Yearly Archives: 2011

آج کا دن اہم کيوں ؟

آج 24 اکتوبر ہے ۔ يہ دن کيوں اہم ہے ؟ اس کا پس منظر اور پيش منظر ميں اِن شاء اللہ ايک ہفتہ تک بيان کروں گا آج کی تحرير صرف 24 اکتوبر کے حوالے سے

ٹھیک آج سے 64 سال قبل جموں کشمیر کے مسلمانوں نے اپنے وطن پر بھارت کے طاقت کے زور پر ناجائز قبضہ کے خلاف اعلانِ جہاد کیا جو کہ ایک لاکھ سے زائد جانوں کی قربانی دینے کے باوجود آج تک جاری ہے ۔ انشاء اللہ یہ قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی

کہتے ہیں ہر دم یہ جموں کشمیر کے مسلماں
اے وطن تیری آزادی تک چین سے نہ بیٹھیں گے

اعلانِ جہاد ۔ بھارتی فوج اور برطانوی فضائیہ کے حملے

راشٹريہ سيوک سنگ ۔ ہندو مہاسبھا اور اکالی دَل نے ضلع جموں کے مضافات اور دو دوسرے ہندو اکثريتی اضلاع ميں مسلمانوں کا قتلِ عام اور اُن کی فصلوں اور گھروں کو جلانا تو پہلے ہی شروع کر رکھا تھا ۔ اکتوبر 1947ء کے شروع ہی ميں اُن کی طرف سے يہ اعلان بر سرِ عام کيا جانے لگا کہ “مُسلے [مسلمان] عيد پر جانوروں کی قربانی کرتے ہيں ۔ ہم اس عيد پر مُسلوں کی قربانی کريں گے”۔ چنانچہ جمعہ 24 اکتوبر 1947ء کو جس دن سعودی عرب میں حج ہو رہا تھا جموں کشمیر کے مسلمانوں نے اپنے اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے جہاد کا اعلان کر دیا اور مسلح تحریک آزادی شروع ہو گئی ۔ مجاہدین نے ایک ماہ میں مظفرآباد ۔ میرپور ۔ کوٹلی اور بھمبر آزاد کرا کے جموں میں کٹھوعہ اور کشمیر میں سرینگر اور پونچھ کی طرف پیشقدمی شروع کر دی ۔ یہ جموں کشمیر کے مسلمانوں کی آزادی کے لئے چوتھی مگر پہلی مسلح تحریک تھی

ان آزادی کے متوالوں کا مقابلہ شروع میں تو مہاراجہ ہری سنگھ کی ڈوگرہ فوج سے تھا مگر اکتوبر کے آخر میں بھارتی فوج بھی ان کے مقابلے پر آ گئی اور ہندوستان کے برطانوی وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے فضائی حملوں کے لئے برطانوی فضائیہ کو برما سے جموں کشمیر کے محاذ پر منتقل کروا دیا ۔ برطانوی فضائیہ کی پوری کوشش تھی کہ کشمير کو پاکستان سے ملانے والا کوہالہ پُل توڑ دیا جائے لیکن اللہ سُبْحَانہُ وَ تعالٰی کو یہ منظور نہ ہوا اور بمباری کے باوجود پُل محفوظ رہا

اس جنگ آزادی میں حصہ لینے والے کچھ مسلمان دوسری جنگ عظیم میں یا اس کے بعد برطانوی یا مہاراجہ کی فوج میں رہ چکے تھے اور جنگ کے فن سے واقف تھے ۔ باقی عام شہری تھے ۔ ان کے پاس زیادہ تر پہلی جنگ عظیم میں استعمال ہونے والی طرّے دار بندوقیں تھیں اور دوسری جنگ عظیم کے بچے ہوئے ہینڈ گرنیڈ تھے ۔ توپیں وغیرہ کچھ نہ تھا جبکہ مقابلہ میں بھارتی فوج ہر قسم کے اسلحہ سے لیس تھی اور برطانوی فضائیہ نے بھی اس کی بھرپور مدد کی

