Category Archives: معاشرہ

کچھ بات تنزل کی

میرے ایک نئے قاری عدنان زاہد صاحب نے فرمائش کی کہ میں 1965ء اور 1971ء کے بارے کچھ لکھوں گویا اپنے بوڑھے ہونے کا حق ادا کروں ۔ 1965ء اور 1971ء کی جنگوں کے دوران میں نے عوام ردِ عمل میں بہت فرق دیکھا لیکن اب تو دنیا ہی بدل چکی ہے ۔ اس کا صحیح اندازہ لگانے کیلئے دو پرانے ذاتی تجربے جن پر جوان نسل کو شاید یقین نہ آئے ۔

میں 1957ء میں گرمیوں کی چھٹیاں گذارنے کیلئے پلندری ۔ آزاد جموں کشمیر گیا ۔ وہاں میری واقفیت پنجاب رجمنٹ کے ایک کمپنی کمانڈر سے ہو گئی ۔ وہ پلندری کوٹلی روڈ پر کسی جگہ تعینات تھا مجھے پہاڑوں کی سیر کا شوق تھا جس کا میں نے اظہار کیا ۔ اس نے کہا کہ کسی دن ہماری کوئی جیپ پلندری سے خالی جا رہی ہوئی تو وہ مجھے اس کے پاس لیجائے گی ۔ کچھ دن بعد صبح سویرے جیپ آئی اور میں چلا گیا ۔ وہاں پہاڑوں پر پھرتے اور شکار کرتے رہے ۔ شام کو جیپ نے پلندری سے راشن لینے جانا تھا ۔ اس پر میری واپسی تھی لیکن پلندری سے لاسلکیہ [wireless] پیغام آیا کہ راوپنڈی سے راشن نہیں آیا چنانچہ جیپ نہ گئی اور مجھے وہیں خیمے میں پتھریلی زمین پر رات گذارنا پڑی ۔ دوسرے دن جیپ گئی اور میں بھی ۔ [آج یہ حال ہے کہ کمپنی کمانڈر کی گاڑیاں ان کے مہمانوں کو ملتان سے راولپنڈی اور مری تک کی سیر کراتی ہیں]

صحیح یاد نہیں 1964ء یا 1965ء کا واقعہ ہے میں ان دنوں ایک پراجیکٹ میں چیئرمین پاکستان آرڈننس فیکٹریز ۔ میجر جنرل اُمراؤ خان کے سیکرٹری کے فرائض انجام دے رہا تھا ۔ ایک اجلاس میں کوئی جنرل صاحب جی ایچ کیو سے آئے ہوئے تھے ۔ اجلاس کے ختم ہونے کے بعد بھی بیٹھے رہے اور جنرل اُمراؤ خان سے گویا ہوئے “اپنے بعد ہمیں بھی اس شرف کا موقع دیجئے گا”۔ جب وہ چلے گئے تو جنرل اُمراؤ خان مجھ سے مخاطب ہوئے “دیکھا ۔ جنرل صاحب مجھ سے سِنیئر ہوتے ہوئے بھی کیا کہہ رہے تھے ؟” میں نے جواب دیا “جی ۔ مجھے سمجھ نہیں آئی”۔ تو کہنے لگے “ان بیچاروں کو کھُلی جیپوں پر سفر کرنا ہوتا ہے جن کے شاک ابزاربر نہیں ہوتے ۔ مجھے یہاں آرامدہ کار ملی ہوئی ہے ۔ اس کی طرف اشارہ کر رہے تھے”۔ [ آج ایک ایک جنرل کے پاس پانچ پانچ اعلٰی قسم کی گاڑیاں ہیں ۔ دو صاحب بہادر کے پاس ہوتی ہیں ۔ ایک میں بیگم صاحبہ گھومتی ہیں ۔ ایک میں بچے اور ایک گھٹیا والی میں نوکر ۔ اولالذکر چار گاڑیاں ایئرکنڈیشنڈ ہوتی ہیں]

جنگ 1965ء اور جنگ 1971ء کی مکمل تفصیل سے مضمون بہت طویل اور بوجھل ہو جائیگا ۔ اسلئے میں دونوں کے دوران صرف اپنی معلومات اور تجربہ کے مطابق عوام ۔ فوج اور حکومت کا کردار بہت مختصر بیان کروں گا ۔

