Category Archives: معلومات

“عقل” اور “سمجھ”

آج ميں اپنی 10 جون 2009ء کو شائع شدہ تحرير کو مزيد وضاحت کے ساتھ دوبارہ شائع کر رہا ہوں ۔ اس وقت ميری عمر 70 سال سے زيادہ ہے اور يہ تحریر میری زندگی کے مطالعہ اور مشاہدوں کا نچوڑ ہے اسلئے اُميد رکھتا ہوں کہ قاريات اور قارئين اسے تحمل کے ساتھ پڑھ کر سمجھنے کی کوشش کريں گے

ميری يہ تحرير ميری اجازت سے درجن بھرفورمز پر شائع کی يا پڑھی جا چُکی ہے

عقل” اور “سمجھ” دونوں ہی لطیف یعنی ايسی چيزيں ہيں جنہيں حواسِ خمسہ سے نہيں پہچانا جا سکتا ۔ البتہ انہیں دوسرے عوامل کی مدد سے پہچانا اور ان کا قیاس کیا جاتا ہے

عام طور پر انسان “عقل” اور “سمجھ” کو آپس میں گُڈ مُڈ کر دیتے ہیں حالانکہ یہ دونوں بالکل مُختلٍف عوامل ہیں

عقل” بے اختیار ہے اور “سمجھ” اختیاری ہے یا یوں کہہ لیجئے کہ “عقل” آزاد ہے اور “سمجھ” غلام ہے

عقل” وہ جنس ہے جسے اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے ہر جاندار میں کم یا زیادہ رکھا ہے

عقل” کی نشو و نما اور صحت ۔ ماحول اور تربیت پر منحصر ہے ۔ سازگار ماحول اور مناسب تربیت سے “عقل” کی افزائش تیز تر اور صحتمند ہوتی ہے

جس کی “عقل” پیدائشی طور پر یا بعد میں کسی وجہ سے مفلوج ہو جائے ایسے آدمی کو عام زبان میں “معذور يا پاگل” کہا جاتا ہے

عقل” اگر کمزور ہو تب بھی جتنا کام کرتی ہے وہ درست ہوتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بظاہر جسے لوگ پاگل کہتے ہیں وہ بعض اوقات بڑے عقلمند لوگوں کو مات کر دیتے ہیں ۔ کسی زمانہ میں برطانیہ کے ذہنی بیماریوں کے ہسپتال کا ایک واقعہ بہت مشہور ہوا تھا ۔ ایک دن دماغی امراض کا ماہر ڈاکٹر اپنے کام سے فارغ ہو کر شام کو گھر جانے لگا تو اُس نے دیکھا کہ اُس کی کار کے ایک پہیئے کی چاروں ڈھِبریاں [nuts] نہیں ہیں ۔ ڈاکٹر پریشان کھڑا تھا کہ ایک ذہنی مريض نے ہسپتال کی کھڑکی سے آواز دی
“ڈاکٹر ۔ کیا مسئلہ ہے ؟”
ڈاکٹر نے بتایا تو ذہنی مريض کہنے لگا “پريشانی کيا ہے ؟ باقی تین پہیئوں سے ایک ایک ڈھِبری اُتار کر اس پہیئے میں لگا لیں ۔ گاڑی آہستہ چلائيں اور راستے میں کسی دکان سے 4 ڈھِبریاں لے کر پوری کر لیں”

عقل” جانوروں کو بھی تفویض کی گئی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی جانور نسل در نسل انسانوں کے درمیان رہے [چڑیا گھر میں نہیں] تو اس کی کئی عادات انسانوں کی طرح ہو جاتی ہیں
اصلی سیامی بِلی اس کی مثال ہے جو بدھ مت کے شروع میں بِکشوؤں نے اپنا لی اور پھر نسل در نسل وہ انسانوں کے ساتھ رہنے کی وجہ سے انسانوں کے کچھ اشاروں اور باتوں کو سمجھنے لگی
ہم نے ایک اصل سیامی بلی پالی تھی جو بستر پر سوتی تھی تکیئے پر سر رکھ کر ۔ ميں کہوں “بيٹھ جاؤ” تو بيٹھ جاتی ۔ مياؤں مياؤں کر رہی ہو تو ميرے “چُپ” کہنے يا اپنے منہ پر اُنگلی رکھنے سے چُپ ہو جاتی ۔ بلی کی یہ نسل دورِ حاضر میں بہت کم رہ گئی ہے جس کا ذمہ دار انسان ہی ہے
کچھ جانور انسان کے کچھ عوامل کی نقل کر لیتے ہیں مثال کے طور پر طوطا ۔ مینا ۔ بندر ۔ شِمپَینزی [chimpanzee] ۔ وغیرہ ۔ ایسا اُن کی عقل ہی کے باعث ہوتا ہے جو کہ اُن میں انسان کی نسبت کم اور محدود ہوتی ہے اسی لئے جانور انسان کی طرح ہمہ دان یا ہمہ گیر نہیں ہوتے

