Category Archives: طور طريقہ

نیا پاکستان بمقابلہ پرانا پاکستان

جون 2018ء سے پہلے کا یعنی پرانا پاکستان
بمقابلہ عمران خان کا نیا پاکستان

پرانا پاکستان
یہ میرا پاکستان ہے ۔ یہ تیرا پاکستان ہے
اس پر دل قربان ۔ اِس پہ جان بھی قربان ہے

نیا پاکستان
یہ نہ میرا پاکستان ہے ۔ نہ تیرا پاکستان ہے
یہ اسکا پاکستان ہے جو وزیر اعظم پاکستان ہے

پرانا پاکستان
یہ وطن ہمارا ہے اسے ہم نے سنوارا ہے
اس کا ہر اک ذرّہ ہمیں جان سے پیارا ہے

نیا پاکستان
یہ وطن ہمارا ہے جسے ہم نے بگاڑا ہے
اسکا ہرذرّہ اب آئی ایم ایف سےاُدھارا ہے

پرانا پاکستان
اس چمن کے پھولوں پر رنگ و آب تم سے ہے
اس زمیں کا ہر ذرہ آفتاب تم سے ہے

نیا پاکستان
اس چمن کے پھولوں پر رنگ و آب مجھ سے ہے
اس کی زمین کا ہر ذرہ آفتاب مجھ سے ہے
(مجھ یعنی وزیر اعظم)

یومِ یکجہتیءِ کشمیر کیوں اور کیسے

آج یومِ یکجہتیءِ کشمیر ہے ۔ یہ دن پہلی مرتبہ 5 فروری 1990 کو منایا گیا ۔ جموں کشمیر کے مسلمانوں کی آزادی کے لئے دوسری مسلح جدوجہد 1989 میں شروع ہوئی ۔ اس تحریک کا آغاز کسی منصوبہ بندی کا نتیجہ نہیں تھا اور نہ ہی یہ کسی باہر کے عنصر کی ایما پر شروع کی گئی تھی ۔بھارتی سکیورٹی فورسز کے ہر دن کے مظالم سے مقبوضہ جموں کشمیر کے مسلمان تنگ آ چکے تھے اور سب سے مایوس ہونے کے بعد پاکستان سے بھی مایوسی ہی ملی – بےنظیر بھٹو نے 1988 میں حکومت سنبھالتے ہی بھارت سے دوستی کی خاطر نہ صرف جموں کشمیر کے مسلمانوں کے ساتھ دغا کیا بلکہ بھارت کے ظلم و ستم کے باعث سرحد پار کر کے پاکستان آنے والے بے خانماں کشمیریوں کی امداد بند کر دی ۔ اِس صورتِ حال کے پیشِ نظر پاکستان کی چند سیاسی جماعتوں نے جن میں جماعتِ اسلامی پیش پیش تھی جموں کشمیر کے عوام کے ساتھ ہمدردی کے اِظہار کے لئے 5 فروری 1990 کو یومِ یکجہتیءِ کشمیر منانے کا فیصلہ کیا جو اُس وقت کی حکومت کی مخالفت کے باوجود عوام نے بڑے جوش و خروش سے منایا ۔