جنگ 1965ء
اچانک 5 اور 6 ستمبر کی آدھی رات کے بعد بھارتی فوج نے واہگہ سرحد عبور کر کے لاہور کی طرف پیش قدمی شروع کر دی ۔ 7 ستمبر کو سیٹیلائیٹ ٹاؤن راولپنڈی میں یہ حال تھا کہ صاحبِ حیثیت لوگ مختلف اطراف میں سفر پر روانہ ہونا شروع ہو گئے تھے ۔ شاید ان کی منزل اپنے آبائی شہر ۔ قصبے یا گاؤں تھے ۔ بازار سے اشیاء خوردنی غائب ہونا شروع ہو گئیں ۔ لاہور میں باٹا پور اور جلو جو واہگہ سے نزدیک تھے وہاں کے لوگوں کو پاکستانی فوج نے نکال لیا ۔ وقت بہت کم تھا اسلئے سب صرف اپنی جانیں لے کر نکلے ۔ بدقماش لوگوں نے ان کے گھر لوٹنے شروع کر دیئے ۔
ان دنوں امیر محمد خان نواب کالا باغ مغربی پاکستان کے گورنر تھے ۔8 ستمبر کوانہوں نے بڑے کارخانہ داروں اور تاجروں کو گورنر ہاؤس بلا کر صرف اتنا کہا “اپنے مال منڈیوں میں پھینک دو یا پھر اپنی خیر مناؤ”۔ 9 ستمبر کو تمام دکانیں کھُلی تھیں اور ہر چیز پہلے سے ارزاں مل رہی تھی ۔ کمال تو یہ ہے کہ ہمیشہ دودھ میں پانی ملا کر بیچنے والا بھی خالص دودھ بیچنے لگ گیا تھا ۔ باٹا پور اور جلو کے مکانوں سے جو سامان چوری ہوا تھا وہ اگلی رات کے دوران واپس پہنچ گیا ۔
حکومتی کارندے عام آدمی بن گئے یعنی انہیں ملنا آسان ہو گیا ۔ محاذ پر فوجیوں نے بھارتی یلغار کا بے جگری سے مقابلہ کیا اور ان کی پیش قدمی روک دی ۔ 9 ستمبر کو لاہور شہر میں خبر پھیلی کہ فوجی محاذ پر بغیر کھائے پیئے لڑ رہے ہیں ۔ لاہوریئے پلاؤ اور مرغ قورمے کی دیگیں پکوا کر محاذ پر پہنچنے شروع ہو گئے ۔ پوری قوم ایک ہو گئی ۔ جہاں سے فوجی ٹرک گذرتے لوگ ان کی آؤ بھگت کرتے ۔ پاکستان آرڈننس فیکٹریز میں کیا افسر کیا مزدور دن رات کام کرتے رہے ۔ میں سب سیکٹر کمانڈر تھا ۔ پہلے چار دن اور تین راتیں میں بالکل نہ سویا تھا ۔ اللہ جانے میں کیسے کام کرتا رہا ۔ سب کا یہی جذبہ تھا ۔ رات کو میں اپنے علاقہ کے کئی لوگوں کو زبردستی گھر بھیجتا ۔ وہ مجھ سے جھگڑتے کہ صاحب اس وقت ہمارے ملک کو ہماری ضرورت ہے ۔ ہم کام کرتے مر نہیں جائیں گے ۔ ہوائی حملہ کا سائرن بجتا تو سب اپنا کام کرتے رہتے حالانکہ کام چھوڑ کر خندقوں میں پناہ لینے کی ہدائت تھی ۔

ہمارے ملک کے صحافیوں اور شاعروں نے اپنی کی سی حُب الوطنی میں ایسی فرضی کہانیاں لکھیں اور ایسے سُلا دینے والے نغمے لکھے جنہوں نے قوم کو افسانوی دنیا میں پہنچا دیا ۔ سینے سے بم باندھ کر ٹینکوں کے آگے لیٹنے ۔ سبز کُرتے والے کا بم کو ہاتھ سے پرے دھکیلنا اور گانا “جنگ کھیڈ نئیں ہوندی زنانیاں دی” اس کی مثالیں ہیں ۔