عقل” پر ابلیس براہِ راست حملہ آور نہیں ہو سکتا چنانچہ اسے بیمار یا لاغر کرنے کی غرض سے وہ ماحول کا سہارا لیتا ہے ۔ لیکن یہ کام ابلیس کیلئے کافی مشکل ہوتا ہے

آدمی اپنی “عقل” کو عام طور پر ابلیس کے حملے سے معمولی کوشش کے ساتھ محفوظ رکھ سکتا ہیں

سمجھ” وہ جنس ہے جو اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے صرف انسان کو تفویض کی ہے ۔ “سمجھ” جانوروں کو عطا نہیں کی گئی ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے انسان کو اس کی افزائش ۔ صحت اور استعمال کی آزادی دے رکھی ہے

ابلیس کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ وہ انسان کی “سمجھ” کی کمان اپنے ہاتھ میں لے لے
انسان کی فطری خود پسندی اور مادی ہوّس کو استعمال میں لا کر کُل وقتی نہیں تو جزو وقتی طور پر یا عارضی طور پر ابلیس اس میں عام طور پر کامیاب رہتا ہے

اگر ابلیس انسان کی “سمجھ” کو اپنے قابو میں کرنے میں کامیاب ہو جائے تو پھر متعلقہ انسان کو ہر چیز یا عمل کی پہچان ابلیس کے ودیعت کردہ اسلوب کے مطابق نظر آتی ہے ۔ اسی عمل کو عُرفِ عام میں ” آنکھوں پر پردہ پڑنا ” کہتے ہیں کیونکہ آدمی دیکھ کچھ رہا ہوتا ہے اور سمجھ کچھ رہا ہوتا ہے

اُخروی سزا و جزا کا تعلق “عقل” سے نہیں ہے بلکہ “سمجھ” سے ہے

بچے ميں “عقل” ابھی نشو و نما پا رہی ہوتی ہے اور “سمجھ” بہت کم ہوتی ہے ۔ يہی وجہ ہے کہ بچے کا کوئی عمل گناہ يا جُرم تصور نہيں ہوتا کيونکہ اُسے ابھی اتنی “عقل” يا “سمجھ” ہی نہيں ہوتی کہ جُرم يا گناہ کی پہچان کر سکے

سمجھ” مادی جنس نہیں ہے اسلئے میرا مفروضہ ہے کہ “سمجھ” انسان کے جسم میں موجود روح کی ایک خُو ہے

سمجھ” کی جانوروں میں عدم موجودگی کی وجہ سے جانوروں کو اچھے بُرے کی تمیز نہیں ہوتی اسی لئے اُنہیں اپنے عمل کے نتیجہ میں آخرت میں کوئی سزا یا جزا نہیں ہے ۔ اُن کی زندگی میں غلطیوں کی سزا اُنہیں اسی دنیا میں مل جاتی ہے اور اس کا تعلق ان کے جسم سے ہوتا ہے

اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی ہمیں درست سوچنے اور سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہماری “سمجھ” کو ابلیس کی گرفت سے محفوظ رکھے

غريب قوم کا مال

اعداد و شمار اکٹھے کر کے اس تحرير کا مسؤدہ 28 ستمبر 2010ء کو تيار کيا تھا تاکہ ايک دو دن بعد شائع کيا جائے مگر 28 ستمبر کی شام ميں حادثہ ميں زخمی ہو گيا