اہل کشمیر سے یکجہتی کا اظہار محض روایتی نوعیت کی اخلاقی ہمدردی کا مسئلہ نہیں، کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور اسی اہمیت کی وجہ سے برطانوی حکومت نے 1947 میں پاکستان اور بھارت کی آزاد مملکتوں کے قیام کے ساتھ ہی پوری منصوبہ بندی کے تحت یہ مسئلہ پیدا کیا۔ قیام پاکستان کے بعد کوئی ایسی دشواری نہیں تھی جو برطانوی حکومت اور برصغیر میں اس کے آخری وائسرائے نے ہمارے لئے پیدا نہ کی ہو اور سب سے زیادہ کاری ضرب جو پاکستان پر لگائی جاسکتی تھی وہ مسئلہ کشمیر کی صورت میں لگائی گئی۔ کشمیر کا مسئلہ دو مملکتوں کے درمیان کسی سرحدی تنازع کا معاملہ نہیں بلکہ کشمیریوں کی ”حق خودارادیت“ کی جدوجہد پاکستان کی بقا کی جنگ ہے ۔ کشمیر کا مسئلہ برطانوی حکومت نے پیدا کرایا ۔ وہ برصغیر سے جاتے جاتے کشمیر کو بھارت کی جارحیت کے سپرد کر گئے اور اس سروے میں مِڈل مَین کا کردار برصغیر میں برطانیہ کے آخری وائسرائے اور آزاد بھارت کے پہلے گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے ادا کیا جس کا مقصد یہ تھا کہ اسلام کے نام پر قائم ہونے والی اس مملکت کے جسم پر ایک ناسور بنا دیا جائے اور اُس کے بعد بھارت محض اسلحہ کی طاقت کے زور پر کشمیریوں پر اپنی بالادستی قائم رکھے ہوئے ہے ۔
قوموں کی زندگی میں ایک وقت فیصلہ کا آتا ہے کہ “جھُکے سر کے ساتھ چند روز عیش قبول کرلیں” یا “سرفروشی کے ساتھ سرفرازی کی راہ اپنائیں”۔ جَبَر کرنے والے اذِیّتوں سے اور موت سے ڈراتے ہیں۔ اِیمانی توانائی موت سے نبرُد آزما ہونے کی جرأت عطا کرتی ہے۔ موت میں خوف نہیں ہوتا بکہ لذت ہوتی ہے اور جذبہءِ ایمانی کا کَیف اس لذّت کو نِکھارتا ہے۔ اہل کشمیر اب اس لذّت سے سرشار ہو چکے ہیں ۔ یہ اللہ کا کرم ہے اہل کشمیر پر اور اہل پاکستان پر بھی ۔ اہل کشمیر صرف کشمیرکیلئے حق خودارادیت کی جنگ نہیں لڑ رہے ہیں وہ پاکستان کے استحکام کی جنگ بھی لڑ رہے ہیں۔ حُرِیّت کی داستانیں اِسی طرح رَقَم ہوتی ہیں۔ بھارت کی جارحانہ طاقت اس جذبے کا مقابلہ کب تک کرے گی ۔ بھارتی فوج پوری طرح مسلح ہے لیکن وہ انسانی قدروں سے نہ صرف محروم بلکہ ان سے متصادم ہے اس لئے ناکامی اس کا مقدر ہے ۔ بھارت کشمیریوں کی حق خودارادیت کے حصول کی جنگ کو ”دہشت گردی“ کہتا جبکہ خود بھارت انسانیت کو پامال کر رہا ہے ۔

