Yearly Archives: 2010

وہ بھی چھوڑ گئے

اٹارنی جنرل انور منصور جنہوں نے کل عدالتِ عظمٰی ميں بيان ديا تھا کہ وزيرِ قانون اور وزارتِ قانون اُن کی راہ ميں روذے اٹکارہے ہيں ۔ آج وہ اس رويّہ کے خلاف مستعفی ہو گئے ہيں

میرا دوسرا بلاگ ” حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے ۔ Reality is often Bitter
” پچھلے ساڑھے پانچ سال سے معاشرے کے کچھ بھیانک پہلوؤں پر تحاریر سے بھر پور چلا آ رہا ہے ۔ اور قاری سے صرف ایک کلِک کے فاصلہ پر ہے

موبائل فون سے دو دو ہاتھ

موبائل فون کی تين بيمارياں ہيں
1 ۔ مختصر پيغامات ۔ ايک ۔ کمپنی کے اشتہارات ۔ دوسرے ۔ جو فارغ لوگ بھيجتے ہيں
2 ۔ دھوکہ والی کالز
3 ۔ مِسڈ کالز

ميں اُلٹی ترتيب سے چلتا ہوں ۔ ہم رات کو نو دس بجے تک سونے کے عادی ہيں ۔ دو تين رات گيارہ بارہ بجے کے درميان مِسڈ کالز آئيں تو ميں نے صبح کے وقت اُس نمبر پر ٹيليفون کيا ۔ خاتون نے ہيلو کہا ميں نے وجہ بتائی تو کھِلکھلا کر ہنس پريں اور کہنے لگيں “يہاں سے تو کسی نے نہيں کيا ۔ ميں نے کہا “اگر اب اس نمبر سے کال آئی تو اس کی سزا کا بندوبست کرنا پڑے گا”۔ اگلی رات ايک اور دو بجے کے قريب اُسي نمبر سے مسڈ کال آئی ۔ اگلے دن صبح ميں نے پی ٹی اے کے چيئرمين کو ای ميل بھيجی اور اس کا نمبر بلاک کر ديا گيا ۔ اس طرح ميں پچھلے چار سال ميں چار نمبر بلاک کروا چکا ہوں جن ميں سے تين خواتين کے تھے اور ايک لڑکے کا

ايک سال قبل ايک کال آئی “ميں فلاں کمپنی سے بول رہا ہوں ۔ سيل پروموشن کے سلسلہ ميں آپ کے نمبر پر انعام نکلا ہے ۔ آپ فلاں نمبر پر کال کيجئے تاکہ انعام کنفرم کيا جائے”۔ ميں نے اُس کی بجائے جس موبائل کمپنی کا نمبر تھا اُن کو شکائت بھيجی اور نمبر بلاک کر ديا گيا ۔ 22 مارچ 2010ء کو ايک کال آئی “ميں وارد کے ہيڈ آفس سے بول رہا ہوں ۔ سيل پروموشن کے سلسلہ ميں آپ کا پانچ لاکھ کا انعام نکلا ہے ۔ آپ اسی نمبر پر کال کيجئے تاکہ آپ کا انعام کنفرم کيا جائے”۔ ميں نے وارد کے منيجر ريگوليشنز کو ای ميل بھيجی اور دوسرے دن اُس کا جواب آ گيا کہ نمبر بلاک کر ديا گيا ہے

موبائل فون کمپنی کے اپنے اشتہارات کا تو ميں کچھ کر نہيں سکتا ۔ البتہ فارغ لوگوں کو ميں کم ہی جراءت کرنے ديتا ہوں ۔ ايک ميرا ہم زُلف ہے ۔ اُسے اسی ماہ يو فون والوں نے 3000 مختصر پيغامات بھيجنا مُفت کر ديا ۔ اُس نے پچھلے چار دن سے پريشان کيا ہوا ہے ليکن چند پيغامات اس قابل ہيں کہ يہاں لکھے جائيں

سب سے اچھا ہے
ہم تو مِٹ جائيں گے اے ارضِ وطن ليکن تم کو
زندہ رہنا ہے قيامت کی سحر ہونے تک

ايک آدمی نے دريا سے مچھلی پکڑی اور خوش خوش گھر آيا ۔ ديکھا تو بجلی بند ۔ گيس کم ۔ اور تيل بھی ختم ۔ واپس گيا اور مچھلی کو دريا ميں پھينک ديا ۔ مچھلی اُچھل کر پانی سے باہر آئی اور نعرہ لگايا “جيو زرداری”

کون کہتا ہے کہ پاکستان ميں غم ہيں خوشياں نہيں ۔ بجلی آنے کی خوشی ۔ بازار سے ہو کر زندہ واپس گھر آنے کی خوشی ۔ مسجد ميں نماز کے بعد خودکُش حملے سے بچ جانے کی خوشی ۔ بس سے اُترنے کے بعد اپنے موبائل کو اپنی جيب ميں پانے کی خوشی ۔ اتنی خوشياں ہونے کے باوجود پاکستانی عوام خوش نہيں