بے سروسامانی کی حالت میں صرف اللہ پر بھروسہ کر کے شہادت کی تمنا دل میں لئے آزادی کے متوالے آگے بڑھنے لگے ۔ وزیرستان کے قبائلیوں نے اپنے مسلمان بھائیوں کی امداد کے لئے جہاد کا اعلان کر دیا اور ان کے لشکر جہاد میں حصہ لینے کے لئے جموں کشمیر کے آزاد کرائے گئے علاقہ ميں پہنچنا شروع ہوگئے ۔ چند پاکستانی فوجی بھی انفرادی طور پر جہاد میں شامل ہو گئے ۔ اللہ کی نُصرت شامل حال ہوئی اور ڈوگرہ اور بھارتی فوجیں پسپا ہوتی گئيں یہاں تک کہ مجاہدین پونچھ کے کافی علاقہ کو آزاد کرا کے پاکستان کی سرحد کے ساتھ ساتھ جنوب کی طرف پیشقدمی کرتے ہوئے کٹھوعہ کے قریب پہنچ گئے

نغمہ ميرے وطن
پاکستان ريڈيو سے روزانہ سُنايا جانے والا نغمہ جو پچھلے 10 سال سے نہيں سُنايا جا رہا ۔ سُنئے پہلی اور اصل حالت ميں [The original version]جموں کشمير کے مناظر کے ساتھ

کرِيو مَنز جِرگاز جائے چمنو
ستم شعار سے تجھ کو چھڑائیں گے اک دن
میرے وطن تیری جنت میں آئیں گے اک دن

سچائی ؟ ؟ ؟

ديکھيئے قبل اس کے کہ ويب سائٹ سے ہٹا دی جائے

1۔ لبيا پر قابض موجودہ حکمرانوں کا دعوٰی کہ معمر قذافی مقابلے ميں مارا گيا ۔
2 ۔ اتحادی فوجوں کے ترجمان کا دعوٰی کہ ہم نے قافلے کو نشانہ بنايا تھا ۔ ہميں عِلم نہيں تھا کہ اس ميں قذافی بھی ہے

گو مندرجہ بالا دعوے متضاد ہيں نيچے ديئے ربط پر وِڈيو سے معلوم ہوتا کہ دونوں دعوے غلط بھی ہيں
http://gawker.com/5851757/gaddafis-last-moments-caught-on-video

ايک قيدی کو ہلاک کرنا دُنيا کے کس قانون يا کس اخلاقی معيار کے مطابق درست ہے ؟

معمر قذافی کی منظر عام پر آنے والی نئی ویڈیو نے گذشتہ روز عبوری کونسل کے اس بیان کو تو یکسر غلط ثابت کردیا ہے کہ یہ لوگ دوران لڑائی مارے گئے۔ معمر قذافی کی گرفتاری کے فورا بعد کی ویڈیو کچھ اور ہی کہانی سنا رہی ہے۔ یہ ویڈیو ایک امریکی ویب سائٹ نے اپ لوڈ کی ہے

ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ کس طرح قذافی کو مارتے ہوئے لے جایا جا رہا ہے ۔ انہیں لاتیں اور گھونسے مارے جا رہے ہیں ۔ کچھ لوگ آوازیں بھی لگا رہے ہیں کہ جان سے نہ مارنا ۔ لیکن بالآخر قذافی کو گولی مار کر ہلاک کردیا گیا

ذہنی غلامی


ميں محمد بلال صاحب کا مشکور ہوں کہ اُنہوں نے قارئين کی سہولت کيلئے مندرجہ بالا عکسی عبارت کو يونی کوڈ ميں لکھ ديا ہے

غلامی سے آزادی تک

وہ ایک آزاد باپ کی غلام بیٹی تھی، بہت کچھ سوچنے اور سمجھنے پر مجبور کرنے والی فکر انگیز تحریر
ڈاکٹر طاہر مسعود

