Category Archives: معاشرہ

حُسن جوانی

بابا عالم سیاہ پوش نے کہا تھا
حُسن جوانی دُنیا فانی ۔ ہر شے آنی جانی ۔ رہے مَولا نام
(مکمل اس تحریر کے آخر میں ملاحظہ فرمایئے)

اسی موضوع پر میں میاں محمد بخش کے شعر جو 3 اکتوبر 2015ء کو بھی لکھ چکا ہوں دوبارہ نقل کر رہا ہوں ۔ وجہ یہ ہے کہ یہ شعر میں نے ایک اہم موقع پر پہلی بار سُنے تھے اور مُجھے لکھنے والے کی کھوج ہوئی تھی ۔ 19 اپریل 1974ء کو سابق آرمی چیف اور صدر محمد ایوب خان نے وفات پائی ۔ اُس وقت کی حکومت (ذوالفقار علی بھٹو کی) نے ایوب خان کا جنازہ اسلام آباد میں اُن کی رہائشگاہ سے وقت مقررہ سے ایک گھنٹہ قبل زبردستی اُٹھوا دیا اور ٹرک پر رکھ کر لیجانے لگے جبکہ فیصلہ کندھوں پر لیجانے کا ہوا تھا ۔ جب ٹرک چلا تو سوگوار لوگ سڑک پر ٹرک کے آگے لیٹ گئے ۔ پولیس نے اُنہیں زبردستی اُٹھانا شروع کر دیا ۔ اس بھگدڑ میں ایک سُریلی آواز اُبھری ۔ ایک سپاہی جو لاٹھیاں برسا رہا تھا ایکدم پیچھے ہٹ گیا اور اُس کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے

سدا نہ مانیئے حُسن جوانی ۔ سدا نہ صحبت یاراں
سدا نہ باغیں بُلبل بولے ۔ سدا نہ رہن بہاراں
دُشمن مَرے تے خوشی نہ کریئے ۔ سجناں وی ٹُر جانا

کلام بابا عالم سیاہ پوش

بھاگا والیو ۔ نام جپُوں مَولا نام نام ۔ نام جپُوں مَولا نام نام
بندہ مَکری ۔ تولے تَکڑی ۔ ہَتھ وِچ تَسبیح ۔ جَپدا جاوے مَولا نام نام
حُسن جوانی ۔ دُنیا فانی ۔ ہر شے آنی جانی ۔ رہے مَولا نام نام
لَوک بُپاری ۔ پیار دے وَیری ۔ عِشقے دی رَمز نوں جانَن نہ ۔ رہے مَولا نام نام
اَوکھیاں راہواں پہنچ نہ پاواں ۔ لَمبیاں نے مَنز لاں پیار دِیاں ۔ رہے مَولا نام نام

ترقی پذیر سائنس اور زوال پذیرانسانیت

سائنس اور سائنس کی بنیاد پر ترتیب شُدا ٹیکنالوجی کی مدد سے جدید معاشرے نے بڑی مادی ترقی کی ہے لیکن سائنسی معلومات سے ہی پتہ چلتا ہے کہ اس کامیابی کے حصول انسانی سے معاشرے کا مُستقبل خطرے میں ہے ۔ زمینی ماحول کی ترتیبِ نَو کرتے ہوئے جدید معاشرہ اس کے طفیل زمین پر بسنے والوں کی زندگی پر مرتب ہونے والے اثرات کو مدِ نظر رکھنے میں ناکام رہا ہے ۔ مفروضے اور رویّئے جو صدیوں سے انسانی ضروریات پوری کرتے آ رہے ہیں مناسب نہیں رہیں گے ۔ جن صلاحیتوں نے جدید معاشرے کی موجودہ تمدن حاصل کرنے میں مدد کی ہے وہ اس سے پیدا ہونے والے خدشات و خطرات کا مداوا کرنے میں ناکام رہا ہے ۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی بڑھتی ہوئی پیش رفت نے انسان کو دنیا کو زیادہ تیز رفتار سے نئے راستے پر لگانے کے قابل بنا دیا ہے لیکن پیش رفت کے فوائد اور خطرات کو سمجھنے کے سلسلہ میں خاطر خواہ نشو و نما نہیں ہوئی

