Yearly Archives: 2015

ميں تيرا شہر چھوڑ جاؤں گا

ايک گيت بہت مشہور ہوا تھا ۔ کسی نے اُس کا سوانگ (parody) لکھا تھا ۔ نیچے پہلے اصل گیت اور پھر اس کا سوانگ

اصل گیت

اِس سے پہلے کہ تیری چشمِ کرم ۔ ۔ ۔ معذرت کی نِگاہ بن جائے
اِس سے پہلے کہ تیرے بام کا حُسن ۔ ۔ ۔ رفعت ِ مہر و ماہ بن جائے
پیار ڈھل جائے میرے اشکوں میں ۔ ۔ ۔ آرزو ایک آہ بن جائے
مجھ پہ آ جائے عشق کا الزام ۔ ۔ ۔ اور تو بے گناہ بن جائے
میں ترا شہر چھوڑ جاؤں گا
اِس سے پہلے کے سادگی تیری ۔ ۔ ۔ لبِ خاموش کو گِلہ کہہ دے
میں تجھے چارہ گر خیال کروں ۔ ۔ ۔ تو مرے غم کو لا دوَا کہہ دے
تیری مجبوریاں نہ دیکھ سکے ۔ ۔ ۔ اور دل تجھ کو بے وفا کہہ دے
جانے میں بے خُودی میں کیا پُوچُھوں ۔ ۔ ۔ جانے تو بے رُخی سے کیا کہہ دے
میں ترا شہر چھوڑ جاؤں گا ۔ ۔ ۔ چارہء درد ہو بھی سکتا تھا
مجھ کو اِتنی خُوشی بہت کچھ ہے ۔ ۔ ۔ پیار گو جاوداں نہیں پھر بھی
پیار کی یاد بھی بہت کچھ ہے ۔ ۔ ۔آنے والے دِنوں کی ظلمت میں
آج کی روشنی بہت کچھ ہے ۔ ۔ ۔اِس تہی دامنی کے عالم میں
جو مِلا ہے، وہی بہت کچھ ہے ۔ ۔ ۔ میں ترا شہر چھوڑ جاؤں گا
چھوڑ کر ساحل ِ مراد چلا ۔ ۔ ۔ اب سفینہ مِرا کہیں ٹھہرے
زہر پینا مِرا مقدر ہے ۔ ۔ ۔ اور ترے ہونٹ انگبیں ٹھہرے
کِس طرح تیرے آستاں پہ رکوں ۔ ۔ ۔ جب نہ پاوں تلے زمیں ٹھہرے
اِس سے بہتر ہے دل یہی سمجھے ۔ ۔ ۔ تو نے روکا تھا، ہم نہیں ٹھہرے
میں ترا شیر چھوڑ جاؤں گا
مجھ کو اِتنا ضرور کہنا ہے ۔ ۔ ۔ وقتِ رُخصت ،سلام سے پہلے
کوئی نامہ نہیں لکھا میں نے ۔ ۔ ۔ تیرے حرفِ پیام سے پہلے
توڑ لوں رشتہء نظر میں بھی ۔ ۔ ۔ تم اُتر جاؤ بام سے پہلے
لے مری جاں میرا وعدہ ہے ۔ ۔ ۔ کل کِسی وقت شام سے پہلے
میں ترا شہر چھوڑ جاؤں گا

سوانگ

اس سے پہلے کہ گھر کے پردوں سے ۔ ۔ ۔ ٹيڈی پتلون میں سِلوا لوں
اس سے پہلے کہ تجھ کو دے کر دل ۔ ۔ ۔ ترے کُوچے ميں خود کو پِٹوا لوں
اس سے پہلے کہ تيری فُرقت ميں ۔ ۔ ۔ خُود کُشی کی سکِيم اپنا لوں
اس سے پہلے کہ اک تيری خاطر ۔ ۔ ۔ نام غنڈوں ميں اپنا لکھوا لوں
ميں تیرا شہر چھوڑ جاؤں گا

اس سے پہلے کہ وہ عدُو کمبخت ۔ ۔ ۔ تيرے گھر جا کر چُغلياں کھائے
اس سے پہلے کہ دیں رَپٹ جا کر ۔ ۔ ۔ تيرے ميرے شريف ہمسائے
اس سے پہلے کہ تيری فرمائش ۔ ۔ ۔ مجھ سے چوری کا جُرم کروائے
اس سے پہلے کہ اپنا تھانيدار ۔ ۔ ۔ مرغ تھانے ميں مجھ کو بنوائے
ميں تيرا شہر چھوڑ جاؤں گا

