Category Archives: تاریخ

پرانے اخبارات کے کچھ تراشے

جنگ کراچی: 6جولائی 1992ء … بینظیر بھٹو نے کہا کہ اگر بہاریوں کو سندھ میں بسایا گیا تو اس سے جناح پور اور سندھو دیش کی راہ ہموار ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ ماضی کے حکمرانوں کیلئے سندھ واٹر لو ثابت ہوچکا ہے اور ایسا شاید نواز شریف کیلئے بھی ہوسکتا ہے

جنگ کراچی: 18جولائی 1992ء … فوج کے ترجمان بریگیڈیئر ہارون نے ایک پریس بریفنگ میں کہا کہ ایم کیو ایم نے ایک علیحدہ وطن کا منصوبہ بنایا ہے

دی نیوز : 17 جولائی … بریگیڈیئر ہارون نے کہا کہ ایم کیو ایم کے منصوبے کے متعلق مصدقہ انٹیلی جنس رپورٹس موجود ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ آپریشن کے دوران علیحدہ ملک کا نقشہ بھی برآمد کیا گیا

جنگ لاہور: 11 اکتوبر 1992ء … رپورٹر اظہر سہیل کی فائل کردہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ آرمی کمان نے حکومت کو دستاویزی ثبوت پیش کئے ہیں جس میں بتایا گیا ہے کہ ایم کیو ایم جناح پور کے نام سے ایک علیحدہ ریاست بنانے کا منصوبہ بنا رہی ہے جس میں حیدرآباد، ٹھٹھہ، بدین، کراچی اور بالائی سندھ کے وہ تمام علاقے شامل ہیں جو تیل سے مالا مال ہیں۔ رپورٹ کے مطابق حال ہی میں ہونیوالی کور کمانڈر میٹنگ میں اس معاملے پر بات چیت کی گئی اور حکومت کو تمام مواد فراہم کرنے کا فیصلہ کیا گیا

شاہین صہبائی، جو اس وقت دی نیوز کے گروپ ایڈیٹر ہیں نے 13 اکتوبر 1992ء کو روزنامہ ڈان کیلئے ایک رپورٹ (اے ہاؤس لوزنگ اٹس ٹیمپر) فائل کی اور اپنی پریس گیلری میں تحریر کیا کہ ”اپوزیشن دباؤ ڈال رہی ہے کہ جناح پور پر بحث کی جائے کیونکہ یہ اردو بولنے والے علاقوں کو پاکستان سے علیحدہ کرنے کا ایم کیو ایم کا منصوبہ ہے“۔
اسی دن دی نیوز میں ٹریژری بینچوں کی جانب سے جناح پور کے حوالے سے قومی اسمبلی میں ایک تحریک مسترد کئے جانے کی رپورٹ شایع ہوئی۔ دی نیوز میں یہ بھی شایع ہوا کہ اس وقت کے ڈپٹی اپوزیشن لیڈر فاروق لغاری نے کہا کہ وزیراعظم (نواز شریف) جناح پور کی سازش میں ملوث ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ حکومت اس ایشو پر تحریک کی مخالفت کر رہی ہے کیونکہ وہ تفصیلات میں نہیں جانا چاہتی۔

روزنامہ ڈان میں 14 اکتوبر 1992ء کے ایم کیو ایم چیف الطاف حسین کا بیان شایع ہوا جس میں انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم کے خلاف جناح پور کی سازش کی تحقیقات سپریم کورٹ سے کرائی جائے۔ اسی اخبار میں 15 اکتوبر کو شایع ہونے والی رپورٹ میں بتایا گیا کہ پاکستان ڈیموکریٹک الائنس (پی ڈی اے) اور جماعت اسلامی نے جناح پور پر بحث کیلئے تحریک التواء پیش کردی

نواز شریف کی حکومت کے ایک اہم وزیر چوہدری نثار علی خان نے 17 اکتوبر کو ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ جناح پور کی سازش کا وجود نہیں ہے۔ انہوں نے مبینہ طور پر کہا کہ ”حکومت مہاجروں کے حقوق کو متاثر ہونے نہیں دے گی، یہ بات بے بنیاد ہے کہ ہم نے ایم کیو ایم کے ساتھ کبھی نام نہاد جناح پور پر بات نہیں کی“۔ چوہدری نثار نے اس تاثر کو بھی مسترد کردیا کہ پوری ایم کیوا یم دہشت گرد تنظیم تھی۔ انہوں نے اصرار کیا کہ اچھے اور برے لوگ ہر جماعت میں ہوتے ہیں۔ انہوں نے الطاف حسین سے کہا کہ وہ ایم کیو ایم پر لگائے جانیوالے الزامات کا جواب دیں۔ اسی روز اے این پی کے سربراہ اجمل خٹک نے کہا کہ اس اطلاعات میں کوئی سچائی نہیں ہے کہ ایم کیو ایم نے پاکستان کو توڑنے کیلئے یا جناح پور بنانے کیلئے کوئی منصوبہ بنایا ہے ۔

آئی ایس پی آر کا پریس ریلیز 19 اکتوبر کے اخبارات میں شایع ہوا جس میں آرمی کی جانب سے جناح پور منصوبے کے بارے میں لاعلمی ظاہر کی گئی۔ ”آرمی کے پاس نام نہاد جناح پور کے حوالے سے کوئی ثبوت موجود نہیں، یہ واضح کیا جاتا ہے کہ زیر بحث اخباری رپورٹ بے بنیاد ہے۔ آرمی نے حکومت کو ئی دستاویزات یا نقشہ نہیں دیا۔ آرمی کے پاس نام نہاد جناح پور کے حوالے سے کوئی ثبوت بھی دستیاب نہیں۔ یہ بھی درست نہیں کہ یہ معاملہ کور کمانڈر کی میٹنگ میں زیر بحث آیا تھا“۔

لیکن اسی روز بینظیر بھٹو نے قومی اسمبلی میں دیئے گئے ایک بیان میں کہا کہ حکومت جان بوجھ کر جناح پور سازش کو چھپا رہی ہے اور روز اول سے ایم کیو ایم کی حمایت کر رہی ہے۔ نوائے وقت کے مطابق بینظیر بھٹو نے کہا کہ ایم کیو ایم نامی تنظیم کا مقصد بھارت کی حمایت سے علیحدہ ملک بنانا ہے۔ انہوں نے پاکستان کو توڑنے کیلئے مالی مدد اور حمایت فراہم کرنے پر نواز شریف کو ہٹانے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ صرف الطاف حسین پر الزام عائد کرنا بیکار ہے
دی نیوز 19 اکتوبر کے مطابق بینظیر بھٹو نے کہا کہ ”ان (الطاف حسین) کے پارٹنر، حامی اور رہنما نواز شریف کو جانا چاہئے“۔ اسی دن اس وقت کے وزیر داخلہ چوہدری شجاعت حسین نے مبینہ طور پر قومی اسمبلی میں کہا کہ جناح پور کوئی ایشو نہیں اور یہ صرف پیپلز پارٹی کی سوچ ہے۔ تاہم، فاروق لغاری نے اس سازش کے حوالے سے عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کیا اور کہا کہ جناح پور کا منصوبہ سامنے آنے سے ایم کیو ایم کی ریاست مخالف سرگرمیاں سامنے آچکی ہیں جن کی مزید تحقیقات ہونا چاہئیں

دی نیوز میں19 اکتوبر کو ایک رپورٹ شایع ہوئی جس میں آصف علی زرداری نے جناح پور کے منصوبہ سازوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔ اخبار کے مطابق زرداری نے کہا کہ اسلامی جمہوری اتحاد کے رہنما کی جانب سے بنائے گئے منصوبے کی تردید بے بنیاد نہیں ہے