فطرت کو قابو کرنے کی کوشش میں فطری دنیا کے ساتھ رعائت باہمی کو خیر باد کہہ دیا گیا اور جدید تمدن نے فطرت کے ساتھ قدیم بندھن توڑ ڈالا ۔ انسان صدیوں فطرت کی مناسب حدود میں رہ کر فطرت کی کرم فرمائی سے مستفید ہوا ۔ فطرت کی تال اختیار کرتا اور سختیاں برداشت کرتا رہا ۔ ابھی تک فطری دنیا سے نتھی ہونے کے باعث جدید انسانیت ایک ایجاد کردہ ماحول میں رہتی ہے جو بظاہر تیزی سے ترقی کر رہا ہے بنسبت انسانوں کے جو حیاتی استداد رکھتے ہیں ۔ انجام یہ کہ انسان کا جسم و دماغ ۔ قیاس اور طرزِ عمل تناؤ میں آ چکے ہیں
گو انسان نے مصنوعی ماحول تخلیق کر لیا ہے جسے تمدن (Civilization) کہا جاتا ہے لیکن اس کی بقاء فطری نظام میں نظر آتی ہے بجائے اس کے تخلیق کردہ نظام کے ۔ انسان کیلئے اس فطری اور مصنوعی دو نسلے ماحول میں رہنا ایک بہت بڑا چیلنج ہے
یہ پیشگوئی کرنا نہائت مُشکل ہے کہ انسان اس انسانی ایجاد کی حیاتی اور نفسیاتی تبدیلی کو اپنانے میں کتنا عرصہ لے گا اور کس حد تک اپنائے گا

فطرت کی اُن قوّتوں کو جنہیں انسان اپنے آپ کو استوار کرنے سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتا ۔جو لوگ پالیسی ترتیب دیتے ہیں اُنہیں سمجھنا چاہیئے اگر انسان فطرت سنساری قسم کی بنیادی حرکیات کے مقابلے میں کھڑا ہو جائے گا تو اس کا ہارنا لازم ہے ۔ فطری نظام اور روِش ٹھیک ٹھیک سمجھتے ہوئے فطرت کے اشتراک سے انسان نظام کو چلا سکتا ہے ۔ فرانسس بیکن (Francis Bacon) کا دعوٰی ہے کہ”فطرت پر قابو حاصل کرنے سے قبل فطرت کی تابعداری ضروری ہے

عوامی پالیسی کے انتظامی اصولوں کی مضبوط حدود کے بغیر انسانی حاضر دماغی اُسے اپنی موت کی طرف لے جا سکتی ہے ۔ حدود ہر قسم کی زندگی پر صادق آتی ہیں اور بالآخر انسانی نشو و نما کی سمت کو محدود کر دیتی ہے ۔ عوام اور پالیسی بنانے والوں کو اس اصول پر آگے بڑھنا چاہیئے کہ مفید نظام میں آزاد نشو و نما اور بے لگام کشادگی ایسی بند گلی میں پہنچا دے گی جس سے واپسی ممکن نہیں ہو گی اور نتیجہ تباہی پر منتج ہو گا ۔ جدید سوسائٹی کے رجحان کے خطرناک ہونے کا کافی خدشہ موجود ہے جو اس گُتھی ہوئی حکمت عملی کے ممکنہ نتائج حکم عملی کی مربوط تحقیق و تفتیش کی طرف مائل کرتا ہے

اگر ہم اپنے متناسب خطرات ۔ امکانات اور مفید ممکنات کو پوری طرح سمجھ لیں پھر شاید ہم اپنی مجموعی کوششوں کو یقین کے ساتھ قابلِ تائید اور بہتر مستقبل کی طرف گامزن کر سکیں

