Category Archives: معاشرہ

ثقافت کیا ہے ؟

ثقافت کیا ہوتی ہے ؟ جاننے کی جُستجُو مجھے اُنہی دنوں ہوئی تھی جب میری عمر سولہ سترہ سال تھی اور میں گارڈن کالج راولپنڈی میں پڑھتا تھا ۔ میں نے اُنہی دنوں کے حوالہ سے ثقافت کے سلسلہ میں 30 جون 2006ء کو اپنی ایک تحریر شائع کی تھی بہرحال نوجوانی کے زمانہ سے سالہا سال بعد تک کی تگ و دو اور مطالعہ نے مجھے اس قابل کیا کہ سمجھ سکوں کہ ثقافت کس بلا کا نام ہے ۔ پچھلی دو صدیوں میں لکھی گئی کُتب کی طرف رُخ کیا جائے تو واضح ہو جاتا ہے کہ ثقافت کسی قوم ملت یا قبیلہ کی مجموعی بود و باش سے تعلق رکھتی ہے نہ کہ ایک عادت یا عمل سے ۔ نہ کچھ لوگوں کی عادات سے ۔ مزید یہ کہ ثقافت میں انسانی اصولوں پر مبنی تعلیم و تربیت کا عمل دخل لازم ہے ۔ ثقافت کے متعلق محمد ابراھیم ذوق ۔ الطاف حیسن حالی ۔ علامہ اقبال ۔ اکبر الٰہ آبادی اور دیگر نے اپنے خیالات کا اظہار کیا لیکن میں اسے دہرانے کی بجائے صرف لُغت سے استفادہ کروں گا

فیروز اللُغات کے مطابق ” ثقافت ” کے معنی ہیں ۔ عقلمند ہونا ۔ نیک ہونا ۔ تہذیب
ایک انگریزی سے اُردو ڈکشنری کے مطابق کلچر [Culture] کا مطلب ہے ۔ ترتیب ۔ تہذیب ۔ پرورش کرنا ۔ کاشت کرنا

چند مشہور انگریزی سے انگریزی ڈکشنریوں کے مطابق ثقافت یا کلچر [Culture
] کے معنی ہیں

مریم ویبسٹر ڈکشنری
1 ۔ شعوری اور اخلاقی استعداد کا افشا بالخصوص علم کے ذریعہ
2 ۔ شعوری اور جمالیاتی تربیت سے حاصل کردہ بصیرت اور عُمدہ پسندیدگی
3 ۔ پیشہ ورانہ اور فنی استعداد سے ماوراء فنونِ لطیفہ ۔ انسانیات اور سائنس کی وسیع ہیئت سے شناسائی
4 ۔ انسانی معلومات کا مرکب مجسمہ ۔ اعتقاد اور چال چلن جس کا انحصار سیکھنے کی وسعت اور آنے والی نسلوں کو علم کی مُنتقلی پر ہو
5 ۔ کسی گروہ کے رسم و رواج ۔ باہمی سلوک اور مادی اوصاف

کومپیکٹ آکسفورڈ ڈکشنری
1 ۔ خیالی یاشعوری فَن یا ہُنر کے ظہُور جو اجتمائی نشان ہو یا اس کی ایک خالص فِکر یا قدر دانی
2 ۔ کسی قوم ۔ مِلّت یا گروہ کی رسوم ۔ ادارے اور کامرانی

کیمبرج بین الاقوامی انگریزی کی ڈکشنری
1 ۔ کسی قوم ۔ مِلّت یا گروہ کے کسی خاص دور میں بود و باش کا طریقہ بالخصوص عمومی عادات ۔ رسوم ۔ روایات اور عقائد
2 ۔ اگر صرف فَنون سے متعلق ہو تو موسیقی ۔ ہُنر ۔ ادبی علوم یا تمثیل گھر

اینکارٹا ورلڈ انگلش ڈکشنری
کسی قوم یا گروہ کی / کے مشترکہ
1 ۔ مجموعی طور پر فن یا ہُنر جس میں فنونِ لطیفہ ۔موسیقی ۔ ادب ۔ ذہنی چُستی شامل ہوں
2 ۔ آگہی ۔ آمیزش اور بصیرت جو تعلیم کے ذریعہ حاصل ہو
3 ۔ رائے ۔ وصف ۔ رسم و رواج ۔ عادات ۔ باہمی طور طریقے
4 ۔ شعور یا ہُنرمندی یا فنی مہارت کی نشو و نما

چنانچہ ثقافت صرف عادات و رسوم کا ہی نہیں بلکہ صحتمند عادات و رسوم کے مجموعہ کا نام ہے جن کی بنیاد تربیت پر ہو ۔ ہر چند کہ کسی گروہ یا قبیلہ کے لوگ کچھ قباحتیں بھی رکھتے ہوں لیکن ان بُری عادات کو ان کی ثقافت کا حصہ نہیں سمجھا جائے گا

اگر کہا جائے کہ ہندوؤں کی ثقافت میں ناچ گانا شامل ہے تو یہ درست ہے لیکن ہندوؤں کیلئے بھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اُن کی ثقافت ناچ گانا ہے کیونکہ ناچ گانا ان کی ثقافت کا صرف ایک جُزو ہے اور ان کی ثقافت میں کئی اور اوصاف بھی شامل ہیں ۔ ناچ گانا پوجا پاٹ کا حصہ بنا دینے کی وجہ سے ہندوؤں کی ثقافت میں شامل ہو گیا اور یہ ناچ گانا وہ بھی نہیں ہے جو کہ مووی فلموں میں دکھایا جاتا ہے

مسلمان کیلئے دین اول ہے اسلئے مسلمانوں کی ثقافت میں دین کا لحاظ لازمی ہے لیکن میرے اکثر ہموطن مسلمان ہوتے ہوئے اپنی ثقافت کو ناچ ۔ گانا ۔ تمثیل ۔ مصوّری ۔ بُت تراشی وغیرہ ہی سمجھتے ہیں اور ثبوت کے طور پر ہندوانہ رسم و رواج کا حوالہ دیتے ہیں یا پھر اس دور کی مثال دیتے ہیں جب اسلام کا ظہور نہیں ہوا تھا

عام طور پر جو لوگ ثقافت پر زور دیتے ہیں اُن میں سے کچھ کے خیال میں شاید ثقافت ساکت و جامد چیز ہے اور وہ اسے موہنجو ڈارو کے زمانہ میں پہنچا دیتے ہیں ۔ جبکہ کچھ لوگ ثقافت کو ہر دم متغیّر قرار دیتے ہیں ۔ یہ دونوں گروہ اپنے آپ کو جدت پسند ظاہر کرتے ہیں ۔ مؤخرالذکر ثقافت کو اپنے جسم تک محدود رکھتے ہیں یعنی لباس ۔ محفل جمانا ۔ تمثیل ۔ ناچ گانا وغیرہ ۔ لُطف کی بات یہ ہے کہ ثقافت عوام کی اکثریت کا ورثہ اور مرہُونِ منت ہے جنہیں ثقافت کی بحث میں پڑنے کا شاید خیال بھی نہیں ہوتا یا جنہوں نے کبھی ثقافت پر غور کرنے یا اسے اُجاگر کرنے کی دانستہ کوشش نہیں کی

