جب آپ پیدا ہوۓ تو آپ رو رہے تھے
اور باقی سب لوگ خوش ہو رہے تھے
اپنی زندگی ایسے گذارئیے کہ جب موت آۓ
آپ مسکرا رہے ہوں اور باقی سب رو رہے ہوں
جب آپ پیدا ہوۓ تو آپ رو رہے تھے
اور باقی سب لوگ خوش ہو رہے تھے
اپنی زندگی ایسے گذارئیے کہ جب موت آۓ
آپ مسکرا رہے ہوں اور باقی سب رو رہے ہوں
اگر ہم اپنے چھوٹے چھوٹے دکھ بھلا دیں
اور اپنی چھوٹی چھوٹی خوشیاں یاد رکھیں
اگر ہم اپنے چھوٹے چھوٹے نقصان بھلا دیں
اور جو فائدے پائے ان سب کو یاد رکھیں
اگر ہم لوگوں میں عیب ڈھونڈنا چھوڑ دیں
اور ان میں خوبیاں تلاش کر کے یاد رکھیں
کتنی آرام دہ ۔ خوش کن اور اطمینان بخش
یہ دنیا بن جائے اس معمولی کوشش سے
اور اللہ کی مہربانی سے آخرت میں بھی جنّت مل جائے
جن جوتوں کو پہننے سے آپ کے پاؤں میں تکلیف محسوس ہو انہیں پہننے سے دوسررں کو بھی تکلیف ہی ہو گی ۔
ہمیشہ خیال رکھئے کہ دوسرے کے لئے وہی پسند کیجئے جو آپ کو پسند ہو
روزانہ چوتھائی پارہ قرآن شریف مع ترجمہ سمجھ کر پڑھیئے
اگر اپنے لئے نہیں تو دوسروں کے لئے مُسکرایئے
دوسروں کی بات ہمہ تَن گوش ہو کر سنیئے
بچوں کی نئی دریافت چوکسّی سے دیکھیئے
اپنی ناشادگی کا الزام دوسروں پر نہ رکھیئے
دوسروں کی تعریف کُشادہ دِلی سے کیجئے
جو مُشکِل میں ہو اُس کی حوصلہ اَفزائی کیجئے
دوسروں پر تنقید کم کیجئے
اچھے کام میں برغبت حصّہ لیجئے
اپنے عمل کی ذمہ داری لیجئے
اثر و رسوخ کے سامنے نہ جھکيئے اور تعصّب سے بچیئے
دعا زیادہ مانگیئے اور پریشان کم ہویئے
دوسروں کے درگذر میں تاخیر نہ کیجئے اور خود ترسی سے باز رہیئے
جو کام بھی کیجئے بہترین طریقہ سے کیجئے
زندگی اس طرح گذاریئے کہ کبھی پچھتانا نہ پڑے
اپنی حیثیت کو قبول کیجئے اور دوسروں کی نقل نہ کیجئے
ناکامی کو تربیت کا موقع سمجھیئے
جسم اور دماغ دونوں سے بھرپور کام لیجئے
جو دوسرے کے پاس پسند آۓ اس پر خوش ہویئے ۔ چھِیننے کی خواہش نہ کیجئے
چھٹی کا دن تھا ۔ ایک بہت بڑی کمپنی کے کمپیوٹر میں گڑبڑ ہو گئی تو کمپنی کے ایم ڈی نے ماہر انجنیئر کے گھر ٹیلیفون کیا
ایک بچے کی مدھم سی آواز آئی ۔ ہیلو ۔
ایم ڈی ۔ ابو گھر میں ہیں ؟
بچہ ہلکی آواز میں ۔ ہاں ۔
ایم ڈی ۔ میں ان سے بات کر سکتا ہوں ؟
بچہ ۔ نہیں ۔
ایم ڈی نے سوچا شائد غسلخانہ میں ہوں اور پوچھا ۔ آپ کی امی ہیں ؟
بچہ ۔ ہاں ۔
ایم ڈی نے التجا کی ۔ بیٹا اپنی امی سے بات کرا دیں ۔
بچے نے اسی طرح مدھم آواز میں کہا ۔ نہیں ۔
ایم ڈی نے سوچا شائد وہ باورچی خانہ میں ہو ۔ اتنے چھوٹے بچے کو اکیلا تو نہیں چھوڑا جا سکتا چنانچہ اس نے کہا ۔ آپ کے قریب کوئی تو ہو گا ؟
