Category Archives: روز و شب

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ محنت

خوبی جد و جہد میں ہے نہ کہ انعام پانے میٰں
جو محنت کرتا ہے وہ زندہ رہتا ہےاپنی نظر منزلِ مقصود پر رکھیئے
راستہ کی مشکلات پر پریشان نہ ہوتے ہوئے منزلِ مقصود پر توجوہ مرکوز رکھیئے

The display of collective grief at the Paris murders on January 7 of the personnel of the French satirical magazine Charlie Hebdo is understandable. But there is also a degree of hypocrisy in this narrative. Apparently, some victims of violence are more equal than others. Specifically the bodies of Muslims are considered less worthy compared to the French.

تفصیل یہاں کلک کر کے پڑھیئے ” Paris – Acounter Narrative “

موجودہ حالات کی جڑ کہاں ہے ؟

اگر آپ کو پاکستان سے ذرا سا بھی لگاؤ ہے تو کچھ وقت نکال کر مندرجہ ذیل اقتباس پڑھ کر اندازہ لگایئے کہ ہمارا یہ مُلک موجودہ حال کو کیسے پہنچا اور فکر کیجئے کہ اسے درست کیسے کرنا ہے
خیال رہے کہ بنی عمارت کو گرانا آسان ہوتا ہے لیکن نئی عمارت کی تعمیر وقت اور محنت مانگتی ہے اور گری عمارت کی بحالی کیلئے زیادہ وقت ۔ زیادہ محنت اور استقلال ضروری ہوتا ہے
مت بھولئے کہ آپ کا مُستبل آپ کے ہاتھ میں ہے اور اسے آپ ہی نے بنانا ہے

لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) شاہد عزیر (جو نہ صرف پرویز مشرف کو قریب سے جانتے تھے بلکہ اُس دور میں روشن خیالی کے نام پر اس بے غیرتی اور بے ہودگی کے وجوہات سے بھی واقف تھے) لکھتے ہیں

میری ریٹائرمنٹ کے بعد مارچ 2006ء میں، جن دنوں میں نیب (NAB) میں تھا، امریکہ کے صدر حضرت جارج بُش اسلام آباد تشریف لائے۔ رات کو پریزیڈنٹ ہاؤس میں کھانا ہوا اور ایک ثقافتی پروگرام پیش کیا گیا۔ پروگرام میں پاکستان کی تہذیب پر ایک نگاہ ڈالی گئی کہ ہماری تہذیب پر تاریخ کے کیا اثرات رہے
پہلی تصویر ہمارے معاشرے کی موہنجو ڈارو کے ادوار کی پیش کی گئی۔ نیم عریاں لڑکیوں نے ناچ کر ہمیں سمجھایا کہ ہماری ثقافت کی ابتداء کہاں سے ہوئی
پھر بتایا گیا کہ الیگزینڈر کے آنے سے ہم نے ایک نیا رنگ حاصل کیا۔ اس رقص میں فیشن بدل گیا اور لباس بھی مزید سکڑ گئے
پھر اگلا رقص عکاسی کرتا تھا ہندوانہ تہذیب کی برہنگی کا جس کا اثر ہماری تہذیب پر رہا

جب لباس غائب ہونے لگے تو میں ڈرا کہ آگے کیا آئے گا لیکن پھر
کافرستان کی رقاصائیں آ گئیں کہ یہ اب بھی یہاں ناچتی ہیں۔ صرف اس پیشکش میں کچھ ملبوس نظر آئے
اگلے رقص میں چھتریاں لئے برطانیہ کی میم صاحبائیں دکھائی گئیں جنہوں نے چھتریوں کے علاوہ دستانے بھی پہنے تھے اور کچھ رومالیاں ہاتھوں سے باندھی ہوئی تھیں
پھر اگلے رقص میں پاکستان کی موجودہ تہذیب کی عکاسی میں لڑکوں اور لڑکیوں نے مل کر، خفیف سے ملبوس میں جنسی کنائیوں (sexual innuendoes) سے بھرپور رقص پیش کر کے حاضرین کو محظوظ کیا
آخر میں ایک اور انوکھا رقص پیش کیا گیا اور کہا گیا کہ یہ وہ مستقبل ہے جس کی طرف ہم رواں ہیں ۔ اسٹیج پر برہنہ جانوروں کی مانند بل کھاتے، لپٹتے ہوئے اپنے مستقبل کی تصویر دیکھ کر جی چاہا شرم سے ڈوب مروں، مگر حیوانیت نے آنکھیں بند نہ ہونے دیں

بچپن میں سنا تھا کہ یہاں کبھی محمد بن قاسم بھی آیا تھا اور بہت سے بزرگان دین بھی مگر شاید اُن کا کچھ اثر باقی نہ رہا تھا
جب ہم اپنا تماشا دکھا چکے اور حضرت بش اُٹھ کر جانے لگے تو تمام مجمع بھی اُن کے پیچھے دروازے کی طرف بڑھا۔ وہ دروازے پر پہنچ کر رُک گئے پھر ہماری طرف مُڑے تو سارا مجمع بھی ٹھہر گیا۔ دانت نکال کر اپنے مخصوص انداز میں مسکرائے، گھُٹنے جھُکا کر کو لہے مٹکائے، دونوں ہاتھوں سے چٹکیاں بجائیں اور سر ہلا کر تھوڑا اور مٹک کر دکھایا جیسے کہہ رہے ہوں، ”ہُن نَچو“۔
جس کی خوشی کے لئے ہم نے قبلہ بدل لیا، اپنی تاریخ جھٹلا دی، اپنا تمدن نوچ کر پھینک دیا، وہ بھی لعنت کر گیا

روشن خیالی کے نام پر بے شرمی اور بے غیرتی کے اس واقعہ کو بیان کرنے سے پہلے جنرل شاہد عزیز لکھتے ہیں

سی جی ایس (CGS) کی کرسی پر دو سال مجھ پر بہت بھاری گزرے۔ سب کچھ ہی غلط ہوا۔ افغانستان پر غیر جانبداری کا جھانسا دے کر امریکہ سے گٹھ جوڑ کیا اور مسلمانوں کے قتل و غارت میں شامل ہوئے۔ نئے نظام کے وعدے پر آنے والا ڈکٹیٹر ریفرنڈم کے جعلی نتیجے کے بل بوتے پر پانچ سال کے لئے صدر بنا، نااہل اور کرپٹ سیاستدانوں کی حکومت فوج کے ہاتھوں قائم کی گئی، امریکہ کے دباؤ پر کشمیر کو خیرباد کہا، بلوچستان میں علیحدگی پسندی کی آگ لگائی گئی، کاروباری ٹی وی چینلز کھولنے کا فیصلہ کر کے قوم کی فکریں بھی منڈی میں رکھ دیں۔ پھر ”سب سے پہلے پاکستان“ کا دوغلا نعرہ لگایا اور دین کو روشن خیالی، اعتدال پسندی (enlightened moderation) کا نیا رنگ دیا— ”دین اکبری“ سے آگے نکل کر ”دین پرویزی“۔

