Yearly Archives: 2015

بیوقوف کی پہچان

میں اُن دنوں گیارہویں جماعت میں پڑھتا تھا ۔ رہائش راولپنڈی شہر میں تھی ۔ چند ہمجماعت آئے کہ یومِ آزادی منانے کیلئے راجہ بازار سجایا گیا ہے چلو دیکھتے ہیں ۔ میرے لئے یہ پہلا موقع تھا سو چل پڑا ۔ راجہ بازار پہنچے تو بہت لوگ تھے جن میں زیادہ تعداد جوانوں کی تھی ۔ عورتیں اور لڑکیاں بھی تھیں مگر کم تعداد میں ۔ ابھی تھوڑا ہی چلے تھے تو مجھے پریشانی شروع ہوئی کہ یہ جگہ سیر کرنے کی حالت میں نہیں ہے ۔ میں نے واپسی کا ارادہ ظاہر کیا تو ساتھیوں نے کہا ” تھوڑا سا تو دیکھ لیں“۔ اور ہم ہجوم میں سے تیز تیز راستہ بنانے لگے ۔ ہم نے دیکھا کہ آگے کچھ لڑکیاں ہیں تو راستہ بدل کر نکلنے کی کوشش کی ۔ کچھ جوان جو سامنے سے آ رہے تھے وہ لڑکیوں کے قریب سے ہو کر گذرے ۔ ہم نے نہیں دیکھا کہ اُنہوں نے کیا کیا لیکن لڑکیوں کی رفتار تیز ہو گئی جیسے کوئی پریشانی میں بچ کر نکلنے کی کوشش کرتا ہے ۔ اس پر ہم سب واپس ہو لئے ۔ بھیڑ کی وجہ سے رفتار کافی سُست تھی تھوڑی دیر بعد ایک ساتھی نے کہا ”وہی بدمعاش پھر آ رہے ہیں“۔ میں اُن کی طرف غور سے دیکھنے لگا ۔ وہ 3 صحتمند لڑکے تھے ۔ اچانک وہ تیزی سے اپنے داہنی طرف کو گئے ۔ میں نے جو اُدھر نظر کی تو دیکھا کہ کچھ لڑکیاں آ رہی ہیں ۔ پلک جھپکنے سے بھی پہلے میں لپک کر اُن میں درمیان والے لڑکے کے سامنے پہنچا جو اُن کا لیڈر لگتا تھا اور پوری قوت سے اُسے دھکا دیا ۔ اس ناگہانی دھکے سے وہ سنبھل نہ پایا اور سڑک پر گرا ۔ وہ اُٹھ کر مجھ پر کودا مگر بڑے لوگوں نے اُسے اور اس کے ساتھیوں کو قابو کر لیا اور مجھے جانے کا کہا ۔ میں اگر بیچ میں نہ آتا تو وہ لڑکے سیدھے اُن لڑکیوں سے ٹکرا جاتے اور نامعلوم مزید کیا کرتے

واپسی پر میرے ساتھی کہنے لگے ” بیوقوف ذرا دیکھ کر تو ہاتھ ڈالتے ۔ تم سے دو گنا طاقتور تھا ۔ لوگ بیچ میں نہ پڑتے تو اُس نے تمہارا قیمہ بنا دینا تھا“۔ مگر مجھے اپنے کئے پر کوئی افسوس نہ تھا (ہوا جو بیوقوف)

میں انجیئرنگ کالج لاہور میں پڑھتا تھا ۔ لاہور میں انجینئرنگ کی سٹیشنری الفا میاں قلعہ گوجر سنگھ اور ڈرائینگ اینڈ سروے سٹور انارکلی میں ملتی تھی ۔ الفا میاں مہنگا تھا اسلئے میں اور میرے جیسے لڑکے انارکلی سے سامان لیتے تھے ۔ ایک دن انارکلی سے ہو کر میں اور ایک ساتھی واپس آ رہے تھے کہ جی پی او کے سٹاپ سے بس پر چڑھیں گے ۔ وہاں انتطار کیا بس آئی اور بھری ہوئی تھی کھڑی نہ ہوئی ۔ کچھ اور ہمجماعت بھی پہنچ گئے تھے ۔ فیصلہ پیدل چلنے کا ہوا ۔ مال کے کنارے جا رہے تھے ۔ باقی ساتھی بار بار رُک جاتے تو مجھے اُن کی انتظار کرنا پڑتی ۔ میں نے اعتراض کیا تو ایک بولا ”یار 13 کلو میٹر پیدل جانا ہے ۔ آنکھیں سینکتے ہوئے جا رہے ہیں کہ سفر کٹ جائے ۔ مجھے بُرا لگا اور کہہ دیا ”کچھ کرنے کے قابل ہو تو لے جاؤ کسی کو ساتھ ۔ یوں ہیجڑوں کی طرح کیا دانت نکال رہے ہو“۔
ایک صاحب بولے “یار ۔ تم تو ہو بیوقوف ۔ باقی سب کو تو اپنے جیسا نہ سمجھو“۔

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ خوشگوار زندگی

زندگی کو خوشگوار بنانے کیلئے ضروری ہے
کہ
آنکھیں لوگوں میں اچھائی تلاش کریں
دل بڑی سے بڑی غلطی معاف کر دے
دماغ برائی کو بھول جائے
لیکن
اللہ کے احکام کبھی نہ بھولے

یہاں کلک کر کے پڑھیئے ” Missing Peace “

چَوندا چَوندا یعنی تازہ گرم گرم

پروفیسر انور مسعود صاحب کے کلام کا کمال ہے کہ روتوں کو ہنسا دے ۔ اور کبھی کبھی ہنستوں کو رُلا بھی دیتے ہیں
آج اِن کا تازہ مزاح پارہ ملاحظہ فرمایئے

اتنا آسان بھی نہیں ہے اہتمامِ ازدواج
کامیابی کیلئے محنت مشقت کیجئے
سیکھیئے عمران خان سے خانہ آبادی کا راز
آپ کو شادی کرانا ہو تو دھرنا دیجئے

قصہ میری شادی کا

میں اپنی شادی کا چھوٹا سا حوالہ قبل ازیں دے چکا ہوں ۔ میری شادی کا قصہ بھی شاید میری طرح عجوبہءِ روزگار ہے

