Category Archives: طور طريقہ

وطن ۔ معاشرہ ۔ اور دہشتگردی

ميرا دماغ سُن ہے ۔ پچھلی 2 راتيں سو نہيں سکا ۔ سوچ سوچ کر درد سے سر پھٹا جا رہا ہے ۔ ميرے رب ۔ يہ زمين کيوں نہيں پھٹ جاتی ؟ کيا قيامت آنے سے قبل اس سے زيادہ بھی کچھ ديکھنا باقی ہے ؟

اخروٹ آباد ميں 2 مردوں اور 3 عورتوں جن ميں ايک 7 ماہ کی حاملہ تھی کے محافظينِ عوام کے ہاتھوں بيہيمانہ قتل کی ابتدائی تحقيقات بھی ابھی مکمل نہيں ہوئيں کہ کراچی کے پُر رونق علاقہ ميں ايک نوجوان کو عوام کے محافظين نے نہائت سفّاکی کے ساتھ قتل کر ديا ۔ ميں سوچتا ہوں کہ کلفٹن کا علاقہ جہاں آدھی رات تک گہما گہمی رہتی ہے وہاں مقتول ۔ 6 وردی والوں اور دلير کيمرہ والے کے علاوہ کوئی انسان موجود نہ تھا کہ اس بے بس نوجوان کی جان بچانے کی کوشش کرتا ؟ کيا ميرے سب ہموطن اپنے جسم کے علاوہ کچھ اور سوچنے کے اہل نہيں رہے ؟ اس لحاظ سے تو لاہوری قابلِ تحسين ہيں کہ اُنہوں نے ريمنڈ ڈيوس کو گھير کر پوليس کے حوالے کر ديا تھا ورنہ وہ دو جوانوں کو ہلاک کرنے کے بعد بھاگ گيا ہوتا

اگر کوئی فرد يا ادارہ برائی پھيلاتا ہے تو اس کا يہ مطلب نہ لينا چاہيئے کہ جو کام وہ اچھا کرے اُسے بھی بُرا سمجھ کر اس کی تعريف نہ کی جائے ۔ ہمارے مُلک کے ذرائع ابلاغ بلاشبہ بُرائيوں کے فروغ ميں ممد رہے ہيں مگر دورِ حاضر ميں لائقِ تحسين ہے اِن کا ايک کردار کہ صحافی اپنی جانوں کو خطرہ ميں ڈال کر اور اپنی جانوں کی قربانی دے کر اپنے مُلک کے بے سُدھ عوام کو حقائق تک رسائی دے کر نيند يا نشہ سے جنجوڑنے کی ارادی يا غير ارادی کوشش کر رہے ہيں

ميں پچھلی 4 دہائيوں سے ديکھتا آ رہا ہوں کہ ميرے ہموطنوں کی اکثريت اُسے دہشتگرد کہتی ہے جسے امريکا دہشتگرد کہے ۔ نہ کوئی تاريخ ميں دلچسپی رکھتا ہے اور نہ حقيقت کی جُستجُو کہيں نظر آتی ہے ۔ معاشرہ خود غرضی کی پٹڑی پر چڑھ چکا ہے ۔ بُغظ اور تعصب کی عينک پہن رکھی ہے ۔ دو ٹکے زيادہ کما ليتے ہينں تو سمجھتے ہيں کہ انسان بن گئے ۔ انسان بننے کے تقاضے کيا ہيں ؟ اس سے اُنہيں کوئی دلچسپی نہيں ہے ۔ صرف زبانی بيان بازی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا کر پھولے نہيں سماتے ۔ اگر طالبان ۔ القاعدہ ۔ مُلا اور ہر مسجد ميں جانے والے کو گالياں اور بد دعائيں دينے کی بجائے موجودہ حالات کے سبب کی تلاش کرتے تو شايد ہمارا مُلک ان حالات سے دو چار نہ ہوتا جيسا اب ہے ۔ کسی نے اتنا بھی سوچنے کی زحمت نہ کی کہ صرف 8 سال قبل ايسا کچھ نہ تھا تو پھر يہ حالات کيونکر پيدا ہوئے کہ انسانی بم انسانوں کی موت کا سبب بننے لگے ؟

سُنا اور پڑھا بھی يہی تھا کہ عِلم آدمی کو انسان بناتا ہے اور عِلم کی ضد آدمی کو وحشی ۔ اللہ کے فرمان اور اس کی نبيوں عليہم السلام کے ذريعہ مہياء کی گئی عملی تربيت سے معلوم ہوا کہ صرف عِلم نہيں بلکہ عِلمِ نافع آدمی کو انسان بناتا ہے ورنہ عِلم آدمی کو درندہ بنا سکتا ہے ۔ اس فلسفہ کی شايد سمجھ نہ آتی اگر ميں دورِ حاضر سے قبل ہی اس دنيا سے چلا جاتا

پچھلے چند ہفتوں ميں منظرِ عام پر آنے والے اخروٹ آباد اور کراچی کے واقعات کو ذہن ميں رکھ کر بلوچستان ۔ مالاکنڈ ۔ سوات اور باجوڑ وغيرہ پر غور کيا جائے تو ايک واضح تصوير سامنے آتی ہے کہ دہشتگرد کيسے اور کيونکر پيدا ہوئے ؟ اگر ايک کمسِن لڑکے کے ماں باپ اور بہن بھائی گھر ميں بيٹھے يا سوئے ہوئے اچانک کسی فوجی کاروائی يا ڈرون سے پھينکے گئے مزائل کے نتيجہ ميں ہلاک ہو جائيں تو کيا وہ بچہ پھولوں کے ہار لے کر دوسروں کو پہنانے جائے گا يا پہلا موقع ملتے ہی جس کسی کو دشمن سمجھے گا ہلاک کر دے گا خواہ اس کيلئے اُسے اپنے جسم کو ہی بم بنانا پڑے ؟

