Category Archives: معلومات

دنیا کا بیمثال کنواں

ہر سال لاکھوں لوگ حج کی سعادت حاصل کرتے ہیں اور اس کے علاوہ لاکھوں دوسرے دنوں میں عمرہ کی سعادت حاصل کرتے ہیں ۔ یہ سب آبِ زم زم خُوب پیتے ہیں اور اپنے عزیزوں کیلئے بھی لے کر اپنے گھروں کو لوٹتے ہیں ۔ یہ آبِ زم زم کیا ہے ؟

جب سیّدنا ابراھیم علیہ السلام کو مکہ جا کر اپنی بیوی حضرت ہاجرہ اور چند ماہ کے بچے اسمٰعیل [علیہ السلام] کو بے آب و گیاہ وادی میں چھوڑنے کا حُکم اللہ کی طرف سے ملا تو اُنہوں نے تعمیل کی ۔ اُن کے واپس چلے جانے کے بعد حضرت ہاجرہ نے ننھے بچے کو وادی میں لٹا دیا اور صفا نامی چوٹی سے مروا نامی چوٹی تک جا جا کر پانی کی تلاش میں سرگرداں ہو گئیں ۔ جب وہ سات بار ایک چوٹی سے دوسری تک جا چکیں تو اُنہوں نے ديکھا کہ اس ننھے بچے نے جو بعد میں اللہ کے نبی سیّدنا اسمٰعیل بنے جہاں زمین پر ایڑیاں ماریں وہاں سے اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے پانی کا چشمہ جاری کردیا ۔ یہ واقع آج سے 4000 سال سے زائد پہلے کا ہے

اُس دن سے آج تک یہ چشمہ جاری ہے اور لاکھوں آدمیوں کے اس پانی کو پينے کے باوجود کبھی خُشک نہیں ہوا ۔ اسی کو زم زم کا نام دیا گیا ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت ہاجرہ نے کہا تھا “زم زم” جو اُس وقت بولی جانے والی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں رُک جا رُک جا

زم زم کا کنواں 13 میٹر گہرا ہے اور اس کا منہ ساڑھے پانچ میٹر لمبا اور سوا چار میٹر چوڑا ہے ۔ زم زم کا پانں پینے کیلئے دنیا کا بہترین پانی ہے ۔ اس کا ذائقہ کبھی تبدیل نہیں ہوا اور نہ ہی کبھی اس میں کوئی چراثیم یا نباتی شے پیدا ہوئی ہے جب کہ ایسا دوسرے سب پانیوں میں ہوتا ہے ۔ حج کے دوران اس کنویں سے روزانہ بڑے بڑے پمپوں سے 8000 لٹر پانی فی سیکنڈ نکالا جاتا ہے ۔ پانی نکالنے کے بعد 15 منٹ میں یہ کنواں پھر بھر جاتا ہے ۔ سُبحان اللہ

ايمان اتحاد نظم ۔ ۔ یا ۔ ۔ اتحاد ایمان تنظیم ؟ ؟ ؟

میں اس موضوع پر پہلے بھی لکھ چکا ہوں اور ناگپور میں منعقد ہونے والے آل انڈیا مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے پانچویں سالانہ اجلاس 26دسمبر1941ء کا حوالہ بھی دیا تھا ۔ ہماری قوم کے ناطق یا آواز دار طبقہ کا مقولہ [Motto] ہے “جانُوں یا نہ جانُوں ۔ پر میں نہ مانُوں”۔ عام طور پر اصرار ہوتا ہے کہ کسی پڑھے لکھے معروف شخص کا حوالہ دیا جائے ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کا مجھ پر ہمیشہ بڑا کرم رہا ہے ۔ جس چیز کی مجھے جُستجُو ہوتی ہے زود یا بدیر خود بخود سامنے آ جاتی ہے ۔ آثارِ قدیمہ پر مُختار [authority] ڈاکٹر احمد حسن دانی صاحب [جو اس سال جنوری میں 88 سال کی عمر پا کر اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے] کے بعد ایک معروف تاریخ دان ڈاکٹر صفدر محمود ابھی زندہ ہیں ۔ قائد اعظم کے مقولہ کے متعلق ڈاکٹر صفدر محمود یہ کہتے ہیں

کچھ عرصہ قبل قائداعظم کے ماٹو [Motto] ”ایمان، اتحاد اور نظم“ کے بارے میں بحث چلی تھی تو بہت سے طلباء نے مجھے اس کی وضاحت کرنے کو کہا کیونکہ کچھ لوگوں کا اصرار تھا کہ قائداعظم کے الفاظ اتحاد، ایمان اور تنظیم تھے۔ میں نے اپنے ایک کالم میں وعدہ کیا تھا کہ میں اپنی استعداد کے مطابق اس پر روشنی ڈالوں گا لیکن بعدازاں میں ملکی سیاست کے اخبار تلے دب کر یہ بات بھول ہی گیا۔ میرا مسئلہ یہ ہے کہ میں سیاستدان نہیں جو اپنے وعدوں کو بھول جاؤں، نہ میں حکمران ہوں کہ لوگ مجھے میرے وعدے یاد دلانے کی جرأت نہ کرسکیں، اس لئے فراغت سے فائدہ اٹھا کر اس سوال کا جواب دینے کی جسارت کر رہا ہوں جسے آپ محض طالب علمانہ جواب سمجھیں، حکیمانہ اور حتمی جواب بہرحال سکالرز یعنی عالم و فاضل حضرات دیں گے۔

اس سوال کے حوالے سے میرے سامنے دو تین مثالیں ہیں جو پیش خدمت ہیں۔ میری اطلاع کے مطابق قائداعظم نے یہ الفاظ پہلی بار آل انڈیا مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے پانچویں سالانہ اجلاس کی افتتاحی تقریب ناگپور میں 26دسمبر1941ء کو کہے۔ ان کی یہ تقریر فی البدیہہ تھی اور طویل ہونے کے باوجود نہایت دلپذیر اور ایمان افروز تھی۔ شاید انہیں احساس تھا کہ وہ مستقبل کے معماروں اور تحریک پاکستان کے ہراول دستے سے خطاب کر رہے ہیں جنہیں مسلمانوں کے مسائل، کانگرس کے عزائم، کانگرسی قیادت کی سوچ اور منافقت اور حصول پاکستان کے ناگزیر ہونے کی منطق اور وجوہ دلائل کے ساتھ سمجھانے کی ضرورت ہے اور ان کے جذبوں کو گرمانے اور صحیح راہ پر ڈالنے کے لئے سیاسی تناظر کو تفصیل کے ساتھ پیش کرنا ضروری ہے۔ اس تقریر میں جہاں انہوں نے طلباء کو اپنی تمام توجہ پڑھائی اور تعلیم پر مرکوز رکھنے کی نصیحت کی اور وقت اور صلاحیتوں کے زیاں سے منع کیا، وہاں انہیں یہ بھی کہا کہ ”ملکی و قومی حوالے سے ہونے والی پیش رفت سے آگاہ رہنا بھی تمہارا فرض ہے“۔ اس تقریر میں قائداعظم نے طلباء کو اتحاد کی تلقین کی اور اپنی تنظیم کو مستحکم بنانے کا بھی مشورہ دیا۔ قائداعظم نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ”مسلم لیگ جو چند برس قبل ایک مردہ جماعت تھی اب ایک فعال، متحرک اور مقبول جماعت بن چکی ہے ۔ نوجوانو! مایوسی کے اندھیروں سے نکل آؤ خوش ہو جاؤ ہم انشاء اللہ پاکستان حاصل کرکے رہیں گے”۔