میں 2 بہنوں اور 3 بھائیوں سے بڑا ہوں اور 2 بہنیں مجھ سے ڈھائی اور ساڑھے پانچ سال بڑی ہیں ۔ مجھ سے ڈھائی سال بڑی بہن 1964ء میں اُن کی شادی تک میری خودساختہ محافظ ۔ مُنتظم عوامی تعلقات (public relations manager) اور مُخبر رہیں ۔ میرے متعلق یا اُن کے مطابق کوئی دلچسپ بات ہو تو مجھے علیحدگی میں بتاتیں ۔ بچپن میں میری یہ بہن مجھ سے جتنا زیادہ پیار کرتی تھیں میں اتنا ہی ان کو چڑاتا تھا ۔ جب میں انجنیئرنگ کالج لاہور میں آخری امتحان دے کر گھر راولپنڈی پہنچا تو موقع پاتے ہی بولیں ”آؤ تمہیں بڑی دلچسپ بات بتاؤں ۔ فلاں لڑکی جو گارڈن کالج میں تمہاری ہمجماعت تھی نا ۔ اُس کی امی ہماری امی کے پاس آئیں تھیں ۔ تمہارے رشتہ کیلئے“۔ میں نے ٹوکا تو بولیں ”میری بات تو سُنو ۔ پہلے وہ اپنی بیٹی کی تعریفیں کرتی رہیں اور بتایا کہ میڈیکل کالج کے آخری سال میں ہے پھر تمہاری تعریفیں شروع ہو گئیں پھر کہنے لگیں کہ ہماری خواہش ہے کہ اچھے لوگوں سے واسطہ پڑے ۔ یہ کس لئے کر رہی تھیں ؟ تمہارے رشتہ کیلئے نا ”۔
خیر ۔ اس کے بعد اگلے ڈھائی تین سالوں میں میری بہن نے مزید 4 مختلف لوگوں کی تشریف آوری کے متعلق بتایا ۔ ایک دن میں کہیں گیا ہوا تھا واپس گھر میں داخل ہوا ہی تھا کہ بہن مجھے اُچک کر ایک طرف لے گئیں اور کان میں کہا ”تمہارے سلسلے میں فلاں مُلک سے لوگ آئے ہوئے ہیں ساتھ لڑکی بھی ہے ۔ دیکھ لو پھر مجھے بتانا کیسی ہے“۔ میں نے چڑانے کیلئے کہا ”آپ جو میرے لئے لڑکی تلاش نہیں کرتیں تو لوگوں نے مجھے لڑکی سمجھ لیا ہے“۔ خیر یہ تو سب تھا بہن بھائی کا معاملہ

شادی کیلئے پسند کے بارے میں قبل ازیں لکھ چکا ہوں ۔ اب کچھ تفصیل ۔ میرے بھائی نے جو مجھ سے سوا 3 سال چھوٹا ہے شروع 1965ء میں شادی کیلئے بیقراری دکھائی تو میری والدہ محترمہ (اللہ جنت نصیب کرے) جو کب سے میری شادی کی فکر میں تھیں متحرک ہو گئیں اور اپنے سے چھوٹی بہن کی بیٹی کو بہو بنانے کیلئے اُن کے پاس سیالکوٹ گئیں لیکن خالہ صاحبہ نے اپنی بیٹی کا رشتہ کرنے سے انکار کر دیا

میں جولائی میں کراچی ایک کورس کے سلسلے میں گیا ہوا تھا اور چھوٹے ماموں کے پاس ٹھہرا تھا ۔ اچانک ایک دن بڑے ماموں شارجہ سے پہنچ گئے ۔ مجھ سے علیحدگی میں پوچھا ” تم کسی ڈاکٹر کو پسند کرتے ہو ؟“ میں نے انکار کیا تو پوچھا ”وہ ڈاکٹر کون ہے؟“ میں نے کہا ”میں نہیں جانتا آپ کس ڈاکٹر کی بات کر رہے ہیں“۔ پھر کہا ”تم ۔ ۔ ۔ ۔ سے شادی نہیں کرنا چاہتے ؟“ میں نے کہا ”امّی گئی تھیں مگر خالہ نے انکار کر دیا“۔ پھر بڑے ماموں نے چھوٹے ماموں کو بُلایا اور اُن پر چڑھائی کر دی ” تم یہاں بیٹھے کیا کر رہے ہو کہ ہماری دونوں بڑی بہنیں جو ماں کے برابر ہیں جُدا ہونے کو ہیں“۔ دو دن بعد میں نے واپس راولپنڈی جانا تھا ۔ بڑے ماموں نے کہا ”ہم دونوں بھی تمہارے ساتھ جائیں گے“ ۔

دونوں ماموں میرے ساتھ وزیرآباد تک گئے اور سیالکوٹ جانے کیلئے اُتر گئے ۔ بڑے ماموں کہہ گئے کہ ”آپا جی سے کہہ دینا ہم چھوٹی آپا کو لے کر راولپنڈی پہنچ رہے ہیں“۔ بڑے ماموں کو میں نے بچپن سے یہی دیکھا تھا کہ ہر وقت مذاق ۔ ہنسنا اور ہنسانا ۔ اس بار وہ بالکل سنجیدہ تھے اور بہت متفکر نظر آتے تھے ۔ باتیں بھی نہیں کر رہے تھے حالانکہ بڑے ماموں موجود ہوں تو گھر گُل و گُلزار نہ بنا ہو ماننے والی بات نہ تھی ۔ میں حیران تھا کہ بڑے ماموں اتنے سنجیدہ ہو سکتے ہیں

دونوں ماموں 2 دن بعد بڑی خالہ جو میری امی کے بعد بہن بھائیوں میں سب سے بڑی تھیں کو لے کر پہنچ گئے ۔ ہم سب بہن بھائیوں کو بھگا دیا گیا اور مباحثہ شروع ہوا ۔ گھنٹہ ڈیڑھ بعد بڑے ماموں کی زور دار آواز آئی ”اجمل“۔ میں بھاگتا ہوا پہنچا ۔ بڑے ماموں ہنس رہے تھے اور بولے ”جاؤ بھاگ کر مٹھائی لاؤ اور منہ میٹھا کراؤ“۔ میں نے ماموں کو ہنستے دیکھا تو بے تکلف ہو کر بولا ”کتنی ۔ ایک من یا ایک ٹرک ؟“

