ہمارے مُلک کے ایک بڑے حصے کو علیحدہ ہوئے 46 سال بِیت گئے لیکن مجھے وہ خوبصورت نوجوان Assistant Works Manager محبوب نہیں بھولتا ۔ سُرخ و سفید چہرہ ۔ دراز قد ۔ چوڑا سینہ ۔ ذہین ۔ محنتی ۔ کم گو ۔ بہترین اخلاق ۔ اُردو باقی بنگالیوں کی بجائے نئی دہلی کے رہنے والوں کی طرح بولتا تھا ۔ مشرقی پاکستان میں نئی مکمل ہونے والی فیکٹری میں اُسے اوائل 1970ء میں بھیج دیا گیا کہ وہ بنگالی تھا (سِلہٹ کا رہائشی)
یکم جولائی 1969ء کو مجھے ترقی دے کر Production Manager Weaponsتعینات کر کے فیکٹری کے 8 میں سے 4 محکموں کی سربراہی کے ساتھ نئے اسِسٹنٹ ورکس منیجر صاحبان کی تربیت بھی ذمہ داریاں دے دی گئیں ۔ 1969ء میں بنگالی کچھ افسران بھرتی ہوئے ۔ یہ سب ہی محنتی اور محبِ وطن تھے ۔ اِن میں محبوب بھی تھا
میری 21 دسمبر 2012ء کو شائع شدہ تحریر
جب مُکتی باہنی کا شور شرابا زوروں پر تھا مُکتی باہنی والوں نے فیکٹری کے سب بنگالی ملازمین کو بنگلا دیش کا جھنڈے کے پیچھے جلوس نکالنے کا کہا ۔ اپنی جان بچانے کی خاطر سب باہر نکل آئے لیکن محبوب نہ نکلا ۔ محبوب پر مُکتی باہنی نے الزام عائد کيا گيا کہ وہ غدار ہے اور اگر نہيں تو بنگلا ديش کا جھنڈا اُٹھا کر جلوس کے آگے چلے ۔ محبوب شادی شدہ اور ايک چند ماہ کے بچے کا باپ تھا ۔ مجبوراً جلوس ميں جھنڈہ اُٹھا ليا ۔ اس کی بناء پر فوج کے افسر نے اُس کی بيوی ۔ چند ماہ کے بچے اور فيکٹری کے افسران کے سامنے محبوب کا سمری کورٹ مارشل کر کے چند منٹوں می موت کی سزا سُنا دی ۔ اُس کی بيوی نے فوجی افسر کے پاؤں پکڑ کر رَو کر فرياد کی کہ ميرے خاوند کو نہ مارو ۔ مجبور انسان کو مت مارو ۔ مگر گولی چلانے کا حُکم دے ديا گيا ۔ ديکھنے والے افسران ميں مغربی پاکستان سے گئے ہوئے Senior Civilian Officers موجود تھے جو محبوب کے کردار سے واقف تھے مگر خاموش رہے ۔ يہ اُن میں سے ہی ایک سینیئر افسر نے مغربی پاکستان پہنچنے کے بعد مُجھے سُنایا تھا
سانحہ مشرقی پاکستان 16 دسمبر 1971ء کے متعلق جو اَعداد و شمار اور واقعات ذرائع ابلاغ کے ذریعہ پھیلائے گئے ہیں وہ اتنے غلط ہیں کہ جتنا زیادہ کوئی جھوٹ بول سکے ۔ ہمارا ملک پاکستان معرضِ وجود میں آنے کے بعد صرف ایک نسل گذرنے پر صورتِ حال کچھ ایسی ہونا شروع ہوئی کہ میں سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہوں ”کیا آزادی اِس قوم کو راس نہیں آئی جو ہر دَم اور ہر طَور اس سلطنتِ خدا داد کے بخِیئے اُدھیڑنے کے در پئے رہتی ہے“۔ اب تو حال یہاں تک پہنچا ہے کہ بھارت کو بہترین دوست اور شیخ مجیب الرحمٰن کو محبِ پاکستان ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے
میں ذاتی معلومات پر مبنی واقعات پہلے لکھ چکا ہوں جو مندرجہ ذیل موضوعات پر باری باری کلک کر کے پڑھے جا سکتے ہیں ۔ آج صرف اعداد و شمار پیش کر رہا ہوں
بھولے بسرے واقعات ۔ پہلا سوال
سقوطِ ڈھاکہ کے اسباب ۔ قسط 1 ۔ دوسرا سوال اور ذرائع
سقوطِ ڈھاکہ کے اسباب ۔ قسط 2 ۔ معلومات
سقوطِ ڈھاکہ کے اسباب ۔ قسط 3 ۔ مشاہدہ اور تجزیہ
مارچ سے دسمبر 1971ء تک مشرقی پاکستان میں جو ہلاکتیں ہوئیں اور ان کے اسباب کے متعلق غلط اور اِنتہائی مبالغہ آمیز اعداد و شمار زبان زد عام رہے ہیں ۔ پچھلی 4 دہائیوں میں غیر جانب دار لوگوں کی تحریر کردہ کُتب اور دستاویزات سامنے آ چکی ہیں ۔ جن کا خلاصہ کچھ اس طرح ہے
شیخ مجیب الرحمٰن اور اس کے حواریوں کا پروپیگنڈہ تھا کہ فوج نے 30 لاکھ بنگالیوں کو ہلاک کیا ۔ فوجی کاروائی ڈھاکہ اور اس کے گرد و نواح میں 26 مارچ 1971ء کو شروع ہوئی اور 16 دسمبر 1971ء کو پاکستانی فوج نے ہتھیار ڈال دیئے ۔ چنانچہ یہ ہلاکتیں 265 دنوں میں ہوئیں ۔ اس طرح ہر ماہ 339630 یا ہر روز 11321 بنگالی ہلاک کئے گئے ۔ ایک سرسری نظر ہی اس استلال کو انتہائی مبالغہ آمیز یا جھوٹ قرار دینے کیلئے کافی ہے
حمود الرحمٰن کمیشن کو فوج کے نمائندہ نے بتایا تھا کہ فوجی کاروائی کے دوران 26000 بنگالی ہلاک ہوئے لیکن کمیشن نے اس تعداد کو بہت مبالغہ آمیز قرار دیا تھا
شرمیلا بوس نے اپنی کتاب میں لکھا
“The three million deaths figure is so gross as to be absurd … [it] appears nothing more than a gigantic rumour. The need for ‘millions’ dead appears to have become part of a morbid competition with six million Jews to obtain the attention and sympathy of the international community.”
(ترجمہ ۔ تین ملین کا ہندسہ اتنا بھاری ہے کہ سرِ دست لغو لگتا ہے ۔ ۔ ۔ یہ ایک قوی ہیکل افواہ سے زیادہ کچھ نہیں ۔ ملینز کی تعداد چھ ملین یہودیوں کے ہمعصر ہونے کی ایک بھونڈی کوشش لگتی ہے تاکہ بین الاقوامی توجہ اور ہمدردی حاصل کی جا سکے)
مشرقی پاکستان میں موجود مغربی پاکستان کے لوگوں میں پنجابی ۔ پٹھان ۔ کشمیری ۔ سندھی ۔ بلوچ اور اُردو بولنے والے شامل تھے ۔ ان میں سرکاری محکموں ۔ سکولوں ۔ کالجوں ۔ بنکوں اور دیگر اداروں کے ملازم ۔ تاجر ۔ کارخانہ دار اور مزدور شامل تھے ۔ ان کارخانہ داروں میں سہگل ۔ آدم جی ۔ بھوانی اور اصفہانی قابلِ ذکر ہیں ۔ بھارت کی تشکیل کردہ اور پروردہ مُکتی باہنی والے مشرقی پاکستان میں موجود مغربی پاکستان کے تمام لوگوں کو پنجابی کہتے تھے اور یہی تخلص زبان زدِ عام ہوا