تحقیقی مقالہ از سمیع سعید
اُردو ترجمہ اور تلخیص ۔ افتخار اجمل بھوپال

شعیب سعید شوبی صاحب کی فرمائش

میری تحریر ” میری زندگی کا نچوڑ “ پر تبصرہ کرتے ہوئے شعیب سعید شوبی صاحب نے فرمائش کی
کسی دن اس پر بھی اپنے تجربات کی روشنی میں ضرور لکھیئے کہ کیریئر کے دوران اچانک آنے والے دھچکے یا set back سے کس طرح نکلا جائے؟ مایوسی کو خود پر حاوی ہونے سے کس طرح بچا جائے؟ بعض اوقات کسی مصلحت کی وجہ سے شاید اللہ تعالٰی کے یہاں بھی فوری شنوائی نہیں ہوتی ۔ عبادت میں بھی دل نہیں لگتا ۔ اس کا کیا حل ہے؟

کار و بار ہو یا ملازمت ۔ چلتے چلتے اگر کوئی رکاوٹ آ جائے تو دھچکا لگتا ہے ۔ اگر سکون سے کام چل رہا تھا تو دھچکا زیادہ محسوس ہو گا ۔ اگر پہلے دھچکے کا تجربہ نہ ہو تو دھچکے کا دورانیہ بہت طویل محسوس ہو گا ۔ دھچکا لگنا کوئی بڑی بات نہیں ۔ زیادہ تر لوگ اس کا شکار ہوتے ہیں البتہ کچھ کو کبھی کبھار لگتا ہے اور کچھ کو بار بار ۔ بار بار دھچکا لگنے سے انسان پُختہ یا عادی یا تجربہ کار ہو جاتا ہے اور پھر دھچکے اس پر بُرا اثر نہیں ڈالتے ۔ اصل مُشکل یا مُصیبت دھچکا نہیں بلکہ دھچکے کا اثر محسوس کرنا ہے جو ہر آدمی اپنی اپنی سوچ کے مطابق کرتا ہے ۔ جھٹکے مالی ہو سکتے ہیں اور نفسیاتی بھی

چلتی گاڑی میں سفر کرنے والا یا چلتے کارخانے میں کام کرنے والا یا چلتے کار و بار کو چلانے والا عام طور پر جھٹکوں سے بچا رہتا ہے لیکن وہ کچھ سیکھ نہیں پاتا ۔ ماہر وہی بنتا ہے جس نےکارخانہ بنایا ہو یا کوئی نئی مصنوعات بنا ئی ہوں یا نیا دفتر قائم کر کے چلایا ہو یا نیا کار و بار شروع کیا ہو اور پیش آنے والی مُشکلات کا دلیرانہ مقابلہ کیا ہو ۔ دوسرے معنی میں زندگی کے نشیب و فراز دیکھے ہوں یعنی دھچکے کھائے ہوں

پہلی جماعت سے لے کر کالج اور یونیورسٹی تک بہت سے امتحانات دیئے جاتے ہیں ۔ کسی امتحان کا نتیجہ توقع سے بہتر آتا ہے ۔ کسی کا توقع کے مطابق اور کسی کا توقع سے خراب ۔ وہاں ممتحن انسان ہوتے ہیں تو توقع سے خراب نتیجہ آنے پر ہم اپنی خامیاں تلاش کرتے اور مزید محنت کرتے ہیں ۔ لیکن معاملہ اللہ کا ہوتا ہے تو ہم کہتے ہیں ”اللہ بھی بے کسوں کی نہیں سُنتا“۔
کیا یہ ہمارا انصاف ہے ؟