دی نیوز 19 اکتوبر کے مطابق سینئر صحافی نصرت جاوید نے اپنی رپورٹ ”کمینے کی آخری پناہ گاہ“ میں بتایا کہ فوجی ترجمان بریگیڈیئر ہارون نے جولائی کے وسط میں کراچی کا دورہ کرنے والے صحافیوں کو یہ بتایا کہ اس بات کی مصدقہ انٹیلی جنس اطلاعات تھیں کہ ایم کیو ایم کے کچھ رہنما ایک علیحدہ ریاست بنانا چاہتے ہیں۔ یہ نمائندہ کراچی میں ہونے والی آرمی بریفنگ میں موجود تھا جہاں اس طرح کے الزامات عائد کئے گئے

اس وقت کے چیف رپورٹر طارق بٹ نے 19 اکتوبر کے دی نیوز میں اپنی رپورٹ میں بتایا کہ بینظیر بھٹو نے حکومت پر معاملہ چھپانے کا الزام عائد کیا ہے۔ طارق بٹ کی رپورٹ کے مطابق ”جب وزیر داخلہ چوہدری شجاعت حسین نے جناح پور سازش کو پی ڈی اے کی خطرناک سوچ قرار دیا تھا اس وقت اپوزیشن کے ارکان قومی اسمبلی نے حکومت پر الزام عائد کیا کہ وہ بھی اس سازش کا حصہ ہے۔ اسی روز نوائے وقت میں شایع ہونے والی رپورٹ میں بینظیر بھٹو کے حوالے سے کہا گیا کہ فوج نے جناح پور کی سازش بے نقاب کی لیکن حکومت اس ایشو پر خاموش رہی

روزنامہ ڈان میں 21 اکتوبر 1992ء کو شایع ہونے والی رپورٹ کے مطابق الطاف حسین نے حکومت کی تعریف کی۔ رپورٹ کی سرخی کچھ اس طرح تھی: ”جناح پور سازش بے نقاب کرنے پر الطاف حسین نے حکومت کو سراہا“۔ رپورٹ کے مطابق ایم کیو ایم چیف نے کہا کہ نواز شریف کی حکومت اور اس کی ایجنسیاں اسی موثر اور مثبت رویے کا اظہار کرکے ایم کیو ایم کے خلاف عائد کردہ بے بنیاد الزامات کا جائزہ لیں اور حالیہ آئینی اور سیاسی خصوصاً سندھ کے بحران کے حوالے سے صورتحال بہتر بنائیں

فاروق لغاری نے حکومت کے اس دعوے کی تردید کی ہے [21 اکتوبر] کہ جناح پور پیپلز پارٹی کی سوچ ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں ایک طاقتور کمیشن قائم کیا جائے جس میں چاروں صوبائی چیف جسٹس صاحبان شامل ہوں اور یہ کمیشن اس پورے معاملے کا جائزہ لے۔

کئی سال بعد 14دسمبر 1998ء کو دی نیوز میں اسی ایشو پر الطاف حسین کا ایک بیان شایع ہوا جس میں انہوں نے جناح پور کے متعلق اطلاعات کی تحقیقات کا مطالبہ کیا اور کہا کہ علیحدہ جناح پور کی ریاست ایک منظم سازش تھی جو مہاجر کمیونٹی کو یہ پیغام دینے کیلئے رچائی گئی کہ اگر انہوں نے علیحدہ ریاست کا مطالبہ نہ کیا تو انہیں نشانہ بنایا جاتا رہے گا
بشکریہ : جنگ

فرزندکراچی لکھتےہیں

اظہرالحق صاحب کو میں کبھی ملا تو نہیں لیکن انٹرنیٹ کے ذریعہ چار پانچ سال سے جانتا ہوں اور کہہ سکتا ہوں کہ وہ کبھی من گھڑت یا جھوٹے واقعات نہیں لکھتے ۔ اظہرالحق صاحب لکھتے ہیں مؤرخہ 28 اگست 2009ء
————————
آج ایک نئی بحث شروع ہوئی تو اپنے آپ کو روک نہیں سکا لکھنے سے ، میں سمجھتا ہوں کہ میرا فرض ہے کہ جو میں سمجھتا ہوں اسے اپنے ہم وطنوں تک پہنچاؤں ، میں نے اپنا بچپن اور جوانی کراچی میں گذاری ۔ میں کوشش کروں گا اپنے اس مضمون کو مختصر رکھنے کی ، یہ بات ہے کے 1984ء اواخر کی ، ملک میں مارشل لاء تھا مگر عوام کے لئے ایک “مرد مومن“ کی حکومت تھی ، ناظم صلات (نمازوں کو پڑھوانے والے ) کا دور تھا ، ہر طرف فوج کے جلوے تھے ، بین الاقومی سٹیج پر روس بکھر رہا تھا ، امریکہ افغانی مجاہدین کے لئے مدد دے رہا تھا ، اور پاکستان “اخوت اسلامی“ کے ریکارڈ توڑتے ہوئے لاکھوں “بے سہارا“ افغانوں کی مدد سے کلاشنکوف اور ہیروئین کلچر میں خود کفیل ہو رہا تھا ۔ ایسے میں کراچی کے کالجوں میں ابھرتی ہوئی ایک تنظیم جو کراچی میں ہجرت کر کے آنے والوں کی اس نسل میں سے تھی جس نے اپنی آنکھ ہی اس آزاد ملک میں کھولی تھی ، جسے اس شہر میں ہی نہیں اس ملک میں ایک پڑھی لکھی اور سمجھدار قوم سمجھا جاتا تھا ، جس میں حکیم سعید جیسے سپوت تھے ، جس میں سلیم الزماں صدیقی جیسے سائینسدان تھے جس میں رئیس امروہی جیسا شاعر اور بجیا اور حسینہ معین جیسی لکھاری تھیں ۔ ۔ ۔ اسی قوم کے جوانوں کی ایک تنظیم تھی اے پی ایم ایس او یعنی آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹ آرگنازئیزشن ، اور یہ کوئی خاص بات نہ تھی کہ اسی شہر کے کالجوں میں اور یونیورسٹیز میں پی ایس اے (پنجابی اسٹوڈنٹ ایسوی ایشن) اور پختون اسٹوڈنٹ فیڈریشن ، کشمیر اسٹوڈنٹ فیڈریشن جیسی تنظیمیں موجود تھیں تو کسی کو ایک اور “قومی“ تنظیم پر اعتراض کی وجہ نہیں بنتی تھی ، اور پھر ان سب سے بڑھ کر کراچی کے کالجوں میں جمعیت اور پیپلز اسٹوڈنڈنٹس جیسی سیاسی طفیلیے بھی موجود تھیں اور لسانی تنظیمیں بھی تھیں جن میں سرائیکی اور سندھی تنظیمیں تھیں

یہ سب بیان کرنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ مہاجر اسٹوڈنڈنٹس کا ابھرنا کوئی خاص بات نہ تھی ، یہ بھی یاد رہے کہ یہ وہ زمانہ تھا جب طلباء تنظیموں پر پابندی تھی مگر در پردہ انکی آبیاری بھی کی جاتی تھی ، اے پی ایم ایس او سے بھی پہلے جمیعت کے جھگڑے مشہور تھے اور کالجوں میں سب سے زیادہ اسلحہ بھی اسی تنظیم کے پاس تھا ، کیونکہ شہری حکومت بھی جماعت اسلامی کی تھی اس لئے اسکی ذیلی تنظیموں پاسبان اور جمیعت کی اجارہ داری تھی ، میں ان لوگوں کو کنفیوز لوگ سمجھتا تھا اور ہوں کیونکہ یہ لوگ نہ تو مذہبی بن سکتے ہیں اور نہ ہی سیکولر ، اس وجہ سے انکے نظریے میں ہمیشہ ایک خلا رہتا ہے ، جبکہ انکے مقابلے میں آنے والی تنظیم نظریاتی طور پر مستحکم تھی اور اسکی سمت معین تھی ،