جُونہی فوجی کاروائی شروع ہوئی مُکتی باہنی اور اس کے حواریوں نے غیر بنگالیوں کی املاک کی لوٹ مار اور نہتے بوڑھوں عورتوں اور بچوں کے ساتھ زیاتی اور قتلِ عام شروع کر دیا ۔ عورتوں اور لڑکیوں کے ساتھ جو زیادتیاں ہوئیں مغربی پاکستان کے ذرائع یا اس سے بے خبر تھے یا بیہوش پڑے تھے
یہ حقیقت بھی بہت ہی کم لوگ جانتے ہیں کہ شیخ مجیب الرحمٰن اور اس کے نائبین پہلے ہی فیصلہ کر چکے تھے کہ جمعہ 26 مارچ 1971ء کی صبح منظم مسلح بغاوت شروع کر دی جائے گی ۔ اس تیاری کیلئے بہت پہلے سے ڈھاکہ یونیورسٹی کو مکتی باہنی کا تربیتی مرکز بنایا جا چکا تھا
فوجی کاروائی 26 مارچ 1971ء کو شروع ہوئی تھی ۔ مکتی باہنی نے یکم سے 25 مارچ تک ہزاروں محبِ وطن بنگالی اور مغربی پاکستان سے گئے ہوئے لوگ ہلاک کئے ۔ مُکتی باہنی جس میں بھارتی فوج کے Commandos کی خاصی تعداد شامل تھی کے ہاتھوں قتل و غارت کے غیر ملکی ذرائع کے شائع کردہ محتاط اعداد و شمار بھی رَونگٹے کھڑے کر دیتے ہیں
بین الاقوامی ذرائع کے مطابق 200000 تک مغربی پاکستانی ہلاک کئے گئے
امریکی کونسل کے مطابق 66000 مغربی پاکستانی صرف ڈھاکہ اور گرد و نواح میں ہلاک کئے گئے
خود بنگالی ذرائع نے ڈھاکہ اور گرد و نواح میں 30000 سے 40000 مغربی پاکستانی ہلاک ہونے کا اعتراف کیا تھا
شروع مارچ 1971ء میں صرف بوگرہ میں 15000 مغربی پاکستانیوں کو ہلاک کیا گیا
وسط مارچ کے بعد چٹاگانگ میں 10000 سے 12000 مغربی پاکستانی ہلاک کئے گئے
جیسور میں 29 اور 30 مارچ کو 5000 مغربی پاکستانی ہلاک کئے گئے
دیناج پور میں 28 مارچ سے یکم اپریل تک 5000 مغربی پاکستانی ہلاک کئے گئے
میمن سنگھ میں 17 اپریل سے 20 اپریل تک 5000 کے قریب مغربی پاکستانی ہلاک کئے گئے
اس کے بعد مُکتی باہنی نے قتل و غارتگری کا بازار پوری شدت کے ساتھ گرم کیا ۔ اس طرح کہ اعداد و شمار بتانے والا بھی کوئی نہ رہا
پاکستان کے فوجیوں کی تعداد جو زبان زدِ عام ہے صریح افواہ کے سوا کچھ نہیں ۔ جن 93000 قیدیوں کا ذکر کیا جاتا ہے ان میں فوجیوں کے علاوہ پولیس ۔ سویلین سرکاری و غیر سرکاری ملازمین ۔ تاجر ۔ عام مزدور ۔ دُکاندار وغیرہ اور ان سب کے خاندان عورتوں اور بچوں سمیت شامل تھے ۔ ان قیدیوں میں درجنوں میرے ساتھی یعنی پاکستان آرڈننس فیکٹریز واہ کینٹ کے سویلین ملازمین اور ان کے اہلَ خانہ بھی تھے جنہیں 6 ماہ سے 3 سال کیلئے پاکستان آرڈننس فیکٹری غازی پور (ڈھاکہ) میں مشینیں سَیٹ کرنے اور مقامی لوگوں کی تربیت کیلئے بھیجا گیا تھا
مشرقی پاکستان میں مغربی پاکستان سے گئے ہوئے فوجیوں کی تعداد 20000 تھی جن میں پولیس ۔ میڈیکل اور دوسری نہ لڑنے والی نفری