آجکل جھٹکوں کا سبب زیادہ تر انسان کی تبدیل شدہ اس عادت کا شاخسانہ ہوتا ہے کہ وہ مُستقبل کی مناسب منصوبہ بندی نہیں کرتا ۔
محاورے اور ضرب المثل کسی زمانہ میں تاکید کے ساتھ پڑھائے جاتے تھے ۔ یہ انسان کیلئے مشعلِ راہ بھی ہوتے تھے ۔ جب سے جدیدیت نے ہمں گھیرا ہے ہمارا طریقہءِ تعلیم ہی بدل گیا ہے اور محاوروں کی اہمیت ختم ہو گئی ہے ۔ ایک ضرب المثل تھی ”اتنے پاؤں پھیلاؤ جتنی چادر ہو اور بُرے وقت کیلئے پس انداز کرو“۔ چیونٹیوں کو کس نے نہیں دیکھا کہ سردیوں اور بارشوں کے موسم سے قبل اپنے بِلوں میں اناج اکٹھا کرتی ہیں ۔ ہم انسان ہوتے ہوئے وقت کے ساتھ ساتھ اپنے اخراجات بڑھاتے چلے جاتے ہیں اور بُرے وقت کیلئے پس انداز نہیں کرتے ۔ پھر جب تنگی یا کوئی رکاوٹ آئے تو ہمارے ہاتھ پاؤں پھُول جاتے ہیں

اللہ پر یقین کا دَم تو سب ہی بھرتے ہیں لیکن دھچکا لگنے پر اصلیت معلوم ہوتی ہے کہ اللہ پر کتنا یقین ہے ۔ دھچکے کی شدت کا تناسب اللہ پر یقین سے مُنسلک ہے ۔ اگر اللہ پر یقین کامل ہے تو دھچکا لگنے کے بعد احساس یہ ہوتا ہے کہ اللہ نے شاید اس میں میرے لئے کوئی بہتری رکھی ہے ۔ اور آدمی اپنی خامیاں تلاش کرتا اور انہیں دُور کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ ساتھ ہی محنت جاری رکھتا ہے ۔ ایسا کرنے والا سکون میں رہتا ہے

صرف اس دنیا کا ہی نہیں کُل کائنات کا نظام چلانے والا صرف اللہ ہے ۔ کون ایسا مُسلمان ہے جو سورت اخلاص نہ جانتا ہو ؟ اس کے ترجمہ پر غور کیجئے ” کہو کہ وہ اللہ ایک ہے ‏۔ معبود برحق جو بےنیاز ہے ۔ نہ کسی کا باپ ہے۔ اور نہ کسی کا بیٹا اور کوئی اس کا ہمسر نہیں“۔

‏اللہ نے انسان کیلئے چند اصول وضع کر رکھے ہیں جن میں سے ایک یہ ہے ۔ سورت 53 النّجم آیت 39 ۔ اور یہ کہ ہر انسان کیلئے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی

اللہ اپنے بندوں کو آزماتا بھی ہے ۔ سورت 29 العنکبوت آیت 2 ۔ کیا لوگ یہ خیال کئے ہوئے ہیں کہ (صرف) یہ کہنے سے کہ ہم ایمان لے آئے چھوڑ دیئے جائیں گے اور انکی آزمائش نہیں کی جائے گی ؟

جب آدمی کسی مُشکل میں گرفتار ہوتا یا اسے جھٹکا لگتا ہے تو یہی وقت ہوتا ہے انسان کے بِدک جانے کا یا درُست راہ کو مضبوطی سے پکڑ لینے کا
ہر پریشانی کا سبب ایک طرف مستقبل کیلئے منصوبہ بندی کا فُقدان یا غلط منصوبہ بندی اور دوسری طرف اللہ پر بھروسے میں فقدان یا نامکمل بھروسہ ہوتا ہے

میری تحریر کی وضاحت

میری تحریر ”خود غرضی یا نِکو کاری“ پر ایک تبصرہ ہوا جس سے کچھ تفصیل بیان کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی ہے

خود اعتمادی بُری چیز نہیں بلکہ اس کا نہ ہونا اچھا نہیں ۔ لیکن خود اعتمادی اور خود پسندی میں بہت فرق ہے بلکہ یہ ایک دوسرے کی ضِد ہیں ۔ کہا جاتا ہے شاخ پر جتنا زیادہ پھل ہو گا ۔ شاخ اتنی زیادہ جھُکی ہو گی ۔ انگریزی کا مقولہ ہے ” Deeds speak louder than words “۔
مندرجہ ذیل شعر میں پنہاں رمز پر بھی غور کییجئے
سچائی چھُپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے
خُوشبُو آ نہیں سکتی کبھی کاغذ کے پھولوں سے