یہ ٨1980ء کے عشرے کا درمیانی وقت تھا ، ہمارے افغانی “اسلامی“ بھائی سارے ملک میں منشیات اور اسلحہ پھیلا چکے تھے ، اور ہمارے حکمران افغانستان کو پاکستان کا پانچواں صوبہ بنانے کے خواب دیکھ رہے تھے ایسے میں کراچی جو ایک چھوٹا پاکستان تھا جس میں پنجابی سندھی بلوچی پٹھان اور کشمیری اپنے اردو سپیکنگ ہم وطنوں کے ساتھ رہ رہے تھے ، اس پر سازش رچی گئی اور سازش کے لئے ہراول دستہ بنا ایم کیو ایم ، جو ایک فلاحی تنظیم کے طور پر ابھری تھی اور اسکی بنیاد تھی اسکی طلبہ تنظیم ، جنہوں نے بچت بازار لگائے تھے اور پھر مختلف اداروں میں اپنا نظریہ پھیلا دیا ،

کوئی بھی جماعت یا تنظیم اس وقت ہی مقبولیت حاصل کر لیتی ہے جب اسے مظلوم ثابت کر دیا جائے ، ایسا ہی ہوا ایم کیو ایم کے ساتھ ، اسے ہمارے حکمرانوں نے کندھا دیا اور کراچی “جئے مہاجر“ کے نعروں سے گونجنے لگا ، اور لوگوں کو ایک مسیحا نظر آیا “الطاف حسین“ ، جو عوام کے اندر سے اٹھا ، عام سا آدمی جو کسی بڑی گاڑی کے بجائے ایک ہنڈا ففٹی میں اپنی سیاست کرتا ، وہ عام لوگوں میں مل جل جاتا اور عوام اسے اپنے میں سے ہی سمجھتے ، پھر جسے اپنا سمجھتے اسکا حکم بھی مانتے ، اور پھر ہنڈا ففٹی ایک مقدس چیز بن گئی ، شاید بہت لوگوں کے علم میں ہو گا کہ کراچی کے ایک بڑے جلسے میں لوگوں نے اس ہنڈا ففٹی کو چوم چوم کر چمکا دیا تھا ۔ ۔ ۔ ۔

پاکستان کی بدقسمتی کہیئے یا پھر قانون قدرت کہ جو بار بار یہ سمجھاتا ہے کہ اقتدار کے طالب ایک دن ذلت کی موت مرتے ہیں ، ایسے ہی ہوا ۔ ١1988ء میں جب مرد مومن “شہید اسلام“ بن گیا ، اسلام کے اس سپاہی نے جو کارنامے انجام دئیے انکا شاخسانہ آج تک ہم بھگت رہے ہیں ، منشیات اور کلاشنکوف سے لیکر لسانی سیاست تک سب اسی دور کے پھل ہیں ، مگر اس کے بعد جو اقتدار کی رسہ کشی شروع ہوئی تو اگلے دس سال تک ایک میوزیکل چئیر کھیلا جانے لگا ، ایسے میں ہی کراچی کے “قائد عوام“ نے ان سب چیزوں کا فائدہ اٹھایا اور کراچی میں نو گو ایریا [No-go Areas] بن گئے ، قائد کے غداروں کو بوری میں بند کیا جانے لگا ، اخبارات میں انسانوں کی مڑی تڑی لاشوں کی تصویریں چھپنے لگیں ۔۔ ۔ اور پھر ہم بے حس ہو گئے ۔ ۔ ۔ ایم کیو ایم ایک پریشر گروپ بن گئی ، جو ہر آنے والی حکومت کو بلیک میل کرتی ،

پتہ نہیں لوگ کیوں بھول گئے کہ جب الطاف بھائی کی تصویریں آسمان سے لیکر پتے پتے پر جم رہی تھیں ۔ ۔ ۔ ۔ جب فوج کے سپاہی عزیز آباد میں داخل ہونے کی کوشش کرتے تو پتھروں اور گولیوں سے انکا استقبال ہوتا ، لوگ کھجی گراؤنڈ کو کیوں بھول گئے پتہ نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ادھر شہر کے اندر یہ ہولی کھیلی جا رہی تھی ادھر شہر کے مضافات میں اسلحے اور منشیات کے ڈیلر اپنے اڈے مضبوط کر رہے تھے ، انہوں نے سہراب گوٹھ سے لیکر ناتھا خان کے پُل کے نیچے تک اپنے گاہک پیدا کر لئے تھے ۔ ۔ ۔ ۔

ضیاء الحق کے بعد تو کراچی میں وحشت کا راج ہو گیا تھا (میں نے جان بوجھ کہ وحشت لکھا ہے دھشت میں انسان صرف خوف کا شکار ہوتا ہے مگر ان دنوں کراچی کے لوگ وحشی بن چکے تھے ) جن لوگوں نے گولیمار اور سہراب گوٹھ کے واقعات کی وڈیوز دیکھی ہیں وہ جان سکتے ہیں کہ میں نے وحشی کیوں کہا ، مجھے وہ رات آج بھی یاد ہے جب شاہ فیصل کالونی میں فساد ہوا تھا ، گرین ٹاؤن گولڈن ٹاؤن اور الفلاح سوسائٹی میں لوگ بازار جلا رہے تھے اور پھر رات ایک بجے کے قریب ہمیں شاہ فیصل کالونی کی جانب سے گولیوں کی آوازیں سنائیں دیں اور ان آوازوں سے بلند عورتوں اور بچوں کی چیخیں تھیں ، جو ایک عرصہ تک میرے کانوں میں گونجتی رہیں ۔ ۔

وہ شخص وحشی ہی تھا نا جس نے شیر خوار بچوں کو چیر دیا تھا ۔ ۔ ۔ وہ آدمی کیسا تھا کہ جسکی لاش کے ساتھ یہ لکھا ملا کہ قائد کے غداروں کا یہ ہی انجام ہوتا ھے ۔ ۔ ۔ کیا ہماری لائبریریوں میں اس وقت کے اخبار موجود نہیں ؟ جن میں سب جھوٹ تھا مگر کیا ایک سچ بھی نہیں مل سکتا ۔ ۔ ۔ جذبات بہت ہیں مگر کیا کہوں کہ انسان کو جلتے دیکھا ہے جلاتے بھی دیکھا ہے ، بندوقوں سے بچوں کو بہلاتے بھی دیکھا ہے

خیرکرفیو لگا ، انتخابات ہوئے ، یہ کیسے انتخابات تھے ، کہ کراچی میں رجسٹرڈ ووٹوں سے بھی زیادہ ووٹ ڈلے ، یہ کیسے انتخابات تھے کہ جن میں جیتنے والے اور ہارنے والوں کے درمیان لاکھوں کا فرق تھا ۔ ۔ ۔ ۔ اور پھر کراچی میں آگ لگتی چلی گئی ۔ ۔ ۔ ۔ اور ایم کیو ایم نے چولے بدلنے شروع کئے ، انہیں پتہ لگ گیا تھا کہ حکومت میں رہنے کا گُر کیا ہے ، کسی کی بھی حکومت آئے ، ایم کیو ایم اسکے ساتھ رہے گی ،

ایم کیو ایم کو کیا چاہیئے تھا ، حکومت اور شہید ، دونوں اسے ملتے رہے ، اور ابھی تک مل رہے ہیں ۔ ۔ ۔ ایم کیو ایم نے ساحر لدھیانوی کے اس شعر کو سچ کر دیکھایا ہے کہ
برسوں سے رہا ہے یہ شیوہ سیاست
جب جواں ہو بچے ہو جائیں قتل

