Yearly Archives: 2011

اصل دُشمن

قساد بازاری کيوں ؟
ہم ہر روز بلاناغہ 3 ارب روپے کے نوٹ چھاپ رہے ہيں يعنی سال کے 365 دنوں ميں 10 کھرب 95 ارب [1095000000000] روپے کے نوٹ ۔ اس کا اثر يہ ہوتا ہے کہ روپے کی قدر کم ہوتی جاتی ہے اور عام استعمال کی اشياء مہنگی ہوتی چلی جاتی ہيں ۔ تو قساد بازاری [inflation] کيوں نہ ہو ؟ گيلپ پاکستان 27 جنوری 2011ء کے مطابق پاکستان کی کُل آبادی کے تين چوتھائی کی روزانہ آمدن 200 روپے يا اس سے کم ہے ۔ درميانے درجے کے لوگ غريب اور غريب غريب تر ہوتے چلے جاتے ہيں
يہ نوٹ کون چھپواتا ہے ؟ وہی اصل دُشمن ہے

لوڈ شيڈنگ کيوں ؟
ہمارے قومی پاور کنٹرول سينٹر کے مطابق ملک ميں بجلی پيدا کرنے کی صلاحيت 18167 ميگا واٹ ہے جو کے ملک کی کُل طلب سے 10 فيصد زيادہ ہے ۔ چنانچہ مسئلہ بجلی پيدا کرنے کا نہيں بلکہ يہ ہے کہ پيپکو کا 2 کھرب 50 ارب [250000000000] روپيہ وفاقی حکومت ۔ فاٹا ۔ کے ای ايس ای ۔ حکومتِ بلوچستان و سندھ اور نجی اداروں کے ذمہ واجب الادا ہے ۔ اور پيپکو کے ذمہ واپڈا ۔ آئی پی پيز اور تيل اور گيس کے اداروں کا 1 کھرب 40 ارب [140000000000] روپيہ واجب الادا ہے ۔ ان واجبات کی عدم ادائيگی بجلی کمپنيوں کو پيداروار کم کرنے پر مجبور کرتی ہے اور پھر دھڑا دھڑ لوڈ شيڈنگ ہوتی ہے ۔ مُلکی صنعت تباہ ہوتی ہے اور مُلک مزيد خسارے ميں جاتا ہے
آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی قومی اسمبلی میں پیش کردہ سال 09-2010 کی رپورٹ کے مطابق واپڈا میں ایک سال کے دوران 90 ارب [90000000000] سے زائد کی کرپشن ہوئی اور 60 کروڑ [600000000] روپے سے زائد رقم قواعد و ضوابط کے برعکس خرچ ہوئی ۔ نیلم جہلم ہائیڈرو پراجیکٹ کے آڈٹ کئے بغیر ٹھیکے میں ايک ارب 17 کروڑ [1170000000] روپے سے زائد رقم ادا کی گئی ۔ 29 کروڑ [290000000] روپے کی لگژری گاڑیاں خریدی گئیں جن کی اصل قيمت سے 17 کروڑ [170000000] زائد خرچ کئے گئے ۔ ٹھیکیدارکو قواعد کے برعکس انشورنس کی مد میں 22 کروڑ [220000000] کی ادائیگی کی گئی
اس کا ذمہ دار کون ہے ؟ وہی اصل دُشمن ہے

پاکستان ريلوے کا حال
1 ۔ کُل 540 ڈيزل انجن ہيں جن ميں سے 384 چلنے کے قابل نہيں
2 ۔ کُل 16433 بوگياں ہيں جن ميں سے 8005 چلنے کے قابل نہيں
3 ۔ امريکا نے150 انجن خريد کرنے کيلئے 40 کروڑ ڈالر يعنی لگ بھگ ساڑھے 35 ارب روپے کی پيشکش کی ہے مگر ريلوے کے وزير غلام احمد بلور نے 50 انجن بھارت سے کرايہ پر لينے کا فيصلہ کيا ہے
4 ۔ پاکستان ريلوے کا خسارہ 40 ارب روپيہ ہے
اس گڑبڑ کا ذمہ دار کون ہے ؟ وہی اصل دُشمن ہے