میرے ہموطن جو قومی اور اجتمائی بہتری کی نہ منصوبہ بندی کرتے ہیں نہ پیش بندی ۔ البتہ فتور پھیلانے کیلئے کچھ ہموطن سالوں پہلے پیش بندی کرنے کے بعد منصوبہ بندی کر کے عملی جامہ بھی پہنا دیتے ہیں ۔ لوگ جو اجنبی نہیں رشتہ دار ہی تھے نے پہلے تو میری خالہ سے تعلقات بڑھائے پھر ہمدرد اور خیرخواہ بنے اور ناجانے میرے والدین اور میرے متعلق کیا کیا من گھڑت باتیں اس طرح بتاتے رہے کہ خالہ کو یقین آ گیا ۔ وہ خالہ جو میری امی کی پکی سہیلی بھی تھیں ۔ کمال تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں سے رشتہ کے سلسلہ میں امی کے رشتہ مانگنے جانے سے قبل کسی نے کسی قسم کا اشارہ بھی نہیں دیا تھا اور نہ ہی میری شادی کی کبھی بات کی تھی ۔ کوئی پوچھتا بھی تو میرے والدین ٹال دیتے تھے

شادی کے کئی سال بعد میری بیوی نے بتایا کہ منگنی کے بعد بھی یہ کوششیں جاری رہیں اور ایک موزوں قسم کا رشتہ بھی بتایا جو لڑکا مجھ سے زیادہ تعلیم یافتہ تھا ۔ کماتا بھی زیادہ تھا اور دولتمند خاندان سے تعلق تھا ۔ جب دباؤ بہت بڑھ گیا تو میری خالہ نے اپنی بیٹی سے بات کی جس نے کہا ”اب میں صرف اجمل سے شادی کروں گی“۔ شادی کے کئی سال بعد مجھے بیوی کے بڑے بھائی نے بتایا ”جس آدمی کی تم تعریف کر رہے ہو اس نے تمہاری منگنی کے بعد مجھے خط لکھا تھا کہ آرڈننس کلب میں شراب ملتی ہے اور اجمل بھی اس کا ممبر ہے“۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ میری ہی تحریک پر 1966ء میں آرڈننس کلب میں شراب کی فروخت بند ہوئی تھی

نومبر 1967ء میں شادی ہو گئی لیکن ابلیس نے پیچھا نہ چھوڑا ۔ شادی کے چند ماہ بعد میں بیوی کو ایک ماہ کیلئے خالہ کے پاس چھوڑ آیا جیسا کہ ہمارے خاندانوں میں رواج تھا ۔ 2 ہفتے بعد بیوی اپنے بڑے بھائی کے ساتھ واپس پہنچ گئی ۔ مجھے حیرانی کے ساتھ پریشانی بھی ہوئی ۔ جب بھائی چلے گئے تو میں نے کہا ”آپ نے تو ایک ماہ رہنے کا کہا تھا ۔ خیریت تو ہے نا“۔ بولی ”اب پہلے والی بات نہیں ۔ میں اب آپ کے بغیر نہیں رہ سکتی“۔ میں خاموش ہو گیا ۔ کچھ دن بعد خود ہی بتایا ”دوسرے ہفتے کے آخر میں کچھ قریبی رشتہ دار اکٹھے ہوئے اور میری مظلومیت اور آپ کی زیادتیوں پر باتیں ہوئیں ۔ میں کمرے میں سب سُن رہی تھی ۔ پھر ایک رشتہ دار نے فیصلہ دے دیا کہ طلاق لے لی جائے ۔ کچھ دیر بعد امی یہ کہہ کر کمرے میں آئیں کہ جس کا معاملہ ہے میں اُس سے تو پوچھ لُوں ۔ میری مرضی پوچھی ۔ میں نے کہا میں اپنے گھر میں بہت خوش ہوں ۔ میں واپس جانا چاہتی ہوں ۔ مجھے بھائیجان کل صبح واپس چھوڑ آئیں“۔

میری خالہ شروع سے ہی میرا بہت خیال رکھتی تھیں ۔ ناجانے منگنی سے قبل کیسے دھوکہ کھا گئیں لیکن اُس کے بعد اُنہوں نے بہت سمجھداری سے کام لیا اور میرا خیال بھی بہت رکھا

یہ تو کرم ہے میرے اللہ کا ۔ مجھ میں ایسی کوئی بات نہیں ہے

میں بیوقوف بن گیا

جی ہاں ۔ میں واقعی بیوقوف بن گیا ۔ اور لکھ اِس لئے رہا ہوں کہ آپ ہوشیار ہو جائیں اور میری طرح بیوقوف نہ بنیں ۔ ویسے میں اِتنا بیوقوف نہیں جتنا آپ اب سمجھنے کی کوشش کرنے لگے ہیں ۔ بس ہاتھ ہو گیا میرے ساتھ

بیگم پیچھے لگیں تھیں کہ موسمِ سرما کیلئے ایک اور شلوار قمیض لے لو ۔ بنی بنائی میری پسند کی مل نہیں رہی تھی ۔ 24 دسمبر 2014ء کو میں کلثوم ہسپتال ۔ بلیو ایریا گیا ہوا تھا تو بیگم نے ٹیلیفون پر کہا ”سُنا ہے بلیو ایریا میں ثناء سوٹنگ اینڈ ڈریس میکرز بہت اچھی دکان ہے ۔ وہیں سے کپڑا خرید لاؤ“۔ اپنا خیال مرکز جی 9 المعروف کراچی کمپنی جانے کا تھا لیکن سرتابی کی جراءت نہ ہوئی ۔ چنانچہ ثناء سوٹنگ اینڈ ڈریس میکرز ۔ دکان نمبر 8۔9 چوہدری پلازہ بلیو ایئریا پہنچا اور کہا شلوار قمیض کیلئے اچھا اُونی کپڑا چاہیئے