یہ سلسلہ چل پڑا ہے اور چلتا ہی رہے گا ، اس جماعت کی بنیاد ایک لسانی تنظیم تھی اور آج تک ہے ، الطاف حسین ایک ایسی مچھلی ہے جس نے اپنی قوم کے تالاب کو اتنا گندہ کر دیا ہے جسے صاف کرنے میں شاید ایک صدی لگے ۔ ۔ ۔ الطاف حسین کو اپنی قوم سے کوئی ہمدردی نہیں ، وہ اس کمزور عورت (بے نظیر بھٹو) سے بھی کمزور ہے جو سب جاننے کے باوجود واپس آئی ، اور اپنی جان تک قربان کر دی ، مگر شاید الطاف حسین جو دوسروں کو چوڑیاں پہننے کا اکثر مشورہ دیتے ہیں ، خود چوڑیاں پہن کہ بیٹھے ہیں ۔ ۔ ورنہ ۔ ۔ ۔ بقول شاعر ،
قوم پڑی ہے مشکل میں اور مشکل کشا لندن میں ۔ ۔

بات کہاں کی کہاں نکل گئی ، میں صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں ، الگ ریاست کا خواب ایم کیو ایم کا اس وقت کا خواب ہے جب وہ مہاجر قومی موومنٹ تھی ، اگر تھوڑا سا غور کیا جائے تو پتہ چلے گا کہ 1984ء سے پہلے کراچی کے تمام اداروں میں اردو سپیکنگ نہ صرف اچھی سروسز اور پوزیشنز پر موجود تھے بلکہ بہت اچھی شہرت بھی رکھتے تھے ، کراچی کے “بھیئے“ سب قوموں کے ساتھ مل جل کر رہتے تھے ، انکی آپس میں رشتے داریاں تھیں ۔ ۔ ۔ دوستیاں تھیں ۔ ۔ ۔ یہ ایم کیو ایم نے ہنستے کھیلتے کراچی کو کیا بنا دیا ۔ ۔؟؟؟

ٹھیک ہے انہیں استعمال کیا گیا مگر جب وہ لوگ اقتدار میں آئے تو انہیں خود کو بدلنا چاہیئے تھا ، یہ شاید 1990ء کے بعد کی بات ہے جب میری ملاقات ہوئی تھی ایڈمینسٹریٹر کراچی فاروق ستار سے ، میں سوچتا تھا کہ یار یہ بندہ تو بہت اچھا ہے ، جو عام لوگوں میں گھل مل جاتا ہے ، ان دنوں جب ٹارگٹ کلنگ عام تھی فاروق ستار جب بھی کہیں جاتے تو وہ آگے چلتے اور اتنا تیز چلتے کہ دوسرے لوگ انکا ساتھ نہیں دے پاتے ۔ ۔ ۔ اور اگر وہ ایم کیو ایم کو بہتر وقت دے سکتے مگر شاید وہ اپنی جماعت کے پابند تھے ۔ ۔ اور اسی وجہ سے انکے بعد جماعت اسلامی نے کراچی کو “فتح“ کیا ۔ ۔ ۔ اور اپنے مئیر کو لا سکی ۔ ۔ ۔ اور جماعت اسلامی نے وہ ہی غلطیاں کیں جو اقتدار کے لالچی لوگ کرتے ہیں ، اور ان سے حکومت چھن گئی ۔ ۔ ۔ گو انکے منصوبے اچھے بنے تھے مگر انکا افتتاح کسی اور نے کیا ۔ ۔ ۔

مختصر یہ کہ ایم کیو ایم ایک پریشر گروپ سے ایک قومی جماعت بنی ، اس جماعت کا اور منشور اپنی جگہ مگر ایک شق لازمی ہے ، وہ ہے فوج کی کردار کُشی ۔ ۔ ۔ اور یہ پہلے دن سے یہ ہی چل رہا ہے ۔ ۔ ۔ اور ابھی تک چل رہا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ اور شاید چلتا رہے گا ۔۔ کیونکہ “قائد“ لندن میں رہیں گے اور قوم ٹیلی فونک خطاب سنتی رہے گی

عِلم والے

ایک عیسائی بادشاہ نے مندرجہ ذیل سوالات عمر رضی اللہ عنہ کو ارسال کئے اور ان کا جواب مانگا

1 ۔ ایک ماں کے شِکم سے دو بچے ایک ہی وقت ایک ہی دن پیدا ہوئے اور اُن کا ایک ہی روز انتقال ہوا ۔ ایک کی عمر سو سال بڑی اور دوسرے کی عمر سو سال چھوٹی ہے ۔ یہ کون تھے اور ایسا کیونکر ہو سکتا ہے ؟

2 ۔ وہ کون سی زمین ہے جہاں ابتدائے پیدائش سے قیامت تک صرف ایک وقت سورج نکلا ۔ نہ پہلے کبھی نکلا اور نہ آیئندہ کبھی نکلے گا ؟

3 ۔ وہ کونسی قبر ہے جس کا مدفون بھی زندہ تھا اور قبر بھی زندہ تھی ۔ قبر اپنے مدفون کو سیر کراتی رہی پھر مدفون قبر سے باہر آیا اور زندہ رہ کر فوت ہو گیا ؟

4 ۔ وہ کونسا قیدی ہے جس کے قیدخانے میں سانس لینے کی اجازت نہیں اور وہ بغیر سانس لئے زندہ ہے ؟

عمر رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے کہا کہ جوابات لکھ دیں ۔

جوابات

1 ۔ دو بھائی عزیز علیہ السلام اور عزیر علیہ السلام ہیں ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے عزیر علیہ السلام پر ایک سو سال موت طاری رکھی پھر زندہ ہو کر گھر گئے ۔ کچھ دن زندہ رہ کر اپنے بھائی عزیز علیہ السلام کے ساتھ فوت ہوئے

2 ۔ وہ زمین دریائے قلزم کی تہہ ہے موسٰی علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کو فرعون سے بچانے کیلئے اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کے حُکم سے سورج نے بہت جلد خُشک کر دیا ۔ اس کے بعد پانی پھر بھر گیا اور فرعون مع اپنی فوج کے غرق ہو گیا

3 ۔ وہ مدفون اور قبر جو دونوں زندہ تھے یونس علیہ السلام اور مچھلی تھے ۔ مچھلی نے یونس علیہ السلام کو نگل لیا تھا اور سمندر یا دریا کی سیر کراتی رہی

4 ۔ جو قیدی سانس نہیں لیتا وہ ماں کے شِکم میں بچہ ہے ۔ اللہ نے ماں کے شکم میں بچے کے سانس لینے کا ذکر نہیں کیا

یہ جوابات پاکر عیسائی بادشاہ بولا “”شاید ابھی مسلمانوں میں کوئی نبی زندہ ہے کیونکہ یہ جوابات نبی کے علاوہ کوئی اور نہیں بتا سکتا” [احسن القصص صفحہ 262]

عُلمائے ہِند ۔ علامہ اقبال ۔ قائداعظم اور دورِ حاضر

“سیکولر ہندوستان ایک ایسا شجر سایہ دار ہو گا جس میں ہندو کو اپنے مذہب کے مطابق اپنے بتوں کی پرستش اور اپنے طرز زندگی پر چلنے کی آزادی ہوگی۔ مسلمانوں کو اپنی مساجد اور عبادت گاہوں میں اپنے دین پر چلنے کی آزادی ہوگی اور میرے جیسے ”منکر خدا“ کو بھی اپنا عقیدہ رکھنے اور اس کا اظہار کرنے کا حق حاصل ہوگا”
یہ غیر منقسم ہندوستان کے مشہور کمیونسٹ لیڈر ڈاکٹر محمد اشرف صاحب کی تقریر کا اقتباس ہے جو اُنہوں نے 1940ء کے عشرے میں نمک منڈی چوک پشاور میں منعقدہ جمعیت علماء ہند کے جلسہ میں کی تھی