پچھلے 40 سال سے غريب قوم کا مال دونوں ہاتھوں سے لُوٹا اور لُٹايا جا رہا ہے

منگل بتاريخ 28 ستمبر 2010ء کو چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری صاحب کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے سرکاری بینکوں اور مالیاتی اداروں کے قرض معافی کے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی ۔ عدالت نے گزشتہ 2 برس میں معاف شدہ قرضوں کی تفصیل طلب کی تو مدعيان کے وکلا نے بتايا کہ ان 2 سالوں ميں 50 ارب[50000000000] روپے کے قرض معاف کئے گئے

اسٹیٹ بینک کے وکیل نے کہا کہ یہ قرض نجی بینکوں نے معاف کئے

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ نجی بینک بھی اسٹیٹ بینک کے ماتحت کام کرتے ہیں ۔ وہ خود کیسے قرض معاف کرسکتے ہیں ؟

اسٹیٹ بنک کے وکیل نے مزيد بتایا کہ 1971ء سے دسمبر 2009ء تک بینکوں نے 2 کھرب 56 ارب [256000000000] روپے کے قرض معاف کئے

سپریم کورٹ نے 1971ء سے اب تک ہرسال کے 10 بڑے قرض معافی کیسوں کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے کہا ہے کہ قرض معافی سے متعلق اسٹیٹ بینک کے سرکولر 29 کا آئینی جائزہ بھی لیا جائیگا

انگریزوں کی عیّاری اور قتلِ عام کی ابتداء

انگریز حکمرانوں نے پاکستان کی سرحدوں کا اعلان 14 اگست 1947ء سے کچھ دن بعد کیا اور نہائت عیّاری سے گورداسپور جو کہ مسلم اکثریت والا ضلع تھا کو بھارت میں شامل کر دیا ۔ جس کے نتیجہ میں ایک تو گورداسپور میں تسلّی سے اپنے گھروں میں بیٹھے مسلمانوں کا قتل عام ہوا اور دوسرے بھارت کو جموں کشمیر جانے کے لئے راستہ مہیا ہو گیا ۔

مسلمانوں کے قتل عام کی ابتداء

جموں میں کرفیو لگا دیا گیا ۔ اس کرفیو میں ہندوؤں اور سکھوں کے مسلح دستے بغیر روک ٹوک پھرتے تھے مگر مسلمانوں کو گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہ تھی ۔ ہمارے گھر کے قریب ہندوؤں کے محلہ میں دو اونچی عمارتوں پر بھارتی فوج نے مشین گنیں نصب کر لیں ۔ آنے والی رات کو دونوں عمارتوں کی چھتوں سے ہمارے گھر کی سمت میں متواتر فائرنگ شروع ہو گئی اس کے جواب میں مسلمانوں کے پاس سوائے نعرہءِ تکبیر اللہ اکبر کے کچھ نہ تھا کیونکہ ان کے ہتھیار پہلے ہی تلاشی لے کر نکلوا لئے گئے تھے ۔ ہمارا گھر نشانہ بننے کی ایک وجہ یہ تھی کہ اس پر پاکستان کا بہت بڑا جھنڈا بہت اُونچا لگا ہوا تھا اور دوسری یہ کہ میرے دادا جان مسلم کانفرنس کی مالی امداد کرتے تھے اور ہمارا خاندان اُس کی سیاسی حمائت ۔

اگلی صبح دس سال سے ہمارا کرائے دار برہمن جس پر میرے دادا جان کے کئی احسان بھی تھے بعد دوپہر ہمارے گھر آیا اور کہنے لگا میں نے سوچا کہ کرفیو کی وجہ سے آپ کی زمینوں سے دودھ نہیں آیا ہوگا اسلئے میں اپنی گاؤ ماتا کا دودھ بچوں کے لئے لے آیا ہوں ۔ دودھ اُبال کر ہمیں پینے کو کہا گیا مگر اُس وقت کسی کا کچھ کھانے پینے کو دل نہیں چاہ رہا تھا ۔ دوسرے دن صبح چائے بنانے لگے تو دیکھا کہ دودھ خراب ہو گیا تھا اسلئے باہر نالی میں پھینک دیا گیا ۔ تھوڑی دیر بعد باہر سے عجیب سی آواز آئی ۔ جا کر دیکھا تو ایک بلی تڑپ رہی تھی اور تڑپتے تڑپتے وہ مر گئی ۔ دراصل وہ برہمن ہمدرد بن کر ہم سب کو زہر والا دودھ پلا کر مارنے آیا تھا