“پاپا“ آج مس نے مجھے ایک ”ایڈوائس“ کی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ آئندہ جب بھی تمہیں واش روم جانے کی ”پرمیشن“ لینی ہو تو انگلش میں کہنا ”Miss May I go to washroom?“
”مس کی ایڈوائس پہ تم نے ان سے کیا کہا۔“
“مس نے جیسا کہا میں نے Same کیا”
”گڑیا۔۔۔۔ تمہاری اردو تو گلابی اردو ہے“
”یہ گلابی اردو کیا ہوتی ہے؟“
”جس میں دوسری زبانون کے الفاظ شامل ہوں ۔ تم اردو کے ساتھ انگریزی ملا کر بولتی ہو ۔ یہ اچھی بات نہیں ہے۔“
”کیوں اس سے کیا ہو جائے گا؟“
“اس سے زبان خراب ہوتی ہے۔ کیا تم نے کسی انگریز یا امریکی کو دیکھا ہے کہ وہ انگریزی بولتے ہوئے اردو یا پھر کسی دوسری زبان کے الفاظ ملاتا ہو؟”
”انہیں اردو نہیں آتی ہو گی“
“ہمارے پاس جو لوگ اردو میں انگریزی کے الفاظ ملاتے ہیں کیا انہیں انگریزی آتی ہے۔ بس انگریزی کے چند الفاظ انہوں نے سیکھ لیے ہیں جنہیں اپنی گفتگو میں دہراتے رہتے ہیں”
”مگر اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟“
“گڑیا فرق یہ پڑتا ہے کہ بغیر سوچے سمجھے اردو میں انگریزی الفاظ ملانے سے ہماری قومی زبان بگڑ رہی ہے ۔ دیکھو! ملاوٹ بری چیز ہے۔ جیسے دودھ، مسالے اور دوسری چیزوں میں ہم ملاوٹ پسند نہیں کرتے بالکل اسی طرح زبان بھی خالص ہونی چاہیئے”
”لیکن ہماری مس تو کہتی ہیں کہ اردو کے بہت سے ورڈز انگریزی سے آئے ہیں“
“ہاں یہ صحیح ہے، اردو بہت سی زبانوں سے مل کر بنی ہے، لیکن جب یہ ایک زبان بن گئی تو اب اس کی اپنی ایک گرامر ہے اور اپنے اصول و قواعد ہیں۔ اب مثلاً دیکھو ٹیلی وژن، ریڈیو اسٹیشن، کالج وغیرہ انگریزی کے الفاظ ہیں، جب یہ اردو میں آگئے تو اب یہ اردو ہی کے الفاظ بن گئے۔ اب ان الفاظ کو واحد سے جمع بنائیں گے تو اردو طریقے سے بنائیں گے۔ مثلاً کالج سے کالجز، اسٹیشن سے اسٹیشنز نہیں بنے گا بلکہ کالجوں اور اسٹیشنوں استعمال کیا جائے گا۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ جو لفظ بحالتِ مجبوری انگریزی سے اردو میں آگیا وہ انگریزی کا نہیں رہا اردو کا ہو گیا”
“پاپا! آپ بہت Difficult باتیں کررہے ہیں
“اب دیکھو تم نے Difficult کا لفظ استعمال کیا ۔ اس کی جگہ تم مشکل کا لفظ بھی بول سکتی تھیں۔ جب کسی لفظ کو تم اردو میں ادا کر سکتی ہو تو اس کی جگہ انگریزی لفظ استعمال کرنا اچھی بات ہے”
“مجھے اردو لفظ معلوم ہوں گے تبھی تو Use کروں گی”
