نیا چاند ۔ حدیث ۔ سائنس اور ہمارے دعوے

ایک قابلِ اعتماد ویب سائٹ ہے جو سائنس کے اصولوں کے مطابق نظامِ شمسی کا مطالعہ اور حساب و قیاس (deductions / calculations) رکھتی ہے اور بتاتی ہے کہ کس علاقہ میں نیا چاند کب اور کتنا نظر آئے گا اور کس وقت اس کا کتنا حصہ نظر آئے گا ۔ میں اس کے نتائج کو کئی سالوں سے بار ہا دیکھتا اور پرکھتا آ رہا ہوں ۔ کئی بار اس کا موازنہ یا تصدیق دوسرے ایسے اداروں کے حسابات سے بھی کی اور اس کے جوابات کو درست پایا ۔ امسال بھی ہمیشہ کی طرح میں نے عید الفطر سے 4 روز قبل پاکستان کے بڑے شہروں کے علاوہ دہلی (بھارت)۔ ڈھاکہ (بنگلہ دیش)۔ جکارتہ (انڈونیشیا)۔ ٹوکیو (جاپان)۔ کابل (افغانستان)۔ تہران (ایران)۔ دبئی (متحدہ عرب امارات)۔ جدہ (سعودی عرب)۔ قاہرہ (مصر)۔ انقرہ (ترکی)۔ لندن (برطانیہ)۔ نیویارک (امریکہ)۔ اٹلانٹا جارجیا (امریکہ) میں صورتِ حال کا مطالعہ کیا اور مختصر نتیجہ میں نے عیدالفطر سے قبل شائع کر دیا

خاور کھوکھر صاحب جو جاپان میں رہتے ہیں نے 19 اگست کو لکھا کہ “یہاں آج عید ہے“۔ اس پر میں نے اسی وقت کمپوٹر چالو کیا اور متذکرہ ویب سائٹ کھولی ۔ وہاں 18 اگست 2012ء کیلئے اب بھی لکھا ہے
Waxing Crescent, 0% of the Moon is Illuminated (بڑھتے چاند کا صفر فیصد حصہ روشن ہے) مطلب یہ کہ چاند نظر نہیں آئے گا

سوال یہ ہے کہ جب جاپان میں 18 اگست 2012ء کو چاند کا وہ حصہ جو جاپان کی طرف ہے وہ پورے کا پورا اندھیرے میں ہے یعنی اس پر سورج کی روشنی پڑ ہی نہیں رہی تو جاپان میں کس نے اور کیسے چاند دیکھا ؟ جس کے نتیجہ میں عیدالفطر 19 اگست کو منائی

18 اگست 2012ء کو ہمارے ملک کی صورتِ حال یہ ہے کہ 18 اگست 2012ء کو پورے پاکستان کی طرف چاند کا وہ حصہ نہیں ہونا تھا جس پر اُس وقت سورج کی روشنی پڑ رہی چنانچہ 18 اگست کو تو چاند نظر نہیں آیا تھا ۔ اگلے روز جب چاند 3 فیصد نظر آیا تو وہ بھی 6 بج کر 55 منٹ پر غروب ہو گیا تھا ۔ تو رات ساڑھے 9 بجے کیسے صوبہ خیبر پختونخوا کی روئتِ ہلال کمیٹی نے اعلان کیا کہ ” مرکزی کمیٹی نے بہت پہلے کہہ دیا کہ پورے پاکستان میں کہیں چاند نظر نہیں آیا ۔ ہمارے پاس 23 شہادتیں پہنچی ہیں”۔حقیقت کے خلاف فرض کر لیتے ہیں کہ چاند نظر آیا تھا تو پھر اطلاع صوبائی روئتِ ہلال کمیٹی تک پہنچنے میں ڈھائی گھنٹے کیوں لگے ؟ آجکل تو پاکستان میں بڑے کیا بچوں کے ہاتھ میں بھی موبائل فون پکڑے ہوئے ہیں ۔ کمال در کمال یہ ہے کہ خیبر پختونخوا کے ایک علاقہ میں عیدالفطر 18 اگست 2012ء کو منائی گئی ۔ اب اس پر کوئی کیا کہے