صرف حکومت کو بُرا کہنے سے کوئی آدمی بری الذمہ نہيں ہو جاتا ۔ گو ہمارے ہاں رواج ہو گيا ہے کہ حکومت ميں شامل ہوتے ہوئے عوام کو بيوقوف بنانے کيلئے ذرائع ابلاغ کے سامنے تقارير کی جاتی ہيں کہ “ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہيں ۔ يہ وہ يہ ۔ وغيرہ”۔ [My Foot] ۔ جس عمل کا مطالبہ عوام کے سامنے کرتے ہيں وہ اگر حکومت ميں ہوتے ہوئے پورا نہيں کر سکتے تو حکومت ميں کس لئے شامل ہيں ؟ وزاتيں چھوڑيں اور حزبِ اختلاف ميں شامل ہو کر مطالبات کريں

درست کہ 3 کروڑ 70 لاکھ جعلی ووٹوں کا اندراج کر کے پرويز مشرف نے کيو ليگ ۔ پی پی پی اور ايم کيو ايم کو زيادہ نشستيں حاصل کرنے کے قابل بنايا ۔ [ن ليگ ميرے چچا کی نہيں ہے ۔ وہ ان دنوں زيرِ عتاب تھی] مگر سب لوگ تو جعلی ووٹوں سے کامياب نہيں ہوئے ہونگے ۔ جن اصلی ووٹروں نے کامياب ہونے والے حکمرانوں کو ووٹ ديئے وہ بھی موجودہ حالات کے ذمہ دار ہيں ۔ بات صرف اتنی نہيں ہے ۔ جن ووٹروں نے ووٹ ڈالنے کی زحمت گوارہ نہيں کی وہ سب سے بڑے مجرم ہيں موجودہ حالات کے کيونکہ وہ اکثريت ميں ہيں

حکومت اور انتخابِ حکومت کے علاوہ بھی تو عوام کے روز مرّرہ کے فرائض ہيں مگر حالت يہ ہے کہ اپنے جائز حقوق اور ناجائز خواہشات حاصل کرنے کيلئے ناجائز ذرائع کو درست سمجھا جاتا ہے مگر دوسرے کے حق کو نہ صرف نظر انداز کيا جاتا ہے بلکہ دوسرے کا حق چھيننے کو ہوشياری اور عقلمندی [Tactfulnees & wisdom] کا نام ديا جاتا ہے ۔ معاشرے ميں بے حِسی اس قدر بڑھ چکی ہے کہ سامنے ايک آدمی ظلم کا شکار ہو رہا ہو تو اُسے بچانے کی بجائے کھڑے ہو کر اس ظُلم سے محظوظ ہونے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ ايسی بھيڑ ميں کچھ لوگ ٹھٹھا کرتے بھی ديکھے جاتے ہيں ۔ دوسری طرف حالت يہ ہے کہ ذرا ذرا سی بات پر ايک تا ايک درجن بسيں جلا دی جاتی ہيں اور دوسری املاک کو بھی نقصان پہنچايا جاتا ہے ۔ مگر دعوے انسان دوستی اور حق پرستی کے کئے جاتے ہيں

يا ميرے مالک و خالق ۔ اے مجھ پر ہميشہ اپنا کرم کرنے والے ميرے اللہ ۔ قبل اس کے کہ ميں ايسے خبيث معاشرے کا حصہ بن جاؤں مجھے اس دنيا سے اُٹھا لينا

تُو رحيم و کريم ہے مگر تيرے جہاں ميں
ہيں تلخ بہت تيرے غلاموں کے اوقات

ہينگ لگے نہ پھٹکری ۔ رنگ چوکھا آوے

ميں نہيں جانتا ہينگ اور پھٹکری سے رنگ کا کيا تعلق ہے ؟ يہ محاورہ ميں نے مڈل سکول ميں پڑھا تھا ۔ مطلب جو ميری سمجھ ميں آيا يہ تھا کہ جيب سے کچھ خرچ نہ ہو پھر بھی فائدہ

ہاں جناب ۔ ايک ايسا عمل ہے جس کے سبب آدمی کا نہ تو کچھ خرچ ہوتا ہے اور نہ ہی کبھی نقصان ہوتا ہے مگر فائدہ ہونے کی توقع ہوتی ہے اور عام طور پر فائدہ ہوتا ہے

سکول و کالج کے زمانہ ميں ہمارے اساتذہ پڑھانے کے علاوہ کبھی کبھی خاص طور پر وقت نکال کر ہماری کردار سازی بھی غيرمحسوس طريقہ سے کيا کرتے تھے ۔ ہم آٹھويں جماعت ميں پڑھتے تھے کہ ايک استاذ صاحب نے کہا