پی آئی اے کا حال
1 ۔ فنی خرابی کے باعث 39 ميں سے 10 ہوائی جہاز اُڑنے کے قابل نہيں
2 ۔ مجموعی نقصان ايک کھرب [100000000000] روپے کو پہنچ رہا ہے
اس نا اہلی کا ذمہ دار کون ہے ؟ وہی اصل دُشمن ہے

حکومتی کارکردگی کا ايک اور سنگِ ميل
مختلف حکومتوں نے 1947ء سے 2008ء تک کُل 60 کھرب [6000000000000] روپے قرضہ ليا جبکہ موجودہ حکومت نے 2008ء سے شروع کر کے 3 سالوں ميں قرضہ 60 کھرب [6000000000000] روپے سے بڑھا کر 120 کھرب [12000000000000] تک پہنچا ديا ہے ۔ يعنی اس وقت پاکستان کا ہر مرد ۔ ہر عورت ۔ ہر بچہ اور ہر بچی 61000 روپے کا مقروض ہے ذرا سوچئے کہ اگر حکومتِ پاکستان اسی طرح قرض ليتی رہی تو نتيجہ کيا ہو گا ؟
اس عياشی کا ذمہ دار کون ہے ؟ وہی اصل دُشمن ہے

ماخذ ۔ ڈاکٹر فرخ سليم کا مضمون Enemy within و ديگر

لڑکپن ۔ بھَولپن يا ظالم دور

ايک پرانا مقولہ ہے ” جس نے جوانی ۔ دولت اور طاقت کی گرمی سہہ لی وہ کامياب ہو گيا”

ميرا مشاہدہ اور مطالعہ بتاتا ہے کہ اس “جوانی” کے پيچھے کارساز دور دراصل “لڑکپن” کا ہوتا ہے اور کسی بھی مرد يا عورت کيلئے يہ بہت اہم دور ہے ۔ عام طور پر لڑکا يا لڑکی اسی دور کے حالات و اثرات سے بنتے يا بگڑتے ہيں ۔ لڑکا لڑکی اسی دور ميں اچھی يا بُری عادات اپناتے ہيں جو بعد ميں اُن کی خصلت بن جاتی ہيں ۔ سگريٹ پينا ۔ چوری کرنا ۔ جھوٹ بولنا اسی دور کی عِلتيں ہيں ۔ اسی دور ميں عصمت لُٹنے کا زيادہ خدشہ ہوتا ہے ۔ اگر اس دور ميں درست رہنمائی مل جائے تو آدمی انسان بن جاتا ہے ۔ بصورتِ ديگر بھٹکنے کا ہر دم احتمال رہتا ہے اور جو بھٹکتے ہيں وہ اس دور کا پھل عام طور پر عمر بھر کاٹ رہے ہوتے ہيں ۔ اللہ جب چاہے کسی کو ھدائت دے دے وہ الگ بات ہے

بيٹی 10 سال کی ہو جائے تو سمجھدار مائيں اُسے اپنے بھائی کے کمرے ميں بھی نہيں سونے ديتيں اور دن کے وقت بھی اگر بہن بھائی کسی کمرے ميں الگ بيٹھے ہوں تو کسی نہ کسی بہانے جھانکتی رہتی ہيں ۔ دو بھائی اس عمر کے اس دور ميں عليحدہ کمرے ميں ہوں تو سمجھدار مائيں اُن پر بھی نظر رکھتی ہيں

استثنٰی تو ہر جگہ اور ہر صورت ميں ہوتا ہے ليکن بات عام طور سے 66 فيصد کے متعلق کی جاتی ہے ۔ مختلف ممالک ميں اور مختلف ادوار ميں جنسی اور نفسياتی لحاظ سے لڑکپن کے دورانيے ميں تھوڑا بہت فرق ہے ۔ ميرے مشاہدہ اور مطالعہ کے مطابق وطنِ عزيز ميں لڑکے کيلئے يہ دور 12 سال کی عمر 18 سال کی عمر تک ہوتا ہے اور لڑکی کيلئے 10 سال سے 19 سال کی عمر تک