حدیث کے مطابق قمری مہینہ مغرب کے وقت یعنی غروبِ آفتاب کے فوری بعد نیا چاند نظر آنے پر نیا مہینہ شروع ہوتا ہے ۔ یہ کہیں نہیں لکھا کہ چاند دیکھنے کیلئے صرف انسانی آنکھ استعمال کی جائے چنانچہ اچھی سے اچھی اور بڑی سے بڑی دُوربین استعمال کی جا سکتی ہے اور کی بھی جاتی ہیں

سائنس کا طریقہ جس کے حوالے سے میرے کچھ ہموطن شور کرتے رہتے ہیں وہ تحلیلی اسلوب (analytical calculations) پر مبنی ہے اور ریاضی (mathematics) کے ذریعہ اخذ (derive) کیا جاتا ہے ۔ میں نے اعلٰی ریاضی (advanced mathematics) کی جو دو جماعتیں پڑھ رکھی ہیں ان کے حوالے سے کہہ سکتا ہوں کے جہاں حاصل جواب سیدھا سادا نہ ہو وہاں فربت یا مشابہت (approximation) درست تصوّر کی جاتی ہے جس میں عملی حقیقت کے مقابلہ میں نتیجہ آگے پیچھے ہونے کی گنجائش ہوتی ہے ۔ زمین کے گرد چاند کی حرکت اور پھر دونوں کی سورج کے گرد حرکت کا بہت شاکلہ (complex) یعنی اُلجھا ہوا حساب ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ عملی حقیقت سائنسی طریقہ سے حاصل کردہ نتیجہ سے مختلف ہو سکتی ہے اسلئے ایسا تو ہو سکتا ہے کہ ریاضی کے ذریعہ اخذ کیا گیا نتیجہ بتائے کہ نیا چاند فلاں تاریخ کو فلاں علاقے میں نظر آئے گا مگر نہ نظر آئے ۔ اس کا سبب چاند کا ایک فیصد یا اس سے کم حصہ نظر آنے کی پیشگوئی کی گئی ہوتی ہے لیکن ایسا نہیں ہوتا کہ حسابی پیشگوئی نہ نظر آنے کی ہو اور چاند نظر آ جائے

نیا چاند نمودار ہونے کا حساب لگانا کتنا آسان ہے ۔ آخر میں دی گئی مختلف صورتوں کو لکھے گئے بیانات پر باری باری کلِک کر کے اس کی وڈیو دیکھیئے

میرا مسلک یہ ہے کہ اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کی ہر بات میں حکمت ہے ۔ چنانچہ لاکھ سائنسی ترقی ہو جائے اور لاکھ آلات اور حسابات بن جائیں مسلمان کو قرآن اور حدیث پر عمل کرنا ہے ۔ اور چاند دیکھنے کے سلسلہ میں سائنس کے وسیع مطالعہ اور مکمل استعمال کے ساتھ ساتھ یہ عمل جاری رکھنا ہے
وما علینا الا بلاغ المبین

چاند کی زمین کے گرد اور زمین کی سورج کے گرد حرکت چاند کو ساتھ لئے ہوئے

اس میں چاند اور زمین کا سورج کی روشنی سے روشن حصہ نظر آتا ہے

دیکھیئے زمین سورج کے گرد کیسے گھومتی ہے

یہ نمونہ سمجھانے کی خاطر سادہ کیا گیا ہے

This entry was posted in روز و شب on by .