“ديکھو ۔ اگر کسی کے ساتھ اچھا سلوک کيا جائے تو نقصان تو کچھ نہيں ہوتا مگر فائدہ ہو سکتا ہے ۔ جب کسی سے مليں تو السلام عليکم کہيں ۔ پھر اپنا مدعا بيان کريں ۔ اپنے کسی بہترين اور بے تکلف دوست سے بھی کوئی مدد لينا ہو تو از راہِ کرم يا برائے مہربانی کہہ کر بات شروع کريں اور کام ہو جانے پر شکريہ ادا کريں”

يہ بات ميں نے پلے باندھ لی اور ساری عمر اس کے بے انداز پھل سے مستفيد ہوتا رہا ہوں اور اِن شاء اللہ آخر دم تک ہوتا رہوں گا
ميں سبزی يا پھل يا گوشت يا دال يا کپڑے ۔ کچھ بھی خريدنے جاؤں
بيچنے والا دکاندار ہو يا خوانچہ والا
اُس کے کپڑے صاف ستھرے ہوں يا پھٹے پرانے
پہلے ميں “السلام عليکم” کہتا ہوں
اگر کوئی چيز پکڑ کر ديکھنا ہو تو بيچنے والے سے اس کی اجازت مؤدبانہ طريقہ سے ليتا ہوں
جب وہ تول يا ناپ کر مجھے چيز ديتا ہے تو اس کا شکريہ ادا کرتا ہوں
اگر کوئی ميری مدد کی کوشش کرے مگر کر نہ سکے پھر بھی ميں اُس کا شکريہ ادا کرتا ہوں

ميرا يہ مشاہدہ ہے کہ سوائے معمولی استثناء کے اللہ کی مہربانی اور ميرے اس رويّے کی وجہ سے مجھے فائدہ ہوتا رہتا ہے

بجٹ 2011ء ۔ 2012ء ۔ عام آدمی کی نظر ميں

عام آدمی سے مراد جنہوں نے ساری عمر محنت کی اور جو مل گيا اُس پر صبر شکر کيا ۔ دوسرے کی جيب کی بجائے اپنے فرائض کی طرف نظر رکھی

پہلے ايک اچھوتی خبر ۔ وفاقی وزيرِ ماليات نے اپنی بجٹ تقرير ميں خبر دی جس پر ميں ابھی تک فيصلہ نہيں کر سکا کہ ہنسوں يا روؤں ۔ اُنہوں نے کہا “ہماری اچھی منيجمنٹ کے نتيجہ ميں روزانہ ضرورت کی اشياء کی قيمتوں ميں کمی ہوئی ہے”

بجٹ 2011ء ۔ 2012ء کو ملا کر اب تک پاکستان کے 64 بجٹ پيش ہو چکے ہيں ۔ پہلا بجٹ فروری 1948ء ميں پاکستان کی پہلی قانون ساز اسمبلی نے منظور کيا تھا ۔ يہ خسارے [Deficit] کا بجٹ تھا ۔ صورتِ حال يہ تھی کہ ہندوستان پر قابض رہنے والے انگريز جاتے ہوئے طے شدہ اصول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نہ صرف ضلع گورداسپور کو تقسيم کر کے پاکستان کيلئے جموں کشمير مسئلہ کا ناسور ہميشہ کيلئے دے گئے بلکہ ہندوستان کے سارے اثاثے بھارت کے حوالے کر کے چلے گئے تھے ۔ اس کے ساتھ ہی بھارت نے لاکھوں مسلمانوں کو بے خانمہ کر کے پاکستان کی طرف دھکيل ديا

پاکستان کا دوسرا بجٹ فروری 1949ء کو منظور ہوا جو فاضل بجٹ [Surplus] تھا ۔ اس کے بعد 1960ء سميت 12 فاضل بجٹ تھے ۔ پھر 4 بجٹ جو 1969ء ۔ 1998ء ۔ 1999ء اور 2000ء ميں منظور ہوئے فاضل بجٹ تھے ۔ باقی 48 بجٹ خسارے کے بجٹ تھے يا ہيں

بجٹ 2011ء ۔ 2012ء کا کُل حجم 27 کھرب 60 ارب 2760000000000 روپے ہے ۔ اس بجٹ ميں 9 کھرب 75 ارب يعنی 975000000000 روپے خسارہ شامل ہے جو کہاں سے پورا ہو گا ؟ اس کے متعلق بتايا گيا ہے کہ ايک کھرب 25 ارب صوبوں کے اضافی بجٹ سے پورا ہو گا ۔ باقی 8 کھرب 50 ارب يعنی 8500000000 روپيہ کہاں سے آئے گا ؟ اس کا کچھ پتہ نہيں

تعليم کيلئے اس بجٹ ميں 3 ارب 95 کروڑ 13 لاکھ يعنی 3951300000 روپے رکھے گئے ہيں

صحت کے پورے شعبہ کيلئے اس بجٹ ميں 2 ارب 64 کروڑ 60 لاکھ يعنی 2646000000 روپے رکھے گئے ہيں

سرکاری ملازم کی تنخواہ ميں 15 فيصد اور پنشن ميں 15 سے 20 فيصد اضافہ کی تجويز ہے

وزيرِ اعظم صاحب نے 4 جون 2011ء کويعنی بجٹ پيش ہونے کے ايک دن بعد ايک حکم نامہ کے ذريعہ مندرجہ ذيل افراد کی تنخواہوں ميں اضافہ کر ديا ہے
عہدہ ملازم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ موجودہ تنخواہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نئی تنخواہ
اٹارنی جنرل۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 200000 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 606811
ايڈيشنل اٹارنی جنرل ۔ 150000 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 548845
ڈپٹی اٹارنی جنرل ۔ ۔ ۔ ۔ 100000 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 150000
ايڈووکيٹ آن ريکارڈ ۔ ۔ 75000 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 100000