کانگرس اور ہندو مہاسبھا پاکستان کی کیوں مخالفت کرتی ہے اور گاندھی، ابوالکلام اور نہرو کیا کہتے ہیں، کیا چاہتے اور کیا کیا جال بچھاتے ہیں اس پر روشنی ڈالتے ہوئے قائداعظم نے ہندوستان کے مسلمانوں کو متحد اور مستحکم رہنے کی تلقین کی اور کہا کہ “اپنے مسائل یا بے انصافی کے لئے ہرگز انفرادی سطح پر قدم نہ اٹھائیں کیونکہ اس سے ہمارا قومی مقصد مجروح ہوگا۔ کوئی فرد یا تنظیم انفرادی طور پر قانون شکنی یا مزاحمت کی راہ پر نہ چلے جب اس کا وقت آئے گا تو میں آپ کے ساتھ شامل ہوں گا اور جب ضرورت ہوگی تو اس کا فیصلہ آل انڈیا مسلم لیگ کرے گی۔ اس وقت تک متحد رہیئے اور انتظار کیجئے ہم خطرناک اور فیصلہ کن دور سے گزر رہے ہیں اور اس سے قبل کبھی اتنی ضرورت نہیں تھی جتنی آج ہے کہ ہم [Faith, Unity, Discipline] کو اپنا جماعتی نعرہ [Watchword] بنائیں اور عہد کریں کہ ہم اس پر قائم رہیں گے“۔ [بحوالہ ڈان 4 جنوری 1942ء]۔

اس تقریر کے دو دن بعد 28 دسمبر 1941ء کو مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے اختتامی اجلاس ناگپور میں تقریر کرتے ہوئے قائداعظم نے ایک دلچسپ واقعہ سنایا۔ انہوں نے کہا کہ ”قرارداد پاکستان [23 مارچ 1940ء] کی منظوری کے بعد میں بذریعہ ریل بمبئی جا رہا تھا جب ٹرین بمبئی پہنچی تو پلیٹ فارم پر استقبال کرنے والوں کا ہجوم تھا اور ان کا جوش و خروش دیدنی اور متاثر کن تھا۔ میں نے دیکھا کہ اس ہجوم میں دو بچے نہایت جوش سے پاکستان زندہ باد کے نعرے بلند کر رہے تھے۔ ان میں ایک کی عمر سات سال کے لگ بھگ اور دوسرے کی عمر دس سال تھی۔ میں ان کی طرف بڑھا اور پوچھا کہ تمہاری پاکستان سے کیا مراد ہے؟… وہ ذرا گھبرائے اور جھینپے اور پھر یک زبان ہو کر فوراً جواب دیا جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں وہاں وہ حکمران ہوں“۔ قائداعظم کا کہنا تھا کہ ”وہ بچوں سے یہ جواب سن کر بہت خوش ہوئے

میں یہ تقریر پڑھ کر سوچنے لگا کہ نہ جانے یہ بچے آج حیات بھی ہیں یا نہیں؟ کیونکہ قائداعظم کے نوجوانوں اور اقبال کے شاہین بچوں میں آج کل وہ جوش و خروش مفقود ہے۔ ایک قدم اور آگے بڑھیں تو پتہ چلتا ہے کہ قائداعظم نے آل انڈیا مسلم لیگ کونسل کے بمبئی اجلاس مورخہ 27جولائی 1946ء کو کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”ہمارا ماٹو ہے [Motto] ڈسپلن، یونٹی اور ٹرسٹ یعنی نظم و ضبط، اتحاد اور اعتماد ہونا چاہئے۔ یہاں ان کی مراد تھی کہ ہمیں اپنی قوم کی قوت [Power of Nation ] پر اعتماد ہونا چاہئے اگر ہم میں وہ قوت نہیں ہے تو ہمیں وہ قوت پیدا کرنی چاہئے“

کہنے کا مقصد یہ تھا کہ تحریک پاکستان اور جدوجہد کے دور میں قائداعظم حالات کے تقاضوں کے مطابق قوم کو ماٹو اور راہنما اصول دیتے رہے اور اتحاد کی تلقین کرتے رہے لیکن مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن ناگپور کے افتتاحی اجلاس بتاریخ 26 دسمبر 1941ء میں کہے گئے الفاظ ہمیشہ ان کے ذہن پر کندہ رہے چنانچہ پاکستان بننے کے بعد جب حکومت پاکستان کا مونو گرام [Insignia] بنایا گیا تو اس پر جو سنہرے الفاظ کندہ کئے گئے وہ بالترتیب ”ایمان، اتحاد اور نظم“ تھے جنہیں آج تک استعمال کیا جا رہا ہے جو قائداعظم کے منظور شدہ اور ان کے دل کی آواز تھے۔ ان الفاظ پر غور کریں تو راز کھلتا ہے کہ قائداعظم کی ترجیحات میں پہلی ترجیح ایمان تھی کیونکہ ان کے نزدیک ایمان ہی سے اتحاد اور نظم و ضبط کے سوتے پھوٹتے ہیں۔

غور کیجئے کہ ہم نے قائداعظم کے دیئے گئے ماٹو کو بھلا دیا اور نتیجے کے طور پر آج ایمان کی کمزوری نے اتحاد اور نظم و ضبط کو بھی کمزور کر دیا ہے چنانچہ قوم فرقوں، برادریوں، علاقوں اور صوبوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔ اس اندرونی اور باطنی تقسیم کو مٹانے کے لئے ایک عادلانہ، منصفانہ، جمہوری اور تعلیم سے آراستہ معاشرے کی ضرورت ہے اور یہی قائداعظم کا خواب تھا۔ اے کاش کوئی اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرے…؟؟

کیری لوگر لاء ۔ ڈی ایچ اے اور غریب

راولپنڈی اور اسلام آباد کے شہروں کے کنارے پرویز مشرف دور میں قائم کی جانے والی ڈیفنس ہاؤسنگ سکیم جس میں صرف بڑے بڑے دولتمند ہی پلاٹ خرید کر سکتے ہیں اس میں امریکی امداد سے غریب بچوں کیلئے سکول اور غریبوں کیلئے ہسپتال بنانا ایک لطیفہ نہیں بلکہ پاکستانی قوم کے منہ پر ایک زور دار طمانچہ ہے ۔ ایک حقیقت کا انکشاف

انہوں نے بتایاکہ کیری لوگر بل کے تحت ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی راولپنڈی میں غریبوں کے لئے اسکول اور اسپتال بنایا جائے گا تو اس میں آپ کو کیا اعتراض ہے؟
میں نے پوچھا کہ آپ کو کیسے پتہ ہے؟
موصوف نے بتایا کہ یہ پروجیکٹ سینیٹر جان کیری کے دوست شاہد احمد خان کا ہے جو بوسٹن میں رہتے ہیں اور انہوں نے کیری لوگر بل کی منظوری میں دن رات ایک کردیا۔
میں نے مسکراتے ہوئے کیری لوگر بل کے اس حامی سے پوچھا کہ ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی میں غریبوں کی خدمت کرنے کے لئے آپ غریب کہاں سے لائیں گے؟”
یہ سن کر وہ بھائی صاحب غصے میں آگئے اور کہنے لگے کہ شاہد احمد خان کروڑوں ڈالر راولپنڈی لارہا ہے اور آپ اس کا مذاق اڑارہے ہیں ۔ آپ دراصل پاکستانیوں کو قومی غیرت کے نام پرگمراہ کررہے ہیں اور ”غیرت لابی“ پاکستان کی سب سے بڑی دشمن ہے

میں نے جواب میں کہا کہ ”غیرت لابی“ کی مخالف تو کوئی ”بے غیرت لابی“ ہوسکتی ہے یہ بتایئے کہ آپ کون سی لابی میں شامل ہیں؟
یہ سن کر انہوں نے فتویٰ صادر کیا کہ ”غیرت لابی“ کی وجہ سے پاکستان بہت جلد ٹوٹ جائے گا اور یہ کہہ کر وہ انگریزی میں اول فول بکتے ہوئے میرے دفتر سے چلے گئے