ملا کر کل تعداد 34000 بنتی تھی ۔ یہ پاکستانی فوج 9 ماہ سے مکتی باہنی کے 100000 جنگجوؤں سے گوریلا جنگ لڑتے لڑتے بے حال ہو چکی تھی ۔ ایسے وقت میں بھارت کی ہر قسم کے ہتھیاروں سے لیس 3 ڈویژن تازہ دم فوج سے مقابلہ کرنا پڑا ۔ پاکستانی فوج کی ہلاکتیں 4000 کے قریب ہوئیں ۔ بقول بھارتی لیفٹننٹ جنرل جے ایف آر جیکب بھارتی فوج کی ہلاکتیں 1477 اور زخمی 4000 ہوئے تھے
شیخ مجیب الرحمٰن کو اس کے خاندان سمیت 15 اگست 1975ء کو ہلاک کر دیا گیا ۔ ہلاک کرنے والے بنگلا دیش ہی کے فوجی تھے جو نہ پنجابی تھے نہ بہاری ۔ صرف ایک بیٹی حسینہ بچی جو ملک سے باہر تھی
مشرقی پاکستان شیخ مجیب الرحمٰن اور بھارت کی تیار کردہ مُکتی باہنی کو پذیرائی نہ ملتی اگر حکومتِ پاکستان نے مشرقی پاکستان کی معیشت و معاشرت کی طرف توجہ دی ہوتی اور بے لگام بیورو کریسی کو لگام دے کر اُن کے فرض (عوام کی بہبود) کی طرف متوجہ کیا ہوتا ۔ پچھلے کم از کم 5 سال میں جو ملک کا حال ہے ۔ دل بہت پریشان ہے کہ کیا ہو گا ۔ الله محبِ وطن پاکستانیوں پر اپنا کرم فرمائے اور اس ملک کو محفوظ بنائے
مشرقی پاکستان کے بنگالیوں کی بڑی تعداد اپنے آپ کو پاکستانی سمجھتی تھی جس کے نتیجہ میں مغربی پاکستانیوں کے ساتھ وہ بھی مکتی باہنی کا نشانہ بنے ۔ لاکھوں بنگالیوں نے دستخط کر کے ایک یاد داشت برطانیہ کے راستے ذوالفقار علی بھٹو کو بھجوائی تھی کہ بنگلا دیش منظور نہ کیا جائے ۔ پیپلز پارٹی کی اکثریت بھی بنگلہ منظور کرنے کے خلاف تھی ۔ اِسی لئے جب عوام بنگلہ دیش کیی منظوری لینے کیلئے ذوالفقار علی بھٹو نے لاہور میں پیپلز پارٹی کے بہت بڑے جلسے کا اہتمام کیا تو اہل جللسہ نے بھٹو کو بولنے نہ دیا اور تمام لاؤڈ سپیکروں کے تار کاٹ دیئے ۔ بعد میں بھٹو نے اسلامی کانفرنس کا انعقاد کر کے بنگلا دیش منظور کرنے کا اعلان کر دیا
نہ صرف یہ بلکہ بنگلا دیش بننے کے بعد جن لوگوں نے وحدتِ پاکستان کے حق میں آواز اٹھائی تھی انہیں طرح طرح سے تنگ کیا گیا اور ان کے خلاف جھوٹے مقدمے بنائے گئے ۔ بہاریوں کو نہ شہریت دی اور نہ مہاجرین کا درجہ ۔ وہ ابھی تک کس مُپرسی کی زندگی گذارنے پر مجبور ہیں ۔ جماعتِ اسلامی کے دلاور حسین سیّدی سمیت 6 لیڈر ابھی بھی بغاوت کے مقدمات بھُگت رہے ہیں
یہ حقیقت ہے کہ اب بھی بنگلا دیش کے عوام کی اکثریت کے دل پاکستانی ہیں ۔ اس کا ایک ادنٰی سا مظاہرہ اس وقت ہوتا ہے جب پاکستان اور بھارت کی ٹیمیں مدِ مقابل ہوتی ہیں ۔ بنگلا دیش کے عوام جوش و خروش کے ساتھ پاکستانی ٹیم کے حق میں بول رہے ہوتے ہیں
مسئلہ یہ ہے کہ ہم ماضی پر ‘صرف’ روتے ہیں اس سے سبق سیکھ کر بہتری کی جانب نہیں بڑھتے۔
سیما آفتاب صاحبہ
اصل مسئلہ ہے ہی یہی
جی