پاکستان میں دین کا رجحان ختم کرنے کے لئے یہ نسخہ امریکہ کا تجویز کردہ تھا۔ قبلہ واشنگٹن کی طرف موڑ نے کے بعد آہستہ آہستہ لوگوں کے ذہنوں کو قابو کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ تمام ٹی وی چینلز پیش پیش رہے۔ ایک سے ایک عالم اور فقیہ خریدے گئے۔ فرقہ وارانہ تنظیموں کے گند کو اُچھال اُچھال کر اُسے جہادیوں سے جا ملایا۔ پھر مُلا کی جہالت کو مروڑ کر دین کو بدنام کیا اور اُسے نیا رنگ دے کر، نئی اصلاحات پیش کی گئی۔ اسلام کے قواعد پر چلنے کو ”بنیادپرستی“ کہا گیا، پھر اُسے ”شدت پسندی“ سے جا ملایا یعنی ”مُلا کی جہالت کو چھوڑ دو اور اصل اسلام پر آ جاؤ، وہ یہ ہے جو میں بتا رہا ہوں“ ۔ کچھ سچ میں تمام جھوٹ ملا کر، ڈھولک کی تھاپ پر ایک ناچتا ہوا معاشرہ سیدھی راہ بتائی گئی۔ جہاں ہر شخص کو اللہ کی رضا چھوڑ کر اپنی من مانی کی چھُوٹ ہو۔ جب منزل دنیا کی رعنائیاں ہو اور دھَن دولت ہی خدا ہو، تو پھر یہی سیدھی راہ ہے

جنرل شاہد عزیر مزید لکھتے ہیں

پھر عورتوں پر معاشرے میں ہوتے ہوئے مظالم کو دینی رجحان سے منسلک کیا گیا اور حقوق نسواں کو آزادی نسواں کا وہ رنگ دیا گیا کہ عورت کو عزت کے مرتبے سے گرا کر نیم عریاں حالت میں لوگوں کے لئے تماشا بنایا

ایک مرتبہ کور کمانڈر کانفرنس میں کور کمانڈروں نے ملک میں پھیلتی ہوئی فحاشی پر اظہار تشویش کیا تو مشرف ہنس کر کہنے لگے ”میں اس کا کیا کروں کہ لوگوں کو ایک انتہا سے روکتا ہوں تو وہ دوسری انتہا کو پہنچ جاتے ہیں” اور پھر بات کو ہنسی میں ٹال دیا مگر حقیقت مختلف تھی۔ صدر صاحب کی طرف سے باقاعدہ حوصلہ افزائی کی گئی اور پشت پناہی ہوئی تو بات یہاں تک پہنچی۔ اس سلسلے میں کئی این جی اوز (NGOs) بھی کام کر رہی تھیں اور بے بہا پیسہ خرچ کیا جا رہا تھا۔ یہ سب کی آنکھوں دیکھا حال ہے۔

جنرل شاہد عزیر آگے لکھتے ہیں

جی ایچ کیو آڈیٹوریم (GHQ Auditorium)میں جنرلوں کو فوجی سیریمونیل لباس (ceremonial dress) میں، جو خاص احترام کے موقع پر پہنا جاتا ہے، بٹھا کر گانوں کی محفلیں سجائی گئیں

عرضِ بلاگر
کیا یہ حقیقت نہیں کہ ہم اپنے دین حتٰی کہ اپنی ثقافت سے منہ موڑ کر تباہی کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں ؟
اور بجائے اپنی درستگی کے ۔ ہمارے دن رات دوسروں پر الزام تراشی کے نت نئے طریقے ایجاد کرنے میں گذرتے ہیں

میں سڑک پر

جب میں اسلام آباد میں کار لے کر سڑک پر نکلتا ہوں تو جن عوامل سے عام طور پر دوچار ہوتا ہوں ان میں سے چند لکھنے لگا ہوں ۔ ان پر تنقید ہو سکتی ہے اور ان کا مذاق بھی اُڑایا جا سکتا ہے لیکن کچھ قارئین انہیں پڑھ کر اپنی اصلاح کی کوشش کریں تو یہی میرا حاصل و مقصود ہے
یہ واقعات ٹرک ۔ بس ۔ ویگن یا ٹیکسی ڈرائیوروں سے متعلق نہیں ہیں بلکہ پڑھے لکھے اور کھاتے پیتے گھرانوں سے تعلق رکھنے والوں کے ہیں

1 ۔ میں سڑک کی بائیں قطار (lane) میں جا رہا ہوں ۔ بائیں طرف مُڑنے کا اشارہ دیا ہوا ہے ۔ میں موڑ کے قریب پہنچ کر داہنے آئینے میں پھر بائیں آئینےمیں دیکھتا ہوں دونوں اطراف کافی پیچھے تک سڑک خالی ہے ۔ جونہی میں مُڑنے لگتا ہوں ایک تیز رفتار گاڑی میری بائیں جانب سے قوس بناتی ہوئی سیدھی چلی جاتی ہے ۔ اگر اللہ کی مہربانی شاملِ حال نہ ہو جاتی تو شاید میں یہ لکھ نہ رہا ہوتا

2 ۔ چوراہے پر گاڑیاں کھڑی ہیں ۔ میں داہنی طرف سے دوسری قطار میں ہوں کیونکہ مجھے سیدھا جانا ہے ۔ میرے آگے 5 گاڑیاں ہیں ۔ ٹریفک لائٹ سبز ہونے پر سب گاڑیاں چل پڑتی ہیں ۔ میں چوراہے کے قریب پہنچتا ہوں ۔ اچانک میرے بائیں جانب تیسری یعنی بائیں جانب مُڑنے والی قطار سے ایک گاڑی تیزی سے داہنی طرف مُڑ کر میری گاڑی کے سامنے والے بمپر کو مکمل توڑتی ہوئی داہنی طرف چلی جاتی ہے