بچہ مزید مدھم آواز میں بولا ۔ ہاں پولیس مین ۔
ایم ڈی حیران ہوا کہ کمپنی کے انجنیئر کے گھر میں پولیس مین کیا کر رہا ہے ۔ اس نے معاملہ معلوم کرنے کے لئے پولیس مین سے بات کرنے کا سوچا اور کہا ۔ میں پولیس مین سے بات کر سکتا ہوں ؟
بچے نے سرگوشی میں کہا ۔ نہیں ۔ وہ مصروف ہیں ۔
ایم ڈی نے مزید حیران ہو کر کہا ۔ پولیس مین گھر میں کیا کر رہے ہیں ؟
بچہ ۔ وہ ابو ۔ امی اور ایک فائر مین سے باتیں کر رہے ہیں ۔
اچانک فون میں سے گڑگڑاہٹ سنائی دی ۔ ایم ڈی نے پریشان ہو کر پوچھا ۔ بیٹا یہ کیسا شور ہے ؟
بچے نے سرگوشی میں کہا ۔ ہیلی کاپٹر اترا ہے
ایم ڈی نے نہائت پریشانی میں پوچھا ۔ یہ ہیلی کاپٹر کیوں آیا ہے ؟
ایک پریشان سرگوشی میں بچے نے کہا ۔ سرچ ٹیم ہیلی کاپٹر سے اتری ہے ۔
ایم ڈی کا دل دھک دھک کرنے لگا ۔ ہمت کر کے پوچھا ۔ کیا ہوا ہے ؟ یہ سرچ ٹیم کیوں آئی ہے ؟ بچے نے اپنی ہنسی دباتے ہوئے سرگوشی میں کہا ۔ مجھے ڈھونڈ رہے ہیں ۔
فی زمانہ لوگ بے بنیاد باتیں کرنے لگ گئے ہیں جو پاکستان کی بنیادیں کھوکھلا کرنے کی نادانستہ یا دانستہ کوشش ہے ۔ دراصل اِس قبیح عمل کی منصوبہ بندی تو پاکستان بننے سے قبل ہی ہو گئی تھی اور عمل قائد اعظم کی 11 ستمبر 1948ء کو وفات کے بعد شروع ہوا جس میں لیاقت علی خان کے 16 اکتوبر 1951ء کو قتل کے بعد تیزی آ گئی تھی ۔ اب مُستنَد تاریخ کے اوراق اُلٹ کر دیکھتے ہیں کہ پاکستان کیسے بنا ؟
برطانوی حکومت کا نمائندہ وائسرائے دراصل ہندوستان کا حکمران ہی ہوتا تھا ۔ آخری وائسرائے ماؤنٹ بيٹن نے انتہائی جذباتی مرحلے پر 21 مارچ 1947ء کو ذمہ داری سنبھالنے کیلئے 3 شرائط پيش کيں تھیں جو برطانیہ کے اس وقت کے وزیر اعظم کليمنٹ ايٹلی نے منظور کر لی تھیں
1 ۔ اپنی پسند کا عملہ
2 ۔ وہ ہوائی جہاز جو جنگ میں برما کی کمان کے دوران ماؤنٹ بيٹن کے زيرِ استعمال تھا
3 ۔ فيصلہ کرنے کے مکمل اختيارات
ماؤنٹ بيٹن نے دہلی پہنچنے پر سب سے پہلے مہاراجہ بيکانير سے ملاقات کی اور دوسری ملاقات پنڈت جواہر لال نہرو سے کی
ماؤنٹ بيٹن نے پنڈت جواہر لال نہرو سے قائد اعظم کے متعلق دريافت کيا
جواہر لال نہرو نے کہا “مسٹر جناح سياست ميں بہت دير سے داخل ہوئے ۔ اس سے پہلے وہ کوئی خاص اہميت نہيں رکھتے تھے” ۔
مزید کہا کہ “لارڈ ويول نے بڑی سخت غلطی کی کہ مسلم ليگ کو کابينہ ميں شريک کرليا جو قومی مفاد کے کاموں ميں رکاوٹ پيدا کرتی ہے” ۔