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

16 thoughts on “نیا چاند ۔ حدیث ۔ سائنس اور ہمارے دعوے

  1. میرا پاکستان

    فرض کریں اگر آج کے دور میں نبی پاک کا ظہور ہوتا تو کیا وہ سائنس کی اس ترقی کو جھٹلا دیتے جس کی مثال دے کر آپ نے قمری شمسی عرضی حرکات کو دکھانے کی کوشش کی ہے۔ اس کے باوجود آپ کا اصرار ہے کہ ہم سائنس پر بھروسہ نہ کریں مگر دوسری طرف آپ دور بین کے استعمال کو جائز قرار دے رہے ہیں۔
    ہمارا موقف یہ ہے کہ جب سعودی عرب کے چاند سے حج کرنے میں‌کوئی مضائقہ نہیں‌تو پھر عیدیں سعودی عرب کیساتھ کرنے میں کونسی قباحت ہے۔ اگر ذرا سی قباحت ہو بھی تو بھی امت مسلمہ کے اتحاد کیلیے برداشت کی جاسکتی ہے۔ کتنا اچھا ہو جب سوا ارب مسلمان ایک ساتھ عیدیں منائیں۔ اگر ایک ملک میں چاند نکل آئے تو پھر ساری دنیا میں اگلے دن عید منائی جائے۔
    آج کے دور میں کون سورج دیکھ کر نمازوں کے اوقات مقرر کرتا ہے۔ سب لوگ سائنس کی بنیاد پر سورج کے چڑھنے، ڈھلنے اور ڈوبنے کے اوقات دیکھ کر نمازیں ادا کرتےہیں۔ اگر سورج کے کیلنڈر پر اعتبار کیا جا سکتا ہے تو پھر چاند کا کیلنڈر کیوں نہیں بنایا جا سکتا۔

  2. یاسر خوامخواہ جاپانی

    اگر جاپان کا آسمان ابر آلود ہو تو ہمارے مولوی حضرات کہ دیں کہ ملائشیا ،انڈونیشیا میں چاند نظر آگیا تو ہم شکر کرتے ہیں کہ روزوں کی آزمائش سے جان چھوٹی دوسرے دن عید منا لیتے ہیں۔
    عموماً جاپان کا آسمان ماہ رمضان میں ابر آلود ہی رہتا ہے۔۔اس دفعہ پہلی بار نیلا آسمان چمک رہا تھا۔
    چاند نظر آیا یا نہیں مولوی صاحب جانیں اور اللہ میاں جانیئں ۔۔ہم نے تو عید منا لی۔

  3. افتخار اجمل بھوپال Post author

    افضل صاحب
    میں نے کب کہا ہے کی سائنس کو نظر انداز کر دیں ؟ صرف حدیث لازم ہے کی نیا چاند نکلنا چاہیئے
    اگر آپ کا دوسرا مؤقف مان لیا جائے تو کیا امیرکا کنیڈا وغیرہ میں رہنے والے رات کو روزہ رکھیں گے اور دن میں کھاتے پیتے رہیں گے ؟ کیونکہ جب سعودی عرب میں دن ہو گا تو امریکا کنیڈا وغیرہ میں رات ہو گی ۔ مزید یہ کہ جب سعودی عرب میں فجر کی نماز پڑھی جائے گی تو امرکا کنیڈا میں بھی لوگوں کو اسی وقت فجر کی نماز پڑھنا چاہیئے پھر کیا وہ نمازِ فجر ہی ہو گی ؟

  4. میرا پاکستان

    جناب
    جب سیدھی سی بات ہے جب سعودی عرب میں عید ہو گی تو اگلی صبح امریکی کینیڈا میں‌بھی عید ہونی چاہیے۔ اس طرح جہاں جہاں دنیا میں دن چڑھتا جائے گا لوگ عید مناتے جائیں گے۔