تجھ کو آگاہ کيوں نہ کر دوں ميں ۔ ۔ ۔ اپنے اس انتظام سے پہلے
مشورہ بھی تجھی سے کرنا ہے ۔ ۔ ۔ اپنی مَرگِ حرام سے پہلے
کوئی ايسی ٹرين بتلا دے ۔ ۔ ۔ جائے جو تيز گام سے پہلے
آج کے اس ڈِنر کو بھُگتا کر ۔ ۔ ۔ کل کسی وقت شام سے پہلے
ميں تیرا شہر چھوڑ جاؤں گا ۔ ۔ ۔ دل کی گردن مروڑ جاؤں گا

چوزہ چال ؟ ؟ ؟

ہمیں ساتویں اور آٹھویں جماعت میں اُردو اور انگریزی کے سارے محاورے اور ضرب المثل پڑھائے گئے تھے اور اِن کے معنی اور استعمال بھی سمجھایا گیا تھا ۔ نامعلوم آجکل بھی پڑھائے جاتے ہیں یا پرانے زمانے کی بات سمجھ کر نصاب سے نکال دیئے گئے ہیں

””بھیڑ چال“عام محاورہ ہے ۔ البتہ ”چوزہ چال“ انسانوں کا طور طریقہ دیکھ کر میں نے خود بنایا ہے ۔ میں نے سکول کے زمانہ میں چیونٹیوں کے حوالہ سے ایک محاوہ ”چیونٹی چال“ بھی بنایا تھا ۔ اس کے متعلق میں 22 فروری 2011ء کو لکھ چکا ہوں ۔ اب سوچتا ہوں کہ وہ بھی کسی حد انسانوں پر لاگو ہوتا ہے ۔ آج کی تحریر صرف چوزہ چال کے متعلق ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ قارئین کو خاص کر جو انگریزی سکولوں میں پڑھے ہیں ان محاوہ کا مطلب نہ جانتے ہوں اسلئے مختصر طور پر بتا دیتا ہوں

”بھیڑ چال“۔ بھڑوں کا ریوڑ اکٹھے جا رہا ہو تو ایک بھڑ اگر آگے چل پڑے تو باقی تمام بھیڑیں اُس کے پیچھے چل پڑتی ہیں ۔ بھیڑوں کی اس چال کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے گوالے ریوڑ کو ہانکنے کیلئے ایک بھیڑ کو سر کے قریب سے پکڑ کر آگے چلنے لگتے ہیں تو ساری بھیڑیں اُن کے پیچھے چلنے لگتی ہیں ۔ ہمارے سیاسی لیڈر بھی لوگوں کے ساتھ کچھ ایسا ہی کرتے ہیں

”چیونٹی چال“۔ چیونٹی کی یہ عادت ہوتی ہے کہ جس راستہ سے وہ کسی جگہ جاتی ہے اُسی راستہ سے واپس آتی ہے ۔ جہاں سے چیونٹی گذر کر گئی ہو اُس راستہ پر ایک پتہ یا کوئی اور چیز رکھ دیں تو چیونٹی واپسی پر بھٹک جائے گی اور چاروں طرف کافی گھوم پھر کر اُسے اپنا راستہ ملے گا ۔ آجکل کئی طالب علم ایسے ہی ہیں کہ خاص طرز سے امتحان کی تیاری کرتے ہیں ۔ اگر امتحان میں سوال کی عبارت بدل دی جائے تو ”نصاب سے باہر (Out of Course)“ ہونے کا احتجاج شروع ہو جاتا ہے

”چوزہ چال“۔ جو لوگ اپنے گھر میں مرغی کے نیچے انڈے رکھ کر چوزے حاصل کرتے ہیں اور اُنہیں پالتے ہیں وہ جانتے ہوں گے کہ اگر ایک چوزہ چونچ میں کچھ لے کر ایک طرف کو بھاگے تو باقی سب چوزے اپنا کام چھوڑ چھاڑ اُسی طرف اس طرح بھاگیں گے کہ پہلے بھاگنے والے چوزے کو آگے سے لیں ۔ ایسا کرتے ہوئے کئی چوزے گر کر اُٹھتے ہیں اور بھاگتے ہیں ۔ یہ عمل ضرور ہو گا خواہ آگے بھاگنے والے چوزے کے منہ میں کچھ بھی نہ ہو اور وہ ویسے ہی جوش میں آ کر بھاگا ہو