ثقافت ایک ایسی خُو ہے جو اقدار کی مضبوط بنیاد پر تعمیر ہوتی ہے ۔ یورپ اور امریکہ میں عورت اور مرد کا جنسی اختلاط عام ہے اور عرصہ دراز سے ہے ۔ کسی یورپی یا امریکن سے پوچھا جائے کہ کیا یہ جنسی اختلاط آپ کی ثقافت کا حصہ ہے تو وہ کہے گا کہ “نہیں ایسا نہیں ہے” ۔ اس کے برعکس کچھ ایسی عادات ہیں جسے اُنہوں نے غیروں سے اپنایا ہے مثال کے طور پر آجکل جسے ٹراؤزر یا پینٹ کہتے ہیں یہ دراصل منطلون یا منطالون ہے جسے عربوں نے گھوڑ سواری بالخصوص جنگ کے دوران کیلئے تیار کیا تھا ۔ یہ اب یورپ اور امریکہ کی ثقافت کا حصہ ہے گو اس کی شکل اب بدل چکی ہے اور اُن لوگوں کی ثقافت کا حصہ بن چکی ہے ۔ اسی طرح کچھ کھانے ہیں جو یورپی اور امریکی ثقافت کا حصہ سمجھے جاتے ہیں لیکن ایشیا سے نقل کئے گئے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان میں سے کچھ اب ایشیا کی بجائے یورپ یا امریکہ کا خاصہ تصور ہوتے ہیں ۔ دورِ حاضر کا برگر جرمنی کا ہیمبُرگر تھا کیونکہ اسے ہیمبُرگ میں کسی شخص نے بنانا شروع کیا تھا ۔ اس سے قبل اس کا نام وِمپی تھا اور ترکی اور اس کے قریبی ایشیائی علاقہ میں بنایا جاتا تھا ۔ اُس سے پہلے یہ منگولوں کا سفری کھانا تھا ۔ اسی طرح شیش کباب جسے ولائیتی [یورپی] کھانا سمجھ کر کھایا جاتا ہے درصل سیخ کباب ہی ہے جو کہ ترکی کا کھانا تھا

ہندو عورتیں ایک ڈیڑھ گز چوڑی چادر پیچھے سے سامنے کی طرف لا کر داہنے والا کونہ بائیں کندھے اور بائیں والا کونہ داہنے کندھے کے اُوپر لے جا کر گردن کے پیچھے باندھ لیتی تھیں اور یہی ان کا لباس تھا ۔ لباس میں ساڑھی جسے کئی لوگ ہندوؤں کا پہناوا یا ثقافت کہتے ہیں ہندوؤں نے مسلمانوں سے نقل کیا جس کو مختلف اشکال دی گئیں اور عُریاں بھی بنا دیا گیا ۔ دراصل یہ عرب بالخصوص افریقی مسلمانوں کا لباس ساری تھا جو کہ مسلمان عورتیں بطور واحد لباس نہیں بلکہ اپنے جسم کے خد و خال چھپانے کی خاطر عام لباس کے اُوپر لپیٹ لیتی تھیں ۔ یہ ساری اب بھی افریقہ کے چند ملکوں بالخصوص سوڈان میں رائج ہے

ثقافت کے متذکرہ بالا اجزاء میں جو مادی اوصاف ہیں وہ تبدیل ہوتے رہتے ہیں اور ان کے تبدیل ہونے میں کوئی قباحت نہیں ہے اور انسانی بہتری کیلئے ان میں تبدیلی ہوتے رہنا چاہیئے مگر ثقافت پر اثر انداز ہونے والی اقدار میں وہ وصف شامل ہیں جن کی بنیاد خالقِ کائنات نے اپنی مخلوق کی بہتری کیلئے مقرر کر دی ہے ۔ ان کو تبدیل کرنا انسانی تمدن کے لئے نقصان دہ ہو سکتا ہے اور اللہ کی نافرمانی بھی ۔ آج کمپیوٹر کا دور ہے ۔ کمپیوٹر متعدد قسم کے کام سرانجام دیتا ہے مگر یہ سب کام کمپیوٹر کے خالق کے مقرر کردہ ہیں ۔ کمپیوٹر ان مقررہ حدود سے باہر نہیں جاتا ۔ یہی حال انسان کا ہے ۔ فرق یہ ہے کہ انسان کے خالق نے انسان کو کچھ اختیار دیا ہوا ہے لیکن ساتھ ہی انسان کا نصب العین بھی مقرر کر دیا ہے اور اس پر واضح کر دیا ہوا ہے کہ غلط عمل کا نتیجہ اچھا نہیں ہو گا ۔ اس لئے انسان کیلئے لازم ہے کہ انسانیت یا خود اپنی بہتری کیلئے اپنی اقدار کو نہ بدلے اور ان پر قائم رہے ۔ وہ اقدار ہیں عبادت ۔ تعلیم ۔ سلوک ۔ عدل ۔ انتظام ۔ وغیرہ

یہ میری 13 اپریل اور 15 اپریل 2009ء کی تحاریر کا خلاصہ ہے

احسان تیرا ہو گا

احسان تیرا ہو گا مجھ پر
دِل چاہتا ہے جو کہنے دے
اپنے دیس سے محبت ہے مجھ کو
مجھے اس کی چھاؤں میں رہنے دے

صورت حال کچھ یوں بن گئی ہے کہ اپنے ہی وطن میں ہمارا رہنا بھی لوگوں کو بھاری محسوس ہونے لگا ہے ۔ خود کو اس مُلک کا مالک سمجھنے والے ہمیں دھتکارنے لگے ہیں [یعنی اُن لوگوں کو جنہوں نے اس وطن کی خاطر اپنا مال و متاع گنوایا اور اپنے عزیزوں کی جانوں کا نذرانہ پیش کیا] مگر وہ نہیں جانتے کہ اب بھی ہمارا جذبہ مرا نہیں ہے گو جسم کمزور ہو گئے ہیں ۔ تاریخ گواہ ہے کہ جیت جاں نثاروں کی ہوتی ہے مالداروں کی نہیں ۔ ہم سے اپنے بھائی بہن اپنے بچے بلکتے نہیں دیکھے جاتے ۔ ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے ۔ ہم آج بھی اپنا سب کچھ اس وطن کی ناموس پر قربان کرنے کو تيار ہیں

نثار میں تیری گلیوں پر اے وطن کے جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اُٹھا کے چلے

ایک طرف میرے وطن کے دیرینہ دُشمنوں کی چالیں زوروں پر ہیں اور دوسری طرف ملک کے اندر بیٹھے حقوق اور ترقی کے نام نہاد ٹھیکیدار اس کی جڑیں کھوکھلی کرنے پر تُلے ہیں ۔ تیسری طرف دیکھیں تو دُشمن کے پروردہ کرائے کے قاتل میرے وطن کی زمین میرے ہی بھائي بہنوں اور بچوں کے خون سے رنگ رہے ہیں اور اس میں کامیابی کا سہرا میرے ہی وطن کی کالی بھیڑوں کے سر ہے ۔ چوتھی طرف دیکھیں تو جمہوریت کے ٹھیکیداروں کو اپنی تجوریاں بھرنے سے فرصت نہیں