اس دورانيے ميں لڑکا سمجھتا ہے کہ سب اُس کی طرف ديکھ رہے ہيں اور اُس کی خواہش بھی يہی ہوتی ہے ۔ لڑکی کا بھی يہی حال ہوتا ہے ايک اضافے کے ساتھ کہ کوئی اُسے محبت کی نظر سے ديکھے ۔ يہ خواہش تو کسی حد تک ہر انسان کے دل ميں ہوتی ہے ليکن لڑکپن ميں يہ خواہش لڑکی کے ذہن پر سوار ہو کر اچھے بُرے يا سچے جھوٹے کی تميز سے اُسے بے نياز کر ديتی ہے ۔ نتيجہ لڑکی کيلئے اچھا نہيں ہوتا

لڑکی کی ايک اور فطری کمزوری يہ ہے کہ ہر 4 ہفتوں ميں چند دن ايسے ہوتے ہيں کہ لڑکی جذبات سے مغلوب ہوتی ہے ۔ اگر اس دوران اُسے کسی لڑکے کا قُرب حاصل ہو جائے تو جلد زِير ہو جانے کا خدشہ ہوتا ہے ۔ چنانچہ لڑکيوں کو لڑکوں کی نسبت زيادہ متانت ۔ بُردباری اور احتياط کی ضرورت ہوتی ہے ۔ عمر کے اسی دور کی لغزش لڑکی کو خود کُشی کی طرف ليجاتی ہے

لڑکے اسی عمر ميں اپنی طرف توجہ مبزول کرانے کيلئے سگريٹ نوشی يا دوسری عِلت شروع کرتے ہيں اور پھر اس عِلت ميں پھنس کر رہ جاتے ہيں

يہ خيال رہنا چاہيئے کہ دودھ زمين پر گر جائے تو اُٹھايا نہيں جا سکتا اسلئے کوشش ہونا چاہيئے کہ دودھ گرنے نہ پائے

لڑکی خواہ کس عمر کی بھی ہو [بلکہ عورت کو بھی] چاہيئے کہ کسی بھی جگہ نامحرم لڑکے يا مرد کے ساتھ اکيلی نہ ہونے پائے ۔ نامحرم لڑکے يا مرد سے کسی دفتری يا اخلاقی مجبوری کے تحت تعلقات بڑھائے تو ايک ہاتھ کا فاصلہ رکھ کر يعنی مناسب جسمانی اور سماجی فاصلہ قائم رکھے

لڑکا بھی اگر احتياط نہ کرے تو بعض اوقات لڑکی کے ہاتھوں خواہشات کا شکار ہو جاتا ہے ۔ گو اُسے نقصان لڑکی کی مانند نہيں ہوتا ليکن اُس کے غلط راہ پر چل نکلنے کا دروازہ کھُل جانے کا انديشہ ہوتا ہے يا بعض اوقات وہ نفسياتی دباؤ کا شکار ہو جاتا ہے ۔ چنانچہ 8 سے 16 سال کے لڑکے کے لئے بھی ضروری ہے کہ کسی بھی جگہ نوجوان لڑکی کے ساتھ اکيلا نہ ہونے پائے

دينی اور سماجی حدود کو غير مسلموں نے ترقی اور آزادی کے نام پر توڑا اور عورت کو چکمہ دے کر مردوں کی جنسی تسکين کا کھلولنا بنا ديا ۔ دُور کے ڈھول سُہانے کے مصداق ہمارے ہاں بھی عورت کی اِس نام نہاد آزادی کا نعرہ کبھی کبھی سننے ميں آتا ہے ۔ حال يہ ہے کہ جنہيں ديکھ کر نقل کی کوشش کی جاتی ہے وہاں آج کے دور ميں سمجھدار عورتيں پرانے ادوار کو حسرت سے ياد کرتی ہيں اور چاہتی ہيں کہ عورت کا اصلی رُوپ واپس آ جائے ليکن عمارت کو گرانا تو آسان ہے مگر اُنہی بنيادوں پر دوبارہ بنانا بہت مُشکل ہوتا ہے

بھُولائے نہ بھُولے

کچھ ايسے واقعات ہوتے ہيں جنہيں آدمی ياد رکھنا چاہتا ہے مگر بھُول جاتا ہے اور پريشان ہوتا ہے
ايسے واقعہ کا کيا کيا جائے جسے آدمی لاکھ بھْولانا چاہے مگر وہ اپنے چھوڑے ہوئے اثرات کے ذريعہ اپنی ياد دلاتا رہے