پتھاریدار یا چھوٹی دکان ہو تو آدمی خریدنے سے قبل بڑے غور سے پرکھتا ہے ۔ اتنی بڑی دکان اور وہ بھی بلیو ایریا میں اور میں پینڈو ۔ اُس نے اُنہی سے سلوانے پر زور دیا ۔ وہ 1000 روپیہ سلائی لیتے ہیں اور محلے والا 600 روپیہ ۔ سوچا اتنا مہنگا کپڑا لیا ہے کہیں محلے والا درزی خراب نہ کر دے ۔ چنانچہ مان لیا اس شرط پر کہ سِلنے کے بعد گھر پہنچایا جائے گا ۔ یکم جنوری 2015ء کو پہنچانے کا وعدہ تھا لیکن نہ پہنچا ۔ 2 بار ٹیلیفون کرنے پر 2 جنوری جمعہ کے دن پہنچایا جب میں نماز پڑھنے گیا ہوا تھا۔ بیگم نے پیسے دے کر وصول کر لیا

میں گھر پہنچا تو دیکھا کہ کپڑا اُونی نہیں بلکہ نائلون قسم کا ہے اور اتنا گرم بھی نہیں ۔ اب معلوم نہیں اُس نے مجھے اُونی دکھایا اور سِلنے کیلئے کوئی اور دے دیا یا میری نظر بڑی دکان دیکھ کر اتنی چکاچوند ہو گئی تھی یعنی میں ہپنوٹائز ہو گیا تھا اور نائلون بھی مجھے بڑھیا اُون دکھائی دی

میرے ساتھ جو ہونا تھا ہو گیا ۔ کہتے ہیں ہمسایہ ماں جایہ ۔ مجھے شاید محلے والے درزی کا حق مارنے کی سزا ملی ہے
میری قارئین سے درخواست ہے کہ ثناء سوٹنگ اینڈ ڈریس میکرز ہو یا کوئی اور بڑی سے بڑی دکان ۔ دکاندار کی پیاری گفتگو کو نظر انداز کرتے ہوئے اچھی طرح دیکھ بھال کر کے چیز خریدیئے

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ گفتار یا عمل ؟

کل کو اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی آپ سے یہ نہیں پوچھے گا کہ

تم نے کیا خواب دیکھے تھے ؟
تم کیا سوچتے تھے ؟
تمہارے منصوبے کیا تھے ؟
تم نے کتنا بچا کر جمع کیا ؟
تم کیا پرچار کرتے رہے ؟

بلکہ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی یہ پوچھے گا کہ
تم نے قرآن پر کتنا عمل کیا ؟
تم نے حقدار کو اُس کا حق پہنچایا ؟
تمہارا دوسروں سے سلوک کیسا تھا ؟

Having sat for many years across many tables from many of the ‘folks’ the US tortured in the global ‘war on terror,’ men like Murat Kurnaz and Mohammed al-Qatani, and having heard first-hand their stories of being beaten, hung from ceilings, sexually assaulted, exposed to extreme temperatures, deprived of sleep, and subjected to numerous other brutal acts, my colleagues and I at the Center for Constitutional Rights can assure you: the important thing about the torture report is not just what we learn from it — it is what we do about it.

مکمل یہاں کلک کر کے پڑھیئے ” Preventing Torture “

میری ذات

میں ذات پات کی بات کرنے نہیں جا رہا ۔ میرا موضوع ہے ”میں خود“۔

نوکیلے پتھروں پہ چل کے کانٹوں میں راہ بناؤ
یہ تیری زندگی ہے اجمل ۔ خیاباں نہیں ہے

میں نے 1947ء سے 1994ء تک کی اپنی زندگی کو چند الفاظ میں اُوپر لکھ دیا ہے ۔ نوکیلے پتھروں اور کانٹوں کی کچھ جھلکیاں مندرجہ ذیل عنوانات کے تحت سپُردِ قلم کر چکا ہوں ۔ بلاگ کے حوالے سے ہونے والی گفتگو کی جھلک آج کی تحریر میں ملے گی اور میری عادات اور بچپن میں میرے معمولاتِ زندگی کا مختصر ذکر بھی موجود ہے
جو واقعات باقی ہیں اُن میں سے کچھ تو اسی طرح کے ہیں اور کچھ کو یاد کر کے میں اپنے لئے کرب کے لمحات پھر زندہ نہیں کرنا چاہتا ۔ اسلئے ان کا لکھنا مناسب نہیں

(1) وفاداری کس سے ؟ (2) سینے پر مُونگ (3) گفتار و کردار (4) گھر کی مُرغی (5) بابائے مشین گن (6) باس (7) میں چور (8) کہانی کیا تھی (9) لبیا اور یو اے ای کیسے گیا ؟ (10) مٹیریئل کہاں سے آتا ہے (11) کرے کوئی بھرے کوئی (12) پیٹھ میں چھُرا گھوپنا
1947ء کے واقعات بھی مختصر یہاں لکھے ہیں
(1) میرا بچپن (2) قتلِ عام کی ابتداء (3) میری ہتھیلیاں کانٹوں سے چھلنی (4) 6 نومبر کا قتلِ عام

میری کچھ عادات کے سبب شاید مجھے اجنبی مخلوق سمجھا جائے

میں نے کبھی کسی کو گالی نہیں دی
زندگی میں صرف ایک بار ایک لڑکے سے لڑائی ہوئی وہ بھی اسلئے کہ وہ میرے گلے پڑ گیا تھا
میں نے گلی میں کھیلنا یا کھڑے رہنا یا پُلی پر بیٹھنا کبھی پسند نہ کیا
بنٹے (گولیاں یا ماربلز) اور اخروٹ میں نے کبھی نہیں کھیلے
2 بار پتنگ اُڑائی ایک بار پاکستان بننے سے قبل اور ایک بار پاکستان بننے کے بعد
شاید 2 درجن بار پِٹھو گرم اور گلی ڈنڈا کھیلا ہو گا مگر میدان میں ۔ گلی میں نہیں
پاکستان بننے سے قبل ہمارے گھر کے سامنے ۔ داہنے اور بائیں مکانوں میں میرے علاوہ صرف ایک لڑکا تھا باقی سب لڑکیاں تھیں ۔ دوسرا لڑکا جو مجھ سے 4 سال بڑا تھا روندچی تھا اسلئے لڑکیاں صرف مجھے اپنے ساتھ کھلاتی تھیں چنانچہ میں رسی ٹاپنے کا ماہر ہو گیا تھا اور لڑکیوں والی دوسری کھیلیں بھی اچھی کھیل لیتا تھا اور ہاں شٹاپُو بہت کھیلا ۔ لڑکیوں میں 2 میری بڑی بہنیں 2 رشتہ دار اور5 محلہ دار تھیں جن میں 3 میری ہم عمر باقی بڑی تھیں ۔ میں لڑکیوں کا احترام کرتا تھا جو سکول اور کالج کے زمانہ اور بعد میں بھی جاری رہا ۔ ساری عمر اپنی سگی اور پھوپھی زاد بہنوں کے علاوہ باقیوں سے فاصلہ رکھا اور کبھی بے تکلف نہ ہوا ۔ پھوپھی زاد بہنیں میرے بچپن میں ہمارے گھر ہی میں رہتی تھیں کیونکہ میری پھوپھو فوت ہو گئی تھیں

