۔ جس میں نہانے کی اجازت نہ تھی اور نہ وہاں پکنک منانے کیلئے کوئی مناسب جگہ تھی ۔ شاہدرہ سے کچھ دُور ایک چھوٹا سا شفاف چشمہ کا نالہ بہہ رہا تھا جو کہ پینے کے قابل تھا ۔ وہاں پکنک منانے کی بہت اچھی جگہ تھی ۔ یہ جگہ اسلام آباد کی ڈویلوپمنٹ کی نظر ہو چکی ہے ۔

چھتر اور شاہدرہ اسلام آباد کے کنارے پر ہیں ۔ اسلام آباد کا اس وقت جو آباد علاقہ ہے اس میں سیدپور ۔ نورپور اور گولڑہ کے علاوہ درجنوں چھوٹے چھوٹے گاؤں تھے جہاں کیکر ۔ کہُو ۔ لوکاٹ ۔ تُوت اور بٹنّکیوں کے درخت اور پھلائی اور کوکن بیروں کی جھاڑیاں تھیں ۔ بٹنکی ناشپانی کی شکل کا چھوٹا سا پھل ہے جس کا زیادہ حصہ بیج ہوتے ہیں اور گودا بہت کم ہوتا ہے ۔ کوکن بیر اس قسم کے بیر ہوتے ہیں کہ گٹھلی کے اُوپر چھلکا ۔ ان دونوں کے کھانے سے گلا پکڑا جاتا ہے ۔

جاری ہے ۔ ۔ ۔

سائنس کی ترقی

آج بڑا چرچہ ہے کہ سائنس بہت ترقی کر گئی ہے ۔ میں 27 جولائی 2005ء کو ایک قاری کے سوالوں کے جواب میں اسی سلسلہ میں لکھ چکا ہوں ۔ اب ایک اور جہت سے کچھ حقائق بیان کروں گا ۔ میں سمجھتا ہوں کہ آج سے پانچ سات سو سال قبل بھی انسان سائنسی ترقی کا علمبردار تھا ۔ گو میرے اس نظریہ کو بیوقوفی یا کم علمی پر محمول کیا جائے گا لیکن میرے پاس ایسے دلائل موجود ہیں کہ جن کو آج تک منطقی طور پر کوئی رد نہ کر سکا ۔

مجھے 1952ء میں زکام اور گلا خراب ہونے کی شکائت شروع ہوئی ۔ ایلوپیتھک علاج جسے انگریزی علاج کہا جاتا تھا شروع کیا ۔ والدین نے ایک سے ایک اچھا اور ماہر ڈاکٹر چُنا ۔ مگر مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی ۔ 1957ء میں ایک دوائی کا ردٍ عمل ہوا تو میں والدین کی دعاؤں کے نتجہ میں مرنے سے بچ گیا البتہ میری پڑھائی کے دو سال ضائع ہو گئے ۔ گلا خراب اور زکام نے میرا پیچھا نہ چھوڑا ۔ آخر ایک ای این ٹی سپیشلسٹ جو میرا علاج پچھلے تین سال سے بڑی جانفشانی سے کر رہے تھے 1972 میں کہنے لگے “میں آپ کو مزید اینٹی بائیوٹک نہیں دینا چاہتا ۔ اگر آپ وعدہ کریں کہ کسی کو میرا نہیں بتائیں گے تو میں اس کا دیسی علاج بتاتا ہوں”۔ میں نے فوراُ وعدہ کر لیا ۔ علاج انتہائی سادہ اور سستا تھا ۔ اللہ کی مہربانی ہو گئی ۔ اس کے بعد سے میں نے پکوڑے ۔ اچار ۔ آئس کریم ۔ کوکا کولا ۔ پیپسی ۔ چاٹ وغیرہ جو میرے لئے 19 سال ممنوع رہے کھانا شروع کر دئیے ۔