اسٹیج سیکرٹری میرے ماموں اور خسر مولانا محمد لطف اللہ صاحب تھے مجھے خود میرے ماموں جان نے بتایا کہ “میرا تو سُن کر خون کھولنے لگا لیکن مولانا حفظ الرحمن صاحب سیوہاروی نے جو ان دنوں جمعیت علماء ہند کے صدر تھے اور جلسے کی صدارت فرما رہے تھے مجھے سختی سے مداخلت کرنے سے منع کیا کیونکہ ان دنوں برطانوی استعمار سے آزادی ہی اصل مقصود تھا اور برطانوی استعمار کے ہر مخالف کو گلے لگانا جمعیت علمائے ہند کی پالیسی تھی”

میرے والد محترم 1930 کے عشرے کے آخر اور 1940 کے عشرے کے آغاز میں جمعیت علمائے ہند صوبہ سرحد کے صدر تھے ۔ پاکستان بننے کے بعد اسکول کے طالب علمی کے زمانے میں مولانا سید ابوالاعلیٰ کی فکر سے وابستہ ہوا تو میں نے اپنے والد گرامی سے پوچھا کہ “ابا جان آپ لوگ مسلم لیگ کے مقابلے میں ہندو کانگریس سے کیسے وابستہ ہوگئے تھے” ۔ میرے والد گرامی نے اپنا موقف بیان کیا کہ “دراصل ہم یہ سمجھتے تھے کہ اصل مقابلہ امت مسلمہ اور برطانوی استعمار کا ہے ۔ برطانوی استعمار نے امت مسلمہ سے عالمی قیادت چھینی ہے خلافت کی مرکزیت کا خاتمہ کر کے عالم اسلام کو ٹکڑیوں میں تقسیم کیا ہے ترکوں اور عربوں کو آپس میں لڑا کر عربوں کو بھی کئی ٹکڑیوں میں تقسیم کر دیا ہے ۔ مشرق و مغرب میں مسلمان ممالک پر استعماری گرفت مضبوط کر کے ان کے نظام تعلیم اور نظام قانون کو تبدیل کردیا ہے اور تہذیبی اور تمدنی لحاظ سے مسلمانوں کو مغربی رنگ میں رنگی ہوئی لیڈر شپ کی قیادت میں دے دیا ہے ۔ یا ان پر اپنے دست نگر بادشاہوں اور ڈکٹیٹروں کو مسلط کر دیا ہے اس لئے مسلمانوں کا اصل مسئلہ برطانوی استعمار سے آزادی ہے اور برطانوی استعمار کے خاتمے کے بعد امت مسلمہ کو عالمی سطح پر لیڈر شپ کا مقام واپس مل جائے گا ۔ ہمارے پیش نظر صرف ہندوستان نہیں تھا جس میں ہندوؤں کی اکثریت تھی بلکہ پورا عالم اسلام تھا جو کرہٴ ارض کے ایک چوتھائی حصہ میں پھیلا ہوا تھا اور جو اپنے وسائل اور افرادی قوت کے لحاظ سے قوموں کی امامت کی صلاحیت رکھتا ہے”

میرے والد گرامی ایک مخلص اور عبادت گزار عالم دین تھے لیکن جس طرح جمعیت علمائے ہند نے اپنے تشخص کو ختم کر کے اپنی تنظیم کو انڈین نیشنل کانگریس میں ضم کر دیا اس سے بر صغیر ہند و پاک کے مسلمانوں کی عظیم اکثریت کو اتفاق نہیں تھا ۔ وطن کو قومیت کی بنیاد پر تقسیم کرنے سے قرآن و سنت کے واضح دلائل کی روشنی میں مولانا سید ابوالاعلی مودودی نے اتفاق نہیں کیا اور “مسئلہ قومیت” نامی کتاب لکھ کر واضح کیا کہ مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد عقیدہ لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ ہے وطن یا زبان نہیں ہے

علامہ اقبال نے اپنی فارسی کتاب مثنوی اسرار و رموز میں مسلمان فرد اور مسلم قوم کی حقیقت واضح کی اور وطن کو قومیت کی بنیاد ماننے سے انکار کیا ۔ انہوں نے اپنی اردو شاعری میں بھی صراحت کے ساتھ فرمایا

ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے
اقوام میں مخلوق خدا بٹتی ہے اس سے
قومیت اسلام کی جڑ کٹتی ہے اس سے
بازو تیرا توحید کی قوت سے قوی ہے
اسلام تیرا دیس ہے تو مصطفوی ہے
نظارہ دیرینہ زمانے کو دکھا دے
اے مصطفوی خاک میں اس بت کو ملا دے

علامہ اقبال نے اس موضوع پر اتنی تفصیل کے ساتھ اظہار خیال کیا ہے کہ اس موضوع کا حق ادا کر دیا ہے اور جو لوگ علامہ اقبال کو مفکر پاکستان مانتے ہیں ان کے لئے کوئی گنجائش نہیں چھوڑی کہ وہ سیکولرزم یا وطنیت کو پاکستانی قومیت کی بنیاد تسلیم کریں ۔ برصغیر ہند و پاک کے مسلمانوں نے کانگرس کے ساتھ اتحاد کو تسلیم نہیں کیا اور اسی وجہ سے علماء ہند کی قیادت سے نکل کر قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت قبول کر لی

پاکستان میں 62 سال بعد اب کچھ لوگ نظریہ پاکستان سے انکار کر رہے ہیں اور اس کے لئے قائد اعظم کی ایک تقریر کا حوالہ دے رہے ہیں جو انہوں نے ایک خاص پس منظر میں پاکستان میں رہنے والے غیر مسلموں کو تسلی دینے کی خاطر کی تھی کہ ان کی جان، مال اور آبرو پاکستان میں اسی طرح محفوظ ہو گی جس طرح مسلمانوں کی جان و مال اور آبرو اورا نہیں اپنے مذہب پر چلنے کی آزادی ہو گی ۔ اس ایک تقریر کو بنیاد بنا کر برصغیر ہند وپاک کے مسلمانوں کی اس عظیم الشان جدوجہد کی نفی نہیں کی جا سکتی جو انہوں نے پاکستان کی صورت میں پورے عالم اسلام کو ایک مرکز کے گرد جمع کرنے کے لئے کی تھی اور جس کی خاطر انہوں نے قائد اعظم کو قائد اعظم بنایا

مسلمانوں نے صرف اس بنا پر قائد اعظم کی قیادت قبول کی کہ انہوں نے قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق وطن کی بنیاد پر قومیت کا سیکولر نظریہ مسترد کر کے اسلامی قومیت اور اسلامی نظریہ حیات پر مبنی ایک ریاست کے قیام کا بیڑا اٹھایا ۔ قومیت کے اس اسلامی تصور کی بنیاد پر میری طرح کے بہت سے نوجوان جمعیت علمائے ہند کے اکابر کے گھرانوں میں پرورش پانے کے باوجود مولانا مودودی اور علامہ اقبال کے حلقہ بگوش بنے

پاکستان بننے کے بعد دستور اسلامی کا مطالبہ پاکستان کے مسلمانوں کا متفقہ مطالبہ تھا ۔ دستور ساز اسمبلی کے اندر شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی اور سردار عبدالرب نشتر اس کے سرگرم موئیدین میں سے تھے جبکہ مولانا مودودی نے اسمبلی کے باہر اس کے لئے آواز اٹھائی ۔ یہ مطالبہ بر وقت تھا اور اس کو اتنی عوامی تائید حاصل تھی کہ اس کا مسترد کرنا کسی کے لئے بھی ممکن نہیں تھا اس مطالبے کے نتیجے میں دستور ساز اسمبلی نے قرار داد مقاصد پاس کی اگر قرار داد مقاصد کو اس تقریر کی روشنی میں دیکھا جائے جو اس وقت کے وزیراعظم لیاقت علی خان نے اس کی تائید میں کی تھی تو دستور کی اساس کے طورپر اس قرارداد کی اہمیت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے

پاکستان کی سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے مطابق پارلیمنٹ کی اکثریت کو بھی اس قرار داد کو دستور سے نکالنے کا حق نہیں ہے کیونکہ یہ ریاست کی وہ بنیاد ہے جو پاکستان کی گزشتہ اور آئندہ نسلوں کی امانت ہے جو لوگ قرار داد مقاصد کی مخالفت کرتے ہیں وہ دراصل اس بنیاد کو جڑ سے اکھاڑنا چاہتے ہیں جس پر یہ ملک قائم ہے

اس وقت جب کہ علاقائی اور لسانی بنیادوں پر پاکستان میں مرکز گریز رجحانات کو تقویت مل رہی ہے اور جب کہ امریکہ اور یورپ کی حکومتیں بھی اسلام کے مقابلے میں سیکولر ازم کا پرچار کر رہی ہیں اس بات کی ضرورت ہے کہ اس بنیادی رشتے کو مضبوط کر دیا جائے جس کی وجہ سے ہم ایک پاکستانی قوم میں ڈھل سکتے ہیں قرار داد مقاصد میں پارلیمنٹ کو اللہ کی حاکمیت اور اقتدار اعلی [Sovereignty] ا ور قرآن و سنت کے دائرے میں رہ کر فیصلہ کرنے کا پابند بنا دیا گیا ہے ملک میں پھیلی ہوئی موجودہ بے چینی کو طاقت کے استعمال سے نہیں بلکہ قرار داد مقاصد اور دستور کی اسلامی دفعات پر صدق دل کے ساتھ عمل پیرا ہونے کے ذریعے ختم کیا جا سکتا ہے جو لوگ ان نازک حالات میں جن سے ملک گزر رہا ہے قرار داد مقاصد کو ہدف تنقید بنا رہے ہیں وہ ان طاقتوں کے آلہ کار ہیں جو ملک میں انتشار اور بے چینی پھیلا کر اس کا تیاپانچہ کرنا چاہتی ہیں

تحریر ۔ قاضی حسین احمد ۔ بشکریہ جنگ

پڑھے لکھے راتوں رات اَن پڑھ ہو گئے

میکالے نے فارسی کو قتل کیا اور ہماری خواندہ آبادی راتوں رات اَن پڑھ قرار دے دی گئی ۔ اُس وقت مدرسے بقا کی جنگ نہ لڑتے تو جانے ہمارا کیا حال ہوتا ۔ تنقید کرنا آسان ہے اور نَکٹائی کی گِرہ ٹھیک کرکے ، ناک سکوڑ کر باریش نوجوانوں کو نگاہ غلط انداز سے دیکھنا چنداں مشکل نہیں ۔ لیکن جو جنگ مدارس نے لڑی ہے وہ ایک طویل جنگ تھی ۔ انہیں پیٹ پر پتھر باندھنا پڑے اور سفید چمڑی والوں اور اُن کے گندمی رنگ کے حواریوں کی بہت باتیں سننا پڑیں لیکن وہ ثابت قدم رہے اور تقسیم ہند تک اپنا کردار نبھاتے آئے

وہ جو مدارس میں پڑھ رہے ہیں کیا وہ ہمارے ہی لخت ہائے جگر نہیں؟ کیا وہ ہماری آنکھوں کی پتلیاں نہیں؟ کیا وہ پرائے ہیں اور ہمارے صرف وہ ہیں جو آکسفورڈ اور کیمبرج کے نصاب ازبر کر رہے ہیں؟ نہیں ۔ ہرگز نہیں ۔ یہ باریش نوجوان ہمارے اپنے ہیں ۔ ہمارے جسم کا حصہ ہیں ۔ ہمار ے دِلوں کے ٹکڑے اور ہماری آنکھوں کی روشنی ہیں ۔

اِن باريش جوانوں کے بھی کچھ حقوق ہیں ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان کے حقوق انہیں دئیے جا رہے ہیں؟ … ان کا پہلا حق… سب سے بڑا حق… یہ ہے کہ اِنہیں وہ تعلیم دی جائے جو انہیں آج کی دنیا میں کسی احساس کم تری کا شکار نہ ہونے دے اور انہیں بیچ میدان میں کھڑا ہونا پڑے تو ان میں سے ہر شخص احمد دیدات سے کم نہ ثابت ہو

مغلوں کے زمانے میں اور اس سے پہلے بھی مدارس کا نصاب اپنے وقت کے حوالے سے جدید ترین تھا ۔ سلطان سکندر لودھی کے زمانے میں ملتان کے دو بھائیوں [شیخ عبداللہ اور شیخ عزیز اللہ] نے اپنے زمانے کے جدید علوم… منطق ، ریاضی ، ادب فلسفہ اور ہیئت کو مدارس کے نصاب میں داخل کيا ۔ اورنگ زیب عالمگیر نے فتاویٰ عالمگیری مرتب کروایا تو مُلا قطب الدین سہالوی نے اس میں بہت کام کیا۔ اُن کے قتل کے بعد اُن کے بیٹے مُلا نظام الدین نے لکھنؤ میں طلبہ کیلئے جو نصاب مرتب کیا… وہی آج درس نظامی کہلاتا ہے ۔ انہوں نے یہ نصاب اپنے وقت کے حوالے سے جدید ترین بنایا تھا اور اس کے فارغ التحصیل طلبہ کا سرکاری ملازمتوں میں وہی مقام و مرتبہ تھا ۔ جو آج کل سی ایس ایس کا ہے ۔ منطق ، فلسفہ ، ریاضی ، تاریخ ، طب اور ہندسہ [انجینئرنگ] اس نصاب کا اہم حصہ تھا ۔ کل 79 کتابیں تھیں

ملا نظام الدین نے 1748ء میں وفات پائی۔ 261 سال ہو گئے ہیں کہ درس نظامی میں کوئی قابل ذکر تبدیلی نہیں ہوئی۔ بیرسٹر ظفر اللہ خاں نے جنہوں نے لندن میں قانون کی تعلیم حاصل کرنے سے پہلے سول سروس میں شمولیت اختیار کی اور اس سے بھی پہلے درس نظامی کے کنویں سے پانی پیا‘ ایک کتاب تصنیف کی۔ ’’اور زمانے کا خواب‘‘ اگر مالی استطاعت ہوتی تو ہر مدرسے کے ہر طالب علم اور ہر استاد کو اس کتاب کا ایک ایک نسخہ فراہم کرتا۔ بیرسٹر ظفر اللہ خان دل سوزی سے بتاتے ہیں کہ ’’تازہ ترین‘‘ کتاب بھی تین سو سال پرانی ہے جو درس نظامی میں پڑھائی جا رہی ہے۔ علم البلاغہ میں تلخیص المفتاح پڑھائی جا رہی ہے جو سات سو سال پہلے لکھی گئی ۔ عربی ادب میں مقامات [حریری اور ہمدانی] پڑھائے جاتے ہیں اور شاعری میں سبع معلقات‘ حماسہ اور متنبی! یہ سب کلاسیکی ادب ہے جدید کا تو ذکر ہی کیا ۔ متوسطین کی تخلیقات بھی نہیں پڑھائی جا رہیں۔ یہ ایسے ہی ہے۔ جیسے اردو ادب کے طلبہ کو ولی دکنی اور میر کے بعد کوئی اور شاعر کو نہ پڑھایا جائے۔

یہ اقتباس ہے اظہار الحق صاحب کے معلوماتی مضمون “مدارس ہمارے قلعے ہیں” سے جس میں وہ تاريخی حقائق مُختصر بیان کئے گئے ہیں جن سے دورِ حاضر کے پڑھے لکھوں کی اکثریت واقف نہیں ۔ بشکریہ ۔ نوائے وقت