جنگ 1971ء
اس جنگ تک لوگ بدل چکے تھے ۔ فرائض کی کوئی بات نہ کرتا اور حقوق پر بہت زور تھا ۔ ورکرز کو کام کرنے کیلئے کہتے تو جواب ملتا “افسر کام کریں جن کے پاس دولت ہے ۔ ہم غریبوں کو کیوں مروانا چاہتے ہیں ۔ ہمارے بچے پیچھے بھوکے مریں گے” ۔ یہ سب اس پروپیگنڈا کا نتیجہ تھا جو پیپلز پارٹی نے الیکشن جیتنے کیلئے استعمال کیا تھا ۔ جنگ کے دوران ایک اہم دفاعی کام کے سلسلہ میں مجھے راولپنڈی سے کراچی جانا پڑا ۔ جب میں کراچی پہنچا تو کراچی کینٹ سٹیشن پر پنجاب جانے والی ٹرین خالص کراچی والے مردوں عورتوں اور بچوں سے کھچا کھچ بھری کھڑی تھی اور سارے پلیٹ فارم پر مزید سینکڑوں مرد عورتیں اور بچے اگلی ٹرین کے انتظار میں بیٹھے تھے ۔ میں جب ریلوے سٹیشن سے باہر نکل کر اپنے دفتر کی گاڑی ڈھونڈ رہا تھا تو ایک صاحب نے پوچھا “صاحب ۔ آپ آ رہے ہیں یا کہ جا رہے ہیں ؟” میں نے جواب دیا “جناب ۔ میں پنجاب سے آیا ہوں”۔ اس پر وہ صاحب حیران ہو کر یہ گردان کرتے چلے گئے “کمال ہے ۔ سب جا رہے ہیں اور یہ آ رہے ہیں”۔

کراچی میں میرا قیام ٹرانزٹ کیمپ میں فوجی افسروں کے ساتھ تھا ۔ وہ پریشان تھے کہ اُنہیں سیدھا محاذ پر لڑنے کیلئے کیوں نہیں بھیجا جا رہا ۔ کسی کو کوئٹہ سے کراچی کسی کو کراچی سے کوئٹہ اور دوسرے شہروں کو اور کسی کو دوسرے شہروں سے کراچی کیوں بھیجا جا رہا ہے ؟ بریگیڈوں کے بریگیڈ مختلف شہروں کے ٹرانزٹ کیمپوں میں کیوں پڑے ہیں ؟

سرکاری اہلکاروں کا رویہ بھی کچھ اچھا نہ تھا ۔ اشیاء صرف مہنگی ہو گئی تھیں ۔ مزدوروں کو کام نہ کرنے کا بہانہ مل گیا تھا کہ ہوائی حملہ ہو جائے گا ۔ سارا سارا دن ادھر اُدھر کھڑے وقت ضائع کرتے رہتے ۔ صرف افسران اور سٹاف کے لوگ کام کرتے ۔

روشن خیالوں سے زیادہ روشن خیال

انصار عباسی ایک تعلیم یافتہ ۔ کُہنہ مشق اور  روشن خیال صحافی ہیں ۔ ایک ٹی وی چینل کے انٹرویو میں ان پر کیا بیتی یہ ہر پاکستانی کو جاننا چاہیئے اور سوچنا چاہیئے کہ ہمیں کہاں لیجانے کی کوشش ہو رہی ہے ۔ جاننے کیلئے یہاں کلک کیجئے ۔

صنفِ مخالف کی کشش

مندرجہ ذیل مضمون میری 17 دسمبر 2007ء اور 14 جنوری 2008ء کی تحاریر کی تیسری اور آخری قسط ہے ۔

اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے تمام مخلوقات کے جوڑے بنائے ہیں ۔ اگر ان میں کوئی باہمی کشش نہ ہوتی تو یہ نظام چل نہ پاتا ۔ دیکھا جائے تو پوری کائنات کے نظام کے چلنے کی بنیاد ہی باہمی کشش ہے ۔ اس کشش کا متوازن ہونا پائیداری کیلئے ضروری ہے ۔ بات کریں حضرتِ انسان کی تو یہ کشش ازل سے ہے اور جس دن یہ ختم ہو گی میرا خیال ہے کہ اس وقت یا اس کے بہت جلد بعد قیامت وقوع پذیر ہو جائے گی ۔ اس کشش کا عدم توازن یا تجاوز ارتعاش یا انتشار کا باعث بنتا ہے