ثقافت اور کامیابی

ثقافت کا غوغا تو بہت لوگ کرتے ہیں لیکن ان کی اکثریت نہیں جانتی کہ ثقافت ہوتا کیا ہے اور نہ کسی کو معلوم ہے کہ ہماری قدیم تو بہت دُور کی بات ہے ایک صدی قبل کیا ثقافت تھی ۔ کہتے ہیں ۔ ۔ ۔
1 ۔ خوائص یا خصوصیات جو کسی شخص میں اس فکر یا تاسف سے پیدا ہوتی ہے کہ بہترین سلوک ۔ علم و ادب ۔ ہُنر ۔ فَن ۔ محققانہ سعی کیا ہیں
2 ۔ وہ جو علم و ادب اور سلوک میں بہترین ہے
3 ۔ ایک قوم یا دور کے تمدن ۔ تہذیب یا شائستگی کی شکل
4 ۔ دماغ کی تعلیم و تربیت کے ذریعہ ترقی ۔ نشو و نما ۔ تکمیل یا اصلاح
5 ۔ کسی گروہ کا ساختہ رہن سہن کا طریقہ جو نسل در نسل چلا ہو
6 ۔ طور طریقہ اور عقائد جو کسی نظریاتی گروہ یا صحبت کی نمایاں صفت ہو
ثقافتی لحاظ سے ساری دنیا کا حال ابتر ہے ۔ جھوٹ ۔ فریب ۔ مکاری ۔ خودغرضی ثقافت بن چکی ہے ۔ خودغرضی میں کوئی جتنا زیادہ دوسرے کو ۔ یا جتنے زیادہ لوگوں کو بیوقوف بنا لے وہ اتنا ہی زیادہ ذہین اور ہوشیار سمجھا جاتا ہے ۔ جدید ثقافت یہ ہے کہ جھوٹ بولتے جاؤ بولتے جاؤ ۔ اگر کوئی 10 فیصد کو بھی مان لے تو بھی پَو بارہ یعنی 100 فیصد فائدہ ہی فائدہ ۔
ہماری موجودہ ثقافت کیا ہے ؟ یہ ایک مُشکل سوال ہے ۔ متذکرہ بالا ثقافت کی 6 صفات میں سے پہلی 5 صفات تو ہمارے ہموطنوں کی اکثریت کے قریب سے بھی نہیں گذریں ۔ البتہ چھٹی تعریف پر ہماری قوم کو پَرکھا جا سکتا ہے یعنی ہمارے ہموطنوں کی اکثریت کے نمایاں طور طریقے اور عقائد کیا ہیں ؟
وہ وعدہ کر لینا جسے ایفاء کرنے کا ارادہ نہ ہو ۔ جھوٹ ۔ غیبت ۔ بہتان تراشی ۔ رشوت دینا یا لینا ۔ خودغرضی کو اپنا حق قرار دینا ۔ اللہ کی بجائے اللہ کی مخلوق یا بے جان (افسر ۔ وڈیرہ ۔ پیر۔ قبر ۔ تعویز دھاگہ) سے رجوع کرنا۔ وغیرہ ۔ ہموطنوں کی اکثریت کے یہ اطوار ہیں جن کو ثقافت کی چھٹی تعریف کے زمرے میں لکھا جا سکتا ہے ۔ اِن خوائص کے مالک لوگوں کی ظاہرہ طور پر ملازمت میں ترقی یا تجارت میں زیادہ مال کمانے کو دیکھ کر لوگ اِن خوائص کو اپناتے چلے گئے اور غیر ارادی طور پر ناقابلِ اعتبار قوم بن گئےہیں ۔
پچھلی چند دہائیوں پر نظر دوڑائی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ثقافت شاید ناچ گانے اور بے حیائی کا نام ہے ۔ اس میں پتگ بازی اور ہندوآنہ رسوم کو بھی ہموطنوں نے شامل کر لیا ہے ۔ شادیاں ہوٹلوں اور شادی ہالوں میں ہوتی ہیں ۔ شریف گھرانوں کی لڑکیوں اور لڑکوں کا قابلِ اعتراض بلکہ فحش گانوں کی دھنوں پر ناچنا شادیوں کا جزوِ لاینفک بن چکا ہے جو کہ کھُلے عام ہوتا ہے ۔
کچھ ایسے بھی ہموطن ہیں جو سمجھتے ہیں کہ اُن کی ثقافت ناچ گانے کے بغیر مکمل نہیں ہوتی ۔ انتہاء یہ ہے کہ وہ لوگ جو اپنی ساری عمر سیدھی راہ کی تبلیغ میں گذار گئے کبھی ناچ گانے کے قریب نہ گئے اُن کی قبروں پر باقاعدہ ناچ گانے کا اہتمام کیا جانا بھی ثقافت کا حصہ بن چکا ہے ۔ اگر اُن نیک لوگوں کی روحیں یہ منظر دیکھ پائیں تو تڑپ تڑپ کر رہ جائیں ۔
اور بہت سے عوامل ہیں جو لکھتے ہوئے بھی مجھے شرم محسوس ہوتی ہے ۔ ان حالات میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ بے حیائی ہماری ثقافت بن چکی ہے ۔ کل کا مؤرخ لکھے گا کہ مسلمان ہونے کے ناطے اپنا ملک حاصل کرنے والے چند ہی دہائیوں کے بعد ہوٹلوں ۔ گھروں اور بازاروں میں اپنے ہی دین کی دھجیاں اُڑاتے رہے اور اتنے کمزور ہو گئے کہ جو چاہتا اُن پر چڑھ دوڑتا ۔
بلا شُبہ ۔ ہموطنوں میں شریف لوگ بھی موجود ہیں جن کی اکثریت ایک جرمن پادری کے قول پر پورا اُترتی ہے جسے ہٹلر کے نازی فوجیوں نے جنگِ عظیم دوم کے دوران قید کر لیا تھا ۔ یہ پادری لکھتا ہے ۔ ۔ ۔
نازی پہلے کمیونسٹوں کو پکڑنے آئے تو میں کچھ نہ بولا کیونکہ میں کمیونسٹ نہ تھا ۔ پھر وہ یہودیوں کو پکڑنے آئے تو میں کچھ نہ بولا کیونکہ میں یہودی نہ تھا ۔ پھر وہ عیسائی کیتھولکس کو گرفتار کرنے آئے تو بھی میں کچھ نہ بولا کیونکہ میں پروٹسٹنٹ تھا ۔ پھر وہ مجھے پکڑنے آئے ۔ مگر اس وقت تک کوئی بولنے والا ہی باقی نہ بچا تھا ۔