میں نےبڑے بڑے عِلم والے ۔ سائنسدان او ر مُوجد دیکھے ہیں ۔ ان میں سے 2 میرے اُستاذ رہے ہیں ۔ ان سب میں انکساری اور سادگی ہی دیکھی ۔ اُنہوں نے کبھی اپنی اشتہار بازی نہ کی لیکن عِلم کی دنیا میں بسنے والے اُنہیں جانتے ہیں ۔ 1969ء یا 1970ء کا واقعہ ہے جب میں پروڈکشن منیجر تھا دوسرے محکمے کے ایک اسسٹنٹ منیجر جو عمر میں مجھ سے دس بارہ سال بڑے تھے آئے اور بولے ” اجمل صاحب ۔ آجکل لوگ دونوں ہاتھوں سے ڈفلی بجاتے ہیں ۔ آپ دونوں ہاتھوں سے کام کرتے ہیں ۔ میں ایک ہاتھ سے کام کرتا ہوں اور ایک سے ڈفلی بجاتا ہوں ۔ آپ بھی کچھ اس طرف سوچیں“۔ میرے پیارے اللہ نے میرے منہ سے کہلوایا ”حاجی صاحب ۔ اگر میرا کام میرے اللہ کو پسند آ گیا تو ڈفلی کیا ڈھول بجیں گے“۔

میں نے متذکرہ تحریر میں صرف دین کے حوالے سے بات کی تھی ۔ اب اسے دنیا کے حوالے سے پرکھنے کی کوشش کرتا ہوں ۔ میں ہر عمل کو سائنس کے مسلّمہ اصولوں پر پرکھنے کا عادی ہوں ۔ سائنس دین سے باہر نہیں ہے اور میرا یقین ہے کہ ” اللہ ہر قسم کے عِلم سمیت ہر چیز میں ارفع اور یکتاء ہے“۔

عصرِ حاضر میں ہم سائنس کی ترقی پر بغلیں بجاتے ہیں لیکن باوجود سائنس کی بے تحاشہ ترقی کے انسان کا عِلم محدود ہے ۔ سائنس نے گھر بیٹھے ہزاروں انسانوں کی ہلاکت تو آسان بنا دی ہے لیکن انسان کی بہتری کیلئے سائنس نے آج تک کوئی منصوبہ متعارف نہیں کرایا اور نہ مُستقبل میں کوئی ایسی تجویز ہے ۔ سائنس ایک متحرک عِلم ہے ۔ اس کے کُلیئے اور نظریات بدلتے رہتے ہیں ۔ لیکن دین میں اس کی گنجائش نہیں کیونکہ اس کا ترتیب دینے والا یکتا اور تمام خامیوں سے پاک ہے ۔ چنانچہ صرف اللہ کا بھیجا ہوا عِلم ہی مُستنَد ہے

آجکل اشتہار بازی یعنی میڈیا کا دور دورا ہے ۔ میڈیا سرمایہ دار کا خادم ہے کیونکہ میڈیا کو چلانے کیلئے دولت کی ضرورت ہوتی ہے جو سرمایہ دار مہیاء کرتا ہے ۔ زیادہ سے زیادہ دولت کمانے کیلئے سچائی پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ میڈیا نے انسانی دماغوں کو اتنا محسور کر لیا ہے کہ وہ اپنی ذات کی نسبت میڈیا پر زیادہ یقین رکھتے ہیں ۔ اپنی حقیقت (جو اللہ نے بنائی ہے) کا سوچنے کیلئے کسی کے پاس وقت نہٰیں ۔ دیکھا دیکھی افراد نے بھی اپنی اشتیار بازی شروع کر دی ہے اور ہمہ وقت مقابلے کی دوڑ میں شامل ہیں