ايک سال گذر چکا ۔ کہنے کو ايک عام سی بات تھی کہ ميں 28 ستمبر کی شام لاہور ميں خيابانِ جناح پر انتظار ميں کھڑا تھا کہ ٹريفک رُکے اور ميں سڑک پار کروں کہ ايک موٹر سائيکل سوار نے ٹکر مار دی تھی جس کا احوال ميں لکھ چکا ہوں ۔ ميں اس واقعہ کو بھُولنا چاہتا ہوں مگر اس کے مندرجہ ذيل اثرات بار بار اس کی ياد دلا کر مجھے پريشان کرتے ہيں

1 ۔ ميری دونوں آنکھوں کی بينائی 1.5 تھی جو کہ ايک آنکھ کی 5.75 ہو گئی ۔ ماہر امراض چشم نے کہا ہے کہ ليزر سرجری سے ٹھيک نظر آنے لگے گا ۔ واللہ اعلم ۔ 3 اکتوبر کو سرجری کيلئے ڈاکٹر سے وقت لينا ہے

2 ۔ ميری قوتِ شامہ يعنی سُونگھنے کی حِس ہميشہ کيلئے ختم ہو چکی ہے يعنی مجھے نہ خُوشبُو کا کچھ احساس ہوتا ہے نہ بدبُو کا

3 ۔ ناک کے اُوپر والے حصے ميں متواتر درد رہتا ہے جس کے باعث ناک صاف کرنے ميں تکليف ہوتی ہے ۔ اللہ کا شکر ہے کہ سوائے ايک بار 2 دن کے زکام نہيں ہوا ورنہ مُشکل بن جاتی ۔ ڈاکٹر نے ايک مرہم ديا ہے جو لگا رہا ہوں ۔ اللہ شفاء عطا کرنے والا ہے

4 ۔ ياد داشت جاتی رہی اور سوچنے کی طاقت معذور ہو گئی

پھر بھی ميں اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کا جتنا شُکر ادا کروں کم ہے ۔ اگر اپاہج ہو جاتا تو ميں کيا کرتا

دماغ کيلئے نقصان دہ عادات

1 ۔ ناشتہ نہ کرنے يا بہت دير سے کرنے سے خون ميں شکر کی سطح [blood sugar level] معمول سے کم ہو جاتی ہے جس کے نتيجہ ميں دماغ کو افزائشی مواد [nutrients] ميں کمی ہو جاتی اور دماغ ميں بگاڑ [brain degeneration] پيدا ہوتا ہے

2 ۔ زيادہ کھانے [overeating] سے دماغ کی شريانيں [brain arteries] سخت ہو جاتی ہيں جس کے نتيجہ ميں دماغی صلاحيت کو بيماری لاحق ہو جاتی ہے

3 ۔ تمباکو نوشی [Smoking] متعدد دماغی سُکڑاؤ [multiple brain shrinkage] پيدا کرتی ہے جس کے نتيجہ ميں الزائمر کی بيماری [Alzheimer disease] ہو سکتی ہے

4 ۔ زيادہ شکر والی خوراک کے استعمال کی زيادتی سے خون ميں شکر کی سطح مطلوب مقدار سے بڑھ جاتی ہے جو لحميات اور افزائشی مواد [proteins and nutrients] کے انجذاب [absorption] کو روکتی ہے جس سے اصل غذائيت ميں کمی [malnutrition] ہوتی ہے اور اس کا دماغ کی نشو و نما پر بُرا اثر پڑتا ہے

5 ۔ انسان کے بدن ميں دماغ باقی عضاء کی نسبت زيادہ آکسيجن ليتا ہے ۔ آلودہ ہوا ميں سانس لينے سے دماغ آکسيجن کی مطلوبہ مقدار سے محروم رہتا ہے جس کے نتيجہ ميں دماغ کی صلاحيت يا کارکردگی ميں کمی آتی ہے

6 ۔ مناسب نيند کرنے سے دماغ کو آرام ملتا ہے اور اس کی افزائش مناسب ہوتی ہے ۔ نہ سونا يا بہت کم سونا دماغ کے خُليئوں کے فنا ہونے ميں سُرعت پيدا کرتا ہے