ماؤنٹ بيٹن نے تيسری ملاقات قائد اعظم محمد علی جناح سے کی ۔ ماؤنٹ بيٹن نے قائد اعظم سے پنڈت جواہر لال نہرو کے متعلق دريافت کيا ۔ قائد اعظم نے برجستہ فرمايا ” آپ تو ان سے مل چکے ہيں ۔ آپ جيسے اعلی افسر نے ان کے متعلق کوئی رائے قائم کرلی ہوگی”۔
ماؤنٹ بيٹن اس جواب پر سمجھ گيا کہ اس ليڈر سے مسائل طے کرنا ٹيڑھی کھير ہے
ماؤنٹ بيٹن نے پنڈت جواہر لال نہرو کے مشورے سے آئی سی ايس افسر کرشنا مينن کو اپنا مشير مقرر کيا ۔ اگرچہ تقسيم فارمولے ميں بھی کرشنا مينن کے مشورے سے ڈنڈی ماری گئی تھی ليکن کرشنا مينن کا سب سے بڑا کارنامہ جموں کشمير کے مہاراجہ ہری سنگھ سے الحاق کی دستاويز پر دستخط کرانا تھےجبکہ مہاراجہ جموں کشمير (ہری سنگھ) پاکستان سے الحاق کا بيان دے چکا تھا ۔ پھر جب مہاراجہ ہری سنگھ نے بھارت سے الحاق نہ کیا توکرشنا مينن کے مشورے پر ہی جموں کشمير پر فوج کشی کی گئی تھی
انگريز کو ہندوؤں سے نہ تو کوئی سياسی پَرخاش تھی نہ معاشی ۔ مسلمانوں سے انگریز اور ہندو دونوں کو تھی ۔ انگريز نے اقتدار مسلمانوں سے چھينا تھا اور ہندو اقدار حاصل کر کے اکھنڈ بھارت بنانا چاہتا تھا
حقيقت يہ ہے کہ کانگريس نے کيبنٹ مشن پلان کو اس نيت سے منظور کيا تھا کہ مسٹر جناح تو پاکستان سے کم کی بات ہی نہيں کرتے لہٰذا اقتدار ہمارا (ہندوؤں کا) مقدر بن جائے گا ۔ قائد اعظم کا کيبنٹ مشن پلان کا منظور کرنا کانگريس پر ايٹم بم بن کر گرا
صدرکانگريس پنڈت جواہر لال نہرو نے 10جولائی کو کيبنٹ مشن پلان کو يہ کہہ کر سبوتاژ کرديا کہ کانگريس کسی شرط کی پابند نہيں اور آئين ساز اسمبلی ميں داخل ہونے کے لئے پلان ميں تبديلی کرسکتی ہے ۔ چنانچہ ہندو اور انگريز کے گٹھ جوڑ نے کيبنٹ مشن پلان کو سبوتاژ کرديا ۔ قائد اعظم نے بر وقت اس کا احساس کر کے مترادف مگر مضبوط لائحہ عمل پیش کر دیا تھا ۔ آسام کے چيف منسٹر گوپی چند باردولی نے کانگريس ہائی کمانڈ کو لکھا” رام اے رام ۔ يہ تو ايک ناقابل تسخير اسلامی قلعہ بن گيا ۔ پورا بنگال ۔ آسام ۔ پنجاب ۔ سندھ ۔ بلوچستان ۔ صوبہ سرحد”۔
کيبنٹ مشن کے سيکرٹری وُڈ رَووِٹ نے قائد اعظم سے انٹرويو ليا اور کہا ”مسٹر جناح ۔ کیا یہ ایک مضبوط پاکستان کی طرف پیشقدمی نہیں ہے ؟“
قائد اعظم نے کہا ”بالکل ۔ آپ درست سمجھے“۔
مگر جیسا کہ اُوپر بیان کیا جا چکا ہے کرشنا مینن کے فارمولے پر عمل کرتے ہوئے باہمی فیصلے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے انگریز نے بڑی عیّاری سے پنجاب اور بنگال دونوں کو تقسیم کر دیا اور آسام بھی بھارت میں شامل کر دیا