میں سوچتا ہوں کہ اگر مجھ میں عورت کی کشش نہ ہوتی تو میں نہ شادی کرتا نہ میرے بچے ہوتے ۔ میں صرف کماتا ۔ سیروسیاحت اور مہم جوئی کرتا اور اس کے علاوہ اپنے کمرہ میں بند نئی سے نئی ایجاد کیلئے سرگرم ہوتا ۔ شائد یہ عمل عجیب محسوس ہو کہ صنفِ مخالف کی کشش کا قائل ہونے کے باوجود میں نے کبھی کسی لڑکی کو دیکھنے کی کوشش نہیں کی اور اس کے نتیجہ میں اب تک بہت گلے شکوے سننا پڑتے ہیں ۔ عزیز و اقارب خواتین کہتیں ہیں “مانا کہ تم بلندیوں کی طرف نظر رکھتے ہو لیکن کبھی زمین پر بھی نظر ڈال لیا کرو جس پر ہم جیسے غریب چل رہے ہوتے ہیں”۔ یہ شکائت اس دور سے ہے جب میں پیدل یا بائیسائکل پر ہوتا تھا اور اب بھی ہے کہ کار پر ہوتا ہوں ۔ میں کہہ دیتا ہوں کہ اگر اِدھر اُدھر دیکھوں گا تو کسی گاڑی سے ٹکرا جاؤں گا ۔ ایک بار ایک محترمہ [کزن] نے کہا “باتیں مت بناؤ ۔ میں تمہارے سامنے سے گذری تھی”۔ میں نے بھی نہلے پر دیہلا لگا دیا “باجی ۔ میں نظر نیچی رکھ کر چلتا ہوں کہ کسی غیر عورت کو دیکھ کر گناہگار نہ ہو جاؤں”۔

ہر چیز کا طریقہ اور سلیقہ ہوتا ہے جس کے بغیر مضبوط معاشرہ کا قائم ہونا بہت مشکل ہوتا ہے ۔ عورت مرد کی باہمی کشش کے زیرِاثر تجاوزات آج کی بات نہیں ۔ صرف اس کی مقدار اور پھیلاؤ گھٹتے بڑھتے رہے ہیں اور مختلف معاشروں میں بھی مختلف ہوتے ہیں ۔ میں نے اس فعل یا عمل کا بہت مطالعہ کیا اور اس میں ملوث ہونے والے کئی لڑکوں کے ساتھ تبادلہ خیال بھی کیا ۔ مجھے اس کی صرف ایک ہی وجہ نظر آئی اور وہ ہے کہ ہر لڑکا جب ایک خاص عمر کو پہنچتا ہے تو وہ خواہش کرتا ہے کہ لڑکیاں اس کی طرف متوجہ ہوں ۔ یہی جذبہ لڑکیوں میں بھی پایا جاتا ہے ۔ ایک خاص عمر کو پہنچ کر لڑکیوں کے دل میں لڑکوں کی ستائش حاصل کرنا چُٹکیاں لینے لگتا ہے ۔ اسی وجہ سے کئی لڑکے لڑکیاں بار بار آئینہ دیکھتے ہیں کہ وہ کیسے لگ رہے ہیں ۔ اس خواہش کے زیرِ اثر کچھ لڑکے لڑکیاں غلط راہ پر چل پڑتے ہیں جسے وہ وقتی شغل میلہ قرار دیتے ہیں ۔ اسی شغل میلے میں چند بے راہروی اختیار کر لیتے ہیں ۔ فرعون نے اپنی اسی خواہش کے تحت لڑکوں کے قتل اور خوبصورت لڑکیوں کے زندہ رکھنے کا حکم دیا ۔ کلوپٹرا کی حکومت آئی تو اس نے ہر خوبصورت مرد کو اپنے قریب رکھا ۔

ایک کُلیہ ہے معاشیات کا طلب اور رسد کا جو اس معاملہ میں بڑا معاون ثابت ہو سکتا ہے کہ صنفِ مخالف کی توجہ بھی مل جائے اور بدتہذیبی بھی نہ ہو لیکن اس کیلئے کچھ محنت بھی کرنا پرتی ہے ۔ ظاہر ہے کہ بغیر محنت کے تو کچھ نہیں ملتا ۔ کوئی نوالا منہ بھی ڈال دے تو چبانا اور نگلنا خود ہی پڑتا ہے ۔ لڑکا اگر سَستی قسم کی بڑھائی کی بجائے اپنے اندر ایسی بڑھائی پیدا کرے جو ہمیش ہو تو وہ ایک لڑکی نہیں بلکہ کئی لڑکیوں کو متوجہ کر سکتا ہے لیکن نیت لڑکی کی توجہ حاصل کرنے کی بجائے اپنے اندر اچھائی پیدا کرنے کی ہو ۔ کیونکہ معاشیات کا کلیہ کہتا ہے کہ طلب زیادہ ہو تو رسد کم ہو جاتی ہے اور اس کے برعکس رسد زیادہ ہو تو طلب کم ہو جاتی ہے ۔