مجھے 1984 میں شدید سر درد ہوا جسے مِیگرین کہتے ہیں ۔ پہلے چند ماہ بعد ہوتا تھا پھر ہر مہینے شروع ہوا تو نیورو سرج اور نیورو فزیشن کے علاج شروع کئے ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ درد ہر دس پندرہ دن بعد ہونے لگا ۔ پہلے ایک دو دن میں ٹھیک ہو جاتا تھا پھر پانچ پانچ دن رہنے لگا ۔ نوبت بہ ایں جا رسید کہ ایک بار میں 25 دن بستر پر رہا ۔ اس کے بعد میں نے علاج بند کر دیا ۔ 1996ء میں ایک صاحب نے بتایا کہ انہیں 1970 سے مِیگرین [Migraine] کا عارضہ تھا ۔ دو سال قبل ایک سادہ اور سستا دیسی علاج کیا اور ٹھیک ہو گیا ۔ میں نے بھی وہی علاج کیا اور اللہ نے مہربانی کر دی ۔

زکام اور گلا خراب کا علاج جس کا دورانیہ 6 ماہ تھا یہ ہے ۔ [1] مرچ مصالحے نہیں کھانے ۔ [2] تیز گرم چائے نہیں پینا [3] فرج کا یا برف والا پانی نہیں پینا ۔ [4] پیپسی ۔ کوکا کولا ۔ سیون اپ وغیرہ نہیں پینا ۔ [5] تیل کی تلی ہوی چیز نہیں کھانا ۔ [6] نہانا اسطرح کہ شروع میں پانی تیز گرم ہو جو جسم نہ جلائے جو بتدریج ٹھنڈا کرتے جائیں حتٰی کہ آخر میں پانی ٹھنڈا ہو مگر یخ نہیں ۔ [7] دہی جو کھٹی نہ ہو آدھ پاؤ دوپہر کے کھانا کے ساتھ اور آدھ پاؤ رات کے کھانے کے ساتھ کھانا ۔ [8] گرمیوں اور برسات میں لیموں کی تازہ سکنجبین نمک اور چینی ڈال کر پینا لیکن پانی فرج کا یا برف والا نہ ہو ۔ اگر ذیابیطس کی شکائت ہو تو چینی نہ ڈالیں ۔ جب زکام ہو تو دن میں ڈھائی تین لٹر سکنجبین پینا ۔ [9] جب زکام ہو تو نیم گرم پانی میں نمک ڈال کر غرارے کرنا اور ناک میں بھی یہ پانی کم از کم 3 بار ڈانا(10) روزانہ ورزش کرنا اس طرح کہ پسینہ آ کر ہوا لگنے کا خدشہ نہ ہو ۔ بہترین ورزش پانی میں تیرنا ہے ۔

سر درد کا علاج جس کا دورانیہ 6 ماہ یہ ہے کہ سوئف اور سفید زیرہ برابر مقدار میں لے کر علیحدہ علیحدہ پیس کر اچھی طرح ملا لیا جائے (الیکٹریکل گرائنڈر میں نہ پیسیں)۔ اس کی ایک چھوٹی چمچی پڑوپی کی طرح بھر کے دوپہر اور رات کے کھانے کے بعد کھائیں ۔ اگر ناشتہ حلوہ پوری یا پراٹھے کا کیا جائے تو پھر ناشتے کے بعد بھی کھا لیں ۔

کولیسٹرال کو قابو میں کرنے کیلئے چائنیز گرین ٹی زیادہ سے زیادہ پیجئے ۔ بے شک اس میں چینی نہ ملائیں ۔ اگر 14 کپ روزانہ پیئے جائیں تو کولیسٹرال دو تہائی رہ جاتا ہے ۔ چائے بنانے کا طریقہ یہ ہے کہ پانی اُبال کر چولہا بند کر دیں پھر پتی پیالی میں ڈال کر پانی پیالی میں ڈالیں ۔ اُبلتے پانی میں پتی ڈالنے سے اس کے کچھ اجزاء ضائع ہو جاتے ہیں ۔ عمدہ قسم کی چائے استمعال کیجے چاہے  بازار سے عمدہ قسم کی کھُلی گرین ٹی لے لیں ۔