  5. خرم

    جزاک اللہ انکل۔ یہ بہت ہی اچھے اور اہم موضوع پر قلم اٹھایا ہے آپ نے۔ یہاں مغرب میں تو یہ وبا اس قدر پھیل چکی ہے کہ لوگوں نے اب چاند دیکھنے کی سُنت نہ صرف ترک کر دی ہے بلکہ عمومی رحجان اس سُنت کی پیروی کی حوصلہ شکنی کرنے اور مذاق اُڑانے کا ہو چُکا ہے۔ تعجب ہے کہ واضح احادیث (مسند احمد 1985، ابوداؤد2327، نسائی 2128) اور اکابر صحابہ کے واضح اقوال و اعمال کے باوجود (ابوداؤد 2334، نسائی 2187، ابن ماجہ 1645، مسلم 1078، ابوداؤد 2332، نسائی 2107، ترمذی 693) امت کے اتحاد کا ڈھکوسلا رچا کر لوگوں کو گمراہ کیا جارہا ہے۔ سائنس کو جاننے والے تو کبھی بھی سائنس کے حتمی ہونے کا دعوٰی نہیں کرتے لیکن جو میری طرح کچی پاس مگر پکی فیل ہوتے ہیں وہ سائنس کو خُدا بنا ڈالتے ہیں جیسا کہ آپ نے بتایا کہ زمین، سورج اور چاند کی گردش کا حساب قیافہ پر مبنی ہے اس لئے وہ حتمی نہیں قرار پاسکتا لیکن بالفرض ایسا اگر نہ بھی ہوتا تو حضور نبی کریم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی واضح حدیث کے بعد اس امر کی کوئی گنجائش ہی نہیں رہتی کہ کلیتاَ سائنسی کلیوں کی بنیاد پر عید یا رمضان کا فیصلہ کیا جائے۔ جہاں تک بات ہے سعودی عرب کے ساتھ حج کرنے کی تو حج کیونکہ مکہ کے سوا کہیں اور ہو ہی نہیں سکتا اور حج کے لئے مکہ شریف میں موجودگی لازم ہے لہٰذا حج تو مکہ کی مقامی روئیت کے مطابق ہی ہونا ہے۔ عید اور رمضان کیونکہ تمام خطہ ارض پر منائے جاتے ہیں سو ان کے لئے مقامی روئیت ہی وہ معیار ہے جو نبی کریم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث، آپ کے پیارے اصحاب اور چودہ سو سال سے امت کے متفقہ طرز عمل سے ثابت ہے۔ یہاں یہ بات بھی واضح کرنا چاہوں گا کہ امت کی تشکیل ہی صرف نبی کریم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پکی نسبت اور سُنت کی پیروی سے ہوتی ہے۔ سُنت کا انکار بلکہ بطلان کرکے تو امت ہی باقی نہیں رہتی اس کے اتحاد کی بات چہ معنی دارد؟

  6. افتخار اجمل بھوپال Post author

    افضل صاحب
    اتنی سیدھی نہیں ۔ امریکا والے 7 سے 9 گھنٹے بعد عید منائیں گے ۔ سعودی عرب کے ساتھ نہیں ۔ ایسی صورت میں جاپان والے کیا کریں ؟ دوسرے دن عید منائیں یا سعودی عرب سے پہلے ہی منا لیں ؟
    اصول جسے آپ کُلی طور پر نظرانداز کر رہے ہیں حدیث ہے ۔ اللہ سُبحانُہپ و تعالٰی نے قرآن شریف میں کم از پانچ بار رسول کی اطاعت کا حکم دیا ہے جس کے بغیر بخشش ممکن نہیں ۔ جب بخششہی نہیں ہو گی تو پھر کیسے روزے اور کونسی عید منائیں گے

  7. سعید

    افضل صاحب:
    ہمارا موقف یہ ہے کہ جب سعودی عرب کے چاند سے حج کرنے میں‌کوئی مضائقہ نہیں‌تو پھر عیدیں سعودی عرب کیساتھ کرنے میں کونسی قباحت ہے۔

    قباحت ہے محترم! وہ یہ کہ حج دنیا بھر کے مسلمان اپنے اپنے ملکوں میں نہیں کرتے بلکہ سعودی پہنچ کر کرتے ہیں، پس جب سارے مسلمان اپنے اپنے ملکوں کو چھوڑ چھوڑ کر سعودی پہنچ گئے ہیں اور حج ہوگا بھی صرف سعودی میں ہی تو ظاہر ہے ایسے میں صرف سعودی کی رویت کا اعتبار ہوگا …. عید کا معاملہ حج جیسا نہیں ہے کہ آپ اس پہ عید کو قیاس کرلیں….دنیا کے مسلمان اپنے اپنے ملکوں میں عید کرتے ہیں اور انکا اپنے اپنے ملکوں میں عید کرنا شریعت کی رو سے جائز بھی ہے