لڑکے ان طریقوں سے لڑکیوں کو متوجہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ بال بنا کر ۔ سردیوں میں صرف قمیض پہن کر ۔ مہنگی خوشبو لگا کر ۔ خطرناک طریقہ سے سائیکل یا موٹر سائیکل چلا کر [آجکل کار] ۔ گانا گا کر ۔ قیمتی گھڑی پہن کر جسے بار بار وہ ننگا کرتے ہیں ۔ باڈی بلڈنگ کر کے ۔ مجھے ایسے لڑکوں کی عقل پر ہی شک رہا ۔ ان چیزوں پر میں نے لڑکیوں کو ہنستے تو دیکھا ہے لیکن متاثر ہوتے نہیں دیکھا ۔ گو کچھ لڑکیاں اداکاروں یا کھلاڑیوں پر دل نچھاور کر دیتی ہیں اور بعد میں پچھتاتی ہیں ۔ شادی شدہ مردوں کے اس عمل میں ملوث ہونے کا سبب احساسی کمتری یا احساسِ محرومی ہوتا ہے ۔ مرد ہی نہیں کچھ شادی شدہ عورتیں بھی یہ حرکات کرتی ہیں ۔ اس کی وجہ خاوند کی بے توجہی یا خاوند کا غلط چال چلن ہوتا ہے ۔ جن عورتوں کے خاوند سالہا سال ان سے دور رہتے ہیں ان میں سے بھی چند اس راہ پر چل پڑتی ہیں ۔

بلاشُبہ چہرے یا جسم کی ظاہری خوبصورتی بہت کشش رکھتی ہے مگر یہ دائمی نہیں ہوتی ۔ کچھ عرصہ بعد وہی چہرہ وہی جسم اپنی کشش کھو دیتا ہے یا عام سا لگنے لگتا ہے ۔ سیرت ایک ایسی خوبی ہے جسے قائم کیا جائے تو وقت کے ساتھ ساتھ اس کی کشش بڑھتی جاتی ہے ۔ سیرت کے کئی پہلو ہیں ۔ محنت سے پڑھنا ۔ صاف ستھرا رہنا ۔ لڑکی ۔ خواتین یا بزرگوں سے بات کرتے ہوئے نظریں نیچی رکھنا ۔ بے لوث خدمت یعنی کسی مادی لالچ اور امیر غریب یا چھوٹے بڑے کی تمیز کے بغیر ۔ ہمیشہ سچ بولنا اور سچ کا ساتھ دینا ۔

میں اس دنیا کی مخلوق نہیں ہوں اگر کوئی مجھے اس معاشرے کے حساب سے دیکھے تو میں اُجڈ شخص ہوں ۔ میں ہمیشہ صنفِ مخالف سے کتراتا رہا ہوں ۔ اپنے خاندان میں سوائے دو کے سب لڑکیاں یا مجھ سے بہت بڑی ہیں یا بہت چھوٹی ۔ دوسری لڑکیاں رشتہ دار ہوں یا غیر ہوں جوانی میں ان کے ساتھ میرا رویہ بڑا خشک ہوتا تھا ۔ میرے کچھ قریبی ہمجماعت کبھی کبھار کہہ دیتے “یار اجمل ۔ تم ہم سب کے ساتھ اتنے نرم لہجہ میں بات کرتے ہو ۔ لڑکیوں کے سامنے تمہیں کیا ہو جاتا ہے ؟”کمال یہ ہے کہ میرے خشک رویئے کے نتیجہ میں کسی لڑکی نے میرے ساتھ کبھی بُرا سلوک کرنا تو درکنار کبھی ماتھے پر بل بھی نہ ڈالے ۔ اس خشک رویئے کے باوجود لڑکیاں مجھ سے بات کرنے کی کوشش کرتیں ۔ عشق کو میں ہمیشہ دماغ کا خلل سمجھتا رہا ہوں ۔ لڑکیوں کے پیچھے پھرنا یا صرف دیکھنے کی خاطر ان پر نظریں ڈالنا میری نظر میں ایک انتہائی گھٹیا فعل رہا ۔ بلا تفریق امیر و غریب یا لڑکی لڑکا ہر کسی کی خدمت کرنا میں اپنا فرض سمجھتا رہا ہوں ۔ میں ساری عمر میں زر تو نہ اکٹھا کر سکا لیکن مجھ پر اللہ سُبحانہُ والحَمْدُللہ بعَدَدِ خَلْقِہِ کی بہت کرم نوازی رہی کہ ہر کسی نے مجھے عزت دی ۔