جاری ہے

رياست کا جغرافیہ اور مُسلم کانفرنس

پيش لفظ
ميں نے کچھ مہربان قارئين کی فرمائش بلکہ چند کے اصرار پر جد و جہد آزادی جموں کشمير کا خلاصہ پيش کرنا شروع کيا تھا ۔ ابھی مندرجہ ذيل تحارير لکھی تھيں کہ ملک شديد سيلاب کی زد ميں آ گيا جس نے ترجيحات بدل کے رکھ ديں ۔ اب تاريخ کے ان ابواب کا باقی حصہ دہرانا شروع کرتا ہوں ۔ اللہ تو فيق دے اور ہمارے ملک کو ترقی دے

تحريک آزادی جموں کشمير ۔ تاريخی پس منظر اور آغاز
ماؤنٹ بیٹن کی بھارت نوازی اور قراداد الحاق پاکستان
کيا حريت کانفرنس ميں تفرقہ ہے ؟
پاکستان کو تباہ کرنے کا منصوبہ
جموں ميں ہندو ۔ برہمن ۔ تعليم اور سياست

رياست کا جغرافیہ اور مُسلم کانفرنس
تین بڑے دریا سندھ ۔ جہلم اور چناب جموں کشمیر سے بہہ کر پاکستان میں آتے ہیں ۔ اس کے علاوہ کئی چھوٹے دریا بھی ہیں جن میں نیلم اور توی قابل ذکر ہیں ۔ جموں کشمیر کے شمالی پہاڑوں میں مندرجہ ذیل دنیا کی بلند ترین چوٹیوں میں سے ہیں
کے ٹو 8611 میٹر ۔ نانگا پربت 8125 میٹر ۔ گاشربرم ايک 8068 میٹر ۔ گاشربرم دو 8065 میٹر ۔ چوڑی چوٹی 8047 میٹر ۔ دستغل سار 7882 میٹر ۔ راکا پوشی 7788 میٹر اور کنجت سار 7761 میٹر

شیخ عبداللہ کانگرس کے نرغے میں

ميں لکھ چکا ہوں کہ 13 جولائی 1931ء کو ڈوگرہ پوليس کی سرينگر ميں مسلمانوں پر بلا جواز اور بغير وارننگ فائرنگ ميں 22 مسلمان شہيد ہوئے ۔ اس کے بعد جموں سے ایک زور دار تحریک اُٹھی اور جموں کشمیر کے شہروں ۔ قصبوں اور دیہات میں پھیل گئی ۔ اس تحریک کے سربراہ چوہدری غلام عباس تھے ۔ پھر 1932ء میں پہلی سیاسی جماعت آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس تشکیل دی گئی ۔ شیخ محمد عبداللہ اس کے صدر اور چوہدری غلام عباس جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے ۔ یہ تحریک پورے جوش و خروش سے جاری رہی جس کے نتیجہ میں مہاراجہ ہری سنگھ جمہوری نظام قائم کرنے پر مجبور ہوا اور 1934ء میں دستور ساز اسمبلی بنا دی گئی ۔ گو یہ مکمل جمہوریت نہ تھی پھر بھی مسلمانوں کے کچھ حقوق بحال ہوئے ۔ 1934ء 1938ء 1942ء اور شروع 1946ء میں اس اسمبلی کے پورے جموں کشمیر میں انتخابات ہوئے جن میں آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس 80 فیصد یا زائد نشستیں لے کر جیتتی رہی

شیخ عبداللہ 1939ء میں اپنے دوست پنڈت جواہر لال نہرو کے جھانسے میں آ گئے اور مسلم کانفرنس کو نیشنل کانفرنس میں بدل دیا ۔ شیخ عبداللہ کو 13 جولائی 1931ء کو کہے ہوئے ایک شہید کے آخری الفاظ بھی یاد نہ رہے کہ”ہم نے اپنا کام کر دیا اب آپ اپنا کام کریں” ۔