3 ۔ میں نے بائیں جانب مُڑنا ہے اسلئے بائیں قطار میں ہوں ۔ رفتار کم ہے ۔ مُڑنے کا اشارہ دیا ہوا ہے ۔ میں مُڑنے کے قریب ہوں کہ ہارن کی آواز آنے لگی ۔ داہنے آئینے میں دیکھا تو دُور تک سڑک خالی نظر آئی ۔ گاڑی کے اندر والے آئینے میں دیکھا تو میرے پیچھے ایک گاڑی تھی ۔ سوچا شاید کوئی جان پہچان والا ہے اور مجھے ہارن سے مطلع کر رہا ہے ۔ پہچان نہ سکا ۔ پھر وہ کار تیزی سے میرے داہنی جانب والی قطار میں آئی اور میرے قریب سے گذرتے ہوئے محترمہ نے مجھے مُکا دکھایا اور کچھ بولتی ہوئی سیدھی چلی گئیں

4 ۔ سڑک پر بائیں جانب گاڑیاں پارک ہیں ۔ ان کے داہنی جانب 2 گاڑیاں متوازی کھڑی ہیں ۔ مجھے رُکنا پڑتا ہے ۔ پیچھے اور بہت سی گاڑیاں رُک جاتی ہیں اور اُن کے ہارن بجنے لگتے ہیں ۔ چند منٹ انتظار کے بعد میں گاڑی سے اُتر کر گیا اور جن صاحبان نے سڑک بند کر رکھی تھی سے گاڑیاں ایک طرف کرنے کی مؤدبانہ درخواست کی ۔ موصوف جوان انتہائی بیزاری اور بدتمیزی کے ساتھ گویا ہوئے ” اُدھر کہیں سے نکال لو گاڑی ۔ ڈسٹرب نہیں کرو“۔

5 ۔ چوراہے پر گاڑیاں کھڑی ہیں ۔ میرے داہنی طرف داہنی جانب مڑنے والی قطار ہے ۔ بائیں جانب 2 قطاریں ہیں ۔ اشارہ کھُلنے پر گاڑیاں چلتی ہیں ۔ میں چوراہے کو عبور کر چکا ہوں ۔ اچانک ایک تیز رفتار گاڑی میرے اور میرے بائیں جانب والی گاڑی کے درمیان گھُس کر زبردستی میری گاڑی کے آگے گھُسنے کی کوشش کرتی ہے ۔ میں یکدم بریک لگاتا ہوں مگر وہ میری گاڑی کی بائیں ہیڈ لائیٹ کے بائیں جانب کو پچکا دیتی ہے ۔ اُس گاڑی کو روک لیا جاتا ہے گاڑی والے صاحب باہر نکلے بغیر مجھے ڈانٹ پلاتے ہیں ” اِن کو کار چلانا نہیں آتی ۔ اِن کی ٹائیمنگ غلط ہے ۔ دیر سے بریک لگائی ہے“۔ اور گاڑی بھگا کر لے جاتے ہیں

6 ۔ پارکنگ ایریا میں ایک گاڑی کھڑی کرنے کی جگہ دیکھ کر مُڑنے کا اشارہ دیا اور گاڑی پارک کرنے لگا ۔ ساتھ والی گاڑی باہر نکلنا شروع ہو گئی اور مجھے پیچھے ہٹنا پڑا ۔ جب جگہ بن گئی تو میں گاڑی پارک کرنے کو آگے بڑھا لیکن ایک گاڑی بڑی تیزی سے زبردستی گھُس کر وہاں کھڑی ہو گئی اور گاڑی والے صاحب جلدی سے نکل کر یہ جا وہ جا ۔ میں دیکھتا ہی رہ گیا

7 ۔ سروس روڈ پر سڑک کے دونوں جانب گاڑیاں پارک ہیں ۔ میں جانا چاہتا ہوں داہنے بائیں دیکھ کر کہ کوئی گاڑی نہیں آ رہی گاڑی رِیوَرس (reverse) کرتا ہوں ۔ آدھی گاڑی پیچھے آ چکی ہے کہ اچانک پیچھے سے موٹر سائیکل اور کاریں گذرنا شروع ہو جاتی ہیں ۔ کافی انتظار کے بعد گاڑیاں تھمتی ہیں تو جلدی سے گاڑی پیچھے لیجاتا ہوں ۔ مڑنے لگتا ہوں تو دیکھتا ہوں میں دونوں طرف سے گاڑیوں میں گھِر گیا ہوں اور موٹر سائیکل آگے سے گذرنا شروع ہو جاتے ہیں ۔ چند لمحے بعد ہارن بجنے شروع ہو جاتے ہیں لیکن کوئی شخص اتنا نہیں کرتا کے اپنی گاڑی تھوڑی پیچھے ہٹائے تاکہ میں گاڑی نکال لوں اور راستہ کھُل جائے

8 ۔ میں پارکنگ میں گاڑی کھڑی کر کے چلتا ہوں ۔ مارکیٹ میں داخل ہونے سے قبل بے خیالی میں داہنی طرف دیکھتا ہوں تو چونک جاتا ہوں ۔ ایک جوان میری گاڑی کے پیچھے اپنی گاڑی آڑی کھڑی کر کے چل دیئے ہیں ساتھ ایک جوان خاتون بھی ہیں ۔ اُن کے پاس جا کر مؤدبانہ درخواست کرتا ہوں کہ 2 گاڑیوں کے بعد بہت جگہ ہے اپنی گاڑی میری گاڑی کے پیچھے سے ہٹا کر اُدھر کھڑی کر دیجئے ۔ موصوف میری طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے اور خاتون سے گپ لگاتے چلے جا رہے ہیں ۔ میں 3 بار عرض کرتا ہوں مگر بے سود ۔ آخر میں اُس جوان کو بازو سے پکڑ کر جھنجھوڑ کر غُصیلی آواز میں کہتا ہوں ”گاڑی ہٹائیں وہاں سے“۔ تو صاحب واپس جا کر گاڑی ہٹاتے ہیں ۔ کیا میرے ہموطن صرف ڈنڈے کی بات سمجھتے ہیں ؟