بچپن میں معمولات
شروع 1950ء سے ستمبر 1956ء تک جب میں تعلیم کے سلسلہ میں لاہور چلا گیا میرے معمولات یہ تھے

1 ۔ جون 1955ء کو وفات تک روزانہ بعد دوپہر اور رات کو دادا جان کے بازو کندھے اور ٹانگیں سہلانا (اس عمل کو دبانا بھی کہتے ہیں)
2 ۔ روزانہ شام کو والد صاحب کے بازو کندھے اور ٹانگیں سہلانا
3 ۔ روزانہ صبح سویرے والد صاحب کا بائیسائکل صاف کرنا
4 ۔ ہفتہ میں تین یا چار بار اپنے اور والد صاحب و بہن بھائیوں کے جوتے پالش کرنا
5 ۔ ہفتہ میں ایک بار اپنے اور والد صاحب و بھائیوں کے کپڑے استری کرنا
6 ۔ ہفتے میں 2 بار پیدل جا کر سبزی منڈی (گھر سے ڈیڑھ کلومیٹر) سے سبزی اور فروٹ منڈی (گھر سے 3 کلو میٹر) سے پھل لانا
7 ۔ ہر ماہ پیدل جا کر دالگراں بازار (گھر سے 2 کلو میٹر) سے مختلف قسم کی دالیں لانا اور راشن ڈپو (قرب ناز سنیما) سے چینی لانا
8 ۔ گرمیوں میں روزانہ شام کو 4 چارپائیاں چھت پر چڑھانا اور اگلی صبح نیچے اُتارنا
9 ۔ گیارہویں جماعت میں داخل ہونے تک روزانہ دوپہر کو سکول سے آ کر اپنا اور والد صاحب کا کھانا لے کر نرنکاری بازار (گھر سے ڈیڑھ کلومیٹر) جانا اور وہیں دوپہر کا کھانا کھانا

دوسرے معمولات
سکول میں آدھی چھٹی کے وقت سکول کا کام کر لیتا تھا اور جو باقی بچتا چھُٹی کے بعد سڑک کے کنارے پتھر پر بیٹھ کر کر لیتا پھر گھر جاتا ۔ بارہویں پاس کرنے تک رات کو عشاء کی نماز کے بعد سو جایا کرتا تھا اور صبح پَو پھٹتے ہی اُٹھ جاتا ۔ اُٹھتے ہی گھر (جھنگی محلہ) سے چل پڑتا ۔ ساتھ والے محلہ (سید پوری گیٹ) سے میرا ہمجماعت اور دوست رشید بنی چوک سے قبل ہی مل جاتا ۔ ہم دونوں عید گاہ قبرستان کے قریب جاتے (فاصلہ 2 کلو میٹر)۔ رشید پھلائی کے درخت سے ایک ٹہنی کاٹ کر اس کی 2 مِسواک بناتا اور ہم دونوں دانت صاف کرتے گھروں کو واپس پہنچتے ۔ واپس آ کر میں نہاتا اور مسجد جا کر فجر کی نماز پڑھتا ۔ پھر پڑھنے بیٹھ جاتا ۔ جب ناشتہ تیار ہوتا تو ناشتہ کر کے کپڑے تبدیل کرتا اور سکول یا کالج کو چل دیتا
میں 2010ء تک دن میں بالکل نہیں سوتا تھا

اللہ کریم نے اتنا اچھا ذہن عطا کیا تھا کہ جو میں ایک بار یاد کر لیتا اُسے دوبارہ یاد کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی ۔ میں رَٹا نہیں لگا سکتا تھا ۔ میرا یاد کرنے کا طریقہ یہ تھا کہ کتاب سے ایک بار غور سے پڑھتا پھر کتاب بند کر کے اُسے لکھنا شروع کر دیتا ۔ لکھنے کے بعد کتاب سے موازنہ کرتا ۔ جہاں غلطی ہوتی اُسے پھر سے پڑھتا اور ذہن میں دہراتا ۔ پھر لکھنے بیٹھ جاتا ۔ زیادہ سے زیادہ 3 بار لکھنا پڑتا ۔ اس کیلئے میں نیا کاغذ استعمال نہیں کرتا تھا بلکہ رَدّی کی دکان سے سفید کاغذ جن کے ایک طرف لکھا ہو چھانٹی کر کے لے آتا اور یہ لکھائی اُن پر کرتا تھا۔ حساب ۔ جیومیٹری اور الجبرا کے سوال حل کرتے رہنا تو میرا شوقیہ کھیل تھا ۔ سکول میں ہمارے اساتذہ صاحبان نے میرا نام الجبراء دان رکھا ہوا تھا

جب میں پیدل یا بائیسائکل پر سودا سلف لینے یا کسی اور کام سے نکلتا تو راستہ میں اُس دن اسکول میں پڑھا ہوا سبق زبانی دہرا لیتا ۔ میری نظریں سڑک یا گلی کے ساتھ ساتھ دونوں اطراف لگے بورڈوں پر بھی ہوتیں ۔ مجھے یاد رہتا کہ کونسا بورڈ کہاں دیکھا تھا چنانچہ واقف لوگ مجھ سے پوچھا کرتے تھے فلاں دکان یا دفتر کس جگہ ہے