آٹھ اہم عمل

احترام [Respect] ۔ دوسروں سے وہی سلوک کرنا جس کی خود توقع رکھتے ہوں

قدر دانی [Appreciation] ۔ زندگی میں جو بھی اچھی چیز ملے اس کیلئے احسان مند ہونا

مسرت [Happiness] ۔ زندگی کے ہر لمحے سے لطف اندوز ہونا یعنی بشاش چہرہ

درگذر [Forgiveness] ۔ ہر موقع پر غصہ پر قابو رکھنا

حصہ دار ہونا [Sharing] ۔ دینے کی خوشی بغیر وصولی کی توقع کے

دیانت [Honesty] ۔ ہر وقت سچ بولنا

سالمیت [Integrity] ۔ خواہ کچھ بھی ہو خالص طور پر صحیح عمل کرنا

ہمدردی [Compassion] ۔ دوسرے کی تکلیف کو محسوس کرتے ہوئے اس کی تکلیف کو کم کرنا

لیاقت علی خان پر بہتان ۔ اور حقیقت ۔ قسط ۔ 2

کچھ لوگ کہتے ہیں “جب نواب آف جونا گڑھ نے پاکستان کے ساتھ الحاق کی صورت میں پاکستان کے تب کے وزیرِ اعظم سے پچاس ہزار بندوقوں کا مطالبہ کیا جو اس وقت پورا کرنا چنداں مشکل نہ تھا مگر نوابزادہ لیاقت علی خان کو یہ بات اس لئے گوارہ نہیں تھی کہ اس طرح پاکستان میں نوابزادہ لیاقت علی خان کے لئے اقتدار و اختیار کو ایک بہت بڑے نواب ( آف جوناگڑھ) کی صورت میں خطرہ لاحق ہو جاتا
اول ۔ یہ بالکل غلط ہے کہ نواب جونا گڑھ نے پچاس ہزار بندوقیں مانگی تھیں ۔ نواب جونا گڑھ کے پاکستان میں شمولیت کا اعلان کرتے ہی بھارت نے اپنی فوج جونا گڑھ میں داخل کر دی اور نواب جونا گڑھ کو مدد مانگنے کی مُہلت نہ ملی
دوم ۔ جونا گڑھ کے بعد جب بھارت نے جموں کشمیر میں زبردستی اپنی فوجیں داخل کر دی تھیں تو قائد اعظم نے پاکستانی افواج کے کمانڈر اِن چِیف جنرل گریسی کو بھارتی افواج کو روکنے کا حُکم دیا تھا ۔ اگر پاکستان کے پاس پچاس ہزار تو کیا اُس وقت دس ہزار رائفلیں بھی ہوتیں تو قائدِ اعظم کے حُکم کی خلاف ورزی کرنے کی بجائے اُس کی تعمیل کر کے جنرل گریسی ایک ہمیش زندہ شخصیت اور صاحب کے تمام پاکستانیوں کا ہِیرو بن جاتا
کچھ لوگ نظامِ حکومت سے بھی بے بہرہ ہیں ۔ حکومت چلانا گورنر جنرل کا کام نہیں تھا بلکہ وزیرِ اعظم کا تھا مگر آج تک کسی نے کوئی ایسی مثال پیش نہیں کی جس سے ثابت ہو کہ شہیدِ ملت نوابزادہ لیاقت علی خان نے کوئی کام قائدِ اعظم سے مشورہ کئے بغیر سرانجام دیا ہو
قائدِ اعظم کو ڈاکٹر کی سخت ہدائت پر زیارت لے جایا گیا تھا ۔ یہ شہیدِ مِلّت نوابزادہ لیاقت علی خان کی سازش نہ تھی ۔ قائد اعظم کے معالجِ خاص کرنل الٰہی بخش کی لکھی کتاب پڑھ لیں
آٹھ سال آئین بننے نہ دینے” کی بات کرتے ہوئے لوگ بھُول جاتے ہیں کہ شہیدِ ملت نوابزادہ لیاقت علی خان کو پاکستان بننے کے چار سال بعد ہلاک کر دیا گیا تھا
مختصر بات یہ ہے کہ آئین اُس وقت کے پاکستان میں موجود آئی سی ایس افسروں (جن میں غلام محمد جو بعد میں غیر ملکی پُشت پناہی سے گورنر جنرل بن بیٹھا تھا بھی شامل تھا) نے نہ بننے دیا ۔ ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ دستور ساز ی کیلئے جو کمیٹی بنائی گئی تھی اس کے ارکان کا بار بار اِدھر اُدھر تبادلہ کردیا جاتا تھا ۔ اُس دور میں ہر افسر کو ٹرین پر سفر کرنا ہوتا تھا ۔ یہاں یہ بھی بتا دوں کہ آئی سی ایس افسران حکومتِ برطانیہ کی پُشت پناہی سے سازشوں کا جال نوابزادہ لیاقت علی کی شہادت سے قبل ہی بُن چُکے تھے