مولانا ابوالکلام آزاد اپنی تصنیف اِنڈیا وِنز فرِیڈَم کے صفحہ 162 پر تحرير کرتے ہيں کہ اپنی جگہ نہرو کو کانگريس کا صدر بنانا ان کی زندگی کی ايسی غلطی تھی جسے وہ کبھی معاف نہيں کرسکتے کيونکہ انہوں نے کيبنٹ مشن پلان کو سبوتاژ کيا ۔ مولانا آزاد نے تقسيم کی ذمہ داری پنڈت جواہر لال نہرو اور مہاتما گاندھی پر ڈالی ہے ۔ يہاں تک لکھا ہے کہ 10 سال بعد وہ اس حقيقت کا اعتراف کرنے پر مجبور ہيں کہ جناح کا مؤقف مضبوط تھا
کچھ لوگ آج کل کے حالات ديکھ کر يہ سوال کرتے ہيں کہ ” پاکستان کيوں بنايا تھا ؟ اگر يہاں يہی سب کچھ ہونا تھا تو اچھا تھا کہ مولانا ابوالکلام آزاد کے قول کے مطابق ہم متحدہ ہندوستان ميں رہتے”۔
کانگريس ہندوستان ميں رام راج قائم کرنا چاہتی تھی ۔ چانکيہ تہذيب کے پرچار کو فروغ دے رہی تھی ۔ قائد اعظم کی ولولہ انگيز قيادت اور رہنمائی ميں ہندوستان کے 10کروڑ مسلمانوں نے بے مثال قربانياں دے کر پاکستان حاصل کیا ۔ اس پاکستان اور اس کے مقصد کے خلاف بات کرنے والے کسی اور نہیں اپنے ہی آباؤ اجداد کے خون پسینے کو پلید کرنے میں کوشاں ہیں
اللہ سبحانہ و تعالی نے جو کمپیوٹر میرے جسم میں رکھا ہوا ہے اس کا پروسیسر دنوں یا ہفتوں نہیں مہینوں سے متواتر چل رہا ہے اور بلاگنگ کرتا جا رہا ہے ۔ اتنی زیادہ پوسٹس کہ ان کو انسان کے بنائے ہوۓ کمپیوٹر کے ذریعہ کسی ویب سائٹ پر منتقل کرنے کی میں استطاعت و استداد نہیں رکھتا ۔ اس کشمکش میں اپنا دماغ مناسب حروف تصنیف کرنے سے قاصر ہو گیا اور نیند کی پری مجھ سے روٹھ گئی ۔ کسی کا کوئی شعر یا عبارت بھی نہ مل رہی تھی کہ پڑھ کر شائد کچھ سکون ملے ۔
وجہ کیا ہے ؟ سب جانتے ہیں مگر ظاہر کرنے میں پس و پیش ہے ۔ دھماکہ امریکہ میں ہو یا انگلستان یا مصر میں شامت بے سہارا پاکستانیوں کی بالخصوص اگر داڑھی والے ہوں ۔ ایسا کیوں نہ ہو جب ہم خود ہی اپنے آپ کو بدنام کرنے پر تلے ہوئے ہیں ۔ یہ ہماری روشن خیالی کا ایک عمدہ نمونہ ہے ۔ کراچی میں روزانہ پچاس موبائل فون چھین لئے جائیں ۔ بیس سے چالیس تک کاریں اور موٹرسائیکل چوری کر لی جائیں یا چھین لی جائیں ۔ روزانہ بھرے بازاروں میں شہری بسوں میں سفر کرنے والے مسافروں کو پستول دکھا کر جیبیں خالی کروا لی جائیں ۔ راہ چلتے شریف آدمی کو گولی مار کے ہلاک کر دیا جائے یا کسی مسجد یا امام بارگاہ میں بم چلایا جائے ۔ اندرون سندھ یا پنجاب حتی کہ اسلام آباد میں کسی شریف زادی کی عزت لوٹ لی جائے اور اس میں پولیس والے بھی شامل ہوں ۔ کراچی لاہور اور راولپنڈی میں روزانہ گھروں میں ڈاکے پڑیں ۔ تو ہمارے شہنشاہ ہمیں گڈ گورننس کی یقین دہانی کراتے ہیں