میں نے سکول کے زمانہ میں گرمیوں کی چھٹیوں میں فرسٹ ایڈ ۔ ہوائی حملہ سے بچاؤ اور آگ بجھانے کا ایک ایک اور معلوماتِ عامہ کے 3 امتحان پاس کئے
میں آٹھویں جماعت میں تھا کہ والد صاحب نے انگریزی رسالہ ریڈرز ڈائجسٹ سالانہ کی بنیاد پر لگوا دیا جو میرے بارہویں پاس کر کے انجنیئرنگ کالج لاہور جانے تک جاری رہا ۔ میں اسے پورا پڑھ ڈالتا ۔ اس میں مجھے How to increase your word power بہت پسند تھا ۔ اسے پڑھ کر میں اپنا امتحان لیا کرتا تھا.
میری بڑی بہن ایک کتاب لائیں جس کا موضوع تھا How to increase your will power میں نے ساری پڑھ ڈالی. اس میں اپنے اوپر کرنے والی مشقیں ہوتی تھیں جو میں بڑے شوق سے کرتا ۔ ان میں آسان سی 2 یہ تھیں
1 ۔ ایک سٹول صحن یا کمرے کے درمیان میں رکھ اس پر ایک ٹانگ کے سہارے کھڑے ہو جاؤ ۔ بے شک گھر کے لوگ گذرتے اور مذاق اُڑاتے رہیں 10 منٹ اُسی طرح کھڑے رہو
2 ۔ بھری ہوئی ماچس کی ڈبیہ کھول کر ساری تیلیاں اس طرح پھینکو کہ بکھر جائیں پھر ایک ایک تیلی اُٹھا کر ڈبیہ میں سیدھی ساتھ ساتھ قرینے سے رکھتے جاؤ ۔ جب سب تیلیاں رکھ چکو تو پھر اُسی طرح ڈبیہ اُنڈیل دو اور اُسی طرح واپس رکھو ۔ یہ عمل تیسری بار بھی کرو ۔ اُس زمانہ میں ماچس کی ڈبیہ میں 52 تیلیاں ہوا کرتی تھیں

سکول کے دنوں میں چند ماہ شام کو ہاکی کھیلی اور گیارہویں بارہویں کے دوران شام کو باسکٹ بال ۔ بارہویں جماعت تک میں جمناسٹک بھی کیا کرتا تھا ۔ انجنیئرنگ کالج ہوسٹل میں جب پڑھائی سے وقت ملتا ٹیبل ٹینس یا بیڈ منٹن کھیلتا
نویں جماعت میں تھا تو چند ہمجماعت لڑکے مقابلہ کرتے تھے کہ کرسی کی اگلی ٹانگ زمین کے قریب سے پکڑ کر کرسی سیدھی اُوپر اُٹھائی جائے ۔ میں نے اس کی مشق کی اور بازو والی بڑی کرسی بھی اُٹھانے لگا ۔ یہ کرسیاں شیشم (ٹاہلی) کی بنی ہوتی تھیں جو بہت وزنی ہوتی تھیں
جب میں دسویں میں تھا تو ہاتھ زمین پر رکھ کر اپنی چھوٹی بہن جو 4 سال کی تھی کو کہتا ”میری ہتھیلی پر کھڑی ہو جاؤ اور بالکل سیدھی کھڑی رہنا“۔ وہ کھڑی ہو جاتی اور میں اُوپر اُٹھاتا اور اپنا بازو سیدھا رکھتے ہوئے اپنے کندھے کی سطح تک ہاتھ لے جاتا اور 5 منٹ اسی طرح کھڑا رہتا ۔ ہوتے ہوتے ایک سال بعد میں اپنی اس 5 سالہ بہن کو داہنی ہتھیلی پر اور 3 سالہ بھائی کو بائیں ہتھیلی پر کھڑا کر کے بازو سیدھے رکھتے ہوئے دونوں ہاتھ اکٹھے اُٹھا کر کندھوں کی سطح پر لے جاتا
گھر میں جب کوئی ساتھ کھیلنے والا مل جاتا بیڈمنٹن یا لُڈو یا سانپ سیڑھی کھیل لیتا
سماجی اور بہبود کے کاموں میں حصہ لینا میں نے سکول سے لے کر اب تک اپنا فرض جانا اور حتی الوسعت ان میں حصہ لیا

میں نے جو کچھ 1947ء میں دیکھا اُس نے بہت چھوٹی عمر میں مجھ میں سوچنے ۔ سمجھنے اور باتیں کرنے سے زیادہ عمل پیرا ہونے کی عادت ڈال دی تھی ۔ میرا نظریہ رہا کہ دوسرے مجھ سے زیادہ مُشکلات میں گھِرے ہو سکتے ہیں اسلئے میں نے دوسروں کو مشکل میں ڈالنے کی بجائے ہمیشہ اُن کی مدد کرنے کا سوچا ۔ اسی سوچ کے تحت میں نے اپنی تکلیف اور مُشکلات کا عِلم شادی سے قبل والدین یا کسی بہن بھائی کو نہ ہونے دیا اور شادی کے بعد بیوی اور بچوں سے دُور رکھا

میرے اللہ کا مجھ پر بہت کرم رہا کہ میں انتہائی تکلیف یا ذہنی کرب میں بھی ہوتا اور کوئی حال پوچھتا تو میرا جواب ہوتا ”الحمدللہ ۔ میں ٹھیک ہوں“۔ صرف ایک واقعہ رقم کرتا ہوں ۔ دسمبر 1964ء میں ایک دوائی کا ردِ عمل ہوا اور میرے گردوں میں سے خون بہنا شروع ہو گیا ۔ عِلم اُس وقت ہوا جب جسم کا آدھا خون بہہ گیا تھا یعنی ہیموگلوبن 6.9 رہ گئی تھی ۔ ہسپتال میں 3 دن بیہوش رہنے کے بعد آنکھیں کھولیں ۔ ہاتھ اُٹھانے کی کوشش کی نہیں اُٹھا ۔ سر ہلانے کی کوشش کی مگر بے سُود ۔ اتنے میں ایک ڈاکٹر صاحب کمرے میں داخل ہوئے ۔ ہوش میں دیکھ کر پوچھا ”کیسی طبیعت ہے ؟“ اللہ سُبحانُہُ و تعالیٰ نے مجھ سے کہلوایا ”الحمدللہ ۔ ٹھیک ہوں“۔