جس ملک نے اگلے سال ميں بيرونی قرضوں کی قسط 10 کھرب 34 ارب يعنی 1034000000000 روپے ادا کرنا ہے ۔ جس کے 50 فيصد عوام تنگی سے زندگی گذار رہے ہيں ۔ پيٹ کے ہاتھوں تنگ آ کر خود کُشياں کر رہے ہيں اور بچے فروخت کر رہے ہيں اس کے صدر اور وزيرِ اعظم صاحبان کی تنخواہوں اور ديگر لوازمات کچھ يوں ہيں

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ صدر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وزير اعظم

سالانہ تنخواہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 12000000 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 12960000
غير مُلکی دورے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 486320000 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 1570000000
اندرونِ ملک ٹرانسپورٹ وغيرہ ۔ ۔ ۔ 27700000 ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 24600000
ذاتی ملازمين کے اخراجات ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 482000000 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 996000000
باغبانی کے اخراجات ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 15000000 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 14300000
ڈسپنسری کے اخراجات ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نامعلوم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 10200000
کُل اخراجات سالانہ ۔ ۔ ۔۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 1008090000 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 2628060000
اوسط ماہانہ اخراجات ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 84007500 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 219005000

صدر صاحب کو قوم 8 کروڑ 40 لاکھ 7 ہزار 500 روپے ماہانہ خرچ اور وزيرِ اعظم کو 21 کروڑ 90 لاکھ 5 ہزار روپے ماہانہ خرچ ديتی ہے ۔ اس کے ساتھ بجلی ۔ پانی ۔ قدرتی گيس اور ٹيليفون جتنا بھی استعمال کريں وہ مُفت ہے ۔ اس کے بدلے ميں يہ دونوں حضرات قوم کو کيا ديتے ہيں ؟

پچھلے سال صدر کے بيرونِ ملک دوروں کيلئے 31 کروڑ يعنی 310000000 روپے بجٹ ميں رکھے گئے تھے مگر صدر صاحب نے 36 کروڑ 55 لاکھ 56 ہزار يعنی 365556000 روپے خرچ کر ڈالے

کہا گيا ہے کہ تين سرکاری اداروں کو سبسڈی دی جاتی ہے جو کہ تين سال ميں ختم کی جائے گی ۔ يہ ادارے ہيں ۔ اليکٹرک پاور سپلائی ۔ پاکستان سٹيل اور پی آئی اے جن کا سالانہ خسار 4 کھرب يعنی 400000000000 روپے ہے ۔ اليکٹرک پاور سپلائی کا فضيحتا يہ ہے کہ لگ بھگ 30 فيصد بجلی چوری ہوتی ہے اور چوری کرنے والے حکمران يا اُن کے اپنے لوگ ہيں ۔ شہروں ميں سب سے زيادہ بجلی چوری کراچی ميں ہوتی ہے جس کا مقابلہ دوسرا کوئی پورا صوبہ بھی نہيں کر سکتا ۔ مضافات ميں سب سے زيادہ بجلی کی چوری قبائلی علاقوں ميں ہوتی ہے ۔ پاکستان سٹيل ميں 2 سے 3 ہزار ملازمين ايسے ہيں جو ہر ماہ ميں ايک دن صرف تنخواہ لينے کيلئے پاکستان سٹيل جاتے ہيں مگر کسی کی مجال نہيں جو اُن کی طرف اُنگلی اُٹھا سکے ۔ اس کے ساتھ ہی نااہل افراد کی سياسی بھرتيا ں بڑی بڑی تنخواہوں پر کی گئی ہيں ۔ پی آئی اے کے خسارے کا واحد سبب نااہل افراد کی بڑی بڑی تنخواہوں پر بھرتی ہے ۔ حکمران چوروں اور لُٹيروں سے جان نہيں چھڑانا چاہتے کيونکہ وہ ان کے اپنے لوگ ہيں چنانچہ عام آدمی پر ان کا مزيد بوجھ ڈالنے کی منصوبہ بندی آئی ايم ايف کے مطالبہ کے تحت کی جا رہی ہے کيونکہ ايسا نہ کرنے کی صورت ميں مزيد قرضے ملنا بند ہو سکتے ہيں

وفاقی وزيرِ ماليات ڈاکٹر عبدالحفيظ شيخ جو ريوينيو ايڈوائزری کونسل کے چيئرمين بھی ہيں نے بتايا ہے مُلک ميں ايسے دولتمند لوگ ہيں جن کے اربوں روپے کہ اندرونِ مُلک اور بيرونِ مُلک اثاثے بشمول بينک بيلنس ہيں مگر ٹيکس نہيں ديتے يا نہ ہونے کے برابر ديتے ہيں ۔ ريوينيو ايڈوائزری کونسل نے مضبوط سفارش کی تھی کہ ايسے لوگوں کے اثاثوں پر ايک فيصد عبوری ٹيکس اس طرح لگايا جائے کہ جو ٹيکس وہ ادا کر رہے ہيں اُسے اس ايک فيصد ٹيکس سے منہا کر کے مزريد کچھ ٹيکس بنتا ہو تو وصول کيا جائے ۔ حکومت نے اس سفارش کو نہيں مانا اور بجٹ سے نکال ديا