یہ لفظ Use بھی انگریزی ہے۔ اردو ميں اس کے لیے استعمال کا لفظ ہے۔ تمہیں چاہیے کہ اردو کتابیں اور رسالے پڑھا کرو
””پاپا! میں تو ٹی وی دیکھتی ہوں اور ٹی وی میں ساری ڈسکشن اسی طرح ہوتی ہے
”ڈسکشن نہیں گفتگو یا پھر تبادلہ خیال کہو۔ میرے خدا! تمہیں اردو کب آئے گی“
”میری اردو بہت ویک ہے پاپا “
“بہت سے لوگ فخر سے یہ بات کہتے ہیں ۔ انہیں انگریزی نہ جاننے پر شرمندگی ہوتی ہے لیکن اردو نہ آنے پر فخر محسوس ہوتا ہے۔ یہ غلامی کی نشانی ہے”
”تو کیا ہم لوگ غلام ہیں۔ انگریزی بولنے سے آدمی غلام ہو جاتا ہے؟“
”انگریزی بولنے سے نہیں، انگریزی بول کر فخر کرنا اور اردو نہ جاننے پر شرمندگی محسوس نہ کرنا ذہنی غلامی کی نشانی ہے“
”کیا انگلش ڈریس پہننے سے بھی آدمی غلام ہو جاتا ہے؟“
”کیوں نہیں، جب ہمارا اپنا لباس موجود ہے تو ہم انگریزوں کا لباس کیوں پہنیں۔ کیا انگریز ہمارا لباس پہنتے ہیں؟“
”پاپا ۔ آپ تو بہت کنزرویٹیو ہیں “
”نہیں بیٹا ۔ میں وہ آزاد ہوں جو غلاموں میں پیدا ہو گیا ہے“
”غلاموں کو آزاد کرنے کا کیا طریقہ ہے پاپا“
”اپنی زبان، اپنا لباس اور اپنی ثقافت اختیار کرنے سے آدمی آزاد ہو جاتا ہے“
”پھر تو ہم کبھی آزاد نہیں ہوں گے“
”نہیں وہ دن ضرور آئے گا۔ آج نہیں تو کل“
”ہماری آپ کی زندگی میں تو ایسا نہیں ہو سکے گا“
”نہیں مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ خدا مایوسی کو پسند نہیں کرتا“
تو پھر خدا ہماری Help کیوں نہیں کرتا؟”“
”جو اپنی مدد آپ نہیں کرتے خدا بھی ان کی مدد نہیں کرتا“
ہمیں اپنی Help خود کیسے کرنی چاہیے؟”“
”جو بات صحیح ہے، ہم اسے اختیار کرلیں، اس پر ڈٹ جائیں۔“
” It means آپ آزاد ہیں اور میں غلام ہوں۔ آزاد باپ کی غلام بیٹی”
”جس دن تم نے میری باتوں پر عمل کیا، تم بھی آزاد ہو جاؤ گی“
پاپا ۔ مجھے اسی سوسائیٹی میں Survive کرنا ہے”“
”تم عقل مند ہو، اپنی عمر سے بڑی باتیں کر لیتی ہو۔ تم چاہو تو تمہیں آزاد ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ یہ معاشرہ بھی نہیں“
”چلیے آج سے میں انگریزی میں باتیں نہیں کروں گی“
انگریزی بولنے اور پڑھنے سے میں تمہیں منع نہیں کر رہا۔ انگریزی بین الاقوامی زبان ہے۔ اس میں سارے علوم کا خزانہ موجود ہے۔ اسے سیکھنا ضروری ہے، لیکن انگریزی کو برتر اور اردو کو کم تر سمجھنا بری بات ہے
”ابو ۔ آپ نے آج مجھے بہت اچھی باتیں بتائیں۔ میں ان پر عمل کرنے کی کوشش کروں گی۔“
“ہاں پھر تو تم بھی آزاد ہو جاؤ گی۔ آزاد باپ کی آزاد بیٹی”