بیوقوف کی پہچان

میں اُن دنوں گیارہویں جماعت میں پڑھتا تھا ۔ رہائش راولپنڈی شہر میں تھی ۔ چند ہمجماعت آئے کہ یومِ آزادی منانے کیلئے راجہ بازار سجایا گیا ہے چلو دیکھتے ہیں ۔ میرے لئے یہ پہلا موقع تھا سو چل پڑا ۔ راجہ بازار پہنچے تو بہت لوگ تھے جن میں زیادہ تعداد جوانوں کی تھی ۔ عورتیں اور لڑکیاں بھی تھیں مگر کم تعداد میں ۔ ابھی تھوڑا ہی چلے تھے تو مجھے پریشانی شروع ہوئی کہ یہ جگہ سیر کرنے کی حالت میں نہیں ہے ۔ میں نے واپسی کا ارادہ ظاہر کیا تو ساتھیوں نے کہا ” تھوڑا سا تو دیکھ لیں“۔ اور ہم ہجوم میں سے تیز تیز راستہ بنانے لگے ۔ ہم نے دیکھا کہ آگے کچھ لڑکیاں ہیں تو راستہ بدل کر نکلنے کی کوشش کی ۔ کچھ جوان جو سامنے سے آ رہے تھے وہ لڑکیوں کے قریب سے ہو کر گذرے ۔ ہم نے نہیں دیکھا کہ اُنہوں نے کیا کیا لیکن لڑکیوں کی رفتار تیز ہو گئی جیسے کوئی پریشانی میں بچ کر نکلنے کی کوشش کرتا ہے ۔ اس پر ہم سب واپس ہو لئے ۔ بھیڑ کی وجہ سے رفتار کافی سُست تھی تھوڑی دیر بعد ایک ساتھی نے کہا ”وہی بدمعاش پھر آ رہے ہیں“۔ میں اُن کی طرف غور سے دیکھنے لگا ۔ وہ 3 صحتمند لڑکے تھے ۔ اچانک وہ تیزی سے اپنے داہنی طرف کو گئے ۔ میں نے جو اُدھر نظر کی تو دیکھا کہ کچھ لڑکیاں آ رہی ہیں ۔ پلک جھپکنے سے بھی پہلے میں لپک کر اُن میں درمیان والے لڑکے کے سامنے پہنچا جو اُن کا لیڈر لگتا تھا اور پوری قوت سے اُسے دھکا دیا ۔ اس ناگہانی دھکے سے وہ سنبھل نہ پایا اور سڑک پر گرا ۔ وہ اُٹھ کر مجھ پر کودا مگر بڑے لوگوں نے اُسے اور اس کے ساتھیوں کو قابو کر لیا اور مجھے جانے کا کہا ۔ میں اگر بیچ میں نہ آتا تو وہ لڑکے سیدھے اُن لڑکیوں سے ٹکرا جاتے اور نامعلوم مزید کیا کرتے

واپسی پر میرے ساتھی کہنے لگے ” بیوقوف ذرا دیکھ کر تو ہاتھ ڈالتے ۔ تم سے دو گنا طاقتور تھا ۔ لوگ بیچ میں نہ پڑتے تو اُس نے تمہارا قیمہ بنا دینا تھا“۔ مگر مجھے اپنے کئے پر کوئی افسوس نہ تھا (ہوا جو بیوقوف)

میں انجیئرنگ کالج لاہور میں پڑھتا تھا ۔ لاہور میں انجینئرنگ کی سٹیشنری الفا میاں قلعہ گوجر سنگھ اور ڈرائینگ اینڈ سروے سٹور انارکلی میں ملتی تھی ۔ الفا میاں مہنگا تھا اسلئے میں اور میرے جیسے لڑکے انارکلی سے سامان لیتے تھے ۔ ایک دن انارکلی سے ہو کر میں اور ایک ساتھی واپس آ رہے تھے کہ جی پی او کے سٹاپ سے بس پر چڑھیں گے ۔ وہاں انتطار کیا بس آئی اور بھری ہوئی تھی کھڑی نہ ہوئی ۔ کچھ اور ہمجماعت بھی پہنچ گئے تھے ۔ فیصلہ پیدل چلنے کا ہوا ۔ مال کے کنارے جا رہے تھے ۔ باقی ساتھی بار بار رُک جاتے تو مجھے اُن کی انتظار کرنا پڑتی ۔ میں نے اعتراض کیا تو ایک بولا ”یار 13 کلو میٹر پیدل جانا ہے ۔ آنکھیں سینکتے ہوئے جا رہے ہیں کہ سفر کٹ جائے ۔ مجھے بُرا لگا اور کہہ دیا ”کچھ کرنے کے قابل ہو تو لے جاؤ کسی کو ساتھ ۔ یوں ہیجڑوں کی طرح کیا دانت نکال رہے ہو“۔
ایک صاحب بولے “یار ۔ تم تو ہو بیوقوف ۔ باقی سب کو تو اپنے جیسا نہ سمجھو“۔

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ گفتار یا عمل ؟

کل کو اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی آپ سے یہ نہیں پوچھے گا کہ

تم نے کیا خواب دیکھے تھے ؟
تم کیا سوچتے تھے ؟
تمہارے منصوبے کیا تھے ؟
تم نے کتنا بچا کر جمع کیا ؟
تم کیا پرچار کرتے رہے ؟

بلکہ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی یہ پوچھے گا کہ
تم نے قرآن پر کتنا عمل کیا ؟
تم نے حقدار کو اُس کا حق پہنچایا ؟
تمہارا دوسروں سے سلوک کیسا تھا ؟

Having sat for many years across many tables from many of the ‘folks’ the US tortured in the global ‘war on terror,’ men like Murat Kurnaz and Mohammed al-Qatani, and having heard first-hand their stories of being beaten, hung from ceilings, sexually assaulted, exposed to extreme temperatures, deprived of sleep, and subjected to numerous other brutal acts, my colleagues and I at the Center for Constitutional Rights can assure you: the important thing about the torture report is not just what we learn from it — it is what we do about it.

مکمل یہاں کلک کر کے پڑھیئے ” Preventing Torture “

میری ذات

میں ذات پات کی بات کرنے نہیں جا رہا ۔ میرا موضوع ہے ”میں خود“۔

نوکیلے پتھروں پہ چل کے کانٹوں میں راہ بناؤ
یہ تیری زندگی ہے اجمل ۔ خیاباں نہیں ہے

میں نے 1947ء سے 1994ء تک کی اپنی زندگی کو چند الفاظ میں اُوپر لکھ دیا ہے ۔ نوکیلے پتھروں اور کانٹوں کی کچھ جھلکیاں مندرجہ ذیل عنوانات کے تحت سپُردِ قلم کر چکا ہوں ۔ بلاگ کے حوالے سے ہونے والی گفتگو کی جھلک آج کی تحریر میں ملے گی اور میری عادات اور بچپن میں میرے معمولاتِ زندگی کا مختصر ذکر بھی موجود ہے
جو واقعات باقی ہیں اُن میں سے کچھ تو اسی طرح کے ہیں اور کچھ کو یاد کر کے میں اپنے لئے کرب کے لمحات پھر زندہ نہیں کرنا چاہتا ۔ اسلئے ان کا لکھنا مناسب نہیں