آ بُلبلا مل کر کريں گريہ و زاری
تُو پُکار ہائے گُل ميں پُکاروں ہائے دِل

سوچا تھا ۔ ۔ ۔

يہ پرانے زمانے کی نظم ہے جو موجودہ دور ميں ميرے حال کو بيان کرتی محسوس ہوئی سو نقل کر رہا ہوں ۔ يہ نظم ميری ڈائری ميں شاعر کے نام کے بغير لکھی ہوئی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ لکھنے والا اُس دور کا معروف شاعر ہو گا ۔ 28 ستمبر 2010ء کے حادثہ کے اثرات کے تحت ابھی تک ميرا حافظہ درست کام نہيں نہيں کر رہا اسلئے شاعر کا نام ياد کرنے ميں ناکام رہا ہوں ۔ اگر کسی قاری کو شاعر کا نام معلوم ہو تو مستفيد فرمائے

کبھی کبھی مرے دل ميں خيال آتا ہے
کہ زندگی تری زُلفوں کی نرم چھاؤں ميں ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ گزرنے پاتی تو شاداب ہو بھی سکتی تھی
يہ تيرگی جو مری زيست کا مُقدّر ہے ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تری نظر کی شعاعوں ميں کھو بھی سکتی تھی

عجب نہ تھا کہ ميں بيگانہءِ اَلَم ہو کر ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ترے جمال کی رعنائيوں ميں کھو رہتا
ترا گداز بدن، تيری نيم باز آنکھيں ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انہيں حسين فسانوں ميں محو ہو رہتا

پکارتيں مجھے جب تَلخِياں زمانے کی ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ترے لَبوں سے حلاوت کے گھونٹ پی ليتا
حيات چيختی پھرتی برہنہ سر اور ميں ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ گھنيری زلفوں کے سائے ميں چھپ کے جی ليتا

مگر يہ ہو نہ سکا

مگر يہ ہو نہ سکا اور اب يہ عالم ہے ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہ تو نہيں ترا غم، تری جستجو بھی نہيں
گزر رہی ہے کچھ اس طرح زندگی جيسے ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسے کسی کے سہارے کی آرزو بھی نہيں

زمانے بھر کے دُکھوں کو لگا چکا ہوں گلے ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ گزر رہا ہوں کچھ انجانی راہ گزروں سے
مہيب سائے مری سمت بڑھتے آتے ہيں ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حيات و موت کے پُرہول خارزاروں ميں

نہ کوئی جادہءِ منزل نہ روشنی کا سُراغ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بھٹک رہی ہے خلاؤں ميں زندگی ميری
انہی خلاؤں ميں ره جاؤں گا کبھی کھو کر ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ميں جانتا ہوں مری ہم نفس مگر يونہی
کبھی کبھی مرے دل ميں خيال آتا ہے

سُنّت اور حديث کی تکرار

روزِ اوّل سے ہی اللہ کے دين کو مُتنازعہ بنانے کيلئے ابليس کے نرغے ميں آئے ہوئے انسان اپنی تمام تر توانائياں صرف کرتے آئے ہيں ۔ اُردو بلاگستان ميں تيسری بار سْنّت و حديث کا ذکر آيا ہے ۔ اس سے پہلے انگريزی بلاگز پر يہ کاوشيں کئی بار نظر سے گذری تھيں ۔ اب کچھ وجوہات کی وجہ سے عمران اقبال صاحب نے ” سُنّت و حديث ميں فرق ؟؟؟؟” لکھا ہے جس پر اہلِ عِلم اپنے خيالات کا اظہار کر رہے ہيں ۔ 3 سال سے زيادہ گذرے اُردو بلاگز پر لکھنے والے عُلماء فلسفہ نے اسے موضوع بنايا تو ميں نے اپنی سی ايک کوشش کی تھی ۔ اُسی ميں سے اقتباس حاضر ہے

میں چونکہ انجنیئرنگ سائنس کا طالب علم ہوں اسلئے اسی لحاظ سے مطالعہ کرتا ہوں ۔ کچھ صاحبان نے اصلاح معاشرہ کی بجائے تجدیدِ دین کا بوجھ اپنے کندھوں پر ڈال کر دین اسلام کو جدید دنیا کے مطالبات کے تابع بنانے کی کوشش کی ہے ۔ حدیث کی کُتب کو متنازیہ بناتے ہوئے یہ حقیقت نظرانداز کر دی گئی کہ جس ذریعہ سے ہمارے پاس سنّت یا حدیث کا بیان پہنچا ہے اللہ کا کلام “قرآن شریف ” بھی ہمارے پاس اسی ذریعہ سے پہنچا ہے ۔ پھر جب مانا جاتا ہے کہ قرآن شریف اصلی ہے تو مستند احادیث کیسے غلط ہو گئیں ؟ مزید یہ کہ اللہ نے قرآن شریف کی حفاظت کی ذمہ داری لی ہے اور اللہ سُبحانُہُ و تعالی کا یہ بھی فرمان ہے کہ سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی خواہش سے کوئی بات نہیں کہتے [سورت النَّجْم] ۔ جب سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی خواہش سے کوئی بات نہیں کہی تو پھر اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی ہی کی خواہش ہم تک پہنچائی تو کیا اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کو اس کی حفاظت منظور نہ تھی ؟
[دورِ حاضر کے ايک صاحبِ عِلم قرآن شريف کو بھی متنازعہ بنانے ميں اپنی سی کوشش ميں لگے رہتے ہيں]