ڈاکٹر ہو ۔ استاذ (ٹیچر) ہو یا مُفتی ۔ کم ہی کوئی اس یلغار سے محفوظ رہا ہے ۔ تبصرے میں زیادہ زور ڈاکٹر (میڈیکل پریکٹیشنر) کے کام اور رویّے پر دیا گیا ہے ۔ معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ یہ خام خیالی ہے ۔ میں اور میری بیگم عمر کے جس حصے میں ہیں ہمیں ان معالجوں کی آئے دن ضرورت رہتی ہے ۔ میرا تجربہ یہ ہے کہ اشتہاری بڑے نام والے ہسپتال اور ڈاکٹر کی توجہ مریض کی نسبت اُس کی جیب پر زیادہ ہوتی ہے جبکہ ایسے ڈاکٹر بھی ہیں کہ وہ مریض پر اپنی فیس سے زیادہ توجہ دیتے ہیں اور اللہ کے فضل سے اشتہاریوں کی نسبت زیادہ خوشحال ہیں

مکمل مطالعے کے بغیر سُنی سُنائی یا رسالوں کی باتوں پر یقین کیا جائے تو ابو بکر صدیق اور عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہم میں بہت فرق نظر آتا ہے ۔ یہ بھی نہیں سوچا جاتا کہ اگر ان دونوں کا مزاج اتنا مُختلف تھا تو ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ کو خلافت کیلئے کیوں موزوں ترین سمجھا ؟ کیا وہ مؤمنین کو (نعوذ باللہ من ذالک) سیدھا کرنا چاہتے تھے ؟ جب عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ امیر المؤمنین تھے گشت کے دوران بچوں کے رونے کی آواز سُن کر پہنچے اور وجہ پوچھی ۔ جواب ملا ”عمر کی جان کو رو رہے ہیں“۔ بیت المال پہنچے اناج کا تھیلا کندھے پر اُٹھایا اور چل پڑے ۔ بیت المال کے خادم نے اُٹھانے کی درخواست کی تو عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ نے کہا ”کیا قیامت کے روز تو میرا بوجھ اُٹھائے گا“۔ اگر یہ سخت مزاجی ہے تو سُبحان اللہ

انسان کو چاہیئے کہ دین یا اسلاف کے بارے میں زبان کھولنے سے قبل مُستند کُتب کا مطالعہ کر کے ذہن صاف کر لے
لبادہ اوڑھنے کا مطلب بھی شاید آجکل کے جوانوں کے عِلم سے دُور ہے

میں نے صرف اپنے لکھے کی وضاحت کی کوشش کی ہے ۔ جس دن اپنے آپ کو مکمل درست کرلوں گا پھر دوسروں کی سوچ درست کرنے کے متعلق سوچوں گا ۔ فی حال تو میں 7 دہائیوں سے خود ہی سیکھ رہا ہوں اور سامنے عِلم کے پہاڑ نظر آ رہے ہیں میں جن کے قریب بھی نہیں پہنچ پایا ۔ اللہ کریم میری مدد فرمائے

موجودہ ترقی کا شاخسانہ

سُنو ۔ یہ فخر سے اِک راز ہم بھی فاش کرتے ہیں
کبھی ہم منہ دھوتے تھے مگر اب واش کرتے ہیں
تھا بچوں کیلئے بھوسہ مگر اب کِس ہی کرتے ہیں
ستاتی تھیں کبھی یادیں مگر اب مِس ہی کرتے ہیں
چہل قدمی کبھی کرتے تھے ۔ اب واک کرتے ہیں
کبھی کرتے تھے ہم باتیں مگر اب ٹاک کرتے ہیں
کبھی جو امّی ابُو تھے ۔ وہی اب ممی پاپا ہیں
دعائیں جو دیتے تھے وہ بُڈھے اب سیاپا ہیں
کبھی جو تھا غُسلخانہ ۔ بنا وہ باتھ رُوم آخر
بڑھا جو ایک اور درجہ ۔ بنا وہ واش رُوم آخر
کبھی تو درد ہوتا تھا ۔ مگر اب پین ہوتا ہے
پڑھائی کی جگہ پر ۔ اب تو نالج گین کرتے ہیں