(1) وفاداری کس سے ؟ (2) سینے پر مُونگ (3) گفتار و کردار (4) گھر کی مُرغی (5) بابائے مشین گن (6) باس (7) میں چور (8) کہانی کیا تھی (9) لبیا اور یو اے ای کیسے گیا ؟ (10) مٹیریئل کہاں سے آتا ہے (11) کرے کوئی بھرے کوئی (12) پیٹھ میں چھُرا گھوپنا
1947ء کے واقعات بھی مختصر یہاں لکھے ہیں
(1) میرا بچپن (2) قتلِ عام کی ابتداء (3) میری ہتھیلیاں کانٹوں سے چھلنی (4) 6 نومبر کا قتلِ عام

میری کچھ عادات کے سبب شاید مجھے اجنبی مخلوق سمجھا جائے

میں نے کبھی کسی کو گالی نہیں دی
زندگی میں صرف ایک بار ایک لڑکے سے لڑائی ہوئی وہ بھی اسلئے کہ وہ میرے گلے پڑ گیا تھا
میں نے گلی میں کھیلنا یا کھڑے رہنا یا پُلی پر بیٹھنا کبھی پسند نہ کیا
بنٹے (گولیاں یا ماربلز) اور اخروٹ میں نے کبھی نہیں کھیلے
2 بار پتنگ اُڑائی ایک بار پاکستان بننے سے قبل اور ایک بار پاکستان بننے کے بعد
شاید 2 درجن بار پِٹھو گرم اور گلی ڈنڈا کھیلا ہو گا مگر میدان میں ۔ گلی میں نہیں
پاکستان بننے سے قبل ہمارے گھر کے سامنے ۔ داہنے اور بائیں مکانوں میں میرے علاوہ صرف ایک لڑکا تھا باقی سب لڑکیاں تھیں ۔ دوسرا لڑکا جو مجھ سے 4 سال بڑا تھا روندچی تھا اسلئے لڑکیاں صرف مجھے اپنے ساتھ کھلاتی تھیں چنانچہ میں رسی ٹاپنے کا ماہر ہو گیا تھا اور لڑکیوں والی دوسری کھیلیں بھی اچھی کھیل لیتا تھا اور ہاں شٹاپُو بہت کھیلا ۔ لڑکیوں میں 2 میری بڑی بہنیں 2 رشتہ دار اور5 محلہ دار تھیں جن میں 3 میری ہم عمر باقی بڑی تھیں ۔ میں لڑکیوں کا احترام کرتا تھا جو سکول اور کالج کے زمانہ اور بعد میں بھی جاری رہا ۔ ساری عمر اپنی سگی اور پھوپھی زاد بہنوں کے علاوہ باقیوں سے فاصلہ رکھا اور کبھی بے تکلف نہ ہوا ۔ پھوپھی زاد بہنیں میرے بچپن میں ہمارے گھر ہی میں رہتی تھیں کیونکہ میری پھوپھو فوت ہو گئی تھیں

بچپن میں معمولات
شروع 1950ء سے ستمبر 1956ء تک جب میں تعلیم کے سلسلہ میں لاہور چلا گیا میرے معمولات یہ تھے

1 ۔ جون 1955ء کو وفات تک روزانہ بعد دوپہر اور رات کو دادا جان کے بازو کندھے اور ٹانگیں سہلانا (اس عمل کو دبانا بھی کہتے ہیں)
2 ۔ روزانہ شام کو والد صاحب کے بازو کندھے اور ٹانگیں سہلانا
3 ۔ روزانہ صبح سویرے والد صاحب کا بائیسائکل صاف کرنا
4 ۔ ہفتہ میں تین یا چار بار اپنے اور والد صاحب و بہن بھائیوں کے جوتے پالش کرنا
5 ۔ ہفتہ میں ایک بار اپنے اور والد صاحب و بھائیوں کے کپڑے استری کرنا
6 ۔ ہفتے میں 2 بار پیدل جا کر سبزی منڈی (گھر سے ڈیڑھ کلومیٹر) سے سبزی اور فروٹ منڈی (گھر سے 3 کلو میٹر) سے پھل لانا
7 ۔ ہر ماہ پیدل جا کر دالگراں بازار (گھر سے 2 کلو میٹر) سے مختلف قسم کی دالیں لانا اور راشن ڈپو (قرب ناز سنیما) سے چینی لانا
8 ۔ گرمیوں میں روزانہ شام کو 4 چارپائیاں چھت پر چڑھانا اور اگلی صبح نیچے اُتارنا
9 ۔ گیارہویں جماعت میں داخل ہونے تک روزانہ دوپہر کو سکول سے آ کر اپنا اور والد صاحب کا کھانا لے کر نرنکاری بازار (گھر سے ڈیڑھ کلومیٹر) جانا اور وہیں دوپہر کا کھانا کھانا

دوسرے معمولات
سکول میں آدھی چھٹی کے وقت سکول کا کام کر لیتا تھا اور جو باقی بچتا چھُٹی کے بعد سڑک کے کنارے پتھر پر بیٹھ کر کر لیتا پھر گھر جاتا ۔ بارہویں پاس کرنے تک رات کو عشاء کی نماز کے بعد سو جایا کرتا تھا اور صبح پَو پھٹتے ہی اُٹھ جاتا ۔ اُٹھتے ہی گھر (جھنگی محلہ) سے چل پڑتا ۔ ساتھ والے محلہ (سید پوری گیٹ) سے میرا ہمجماعت اور دوست رشید بنی چوک سے قبل ہی مل جاتا ۔ ہم دونوں عید گاہ قبرستان کے قریب جاتے (فاصلہ 2 کلو میٹر)۔ رشید پھلائی کے درخت سے ایک ٹہنی کاٹ کر اس کی 2 مِسواک بناتا اور ہم دونوں دانت صاف کرتے گھروں کو واپس پہنچتے ۔ واپس آ کر میں نہاتا اور مسجد جا کر فجر کی نماز پڑھتا ۔ پھر پڑھنے بیٹھ جاتا ۔ جب ناشتہ تیار ہوتا تو ناشتہ کر کے کپڑے تبدیل کرتا اور سکول یا کالج کو چل دیتا
میں 2010ء تک دن میں بالکل نہیں سوتا تھا