مسلم کانفرنس کی بحالی

شیخ عبداللہ سے مایوس ہو کر 1941ء میں چوہدری غلام عباس اور دوسرے مخلص مسلمانوں نے مسلم کانفرنس کو بحال کیا تو تقریباً سب مسلمان اس کے جھنڈے تلے جمع ہو گئے ۔ اس وقت اعلان کیا گیا کہ ریاست کی تحریک آزادی دراصل تحریک پاکستان کا حصہ ہے

قائد اعظم محمد علی جناح مئی 1944ء میں جموں کشمیر گئے اور دو ماہ وہاں قیام کیا جس کے دوران وہاں کے سیاستدانوں بشمول شیخ عبداللہ اور دانشوروں سے ملاقاتیں کیں ۔ 26 جون 1944ء کو سرینگر میں منعقدہ مسلم کانفرنس کے سالانہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظم نے فرمایا کہ “مسلمان اپنی قومی جماعت مسلم کانفرنس کے پلیٹ فارم سے اپنی تحریک جاری رکھیں” اور چوہدری غلام عباس کو مخاطب کر کے کہا “ہندوستان کے دس کروڑ مسلمانوں کی ہمدردیاں آپ کے ساتھ ہیں”

سائنس اور سَينس

ايک “سائنس [Science]” ہوتی ہے اور ايک “سَينس [Sense]” ۔ سائنسدان [Scientist] سمجھ نہ آنے والی چيز کو “نان سَينس [Non-sense]” کہتا ہے اور جب وہی چيز اُسے سمجھ آ جائے تو کہتا ہے “اِٹ ميکس سَينس [It makes sense]”

جب ارشمِيدس [Archimedes] نہاتے ہوئے ننگا بھاگ نکلا اور بآوازِ بلند کہتا جا رہا تھا “پا ليا ۔ پا ليا [Got it, got it]”۔ اُس وقت لوگوں کيلئے وہ نان سَينس تھا مگر اُسے احساس نہ تھا کہ وہ کيا کر رہا ہے کيونکہ اُس کيلئے نان سَنس جو تھی وہ سائنس بن گئی تھی

ايک ايجاد [Invention] ہوتی ہے اور ايک دريافت [Discovery]۔ ايجاد وہ ہوتی ہے جو پہلے نہ تھی اور کسی نے نئے سرے سے بنا دی جبکہ دريافت وہ ہوتی ہے جو پہلے سے موجود تھی مگر معروف نہ تھی

انسان ازل سے ہی ہيرا پھيری کرتا آيا ہے ۔ سائنسدان خود ہی کہتے ہيں کہ مادہ نہ بنايا جا سکتا ہے اور نہ اسے فنا کيا جا سکتا ہے البتہ اسے ايک صورت سے دوسری صورت ميں تبديل کيا جا سکتا ہے [Matter can neither be created nor destroyed but it can change its form]۔ اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ مادہ ايک بار اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے بنا ديا اور وہی اسے فنا کر سکتا ہے ليکن سائنسدان “ميں نہ مانوں” پر اَڑ جاتا ہے

خير چھوڑيئے مذہبی بات کو ۔ صرف سيکولر [Secular] بات جاری رکھتے ہيں ۔ اگر مادہ نہ بنايا جا سکتا ہے اور نہ فنا کيا جا سکتا ہے تو پھر ايجادات چہ معنی دارند ؟ جن کو ايجادات کہا جاتا ہے وہ دريافتيں ہی ہوئيں چنانچہ ثابت ہوا کہ انسان نے اپنی بے عِلمی پر پردہ ڈالنے کيلئے دريافت کو ايجاد کہنا شروع کيا

ارشميدس کی مثال ليجئے ۔ وہ ٹب ميں پانی بھر کر نہانے کيلئے اُس ميں گھُسا تو ٹب ميں سے کچھ پانی باہر بہہ گيا ۔ نہ تو وہ پہلی بار نہانے لگا تھا اور نہ وہ بغير ٹب کے نہاتا تھا کيونکہ اس زمانے ميں کميٹی کے نلکے نہيں تھے اور نہ اس کے گاؤں ميں کنواں اور رہٹ تھی کہ نيچے بيٹھ کر نہا ليتا جيسے ہمارے ملک ميں ديہات ميں لوگ نہاتے ہيں ۔ ثابت يہی ہوا کہ ارشميدس پہلے نان سَنس تھا کيونکہ اُس نے پہلے کبھی توجہ ہی نہ دی تھی کہ جب وہ نہانے کيلئے پانی کے ٹب ميں گھُستا تھا تو کچھ پانی ٹب سے باہر بہہ جاتا تھا يا کم از کم پانی کی سطح بُلند ہو جاتی تھی ۔ جب اُسے عِلم ہو گيا تو سائنسدان بن جانے کی خوشی ميں ننگا ہی بھاگ کر لوگوں کے سامنے نان سينس بنا