  8. میرا پاکستان

    جناب
    سعودی عرب کے بعد اگلے دن جاپان میں عید منانے میں کیا غلط ہے۔ لگتا ہے ہم اپنی بات اچھی طرح سے بیان نہیں‌کر پائے۔ چلیں آخری کوشش کرتےہیں۔
    ہمیں‌دیکھنا یہ ہے کہ جس عمل کی ہدایت کی گئی ہے اس کا محرک کیا تھا اور کس لیے وہ عمل کرنے کا حکم دیا گیا۔ مثال کے طور پر مسواک اس لیے کرنا سنت ہے کہ اس سے دانت صاف ہوں۔ یعنی دانت صاف کرنا ضروری ہے ناں کہ لکڑی کی مسواک۔ اب جب مسواک سے بہتر چیزیں دانت صاف کرنے کیلیے ضروری ہیں تو پھر لکڑی کی مسواک پر اٹکے رہنا خود کو پتھر کےدور میں‌ بھیجنے کے مترادف ہوا۔ اسی طرح چاند دیکھنے کا مقصد یہ ثابت کرنا ہے کہ چاند کی پہلی تاریخ ہے کہ نہیں۔ اب اگر جدید ٹیکنالوجی یعنی دور بین، سیارے وغیرہ جیسے چاند سورج کی گردش معلوم کرنے کے آلات ایجاد ہو چکے ہیں تو پھرننگی آنکھ سے چاند دیکھنے کی کوئی وجہ سمجھ میں‌نہیں‌آتی۔
    دراصل ہمارا المیہ یہی ہے کہ ہم جدید ٹیکنالوجی کو مذہب میں استعمال کرنا ہی نہیں چاہتے اور یہی دشمن کی چال ہے جس کی وجہ سے کئی دہائیوں سے مسلمان نئی ایجادات سے محروم چلے آ رہے ہیں۔
    حج کی مثال دینے کا مطلب یہ تھا کہ جب سعودی کیلنڈر سے حج ہو سکتا ہے تو پھر دوسرے تہوار کیوں‌نہیں؟ خرم صاحب ہمیں کچی فیل قرار دینے کی بجائے موضوع پر بحث کرتے تو زیادہ بہتر ہوتا۔ ہمارا المیہ یہی ہے کہ جب بس نہ چلے تو ہم شخصی تنقید پر اتر آتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہمارے سوا سب اسلام سے خارج اور تارک سنت ہیں۔ یہی سوچ ہمیں‌ ترقی کرنے نہیں‌دے رہی۔
    آپ بتائیں کہ کونسی جدید ٹیکنالوجی چاند دیکھنے کیلیے استعمال ہو سکتی ہے اور کونسی نہیں؟ کیا نمازوں کے اوقات ہم جدید ٹیکنالوجی سے مقرر نہیں کرتے؟ ہم کیوں پھر سورج کے ڈھلنے چڑھنے کو ننگی آنکھ سے دیکھنے کی بجائے گھڑیوں جیسی ٹیکنالوجی استعمال کر رہےہیں۔ اب ہر مسجد میں گھڑی لٹکی ہوئی ہے۔ کوئی موذن باہر نکل کر نہیں‌دیکھتا کہ سورج کس جگہ پر ہے اور نماز کا وقت ہو چکا ہے کہ نہیں۔ سبھی گھڑی کا وقت دیکھ کر اذان دیتے ہیں اور نماز پڑھتے ہیں۔ اب خرم صاحب اور آپ یہ بھی کہیں کہ گھڑیوں کا حساب بھی قیافے پر مبنی ہے۔
    جناب ہمیں پتھر کے دور سے باہر نکلنا ہو گا اور اسلام کو جدید دور میں پھلنے پھولنے کا موقع دینا ہوگا۔

  9. سعید

    حج کی مثال دینے کا مطلب یہ تھا کہ جب سعودی کیلنڈر سے حج ہو سکتا ہے تو پھر دوسرے تہوار کیوں‌ نہیں؟

    سعودی کیلینڈر سے حج صرف اس وجہ سے ہورہا ہے کہ حج سعودی کے علاوہ اور کہیں نہیں ہوسکتا اور جن کو حج کرنا ہوتا ہے وہ سب کے سب پہنچ بھی جاتے ہیں سعودی عرب،جبکہ عید کا مسئلہ ایسا نہیں ہے، عید کیلئے دنیا بھر کے مسلمان سعودی نہیں جاتے….. عید کے مسئلہ میں آپکا حج کے مسئلہ سے استدلال صحیح نہیں ہوپارہا- دونوں مسئلوں میں بڑا فرق ہے اسکو ملحوظ رکھ دلیل دی جانی چاہئے