ايسا کيوں ہوا ؟

ميری تحرير ” جنہوں نے مجھے انسان بنایا” پڑھ کر کچھ قارئین کرام نے تقاضہ کیا ہے کہ میں اپنے تاریخی مشاہدات کے حوالے سے وجوہات لکھوں کہ “ہم بحیثیت قوم اخلاق اور کردار کے بحران میں کیوں مبتلا ہیں؟”

وقتاً فوقتاً مُختلف موضوعات کے تحت میں قومی انحطاط کی وجوہات لکھتا رہا ہوں ۔ سب تحاریر تلاش کرنا بہت وقت مانگتا ہے ۔ جو تلاش کر سکا ہوں مندرجہ ذیل ہیں ۔ وقت ملے تو انہیں بھی پڑھ لیجئے
کچھ بات تنزّل کی
کسوٹی
معاشرہ ۔ ماضی اور حال
نیا سال ۔ معاشرے کی ترقی
اِرد گِرد کا ماحول اور ہماری مجبوریاں
اِنتخابات سے پہلے [اگر سب اِس اصول پر عمل کریں]

اب صرف اساتذہ کے تعلق سے لکھنا مقصود ہے ۔ جب میری تعلیم کا آغاز ہوا تو اُستاذ خواہ وہ پہلی جماعت کا ہو بڑے سے بڑا عہديدار بھی اس کا احترام کرتا تھا ۔ اس کی بہت سی مثالیں میرے مشاہدہ میں آئیں ۔ میں صرف اپنے ساتھ پیش آنے والا ايک واقعہ بیان کرتا ہوں ۔ میں نے 1962ء میں بی ایس سی انجیئرنگ کرنے کے بعد تدریس کا پیشہ اختیار کیا ۔ کچھ دن بعد میں بائیسائکل پر جا رہا تھا کہ پولیس والے نے میرا چالان کر دیا ۔ دوسرے دن میں ضلع کچہری پہنچا ۔ کسی نے بتایا کہ اے ڈی ایم صاحب کے پاس جاؤں ۔ میں ان کے دفتر گیا تو پتہ چلا کہ ڈی سی صاحب کے دفتر گئے ہیں ۔ میں ڈی سی صاحب کے دفتر چلا گيا ۔ چپڑاسی نے کہا “چِٹ پر اپنا نام اور کيا کام کرتے ہيں لکھ ديں”۔ چپڑاسی نے واپس آ کر اندر جانے کا کہا ۔ ڈی سی اور اے ڈی ایم صاحبان نے کھڑے ہو کر میرا استقبال کیا اور آنے کا سبب پوچھا ۔ میرے بتانے پر ڈی سی صاحب بولے “جناب ۔ آپ اُستاذ ہیں ۔ ہم آپ سے شرمندہ ہیں کہ آپ کو یہاں آنے کی زحمت کرنا پڑی ۔ آئیندہ کوئی کام ہو تو ٹیلیفون کر دیں یا کسی کو بھیج دیں ۔ ويسے آپ تشریف لائیں ہمیں آپ سے مل کر خوشی ہو گی”

ایک اس سے بھی پرانہ واقعہ ہے 1953ء کا جب میں دسویں جماعت میں پڑھتا تھا ۔ ہمارے سيکشن میں غلام مرتضٰے نامی ایک لڑکا بہت شرارتی تھا اور پڑھائی کی طرف بھی بہت کم توجہ دیتا تھا ۔ اس کے متعلق عام خیال یہی تھا کہ وہ کسی اُستاذ کی عزت نہیں کرتا ۔ ایک دن کوئی باہر کا آدمی سکول میں پرائمری کے ایک اُستاذ سے ملنے آیا اور اس کے ساتھ جھگڑنے لگا اور نوبت ہاتھا پائی تک پہنچی ۔ غلام مرتضٰے گولی کی طرح کمرے سے نکلا اور باہر سے آنے والے آدمی کو دبوچ کر دھکے دیتے ہوئے سکول سے باہر لے گیا ۔ اتنی دیر میں کچھ اساتذہ پہنچ گئے ۔ غلام مرتضٰے نے جو دیکھا تھا بیان کیا تو ہیڈ ماسٹر صاحب نے پوچھا کہ “تم نے ایسا کیوں کیا”۔ غلام مرتضٰے بولا “اُستاذ پر کوئی ہاتھ اُٹھائے ۔ میں بے غيرت نہیں ہوں کہ دیکھتا رہوں”

میرے طالب علمی کے زمانہ میں صورتِ حال ایسے تھی کہ نہ صرف میرے بلکہ سب طلباء کے والدین اساتذہ کا بہت احترام کرتے تھے ۔ اُستاذ کسی طالب علم کی پٹائی کرے تو طالب علم کی پوری کوشش ہوتی تھی کہ اسکے گھر والوں تک بات نہ پہنچے کيونکہ اسکی مزید پٹائی والدین سے ہونے کا خدشہ ہوتا تھا کہ اُستاذ نے کسی غلط حرکت کی وجہ ہی سے پٹائی کی ہو گی ۔ نہ صرف طلباء بلکہ اُن کے والدین بھی ساری عمر اپنے اور اپنے بچوں کے اساتذہ کی عزت و احترام کرتے تھے

پھر ايک دور آیا جسے “عوامی” کا نام دیا گیا ۔ اُس دور میں سب کو یہ سکھایا گیا کہ مُلکی نظامِ تعلیم کے پیروکار تعلیمی اداروں کے اساتذہ نیچ ہیں اور قابلِ سرزنش ہیں ۔ اساتذہ کے ساتھ گستاخی کے واقعات ہونے لگے ۔ کسی غلط عمل پر طالب علم کی سرزنش کرنا اساتذہ کے لئے مُشکل ہو گیا ۔ اسی پر بس نہ ہوا ۔ تعلیمی ترقی کے نام پر غیرسرکاری درسگاہیں ماسوائے غیرمُلکیوں کی ملکیت کے قومی تحویل میں لے کر اکثر اساتذہ کو کم تعلیم یافتہ ہونے کے بہانے سے چلتا کیا گیا ۔ اُن دنوں سرکاری درسگاہیں بہت کم تھیں مگر اکثر غير سرکاری درسگاہوں میں تعلیم کا معیار بلند تھا ۔ قومی تحویل میں لی گئی درسگاہوں میں حکومت کے منظورِ نظر تعینات ہوئے جن کو حکومت سے وفاداری کا زیادہ اور بچوں کی تعلیم کا کم خیال تھا جس کے نتیجہ میں تعلیمی انحطاط شروع ہوا

عوامی حکومت کی منصوبہ بندی کے نتیجہ میں مہنگائی یکدم بڑھی تو حکومت کے منظورِ نظر اساتذہ نے ٹیوشن سینٹر کھول لئے اور درسگاہوں ہی میں ان ٹیوشن سینٹروں کی اشتہار بازی کرنے لگے ۔ دیکھتے ہی دیکھتے او اور اے لیول کے جھنڈے بلند ہونا شروع ہوئے ۔ ذرائع ابلاغ نے اپنی کمائی کے لئے اُن کی بھرپور اشتہاربازی کی ۔ ان او لیول والوں کی قابلیت کا مُختصر ذکر میں نے اپنی 16 مئی 2007ء کی تحریر میں کیا تھا