کیا صرف پاکستانی گھورتے ہیں ؟

یہ میری 17 دسمبر 2007ء کی تحریر کا دوسرا باب سمجھ لیجئے ۔ میرا مشاہدہ ہے کہ پاکستانیوں کو جتنی اپنے ہموطنوں سے شکائت رہتی ہے کسی اور قوم کو نہیں ۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ سب پاکستانی بُرے ہیں بلکہ پاکستانیوں کی اکثریت کسی وجہ سے احساسِ کمتری میں مبتلا ہے اور ایسے لوگوں کو غیر کے سامنے اچھا بننے کا ایک ہی طریقہ سمجھ آیا ہے کہ اپنوں کو بُرا کہیں ۔ اس طرح وہ دوسرے لفظوں میں اپنے آپ کو بُرا کہہ رہے ہوتے ہیں ۔

ہمارے ہموطنوں میں قباحت یہ ہے کہ ٹکٹِکی لگا کر دیکھتے ہی چلے جاتے ہیں جو معیوب سمجھا جاتا ہے ۔ اگر لفظ گھورنا کی بجائے بُری نظر سے دیکھنا کہا جائے تو ایسا یورپ اور امریکہ میں بھی ہوتا ہے حالانکہ ان ملکوں میں جنسی آزادی انتہاء کو پہنچ چکی ہے ۔ یورپ اور امریکہ میں کسی لڑکی یا عورت کو گھورنے یا غلط نظروں سے دیکھنے کے علاوہ اور بھی بہت کچھ ہوتا ہے یعنی کسی عورت یا لڑکی میں کشش محسوس ہوئی تو موقع پا کر اس کا بھوسہ لے لیا ۔ یہ عمل زبردستی بھی کیا جاتا ہے ۔ میں یورپ کے ایک شاپنگ سنٹر میں کچھ خریدنے کیلئے اس کی تلاش میں تھا ۔ دوپہر کے کھانے کا وقت تھا اور بہت کم لوگ موجود تھے ۔ میں نے دیکھا کہ ایک کونے میں ایک مرد گاہک نے ایک سیلز وومن کا بھوسہ لینے کی کوشش کی وہ ایکدم پیچھے ہٹ گئی تو اس نے آگے بڑھ کر اسے دبوچ کر بھوسہ لینے کی کوشش کی ۔ عورت نے اپنے آپ کو چھڑانے کی پوری کوشش کی ۔ اتنی دیر میں میں قریب پہنچ گیا ۔ جونہی مرد نے مجھے دیکھا وہ عورت کو چھوڑ کر بھاگ گیا ۔

اطالوی چُٹکی لینے میں مشہور ہیں ۔ یہ میرا مشاہدہ بھی ہے ۔ کئی ملکوں میں مرد یا لڑکا گذرتے گذرتے کسی عورت یا لڑکی کے ساتھ کچھ کر جاتا ہے جس پر عام طور پر لڑکی یا عورت مسکرا دیتی ہے لیکن کبھی کبھی لال پیلی ہو جاتی ہے ۔ ایک بار پیرس ۔ فرانس میں ایک عورت نے پیچھے بھاگ کر مرد کو تھپڑ لگایا ۔ 1980ء یا اس کے آس پاس کا واقعہ ہے کہ طرابلس ۔ لبیا میں ایک سوڈانی عورت گوشت کی دکان پر کھڑی تھی کہ ایک یورپین مرد نے ناجانے کیا کیا کہ عورت نے تیزی سے پلٹ کر اُسے دو چار دوہتھڑ مارے ۔ قبل اس کے کہ کوئی یورپین کو پکڑنے کا سوچتا وہ بھاگ کر مارکیٹ سے باہر نکل گیا ۔

یورپ اور امریکہ میں لڑکیاں اور عورتیں بھی لڑکوں یا مردوں سے اس سلسلہ میں پیچھے نہیں ۔ میں امریکہ میں صرف 20 دن رہا اور اس دوران اس قسم کے 2 واقعات دیکھنے کو ملے ۔ البتہ یورپ میں ایسے بہت سے واقعات دیکھنے میں آئے ۔