مجھے شاہد احمد خان کی نیت پر کوئی شک نہیں لیکن وہ صرف جان کیری کے نہیں بلکہ صدر آصف علی زرداری کے بھی دوست ہیں لہٰذا انہیں احتیاط کا مظاہرہ کرتے ہوئے کیری لوگر بل کے ذریعہ پاکستان کو دیئے جانے والے فنڈز سے دور رہنا چاہئے تھا۔ اگر وہ یہ احتیاط نہیں کرسکتے تو پھر انہیں یا کیری لوگر بل کے فنڈز سے مستفید ہونے والی این جی اوز کو ”غیرت لابی“ اور ”بے غیرت لابی“ کی بحث نہیں چھیڑنی چاہیئے

مندرجہ بالا چند سطور ہیں ایک مضمون کی جو یہاں کلِک کر کے پڑھا جا سکتا ہے

پنجابی کوئی زبان نہیں

تیرہ چودہ سال گذرے میں سابق وائس چانسلر این ای ڈی انجنیئرنگ یونیورسٹی اور سابق سپیکر قومی اسمبلی الٰہی بخش سومرو صاحب کے ساتھ بیٹھا تھا کہ کسی کا ٹیلیفون آيا اور وہ بات کرنے لگ گئے ۔ ایک بات اُنہوں نے ایسی کہی کہ میں مسکرائے بغیر نہ رہ سکا ۔ ٹیلیفون بند کرنے کے بعد سومرو صاحب بولے “آپ تو کہتے تھے کہ سندھی نہیں آتی ۔ میں سندھی میں بات کر رہا تھا اور آپ بالکل درست ہنسے”۔ میں نے کہا “آپ 70 فیصد پُرانی پنجابی بول رہے تھے”۔ سومرو صاحب تو حیران ہوئے ہی مجھ پر بھُوت سوار ہو گیا کہ پنجابی اور سندھی کا رشتہ معلوم کروں جس کیلئے ان کا ماخذ معلوم کرنا ضروری تھا

دورِ حاضر میں تو سب علاقوں کی زبانیں بدل چکی ہیں ۔ نہ اُردو اُردو رہی ہے اور نہ پنجابی پنجابی ۔ ان میں انگریزی ضرورت سے زیادہ شامل کر لی گئی ہے اور کچھ الفاظ تروڑ مروڑ اور غلط اِملا کا شکار ہو گئے ہیں [جس طرح طالب کی جمع طلباء ہے جسے طلبہ لکھا جا رہا ہے]۔ جواز بتایا جاتا ہے کہ زندہ زبانیں دوسری زبانوں کے الفاظ اپنے اندر سمو لیتی ہیں ۔ بیان تو درست ہے مگر زندہ زبانیں اپنے اندر دوسری زبانوں کے وہ الفاظ داخل کرتی ہیں جو ان زبانوں میں موجود نہیں ہوتے ۔ ہماری قوم نے تو اچھے بھلے الفاظ کی موجودگی میں انگریزی کو فخریہ ترجیح دے رکھی ہے ۔ چچا ماموں خالو پھوپھا سب کو اَنکل [uncle] سڑک کو روڈ [road] غسلخانہ کو باتھ روم [Bathroom] باورچی خانہ کو کِچن [Kitchen] بستر کو بَیڈ [Bed] کہنے سے پنجابی یا اُردو میں میں کونسی خوبصورتی پیدا ہو گئی ہے ؟ کتنا پیارا اور شیریں لفظ ہے امّی جس کو ممی [Mammy] مامی [Mommy] بنا دیا ۔ ممی [Mummy] مُردے کو بھی کہتے ہیں ۔ خیر اپنے موضوع کی طرف واپس آتے ہیں

پنجابی زبان کی ہئیت بدل جانے کے باوجود سندھ اور پوٹھوہار میں ابھی بھی کچھ قدرِ مشترک ہے جیسے سندھ میں پگاڑا کا پگاڑو اور کھوسہ کا کھوسو ہو جاتا ہے ایسے ہی پوٹھوہار میں ہے ۔ جس طرح ہند و پاکستان کے ہر ضلع میں فرق فرق اُردو بولی جاتی تھی اسی طرح پنجابی بھی پنجاب کے ہر ضلع میں فرق فرق تھی اور شاید ہے بھی ۔ لیکن اگر کسی نے چار دہائیاں قبل یا اُس سے بھی پہلے ایبٹ آباد بلکہ مانسہرہ سے تھٹہ تک کا سفر کیا ہوتا تو وہ کہتا کہ راستہ میں زبان پوٹھوہاری سے سندھی میں بتدریج اس طرح تبدیل ہو جاتی ہے کہ زیادہ محسوس نہیں ہوتا

پنجابی کے نام سے دورِ حاضر میں جو زبان بولی جاتی ہے دراصل یہ فارسی ۔ عربی ۔ انگریزی اورسنسکرت کا ملغوبہ ہے ۔ جس زبان کا نام انگریزوں نے پنجابی رکھا وہ اس سے قبل گورمُکھی کہلاتی تھی ۔ دراصل گورمُکھی بھی کوئی زبان نہ تھی ۔ گورمُکھی کا مطلب ہے گورو کے منہ سے نکلی بات ۔ کیونکہ اس زبان میں گورو کے ارشادات رقم کئے گئے تھے اسلئے اس کا نام گورمُکھی رکھ دیا گیا تھا ۔ یہ زبان حقیقت میں براہمی تھی ۔ کہا جاتا ہے کہ براہمی چوتھی یا پانچویں صدی عیسوی سے تعلق رکھتی ہے ۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ براہمی سے سنسکرت نے بھی جنم لیا ۔ یہ زبان اپنی افزائش شدہ شکل میں اُنیسویں صدی عیسوی میں بھی بولی جاتی رہی اور بیسویں صدی عیسوی کی شروع کی دہائیوں میں بھی موجودہ پنجاب ۔ موجودہ سندھ اور ان کے قریبی علاقوں ۔ موجودہ صوبہ سرحد (خیبر پختونخوا) اور گجرات کاٹھیاواڑ میں بھی بولی جاتی تھی ۔ یہی زبان جسے بعد میں پنجابی کا نام دیا گیا اُردو زبان کی بنیاد بھی بنی ۔ یہاں تک کہ اُنیسویں صدی کی شروع کی دہائیوں میں جو اُردو یا ہندی بولی جاتی رہی وہ اُس زبان کے اکثر الفاظ پر مشتمل تھی جو پنجابی کہلائی ۔ اُردو چونکہ ہند کی زبان تھی اسلئے اسے ہندی بھی کہا جاتا تھا ۔ ہندوستان کا لفظ ہند کو اپنے سے منسوب کرنے کیلئے ہندوؤں نے ایجاد کیا تھا

مولوی محمد مسلم صاحب کا مجموعہ کلام “گلزارِ آدم” جو 1230ھ یعنی 1829ء میں لکھا گیا میں سے ایک اُردو کا شعر

اِک دِن دِل وِچ گُذریا ۔ میرے اِہ خیال
ہندی وِچ پیغمبراں دا کُجھ آکھاں میں حال

مندرجہ بالا شعر کو اگر دورِ حاضر کی اُردو میں لکھا جائے تو کچھ یوں ہو گا
ایک دن دل میں آیا ميرے یہ خیال
اُردو میں پیغمبروں کا کُچھ کہوں میں حال

پرانی اردو ۔ ۔ ۔ جدید اُردو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پرانی اردو ۔ ۔ ۔ جدید اُردو
ہَور ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اجُوں تک ۔ ۔۔ ۔ ابھی تک
بھار ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ باہر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ کِدھن ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ کس سمت میں
کُوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ کو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ دِستے ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ نظر آتے
کنے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پاس ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مُنج ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ مجھ
نال ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ساتھ

اُوپر دیئے گئے پرانی اُردو کے الفاظ اُن الفاظ میں سے چند ہیں جو کہ شمال مغربی ہند [گجرات کاٹھیاواڑ ۔ سندھ ۔ پنجاب اور گرد و نواح] میں بولی جانے والی زبان سے اُردو میں شامل ہوئے ۔ اِن الفاظ میں سے اکثر اب بھی پنجابی میں بولے جاتے ہیں ۔ حیدر آبادی صاحب کا مشکور ہوں کہ اُن کی وساطت سے مندرجہ بالا شعر اور الفاظ تک میری رسائی ہوئی