میں نے بی ایس سی انجنیئرنگ پاس کرنے کے بعد دسمبر 1962ء میں ملازمت شروع کی ۔ پہلے 5 ماہ صافی تنخواہ 456 روپے تھی جس میں سے 16 روپے رکھ کر باقی والد صاحب کو دیتا رہا ۔ اس کے بعد ایک سال صافی تنخواہ 500 روپے تھی جس میں سے 30 روپے رکھ کر باقی والد صاحب کو دیتا رہا ۔ پھر 6 ماہ صافی تنخواہ 550 روپے تھی جس میں سے 30 روپے رکھ کر باقی والد صاحب کو دیتا رہا ۔ نومبر 1964ء میں صافی تنخواہ 650 روپے ہو گئی جو بڑھتے بڑھتے نومبر1967ء میں 800 روپے ہو گئی جس میں سے 30 روپے رکھ کر باقی والد صاحب کو دیتا رہا ۔ یہ 16 یا 30 روپے دفتر جانے آنے کیلئے بس کا کرایہ اور دفتر میں ایک پیالی چائے پینے کیلئے تھے ۔ یہ عمل جنوری 1968ء تک جاری رہا پھر میں بیوی سمیت واہ منتقل ہو گیا اور دسمبر 1971ء تک صافی تنخواہ کا 30 سے 50 فیصد والد صاحب کو دیتا ریا ۔ 1972ء میں اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں تیز رفتاری سے بڑھنے لگیں ۔ 1972ء کے آخر حال یہ ہوا کہ پیاز جو 1971ء میں ایک روپے کے 2 کلو گرام ملتے تھے وہ 5 روپے کا ایک کلو گرام ہو گئے اس وقت تک میں 2 بچوں کا باپ بن چکا تھا اسلئے کوشش کر کے جو بھی بچا پاتے والد صاحب کو دے دیتا ۔ 1984ء تک مالی اور کچھ دوسری ذمہ داریاں مجھ پر رہیں

کوئی نہیں جانتا کہ جب میں انجنیئرنگ کالج لاہور میں آخری سال میں تھا اور والد صاحب کی مالی حالت خراب ہو گئی تھی تو کئی ماہ میں نے صرف ایک وقت کھانا کھایا اور ناشتے میں سوکھی ڈبل روٹی کھا کر اللہ کا شکر ادا کرتا رہا ۔ میرے چھوٹے 5 بہن بھائی زیرِ تعلیم تھے ۔ 1965ء میں میرے سوا تین سال چھوٹے بھائی نے شادی کرنے کیلئے بے قراری دکھائی تو 14 اگست 1965ء کو ہم دونوں کی منگنی کر دی گئی لیکن بوجوہ دونوں کی شادی نومبر 1967ء میں ہوئی ۔ میں 7 دسمبر 1970ء کو باپ بنا جبکہ میرا چھوٹا بھائی ساڑھے پانچ ماہ قبل 2 بچوں کا باپ بن چکا تھا ۔ چھوٹا بھائی برسرِ روزگار نہ تھا اسلئے کچھ سال والدین کے اخراجات میں اضافہ کا باعث بنا رہا ۔

سوائے میری بیوی کے کوئی نہیں جانتا کہ وسط 1974ء سے اوائل 1976ء تک ہم صرف سبزی اور دالوں پر گذارا کرتے رہے ۔ گوشت کبھی کبھار دل کی تسلی کیلئے پکا لیتے اور اپنے 2 ننھے بچوں کو دن میں ایک ایک پیالی دودھ پلاتے رہے

1973ءمیں اپنے ماتحت بے قصور ملازمین کی مدد کرنے کی پاداش میں مجھ پر سخت وقت آیا ۔ ایسے وقت میری بیوی نے میرے ساتھ مرنے کا فیصلہ دے دیا تھا جس سے مجھے تقویت ملی تھی ۔ میں عملی زندگی میں کِن مشکلات سے جنگ کرتا رہا ۔ میرے عزیز و اقارب میں سے کسی کے عِلم میں نہیں تھا ۔ پچھلے 2 سال کے دوران جس نے میرے بلاگ کو باقاعدگی سے پڑھا ہو گا اُس کے علم میں کچھ واقعات آئے ہوں گے

میں نے اُردو میں یہ بلاگ 5 مئی 2005ء کو شروع کیا ۔ جب میرا بلاگ زیادہ پڑھا جانے لگا تو گاہے بگاہے قارئین ذاتی کوائف اور حالات لکھنے کی فرمائش کرنا شروع ہوئے ۔ میں اُنہیں مطمئن کرنے کی کوشش کرتا رہا ۔ وہ بھی شرافت کے باعث چُپ ہو جاتے رہے ۔ 6 سال یونہی گذر جانے کے بعد ایک صاحب نے دلائل پیش کئے جو میری کمزوری ہے ۔ چنانچہ میں ہار گیا اور ملازمت میں اپنے تجربات لکھنا شروع کئے ۔ آخر ذاتی معاملات کی باری آئی جو بچوں سے شروع کئے اور بالآخر آج میری ذات کی باری آ گئی