نيند اور سُستی ہماری بہت بڑی دُشمن ہيں ۔ علامہ اقبال
ہميں اپنے دُشمن سے بھی پيار کرنا چاہيئے ۔ قائد اعظم
دسو ہَن بندہ کِدی منّے

A mistake which makes you sober is much better than an achievement which makes you proud

الطاف بھائی حج کرنے گئے ۔ جب وہ شيطان کو پتھر مارنے لگے تو آواز آئی “بھائی ی ی ی ی ی ی ی ی ی ۔ آپ نے يہاں آنے کی زحمت کيوں کی ۔ مجھے لندن بُلوا ليا ہوتا”

فقير “بھوکا ہوں ۔ اللہ کے نام پر تھوڑا سا کھانا دے ديں”
باجی “کھانا ابھی نہيں پکا”
فقير “باجی ۔ نمبر لکھ ليں جب پک جائے تو مِسڈ کال دے دينا”

سال 1990ء
“يار ۔ آج بجلی کيوں بند ہوئی ہے ؟”
“ٹرانسفارمر بدل رہے ہوں گے”

سال 2010ء
“يار ۔ يہ بجلی کب آئے گی ؟”
“جب ہمارے محلے کی بند ہو گی تو تمہارے محلے کی آئے گی”

سال 2020ء
” يار ۔ صبح سے بجلی بند ہے ۔ کب آئے گی”
“آج ملتان کی باری ہے اور کل لاہور کی ۔ سو کل تمہاری بجلی آئے گی اور ملتان کی بند ہو گی”

سال 2030ء
“يار سُنا ہے کہ بجلی نام کی کوئی چيز ہوا کرتی تھی ۔ جس سے گھر جگ مگ کرتے تھے”
“چُپ کر کے سو جا ۔ تمہيں ايسے ہی کسی نے بہکا ديا ہے”

چھوٹی چھوٹی باتيں ۔ خوشی اور صحت کاراز

خاميوں سے پاک صرف اللہ کی ذات ہے ۔ اس کے بعد اللہ کے برگزيدہ بندے يعنی انبیاء عليہم السلام ہيں ۔ باقی ہر انسان ميں خامياں موجود ہوتی ہيں ۔ اگر غور کيا جائے تو اکثر انسانوں ميں خوبياں اُس کی خاميوں سے زيادہ بلکہ بہت زيادہ ہوتی ہيں

نجانے کيوں انسان کی عادت ہے کہ دوسرے انسانوں کی خاميوں پر نظر رکھتا ہے اور اس کے نتيجہ ميں پریشان ہوتا ہے ۔ فرض کريں کہ انسان کی کُل خواص 100 ہيں ۔ اب اگر ایک آدمی ميں 15 خامياں ہيں تو ان 15 کی وجہ سے پريشان ہونے کی بجائے اُس آدمی کی 85 خُوبيوں پر توجہ مرکوز کی جائے تو اس کا نتيجہ ايک خوشگوار احساس ہو گا جس کا صحت پر اچھا اثر پڑے گا اور ساتھ ہی اچھے تعلقات بھی استوار ہوں گے

خوشی اور صحت دوسروں کی خاميوں کی بجائے اُن کی خوبيوں پر نظر رکھنے سے حاصل ہوتی ہے

میرا دوسرا بلاگ ” حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے ۔ Reality is often Bitter
” پچھلے ساڑھے پانچ سال سے معاشرے کے کچھ بھیانک پہلوؤں پر تحاریر سے بھر پور چلا آ رہا ہے ۔ اور قاری سے صرف ایک کلِک کے فاصلہ پر ہے

اين جی اوز [NGOs] اور حقوقِ نسواں

پچھلے سال 2 اپريل کو برطانيہ کا گارجين اخبار اچانک  ايک وڈيو سامنے لايا کہ طالبان نے ايک 17 سالہ لڑکی کو برسرِ عام کوڑے مارے اور اس کی چيخيں نکلتی رہيں ۔ اس وڈيو کو پاکستان کے ٹی وی چينلز نے بار بار دکھايا ۔ جيو نيوز پر يہ وِڈيو ہر پانچ منٹ کےوقفہ سے سارا دن دکھائی جاتی رہی ۔ لاتعداد مذاکرے اس سلسلہ ميں منعقد کئے گئے اور طالبان کو خُوب خُوب کوسا گيا ۔ حقوقِ نسواں کی ايک نام نہاد علمبردار  ثمر من اللہ نے اس کی چیخ چيخ کر اشتہار بازی کی ۔ اسلام کے نام ليواؤں کی وحشتناکيوں کے خلاف مظاہرے ہوئے اور جلوس نکالے گئے ۔ اس سب غوغا کے نتيجہ ميں عدالتِ عظمٰی نے اس کا ازخود نوٹس لے کر تحقيقات کا حُکم دے ديا

ميں نے اس پر لکھا تو مجھ پر طنز کئے گئے ۔ آخر وہی نکلا جو ميں نے لکھا تھا ” کسی نے کہا کُتا کان لے گيا اور کُتے کے پيچھے بھاگ پڑے يہ ديکھا ہی کہ کان تو دونوں اپنی جگہ پر موجود ہيں”