ميں نے بات طبيعات کی کی ہے کيميا کی نہيں ۔ کيميا کی بات کرتا تو ايووگيڈرو [Avogadro] کو بيچ ميں گھسيٹنا پڑتا اور ايووگيڈڈرو پادری تھا ۔ اس طرح پھر مذہب اور سيکيولرِزم کا دنگل پڑ جاتا

اوباما کيلئے بڑا چيلنج

کيا امريکا کا صدر اوباما شرق الوسط کو جوھری اسلحہ خانہ سے پاک علاقہ بنا سکتا ہے ؟ يہ ايک بڑا سوال ہی نہيں بلکہ ايک بڑا چيلنچ بھی ہے

وِکی لِيکس [Wiki Leaks] کی طرف سے افغانستان ميں امريکا کی 9 سال سے جاری يلغار کے متعلق امريکی دستاويزات کے انکشاف نے تمام امريکيوں کو مبہوت کر رکھا ہے ۔ ان ميں ايسی بھی دستاويز ہے جس کے مطابق پاکستان کے خُفيہ والے افغانستان کے طالبان کو مالی امداد ۔ اسلحہ اور تربيت ديتے رہے ہيں

متذکرہ دستاويزات سے عياں ہونے والے کوائف کی درستگی ايک الگ مسئلہ ہے اور ان انکشافات کے اثرات نمودار ہونا ابھی باقی ہے مگر اس ابلاغی دھماکے نے ايک بڑی حيران کُن حقيقت کو امريکيوں اور باقی دنيا کے عوام کی نظروں سے اوجھل کر ديا ہے ۔ امريکی حکومت کے احتسابی ادارے [US Government Accountability Office (GAO)] نے مئی 2010ء ميں ايک سربستہ راز جس کی 32 سال سے حفاظت کی جارہی تھی جزوی طور پر غير مخفی [Partialy declassified] کيا جس کا عنوان ہے

‘Nuclear Diversion in the US? 13 Years of Contradiction and Confusion’,
تفصيل ميرے بلاگ “حقيقت اکثر تلخ ہوتی ہے ۔۔۔ Reality is Often Bitter ” پر يا يہاں کلِک کر کے پڑھيئے

معافی نامہ ۔ سيلاب اور نوشہرہ

ميں نے بہتوں کا بھلا ہو گا کے عنوان سے تحرير لکھی اور اس ميں محمد سعد صاحب کی طرف سے اُٹھائے گئے صرف سوال اور اس کے جواب کی بجائے محمد سعد صاحب کی پوری چِٹھی اور اس کا ميری طرف سے پورا جواب نقل کر ديا ۔ مجھے ايسا نہيں کرنا چاہيئے تھا بلکہ صرف محمد سعد صاحب کا سوال اور اس کا جواب نقل کرنا چاہيئے تھا ۔ ايسا عمل غلط تھا ۔ اپنے اس غلط عمل پر شرمندہ ہوں ۔ اسلئے سب قارئين کے سامنے اپنی اس غلطی پر محمد سعد صاحب سے معافی کا طلبگار ہوں

سيلاب اور نوشہرہ

چونکہ ميں نے اپنی متذکرہ بالا تحرير ميں صرف محمد سعد صاحب کے سوال کا جواب ديا تھا اسلئے نوشہرہ کے سيلاب کی وجہ اور اس کے سدِ باب کی کوئی تجويز شامل نہ کی تھی ۔ چنانچہ اب اس کا مختصر بيان

