میں اپنے ماضی میں اپنی یادداشت کو چلاتا دُوربہت دُور چلا جاتا ہوں ۔ مجھے 1946ء تک کی بھی اہم باتیں یا واقعات یاد آ جاتے ہیں ۔ لیکن اِن میں وہ دن نظر نہیں آتا جب ہم دوست بنے تھے ۔ بس اتنا مجھے یاد ہے کہ ہم چھوٹے بچے تھے جب وہ اپنی والدہ (میری پھّوپھو) کی وفات کے بعد اپنی 2 بڑی بہنوں کے ساتھ ہمارے ہاں رہنے لگا تھا اور ہماری دوستی شروع ہو ئی تھی
وہ مجھ سے 10 ماہ بڑا تھا ۔ ہم اکٹھے کھیلتے اور ہنسا کرتے ۔ کبھی کبھی تو ہنستے ہنستے بُرا حال ہو جاتا تھا
ہماری دوستی اتنی گہری تھی کہ پچھلی 7 دہائیوں میں جہاں کہیں بھی رہے ہم ایک دوسرے سے رابطے میں رہے ۔ ملاقاتیں بھی ہوتی رہیں ۔ زندگی کے نشیب و فراز اور نامساعد حالات ہماری دوستی کا کچھ نہ بگاڑ سکے ۔ ہمارا نہ کبھی جھگڑا ہوا نہ ہم کبھی آپس میں ناراض ہوئے
شادی کے بعد اُس نے کراچی میں کاروبار شروع کیا جو چل پڑا ۔ اُس کی 2 بیٹیاں تھیں جو جامعہ کراچی میں پڑھتی تھیں جب 1990ء کی دہائی میں ایم کیو ایم کے حق پرستوں نے کراچی کی زمین اُس کے خاندان کیلئے تنگ کر دی ۔ وہ جوان بیٹیوں کی عزت محفوظ کرنے کی خاطر بیوی 2 بیٹیوں اور 2 بیٹوں کو اپنی کار میں بٹھا کر چلاتا ہوا 3 دن میں لاہور پہنچا جہاں اُسے پھر الف بے سے آغاز کرنا پڑا ۔ میاں بیوی ہر قسم کا چھوٹا موٹا کام کرتے رہے ۔ بیٹیاں بیٹے بچوں کو ٹیوشن پڑھاتے رہے ۔ اُس دور میں بھی میں نے اُسے ہمیشہ مسکراتے دیکھا ۔ چار پانچ سال میں معاشی پہیئہ چل پڑا تو بچوں کی شادیاں کیں
وہ متعدد بار معاشی چیرہ دستیوں کا نشانہ بنا مگر نہائت بُرے وقت میں بھی اُس نے الحمدللہ ہی کہا ۔ زندگی میں 2 بار اُس نے مجھے صرف اتنا کہا ”میں نے ماموں جی (میرے والد) کا کہا نہ مان کر زندگی کی سب سے بڑی غلطی کی تھی”۔
(اگست 1947ء سے کچھ دن قبل وہ تینوں بہن بھائی اپنی بھابھی کو ملنے سیالکوٹ گئے تھے ۔ اُن کے صرف ایک بھائی تھے جو سب بہن بھائیوں سے بڑے تھے ۔ 3 بڑی بہنیں تھیں جن کی شادیاں والدہ کی زندگی میں ہو گئی تھیں ۔ بھائی ہندوستان سے باہر کہیں کاروبار کرتے تھے ۔ اُن کے ہمارے ہاں سے جانے کے بعد ہمارے شہر سمیت ہندوستان میں قتل و غارت گری شروع ہو گئی اور وہ واپس ہمارے ہاں نہ آ سکے ۔ 1947ء کے آخر میں ہم ہجرت کر کے پاکستان پہنچے تو راولپنڈی میں رہائش اختیار کی ۔ کچھ سال والد صاحب روزگار کی تگ و دو میں رہے ۔ جب کاروبار چل پڑا تو والد صاحب نے سیالکوٹ جا کر اُس کی بڑی 2 بہنوں کی شادیاں کرائیں اور اُسے اپنے ساتھ راولپنڈی لے آئے تھے ۔ مگر اس کے دوستوں نے اُسے ٹکنے نہ دیا اور کچھ ماہ رہ کر وہ واپس چلا گیا تھا)
لگ بھگ 70 سالہ دوستی اُسے نہ روک سکی اور 5 اکتوبر بروز اتوار یعنی عید الاضحےٰ سے ایک دن قبل وہ اس دارِ فانی سے رُخصت ہو گیا
اِنَّا لِلہِ و اِنَّا اِلَہِ راجِعُون