7 ۔ 6 سے 8 گھنٹے رات ميں اور ايک گھنٹہ دن ميں سونا بہت ہوتا ہے ۔ زيادہ سونے سے جسم اور پھر دماغ پر چربی چڑھ جاتی ہے جو دماغ کو کمزور کرتی ہے

8 ۔ بيماری کے دوران دماغ کا زيادہ استعمال يعنی زيادہ باتيں کرنے يا کتاب پڑھتے رہنے سے دماغ کی تاثير [effectiveness] کم ہوتی ہے اور دماغ پر مزيد بُرے اثرات مرتب ہو سکتے ہيں

9 ۔ نشاط انگيز [stimulation] غور و فکر دماغ کی غذا ہے ۔ اس سے احتراز دماغ کو سُکيڑ ديتا ہے

آدمی کی پہچان

جو نہ جانے اور نہ جانے کہ وہ نہ جانے
وہ بيوقوف ہے ۔ اس سے دُور رہيئے

جو جانے مگر نہ جانے کہ جانے ہے
وہ سويا ہے ۔ اسے جگا ديجئے

جو نہ جانے اور جانے ہے کہ وہ نہ جانے
سادہ طبيعت ہے ۔ اسے تعليم ديجئے

جو جانے ہے اور جانے ہے کہ جانے ہے
وہ عقلمند ہے ۔ اس کی تقليد کيجئے

واويلا اور حقيقت

دورِ جديد واويلے کا دور ہے ۔ جتنا زيادہ اور جتنا بلند آواز واويلا کيا جائے اتنا ہی کامياب رہتا ہے ۔ عصرِ حاضر کا تعليم يافتہ آدمی جو کمپيوٹر کے ذريعہ دنيا بھر کی تمام معلومات رکھنے کا اپنے تئيں بھرم رکھتا ہے وہ بھی اس واويلے کے سامنے ڈھير ہو جاتا ہے اور وہی آوازيں لگانا شروع کر ديتا ہے ۔ سياسيات تو ايک طرف اس واويلے سے ادارے اور عدالتيں بھی محفوظ نہيں

اگست 2010ء ميں صوبہ پنجاب کے شہر سيالکوٹ ميں دو بھائيوں مغيث اور منيب کو بر سرِ عام زد و کوب کيا گيا تھا جس کے نتيجہ ميں دونوں ہلاک ہو گئے تھے ۔ اس پر صوبہ سندھ کے شہر کراچی سے واويلا شروع ہوا جو سارے سندھ ميں پھيلنے کے بعد اسلام آباد ميں بھڑک اُٹھا تھا ۔ اسلام آباد کے ہلکارے اسے لے کر پنجاب کے شہر شہر ميں بھی تقسيم کرتے رہے تھے ۔ “اپنی مثال آپ” قائد نے تو فوجی کاروائی کا سنديسہ بھی دے ديا تھا

سيالکوٹ ميں مغيث اور منيب کی ہلاکت کے مقدمہ ميں انسداد دہشتگردی کی خصوصی عدالت کے جج نے فیصلہ سنایا جس کے مطابق 7 ملزموں کو چار چار بار سزائے موت سنائی گئی ہے جبکہ 6 ملزموں کو چار چار مرتبہ عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے ۔ سابق ڈی پی او وقار چوہان ۔ سابق ایس ایچ او رانا الیاس اور دیگر 7 اہلکاروں کو تین تین سال قید اور پچاس پچاس ہزار روپے جرمانہ کی سزا سنائی گئی ہے ۔ کُل 28 ملزموں میں سے 22 کوسزا سنائی گئی ہے، 5 ملزم بری کئے گئے ہیں جبکہ ایک ملزم کی چند دن قبل دوران حراست طبعی موت واقع ہو گئی تھی

دوسری طرف صوبہ سندھ کے شہر کراچی ميں امن و امان کی حالت دِگرگُوں تھی اور سال بھر اُس وقت تک دِگرگُوں رہی جب تک عدالتِ عظمٰی کراچی ہی ميں نہ بيٹھ گئی مگر مُجرموں کے خلاف آج تک کوئی کاروائی عمل ميں نہيں لائی گئی اور عدالتِ عظمٰی کے سامنے ٹسوے بہانے کئے جا رہے ہيں