” ہونا ” اور ” سمجھنا ” ۔ بہتر کيا ؟

ميں آنکھ کی جراحی کے بعد 3 دن کمرہ بند [Room arrest] اور 4 دن گھر بند [House arrest] رہا ۔ نہ پڑھنے کی اجازت اور لکھنے کی تھی تو کيا کرتا ؟ ميں جسے بچپن سے پڑھنے اور لکھنے کی عادت ہے لمحہ بھر کيلئے سوچيئے کہ کيا حال ہوا ہو گا ميرا ؟ شکر ہے کہ دماغ پر پابندی نہ تھی ۔ چنانچہ کئی واقعات و مشاہدات پر غور جاری رہا ۔ آج ان ميں سے ايک مسئلہ جو ہر گھر [يا گھرانے] کا مسئلہ ہو سکتا ہے سپُردِ قلم کر رہا ہوں

اپنے ہموطنوں کی اکثريت کو ماہرِ نفسيات کے پاس جانے کی ضرورت ہے مگر ہمارے ہاں صرف پاگل کو يا اُسے جسے کسی مقدمہ ميں سزا ہونے سے بچانا ہو يا اُس سے جان چھڑانا ہو تو ماہرِ نفسيات کے پاس لے جاتے ہيں

صبح ناشتے کی ميز پر بيوی نے خاوند سے کہا “آج ذرا وقت پر آ جايئے گا ۔ ڈاکٹر کے پاس جانا ہے”
خاوند بيوی کی بات ياد رکھتے ہوئے چھٹی ہوتے ہی گھر کی راہ ليتا ہے ۔ گھر ميں داخل ہوتا ہے تو بيوی گويا ہوتی ہے “ہاتھ منہ دھو کر آ جايئے ۔ چائے تيار ہے”
خاوند ہاتھ منہ دھو کر کھانے کی ميز پر پہنچتا ہے تو بيوی کھانے کی چيزوں والی طشتری آگے بڑھاتی ہے ۔ خاوند کچھ اپنی تھالی ميں رکھ ليتا ہے تو بيوی سُرعت سے پيالی ميں چائے اُنڈيل کر چينی ہلانے لگتی ہے
خاوند مُسکرا کر کہتا ہے ” کوئی وقت کا پابند ڈاکٹر لگتا ہے”
ڈاکٹر کے مطب پہنچنے پر خاوند تختی پر نظر ڈالتا جس پر تحرير ہے ماہر دماغی امراض ۔ وہ دل ہی دل ميں پريشان ہوتا ہے کہ ميری بيوی کو ايسی ضرورت کيوں پيش آئی ؟
ڈاکٹر کے پاس پہنچ کر جب خاوند اور بيوی بيٹھ جاتے ہيں تو بيوی ڈاکٹر سے مخاطب ہوتی ہے “يہ ميرے خاوند ہيں ۔ ہماری شادی کو 10 سال گذر چکے ہيں ۔ چند دنوں سے يہ عجيب سی بات کرنے لگے ہيں ۔ مجھے کہتے ہيں کہ ميں تمہيں اپنی بيوی سمجھتا ہوں”
ڈاکٹر ” آپ ان کی بيوی ہيں نا ۔ تو اس ميں کيا بُرائی ہے ؟”
بيوی “ڈاکٹر صاحب ۔ آپ ميری بات نہيں سمجھ پائے ۔ ديکھيں نا ۔ يہ مجھے کہتے ہيں کہ يہ مجھے بيوی سمجھتے ہيں ۔ ميں تو ان کی بيوی ہوں پھر وہ ايسا کيوں کہتے ہيں ؟”
اسی دوران ڈاکٹر صاحب کسی کو ٹيليفون پر کہتے ہيں “آپ زيادہ مصروف تو نہيں ؟ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ذرا مطب ميں آ جايئے آپ کے مہمان آئے ہيں”
چند منٹ بعد مطب کے پچھلے دروازے سے ايک خاتون داخل ہوتی ہيں ۔ ڈاکٹر صاحب اُنہيں کرسی پر بيٹھنے کا اشارہ کر کے سامنے بيٹھے جوڑے ميں بيوی کو مخاطب کرتے ہيں ” يہ ميری بيوی ماہرِ نفسيات ہيں ۔ آپ ان سے اپنے لئے وقت لے ليجئے ”
پھر خاوند سے مخاطب ہو کر کہتے ہيں ” آپ کی بيگم صاحبہ کو نفسياتی مشورے کی ضرورت ہے”

کوئی اچھا موقع پا کر خاوند اپنی بيوی سے کہے ” ميں آپ کو اپنی بيوی سمجھتا ہوں”
اسی طرح ہر بيوی اچھا موقع پا کر اپنے خاوند سے کہے ” ميں آپ کو اپنا خاوند سمجھتی ہوں”

پھر جو جواب ملے اس سے ميرے علم ميں اضافہ فرمانا نہ بھولئے گا

اصل بات يہ ہے کہ بيوی يا خاوند ہونے کے بعد بيوی يا خاوند سمجھنا بھی ضروری ہے ۔ بصورتِ ديگر مياں بيوی کے تعلقات مياں بيوی کے تمام عملی تقاضے پورے نہيں کريں گے

دماغ تيز کرنے کا آسان طريقہ

سائنس کی ترقی کے باعث دنيا بہت آگے نکل گئی ہے ليکن قدم قدم پر يہ احساس ہوتا ہے کہ ہم سے پہلے والے ہم سے زيادہ باعِلم تھے ۔ ہمارے سکول کے زمانہ ميں [1953ء تک] بلکہ آج سے 4 دہائياں قبل [1972ء] تک جو طالب عِلم سبق ياد نہ کرے يا بھُول جائے اساتذہ اُسے سزا کے طور پر ايک ورزش کرنے کا حُکم ديتے تھے جو ايک سے 3 منٹ تک ہوتی تھی ۔ اب سائنس کی بہت زيادہ ترقی کے بعد معلوم ہوا ہے کہ جسے ہم سزا سمجھتے رہے وہ دراصل ايک اہم طِبی نُسخہ تھا