ثقافت کیا ہے ؟

ثقافت کیا ہوتی ہے ؟ جاننے کی جُستجُو مجھے اُنہی دنوں ہوئی تھی جب میری عمر سولہ سترہ سال تھی اور میں گارڈن کالج راولپنڈی میں پڑھتا تھا ۔ میں نے اُنہی دنوں کے حوالہ سے ثقافت کے سلسلہ میں 30 جون 2006ء کو اپنی ایک تحریر شائع کی تھی بہرحال نوجوانی کے زمانہ سے سالہا سال بعد تک کی تگ و دو اور مطالعہ نے مجھے اس قابل کیا کہ سمجھ سکوں کہ ثقافت کس بلا کا نام ہے ۔ پچھلی دو صدیوں میں لکھی گئی کُتب کی طرف رُخ کیا جائے تو واضح ہو جاتا ہے کہ ثقافت کسی قوم ملت یا قبیلہ کی مجموعی بود و باش سے تعلق رکھتی ہے نہ کہ ایک عادت یا عمل سے ۔ نہ کچھ لوگوں کی عادات سے ۔ مزید یہ کہ ثقافت میں انسانی اصولوں پر مبنی تعلیم و تربیت کا عمل دخل لازم ہے ۔ ثقافت کے متعلق محمد ابراھیم ذوق ۔ الطاف حیسن حالی ۔ علامہ اقبال ۔ اکبر الٰہ آبادی اور دیگر نے اپنے خیالات کا اظہار کیا لیکن میں اسے دہرانے کی بجائے صرف لُغت سے استفادہ کروں گا

فیروز اللُغات کے مطابق ” ثقافت ” کے معنی ہیں ۔ عقلمند ہونا ۔ نیک ہونا ۔ تہذیب
ایک انگریزی سے اُردو ڈکشنری کے مطابق کلچر [Culture] کا مطلب ہے ۔ ترتیب ۔ تہذیب ۔ پرورش کرنا ۔ کاشت کرنا

چند مشہور انگریزی سے انگریزی ڈکشنریوں کے مطابق ثقافت یا کلچر [Culture
] کے معنی ہیں

مریم ویبسٹر ڈکشنری
1 ۔ شعوری اور اخلاقی استعداد کا افشا بالخصوص علم کے ذریعہ
2 ۔ شعوری اور جمالیاتی تربیت سے حاصل کردہ بصیرت اور عُمدہ پسندیدگی
3 ۔ پیشہ ورانہ اور فنی استعداد سے ماوراء فنونِ لطیفہ ۔ انسانیات اور سائنس کی وسیع ہیئت سے شناسائی
4 ۔ انسانی معلومات کا مرکب مجسمہ ۔ اعتقاد اور چال چلن جس کا انحصار سیکھنے کی وسعت اور آنے والی نسلوں کو علم کی مُنتقلی پر ہو
5 ۔ کسی گروہ کے رسم و رواج ۔ باہمی سلوک اور مادی اوصاف

کومپیکٹ آکسفورڈ ڈکشنری
1 ۔ خیالی یاشعوری فَن یا ہُنر کے ظہُور جو اجتمائی نشان ہو یا اس کی ایک خالص فِکر یا قدر دانی
2 ۔ کسی قوم ۔ مِلّت یا گروہ کی رسوم ۔ ادارے اور کامرانی

کیمبرج بین الاقوامی انگریزی کی ڈکشنری
1 ۔ کسی قوم ۔ مِلّت یا گروہ کے کسی خاص دور میں بود و باش کا طریقہ بالخصوص عمومی عادات ۔ رسوم ۔ روایات اور عقائد
2 ۔ اگر صرف فَنون سے متعلق ہو تو موسیقی ۔ ہُنر ۔ ادبی علوم یا تمثیل گھر

اینکارٹا ورلڈ انگلش ڈکشنری
کسی قوم یا گروہ کی / کے مشترکہ
1 ۔ مجموعی طور پر فن یا ہُنر جس میں فنونِ لطیفہ ۔موسیقی ۔ ادب ۔ ذہنی چُستی شامل ہوں
2 ۔ آگہی ۔ آمیزش اور بصیرت جو تعلیم کے ذریعہ حاصل ہو
3 ۔ رائے ۔ وصف ۔ رسم و رواج ۔ عادات ۔ باہمی طور طریقے
4 ۔ شعور یا ہُنرمندی یا فنی مہارت کی نشو و نما

چنانچہ ثقافت صرف عادات و رسوم کا ہی نہیں بلکہ صحتمند عادات و رسوم کے مجموعہ کا نام ہے جن کی بنیاد تربیت پر ہو ۔ ہر چند کہ کسی گروہ یا قبیلہ کے لوگ کچھ قباحتیں بھی رکھتے ہوں لیکن ان بُری عادات کو ان کی ثقافت کا حصہ نہیں سمجھا جائے گا

اگر کہا جائے کہ ہندوؤں کی ثقافت میں ناچ گانا شامل ہے تو یہ درست ہے لیکن ہندوؤں کیلئے بھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اُن کی ثقافت ناچ گانا ہے کیونکہ ناچ گانا ان کی ثقافت کا صرف ایک جُزو ہے اور ان کی ثقافت میں کئی اور اوصاف بھی شامل ہیں ۔ ناچ گانا پوجا پاٹ کا حصہ بنا دینے کی وجہ سے ہندوؤں کی ثقافت میں شامل ہو گیا اور یہ ناچ گانا وہ بھی نہیں ہے جو کہ مووی فلموں میں دکھایا جاتا ہے

مسلمان کیلئے دین اول ہے اسلئے مسلمانوں کی ثقافت میں دین کا لحاظ لازمی ہے لیکن میرے اکثر ہموطن مسلمان ہوتے ہوئے اپنی ثقافت کو ناچ ۔ گانا ۔ تمثیل ۔ مصوّری ۔ بُت تراشی وغیرہ ہی سمجھتے ہیں اور ثبوت کے طور پر ہندوانہ رسم و رواج کا حوالہ دیتے ہیں یا پھر اس دور کی مثال دیتے ہیں جب اسلام کا ظہور نہیں ہوا تھا

عام طور پر جو لوگ ثقافت پر زور دیتے ہیں اُن میں سے کچھ کے خیال میں شاید ثقافت ساکت و جامد چیز ہے اور وہ اسے موہنجو ڈارو کے زمانہ میں پہنچا دیتے ہیں ۔ جبکہ کچھ لوگ ثقافت کو ہر دم متغیّر قرار دیتے ہیں ۔ یہ دونوں گروہ اپنے آپ کو جدت پسند ظاہر کرتے ہیں ۔ مؤخرالذکر ثقافت کو اپنے جسم تک محدود رکھتے ہیں یعنی لباس ۔ محفل جمانا ۔ تمثیل ۔ ناچ گانا وغیرہ ۔ لُطف کی بات یہ ہے کہ ثقافت عوام کی اکثریت کا ورثہ اور مرہُونِ منت ہے جنہیں ثقافت کی بحث میں پڑنے کا شاید خیال بھی نہیں ہوتا یا جنہوں نے کبھی ثقافت پر غور کرنے یا اسے اُجاگر کرنے کی دانستہ کوشش نہیں کی