اُٹھ اے پاکستانی ۔ اپنی نیند اور نشے سے کہ دُشمن ہے چال قیامت کی چل گیا اور تو نجانے کونسا نشہ پی کر مدہوش پڑا ہے ۔ کسی غلط فہمی میں نہ رہنا ۔ تیرا نام اس مُلک سے ہے اور اسی مُلک کے ساتھ تُو یا تیرا نام زندہ رہ سکتا ہے ۔ سُنا نہیں کہ اپنی گلی میں کُتا بھی شیر ہوتا ہے ۔ تُو تَو انسان ہے ۔ اشرف المخلوقات ۔ پر تیرے کرتوت کیا ہیں؟ بھائی کی بات تجھ سے برداشت نہیں ہوتی ۔ اُس کا منہ نوچنے کو پھرتا ہے اور دُشمن تُجھے چمک دھمک دکھا کر تیرے اُوپر سے گذرنے کو ہے اور تیرے کپڑے اُتارنے اور تجھے ایک وقت کی روٹی کا محتاج بنانے کی تدبیر کر رہا ہے

کب ہوش میں آئے گا تُو جب ہوش میں آنا بیکار ہو گا ؟

درُست کہ چاروں طرف دہشتگردی کے واقعات اور غیریقینی صورتِ حال پریشان کُن ہے ۔ لیکن اس سب سے تقریر سے نہیں تدبیر اور عمل سے جان چھڑائی جا سکتی ہے ۔کچھ لوگ شور مچاتے ہیں اور کچھ خاموشی سے برداشت کرتے ہیں ۔ جہاں تک میرا تعلق ہے موجودہ دہشتگردی اور پریشانی اُس کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں جو میرے جیسوں نے اور ہمارے بزرگوں نے دیکھی تھی ۔ میں مختصر طور پر صرف اپنی حالت بیان کرتا ہوں ۔ پاکستان بنا تو میری عمر 10 سال تھی ۔ میری دو بہنیں مجھ سے 3 اور 5 سال بڑی تھیں ۔ جب بھارت میں مسلمانوں پر حملے شروع ہوئے تو لاشیں گرنے لگیں اور جوان عورتیں اور نوجوان لڑکیاں اغواء ہونے لگیں ۔ کسی کو کچھ اندازہ نہ تھا کہ کب اور کس جگہ بلوائی حملہ کریں گے اور ہمارا کیا حشر کریں گے ۔ اشیاء خوردنی کم تھیں ۔ گھر سے باہر نکلنا محال تھا ۔کئی کئی دن فاقے کئے اور کچھ دن ایسے بھی تھے کہ پینے کو پانی بھی نہ ملا ۔ نہ دن کو چین تھا نہ رات کو آرام ۔ یہی کچھ کم نہ تھا کہ ایک ماہ بعد میں میری دونوں بہنیں اور تین نابالغ ساتھی [میرے والد کی چچازاد بہن اور چچازاد بھائی کی بیٹی اور بیٹا] اپنے گھر والوں سے بچھڑ گئے ۔ ستمبر سے دسمبر 1947ء کے تین ماہ اور بھی زیادہ بھیانک تھے ۔ سردی تھی اور رات کو ہم چھ لوگ ایک لحاف [رضائی] میں ایک 5 فٹ لمبے 4 فٹ چوڑے نمدے پر سمٹے رہتے ۔ سونا کس نے تھا ۔ رات کے وقت بلوائیوں کے جَتھے ست سِری اکال ۔ جئے مہا بھارت اور مُسلوں کا خون بہائیں گے کے نعرے لگاتے کہیں قریب ہی سے گذرتے تھے ۔ اللہ کے سوا کوئی بچانے والا نہ تھا ۔ یہ اللہ سُبحانُہُ تعالٰی کا کرم تھا کہ ہم 18 دسمبر 1947ء کو بخیریت پاکستان آ گئے

وہی اللہ آج بھی ہماری مدد کرے گا ۔ یہ وطن بھی تو اُسی نے دیا ہے ۔ اس کی حفاظت بھی وہ کرے گا لیکن اللہ نے کہہ رکھا ہے

لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَی ۔ انسان کیلئے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی [سورت 53 ۔ النّجم ۔ آیت ۔ 39]

رنگ رنگیلی دُنیا

رنگ رنگیلی دُنیا میں ہیں رنگ رنگ کے دھوکے
سوچ کے قدم اُٹھانا ۔ بعد میں نہ پچھتانا دل والے

پچھلے سال جب پہلی بار مناواں میں قائم پولیس کے تربیتی مرکز پر حملہ ہوا تو میرا ماتھا ٹھنکا تھا کہ طالبان کا پردہ ہماری آنکھوں کے سامنے لٹکا دیا گیا ہے اور اس پر جو فلم چلائی جاتی ہے ہم اُسے دیکھ کر تالیاں بجا رہے ہیں لیکن پردے کے پیچھے کوئی ہولناک ڈرامہ چل رہا ہے ۔ میں نے اپنے ہموطنوں کی توجہ اس خطرے کی طرف مبذول کرنے کی کوشش کی ۔ بہت کم کو میری بات سمجھ آئی ۔ وجہ واضح تھی کہ جس نے ہاتھی نہ دیکھا ہو وہ سمجھ نہیں سکتا کہ ہاتھی کس بلا کا نام ہے ۔ حیرت یہ ہے کچھ لوگ جو بظاہر پڑھے لکھے اور بڑے ہوشیار تھے نامعلوم کیوں اس طرف نہ صرف طائرانہ نظر ڈالنے سے گریز کرتے رہے بلکہ شدت سے اس خیال کی مخالفت پر اُتر آئے ۔ مدعا بیان کرنے سے قبل میں ماضی کے کچھ واقعات کا مختصر حوالہ دینا چاہتا ہوں

لاہور کے قریب جو بی آر بی نہر ہے اس کی منصوبہ بندی پاکستان بننے سے قبل ہوئی تھی اور اس کی تمام تفصیل بھارت کے پاس موجود تھی ۔ ستمبر 1965ء کی جنگ میں پہلے ہی ہلّے میں بھارت کی فوج اور ٹینک بی آر بی نہر کے کنارے پہنچ گئے تھے وہ ٹینکوں سمیت بی آر بی نہر پار کر کے لاہور پر قبضہ کر سکتے تھے لیکن بی آر بی نہر کو پار کرنے کی جرآت نہ کی اور پاکستانی فوج کو ان کے مقابلہ کیلئے پہنچنے کا وقت مل گیا ۔ ظاہر ہے کہ نہر کی گہرائی کے متعلق وہ شک میں پڑ گئے تھے اور کوئی ان کا شک دور کرنے والا نہ تھا

ستمبر 1965ء کی جنگ جب بھارت نے شروع کی تو بھارتی فوج واہگہ چوکی پر بارڈر ملیشا کے جوانوں کو شہید کرتے ہوئے جلّو سے آگے نکل کر نہ صرف رُک گئی بلکہ کچھ پسپائی اختیار کی اس خیال سے کہ اُن کا کسی مضبوط فوج سے ٹکراؤ نہیں ہوا کہیں پاکستانی فوج نے اُنہیں گھیرے میں لینے کیلئے چال تو نہیں چلی ۔ اگر انہیں کوئی بتا دیتا کہ پاکستانی فوج تو موجود ہی نہیں تو نتیجہ ظاہر ہے کیا ہوتا