ہمارے شہروں کی سڑکوں پر اکثر گاڑیوں والے اپنے سے اگلی گاڑی کے پیچھے بھاگ کر اُس سے آگے نکلنے کی کوشش کر رہے ہوتے ۔ دوسرے الفاظ میں ہماری سڑکوں پر انسانوں کی ”چوزہ چال“ روزانہ دیکھنے کو ملتی ہے

آج کچھ اشتہار

تعلیم کیا ہوتی ہے
Education
تعلیم کیسے ؟
Brave Boy
یہ اشتہار اسلام آباد میں ایک بنک میں لگا ہوا ہے
نوسر باز
تکے کباب ہوں یا میکڈونلڈ یا کے ایف سی ۔ پِزّا ہَٹ ہو یا بروسٹ ۔ دماغ کی آنکھیں کھول کے رکھیئے ۔ اور ہاں ایسا صرف پنجاب میں نہیں ہوتا ۔ فرق یہ ہے کہ پنجاب محرک ہے
Food
یہ صرف پنجاب نے اعلان کیا ہے ۔ ہم نے اسلام آباد میں اپنا رہائشی مکان والد صاحب کی وفات کے بعد اپنے نام کرانے کی کوشش کی تھی تو معلوم ہوا کہ لاکھوں روپے فیس ہے تو چُپ کر کے بیٹھ گئے تھے کہ گھر سے نکالے گا تو کوئی نہیں ۔ البتہ 1996ء میں 11077 روپے فیس لے کر سی ڈی اے والوں نے ہم آٹھوں بہن بھائیوں کے نام کر دیا تھا ۔ پرویز مشرف کے دور میں کسی نے ایک 7 مرلہ کا مکان باپ کی وفات کے بعد اپنے نام کرایا تھا تو ہزروں روپےفیس دی تھی
وراثت
پاکستانی اور پاکستانی نژاد مسلمان ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پاکستانی مسلمانامریکی مسلمانامریکن مسلمان

۔

۔

۔
تبدیلی مگر کیسے ؟
تبدیلی ؟
اسے کون تبدیل کرے گا ؟
کتابیں اور جوتے

ایک ایک کر کے سب چلے گئے

سدا نہ مانیئے حُسن جوانی ۔ ۔ ۔ سدا نہ صحبت یاراں
سدا نہ باغیں بُلبُل بولے ۔ ۔ ۔ سدا نہ رہن بہاراں
دُشمن مرے تے خوشی نہ کریئے ۔ سجناں وی ٹُر جانا

پاکستان بننے کے بعد ہم سیالکوٹ پہنچے تو ہمارے عزیزوں نے اپنے ہاں جگہ دی ۔ ہم کوئی ڈیڑھ سال سیالکوٹ میں رہے پھر راولپنڈی آ گئے ۔ اُس وقت سیالکوٹ میں میرا ایک دوست موجود تھا جو مجھ سے 10 ماہ بڑا میرا پھوپھی زاد بھائی سعیدالظفر تھا اور پھوپھو جی کی وفات کے بعد سے پاکستان بننے سے کچھ روز پہلے تک ہمارے گھر میں رہ چکا تھا ۔ سیالکوٹ میں میرے مزید 2 دوست بنے ۔ دونوں کا نام فاروق تھا ۔ 1953ء میں میرے خالہ خالو مع بچوں کے مصر سے پاکستان آ گئے ۔ ان کا ایک بیٹا سعید تھا جو مجھ سے 10 ماہ چھوٹا تھا ۔ اُس سے دوستی ہو گئی ۔ ہم پانچوں میں بے لوث محبت رہی اور جہاں کہیں بھی ہوں ہمیشہ ایک دوسرے سے رابطہ رہا

پہلے 2 سال کے وقفے سے دونوں فاروق چلتے بنے ۔ پچھلے سال 3 اکتوبر کو سعیدالظفر چلا گیا اور رات میرے بچپن کا آخری ساتھی میرا خالہ زاد سعید بھی راہیءِ مُلکِ عدم ہوا ۔ اِنّا للہِ و اِنّا الیہِ راجِعون
اللہ اِن سب کی مغفرت کرے اور جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے

قارئین سے اُن کے حق میں دعائے خیر کی درخواست ہے

میری 60 سال پرانی ڈائری کا ایک ورق

From my diary of July, 1955
Weep not over precious changes past
Wait not over golden ages on the wane
Each night I burn the records of the day
At sun rise every soul is born again – – – – – – Walter Melone

یہاں کلک کر کے پڑھیئے ” Failutre of Modern Society-2 (Majority / Minority Syndrome) “