ثقافت ایک ایسی خُو ہے جو اقدار کی مضبوط بنیاد پر تعمیر ہوتی ہے ۔ یورپ اور امریکہ میں عورت اور مرد کا جنسی اختلاط عام ہے اور عرصہ دراز سے ہے ۔ کسی یورپی یا امریکن سے پوچھا جائے کہ کیا یہ جنسی اختلاط آپ کی ثقافت کا حصہ ہے تو وہ کہے گا کہ “نہیں ایسا نہیں ہے” ۔ اس کے برعکس کچھ ایسی عادات ہیں جسے اُنہوں نے غیروں سے اپنایا ہے مثال کے طور پر آجکل جسے ٹراؤزر یا پینٹ کہتے ہیں یہ دراصل منطلون یا منطالون ہے جسے عربوں نے گھوڑ سواری بالخصوص جنگ کے دوران کیلئے تیار کیا تھا ۔ یہ اب یورپ اور امریکہ کی ثقافت کا حصہ ہے گو اس کی شکل اب بدل چکی ہے اور اُن لوگوں کی ثقافت کا حصہ بن چکی ہے ۔ اسی طرح کچھ کھانے ہیں جو یورپی اور امریکی ثقافت کا حصہ سمجھے جاتے ہیں لیکن ایشیا سے نقل کئے گئے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان میں سے کچھ اب ایشیا کی بجائے یورپ یا امریکہ کا خاصہ تصور ہوتے ہیں ۔ دورِ حاضر کا برگر جرمنی کا ہیمبُرگر تھا کیونکہ اسے ہیمبُرگ میں کسی شخص نے بنانا شروع کیا تھا ۔ اس سے قبل اس کا نام وِمپی تھا اور ترکی اور اس کے قریبی ایشیائی علاقہ میں بنایا جاتا تھا ۔ اُس سے پہلے یہ منگولوں کا سفری کھانا تھا ۔ اسی طرح شیش کباب جسے ولائیتی [یورپی] کھانا سمجھ کر کھایا جاتا ہے درصل سیخ کباب ہی ہے جو کہ ترکی کا کھانا تھا

ہندو عورتیں ایک ڈیڑھ گز چوڑی چادر پیچھے سے سامنے کی طرف لا کر داہنے والا کونہ بائیں کندھے اور بائیں والا کونہ داہنے کندھے کے اُوپر لے جا کر گردن کے پیچھے باندھ لیتی تھیں اور یہی ان کا لباس تھا ۔ لباس میں ساڑھی جسے کئی لوگ ہندوؤں کا پہناوا یا ثقافت کہتے ہیں ہندوؤں نے مسلمانوں سے نقل کیا جس کو مختلف اشکال دی گئیں اور عُریاں بھی بنا دیا گیا ۔ دراصل یہ عرب بالخصوص افریقی مسلمانوں کا لباس ساری تھا جو کہ مسلمان عورتیں بطور واحد لباس نہیں بلکہ اپنے جسم کے خد و خال چھپانے کی خاطر عام لباس کے اُوپر لپیٹ لیتی تھیں ۔ یہ ساری اب بھی افریقہ کے چند ملکوں بالخصوص سوڈان میں رائج ہے

ثقافت کے متذکرہ بالا اجزاء میں جو مادی اوصاف ہیں وہ تبدیل ہوتے رہتے ہیں اور ان کے تبدیل ہونے میں کوئی قباحت نہیں ہے اور انسانی بہتری کیلئے ان میں تبدیلی ہوتے رہنا چاہیئے مگر ثقافت پر اثر انداز ہونے والی اقدار میں وہ وصف شامل ہیں جن کی بنیاد خالقِ کائنات نے اپنی مخلوق کی بہتری کیلئے مقرر کر دی ہے ۔ ان کو تبدیل کرنا انسانی تمدن کے لئے نقصان دہ ہو سکتا ہے اور اللہ کی نافرمانی بھی ۔ آج کمپیوٹر کا دور ہے ۔ کمپیوٹر متعدد قسم کے کام سرانجام دیتا ہے مگر یہ سب کام کمپیوٹر کے خالق کے مقرر کردہ ہیں ۔ کمپیوٹر ان مقررہ حدود سے باہر نہیں جاتا ۔ یہی حال انسان کا ہے ۔ فرق یہ ہے کہ انسان کے خالق نے انسان کو کچھ اختیار دیا ہوا ہے لیکن ساتھ ہی انسان کا نصب العین بھی مقرر کر دیا ہے اور اس پر واضح کر دیا ہوا ہے کہ غلط عمل کا نتیجہ اچھا نہیں ہو گا ۔ اس لئے انسان کیلئے لازم ہے کہ انسانیت یا خود اپنی بہتری کیلئے اپنی اقدار کو نہ بدلے اور ان پر قائم رہے ۔ وہ اقدار ہیں عبادت ۔ تعلیم ۔ سلوک ۔ عدل ۔ انتظام ۔ وغیرہ

یہ میری 13 اپریل اور 15 اپریل 2009ء کی تحاریر کا خلاصہ ہے

زرداری افتخار چوہدری اور ڈوگر ۔ ہوشیار کون؟

پاکستان کے عوام کے لئے یہ بات اب تک پردہ راز میں ہے کہ آصف علی زرداری نے انتخابات کے بعد تمام معزول ججوں کو کیوں بحال نہیں کیا تھا؟ ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ اگر وہ چیف جسٹس آف پاکستان کو بحال نہیں کرنا چاہتے تھے تو انہوں نے نواز شریف کے ساتھ معاہدے کیوں کئے؟ جبکہ وہ ان معاہدوں کی پاسداری بھی نہیں کرنا چاہتے تھے اور یہ بھی کہ انہوں نے اس بات کا احساس کیوں نہیں کیا کہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو بحال نہ کر کے ایک ایسی غلطی کر رہے ہیں جو انہیں اور پاکستان پیپلزپارٹی کو بہت زیادہ مقبول بنا دے گی۔ یہ تمام سوالات اگرچہ اب تک پردہ راز میں ہیں مگر بعض حقائق کو اگر پیش نظر رکھا جائے تو اس سے ایسے نتائج سامنے آتے ہیں جو بیک وقت باعث صدمہ بھی ہیں اور قابل مذمت بھی

فروری 2008ء میں پاکستان پیپلزپارٹی کے سربراہ کی حیثیت سے وہ ہمدردی کی اس لہر کی وجہ سے جو محترمہ بے نظیر بھٹو کی المناک وفات کی وجہ سے پیدا ہوئی تھی وہ آئندہ انتخابات میں کامیابی کی پوزیشن میں تھے۔ انہیں اس موقع پر جنرل پرویز مشرف کی جانب سے دو تحفے بھی ملے تھے ایک این آر او اور دوسرا انتہائی غیر محفوظ پی سی او جج عدلیہ کی بحالی کو روکنے کے لئے کچھ بھی نہیں کرنے کو تیار تھے

فروری 2008ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی المناک موت کے چالیس روز بعد آصف زرداری نے اول الذکر دونوں مواقع کو اپنے لئے زیادہ سے زیادہ فوائد حاصل کرنے کے لئے استعمال کیا۔ لوگ یہ نہیں جانتے کہ ایک جانب زرداری اور ان کے دوستوں کے خلاف این آر او کے تحت کرپشن کے تمام کیسز ختم ہوگئے دوسری جانب پی سی او ججز کا عدم تحفظ بھی ان کے لئے ایک قیمتی اثاثہ ثابت ہوا جسے استعمال کر کے آصف زرداری قتل اور جرائم کے کئی کیسز سے بری ہوگئے جو این آر او کے بغیر ایک ناممکن امر تھا

بے نظیر جب اپنے اور اپنے شوہر کے خلاف کرپشن کے تمام کیس واپس لینے کے لئے مذاکرات کر رہی تھیں اس وقت ان مذاکرات میں شامل افراد نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ انہوں نے اپنے شوہر کے خلاف کرمنل کیسز واپس لینے کا کوئی مطالبہ نہیں کیا تھا

انتخابات کے فوری بعد آصف زرداری رائے ونڈ گئے اور اس کے بعد نواز شریف اور زرداری نے نئے جذبوں اور گرم جوشی کا اظہار کیا۔ اب یہ دونوں ایک خاندان کی مانند تھے۔ ان دونوں نے عوام کے سامنے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار چوہدری اور ان دیگر معزز جج صاحبان کو بحال کرنے کا وعدہ کیا جنہوں نے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کردیا تھا۔ اس کے بعد ان دونوں کے درمیان رائے ونڈ، پھر مری، پھر دبئی، پھر لندن اور اس کے بعد اسلام آباد میں کئی ملاقاتیں، مذاکرات اور معاہدے ہوئے۔ دو بار یہ وعدے دو باقاعدہ معاہدوں میں بھی تبدیل ہوئے مگر ان میں سے کسی پر بھی عملدرآمد نہ ہوسکا