صحتمند کون ؟

میں نے زندگی بھر کے تجربہ سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ آدمی کی بلحاظِ صحت چار قسمیں ہیں

1 ۔ جو شخص اپنی اور دوسروں کی بھی پریشانی اور تکلیف کو دلی طور پر محسوس کرتا ہے اس کی صحت خراب ہی رہتی ہے

2 ۔ جو شخص صرف اپنی پریشانی اور تکلیف کو دلی طور پر محسوس کرتا ہے اس کی صحت بھی زیادہ اچھی نہيں رہتی لیکن اولالذکر سے بہت بہتر ہوتی ہے

3 ۔ جو شخص نہ اپنی پریشانی اور تکلیف کو دلی طور پر محسوس کرتا ہے اور نہ دوسروں کی اس کی صحت خراب نہیں ہوتی

4 ۔ جو شخص خود تو کسی بات پر پریشان نہیں ہوتا لیکن دوسروں کو پریشان کئے رکھتا ہے اس کی صحت بہت اچھی ہوتی ہے

قربانی اور واویلا

عیدالاضحٰے کی قربانی کے حوالے سے واویلا چند سالوں سے سُن اور اخبارات میں پڑھ رہا تھا ۔ اس سال میں نے سوچا کہ اس پر میں بھی اپنے خیالات اور تجربہ کا خلاصہ پیش کروں ۔ لیکن مجھے توقع نہیں تھی شگفتہ صاحبہ ہماری قوم کے ایک قبیح پہلو کو اُجاگر کرنے کی کوشش میں لکھیں گی “ہم قربانی کے نام پر پہلے دن دوسرے دن حتی کہ تیسرے دن بھی بھاری رقوم خرچ کرتے ہیں ۔ لیکن ہاں حساب لگا کے یہ نہیں کہنے کی ضرورت کہ کچھ حصہ ہی سہی تعلیم کے لیے خرچ کر لیں ان رقوم سے”

قربانی جو عام ہوئی وہ تو سنّتِ سیّدنا ابراہیم علیہ السلام ہی ہے لیکن قربانی انسان کی ابتداء سے جاری ہے ۔ انسانوں کے باپ سیّدنا آدم علیہ السلام کے بیٹوں ہابیل اور قابیل نے بھی جانوروں کی قربانی دی ۔ ایک کی قربانی قبول ہو گئی اور دوسرے کی قبول نہ ہوئی ۔ شروع زمانہ میں طریقہ یہ تھا کہ کہیں سے آگ آتی اور جس کی قربانی کو کھا جاتی اس کی قربانی قبول سمجھی جاتی اور جس کی قربانی کو آگ نہ کھاتی وہ قبول نہ سمجھی جاتی ۔ یہ طریقہ کار اس وقت تک جاری رہا جب سیّدنا ابراہیم علیہ السلام کے اپنے بیٹے کی قربانی کیلئے تیار ہو جانے پر اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے ان کی قربانی اس طرح قبول کر لی کہ بیٹے کو تو کچھ نہ ہوا اور اس کی جگہ دُنبے یا مینڈے ذبح ہوئے ۔ اس وقت سے آج تک دُنبے ۔ مینڈے ۔ بکرے ۔ گائے یا اُونٹ کی قربانی 10 ذوالحجہ کو کی جاتی ہے ۔

دین اسلام میں تعلیم کی اہمیت واضح ہے لیکن سنّت سیّدنا ابراھیم علیہ السلام پر اُٹھنے والے خرچ کو تعلیم پر اُٹھنے والے خرچ سے کوئی واسطہ نہیں ۔ عجب بات تو یہ ہے کہ اس پر اعتراض کرنے والے کروڑوں روپیہ فضولیات پر خرچ کرتے ہیں جو دین سے تعلق ہونا تو کجا اُلٹا گناہ کا سبب ہوتا ہے مثال کے طور پر آتش بازی ۔ قبروں پر چڑھاوے ۔ صدر ۔ وزیر اعظم ۔ گورنروں ۔ وزراء اعلٰی اور دیگر وزراء کے لاحاصل دورے اور جشن جن پر قوم کا اربوں روپیہ خاک کی طرح اُڑایا جاتا ہے ۔ صدرِ پاکستان کے ایک چھوٹے سے پروٹوکال پر کروڑوں روپیہ برباد کر دیا جاتا ہے ۔ صدر ۔ وزیراعظم ۔ وزراء اعلٰی وغیرہ کی حفاظت پر مامور عملہ پر اربوں روپیہ ماہانہ خرچ اُٹھتا ہے ۔ ان تمام فضول اخراجات کا اگر آدھا بھی تعلیم اور صحت پر خرچ کیا جائے تو تمام غریبوں کے بچے بھی تعلیم حاصل کر سکتے ہیں اور سب کو اپنے ہی شہر میں مناسب علاج کی سہولت مل سکتی ہے ۔