کوئی 40 سال پیچھے کی بات ہے کہ میں نے اپنے ایک اسسٹنٹ منیجر جو مینٹننس کا انچارج تھا کو سیکیورٹی کیموفلاج کورس کیلئے بھیجا ۔ واپس آنے پر اس نے مجھے حیرت کے ساتھ بتایا کہ اسے کہا گیا کہ جب آپ کو اپنی فیکٹری نظر آئے تو آپ نے بتانا ہے پھر ہیلی کاپٹر میں راولپنڈی سے حسن ابدال اور درمیانی علاقہ کے چکر لگوائے گئے ۔ سفر ختم ہو گیا مگر اسے اتنے بڑے رقبہ پر پھیلی ہوئی فیکٹری نظر نہ آئی حالانہ فیکٹری کا “لے آؤٹ” [layout] اس کے دفتر میں دیوار پر لٹکا رہتا تھا ۔ اگر زمین سے کوئی سگنل بھیج دیتا تو وہ فوراً بتا دیتے یہ ہے میری فیکٹری

دسمبر 1971ء کی جنگ کے دوران دن کے وقت بھارتی ہوائی فوج کا ایک سکوارڈن نیچی پرواز کرتا ہوا پاکستان آرڈننس فیکٹری کے کافی بڑے حصے کے اُوپر سے گذرا ۔ اُسی شام بھارتی ٹی وی اور ریڈیو پر اعلان ہوا کہ بھارتی ہوائی فوج نے پاکستان آرڈننس فیکٹری پر بم گرائے ۔ یہ بم پاکستان آرڈننس فیکٹری سے ہی نہیں ٹيکسلا سے بھی راولپنڈی کی طرف مرگلہ کی پہاڑیوں سے کچھ پہلے گرے تھے ۔ اگر زمین سے کوئی سگنل بھیج دیتا تو گئی تھی فیکٹری

دسمبر 1971ء کی جنگ کے دوران رات کے وقت بھارتی ہوائی فوج نے بالائی سندھ میں صادق آباد کے قریب مسافر ٹرین پر حملہ کیا تھا ۔ رات اندھیری تھی اور ٹرین کی بجلیاں بند تھیں ۔ اس میں دو عمل توجہ طلب تھے ۔ ایک ۔ ریلوے حکام کی ہدائت کی خلاف ورزی کرتے ہوئے روہڑی سٹیشن پر ایک ٹرین روکے رکھی گئی اور دوسری ٹرین آنے پر مزید حُکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دونوں ٹرینوں کو جوڑ کر روانہ کیا گیا ۔ اور دوسرا ۔ جس علاقہ میں ٹرین پر حملہ ہوا اُس کے قریب ایک چاردیواری کے اندر سے طاقتور ٹارچ کے ذریعہ اشارے [signal] دیئے گئے جس کے بعد ہوائی جہاز ٹرین کی سیدھ میں آیا اور حملہ کیا ۔ اس چاردیواری میں کچھ سالوں سے ایک شخص رہتا تھا جسے علاقہ کے لوگ سائیں بابا کہتے تھے ۔ گذری شام تک وہ وہیں تھا لیکن اُس رات کے بعد وہ نظر نہیں آیا

ان واقعات کے مختصر بیان سے غرض یہ تھی کہ پچھلے ڈیڑھ سال میں متعدد دوسرے اہم حملوں کے علاوہ مناواں اور لاہور میں ایف آئی اے کے دفتر پر دو دو حملے ۔ بیدیاں روڈ پر ايلیٹ فورس کے تربیتی مرکز پر ایک اور جی ایچ کیو پر ایک حملہ ہو چکا ہے ۔ ان سب حملوں کے طریقہ کار سے ایک تو فوجی کمانڈوز جیسی مہارت کا پتہ چلتا ہے ۔ طالبان کا طریقہ کار بالخصوص شہروں میں ایسا ماہرانہ نہیں ہے ۔ دوسرے ۔ یہ کہ ان علاقوں کے اندر کے حالات طالبان کو کیسے معلوم ہو سکتے ہیں ؟ حملہ آوروں کو ایسے اشخاص کا تعاون حاصل تھا جو متعلقہ اداروں کے اندرونی حالات سے واقف ہیں یا تھے ۔ خدشہ ہے کہ بڑی خطرناک کھچڑی پک رہی ہے اور قوم سوئی ہوئی ہے

ایک اور بات جو دماغ کو کُریدے جا رہی ہے ۔ عقیل عُرف ڈاکٹر عثمان تين سال سے زائد قبل فوج سے بھگوڑا [absconder] ہو گیا تھا ۔ پچھلے سال میریئٹ ہوٹل پر حملے کے سلسلہ میں وہ اتفاق سے اکتوبر 2008ء میں گرفتار ہوا ۔ بعد میں اُسے چھوڑ دیا گیا ۔ اگر اس کا تعلق میریئٹ ہوٹل پر حملہ سے نہیں بھی تھا تو اُسے قید میں رکھنے اور تفتیش کرنے کیلئے اُس کا فوج سے بھگوڑا ہونا ہی کافی تھا ۔ اُسے کیوں اور کس کے کہنے پر چھوڑا گیا ؟؟؟ صاف ظاہر ہے کہ کوئی سرکار کا بارسوخ آدمی ہو گا جس کی ایماء پر چھوڑا گیا

اب وقت بہت کم رہ گیا ہے ۔ ہمیں اپنے دماغ سے غیرملکی چِپ [chip] نکال کر اپنے اصل دماغ سے سوچنا شروع کرنا ہو گا
اگر ہم اپنے آپ کو اور اپنی اگلی نسلوں کو بچانا چاہتے ہیں تو ہمیں ابھی سے خود محنت سے کام کرنا ہو گا ۔ اپنے دماغ سے سوچنا ہو گا اور اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا ہو گا

زرداری افتخار چوہدری اور ڈوگر ۔ ہوشیار کون ؟ آخری قسط

15 فروری 2008ء کو آصف زرداری نے اپنی آئینی پٹیشن سندھ ہائی کورٹ میں پیش کی جس میں وفاقی حکومت اور نیب سے کہا گیا تھا کہ این آر او کے تحت ان کے خلاف درج تمام کیسز واپس لیے جانے کے احکامات کا فائدہ انہیں دیا جائے۔ 18 فروری کو انتخابات منعقد ہوئے اور27 فروری کو ڈوگر نے تمام ماتحت عدالتوں کو احکامات جاری کیے کہ این آر اوکے تحت انہیں یہ فوائد فراہم کیے جائیں۔ 28 فروری کو سپریم کورٹ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے سندھ ہائی کورٹ نے متعلقہ ہدایت نیب اور وفاقی حکومت کو جاری کردی۔اسی دوران زرداری نے نواز شریف سے کئی ملاقاتیں کیں اور محض پی سی او ججزکو دباؤ میں رکھنے کے لیے9 مارچ 2008ء کو مشہور زمانہ معاہدہٴ مری کیا۔ اس معاہدے کے تحت چیف جسٹس آف پاکستان کو تیس روز میں بحال کرنے کا وعدہ کیا گیا۔ درحقیقت تیس روزکے اندر بحالی کا مطالبہ قوم سے وعدہ نہیں بلکہ پی سی او ججزکے لیے ایک ڈیڈ لائن تھی