ميں اگر کہوں کہ ياد داشت [memory] اور اِنہماک [concentration] کو ايک سادہ ا ور آسان ورزش سے بہتر کيا جا سکتا ہے تو شايد اسے مذاق سمجھا جائے ليکن يہ مذاق نہيں بلکہ مسلمہ حقيقت ہے

يہ ورزش بالخصوص اُن لوگوں کيلئے مفيد ہے جن کی ياد داشت کمزور ہو يا وہ خود فکری [autism] يا الزائمر [Alzheimers] بيماری ميں مُبتلاء ہوں ۔ جس کی بھی ياد داشت ايسی نہ ہو جيسا کہ ہونا چاہيئے وہ اس سادہ ورزش سے مستفيد ہو سکتا ہے

ای ای جی سکينز [Electroencephalography scans] سے معلوم ہوا کہ يہ ورزش دماغ کے داہنے اور بائيں حصوں کو ہم عصر [synchronise] کر کے غور و فکر اور ياد داشت کو بہتر بناتی ہے

يہ آسان اور تيز اثر والی ورزش کمزور ياد داشت [poor memory] ۔ انہماک کی کمی[lack of concentration] ۔ اُجڈ پَن [clumsiness] اور تلوّن مزاجی [emotional instability] ميں بہتری پيدا کرتی ہے

ورزش کے اہم نقاط

کان کی لَو [ear lobe] ميں دباؤ کے نقاط [acupressure points] کے ذريعہ اعصابی [neural pathways] رويّوں کو تحريک ديتی ہے
دماغ کی کارکردگی بہتر کرنے اور قرار [calmness] کو بڑھانے کيلئے داہنے اور بائيں حصوں کو ہم عصر [Synchronise] کرتی ہے
بوڑھوں ۔ جوانوں ۔ بچوں ۔ والدين ۔ اولاد ۔ کوئی بھی کسی بھی عمر ميں ہو کی ذہانت کو تيز کرتی ہے
ايسپرجر سِنڈرَوم [, Asperger’s syndrome] ۔ خود فکری [autism] ۔ سيکھنے ميں مشکلات اور اطوار کے مسائل ميں مدد ديتی ہے
ورزش آسان اور قليل وقت ليتی ہے ۔ صرف ايک سے 3 منٹ روزانہ کافی ہوتا ہے

ورزش کا طريقہ

احتياط ۔ کھانے کے بعد 2 گھنٹے کے اندر ورزش نہ کيجئے ۔ آرام دہ کپڑے پہن ليجئے ۔ خواتين زيور وغيرہ اُتار ديں
1 ۔ دونو پاؤں کے درميان اپنے شانے کی چوڑائی جتنا فاصلہ رکھ کر سيدھے اس طرح کھڑے ہو جايئے کہ پاؤں کے انگُوٹھوں کا رُخ سامنے کی طرف ہو
2 ۔ داہنے کان کی لَو کو بائيں ہاتھ کے انگُوٹھے اور شہادت کی اُنگلی کے درميان اس طرح پکڑيئے کہ انگُوٹھا سامنے کی طرف ہو
3 ۔ بائيں کان کی لَو کو داہنے ہاتھ کے انگُوٹھے اور شہادت کی اُنگلی کے درميان اس طرح پکڑيئے کہ انگُوٹھا سامنے کی طرف ہو
4 ۔ سيدھے کھڑے رہتے ہوئے جس قدر ہو سکے سانس کو اندر کھينچيئے پھر سامنے کی طرف ديکھتے ہوئے آہستہ آہستہ اس طرح نيچے ہوتے جايئے کہ صرف گھُٹنوں سے ٹانگيں اکٹھی ہوتی جائيں ۔ نيچے جاتے ہوئے سانس باہر نکالتے جايئے ۔ اس طرح جس قدر نيچے ہو سکيں ہو جائيے مگر رہيئے پاؤں کے بل ہی
5 ۔ سانس اندر کھينچتے ہوئے آہستہ آہستہ اُوپر اُٹھيئے اور سيدھے کھڑے ہو جايئے
6 ۔ سانس باہر نکالتے ہوئے پہلے کی طرح نيچے ہوتے جائيں ۔ اس طرح کان چھوڑے بغير اور اپنی جگہ سے ہِلے بغير اس ورزش کو 14 سے 21 بار 2 سے 3 منٹ ميں دہرايئے