تعلیم بے کار اگر یقین نہ ہو

ہمارے بچپن کے زمانہ میں تعلیم سے زیادہ تربیت پر زور دیا جاتا تھا ۔ والدین اپنی اولاد کو تعلیم نہ دِلوا سکیں لیکن اُن کی تربیت پر توجہ دیتے تھے ۔ جب بھی تعلیم کا ذکر کیا جاتا تو ساتھ تربیت بھی کہا جاتا تھا یعنی تعلیم و تربیت ۔ تعلیم الله کی صفات بتاتی ہے اور تربیت الله میں یقین پیدا کرتی ہے ۔ فی زمانہ تعلیم پر بہت زور ہے اور تربیت کی طرف بہت کم لوگ توجہ دیتے ہیں

میں نے کالج کے زمانہ میں ایک کہانی پڑھی تھی کہ ایک دیہاتی روزانہ فجر کے وقت گاؤں سے روانہ ہو کر شہر جاتا اور واپس مغرب کے وقت پہنچتا ۔ راستہ میں ایک ندی تھی جس کے پانی میں سے وہ گزر کر جاتا تھا ۔ کبھی ندی میں پانی زیادہ ہوتا تو وہ شہر نہ جا سکتا ۔ ندی سے پہلے راستہ میں گاؤں کی مسجد تھی ۔ فجر کے وقت جاتے ہوئے یا مغرب کے وقت واپسی پر امام مسجد سے آمنا سامنا ہو جاتا تو امام مسجد اُسے کہتے ” کبھی الله کے گھر بھی آ جایا کر ۔ یہاں سب کچھ ملتا ہے“۔

ایک صبح جب وہ جاتے ہوئے ندی کے کنارے پہنچا تو ندی چڑھی ہوئی تھی ۔ اُسے واپس آنا پڑا ۔ وہ سیدھا امام مسجد کے پاس گیا اور کہا ” مولوی صاحب آپ نے کہا تھا کہ سب کچھ ملتا ہے ۔ جب ندی میں پانی زیادہ ہوتا ہے تو میں شہر مزدوری کرنے نہیں جا سکتا ۔ میری پریشانی دُور ہو جائے تو میں روزانہ مسجد آیا کروں گا“۔
امام مسجد نے کہا ” بسمِ الله کہہ کر ندی میں کود جاؤ ۔ الله پار لگانے والا ہے“۔
اتفاق کی بات کہ اگلے روز پھر ندی میں طغیانی تھی ۔ اُس نے بِسۡمِ اللهِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ پڑھا ۔ آنکھیں بند کر کے ندی میں کود گیا اور تیرتا ہوا دوسرے کنارے پر جا پہنچا ۔ دِل میں کہنے لگا کہ میں بیوقوف ہوں پہلے مولوی صاحب کے پاس نہ گیا ۔ وہ باقاعدگی سے فجر ۔ مغرب اور عشاء کی نمازیں گاؤں کی مسجد میں اور ظہر اور عصر کی شہر میں پڑھنے لگا

