متعلقہ مضامین پڑھنے کیلئے مندرجہ ذیل عنوانات پر باری باری کلِک کیجئے
پنجابی کوئی زبان نہیں
پنجابی قوم نہیں
اُردو سپیکنگ
ڈھائی سال قبل میں نے لکھا تھا “پنجابی کوئی زبان نہیں“۔ چونکہ متعلقہ کُتب و دیگر علمی مواد میرے سامنے نہ تھا اور میں یاد داشت کی بنیاد پر لکھ رہا تھا تو میں نے ڈرتے ڈرتے لکھا تھا
یہ زبان اپنی افزائش شدہ شکل میں اُنیسویں صدی عیسوی میں بھی بولی جاتی رہی اور بیسویں صدی عیسوی کی شروع کی دہائیوں میں بھی موجودہ پنجاب ۔ موجودہ سندھ اور ان کے قریبی علاقوں ۔ موجودہ صوبہ سرحد کے کچھ حصوں اور گجرات کاٹھیاواڑ میں بھی بولی جاتی تھی
پچھلے دنوں ایک نقشہ دیکھنے کو مل گیا جس پر ستمبر 1872ء تاریخ درج ہے ۔ اس کے مطابق پنجاب میں 6 ڈویژن (Division) تھیں جن کے یہ نام تھے
1 ۔ دہلی ۔ 2 ۔ جالندھر ۔ 3 ۔ لاہور ۔ 4 ۔ راولپنڈی ۔ 5 ۔ پشاور ۔ 6 ۔ ڈیرہ جٹ
جانتے ہیں ڈیرہ جٹ کس علاقے کا نام تھا ؟
موجودہ خیبر پختونخوا ۔ پنجاب اور سندھ کے وہ علاقے جہاں سرائیکی بولنے والے اور بلوچ رہتے ہیں ۔ (مزاری ۔ زرداری وغیرہ سب بلوچ ہیں)
اُس دور کے پنجاب میں 31 اضلاع تھے جن میں سب سے زیادہ یعنی 7 دہلی میں اور سب سے کم یعنی 3 پشاور میں تھے
ہندوستان پر قابض انگریز حکمرانوں نے جب بنگال کو سر کر لیا تو پنجاب اُنہیں سب سے بڑا خطرہ محسوس ہوا ۔ چنانچہ ایک طرف دہلی اور اس کے مشرقی علاقے کو پنجاب سے کاٹ کر الگ کیا ۔ دوسری طرف پشاور اور ڈیرہ جاٹ کے کچھ سرائیکی علاقے کو نارتھ ویسٹرن فرنٹیر (North Western Frontier) کا نام دیا جسے ماضی قریب میں خیبر پختونخوا کا نام دیا گیا ہے ۔ تیسری طرف ڈیرہ جاٹ کے کچھ سرائیکی اور بلوچ علاقے کو دیبل وغیرہ میں شامل کر کے سندھ کا نام دیا ۔ پاکستان بنتے وقت باقی رہ جانے والے پنجاب میں سے بھی آدھا بھارت کے حوالے کر دیا
موجودہ حکومت کو نجانے اس بچے کھچے پنجاب سے جو اصلی پنجاب کا شاید پانچواں حصہ ہے کیا خطرات لاحق ہوئے ہیں کہ اس کا مزید تیا پانچا کرنا چاہتی ہے
۔ ”حیف ایسی قوم پر جو ٹکڑوں میں بٹی ہو اور ہر ٹکڑا اپنے آپ کو ایک الگ قوم سمجھے“۔ خلیل جبران