  10. افتخار اجمل بھوپال Post author

    افضل صاحب
    پتھر کے زمانے کے انسان سے تشبیح دینے کا شکریہ ۔ویسے پتھر کا زمانہ نہ آپ نے دیکھا ہے اور نہ میں نے ۔ آپ ہزاروں سال قبل کی مثال ہمیں بنا رہے ہیں لیکن پچھلی 14 صدیوں کی تاریخ سے واقفیت کا مظاہرہ نہیں کیا ۔ حضور میں نے پہلا روزہ 20 جالائی کو رکھا تھا اور عید اتوار بتاریخ 19 اگست کو کی کیونکہ میں اس مُلک میں تھا جہاں رمضان کا نیا چاند 19 جولائی کو اور شوال کا نیا چاند 18 اگست کو نظر آیا تھا ۔
    آپ عید سعودی عرب کے ساتھ کرنے کی دعوت دے رہے ہیں مگر کرنا سعودی عرب کے ساتھ نہیں چاہتے کیونکہ آپ مجوزہ عید کی نماز سعودی عرب سے 8 گھنٹے بعد پڑھنے کا درس بھی دے رہے ہیں ۔ یہ کیسا استدلال ہے ؟ گویا آدھا تیتر آدھا بٹیر

  11. افتخار اجمل بھوپال Post author

    یاسر صاحب
    متذکرہ طریقہ کار درست ہے ۔ اور اگر ملیشیا میں شوال کا نیا چاند 18 اگست کو نظر آ گیا تھا تو سائنسی طریقہ غلط ہو جاتا ہے ۔ لیکن یہ باتیں سائنس کا گُن گانے والوں کی سمجھ میں نہیں آتیں

  12. عبدالرؤف

    اسلام و علیکم

    اجمل صاحب ! آپکی گزشتہ تحریر “عید الفطر کس دن ہوگی ؟” پر بھی چاند کے ہی موضوع پر گفتگو کی گئی ہے۔ مگر چاند کی روئیت کی حوالے سے میں آپ کی بات سے اتفاق نہیں کرتا ہوں، اس ضمن میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اس مباحثہ میں ہم کو تین باتیں مدنظر رکھنی چاہیئے اول یہ کہ سورج اور چاند کی گردشیں الگ الگ طرز کی ہیں اس لیئے دونوں پر ایک ہی جیسے احکامات لاگو نہیں ہوسکتے ہیں۔ دوئم یہ کہ دینی احکامات ملکی حدود کی قیود کی پابند نہیں‌ہوتے ہیں۔ سوئم یہ کہ دینی احکامات کی بجاآوری کے لیئے ہم جدید آلات کا استعمال تو کرسکتے ہیں مگر اسطرح‌ دین کے کسی بھی حکم یا طریقہ کار کی اہمیت کم نہیں‌ہوجاتی ہے۔ اور ہاں یاد رہے کہ آپ سے اختلاف کرنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ خدانخواستہ میں حدیث‌کی حجیت یا حدیث پر عمل کرنے کا انکار نہیں کررہا ہوں۔

    میں افضل صاحب کی بات سے جزوی طور سے اتفاق کرتا ہوں، یعنی میرے خیال میں تمام دنیا کے مسلمانوں کو عید تو ایک ہی دن کرنا چاہیئے، اور اس سلسلے میں‌ مختلف ممالک کے دن/رات کے اوقات میں‌فرق بھی کوئی اہمیت نہیں رکھتا ہے، کیونکہ ایک جگہ چاند دکھنے کے بعد جہاں جہاں دنیا میں دن چڑھتا جائےگا لوگ عید مناتے جائیں گے۔ اور یہ بات مجھ کو تو شریعت کے مخالف نہیں لگتی ہے۔ الگ غلط ہوں تو درست کردیجئے گا۔

    کیونکہ میں تو یہ سوچتا ہوں کہ جب مسلمان آج کی طرح الگ الگ مملکتوں میں‌ بنٹے ہوئے نہیں تھے تو کیا پوری خلافت اسلامیہ میں‌ مکہ تا قسطنطنیہ تک ایک ہی دن عید نہیں ہوتی تھی؟ اور کیا پوری دنیا میں ایک جگہ کی روئیت ہی تمام دنیا کے مسلمانوں کی لیئے کافی نہیں ہے؟ اور اگر اس وقت ہوتی تھی تو پھر آج ایسا کرنا کیوں ناممکن ہے؟ محض اس لیئے کہ آج ہم ان ملکی حدود کے پابند ہیں‌ جن میں ہم کو ہماری دشمن غیر مسلم طاقتوں نے بانٹا ہوا ہے؟