قربانی کے سلسلے میں یہ بات نہیں بھولنا چاہئیے کہ ایسے لاکھوں لوگوں کو سال میں ایک بار گوشت کھانا نصیب ہوتا ہے جو سال بھر گوشت کو صرف حسرت سے دیکھتے ہیں ۔

تمام انسان برابر ہیں سوائے ۔ ۔ ۔

تمام انسان برابر ہیں سوائے اس کے کوئی تقوٰی کی وجہ سے اعلٰی ہو ۔

راشد کامران صاحب کے ایک تبصرہ “بر صغیر ۔ جہاں‌ ہر عمل اور ہر بات صرف اپنی یا اپنی ذات کی بڑائی دکھانے کے لیے کی جاتی ہے ۔ ۔ ۔ یہ سلسہ تبھی تھمے گا جب ہم “تقوی”‌ کے عزت کا میعار بنائیں” نے مجھے یہ مضمون لکھنے پر مائل کیا ۔ ‌

تقوٰی کے متعلق محققین علماء نے کتابیں لکھی ہیں جن کا احاطہ کرنا مجھ جیسے دو جماعت پاس کے بس کی بات نہیں ۔ میں تو اتنا جانتا ہوں کہ تقوٰی کے معنی ہیں چھوڑ دینا اور دین اسلام کے تحت تقوٰی کا مطلب ہوا کہ ہر اس چیز اور عمل کو چھوڑ دینا جس کا تعلق اللہ کے ساتھ نہ ہو ۔ دوسرے طریقہ سے بیان کریں تو تقوٰی کا مطلب ہے کہ ہر وہ چیز اور عمل چھوڑ دینا جس کے چھوڑنے کا اللہ نے کہا ہے اور ہر اس چیز اور عمل کو اپنا لینا جس کا تعلق اللہ کی خوشنودی سے ہو ۔

مسلمان ہونے کے ناطے ہمارا فرض ہے کہ ہم اللہ کی اطاعت کریں ۔ اطاعت اس طرح کی نہیں جیسی ہم بازاروں مں اور دفتروں میں کرتے ہیں کہ سامنے تو بہت اچھے اور پیچھے کسی کی پرواہ نہیں ۔ ہاں اگر ہم یہ یاد رکھیں اللہ ہر وقت دیکھ رہے ہیں اور فرشتے ہمارے عمل کی مکمل سند تیار کر رہے ہیں جس کیلئے ہماری پیشی ہو گی اور ہر غلط کام کی سزا بھُگتنا پڑے گی تو پھر ہم کبھی بھول کر بھی کوئی ایسا کام نہیں کریں گے جو اللہ کے حکم کے خلاف ہو یا جس سے اللہ کی خوشنودی حاصل نہ ہو ۔ ایسا کرنے والا آدمی ہی متقی ہے ۔ اور متقی بہادر اور مطمئن ہوتا ہے ۔

قرآن شریف سے پہلے کی الہامی کتب یعنی زبور ۔ تورات اور انجیل میں بہت تحریفات کی جا چکی ہیں لیکن ابھی بھی ان میں کچھ باتیں صحیح حالت میں موجود ہیں ۔ آج لوگوں کی اکثریت کا یہ حال ہے کہ بمطابق انجیل “انہیں دوسروں کی آنکھ کا تنکا تو نظر آتا ہے لیکن وہ اپنی آنکھ کے شہتیر کو نہیں دیکھ سکتے”۔ تورات میں ہے “ہم چیزوں کو اس طرح نہیں دیکھتے جس طرح کی وہ ہیں بلکہ اس طرح دیکھتے ہیں جس طرح کے ہم ہیں”۔ ہمارے ہاں ایک محاورہ عام استعمال ہوتا ہے “آئینہ میں اپنی ہی شکل نظر آتی ہے”۔

اگر دوسروں کے اندر عیب تلاش کرنا اور دوسروں کے عیب گننا چھوڑ کر اپنی اصلاح پر توجہ دی جائے تو انسان تقوٰی کی منزل کو پہنچ سکتا ہے ۔