سپریم کورٹ نے کراچی بدامنی ٹارگیٹ کلنگ ازخود نوٹس کیس میں کہا ہے کہ بھتہ مافیا اب بھی سرگرم ہے ۔ عدالت میں ایس ایچ او کی روز مرہ کی تیار کردہ رپورٹ پیش کی جا رہی ہے جس کا کوئی فائدہ نہیں ۔ ہمیں نتیجہ خیز رپورٹ چاہيئے ۔ عدالت کو وہ رپورٹس نہیں چاہئیں جو آرمی میں سِک رپورٹس [Sick Reports] کہلاتی ہیں ۔ عدالت یہ جاننا چاہتی ہے کہ کتنے ملزمان پولیس کی تحویل میں ہیں ؟ اور کتنوں کو جیل بھیجا گیا ؟ اور کتنے مقدمات میں پیشرفت ہوئی ہے ؟ پولیس تمام سیاسی مصلحتوں سے آزاد ہوکر ملزمان کے خلاف کارروائی کرے ۔ ہمیں اس طرح کی تفتیش چاہيئے جیسے سانحہ سیالکوٹ میں کی گئی ۔ 85 فیصد مقدمات میں درست خطوط پر تفتیش نہ ہونے کے باعث ملزمان بچ جاتے ہیں پولیس میں بھرتیوں کے عمل کو شفاف بنایا جائے

ميرا مزاج بچپن سے عاشقانہ ہے

امريکا کے عراق ۔ پھر افغانستان اور اُس کے بعد لبيا پر حملوں کا جواز انسانی ہمدردی اور جمہوری ترجيح کو بتايا جاتا ہے ليکن حقيقت ميں يہ سب کچھ صرف مال جمع کرنے کے لالچ سے زيادہ کچھ نہيں اور يہ کوئی نئی بات نہيں امريکا ہميشہ سے ايسا ہی کرتا آيا ہے

ميرے اس خيال کا ايک اور ثبوت اللہ سُبحانُہُ و تعالی نے مہياء کر ديا ہے ۔ پڑھنا جاری رکھيئے

امریکا میں ایک ایسا انکشاف ہوا ہے جسے اس روئے زمین کا سب سے زیادہ ”خطرناک اور حساس “ انکشاف قرار دیا جا رہا ہے ۔ امریکی حکومت کی خفیہ دستاویزات کے مطابق امریکا نے 1930ء میں برطانیہ پر کیمیائی ہتھیاروں اور بمباری کا بڑا منصوبہ بنایا تھا

برطانیہ کے خلاف جنگ کا یہ خفیہ منصوبہ چینل 5 پر پہلی بار ڈاکیو منٹری کی صورت میں سامنے آیا ہے جسے امریکی فوج کا اب تک کا سب سے خفیہ اور حساس منصوبہ قرار دیا جا رہا ہے ۔ خفیہ دستاویز کے مطابق منصوبے پر عمل درآمد کیلئے 570 ملين [5 کروڑ 70 لاکھ] ڈالر کی رقم بھی مختص کی گئی تھی جو اس زمانے میں بہت بڑی رقم تصور کی جاتی تھی

سُرخ مملکت پر جنگ [General Douglas MacArthur] کے نام سے بنائے گئے اس منصوبے میں کینیڈا اوردیگر اہم جگہوں پر موجود برطانوی فوجی اڈوں اور صنعتی اور تجارتی مراکز کو نشانہ بنانا شامل تھا ۔ دستاویز کے مطابق کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال بھی منصوبے کا حصہ تھا

اس خفیہ منصوبے کی خاص بات یہ ہے کہ اس پر کسی چھوٹے موٹے فوجی افسر کے نہیں بلکہ اس زمانے کے افسانوی غازی [Legend] سمجھے جانے والے جنرل ڈگلس ميک آرتھر [War on the Red Empire] کے دستخط ہیں

امریکی تجزیہ کاروں کے مطابق 1930ء میں امریکی معیشت کی اَبتری اور غیر یقینی سیاسی صورت حال کے باعث امریکی حکام ایسا منصوبہ بنانے پرمجبورہوئے

تفصيل يہاں کلِک کر کے پڑھيئے