اللہ کریم نے اتنا اچھا ذہن عطا کیا تھا کہ جو میں ایک بار یاد کر لیتا اُسے دوبارہ یاد کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی ۔ میں رَٹا نہیں لگا سکتا تھا ۔ میرا یاد کرنے کا طریقہ یہ تھا کہ کتاب سے ایک بار غور سے پڑھتا پھر کتاب بند کر کے اُسے لکھنا شروع کر دیتا ۔ لکھنے کے بعد کتاب سے موازنہ کرتا ۔ جہاں غلطی ہوتی اُسے پھر سے پڑھتا اور ذہن میں دہراتا ۔ پھر لکھنے بیٹھ جاتا ۔ زیادہ سے زیادہ 3 بار لکھنا پڑتا ۔ اس کیلئے میں نیا کاغذ استعمال نہیں کرتا تھا بلکہ رَدّی کی دکان سے سفید کاغذ جن کے ایک طرف لکھا ہو چھانٹی کر کے لے آتا اور یہ لکھائی اُن پر کرتا تھا۔ حساب ۔ جیومیٹری اور الجبرا کے سوال حل کرتے رہنا تو میرا شوقیہ کھیل تھا ۔ سکول میں ہمارے اساتذہ صاحبان نے میرا نام الجبراء دان رکھا ہوا تھا

جب میں پیدل یا بائیسائکل پر سودا سلف لینے یا کسی اور کام سے نکلتا تو راستہ میں اُس دن اسکول میں پڑھا ہوا سبق زبانی دہرا لیتا ۔ میری نظریں سڑک یا گلی کے ساتھ ساتھ دونوں اطراف لگے بورڈوں پر بھی ہوتیں ۔ مجھے یاد رہتا کہ کونسا بورڈ کہاں دیکھا تھا چنانچہ واقف لوگ مجھ سے پوچھا کرتے تھے فلاں دکان یا دفتر کس جگہ ہے

میں نے سکول کے زمانہ میں گرمیوں کی چھٹیوں میں فرسٹ ایڈ ۔ ہوائی حملہ سے بچاؤ اور آگ بجھانے کا ایک ایک اور معلوماتِ عامہ کے 3 امتحان پاس کئے
میں آٹھویں جماعت میں تھا کہ والد صاحب نے انگریزی رسالہ ریڈرز ڈائجسٹ سالانہ کی بنیاد پر لگوا دیا جو میرے بارہویں پاس کر کے انجنیئرنگ کالج لاہور جانے تک جاری رہا ۔ میں اسے پورا پڑھ ڈالتا ۔ اس میں مجھے How to increase your word power بہت پسند تھا ۔ اسے پڑھ کر میں اپنا امتحان لیا کرتا تھا.
میری بڑی بہن ایک کتاب لائیں جس کا موضوع تھا How to increase your will power میں نے ساری پڑھ ڈالی. اس میں اپنے اوپر کرنے والی مشقیں ہوتی تھیں جو میں بڑے شوق سے کرتا ۔ ان میں آسان سی 2 یہ تھیں
1 ۔ ایک سٹول صحن یا کمرے کے درمیان میں رکھ اس پر ایک ٹانگ کے سہارے کھڑے ہو جاؤ ۔ بے شک گھر کے لوگ گذرتے اور مذاق اُڑاتے رہیں 10 منٹ اُسی طرح کھڑے رہو
2 ۔ بھری ہوئی ماچس کی ڈبیہ کھول کر ساری تیلیاں اس طرح پھینکو کہ بکھر جائیں پھر ایک ایک تیلی اُٹھا کر ڈبیہ میں سیدھی ساتھ ساتھ قرینے سے رکھتے جاؤ ۔ جب سب تیلیاں رکھ چکو تو پھر اُسی طرح ڈبیہ اُنڈیل دو اور اُسی طرح واپس رکھو ۔ یہ عمل تیسری بار بھی کرو ۔ اُس زمانہ میں ماچس کی ڈبیہ میں 52 تیلیاں ہوا کرتی تھیں

سکول کے دنوں میں چند ماہ شام کو ہاکی کھیلی اور گیارہویں بارہویں کے دوران شام کو باسکٹ بال ۔ بارہویں جماعت تک میں جمناسٹک بھی کیا کرتا تھا ۔ انجنیئرنگ کالج ہوسٹل میں جب پڑھائی سے وقت ملتا ٹیبل ٹینس یا بیڈ منٹن کھیلتا
نویں جماعت میں تھا تو چند ہمجماعت لڑکے مقابلہ کرتے تھے کہ کرسی کی اگلی ٹانگ زمین کے قریب سے پکڑ کر کرسی سیدھی اُوپر اُٹھائی جائے ۔ میں نے اس کی مشق کی اور بازو والی بڑی کرسی بھی اُٹھانے لگا ۔ یہ کرسیاں شیشم (ٹاہلی) کی بنی ہوتی تھیں جو بہت وزنی ہوتی تھیں
جب میں دسویں میں تھا تو ہاتھ زمین پر رکھ کر اپنی چھوٹی بہن جو 4 سال کی تھی کو کہتا ”میری ہتھیلی پر کھڑی ہو جاؤ اور بالکل سیدھی کھڑی رہنا“۔ وہ کھڑی ہو جاتی اور میں اُوپر اُٹھاتا اور اپنا بازو سیدھا رکھتے ہوئے اپنے کندھے کی سطح تک ہاتھ لے جاتا اور 5 منٹ اسی طرح کھڑا رہتا ۔ ہوتے ہوتے ایک سال بعد میں اپنی اس 5 سالہ بہن کو داہنی ہتھیلی پر اور 3 سالہ بھائی کو بائیں ہتھیلی پر کھڑا کر کے بازو سیدھے رکھتے ہوئے دونوں ہاتھ اکٹھے اُٹھا کر کندھوں کی سطح پر لے جاتا
گھر میں جب کوئی ساتھ کھیلنے والا مل جاتا بیڈمنٹن یا لُڈو یا سانپ سیڑھی کھیل لیتا
سماجی اور بہبود کے کاموں میں حصہ لینا میں نے سکول سے لے کر اب تک اپنا فرض جانا اور حتی الوسعت ان میں حصہ لیا

میں نے جو کچھ 1947ء میں دیکھا اُس نے بہت چھوٹی عمر میں مجھ میں سوچنے ۔ سمجھنے اور باتیں کرنے سے زیادہ عمل پیرا ہونے کی عادت ڈال دی تھی ۔ میرا نظریہ رہا کہ دوسرے مجھ سے زیادہ مُشکلات میں گھِرے ہو سکتے ہیں اسلئے میں نے دوسروں کو مشکل میں ڈالنے کی بجائے ہمیشہ اُن کی مدد کرنے کا سوچا ۔ اسی سوچ کے تحت میں نے اپنی تکلیف اور مُشکلات کا عِلم شادی سے قبل والدین یا کسی بہن بھائی کو نہ ہونے دیا اور شادی کے بعد بیوی اور بچوں سے دُور رکھا

