ميں نے تحريک آزادی جموں کشمير ۔ تاريخی پس منظر اور قراداد الحاق پاکستان کا خلاصہ تحرير کيا تو کئی مہربانوں نے خواہش ظاہر کی ہے کہ ميں بتاؤں کہ 1989ء ميں تحريک نے کيوں زور پکڑا اور آج کی صورتِ حال کا پس منظر کيا ہے ؟ سوالات کا جواب دينے سے جوابات ايک مرتب تحرير نہيں بنيں گےاسلئے سوچا ہے کہ تاريخی پس منظر اور قراداد الحاق پاکستان کو چھوڑ کر سلسلہ وار خلاصہ پيش کروں
ميں نے کئی دہائيوں کے مشاہدے اور مطالعہ کے بعد تحريک آزادی جموں کشمير کا مختصر خاکہ 2005ء ميں اپنے انگريزی بلاگ پر درجن بھر اقساط ميں کيا تھا جسے ضروری ترميم کے ساتھ اب اس بلاگ پر پيش کرنے کا ارادہ ہے ۔ اللہ اس کوشش ميں ميری مدد فرمائے
ميری پيدائش شہر جموں ضلع جموں رياست جموں کشمير ميں ہوئی ۔ اس لئے مجھے جموں کشمير کی ہر چيز ميں دلچسپی تھی اور ہے ۔ ميں نے نہ صرف جموں کشمير کی تاريخ اور جغرافيہ کا مطالعہ کيا بلکہ اس سے متعلقہ تمام واقعات پر بچپن ہی سے نظر رکھتا رہا ۔ جموں کشمیر کا مسئلہ لاکھوں انسانوں کی 2 صديوں پر محيط جدّ و جہد اور 63 سالوں پر محیط وحشیانہ اذیّتوں کی روئیداد ہے اور اس مسئلہ کو پچھلی آدھی صدی میں گُما پھِرا کر ایسا پیچیدہ بنا دیا گیا ہے کہ عام آدمی تو ایک طرف خود جموں کشمیر کے رہنے والوں کی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ کیا ہو رہا ہے اور کیا ہونے والا ہے ۔ 2005ء کے شروع ميں حریّت کانفرنس کے چند ارکان کے دورہءِ پاکستان کی بہت دھوم تھی ۔ یہ تحریر 64 سال پر محیط میرے ذاتی مشاہدہ متعلقہ اشخاص سے حاصل کردہ معلومات اور میر ے سالہا سال کے مطالعہ کا نچوڑ ہے ۔ مضمون کی طوالت کے مدِنظر کافی اختصار سے کام ليا ہے
حریت کانفرنس کے جو لوگ 2005ء ميں پاکستان آئے تھے ان میں سے سوائے ایک دو کے باقی سب حکومتوں کے بنائے ہوئے لیڈر ہیں اور مقبوضہ جموں کشمیر کے مسلمانوں میں کوئی خاص نمائندگی نہیں رکھتے ۔ پاکستان میں جے کے ایل ایف یعنی جموں کشمیر لبریشن فرنٹ 1988ء کے آخر میں حکومتِ وقت کی پشت پناہی سے معرض وجود میں آئی ۔ جے کے ایل ایف (پاکستان) کے سربراہ امان اللہ خان نے 25 جون 2005ء کو اپنی کتاب جہد مُسَلْسَلْ حصہ دوم کی تقریب رونمائی سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہوں نے 1988ء میں آئی ایس آئی کی مدد سے مقبوضہ کشمیر میں مسلح تحریک شروع کی تھی ۔ اس بيان کا ثبوت اور کسی بھی ذريعہ سے سامنے نہ آ سکا ۔ امان اللہ خان کے مقبوضہ جموں کشمیر میں کوئی خاص پیروکار نہیں تھے ۔ متذکّرہ بالا وجوہ کی بناء پر یہ نمائندے پاکستان کے دورہ کے دوران زیادہ تر پاکستان کی حکومت کی ہی تعریفیں کرتے رہے ۔ پاکستان کا دورہ کرنے والوں میں ایک دو کے کچھ پیروکار ہیں ۔ لیکن جو مقبوضہ جموں کشمیر کے مسلمانوں کے اصل نمائندے ہیں وہ پاکستان نہیں آئے کیونکہ وہ جنگ بندی لائن جسے 1972ء میں حکومتِ وقت نے لائن آف کنٹرول مان لیا تھا کو نہیں مانتے اور بھارتی بس میں اسے عبور کرنے کو وہ اسے مستقل سرحد قبول کرنے کے مترادف سمجھتے ہیں ۔ پاکستان میں قیام کے دوران یاسین ملک نے کہا تھا “ہم سے کوئی مذاکرات نہیں ہو رہے ۔ 2 سال سے پاکستان اور بھارت کے درمیان بات چیت ہو رہی ہے ۔ نارائن اور طارق عزیز بڑے فیصلے کر رہے ہیں ۔ سی بی ایمز ہو رہے ہیں ۔ ہمیں کسی نے پوچھا ؟”
واپس جا کر عباس انصاری (پاکستان کی اس وقت کی حکومت کے نمائندہ) نے جو بیان دیا تھا اس کے مطابق جموں کشمیر کا فیصلہ وہاں کے باشندوں کے نمائندوں کی مذاکرات میں شمولیت کے بغیر ہو سکتا ہے ۔ یہ بات کیسے مانی جاسکتی ہے کہ جن کی قسمت کا فیصلہ ہونا ہے اور جنہوں نے اس کے لئے صرف پچھلے پندرہ سال میں لاتعداد اذیّتیں سہیں ۔ جن کے سینکڑوں گھر جلا دیئے گئے ۔ جن کے ایک لاکھ کے قریب پیاروں کو شہید کر دیا گیا اور جن کی ہزاروں ماؤں بہنوں بیویوں بیٹیوں اور بہوؤں کی عزتیں لوٹی گئیں ۔ ان کو شامل کئے بغیر ان کی قسمت کا فیصلہ ایک کافر دشمن اور دوسرا ملٹری جنرل مل کے کر دیں ؟
کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ جنرل پرويز مشرف کی حکومت کی خفیہ نے حریّت کانفرنس کو کمزور کرنے کے لئے عباس انصاری کو لیڈر بنا کر حریّت کانفرنس میں پھوٹ ڈالنے کی کوشش کی تھی ؟ اور پھر مقصد حاصل ہو جانے کے بعد پاکستان بلا کر عمر فاروق کو حرّیت کانفرنس کا سربراہ بنا دیا۔ اسی سے ثابت ہو جاتا ہے کہ جو لوگ آئے تھے ان کا اصلی لیڈر کون ہے