ایک دن وہ شہر سے واپس آ رہا تھا کہ گاؤں کے قریب امام مسجد سے ملاقات ہو گئی ۔ دونوں اکٹھے چلتے ندی کے کنارے پہنچے تو ندی چڑھی ہوئی دیکھ کر امام مسجد رُک گئے اور بولے اب کیا ہو گا ۔ گھر کیسے جائیں گے
وہ بولا ” مولوی صاحب ۔ آپ نے خود ہی تو مجھے طریقہ بتایا تھا ۔ اُس نے بِسۡمِ اللهِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ پڑھا اور ندی میں کود گیا ۔ امام مسجد بھی مجبوراً بِسۡمِ اللهِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ کہہ کر ندی میں کود گئے اور غوطے کھانے لگے ۔ مزدور نے امام مسجد کو غوطے کھاتے دیکھا تو اپنے کندھوں پر اُٹھا لیا اور ندی کے پار لے گیا ۔ کندھوں سے اُتار کر پوچھا ” مولوی صاحب کیا ہوا ؟“
امام مسجد جو شرمندہ تھے بولے ” بات یہ ہے کہ میرے پاس عِلم ہے ۔ میں معنی پر غور کرتا رہا ۔ تمہارے پاس عِلم نہیں مگر الله نے تُجھے یقین کی دولت سے مالا مال کیا ہے“۔

جب اللہ چاہے

یہ واقعہ ایک رسالے میں 2 دہائیاں قبل پڑھا تھا ۔ بطور سچا واقعہ لکھا تھا
رات کے ساڑھے 11 بجے تھے ۔ تیز طوفانی بارش تھی ایسے میں ایک شاہراہ کے کسی ویران حصّے میں ایک کار خراب ہوگئی ۔ اسے ایک ادھڑ عمر خاتون چلا رہی تھی جو اکیلی تھی ۔ وہ خاتون کار سے باہر نکل کر شاہراہ کے کنارے کھڑی ہوگئی تا کہ کسی گذرنے والی گاڑی سے مدد لے سکے ۔

اتفاق سے ایک البیلا جوان اپنی عمدہ نئی کار چلاتے جا رہا تھا کہ اس کی نظر اس بھیگی ہوئی خاتون پر پڑی ۔ نجانے وہ کیوں اپنی عادت کے خلاف رُک گیا اور تیز بارش اور گاڑی گندی ہونے کی پروا کئے بغیر باہر نکل کر خاتون کا بیگ اٹھایا اور خاتون کو اپنی کار میں بٹھا کر چل پڑا ۔ آبادی میں پہنچ کر اسے ٹیکسی پر بٹھا کر رخصت کیا ۔ خاتون بہت پریشان اور جلدی میں تھی ۔ اس جوان کا پتہ نوٹ کیا اور شکریہ کہہ کر رخصت ہوئی ۔

ہفتہ عشرہ بعد اس جوان کے گھر کی گھنٹی بجی ۔ باہر نکلا تو ایک کوریئر کا ٹرک کھڑا تھا اس میں سے ایک شخص نکلا اور کہا “جناب آپ کا ٹی وی “۔ جوان حیران ہو ہی رہا تھا کہ کوریئر والے نے اسے ایک خط دیا ۔ جلدی سے کھولا ۔ لکھا تھا ” میں آپ کی بہت مشکور ہوں ۔ آپ نے آدھی رات کے وقت شاہراہ پر میری مدد کی جس کے باعث میں اپنے قریب المرگ خاوند کے پاس اس کی زندگی میں پہنچ گئی اور اس کی آخری باتیں سن لیں ۔ میں آپ کی ہمیشہ مشکور رہوں گی ۔ اللہ آپ کو ہمیشہ خوش رکھے اور آپ دوسروں کی بے لوث خدمت کرتے رہیں ۔ آمین ۔ آپ کی ممنون ۔ بیگم ۔ ۔ ۔ “