میثاقِ مری ہونے کے چار روز بعد12 مارچ 2008ء کو ایس جی ایس کوٹیکناکیس ختم کردیا گیا۔ یہ وہی کیس تھا جس میں سپریم کورٹ نے 6 اپریل2001ء کو جسٹس ملک قیوم نے آصف زرداری اور بے نظیر بھٹو پر فرد جرم عائدکی تھی اورکیس دوبارہ سماعت کے لیے احتساب عدالت نمبر 3 راولپنڈی میں چلاگیا تھا۔میثاق مری پر دستخط کے چھ روز بعد 14 مارچ 2008ء کو احتساب عدالت نمبر 3 راولپنڈی نے آصف زرداری کے وکیل فاروق ایچ نائک اور وکیل استغاثہ دانشور ملک کی رضا مندی سے آصف علی زرداری کو بی ایم ڈبلیوکیس سے بری کردیا

پریزائیڈنگ جج صغیر احمد قادری نے اپنے حکم میں یہ بات زور دے کرکہی کہ چوں کہ یہ کیس این آر او کے دائرہ کار سے باہر ہے اس لیے بری کرنے کا یہ فیصلہ عام قانون کے مطابق کیا جاتا ہے۔دل چسپ بات یہ ہے کہ یہ وہی کیس ہے جس کی سماعت کے بعد آصف زرداری کے وکیل اعتزاز احسن نے اعتراضات اٹھائے تھے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری پر مشتمل سپریم کورٹ کی فل بنچ نے آصف زرداری کی ضمانت منظورکی تھی جس کے نتیجے میں ان کی رہائی عمل میں آئی تھی۔ رہائی کے بعد وہ پاکستان سے چلے گئے تھے اور جب وہ واپس لوٹے تو افتخار محمد چوہدری معزول ہوچکے تھے اور اپنے بچوں کے ساتھ گھر میں نظربند تھے

پی سی او ججز اور ان کے ماتحت ججز کی تعیناتی کے دوران ہی میثاق مری کے چند روز بعد ہی آصف زرداری کے وکیل شہادت اعوان نے سندھ ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائرکی جس میں استدعا کی گئی تھی کہ آصف زرداری کو جسٹس نظام اور ان کے بیٹے کے دہرے قتل کے مقدمے میں رہا کیا جائے۔24 مارچ 2008ء کو ایک اور پی سی او جج صوفیہ لطیف نے اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر نعمت علی رندھاوا کی رضا مندی سے آصف زرداری کو بری کردیا۔ اس بار بھی اس فیصلے کا تعلق این آر او سے نہیں تھا

8 اپریل2008ء کو میثاق مری میں دی گئی تیس روزہ ڈیڈ لائن سے صرف ایک روز قبل سندھ ہائی کورٹ کے ایک اور پی سی او جج پیر علی شاہ نے آصف زرداری کو مرتضیٰ بھٹو قتل کیس سے بھی بری کردیا، اس بار بھی اس فیصلے کا این آر او سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
9 اپریل2008ء کو میثاق مری میں دی گئی تیس روزہ ڈیڈ لائن ختم ہونے کے بعد آصف زرداری نے نواز شریف سے معاہدے پر عمل درآمدکے لیے مزید10 روزکا وقت حاصل کیا۔نواز شریف اور ان کے وکلا نے جب اس تاخیرکی وجوہات جاننے کی کوشش کی تو15 اپریل2008ء کو زرداری کے وکیل یوسف لغاری نے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج حیدر آباد کی عدالت میں ایک درخواست پیش کی جس میں کہا گیا تھا کہ ان کے موکل کو مشہور زمانہ عالم بلوچ قتل کیس سے بری کیا جائے۔ درخواست پیش کرنے کے صرف ایک روز بعد 16 اپریل2008ء کو عدالت نے آصف زرداری کو بری کردیا

آصف زرداری نے ججوں کی بحالی کے لیے دس روزکا جو مزید وقت طلب کیا تھا اس کے ختم ہونے کے بعد نواز شریف نے جو اسلام آباد میں انتظار کر رہے تھے، انہوں نے عدلیہ کی بحالی کے لیے دبئی میں بات چیت کا ایک اور دور مکمل کرلیا۔ اس وقت تک پاکستان میں ہر شخص زرداری کی جانب سے ججوں کی بحالی کے حوالے سے تاخیر کی اصل وجوہات کے حوالے سے کنفیوز تھا۔ دبئی میں کئی طویل اجلاسوں کے بعد جن کی خبریں اخبارات میں بھی شائع ہوتی رہیں، 9 اور 10 مئی 2008ء کو نواز شریف اور زرداری کے درمیان لندن میں مزید مذاکرات ہوئے۔ اس دوران پیپلزپارٹی کے رہنماؤں نے ہر قسم کی تاویلات کا سلسلہ شروع کردیا تھا، کیوں کہ جو عدلیہ بحال نہیں ہوئی تھی اس کے حوالے سے دعویٰ کیا جا رہا تھا کہ آئین میں ترمیم کی جائے تاکہ اس دستاویز (پی سی او) کے قانونی اثر و رسوخ کی راہ ہموارکی جائے جو عوام کے ایک حقیقی خادم کے دستخط کے ساتھ جاری ہوئی تھی