سنّت کے اتباع کی سند

سورت ۔ 3 ۔ آل عمران ۔ آیت 31 و 32 ۔ اے نبی لوگوں سے کہہ دو “اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی اختیار کرو ۔ اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خطاؤں سے درگذر فرمائے گا ۔ وہ بڑا معاف کرنے والا رحیم ہے”۔ اُن سے کہو “اللہ اور رسول کی اطاعت قبول کر لو”۔ پھر اگر وہ تمہاری یہ دعوت قبول نہ کریں تو یقیناً یہ ممکن نہیں ہے کہ اللہ ایسے لوگوں سے محبت کرے جو اس کی اور اس کے رسول کی اطاعت سے انکار کرتے ہوں

سورت ۔ 4 ۔ النّسآء ۔ آیت 13 و 14 ۔ یہ اللہ کی مقرر کی ہوئی حدیں ہیں ۔ جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا اُسے اللہ ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور ان باغوں میں وہ ہمیشہ رہے گا اور یہی بڑی کامیابی ہے ۔ اور جو اللہ اور اُس کے رسول کی نافرمانی کرے گا اور اس کی مقرر کی ہوئی حدوں سے تجاوز کرے گا اُسے اللہ آگ میں ڈالے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اُس کیلئے رسواکُن سزا ہے

سورت ۔ 53 ۔ النَّجْم ۔ آیات 1 تا 3 ۔ قسم ہے ستارے کی جب وہ گرے کہ تمہارے ساتھی [سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم] نے نہ راہ گُم کی ہے نہ وہ ٹیڑھی راہ پر ہے اور نہ وہ اپنی خواہش سے کوئی بات کہتا ہے

سنّت کیا ہے ؟

سنّت کے لغوی معنی ہیں روِش ۔ دستور ۔ عادت ۔ لیکن دین میں سنّت کا مطلب ہے رسول اللہ سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی روِش [جو انہوں نے کیا] یا مسلمانوں کو کرنے کا کہا یا مسلمانوں کو کرنے کی منظوری دی ۔

حدیث کے بنیادی معنی ہیں خبر یا بیان ۔ اسی سے حدوث ۔ حادثہ ۔ حادث جیسے لفظ بنے ہیں ۔ لیکن مسلم آئمہ کرام کے مطابق یہ لفظ رسول اللہ سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے قول فعل یا تقریر کیلئے مختص ہے

کشادہ نظری سے دیکھا جائے تو سنّت اور حدیث ایک ہی چیز ہے ۔ اسلامی شریعت میں قرآن شریف کے بعد حدیثِ نبوی کو نص مانا جاتا ہے ۔ وہی حدیث قابلِ اعتبار سمجھی جاتی ہے جبکہ اس کے اسناد میں راویوں کا غیر منقطع سلسلہ موجود ہو ۔ راوی قابلِ اعتماد ہوں جس کا قیاس ان کی زندگی کے عوامل سے لگایا گیا ہے ۔ حدیث کی صحت پر چودہ صدیوں سے امت کا اجتماع چلا آ رہا ہے سوائے سر سیّد احمد خان ۔ چراغ علی ۔ عبداللہ چکڑالوی ۔ احمد دین امرتسری ۔ اسلم جیراج پوری ۔ غلام احمد پرویز اور جاوید احمد غامدی صاحبان کے ۔ خوارج اور معتزلہ کی تحریک تو دوسری صدی ہجری میں اُٹھی اور دم توڑ گئی تھی ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان صاحبان کے پاس کونسی سند ہے جس کی بنیاد پر پچھلی 14 صدیوں میں ہونے والے سینکڑوں اعلٰی معیار کے علماء دین کو یہ غلط قرار دے رہے ہیں

سنّت کی اقسام

قولی ۔ وہ فعل جو سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کرنے کا کہا
عملی ۔ وہ فعل جو سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کیا
تقریری ۔ وہ فعل جو سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے اصحابہ رضی اللہ عنہم میں سے کسی نے کیا اور انہوں نے منع نہ فرمایا

حدیث کی تاریخ

آغازِ اسلام میں سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حدیث کی کتابت سے منع فرمایا تھا جس کا مقصد یہ تھا کہ قرآن شریف کے ساتھ کسی اور شے کا امتزاج و التباس نہ ہونے پائے لیکن جب قرآن و حدیث کی زبان میں امتیاز کا ملکہ راسخ ہو گیا تو آپ صلعم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حدیث لکھنےکی اجازت دے دی اور حدیث کی کتابت کا آغاز سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حیاتِ مبارک ہی میں ہو گیا ۔

حدیث کی سند تصحیح اور کتابی شکل دینے کے متعلق پڑھیئے

دائرہ معارفِ اسلامیہ جلد 7 ۔ صفحات 962 سے 981 تک
یہ تحقیقی مجموعہ پنجاب یونیورسٹی کے قابل اساتذہ کی تیس چالیس سالہ محنت کا ثمر ہے جو 1950ء میں شروع ہوئی تھی ۔ پہلی جلد کی طباعت 1980ء میں ہوئی اور آخری جلد کی 1990ء میں ۔ مجھے دائرہ معارفِ اسلامیہ کے تحریر اور مرتب کرنے والے سب دانشوروں کی مکمل فہرست اور ان کی تعلیمی درجہ کا مکمل علم نہیں ہے ان میں سے چند یہ ہیں