18 فروری 2008ء سے 16 مارچ 2009ء کی رات گزرنے تک وکلاء اور معزول جج جو اپنے گھروں میں شرمندگی کے عالم میں بیٹھے تھے جبکہ صحافی اور درحقیقت ملک کا ہر حساس شخص حیران تھا کہ آصف زرداری نے ناپختہ وعدے کر کے اپنی پارٹی اور حکومت کو ایک بند گلی میں کیوں چھوڑ دیا ہے۔ جس کے نتیجے میں پارٹی کی مقبولیت اور اس کی ساکھ دونوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔ اس اقدام کی وجہ سے انہوں نے یہ ثابت کردیا کہ ان کی پارٹی ایک غلط راہ پر چل رہی ہے۔ اس سلسلے میں اس کا کوئی بنیادی موقف بھی نہیں ہے۔ اس کے نتیجے میں پیپلزپارٹی کی مقبولیت اور اس کی ساکھ کو زبردست دھچکا پہنچا اور پیپلزپارٹی کے حلقوں میں کسی کو اس بات کا علم نہیں ہے کہ عدلیہ کے مسئلے کو زرداری نے اس طرح کیوں استعمال کیا۔ اس وقت تک ان پر عوامی خواہشات کے آگے سرنگوں ہونے کے لئے بھی زبردست دباؤ تھا

اب بھی سوال یہ ہے کہ آصف زرداری نے آخر عدلیہ کی بحالی کے مسئلے کو اس انداز میں کیوں حل کیا؟ ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے کہ انتخابات سے صرف تین روز قبل 15 فروری 2008ء کو آصف زرداری نے پوری صورت حال کا جائزہ لینے کے بعد اپنی ہر بازی پی سی او ججز پر لگا دی انہیں امید تھی کہ یہ جج اپنی ملازمتوں پر برقرار رہنے کے لئے ان کے تمام مطالبات مان لیں گے۔ زرداری نے اس سے قبل نواز شریف سے جتنی بھی ملاقاتیں کی تھیں اور معزز جج صاحبان کی بحالی کے لئے جو بھی وعدے کئے تھے ان کا مقصد ڈوگر اور دیگر پی سی او جج صاحبان کو آگے بڑھانا تھا تاکہ انہیں جو کام سونپا گیا ہے وہ اسے جلد از جلد مکمل کرلیں۔ چنانچہ 15 فروری 2008ء کو محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے واقعہ کے چالیس روز بعد بظاہر ان کے غمزدہ شوہر نے کوئی وقت ضائع کئے بغیر اور انتخابات کے نتائج کا انتظار کئے بغیر انتخابات سے صرف تین روز قبل ایک آئینی پٹیشن (D-265/2008) سندھ ہائی کورٹ میں داخل کی۔ اس پٹیشن میں انہوں نے وفاقی حکومت اور نیب سے اپنے خلاف جاری ان تمام مقدمات واپس لینے کے حوالے سے رائے طلب کی تھی جو برطانیہ، سوئٹزرلینڈ اور پاکستان کی عدالتوں میں چل رہے تھے۔ درخواست دہندہ نے جس جامع انداز میں درخواست تیار کی تھی اس کے مطالعے کے بعد کسی تبصرے کی ضرورت باقی نہیں رہتی

درخواست
درخواست ہے کہ یہ معزز عدالت براہ کرم (A) قرار دے کہ کلیم نمبر 2006 فولیو 156 کے تحت مدعا علیہ کی جانب سے استغاثہ کے خلاف ہائی کورٹ آف جسٹس کوئنز بنچ ڈویژن کمرشل کورٹ لندن، یونائیٹڈ کنگڈم میں دائر کی جانے والی درخواست قومی مصالحتی آرڈیننس 2007ء کے تحت حاصل اختیار کے تحت معطل کی جائے یا واپس لی جائے

(B) اور یہ کہ مستغیث نمبر 1 کی جانب سے حکومت سوئٹزرلینڈ کو دی جانے والی مشترکہ درخواست جس کے تحت انویسٹی گیشن مجسٹریٹ جنیوا نے تحقیقات شروع کی ہے اور جیسا کہ مستغیث نمبر 1 سول پارٹی کی حیثیت سے اس میں شامل ہے تو اسے قومی مصالحتی آرڈیننس 2007ء کے تحت حاصل اختیارات کے مطابق واپس لیا جائے یا معطل کیا جائے۔
(C) اس بات کا اعلان کیا جائے کہ ذیل میں پیش کئے جانے والے مقدمات اور ریفرنسز این آر او 2007ء کے تحت حاصل اختیارات کے مطابق ختم کئے جائیں اور واپس لئے جائیں گے

(i) ریفرنس نمبر 14/2001 (اثاثہ ریفرنس) جو اکاؤنٹیبلٹی کورٹ II راولپنڈی میں زیر التوا ہے۔
(ii) ریفرنس نمبر 41/2001 (ایس بی ایس ریفرنس) جو اکاؤنٹس کورٹ II راولپنڈی میں زیر التوا ہے۔
(iii) ریفرنس نمبر 23/2000 (اے آر وائی گولڈ ریفرنس) جو اکاؤنٹیبلٹی کورٹ II راولپنڈی میں زیر التوا ہے۔
(iv) ریفرنس نمبر 59/2002 (بی ایم ڈبلیو کا ریفرنس) جو اکاؤنٹیبلٹی کورٹ (III) راولپنڈی میں زیر التوا ہے۔
(v) ریفرنس نمبر 35/2000 (کوٹیکناریفرنس) جو اکاؤنٹیبلٹی کورٹ نمبر III راولپنڈی میں زیر التوا ہے۔
(vi) ریفرنس نمبر 1/2001 (ریسورس ٹریکٹر ریفرنس) جو اکاؤنٹیبلٹی کورٹ نمبر II راولپنڈی میں زیر التوا ہے۔
(vii) ریفرنس نمبر 6/2000 (پولوگراؤنڈ ریفرنس) جو اکاؤنٹیبلٹی کورٹ II راولپنڈی میں زیر التوا ہے جسٹس ڈوگر جو اس وقت نام نہاد چیف جسٹس بھی تھے انہوں نے آصف زرداری کو نوازنے کے لئے اپنی اطاعت گزاری میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور اپنی تمام ماتحت عدالتوں کو 27 فروری 2008ء کو آئینی پٹیشن نمبر 76 اور 77 آف 2007 کی سماعت میں فوری طور پر بری کرنے کا مطالبہ کیا ان پٹیشنز میں درحقیقت این آر او کے قابل عمل ہونے کو چیلنج کیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ کے پی سی او ججز کی ایک پانچ رکنی بنچ نے تمام ماتحت عدالتوں کو مندرجہ ذیل ہدایات جاری کیں

سپریم کورٹ آف پاکستان میں حقیقی عدالتی دائرہ اختیار
برعدالت
مسٹر جسٹس عبدالحمید ڈوگر (ایچ سی جے)
مسٹر جسٹس محمد نواز عباسی
مسٹر جسٹس فقیر محمد کھوکھر
مسٹر جسٹس اعجازالحسن

مسٹر جسٹس چوہدری اعجاز یوسف آئینی پٹیشن نمبر 76 اور 77 آف 2007 عدالتیں اور متعلقہ حکام آرڈیننس کی دفعات کی روشنی میں کسی دباؤ کا شکار ہوئے بغیر کہ یہ پٹیشنز تاخیر کا شکار ہوئی ہیں زیادہ تیزی کے ساتھ کارروائی کریں گی