13 مئی2008ء کو سندھ ہائی کورٹ کے ایک اور پی سی او جج بن یامین نے آصف زرداری اور برطانیہ میں پاکستان کے موجودہ ہائی کمشنر واجد شمس الحسن کو اس کرمنل کیس سے بری کردیا جس میں ان پر نادر تصاویر‘ نوادرات اور دیگر ممنوعہ اشیاء کے آٹھ کریٹ کسی بھی قسم کی کسٹمز ڈیوٹی ادا کیے بغیر پی آئی اے کے ذریعے سرے محل اسمگل کرنے کا الزام لگایا گیا تھا اور اس حکم کی بنیاد بھی این آر او پر نہیں تھی۔ جہاں تک ملک قیوم کے اٹارنی جنرل کے عہدے پر برقرار رہنے کا تعلق ہے تو اس موقع پر اس بات کا ذکر مناسب لگتا ہے کہ ملزم کے دونوں وکلا اور اٹارنی جنرل کا تعلق پاکستان پیپلزپارٹی سے تھا۔ ملک قیوم اور ان کے ماتحت ڈپٹی اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ نے جب اپنے موکل کو تمام درخواستوں میں بری کرنے کا فریضہ انجام دے لیا تو ملک قیوم کو فوری طور پر تبدیل کرکے لطیف کھوسہ کو نیا اٹارنی جنرل مقررکردیا گیا۔ اس وقت تک این آر اوکی بنیاد پر یا غیرمحفوظ اور پریشان پی سی او ججزکے ذریعے جو بھی فوائد حاصل کیے گئے اس کے نتیجے میں آصف زرداری اب تمام کرمنل کیسسز سے آزاد تھے مگر اب بھی ایک مشکل درپیش تھی۔ آصف زرداری کے استاد جنرل مشرف کرسی ٴ صدارت پر براجمان تھے ان کے این آر او اور مدد اور آشیرواد کے بغیر زرداری تمام کرمنل کیسز سے بری نہیں ہوسکتے تھے۔ آخری کیس میں بری ہونے تک آصف زرداری نے مشرف کی مذمت نہیں کی لیکن اب انہیں ایک خالی ایوان صدرکی ضرورت تھی۔ یہی وجہ تھی کہ7 اگست 2008ء کو آصف زرداری نے نواز شریف کے ساتھ ایک اور معاہدہ کیا کہ اگر نواز شریف ڈکٹیٹرکو ہٹانے میں تعاون کرتے ہیں تو پیپلزپارٹی عدلیہ کو مشرف کے محاسبے کے 72 گھنٹے کے اندر بحال کردے گی۔ نواز شریف ایک بار پھر جال میں پھنس گئے اور اپنے آپ کو استعمال کرنے کی اجازت دے دی۔ معاہدے پر دستخط ہوگئے مگر 18 اگست 2008ء کے بعد جبکہ جنرل مشرف دونوں فریقوں کی جانب سے دی گئی ڈیڈ لائن کی وجہ سے زبردست دباؤ میں تھے، انہوں نے اپنا استعفیٰ پیش کردیا۔ زرداری نے اپنے وعدے پورے کرنے سے انحراف کیا اور اس کی بجائے پاکستان کا صدر بننے کی کوششیں شروع کردیں‘ اب پاکستان مسلم لیگ (ن) نے محسوس کیا کہ انہیں کس طرح استعمال کیا گیا ہے۔ دوسری جانب زرداری نے یہ کہہ کر الزام تراشیوں کا سلسلہ شروع کردیا کہ وعدے اور معاہدے کوئی قرآن و حدیث نہیں ہیں۔ اس کے بعدکیا ہوا، اس سے سب واقف ہیں

31 جولائی 2009ء کو اپنے تفیصیلی فیصلے میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے ان تمام قانونی نکات پر مکمل اور جامع اظہار خیال کیا ہے جو میں نے ریویو پٹیشنز اور اپنے عزیز دوست ایڈووکیٹ ندیم احمدکی جانب سے اٹھائے تھے۔ معزز عدالت نے اس حوالے سے شک و شبہے کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑی کہ پی سی او ایک غیر اہم اور بے مقصد معاملہ ہے اور اس کے کوئی قانونی اثرات بھی مرتب نہیں ہوئے اور یہ کہ سپریم کورٹ سمیت کسی بھی ادارے کو یہ اختیار نہیں کہ وہ 120 دن سے زیادہ کی توسیع کرکے ایک آرڈیننس کو آئین کے آرٹیکل89 کے تحت اسے مستقل حیثیت دے سکے۔ دیگر الفاظ میں سپریم کورٹ کسی قانونی ادرے کو یہ حق دینے کو تیار نہیں کہ این آر اوکو 120 دن سے زیادہ مستقل حیثیت دینے کوتیار نہیں، اس کے بعد آئین کے آرٹیکل89 کے تحت اسے تبدیل کرنے کی ضرورت ہوگی۔ آزاد پارلیمنٹ کو یہ قانونی خلا پُرکرنے کا موقع دیاجانا چاہیے۔ انہیں اپنے رہنماؤں کو مقدمات سے بچانے کا انتظام کرنا چاہیے اور اس حوالے سے قوم کو فیصلہ کرنے کا حق ملنا چاہیے ۔دریں اثناء سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے کے نتیجے میں خاص طو ر پر پیرا نمبر 179‘ 184‘185‘ 186‘ 187اور 188 کے مطابق این آر اوکو اس کے اجراء کی تاریخ 2 فروری 2008ء کے 120 دن بعدکالعدم سمجھا جانا چاہیے۔ اس تاریخ کے بعدکوئی بھی شخص اس سے فائدہ حاصل نہیں کرسکتا، تاہم سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق اب جب کہ این آر او 2 فروری 2008ء کے بعد موٴثر نہیں رہا تو پاکستان کی تمام عدالتوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ بری کیے جانے والے تمام مقدمات کا ازسر نو جائزہ لیں، خاص طور پر وہ مقدمات جن کی بنیاد این آر او پر ہے

مندرجہ بالا تمام حقائق حیرت ناک اور افسوسناک ہیں۔ ان کی روشنی میں ہماری قوم اور ملک کے حوالے سے کئی سنگین نوعیت کے سوالات جنم لیتے ہیں۔ ان سوالات کے جوابات ہمارے موجودہ جمہوری اداروں کو تلاش کرنے چاہئیں آخر ایک شخص واحد جس کی ترجیحات ڈھکی چھپی نہیں ہیں، آخر وہ پاکستان کی سب سے مقبول رہنما کی شہادت کے دہرے قومی سانحہ سے فائدہ اٹھانے میں کس طرح کامیاب ہوا اور اس نے ججوں پرکس طرح مسلسل دباؤ ڈالے رکھا جب کہ وہ قومی اسمبلی کی صرف ایک نشست سے کامیاب ہوا تھا۔ اس نے کتنی آسانی سے جنرل مشرف، نام نہاد اسٹیبلشمنٹ، سب سے بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کو بے وقوف بنایا، ا نہیں اپنے مقاصدکے سامنے جھکنے اور صرف اپنے ذاتی مقاصد اور فوائد کے لیے اندھا دھند اپنی تقلیدکرنے پر مجبورکیا

برناڈ شا نے بادشاہوں کی تقلید کرنے کے حوالے سے وارننگ دی تھی جو آخرکار عدم تحفظ کی وجہ سے نقصان نہیں اٹھاتے اور جو عام طور پر اچھے اوصاف رکھنے والے اور نقصان نہ پہنچانے والے لوگ ہوتے ہیں اور جو ایک ایسی جمہوریت کے خواب دیکھتے رہتے ہیں جن میں معاشرے کو دیگر بااثر افرادکے رحم وکرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ برناڈ شا نے ایسے افراد کو ترغیب دینے والے قرار دیا ہے اس کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ فاتح ولیم انگلستان میں ایک بے اصول شخص تھا، وہ پورے انگلستان کو ہضم کرنا چاہتا تھا اس نے اپنی ذاتی صلاحیتوں کی بنیاد پر انگلستان کے عوام کی خواہش کے برخلاف اپنا یہ مقصد حاصل کیا کیوں کہ اس میں وہ تمام صفات موجود تھیں جو ایک شخص کو بے اصول ثابت کرتی ہیں،کیوں کہ اس میں ایک وحشی حکمراں کی تمام خوبیاں موجود تھیں۔ وہ ایک سیاسی جینئس تھا اسے اس بات کی کوئی پروا نہیں تھی کہ فرانس اور انگلستان میں کوئی کیا کہتا ہے۔ ہم ایسے شخص کوکیا کہہ سکتے ہیں