میرے اللہ کا مجھ پر بہت کرم رہا کہ میں انتہائی تکلیف یا ذہنی کرب میں بھی ہوتا اور کوئی حال پوچھتا تو میرا جواب ہوتا ”الحمدللہ ۔ میں ٹھیک ہوں“۔ صرف ایک واقعہ رقم کرتا ہوں ۔ دسمبر 1964ء میں ایک دوائی کا ردِ عمل ہوا اور میرے گردوں میں سے خون بہنا شروع ہو گیا ۔ عِلم اُس وقت ہوا جب جسم کا آدھا خون بہہ گیا تھا یعنی ہیموگلوبن 6.9 رہ گئی تھی ۔ ہسپتال میں 3 دن بیہوش رہنے کے بعد آنکھیں کھولیں ۔ ہاتھ اُٹھانے کی کوشش کی نہیں اُٹھا ۔ سر ہلانے کی کوشش کی مگر بے سُود ۔ اتنے میں ایک ڈاکٹر صاحب کمرے میں داخل ہوئے ۔ ہوش میں دیکھ کر پوچھا ”کیسی طبیعت ہے ؟“ اللہ سُبحانُہُ و تعالیٰ نے مجھ سے کہلوایا ”الحمدللہ ۔ ٹھیک ہوں“۔

میں نے بی ایس سی انجنیئرنگ پاس کرنے کے بعد دسمبر 1962ء میں ملازمت شروع کی ۔ پہلے 5 ماہ صافی تنخواہ 456 روپے تھی جس میں سے 16 روپے رکھ کر باقی والد صاحب کو دیتا رہا ۔ اس کے بعد ایک سال صافی تنخواہ 500 روپے تھی جس میں سے 30 روپے رکھ کر باقی والد صاحب کو دیتا رہا ۔ پھر 6 ماہ صافی تنخواہ 550 روپے تھی جس میں سے 30 روپے رکھ کر باقی والد صاحب کو دیتا رہا ۔ نومبر 1964ء میں صافی تنخواہ 650 روپے ہو گئی جو بڑھتے بڑھتے نومبر1967ء میں 800 روپے ہو گئی جس میں سے 30 روپے رکھ کر باقی والد صاحب کو دیتا رہا ۔ یہ 16 یا 30 روپے دفتر جانے آنے کیلئے بس کا کرایہ اور دفتر میں ایک پیالی چائے پینے کیلئے تھے ۔ یہ عمل جنوری 1968ء تک جاری رہا پھر میں بیوی سمیت واہ منتقل ہو گیا اور دسمبر 1971ء تک صافی تنخواہ کا 30 سے 50 فیصد والد صاحب کو دیتا ریا ۔ 1972ء میں اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں تیز رفتاری سے بڑھنے لگیں ۔ 1972ء کے آخر حال یہ ہوا کہ پیاز جو 1971ء میں ایک روپے کے 2 کلو گرام ملتے تھے وہ 5 روپے کا ایک کلو گرام ہو گئے اس وقت تک میں 2 بچوں کا باپ بن چکا تھا اسلئے کوشش کر کے جو بھی بچا پاتے والد صاحب کو دے دیتا ۔ 1984ء تک مالی اور کچھ دوسری ذمہ داریاں مجھ پر رہیں

کوئی نہیں جانتا کہ جب میں انجنیئرنگ کالج لاہور میں آخری سال میں تھا اور والد صاحب کی مالی حالت خراب ہو گئی تھی تو کئی ماہ میں نے صرف ایک وقت کھانا کھایا اور ناشتے میں سوکھی ڈبل روٹی کھا کر اللہ کا شکر ادا کرتا رہا ۔ میرے چھوٹے 5 بہن بھائی زیرِ تعلیم تھے ۔ 1965ء میں میرے سوا تین سال چھوٹے بھائی نے شادی کرنے کیلئے بے قراری دکھائی تو 14 اگست 1965ء کو ہم دونوں کی منگنی کر دی گئی لیکن بوجوہ دونوں کی شادی نومبر 1967ء میں ہوئی ۔ میں 7 دسمبر 1970ء کو باپ بنا جبکہ میرا چھوٹا بھائی ساڑھے پانچ ماہ قبل 2 بچوں کا باپ بن چکا تھا ۔ چھوٹا بھائی برسرِ روزگار نہ تھا اسلئے کچھ سال والدین کے اخراجات میں اضافہ کا باعث بنا رہا ۔

سوائے میری بیوی کے کوئی نہیں جانتا کہ وسط 1974ء سے اوائل 1976ء تک ہم صرف سبزی اور دالوں پر گذارا کرتے رہے ۔ گوشت کبھی کبھار دل کی تسلی کیلئے پکا لیتے اور اپنے 2 ننھے بچوں کو دن میں ایک ایک پیالی دودھ پلاتے رہے

1973ءمیں اپنے ماتحت بے قصور ملازمین کی مدد کرنے کی پاداش میں مجھ پر سخت وقت آیا ۔ ایسے وقت میری بیوی نے میرے ساتھ مرنے کا فیصلہ دے دیا تھا جس سے مجھے تقویت ملی تھی ۔ میں عملی زندگی میں کِن مشکلات سے جنگ کرتا رہا ۔ میرے عزیز و اقارب میں سے کسی کے عِلم میں نہیں تھا ۔ پچھلے 2 سال کے دوران جس نے میرے بلاگ کو باقاعدگی سے پڑھا ہو گا اُس کے علم میں کچھ واقعات آئے ہوں گے

میں نے اُردو میں یہ بلاگ 5 مئی 2005ء کو شروع کیا ۔ جب میرا بلاگ زیادہ پڑھا جانے لگا تو گاہے بگاہے قارئین ذاتی کوائف اور حالات لکھنے کی فرمائش کرنا شروع ہوئے ۔ میں اُنہیں مطمئن کرنے کی کوشش کرتا رہا ۔ وہ بھی شرافت کے باعث چُپ ہو جاتے رہے ۔ 6 سال یونہی گذر جانے کے بعد ایک صاحب نے دلائل پیش کئے جو میری کمزوری ہے ۔ چنانچہ میں ہار گیا اور ملازمت میں اپنے تجربات لکھنا شروع کئے ۔ آخر ذاتی معاملات کی باری آئی جو بچوں سے شروع کئے اور بالآخر آج میری ذات کی باری آ گئی