اس کے اگلے روز سندھ ہائی کورٹ کے دو پی سی او ججوں خواجہ نوید اور علی سائیں ڈنو میٹلو نے آصف زرداری کی آئینی پٹیشن (D-265/2008) کی سماعت کرتے ہوئے فوری طور پر سپریم کورٹ کی مندرجہ بالا ہدایت کی تعمیل کرتے ہوئے نیب اور حکومت کو ہدایت کی کہ وہ عدالت میں ایک رپورٹ پیش کریں جس میں اس بات کی تصدیق ہوگئی ہو کہ انہوں نے این آر او کے تحت آصف زرداری کے خلاف تمام کرپشن کیسز واپس لے لئے ہیں۔ اس کے علاوہ اس بات کی تصدیق بھی کی جائے کہ ان کی جانب سے تمام غیرملکی استغاثہ حکام سے آصف زرداری کے خلاف تمام کیسوں میں سپریم کورٹ کے مندرجہ بالا حکم کی روشنی میں ہر قسم کا تعاون ختم کر دیا ہے

آصف زرداری کی پٹیشن سندھ ہائی کورٹ میں بار بار سماعت کے لئے پیش ہوتی رہی۔ ہر سماعت میں عدالت نیب اور وفاقی حکومت پر زور دیتی رہی کہ زرداری کے خلاف تمام کیس واپس لئے جائیں اور سندھ ہائی کورٹ میں ان کیسوں کے حوالے سے تعمیل حکم کی رپورٹ پیش کی جائے۔ جس آئینی پٹیشن کے تحت آصف زرداری کے خلاف کرپشن کے تمام کیس بالآخر ختم کئے گئے ان کی تاریخیں مندرجہ ذیل تھیں۔ 15-2-2008، 29-2-2008، 4-3-2008، 28-3-2008، 21-4-2008، 6-5-2008، 15-5-2008، 29-8-2008، 17-9-2008۔
17 ستمبر 2008ء کو نیب اور وفاقی حکومت کی نمائندگی کرنے والے وکلاء (جو آصف زرداری کے کنٹرول میں تھے) نے ڈپٹی اٹارنی جنرل عامر رضا نقوی اور نیب کے وکیل سلمان اسلم بٹ نے عدالتی حکم کی تعمیل کی رپورٹ سندھ ہائی کورٹ کی اس دو رکنی بنچ کو پیش کی جس نے مقدمات کی واپسی کی ہدایت کی تھی۔ ان دونوں ججوں میں خواجہ نوید او علی سائیں ڈنو میٹلو شامل تھے۔ جہاں تک سوئس عدالتوں میں مقدمات کی سماعت کا تعلق ہے اٹارنٹی جنرل نے وفاقی حکومت کی جانب سے سوئس عدالتوں میں عدالت کے ایک خط کی نقل پیش کی جس میں پٹیشنز کے خلاف عدالتی کارروائی ختم کرنے کی اطلاع دی گئی تھی۔ اس کے بعد ہی انویسٹی گیٹنگ مجسٹریٹ جنیوا پر دباؤ ڈالا گیا کہ وہ آصف زرداری کے خلاف کرمنل کانسپریسی کے حوالے سے عدالتی کارروائی ختم کردیں جس کے مطابق انہوں نے اپنے ذاتی مفاد کے لئے پاکستان کے ساتھ فراڈ کیا تھا

جہاں تک برطانیہ کے مشہور سرے محل کیس کا تعلق ہے DAG نے سندھ ہائی کورٹ میں اس بات کی تصدیق کی کہ زرداری کے خلاف ہائی کورٹ آف جسٹس کوئنز بنچ ڈویژن کمرشل کورٹ روک ووڈ اسٹیٹ سرے (برطانیہ) میں جاری تمام کارروائی ختم کردی گئی ہے۔ بعد میں نیب ریفرنسز کے حوالے سے DAG نے اس بات کی تصدیق کی کہ زرداری کے خلاف نیب کے تمام سات ریفرنسز جن میں اثاثوں کا ریفرنس، ایس جی ایس، کوٹیکنا ریفرنس URSUS ریفرنس اور پولو گراؤنڈ ریفرنس شامل تھے اور جو پٹیشنز کے خلاف راولپنڈی کی احتساب عدالت میں زیرسماعت تھے انہیں حکومت نے واپس لے لیا ہے

DAG کے متذکرہ بالا بیان کے بعد پٹیشنز کے وکلاء ابوبکر زرداری اور حیدر علی نے اپنی پٹیشن پیش نہیں کی اور جسٹس خواجہ نوید اور علی ڈنو میٹلو نے مندرجہ ذیل حکم کے ساتھ پٹیشن خارج کردی

آرڈر شیٹ
ہائی کورٹ آف سندھ۔ کراچی
سی پی نمبر D-265 آفس 2009
16-9-2008
فاضل DAG نے بیان کیا ہے کہ حکومت پاکستان کی وضاحت پر پٹیشنز کے خلاف لوئس عدالت میں زیر التواء کرمنل پروسیڈنگ ختم کردی گئی ہے اور ہائی کورٹ آف جسٹس کوئنز بنچ ڈویژن کمرشل کورٹ لندن یوکے میں زیر التواء کارروائیاں معطل کردی گئی ہیں۔
فاضل DAG کے بیان کی روشنی میں پٹیشنز کے فاضل وکیل نے پٹیشن کی سماعت جاری رکھنے پر زور نہیں دیا۔ اسی سبب سے پٹیشن اور اس کے ساتھ موجود درخواستیں نمٹادی گئی ہیں کیوں کہ ان پر زور نہیں دیا گیا۔

جج
مندرجہ بالا ان تمام واقعات کی اسکیم ہے جنہیں ترتیب اور بیان کیا گیا ہے اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آصف زرداری اور پی سی او ججز نے کس طرح ترتیب وار، بھرتی سے اور طریقے سے کام کیا جب کہ نواز شریف، وکلاء اور پوری قوم معزول ججوں کی بحالی کے بلند و بالا وعدوں کے مزے لے رہے تھے۔ (جاری ہے)

تحریر ۔ اکرم شیخ ۔ ایڈووکیٹ سپریم کورٹ ۔ بشکریہ ۔ جنگ

پریشان کن خبروں میں سے ایک

جن پریشان کن خبروں کا میں نے ذکر کیا تھا ان میں سے ایک اخبار مٰیں آگئی ہے ۔ ملاحظہ فرمایئے