اس بلاگ کے پونے 10 سالہ سفر میں مجھے کچھ قارئین سے ذاتی تنقید کے علاوہ تُند و تیز اور بعض اوقات زہر آلود باتیں بھی سُننا پڑیں ۔ سب سے بے ضرر فقرے اس قسم کے تھے
”بُوڑھے ہو کر سب پارسا ہو جاتے ہیں“۔
یا
”آپ جوانی میں بھی ایسے ہی تھے یا کہ بُوڑھے ہو کر نصیحتیں شروع کر دی ہیں ؟“
چند ایک نے مجھے منافق کہا ۔ ایک دو صاحبان نے میرے آباؤ اجداد کو بھی نہ بخشا جو اس دنیا سے کُوچ کر چُکے تھے
زندگی کے نشیب و فراز تو ایک طرف ۔ لوگ کسی طور جینے نہیں دیتے
جب میں خاموش بیٹھ کر سب کی باتیں سُنتا رہتا تو کہا جاتا ”بولنے پر اس کے پیسے لگتے ہیں“ یا ”یہ مغرور ہے دوسروں کو اس قابل نہیں سمجھتا“۔
جب بولتا تو سُننا پڑتا ”یہ تو یونہی بولتا رہتا ہے” یا ”یہ تو ہے ہی بیوقوف“۔
ایک سیدھی سادھی خاتون تھیں جو مجھے اچھا سمجھتی تھیں اور جانتی تھیں کہ میں سچ بولتا ہوں ۔ ایک دن میں اُن کے ہاں گیا ہوا تھا ۔ سچ بولنے کے نتیجہ میں مجھے نقصان پہنچا تھا جس کا عِلم اُنہیں ہو گیا تھا مگر میرے منہ سے سننا چاہتیں تھیں ۔ میں نے کہا ”میں جھوٹ کیسے بولتا“۔ بولیں ”ایسا بھی کیا سچ بولنا کہ آدمی اپنا نقصان کر لے“۔

بچے پیار کے ہوتے ہیں اور پیار سے ہی سیکھتے ہیں ۔ مار پٹائی بچوں کی تخلیقی قابلیت پر بُرا اثر ڈالتی ہے ۔ میں نے اللہ کے فضل سے اپنے تینوں بچے پیار اور حوصلہ افزائی سے پالے اور اُن کی ماں (جو اُن کی محبت میں سب کچھ قربان کرنے کو تیار رہتی ہے) نے اُن سے بے جا لاڈ نہیں کیا ۔ اللہ قادر و کریم نے اپنا فضل کیا اور بغیر کسی ٹیوشن یا والدین کی مدد کے ماشاء اللہ تینوں بچے عام تعلیمی اداروں میں پڑھ کر تعلیم میں اچھے رہے اور عملی زندگی میں بھی خود مختار ہیں یعنی والدین یا کسی اور انسان کی طرف سے کوئی سہارا ۔ ٹیک ۔آڑ ۔ آسرا وغیرہ نہ تلاش کیا اور نہ لیا ۔ صرف اتنا پوچھ لیتے ”ابو ۔ یہ کر لوں ؟“

مندرجہ ذیل عِلّتیں یا بُری عادات بچپن ہی میں میرا وطیرہ بن گئی تھیں اور آج تک میرا پیچھا نہیں چھوڑا ۔ زندگی بھر اِن کی وجہ سے میں نے بہت سے لوگوں کو ناراض کیا
1 ۔ جھوٹ نہ بولنا
2 ۔ منافقت سے بچنا
3 ۔ دوسرے کی زیادتی بھُلا دینا
4 ۔ اپنی پرواہ کئے بغیر دوسروں کی مدد کرنا
5 ۔ جو مِل جائے اُس پر مطمئن رہنا

اللہ مجھ پر بہت مہربان رہا ۔ سکول ۔ کالج (گیارہویں بارہویں) اور انجنیئرنگ کالج سب جگہ اساتذہ اور طلباء مجھ پر اعتماد کرتے تھے ۔ اساتذہ خاص بات یہ کہہ کر مجھ سے پوچھتے کہ یہ سچ بتائے گا ۔ لڑکے اپنے پیسے محفوظ کرنے کیلئے میرے پاس رکھتے ۔ کچھ لڑکے اپنے راز مجھے بتا کر میرا مشورہ مانگتے ۔ مشورے تو آج تک مجھ سے لئے جاتے ہیں

اللہ کریم نے بیوی ایسی دی کہ ہر دم اور ہر حال میں میرا ساتھ دیا اور مجھے گرنے نہیں دیا
اللہ کی کرم نوازی کہ میرے تینوں بچے سوائے فیسوں اور کتابوں وغیرہ کے اخراجات کے ، مجھ پر بوجھ نہ رہے اور ماشاء اللہ اب ہماری خدمت کے ساتھ سیر و تفریح اور اخراجات کا بھی خیال رکھتے ہیں ۔ اللہ بے نیاز ہے جس پر جتنا چاہے کرم کر دے ۔ اللہ نے یہ کرم بھی فرمایا تھا کہ
ہماری شادی ہوئے 7 سال گذر چکے تھے ۔ میری بیگم نے اس دوران ایک کپڑا بھی نہ خریدا تھا ۔ 1974ء کے آخر میں میں نے کہا ”میرے ساتھ چلیں اور اپنی پسند کا ایک دو جوڑے کا کپڑا لے لیں“۔ بولی ”رہنے دیں ۔ شادی کے دنوں والے کپڑے زیادہ نہیں پہنے ۔ کہیں جانا ہوا تو وہ پہن لوں گی“۔
میرا چھوٹا بیٹا فوزی وسط 1984ء میں چوتھی جماعت میں تھا ۔ اس کے کپڑے پرانے ہو گئے تھے ۔ میں نے کہا ” چلو بیٹا ۔ آپ کو نئے کپڑے لے دوں“۔
بولا ”زکریا بھائی کے جو کپڑے چھوٹے ہو گئے ہیں وہ میں پہن لوں گا“۔
بڑا بیٹا زکریا وسط 1986ء میں دسویں جماعت میں تھا ۔ اس کی پتلون چھوٹی ہو کر ٹخنوں سے اُوپر چلی گئی تھی ۔ میں نے کہا ”بیٹے ۔ میرے ساتھ چلو ۔ نئی پتلون لے دوں“۔
زکریا بولا ”ابو جی ۔ رہنے دیں ۔ گذارہ ہو رہا ہے“۔
ہر بار اللہ کے تشکّر میں میرے آنسو ٹپک پڑے

اللہ کریم نے مجھے قدم قدم پر سہارا دیئے رکھا ۔ میں اپنے آپ کو بہت خوش نصیب سمجھتا ہوں ۔ میری بیوی ۔ بچے میرا قیمتی سرمایہ ہیں اور بہن بھائی بھی بہت خیال رکھتے ہیں

اس تحریر کے بعد یوں محسوس ہو رہا ہے کہ میری زندگی کا سرمایہ لُٹ گیا ہے اور میں بے مایہ ہو گیا ہوں
اللہ کریم میری غلطیاں معاف فرمائے