حکومت نے جلسوں اور جلوسوں کو بھرنے کے لئے درسگاہوں میں سیاست کو عام کیا اور درسگاہیں سياسی کٹھپتلیاں بن کر رہ گئے ۔ طُلباء اور طالبات میں محنت کا رحجان کم ہوا تو اسناد بکنے لگیں ۔ پرانے زمانہ میں دوران امتحان کبھی کبھار کوئی نقل کرتا پکڑا جاتا تو منہ چھپاتا پھرتا پھر برسرِعام نقل ہونے لگی اور امتحانی مراکز بکنے لگے ۔ سفید پوش والدین کے محنتی اور دیانتدار بچے مُشکلات کا شکار ہونے لگے مگر مجبور تھے کہ ان کے پاس بھاری فیسوں کیلئے رقوم نہ تھیں

کسی زمانہ میں خاندان کی بڑھائی کا نشان تعليمی قابلیت ۔ شرافت اور دیانتداری ہوتے تھے پھر بڑھائی یہ ہونے لگی کہ “ميرا بيٹا امریکن سکول یا سِٹی سکول ۔ یا گرامر سکول یا بيکن ہاؤس میں پڑھتا ہے۔ اور او لیول یا اے لیول کر رہا ہے”۔ استاذ کی خُوبیوں کی بجائے دولت اور اعلٰی عہديداروں سے تعلق کی عزت ہونے لگی

جس استاذ نے مجھے آٹھویں جماعت میں انگریزی پڑھائی تھی وہ خود دس جماعت پاس تھے مگر جیسا اُنہوں نے پڑھایا ويسا پڑھانا تو کُجا دورِ حاضر کا ایم اے انگلش ويسا لکھ بھی نہیں سکتا

جنہوں نے مجھے انسان بنایا

شام کو کھانا کھا کر اور دیگر فرائض سے فارغ ہو کر جب میں بستر پر دراز ہوتا ہوں تو کبھی کبھی نیند کی بجائے میں دُور ماضی کی پھُلواڑی میں پہنچ جاتا ہوں ۔ ایک ایسی ہی رات میں اپنے اساتذہ کو یاد کر کے آنسو بہاتا رہا جنہوں نے مجھے انسان بنایا ۔ آب وہ سب راہی مُلکِ عدم ہو چکے ہیں

میرے پرائمری جماعتوں کے اساتذہ مجھے اُردو کے ہدائت حسین ۔ حساب کے بھگوان داس اور انگریزی کی مسز گُپتا یاد آتے ہیں ۔ مجھے یاد ہے کہ اُستاذ ہدائت حسین نے کس طرح پہلے میری کاپی پر خود لکھ کر اور پھر مجھ سے لکھوا کر مجھے پہلی جماعت میں اُردو لکھنا سکھائی تھی ۔ اُستاذ بھگوان داس ہر بچے کی کاپی دیکھ کر اُسے اُس کی غلطی سمجھاتے اور اگر سوال ٹھیک حل کیا ہوتا تو شاباش دیتے ۔ مسز گپتا ہر بچے سے ایسے برتاؤ کرتیں جیسے اُن کا اپنا اور لاڈلا بچہ ہو ۔ وہ ہمیں انگریزی کی اچھی اچھی نظمیں بھی سُناتيں

چھٹی اور ساتویں جماعتوں کے اُستاذ ہدائت حسین [یہ مُختلف ہیں] جنہوں نے ہمیں حساب اور الجبرا پڑھایا ۔ ان کا ذکر میں پہلے کر چکا ہوں ۔ اُنہیں مجھ پر اتنا اعتماد تھا کہ کوئی واقعہ ہو جائے اور حقیقت معلوم نہ ہو رہی ہو تو مجھے بلا کر پوچھتے کہ کیا ہوا تھا ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ میں سچ بولنے میں بہت دلیر ہو گیا

آٹھویں جماعت میں انگریزی کے اُستاذ نذیر احمد قریشی اور ریاضی کے اُمید علی اور ڈرائنگ کے اللہ بخش ۔ میں نے درُست انگریزی لکھنے میں جو مہارت حاصل کی وہ اُستاذ نذیر حسین قریشی صاحب کی محنت کا نتیجہ ہے ۔ وہ میٹرک یا ایف اے پاس تھے مگر انگریزی میں اُنہوں نے ہمیں بی اے کے برابر کر دیا ۔ سارا سال بشمول گرمیوں کی چھٹیوں کے اُنہوں نے ہمیں ایک گھنٹہ روزانہ بغیر کسی معاوضہ کے فالتو پڑھایا ۔ ہمارا روزانہ امتحان لیتے ۔ ایک بار میرے 10 میں سے 9 نمبر آئے ۔ دسمبر کا مہینہ تھا ۔ ٹھنڈے ہاتھ پر ڈنڈا مارا ۔ میرا ہاتھ سُوج گیا ۔ میں نے کبھی مار نہ کھائی تھی اس لئے درد کچھ زیادہ ہی محسوس ہوا ۔ میں آواز کے ساتھ کبھی نہیں رویا ۔ اس وقت بھی میں منہ چھپا کر آنسو بہاتا رہا ۔ مجھے نہیں معلوم کون سے ہم جماعت شام کو اُستاذ کے گھر گئے اور میرے ساتھ زیادتی کی شکائت کی ۔ دوسرے دن اُستاذ میرے پاس آئے ۔ میرا ہاتھ پکڑ کر پیار کیا اور کچھ بولے بغير ایک دم دوسری طرف منہ کر کے چل دیئے ۔ بعد میں ہم جماعتوں نے بتایا کہ اُستاذ کے آنسو بہہ رہے تھے ۔ کچھ دن بعد اُستاذ نے ساری جماعت کے سامنے کہا “آپ سب مجھے اسی طرح پیارے ہیں جیسے میرے اپنے بچے ہیں ۔ اجمل ہمیشہ سو فیصد نمبر لیتا ہے ۔ اُس نے 10 میں سے 9 نمبر لئے تو مجھے بہت دُکھ ہوا تھا ۔ میں اپنے بچوں کی بھی پٹائی کرتا ہوں”۔ اُستاذ اُمید علی نے ایک ایک لڑکے کو اس طرح کر دیا کہ آٹھویں جماعت کا پورا ریاضی کا کورس وہ از بر جانتا تھا ۔ اُستاذ اللہ بخش صاحب نے مجھے ڈرائينگ کرنے کا گُر سکھا ديا

نویں اور دسویں جماعتوں میں انگریزی کے اُستاذ ظہور احمد ۔ سائنس کے شیخ ہدائت اللہ اور ڈرائنگ کے اللہ بخش ۔ سب ہی اعلٰی اور محنت سے پڑھانے والے ہمدرد انسان تھے ۔ انہوں نے ہمیں گرمیوں کی چھٹیوں میں بھي ایک ایک ماہ کے لئے ایک گھنٹہ روزانہ پڑھایا

گیارہویں اور بارہویں جماعتوں میں انگریزی کے وی کے مَل ۔ ریاضی کے خواجہ مسعود اور کیمسٹری کے نسیم اللہ ۔ انجنیئرنگ کالج کے بزرگ اکمل حسین [ایک اکمل بعد میں بھی تھے] ۔ عنائت علی قریشی ۔ مختار حسین اور عبدالرحمٰن ناصر ۔ چوہدری محمد رشید ۔ احمد حسن قریشی ۔ ظفر محمود خلجی ۔ اکرام اللہ ۔ محمد سلیم الدين ۔ منیر ۔ سب ہی ایک سے ایک بڑھ کر تھے اور ہمیں بڑی محنت سے پڑھايا

اساتذہ اور بھی بہت تھے جنہوں نے ہمیں پڑھایا ۔ میں اُں کا احترام کرتا ہوں لیکن ذکر صرف اُن کا کیا ہے جن کا کردار غیرمعمولی تھا ۔ پرائمری سے لے کر انجنیئرنگ کالج تک کے ہمارے اِن اساتذہ نے پڑھائی کے علاوہ ہمیں معاشرتی تربيت بھی دی اور ہمیں ایک اچھا انسان بننے میں ہماری رہنمائی کی