ڈاکٹر محمد شفیع ۔ ایم اے [کینٹب] ۔ ڈی او ایل [پنجاب] ۔ ستارۂ پاکستان
ڈاکٹر محمد وحید میرزا ۔ ایم اے [پنجاب] ۔ پی ایچ ڈی [لندن]
ڈاکٹر محمد نصراللہ احسان الٰہی رانا ۔ ایم اے ۔ پی ایچ ڈی [پنجاب] ۔ پی ایڈ [کینٹب]
سیّد محمد امجد الطاف ۔ ایم اے [پنجاب]
سیّد نذیر نیازی
نصیر احمد ناصر ۔ ایم اے [پنجاب]
عبدالمنّان عمر ۔ ایم اے [علیگ]

جو لوگ رسول اللہ سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حدیث کو ایک انسان کا قول و فعل فرض کرتے ہوئے اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کے [متذکرہ بالا] فرمان کو بھول جاتے ہیں اور اس اہم حقیقت کو بھی نظر انداز کر دیتے ہیں کہ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کے جو احکام قرآن شریف میں ہیں ان میں سے بیشتر پر عمل کرنے کی خاطر سنّت [حدیث] سے مدد لئے بغیر ان کو سمجھنا ناممکن ہے

بات ہے سمجھنے کی

ميں ايک طوطا تھا
ميں ٹيں ٹيں کرتا تھا
سب سُنتے تھے

ميں ايک چڑيا تھا
ميں چُوں چُوں کرتا تھا
سب سُنتے تھے

ميں ايک کوئل تھا
ميں کُوووو کُوووو کرتا تھا
سب سُنتے تھے

ميں ايک فاختہ تھا
ميں کُکُو کُوو کُکُو کُوو کرتا تھا
سب سُنتے تھے

ميں ايک آدمی تھا
سب بولتے تھے
کوئی نہيں سُنتا تھا

ورلڈ ٹريڈ سينٹر اور اينتھراکس ۔ تاريخ کا ايک ورق

11 ستمبر 2001ء کے چونکا دينے والے ناجائز واقعہ کے بعد 30 گھنٹے بھی نہ گذرنے پائے تھے کہ سارے امريکا بلکہ دنيا کی ٹی وی سکرينيں 2 پائلٹوں کی تصويروں سے سيراب ہونا شروع ہو گئيں ۔ يہ 2 سعودی بھائيوں امير بخاری اور عدنان بخاری کی تصاوير تھيں ۔ يہ تصاوير ٹی وی سکرينوں پر بار بار کوندتی رہيں امريکی حکومت کے اس مسلک کے ساتھ کہ امريکی سواريوں والے ہوائی جہاز اغواء کر کے نيويارک ميں واقعہ ورلڈ ٹريڈ سينٹر سے ٹکرانے والے دونوں پائلٹوں کی شناخت کر لی گئی تھی اور وہ سعودی بھائی امير بخاری اور عدنان بخاری تھے

بعد ميں يہ حقيقت منظرِ عام پر آئی کہ امير بخاری ورلڈ ٹريڈ سينٹر کے حادثہ سے ايک سال قبل قضائے الٰہی سے مر گيا تھا اور اس کا بھائی عدنان بخاری زندہ اور صحتمند تھا جبکہ اگر وہ ورلڈ ٹريڈ سينٹر سے ٹکرانے والے ہوائی جہاز ميں ہوتا تو جل کر خاک ہو چکا ہوتا ۔ يہ بھی معلوم ہوا کہ جب عدنان بخاری کی تصوير بطور ہائی جيکر اور مُجرم ساری دنيا کے ٹی وی چينل دکھا رہے تھے اُس وقت عدنان بخاری اپنے خلاف ہونے والی بہتان تراشی کی ترديد يا اپنا دفاع نہيں کر سکتا تھا کيونکہ وہ ايک امريکی خفيہ ايجنسی کی حراست ميں تھا

عدنان بخاری کو اُس وقت رہا کيا گيا جب امريکی حکومت اُس کا ناکردہ جُرم دنيا پر درست ثابت کر چکی تھی ۔ پھر وہ بولا بھی ليکن حقائق کی طرف لوگوں کی توجہ کم ہی گئی

11 ستمبر کے واقعہ کے کچھ ہی عرصہ بعد دنيا کو يہ بھی بتايا گيا کہ امريکی حکومت نے باقی ہائی جيکروں کی شناخت بھی کر لی ہے ۔ وہ 19 مسلمان تھے جن ميں سے 11 سعودی تھے ۔ پھر اُن کے کوائف مع اُن کی تصاوير کے ذرائع ابلاغ کے ذريعہ نشر کئے گئے اور تمام ايئر پورٹس کی ديواروں پر ان کی تصاوير چسپاں کر دی گئيں

کمال يہ تھا کہ جن کی تصاوير چسپاں کی گئيں ان ميں سے کئی افراد نے امريکی استدلال کو رد کرتے ہوئے بيانات ديئے اور اخبارات سے رابطہ کر کے بتايا کہ وہ زندہ ہيں ۔ اگر ہوائی جہاز ميں ہوتے تو مر چکے ہوتے ۔ 10 دن ميں يہ حقيقت واضح ہو گئی کہ جن لوگوں کو ہوائی جہازوں کے ہائی جيکر اور خود کُش حملہ آور قرار ديا گيا تھا 11 ستمبر 2001ء کے بعد ان ميں سے کم از کم 8 زندہ تھے