ذیابیطس کے علاج کیلئے ایک گرام دارچینی روزانہ بغیر پکائے پیس کر کیپسول میں ڈال کرکھائیے یا اسے چائنیز گرین ٹی میں ڈالا جا سکتا ہے لیکن مقدار زیادہ کرنا ہو گی ۔

چین میں اب بھی جسم کے کچھ حصوں میں سوئیاں چبھو کر بغیر بیہوش کئے جراحی کی جاتی ہے جس میں دماغ کی جراحی بھی شامل ہے ۔ یہ بات آج کے ترقی یافتہ امریکا کے جراحوں کی سمجھ میں نہیں آتی ۔

کیا ہمارا روزہ ہے ؟

آج پاکستان میں دوسرا روزہ ہے ۔ روزہ صرف اللہ رب العزت کے ڈر سے یا حُکم سمجھ کر رکھا جاتا ہے ۔ یعنی انسان گھر میں اکیلا ہو اور مرغوبِ نفس کھانے کی چیزیں سامنے پڑی ہوں تو بھی نہیں کھاتا ۔ شدت کی پیاس لگی ہو سامنے شربت یا پانی پڑا ہو اور کوئی انسان وہاں موجود نہ ہو پھر بھی وہ شربت پانی نہیں پیتا ۔

اگر ذیابیطس کا مریض ڈاکٹر کی ہدائت کے مطابق دوائی تو کھاتا رے لیکن پرہیز نہ کرے یعنی مٹھائی ۔ شربت اور دوسری ذیابیطس بڑھانے والی اشیاء کھاتا پیتا رہے تو کبھی تندرست نہیں ہو سکتا ۔ اسی طرح اگر کمرے میں ایئر کنڈیشنر چلا دیا جائے مگر کمرے کی کھڑکیاں ۔ روشندان اور دروازہ کھُلے ہوں تو کمرہ کبھی ٹھنڈا نہیں ہو گا ۔

اسی طرح اگر بُرائیوں [ذیابیطس] کو روزے کا ایئر کنڈیشنر تو چلاا دیا جائے مگر نہ تو عورتوں کو جھانکنے والا اپنا روشندان بند کیا جائے ۔ نہ کم تولنے یا ناپنے والی اپنی کھڑکی بند کی جائے اور نہ جھوٹ بولنے اور دوسری خرافات کا دروازہ بند کیا جائے تو پھر اپنے جسم کو روزے کی ٹھنڈک یا فائدہ کیسے پہنچے گا ؟ چنانچہ روزے کا فائدہ حاصل کرنے کیلئے بھی ضروری ہے کہ جو عوامل منع ہیں ان سے مکمل اجتناب کیا جائے ۔

اللہ قادر و کریم اور رحمٰن و رحیم ہم سب کو صحیح طور پر مکمل لوازمات کے ساتھ روزے رکھنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ ہماری بھول چُوک معاف فرمائے اور ہماری تمام عبادات قبول فرمائے ۔

ارتقاء ۔ انڈے سے چوزے تک

عمومی خیال یہی ہے کہ مرغی کے نیچے انڈے رکھے اور 21 دن بعد چوزے تیار ۔ سائنس ترقی کر گئی ہے جس نے مرغی کو باہر کر دیا ہے اور یہ کام ایک ڈبّے سے لیا جاتا ہے جسے Incubator کہا جاتا ہے لیکن انڈے سے چوزہ بنانا صرف اُس ذاتِ باری کا کام ہے جس نے اس پوری کائنات کی تخلیق کی ہے ۔ دوسرا کوئی ایسا نہیں کر سکتا ۔ اللہ کی قدرت انڈے کے اندر کیا تبدیلیاں لاتی ہے اس کا جزوی مشاہدہ کیجئے ۔ اللہ بہتر جانتا ہے کہ یہ تصاویر بنانے کیلئے کتنے درجن چوزے نکالنے والے انڈے توڑے گئے ہوں گے ۔ میرے اندازے کے مطابق ان میں 20 دن بعد والی حالت نہیں دکھائی گئی اور آخری 21 دن بعد والی حالت ہے یعنی مکمل چوزہ انڈے سے باہر ۔