آصف علی زرداری جن طور طریقوں سے اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں کہ صرف چھ ماہ کے عرصے میں پاکستان سے باہر مقیم سب سے بڑا ملزم انتخاب لڑتا ہے اور 6 ستمبر 2008ء کے انتخابات میں کامیابی کے بعد پاکستان کے سب سے باوقار عہدے پر فائز ہوتا ہے۔ اس کے نتیجے میں صدر پاکستان کی حیثیت سے ان کے انتخاب کے حوالے سے کئی سنجیدہ سوالات بھی جنم لیتے ہیں

تحریر ۔ اکرم شیخ ۔ ایڈووکیٹ سپریم کورٹ ۔ بشکریہ ۔ جنگ

اب سمجھ آئی امریکہ کیسے دریافت ہوا تھا

مجھے ایک کارٹون یاد آ گیا ہے جو میں نے رسالہ تعلیم و تربیت میں اُن دنوں دیکھا تھا جب میں آٹھویں جماعت میں پڑھتا تھا [1951ء]
ماں بچے سے ” بولنے سے پہلے سوچ لیا کرو”
بچہ ماں سے”ماں ۔ اور سوچنے سے پہلے ؟”
ماں ” یہ سوچا کرو کہ سوچنا چاہیئے یا نہیں ”

میں نے یکم جولائی 2009ء کو تمام قارئین کی خدمت میں ایک تحریر پیش کی تھی جس میں نے گوگل کا ربط دیا تھا ۔ اس کا پہلا فقرہ ملاحظہ ہو

میں مخاطب ہوں اُن قارئین و قاریات سے جن کے کمپیوٹر پر اُردو نصب [install] نہیں ہے یا اُن کے کمپیوٹر کا کلیدی تختہ [keyboard] اُردو نہیں لکھتا اس لئے پریشانی اُٹھانا پڑتی ہے یا وہ مجبور ہو کر انگریزی حروف [English letters] میں اُردو لکھتے ہیں جسے رومن اُردو [Roman Urdu] بھی کہا جاتا ہے ۔ آپ سب کی مُشکل اللہ نے آسان کر دی ہے ۔ آپ مندرجہ ذیل ربط کو اپنے پاس محفوظ کر لیجئے

اس پر شاید صرف 4 قارئین [ منیر عباسی ۔ سعود اور احمد صاحبان اور شاہدہ اکرم صاحبہ] سوا کسی نے توجہ نہ دی چنانچہ چند ہفتوں کے وقفہ سے کچھ حضرات نے باری باری اسے دریافت کر کے قارئین کو آگاہ کیا

ہماری فوج کے “القاعدہ عمومی” پر “کرائے کے قاتلوں” کی طالبان کے تخیّلی اور فوج کے ظاہری بہروپ میں یلغار ایک افسوسناک واقع ہے کیونکہ اس میں ہمارے 11 محبِ وطن کام آئے ۔ اس کے ساتھ ہی یہ ہمارے لئے فخر کی بات ہونا چاہیئے کہ ہمارے ملک کے پاسبانوں نے اپنی جانیں قربان کر کے اپنا فرضِ منصبی احسن طریقہ سے انجام دیا ۔ میں نے انگریزی کے لفظ “جنرل ہیڈ کوارٹر” کا ترجمہ “القاعدہ عمومی” اس لئے کیا ہے کہ اس عام سے بے ضرر لفظ کو مسلم دُشمن دنیا نے اپنے ذرائع ابلاغ کے زور سے سفّاک مُجرم بنا کے رکھ دیا ہے

ماضی کی طرح حملہ کی خبر نکلتے ہیں “طالبان” “طالبان” کا شور اُٹھا اور کْرّہ ارض پر چھا گیا ۔ امریکہ اور یورپ والے بھی جانتے ہیں مگر میرے ہموطنوں میں سے کون ہے جو طُلباء یا طالبان کا مطلب نہیں جانتا ؟ یہ الگ بات ہے کہ دورِ حاضر کے باعِلم ہموطن آجکل “طلباء” کو “طلبہ” لکھتے ہیں

آمدن برسرِ مطلب [ماضی میں اعتراض ہوا تھا کہ آمدم ہونا چاہیئے۔ آمدم کا مطلب ہے “ہم آئے” يعنی ایک سے زیادہ لوگ آئے ۔ دوسرے یہ ماضی کا صیغہ ہے اور آمدن بسرِ مطلب کے معنی ہیں “آنا مطلب کی طرف”] ۔ دورِ حاضر میں “طالبان” نام دیا گیا ہے دینی مدارس کے فارغ التحصیل کو اور فرض کر لیا گیا ہے کہ دینی مدارس کے فارغ التحصیل جاہل اور دہشتگرد ہوتے ہیں ۔ اگر یہ تشریح جو بے بنیاد ہے کو مان بھی لیا جائے تو جو شخص کبھی دینی مدرسہ گیا ہی نہ ہو وہ کیسے طالبان ہو گیا ؟ ایک اور بھی اصطلاح ہے دورِ حاضر کے سندیافتہ لوگوں کی جس میں پی ایچ ڈی بھی شامل ہیں کہ پاکستان کے پختون قبائلی دہشتگرد ہیں ۔ کوئی بھی واقعہ ہو اسے اُن سے جوڑنے میں تاخیر کو شاید حرام سمجھا جاتا ہے ۔ آج تک کسی نے سوچنے کی زحمت نہیں کی کہ واردات کرنے والوں کی پہچان کیا ہے ۔ بس ایک اعلان آتا ہے طالبان نے اس کی ذمہ داری قبول کر لی ۔ سب کو تسلی ہو گئی اور پھر استراحت فرمانے لگے یا ضیافتیں اُڑانے لگے ۔ ذمہ داری قبول کرنے والا درحقیقت کون ہے اور اُس کا آقا کون ہے ؟ اس سے ہمیں کوئی سروکار نہیں ہمیں صرف ایک بیان چاہیئے ہوتا ہے

سب سے پہلا حملہ پاکستان کی سپاہ پر پرویز مشرف کے زمانہ میں ہوا تھا ۔ اُس کے ردِ عمل میں کاروائی کی گئی تو 9 حملہ آور مارے گئے ۔ وہ نہ مسلمان تھے نہ یہودی کیونکہ اُن کے ختنے نہیں ہوئے تھے اور قبائلیوں نے انہیں نہلانے اور دفن کرنے سے انکار کر دیا تھا ۔ اس بات کو سختی سے دبا دیا گیا ۔ اور آج تک بار بار حقائق کو دبا کر تمام گندگی طالبان اور القاعدہ کے ناموں پر گرائی جا رہی ہے ۔ اور ايسا کرنے پر میرے بہت سے پڑھے لکھے ہموطن جن میں کچھ بلاگر اور میرے قارئین بھی ہیں فاتحانہ انداز اختیار کرتے ہیں

یہ حقیقت ثابت شدہ ہے کہ لاہور میں سری لنکا کے کھلاڑیوں اور اب جی ایچ کیو پر حملہ دونوں کمانڈو حملے تھے اور ان دونوں میں تمام تر دعووں کے باوجود نہ کوئی پختون قبائلی تھا نہ طالبان ۔ غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق ان کا تعلق پنجاب ۔ سرحد [قبائلی علاقہ نہیں] اور سندھ سے ہے