پُر اسرار بندے ۔ کل اور آج

ترقی اور وہ بھی ایسی کہ دنیا بدل کے رہ گئی
ہر لٖفظ کے معنی بدل گئے
ہر فقرہ بدل گیا
کیا اس مُلک میں زیادہ گرمی ۔ بے وقت بارشیں ۔ مہنگائی اور بدامنی ہونے کی وجہ ہمارے اجتمائی کردار کا دیوالیہ پن نہیں ہے ؟
علّامہ ڈاکٹر محمد اقبال صاحب نے لکھا تھا

یہ غازی یہ تیرے پُراسرار بندے ۔ ۔ ۔ جنہیں تُو نے بخشا ہے ذوقِ خدائی
دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا ۔ ۔ ۔ سمٹ کر پہاڑ ، ان کی ہیبت سے رائی

ترقی کی ہوا ایسی چلی کہ بن گیا

یہ پڑھے لکھے، والد جن کے مالدار بندے ۔ ۔ ۔ اِن کی گاڑی کو جو روکے فرض پسند سپاہی
یہ لگائیں اُس کو ٹھوکر ، دیں گالی اور تھپڑ ۔ ۔ ۔ پھر کھیچ کے گاڑی میں کریں اچھی دھنائی

واقعہ یوں ہے کہ ٹریفک کے قوانین کی شدید خلاف ورزی پر پولیس اہلکار نے گاڑی کو روکا اور سلام کرنے کے بعد ڈرائیونگ لائسنس مانگا ۔ کار سواروں نے ڈانٹ پلا دی ”ہٹو آگے سے کیا سمجھتے ہو اپنے آپ کو“۔ پولیس اہلکار نے شائستگی سے پھر ڈرائیونگ لائسنس مانگا تو باہر نکل کر زبردستی پولیس اہلکار کو ہٹانے کی کوشش کی ۔ جب اُس نے مزاہمت کی تو اس کی پٹائی شروع کر دی ۔ یہ شریف نما پڑھے لکھے غُنڈے ایک قیمتی کا ر میں سفر کر رہے تھے

علّامہ صاحب نے لکھا تھا

محبت مجھے اُن جوانوں سے ہے ۔ ۔ ۔ ستاروں پہ ڈالتے ہیں جو کمند

ترقی نے بنا دیا

شان اس دور میں ، اُن جوانوں کی ہے ۔ ۔ ۔ اُٹھا لے جائیں لڑکی جو آ جائے پسند

کچھ عرصہ قبل اسلام آباد کے ایک بارونق مرکز میں کار سوار پڑھے لکھے اور بڑے گھرانوں کے نوجوانوں نے ایک راہ جاتی لڑکی کو چھیڑا اور اس کے ساتھ دست درازی کی کوشش کی ۔ لڑکی کے مزاحمت کرنے پر اُسے کھینچ کر اپنی گاڑی میں ڈالنے کی کوشش کی ۔ لڑکی کا شور سُن کر تاجر پہنچ گئے اور اغواء کی کوشش ناکام بنا دی گئی

ایک اور دھاندلی

لو جی تختِ پنجاب یعنی لاہور میں ایک اور دھاندلی ہو گئی ہے
بھلا یہ کوئی بات ہے ؟
ہم نیا پاکستان بنانے کیلئے رات دن تقریریں کر رہے ہیں پریس کانفرنسیں کر رہے ہیں ۔ دھرنے دیتے ہیں جلسے کرتے ہیں ۔ دھاندلی کا شور مچاتے ہمارے گلے پک گئے ہیں اور یہ عوام کے دُشمن لاہور والے ہمیں نیا پاکستان بنانے نہیں دیتے ۔ لوگ بھوکے مر رہے ہیں (ہم نہیں ۔ لوگ لیکن پتہ نہیں کہاں) اور انہوں نے میٹرو کے بعد اب قوم کا اور پیسہ برباد کر دیا ہے ۔ بھلا رکشوں میں کوئی غریب بیٹھتے ہیں اور غریبوں کو روٹی نہیں ملتی اُنہیں انٹرنیٹ کا کیا پتہ

لاہور والوں سے معذرت

Riksha with internet