    مگر افضل صاحب کا یہ کہنا کہ ایک ہی دن عید کرنے سے یا پھر سعودی عرب کے ساتھ ہی تمام دنیا کے مسلمانوں کے عید منانےسے شائد مسلمان متحد ہوجایئں‌گے تو یہ محض “دل کی تسلی کے لیئے ایک اچھا خیال ہے”، کیونکہ ہمارے متحد نہیں ہونے کا اصل سبب یہ نہیں کہ ہم ایک دن عید نہیں‌مناپارہے ہیں بلکہ اصل و اہم سبب یہ ہے کہ ہم بحیثت ایک امت کے نہیں رہ رہے ہیں۔ ہم نے آج اپنے آپ کو فرقوں اور قومیتوں میں‌ تقسیم کررکھا ہے۔ اللہ نے ہم کو الگ الگ رنگ و نسل و قومیت میں محض پہچان کے لیئے پیدا کیا تھا مگر ہم نے انہیں‌ رنگ و نسل و قومیت کی بنیاد پر ایک دوسرے سے تعصب برتنا شروع کردیا ہے، اور جب تک ہم اپنا یہ مسئلہ حل نا کرلیں‌ تب تک نہ تو ہم متحد ہوسکتے ہیں اور نہ ہی دشمن کو ہماری اپنی کمزوریوں کو ہمارے اپنے ہی لوگوں‌کے خلاف استعمال کرنے سے روک سکتے ہیں۔ اور میری بات کی دلیل آپ کو دنیا کی ماضی قریب کی تاریخ و واقعات میں مل جائے گی۔