اس بلاگ کے پونے 10 سالہ سفر میں مجھے کچھ قارئین سے ذاتی تنقید کے علاوہ تُند و تیز اور بعض اوقات زہر آلود باتیں بھی سُننا پڑیں ۔ سب سے بے ضرر فقرے اس قسم کے تھے
”بُوڑھے ہو کر سب پارسا ہو جاتے ہیں“۔
یا
”آپ جوانی میں بھی ایسے ہی تھے یا کہ بُوڑھے ہو کر نصیحتیں شروع کر دی ہیں ؟“
چند ایک نے مجھے منافق کہا ۔ ایک دو صاحبان نے میرے آباؤ اجداد کو بھی نہ بخشا جو اس دنیا سے کُوچ کر چُکے تھے
زندگی کے نشیب و فراز تو ایک طرف ۔ لوگ کسی طور جینے نہیں دیتے
جب میں خاموش بیٹھ کر سب کی باتیں سُنتا رہتا تو کہا جاتا ”بولنے پر اس کے پیسے لگتے ہیں“ یا ”یہ مغرور ہے دوسروں کو اس قابل نہیں سمجھتا“۔
جب بولتا تو سُننا پڑتا ”یہ تو یونہی بولتا رہتا ہے” یا ”یہ تو ہے ہی بیوقوف“۔
ایک سیدھی سادھی خاتون تھیں جو مجھے اچھا سمجھتی تھیں اور جانتی تھیں کہ میں سچ بولتا ہوں ۔ ایک دن میں اُن کے ہاں گیا ہوا تھا ۔ سچ بولنے کے نتیجہ میں مجھے نقصان پہنچا تھا جس کا عِلم اُنہیں ہو گیا تھا مگر میرے منہ سے سننا چاہتیں تھیں ۔ میں نے کہا ”میں جھوٹ کیسے بولتا“۔ بولیں ”ایسا بھی کیا سچ بولنا کہ آدمی اپنا نقصان کر لے“۔

بچے پیار کے ہوتے ہیں اور پیار سے ہی سیکھتے ہیں ۔ مار پٹائی بچوں کی تخلیقی قابلیت پر بُرا اثر ڈالتی ہے ۔ میں نے اللہ کے فضل سے اپنے تینوں بچے پیار اور حوصلہ افزائی سے پالے اور اُن کی ماں (جو اُن کی محبت میں سب کچھ قربان کرنے کو تیار رہتی ہے) نے اُن سے بے جا لاڈ نہیں کیا ۔ اللہ قادر و کریم نے اپنا فضل کیا اور بغیر کسی ٹیوشن یا والدین کی مدد کے ماشاء اللہ تینوں بچے عام تعلیمی اداروں میں پڑھ کر تعلیم میں اچھے رہے اور عملی زندگی میں بھی خود مختار ہیں یعنی والدین یا کسی اور انسان کی طرف سے کوئی سہارا ۔ ٹیک ۔آڑ ۔ آسرا وغیرہ نہ تلاش کیا اور نہ لیا ۔ صرف اتنا پوچھ لیتے ”ابو ۔ یہ کر لوں ؟“

مندرجہ ذیل عِلّتیں یا بُری عادات بچپن ہی میں میرا وطیرہ بن گئی تھیں اور آج تک میرا پیچھا نہیں چھوڑا ۔ زندگی بھر اِن کی وجہ سے میں نے بہت سے لوگوں کو ناراض کیا
1 ۔ جھوٹ نہ بولنا
2 ۔ منافقت سے بچنا
3 ۔ دوسرے کی زیادتی بھُلا دینا
4 ۔ اپنی پرواہ کئے بغیر دوسروں کی مدد کرنا
5 ۔ جو مِل جائے اُس پر مطمئن رہنا

اللہ مجھ پر بہت مہربان رہا ۔ سکول ۔ کالج (گیارہویں بارہویں) اور انجنیئرنگ کالج سب جگہ اساتذہ اور طلباء مجھ پر اعتماد کرتے تھے ۔ اساتذہ خاص بات یہ کہہ کر مجھ سے پوچھتے کہ یہ سچ بتائے گا ۔ لڑکے اپنے پیسے محفوظ کرنے کیلئے میرے پاس رکھتے ۔ کچھ لڑکے اپنے راز مجھے بتا کر میرا مشورہ مانگتے ۔ مشورے تو آج تک مجھ سے لئے جاتے ہیں

اللہ کریم نے بیوی ایسی دی کہ ہر دم اور ہر حال میں میرا ساتھ دیا اور مجھے گرنے نہیں دیا
اللہ کی کرم نوازی کہ میرے تینوں بچے سوائے فیسوں اور کتابوں وغیرہ کے اخراجات کے ، مجھ پر بوجھ نہ رہے اور ماشاء اللہ اب ہماری خدمت کے ساتھ سیر و تفریح اور اخراجات کا بھی خیال رکھتے ہیں ۔ اللہ بے نیاز ہے جس پر جتنا چاہے کرم کر دے ۔ اللہ نے یہ کرم بھی فرمایا تھا کہ
ہماری شادی ہوئے 7 سال گذر چکے تھے ۔ میری بیگم نے اس دوران ایک کپڑا بھی نہ خریدا تھا ۔ 1974ء کے آخر میں میں نے کہا ”میرے ساتھ چلیں اور اپنی پسند کا ایک دو جوڑے کا کپڑا لے لیں“۔ بولی ”رہنے دیں ۔ شادی کے دنوں والے کپڑے زیادہ نہیں پہنے ۔ کہیں جانا ہوا تو وہ پہن لوں گی“۔
میرا چھوٹا بیٹا فوزی وسط 1984ء میں چوتھی جماعت میں تھا ۔ اس کے کپڑے پرانے ہو گئے تھے ۔ میں نے کہا ” چلو بیٹا ۔ آپ کو نئے کپڑے لے دوں“۔
بولا ”زکریا بھائی کے جو کپڑے چھوٹے ہو گئے ہیں وہ میں پہن لوں گا“۔
بڑا بیٹا زکریا وسط 1986ء میں دسویں جماعت میں تھا ۔ اس کی پتلون چھوٹی ہو کر ٹخنوں سے اُوپر چلی گئی تھی ۔ میں نے کہا ”بیٹے ۔ میرے ساتھ چلو ۔ نئی پتلون لے دوں“۔
زکریا بولا ”ابو جی ۔ رہنے دیں ۔ گذارہ ہو رہا ہے“۔
ہر بار اللہ کے تشکّر میں میرے آنسو ٹپک پڑے

اللہ کریم نے مجھے قدم قدم پر سہارا دیئے رکھا ۔ میں اپنے آپ کو بہت خوش نصیب سمجھتا ہوں ۔ میری بیوی ۔ بچے میرا قیمتی سرمایہ ہیں اور بہن بھائی بھی بہت خیال رکھتے ہیں

اس تحریر کے بعد یوں محسوس ہو رہا ہے کہ میری زندگی کا سرمایہ لُٹ گیا ہے اور میں بے مایہ ہو گیا ہوں
اللہ کریم میری غلطیاں معاف فرمائے