3 ہفتوں ميں اس ورزش کے خاطر خواہ نتائج سامنے آنا شروع ہو جائيں گے

اس ورزش کی وڈيو اور مزيد معلومات کيلئے يہاں کلِک کيجئے

معلومات فراہم کرنے پر ميں ڈاکٹر جواد احمد خان صاحب کا مشکور ہوں

اقبال مندی اور محنت پسندی

اقبال مندی

الپ ارسلاں سے یہ طغرل نے پوچھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہ قومیں ہیں دنیا میں جو جلوہ فرما
نشاں ان کی اقبال مندی کے ہیں کیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کب اقبال مندان کو کہنا ہے زیبا
کہا ملک و دولت ہو ہاتھ انکے جب تک ۔ جہان ہو کمر بستہ ساتھ انکے جب تک

جہاں جائیں وہ سر خرو ہو کے آئیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ظفر ہم عناں ہو جدھر باگ اٹھائیں
نہ بگڑیں کبھی کام جو وہ بنائیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہ اکھڑیں قدم جس جگہ وہ جمائیں
کریں مس کو گر مس تو وہ کیمیا ہو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر خاک میں ہاتھ ڈالیں طلا ہو

محنت پسندی

مگر بیٹھ رہنے سے چلنا ہے بہتر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہ ہے اہلِ ہمت کا اللہ یارو
جو ٹھنڈک میں چلنا نہ آیا میسر ۔ ۔ تو پہنچیں گے ہم دھوپ کھا کھاکے سر پر
یہ تکلیف و راحت ہے سب اتفاقی ۔ ۔ ۔ ۔ چلو اب بھی ہے وقت چلنے کا باقی

ہوا کچھ وہی جس نے یاں کچھ کیا ہے ۔ ۔ ۔ لیا جس نے پھل بیج بو کر لیا ہے
کرو کچھ کہ کرنا ہی کچھ کیمیا ہے ۔ ۔ ۔ مثل ہے کہ کرتے کی سب بدیا ہے
یونہی وقت سو سو کے ہیں گنواتے ۔ ۔ ۔ ہو خرگوش کچھوؤں سے ہیں زک اٹھاتے

یہ برکت ہے دنیا میں محنت کی ساری ۔ جہاں دیکھئے فیض اسی کا ہے جاری
یہی ہے کلیدِ درِ فضلِ باری ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسی پر ہے موقوف عزت تمہاری

اقتباس از مسدسِ حالی
مصنف ۔ خواجہ الطاف حسين حالی

آنکھ کی جراحی

اِن شاء اللہ ميں آج شام ماہر امراضِ چشم و جراح کے پاس جاؤں گا ۔ جيسا کہ مجھے بتايا گيا ہے رات 8 بجے ميری اُس آنکھ کی ليزر سے جراحی کی تياری شروع ہو گی جس کی بينائی 28 ستمبر 2011ء کے حادثہ کے بعد 1.5 سے 5.75 ہو گئی تھی ۔ جراحی کے بعد رات ساڑھے 10 بجے مجھے گھر واپس آنے کی اجازت دے دی جائے گی ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی شفاء دينے والا ہے

کہا جاتا ہے کہ جراحی کے بعد 3 سے 7 دن ميں شفاء ہو جاتی ہے ۔ حقيقت کا علم تجربے سے ہی ہو گا

کمپيوٹر تو کئی دن چلا نہيں سکوں گا کيونکہ دوسری منزل پر ہے ۔ ميں نے کئی تحارير محفوظ کی ہوئی ہيں جو ميرے نوکيا ای 5 موبائل فون کے ذريعہ شائع ہو سکتی ہيں بشرطيکہ ايک آنکھ کے استعمال کی اجازت ہو ۔ اس کے علاوہ ہفتہ يا 2 ہفتے اور کچھ نہيں کر سکوں گا