  13. افتخار اجمل بھوپال Post author

    عبدالرؤف صاحب
    آپ نے 3 اختلافات بیان کئے ہیں ۔ تیسرا اختلاف تو نہیں ہے ۔ میں اپنی تحریر کا نتیجہ نقل کرتا ہوں ” لاکھ سائنسی ترقی ہو جائے اور لاکھ آلات اور حسابات بن جائیں مسلمان کو قرآن اور حدیث پر عمل کرنا ہے ۔ اور چاند دیکھنے کے سلسلہ میں سائنس کے وسیع مطالعہ اور مکمل استعمال کے ساتھ ساتھ یہ عمل جاری رکھنا ہے“۔
    آپ کا پہلا اختلاف میرے کس استدلال سے ہے ؟ سمجھ میں نہیں آیا ۔ میں نے تو صرف یہ واضح کرنے کی کوشش کی تھی کہ چاند کی حرکت شاکلہ (انگریزی میں کملیکس) ہے ۔ ویسے سورج اور چاند کی گردش کسی حد تک الگ ہے مگر ایک دوسرے سے مُنسلک ہیں جس دن توازن بگڑا شاید وہی دن قیامت کا ہو گا
    تیسرے اختلاف کے تحت آپ کا استدلال ”کہ دینی احکامات ملکی حدود کی قیود کی پابند نہیں‌ہوتے ہیں“ درست ہے مگر میں نے کب کہا کہ اللہ کے احکامات یا حدیث مقامی حیثیت رکھتی ہے ؟
    جناب میں تو علامہ اقبال کی تحاریر کا مداح ہوں
    بھُلا کر امتیازِ رنگ و بُو مِلت میں گُم ہو جا
    نہ تورانی رہے باقی ۔ نہ ایرانی ۔ نہ افغانی
    مگر بات وہی ہے کہ قرآن و حدیث کی پیروی کرتے ہوئے
    کرّہ ارض پر بسنے والے تمام مسلمین ایک ہی دن عید منائیں یہ خواہش اچھی ہے بلکہ میری اپنی بھی جب تک عِلم بہت کم تھا یہی خواہش رہی لیکن اس کی دلیل قرآن و حدیث سے نہیں ملتی ۔ اگر آپ کے علم میں ہو تو بندہ کو بتا کر مشکور کیجئے ۔ عید کی بات ہوئی تو لکھنا بیجا نہ ہو گا کہ پہلے اس کا تو اہتمام ہو کہ ساری دنیا کے مسلمان اپنے اپنے علاقائی وقت کے مطابق ایک ہی وقت عیدین کی نماز ادا کریں ۔ میں نے لبیا ۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں دیکھا ہے اور میرا خیال ہے کہ ایسا سارے عرب ممالک میں ہے کہ عیدین کی نماز سورج طلوع ہونے کے 15 سے 20 منٹ بعد پڑھی جاتی ہیں جو کہ قرینِ قیاس ہے مگر ہندو پاکستان میں سورج نکلنے کے 90 سے 180 منٹ بعد پڑھی جاتی ہیں
    افضل صاحب کی کچھ باتیں میں نے نظرانداز کردی تھیں کیونکہ بات موضوع سے دور جانے کا خدشہ تھا ۔ میں مختصر طور پر عرض کر دوں کے اپنے آپ کو مسلمان کہنے والے دین سے بیگانگی کے باعث بٹے ہوئے ہیں نہ چاند کا اس میں کوئی دخل ہے نہ عید کا
    آپ نے ”مکہ تا قسطنطنیہ ایک ہی عید“ کی بات کی ہے اتفاق سے عرب افریقہ اور یورپ روئتِ ہلال کے معاملہ میں ایک ہی منطقہ میں واقعہ ہیں ۔ جب سے اسلام اس منطقہ سے باہر پھیلا ہے پوری دنیا میں کبھی ایک ہی دن عید نہیں ہوئی ۔ شاید 4 دہائیاں قبل کا واقعہ ہے کہ سعودی عرب میں کسی وجہ سے چاند نظر نہ آیا اور پاکستان اور سعودی عرب میں ایک ہی دن روزہ رکھا گیا جس پر سعودی عرب کی عُلما مجلس نے اعلان کیا کہ عیدالفطر کے بعد سب ایک ایک روزہ رکھیں
    ایک بات جس کی شاید یہاں گنجائش نہیں ۔ عرب خواہ کتنے بھی بُرے ہوں مسجد کے اندر مسلمان ہوتے ہیں ۔ خود ہی سمٹ کر دوسرے نمازیوں کیلئے جگہ پیدا کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ انکساری سے پیش آتے ہیں مگر ہمارے لوگ یعنی ہند و پاکستان والے مسجد میں بھی امام کی درخواست کے باوجود کہ سمٹ کر دھوپ یا بارش میں کھڑے ہونے والوں کیلئے جگہ بنا دیں ۔ ٹَس سے مَس نہیں ہوتے ۔ اسی علاقے کے لوگ حرم کعبہ میں تھوڑی جگہ ہوتے ہوئے منت کے باوجود کسی کو کھڑا نہیں ہونے دیتے اور جب بیٹھتے ہیں اللہ کو یاد کرنے کی بجائے کئی لوگ دنیا جہان کے قصے اور بدخُوئی کر رہے ہوتے ہیں ۔ یہ چھوٹی چھوٹی عادات ہی درست ہو جائے تو بہت ہے ۔ ساری دنیا میں ایک عید تو عِلم اور غور طلب ہے

  14. عبدالرؤف

    محترم صرف اس بات کو درست کرلیں کہ : قسطنطنیہ کی فتح سے بہت پہلے ہندوستان و ایران فتح ہوچکے تھے۔ باقی میرے خیال سے کوئی اور بات مزید وضاحت طلب نہیں ہے۔

  15. افتخار اجمل بھوپال Post author

    عبدالرؤف صاحب
    ہندوستان میں میرے آباؤ اجداد نے بھی نیا چاند دیکھ کر قمری مہینہ شمار کرنے کا ہی ہمیں بتایا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ساری دنیا میں کبھی ایک دن عید نہیں ہوئی ۔ اتفاق سے میرے آباؤ اجداد کی رہائش ہندوستان کے علاوہ عرب دنیا میں بھی رہی ۔ ایک سال کا مجھے یاد ہے کہ عرب دنیا میں کسی وجہ سے رمضان کا چاند نظر نہ آیا ۔ دوسرے دن ہند و پاکستان میں نظر آ گیا تو عرب دنیا نے عیدالفطر کے بعد ایک روزہ رکھنے کا اعلان کر دیا تھا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

:wink: :twisted: :roll: :oops: :mrgreen: :lol: :idea: :evil: :cry: :arrow: :?: :-| :-x :-o :-P :-D :-? :) :( :!: 8-O 8)

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.