نواں آدمی جسے 11 ستمبر 2001ء کا ہائی جيکر اور خود کُش حملہ آور قرار ديا گيا تھا امريکی حکومت نے اس کا پاسپورٹ بطور ثبوت پيش کيا تھا ۔ بتايا گيا تھا کہ يہ پاسپورٹ ورلڈ ٹريڈ سينٹر کے قريب سے ايک راہگير کو ملا تھا ۔ کمال يہ ہے کہ ٹکر مارنے والے جہاز ۔ جہازوں کے اندر بيٹھے لوگ اور ورلڈ ٹريڈ سينٹر کی عمارت جل کر خاک اور ملبہ کا انبار بن گئے ۔ کسی انسان کا کچھ بھی نہ مل سکہ مگر کئی دن بعد وہاں سے سڑک پر پڑا پاسپورٹ ايک راہگير کو صحيح سلامت مل گيا ۔ کيسے ؟

متذکرہ حقائق کے باوجود امريکا کی تمام ايئر پورٹس کی ديواروں پر مردہ قرار ديئے گئے زندوں کی تصاوير طويل عرصہ تک سجی رہيں ۔ ذرائع ابلاغ نے چُپ سادے رکھی ۔ سچ کے علمبردار يہ عالمی ذرائع ابلاغ جھوٹ مُشتہر کرتے رہے

ورلڈ ٹريڈ سينٹر پر 11 ستمبر 2001ء کے حملے کے بعد ابھی ايک ماہ بھی نہ گذرا تھا کہ اينتھراکس والے خطوط امريکی کانگرس کے ارکان اور امريکی صحافيوں کو بھيجے گئے جن پر لکھا تھا “اسرائيل مردہ باد ۔ امريکا مردہ باد ۔ اللہ اکبر”۔ اس پر امريکی سياستدانوں اور صحافيوں نے يہ دعوٰی کيا کہ “دہشتگردوں [مسلمانوں] نے بائيولوجيکل ہتھيار بنانے کی صلاحيت حاصل کر لی ہے اور انہيں استعمال کرنا بھی شروع کر ديا ہے ۔ اس دعوے نے امريکا کے ہر گھر ميں خوف و دہشت کی فضا قائم کر دی ۔ لوگ اس کے بچاؤ کيلئے متعلقہ ويکسين لگوانا شروع ہو گئے اور يہ ويکسين ناپيد ہو گئی

بھيد اُس وقت کھُلا جب بائيولوجيکل ہتھياروں کی ايک معروف ماہر باربرا روزنبرگ [Barbara Rosenberg] نے انکشاف کيا کہ متذکرہ بالا اينتھکراکس پاؤڈر دراصل امريکا کی ملٹری ليبارٹری ميں تيار کيا گيا تھا ۔ يہ حقيقت امريکا کے اس وقت کے صدر جارج واکر بُش کی حکومت کو اوّل روز سے معلوم تھی

امريکی حکومت جو ورلڈ ٹريڈ سينٹر کے سلسلے ميں سعودی پائلٹوں کا جھُوٹ بول چکی تھی حقائق کو چھپاتے ہوئے اُس کے يہ جھانسا دينے کے پيچھے کيا مزموم مقاصد تھے ؟
اور امريکی حکومت کے اُن سعودی باشندوں جو ابھی زندہ تھے کو ورلڈ ٹريڈ سينٹر کو گرانے کا ذمہ دار ٹھہرانے کے پيچھے کيا مقاصد پنہاں تھے ؟

اگر امريکی حکومت کا استدلال درست تھا تو اسے ثابت کرنے کيلئے جھوٹ کا سہارا کيوں ليا گيا ؟

يہ سب کچھ اسلئے کيا گيا کہ امريکی حکومت مسلمانوں کی عزت کو کوئی اہميت نہيں ديتی اور مسلمان مُلکوں کے وسائل پر ناجائز قبضہ کرنے کيلئے جھوٹ اور منافقت سے بھرپور کام لے رہی ہے

يہ ايک کتاب “سعودی عرب ميں مذہبی آزادی” سے ايک مختصر اقتباس کا ترجمہ ہے

نيچے ورلڈ ٹريد سينٹر کے ساتھ جو کچھ 11 ستمبر 2001ء کو ہوا اس کی چند تصاوير ہيں جنہيں غور سے ديکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ اُوپر کے حصہ ميں جہاں جہاز ٹکرائے وہاں سے کالا دھوآں نکل رہا ہے جبکہ کئی منزليں نيچے سفيد دھوئيں کے بادل ايکدم چاروں طرف سے نکلتے ہيں ۔ يہ نچلی منزلوں سے نکلنے والا دھوآں اور آگ جہاز کے ٹکرانے سے پيدا نہيں ہو سکتا بلکہ وہاں عمارت گرانے والے ايکسپلوسِوز پہلے سے نصب کئے گئے تھے جو جہاز ٹکرانے سے قبل ہی بلاسٹ کر ديئے گئے تھے ۔ امريکا کے زلزلہ پيما مرکز نے اس زبردست دھماکے کی خبر ورلڈ ٹريڈ سينٹر سے ہوائی جہاز ٹکرانے سے پہلے دے دی تھی