نوشہرہ کے درميان ميں سے دريائے کابل گذرتا ہے جو کافی آگے جا کر جنوب کی طرف مُڑتا ہوا خيرآباد کے قريب دريائے سندھ ميں شامل ہو جاتا ہے ۔ دريائے سندھ خير آباد پہنچنے سے بہت پہلے تربيلہ کی جھيل ميں سے گذر کر آيا ہوتا ہے ۔ تربيلا ڈيم کے جنوب کی طرف اور مغرب کی طرف پشاور بلکہ حيات آباد تک ہموار علاقہ ہے ۔ نوشہرہ اس رقبہ کے درميان ميں واقعہ ہے ۔ يہاں دريائے کابل مشرق سے مغرب کی طرف بہتا ہے ۔ نوشہرہ پہنچنے سے قبل دريائے سوات اور ديگر تين چار ندی نالے دريائے کابل ميں شامل ہوتے ہيں ۔ ان کے علاوہ نوشہرہ کے بعد مگر قريب ہی دريائے کلپانی شمال سے دريائے کابل ميں شامل ہوتا ہے

پنجاب اور سندھ کے صوبوں ميں ہموار علاقوں کو سيلاب سے محفوظ رکھنے کيلئے درياؤں کے دونوں کناروں پر پُشتے بنائے گئے ہيں جنہيں حفاظتی بند کہا جاتا ہے ۔ نوشہرہ کا زيادہ حصہ دريائے کابل کی سطح کے برابر ہے جبکہ کچھ حصہ دريا کی سطح سے بھی نيچے ہے مگر شہر کو سيلاب سے بچانے کيلئے دريا کے کنارے پر حفاظتی پُشتے نہيں بنائے گئے ۔ حاليہ بارشيں کچھ اس طرح سے ہوئيں کہ دريائے کابل اور اس ميں ملنے والے تمام درياؤں اور ندی نالوں ميں صدی کی سب سے بڑی طغيانی آئی ۔ نتيجہ ظاہر ہے

اٹک خورد صوبہ پنجاب ميں ہے اور خير آباد صوبہ خيبر پختونخوا ميں اور يہ دونوں ايک دوسرے کے متصل دريائے سندھ کے آر پار واقع ہيں ۔ يہ دونوں پہاڑی علاقے ہيں اور ان کے مغرب اور جنوب کی طرف دُور تک پہاڑی علاقہ ہے جو جنوب ميں ميانوالی تک جاتا ہے جس ميں کالا باغ واقع ہے ۔ نقشہ ميں خير آباد يا اٹک خورد کے بعد دريائے سندھ کی چوڑائی بہت کم ہو جاتی ہے ايسا پہاڑی علاقہ کی وجہ سے ہوتا ہے

نوشہرہ اور کالا باغ ڈيم

نوشہرہ کے جنوب ميں دس بارہ کلو ميٹر سے پہاڑی علاقہ شروع ہوتا ہے جو کالا باغ پر جا کر ختم ہوتا ہے ۔ ان ميں مشرق سے مغرب کا رُخ رکھتے ہوئے بلند پہاڑ شامل ہيں ۔ کالا باغ نوشہرہ کے جنوب جنوب مغرب ميں ہے ۔ نوشہرہ سے کالا باغ تک سيدھی لکير کھينچی جائے تو کالا باغ کا فاصلہ تقريباً 125 کلو ميٹر ہو گا ۔ نوشہرہ کی بلندی کالا باغ سے 100 ميٹر يا 328 فٹ ہے ۔ کالا باغ ڈيم سے بننے والی جھيل کا پانی نوشہرہ ميں اُس صورت ميں پہنچ سکتا ہے کہ ڈيم کی بلندی 100 ميٹر سے زيادہ ہو ۔ اگر کالا باغ ڈيم کی اونچائی 100 ميٹر سے کم [فرض کريں 90 ميٹر] رکھی جائے تو نوشہرہ تک کسی صورت ميں پانی نہيں پہنچ سکتا اور درميان ميں کوئی خاص آبادی نہيں ہے ۔ مگر کالا باغ ڈيم بننے کی وجہ سے صوبہ خيبر پختونخوا کا ڈيرہ اسمٰعيل خان سميت بڑا علاقہ ۔ جنوبی پنجاب اور صوبہ سندھ مستقبل ميں سيلاب کی نذر ہونے سے بچ جائيں گے

رہی يہ بات کہ نوشہرہ کا کيا ہو تو اس کيلئے ايک ہی حل نظر آتا ہے کہ دريائے کابل کے کنارے مٹی سے حفاظتی پُشتے بنائے جائيں