یہ اس دن کی بات ہے جب صدر آصف علی زرداری امریکہ کے دورے پر روانہ ہوئے اور اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے کو سیکورٹی فراہم کرنے والے ایک پرائیویٹ ادارے کے دفتر پر چھاپہ مارا گیا۔ چھاپہ مارنے کا فیصلہ ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں کیا گیا جس میں تین بڑے خفیہ اداروں نے اسلام آباد میں امریکیوں کی پراسرار سرگرمیوں کے بارے میں اپنی اپنی رپورٹیں پیش کیں۔ یہ رپورٹیں سامنے آنے کے بعد اجلاس میں موجود وزیر داخلہ رحمٰن ملک کو پانی سر سے اوپر جاتا ہوا محسوس ہوا اور انہوں نے فوری طور پر انٹر رسک نامی پرائیویٹ سیکورٹی ایجنسی کے دفتر پر چھاپے مارنے کا حکم دیدیا کیونکہ اطلاعات کے مطابق اس ادارے سے وابستہ کچھ سابق فوجی افسران ایک امریکی ادارے کے ساتھ مل کر پاکستان میں جاسوسی کا ایک نیٹ ورک بنا رہے تھے۔ جس دن اسلام آباد میں انٹر رسک کے دفتر پر چھاپہ مارا گیا اس دن اسلام آباد کی سڑکوں پر ایسی درجنوں جیپیں نمودار ہوئیں جن میں مسلح گورے ہتھیاروں سمیت موجود تھے۔ ان جیپوں میں سوارگورے عام طور پر ٹریفک قوانین کی کوئی پروا نہیں کرتے اس وقت ایف سکس کے علاقے میں ایک چوراہے پر ریڈ سگنل کے باعث ٹریفک بند تھی لیکن ایک جیپ میں سوار گورے اپنے آگے موجود گاڑیوں کو ہٹانے کیلئے مسلسل ہارن بجائے جا رہے تھے۔ کچھ گاڑیاں ہٹ گئیں لیکن ایک گاڑی والے نے گوروں کو راستہ دینے سے انکار کردیا۔ اس گستاخی پر ایک مسلح گورا جیپ سے نیچے اترا اور اپنے آگے موجود گاڑی کے ڈرائیور کو باہر آنے کیلئے کہا۔ ڈرائیور نے شیشہ اوپرچڑھا دیا اور گورے کو نظر انداز کردیا۔ یہ دیکھ کر گورے نے اپنے ہتھیار سے گاڑی کے شیشے کو کھٹکھٹانا شروع کردیا۔ شاید پاکستانی ڈرائیور اس صورت حال کیلئے تیار تھا۔ اس نے اپنی گاڑی کے ڈیش بورڈ سے پستول نکالا اور گورے کو دکھا کر اپنی جھولی میں رکھ لیا۔ اس دوران ٹریفک سگنل کی لائٹ گرین ہوچکی تھی لیکن گوروں نے پاکستانی ڈرائیور کو گھیر لیا اور اپنے مزید ساتھی بلا لئے۔ موقع پر ہجوم اکٹھا ہوچکا تھا۔ یہ پاکستانی ڈرائیور پیپلز پارٹی کے ایک سینیٹر کا بھتیجا تھا اور لائسنس یافتہ ہتھیار کے ساتھ گوروں کو آنکھیں دکھا رہا تھا۔ مسلح گورے اسے اپنے ساتھ ”بیس کیمپ چلنے کیلئے کہہ رہے تھے لیکن پاکستانی نوجوان انکاری تھا۔ پولیس موقع پر پہنچ چکی تھی۔ پولیس نے گوروں سے ان کے ہتھیاروں کے لائسنس مانگے لیکن انہوں نے لائسنس دکھانے سے انکار کردیا جبکہ پاکستانی نوجوان نے فوراً اپنا لائسنس دکھا دیا۔ گورے مصر تھے کہ پاکستانی نوجوان کو تحقیقات کے لئے ان کے ساتھ جانا ہوگا لیکن اسلام آباد پولیس کے ایک افسر نے گوروں سے کہا کہ وہ ایسا نہیں کرسکتے اور یوں سینیٹر کا بھتیجا گمشدہ افراد کی فہرست میں شامل ہونے سے بال بال بچ گیا۔ مجبوراً گورے اس نوجوان کے بغیر ہی موقع سے چلے گئے۔
معاملہ یہیں ختم نہیں ہوا۔ اگلے دن اس نوجوان کو ایف ایٹ کے ایک پٹرول پمپ پر انہی گوروں نے دوبارہ گھیر لیا اور اس کی تصاویر بنا کر موقع سے غائب ہوگئے۔ اس قسم کے واقعات آئے دن اسلام آباد میں پیش آ رہے ہیں۔ اسلام آباد پولیس شدید دباؤ میں ہے۔ دہشت گردوں کی کارروائی روکنے کیلئے اسلام آباد پولیس نے شہر میں جگہ جگہ ناکے لگا رکھے ہیں ان ناکوں پر جب عام پاکستانی یہ دیکھتے ہیں کہ ان کی گاڑیوں کی تلاشی تو لی جاتی ہے لیکن کالے شیشوں والی بڑی جیپوں کو چھوڑ دیا جاتا ہے تو وہ اپنی پولیس پر برسنے لگتے ہیں۔ ایک طرف اسلام آباد میں ایک پرائیویٹ سیکورٹی ایجنسی کے دفتر پر چھاپہ مار کر بڑی تعداد میں ناجائز اسلحہ برآمد کیا جاتا ہے اور ایجنسی کا این او سی منسوخ کردیا جاتا ہے لیکن دوسری طرف اسی شہر میں جیپوں پر ہتھیار لیکر گھومنے والے گوروں کو روکنے والا کوئی نہیں۔
کیا اسلام آباد میں غیر ملکیوں کیلئے قانون کی پابندی ختم ہوچکی ہے؟ اگر ہم واشنگٹن یا لندن جا کر وہاں کے قانون کی پابندی کرتے ہیں تو وہاں کے رہنے والے ہمارے ملک میں آ کر پاکستانی قوانین کی پابندی کیوں نہیں کرتے؟ امریکی حکومت بار بار تردید کررہی ہے کہ پاکستان میں بلیک واٹر کا کوئی وجود نہیں لیکن پاکستان کے بچے بچے کو پتہ چل چکا ہے کہ بلیک واٹر کا نام بدل دیا گیا ہے اور اب ایک امریکی پرائیویٹ سیکورٹی ایجنسی نہیں بلکہ کم از کم تین امریکی پرائیویٹ سیکورٹی ایجنسیاں پاکستان میں سرگرم ہیں۔ امریکی حکام دراصل پاکستان کو افغانستان سمجھ بیٹھے ہیں۔ امریکیوں کا خیال ہے کہ جس طرح ان کے اہلکار کابل میں اسلحہ کے ساتھ جیپوں میں بلاروک ٹوک گھوم سکتے ہیں اسی طرح اسلام آباد میں گھومنا ان کا حق ہے۔ انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ وہ افغانستان میں اقوام متحدہ کی ایک قرارداد کی آڑ لیکر داخل ہوئے تھے اور شمالی اتحاد نے انہیں خوش آمدید کہا تھا۔ پاکستان میں امریکی فوج کے داخلے کو جائز ثابت کرنے کے لئے نہ تو اقوام متحدہ کی کوئی قرارداد موجود ہے اور نہ ہی پاکستان میں امریکیوں کو خوش آمدید کہنے کے لئے کوئی شمالی اتحاد موجود ہے۔ اسلام آباد میں امریکیوں کی مشکوک سرگرمیاں امریکہ کے اپنے مفاد کیلئے خطرات پیدا کررہی ہیں کیونکہ اسلام آباد کے پڑھے لکھے اور معتدل مزاج طبقے میں امریکیوں کے خلاف بڑھتی ہوئی بے چینی نہ تو امریکہ کے فائدے میں ہے اور نہ ہی نئی جمہوری حکومت کے فائدے میں ہے جس کے گلے میں کیری لوگر بل کا پھندا ڈال دیا گیا ہے۔ سچی بات ہمیشہ کڑوی ہوتی ہے اور سچائی یہ ہے کہ کیری لوگر بل کے باعث پاکستان میں ایک طرف امریکہ کے خلاف منفی جذبات میں مزید اضافہ ہوگا اور دوسری طرف صدر آصف علی زرداری کی ساکھ کو بھی مزید نقصان پہنچے گا۔ اس بل کے تحت پاکستانی سیاست میں فوج کی مداخلت کو روکنے کی کوشش بالکل درست ہے کیونکہ ماضی میں امریکہ نے ہر پاکستانی فوجی ڈکٹیٹر کی حمایت کی لیکن اس بل کے ذریعہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان تک رسائی کی کوششوں کو پاکستان میں پذیرائی نہیں مل سکتی۔ امریکہ نے اس بل کے ذریعہ افغانستان میں اتحادی افواج پر حملوں میں ملوث عناصر کے خلاف پاکستان میں کارروائی کا تقاضا کیا ہے لیکن کیا پاکستان نے افغانستان میں بھارت کے ان تربیتی کیمپوں کو بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے جو امریکہ کی ناک کے نیچے چلائے جا رہے ہیں؟ عام پاکستانی یہ سمجھتا ہے کہ امریکہ کی پالیسیاں ان کی سلامتی کیلئے خطرہ بنتی جارہی ہیں۔ پاکستانیوں کو امریکہ کے ساتھ دوستانہ تعلقات پر کوئی اعتراض نہیں لیکن امریکہ کی غلامی ننانوے اعشاریہ نو فیصد پاکستانیوں کو کسی قیمت پر قبول نہیں۔ کیری لوگر بل دوستی کی نہیں غلامی کی دستاویز ہے اور پاکستان کی پارلیمینٹ کو یہ دستاویز مسترد کردینی چاہئے

بشکریہ جنگ ۔ قلم کمان از حامد میر بتاریخ 28 ستمبر 2009