یقین

بِلُو بِلا صاحب نے “کرتوتوں کی سزا” کے عنوان کے تحت ایک رکشا والے کی بات بیان کی تو مجھے ایک اپنا آنکھوں دیکھا واقعہ یاد آیا لیکن پہلے میں یہ بتا دوں کہ یقین کسے کہتے ہیں ۔ یقین یا ایمان ایک ہی عمل کے دو نام ہیں ۔ آج دنیا کی آبادی کا چوتھا حصہ مسلمان ہیں مگر بے کس اور مجبور ۔ ہر مسلمان دعوٰی کرتا ہے کہ وہ اللہ پر ایمان رکھتا ہے ۔ حقیقت میں یہ بات بھاری اکثریت کے صرف ہونٹوں یا زیادہ سے زیادہ زبان کی نوک سے آگے اندر نہیں جاتی ۔ دل و دماغ میں یقین غیراللہ پر ہوتا ہے ۔ ورنہ کیا وجہ ہے کہ مسلمان اللہ پر یقین رکھتے ہوئے اللہ کی مدد کیلئے پکارے اور مدد نہ آئے

جو ہو ذوقِ یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں

آدھی صدی کے قریب پرانا واقعہ ہے ۔بارشں نہیں ہو رہی تھی ۔ محکمہ موسمیات کے مطابق کئی دن تک بارش کے کوئی آثار نہ تھے ۔ خشک سالی کا اندیشہ تھا جس کا نتیجہ قحط ہو سکتا تھا ۔ راولپنڈی کی مساجد میں نمازِ استسقاء ادا کرنے کا اعلان کیا گیا ۔ بتایا گیا کہ شہر سے باہر پیدل جا کر پڑھی جائے گی ۔ ایک اجتماع ہیلی واٹر ورکس جو بعد میں کالی ٹینکی کے نام سے موسوم ہوا کے قریب اور دوسرا ٹوپی رکھ میں جو بعد میں ایوب نیشنل پارک کے نام سے موسوم ہوئی ۔ یہ راولپنڈی کی دو اطراف تھیں آبادی سے باہر ۔ مرد اور لڑکے جوق در جوق گھروں سے نکلے ۔ اس وقت کے صدر اور مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل ایوب خان بھی ٹوپی رکھ پہنچے ۔ میں دوسروی طرف یعنی ہیلی واٹر ورکس کی طرف گیا ۔ وہاں اتنے لوگ تھے کہ دور دور تک زمین نظر نہ آتی تھی ۔ نہ کوئی لاؤڈ سپیکر تھا اور نہ کوئی صف بچھی تھی ۔ کرتار پورہ کی بڑی مسجد کے خطیب مولوی عبدالحکیم صاحب جو ہمارے سکول میں اُستاذ رہ چکے تھے اور بعد میں رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے نے امامت کرائی ۔ نماز کے بعد دعا شروع ہوئی ۔ اتنی خاموشی تھی اور اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کی قدرت کہ دور دور تک آواز سنائی دی ۔ امام رو رہے تھے اور مقتدی بھی سسکیاں لینے لگے ۔ نہ ہمیں وقت کا احساس ہوا نہ پتہ چلا کہ کب بادل آئے ۔ دعا ختم ہونے پر گھروں کا رُخ کیا ۔ ابھی تھوڑا ہی چلے تھے کہ بارش شروع ہو گئی گھر پہنچنے تک تیز بارش شروع ہو چکی تھی

سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے زمانہ میں بھی نمازِ استسقاء پڑھی گۓي تھی مگر ایوانِ صدر میں اور مساجد میں ۔ نہ کوئی گڑگڑایا نہ کسی نے آنسو بہائے اور بادل بھی شاید دور قہقہے لگاتے رہے ہوں مگر قریب نہ آئے ۔ ايوب خان بھی جنرل اور صدر تھا اور پرویز مسرف بھی جنرل اور صدر لیکن فرق واضح ہے

تربیت

خاور صاحب نے اپنے مخصوص انداز میں تعلیم و تربیت کی بات کرتے ہوئے لکھا کہ تعلیم کے فروخت مراکز تو کھُل چُکے ہیں اور والدین اپنی اولاد کیلئے تعلیم خرید رہے ہیں مگر تربیت کہاں سے آئے کہ تربیت کے فروخت مراکز ابھی نہیں کھُلے ۔ اس پر مجھے یاد آیا وہ وقت جسے عصرِ حاضر کے جدید تعلیم یافتہ لوگ شاید دورِ جاہلیت کہتے ہوں کہ روشن خیالی نام کی صفت اُس زمانے میں ایجاد نہ ہوئی تھی

ہر سکول و کالج میں خواہ وہ راولپنڈی میں تھا یا لاہور میں ۔ ملتان میں تھا یا اٹک میں روزانہ سکول یا کالج کی پڑھائی کا وقت شروع ہونے سے ایک گھنٹہ پہلے میدان میں جسمانی تربیت [P.T=Physical training] ہوتی تھی ۔ جس طالب علم کی جسمانی تربیت کی حاضریاں 70 فیصد سے کم ہو ں وہ سالانہ امتحان نہیں دے سکتا تھا ۔ اگر وہ روزانہ کی جسمانی تربیت سے بچنا چاہتا تو صرف ایک طریقہ تھا کہ روزانہ عصر کے بعد ایک گھنٹہ کیلئے ہاکی یا فٹ بال کھیلے اور اپنا نام متعلقہ ٹیم میں درج کرائے

ہر سکول یا کالج میں ہفتہ میں ایک بار اخلاقی تربیت کا سبق بھی ہوا کرتا تھا ۔ اس کے علاوہ بھی گاہے بگاہے اساتذہ موقع پا کر اخلاقی تربیت کا اہتمام کرتے رہتے تھے

پھر ایک دور آيا [عوامی دور] جس میں سب کچھ عوامی قرار دیا گیا مگر ہوتا وہ شاہی گیا ۔ تمام سکول و کالج قومیا لئے گئے اور وہاں پر اپنے من پسند لوگ تعینات کئے گئے ۔ مالدار لوگوں کے بچوں کی درسگاہیں الگ اور عام لوگوں کے بچوں کی الگ ہونا شروع ہوئیں ۔ پيسے والوں کے بچوں نے کلرکوں کچھ دے دلا کر اپنی حاضریاں لگوانی شروع کر دیں ۔ جسمانی تربیت صرف غریبوں کے بچوں کا مقدر بن کے رہ گئی ۔ ايک طرف بڑے لوگوں کے بچوں کیلئے انگریزی ناموں والے سکول کھلنے لگے جن میں میدان تھا ہی نہیں کہ جسمانی تربیت ہوتی ۔ کچھ میرے جیسے لوگوں نے شور مچایا تو جسمانی تربیت کو نصاب سے ہی باہر کر دیا گیا

اخلاقی تربیت ایسے غیرمحسوس طریقہ سے غائب کی گئی کہ کسی کو پتہ ہی نہ چلا