تحقيقات ہوئيں مگر منظرِ عام پر آنے ميں 10 ماہ لگ گئے ۔ وڈيو کی مدد سے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے وہ دو بچے ڈھونڈ نکالے جو موقع پر موجود تھے اور ان کی مدد سے جس شخص نے وڈيو بنائی تھی اور جس عورت کو کوڑے مارے گئے تھے انہيں بھی گرفتار کر ليا ۔ جس شخص نے يہ وڈيو بنائی تھی اُسے ايک اين جی او نے پانچ لاکھ روپے اس ڈرامہ کيلئے ديئے تھے ۔ عورت کو ايک لاکھ اور دونوں بچوں کو پچاس پچاس ہزار روپے ديئے گئے تھے

مکمل خبر يہاں کلک کر کے پڑھيئے

نظامِ تعلیم

عصرِ حاضر میں جدید تعلیم کا بہت غُوغا ہے لیکن جدیدیت کے نام پر نظامِ تعلیم کا اُس سے بھی بُرا حال کر دیا گیا ہے جو انگریز حُکمرانوں نے اُنیسویں صدی میں ہندوستان کو مکمل قابو میں کرنے کیلئے بنایا تھا ۔ ذیل میں اس سلسلہ میں پاکستان بننے سے بہت پہلے لکھی گئی ایک کتاب کے دو اوراق ملاحظہ کیجئے ۔ یہاں میں واضح کر دوں کہ اکبر الٰہ آبادی 16 نومبر 1846ء کو پیدا ہوئے اور 1921ء میں وفات پائی

Education1

Education2
بشکریہ ۔ باذوق صاحب

بشر ۔ عتاب اور ڈرامہ باز

ابھی سے ہے يہ حال تو آگے جانے کيا ہوئے

دوتين ہفتوں سے ميرا يہ بلاگ ميری قوم کی طرح اپنی مرضی کا مالک بنا ہوا تھا ۔ کبھی کھُلتا کبھی نہ کھُلتا ۔ وجہ سمجھ نہيں آ رہی تھی ۔ پانچ چھ روز قبل سرور کے مالک سے رابطہ کيا ۔ اُس نے بتايا کہ يہ مسئلہ ڈی اين ايس رُوٹِنگ [DNS Routing ] کا ہے ۔ امريکا ميں سارے سرور اَپ گريڈ کر ديئے گئے ہيں اور تمام آئی ايس پيز نے ڈومين کے سلسلہ ميں کچھ اپ گريڈ کرنا تھا ۔ جنہوں نے نہيں کيا اُنہيں استعمال کرنے والوں کو يہ مسئلہ درپيش ہے ۔ بہرحال اُس کے بعد دو دن ميرا بلاگ کھُلتا رہا پھر وہی ہَٹ ۔ ميں نے بہت سے دوستوں کو ای ميل ميں مدد کی درخواست کی تھی جس سے يہ بات سامنے آئی ہے کہ جن کا آئی ايس پی ہے پی ٹی سی ايل يا وہ جو پی ٹی سی ايل سے روٹ ہوتی ہے مثال کے طور پر ورڈ کال۔ آج صبح 7 بجے نہيں کھُلا تو رابطہ کيا تو اُسی وقت چالو ہو گيا ۔ مگر ۔ ۔ ۔ بجلی کا آوا گوَن شروع ہو گيا

جمعہ اور ہفتہ کی درميانی رات سے لاہور پر عتاب نازل ہو چکا ہے ۔ پيپکو ہی بجلی بند کرنے کيلئے کم نہ تھی کہ مرکزی حکومت کا ايک ہتھيار نيشنل پاور کنٹرول سينٹر نے لاہور شہر کے 18 اور لاہور کے مضافات کے 9 گرڈ سٹيشنوں کو بجلی کی سپلائی باوجود پيپکو کے منع کرنے کے بند کر دی ہوئی ہے جس کے نتيجہ ميں لاہور شہر ميں 24 گھنٹوں میں سے 18 گھنٹے بجلی بند رہتی ہے وجہ بجلی کی کمی بتائی گئی ہے جبکہ اسلام آباد ميں 24 گھنٹوں ميں صرف 5 گھنٹے بجلی بند رہتی ہے ۔ حالت يہ ہے کہ ايک گھنٹہ بجلی ہوتی ہے جس کے بعد ايک يا 2 يا 3 يا 4 گھنٹے بجلی نہيں ہوتی

شايد اسی سے عوام کی نظر ہٹانے کيلئے پچھلے ہفتے  کو مشہور ڈرامہ بازوں نے ايک منظر پيش کيا کہ اٹھارہويں آئينی ترميم پيش کی جا رہی ہے اور صدر صاحب جائنٹ سيشن سے خطاب کريں گے ۔ اس پر نواز شريف نے پريس کانفرنس کر ڈالی اور تمام توپوں کا رُخ نواز شريف کی طرف ہو گيا ۔ بادل چھٹے ہيں تو معلوم ہوا کہ اٹھارويں ترميم تو ابھی تيار ہی نہيں ہوئی کيونکہ مختلف سياسی جماعتوں کی طرف سے اُٹھائے گئے نقاط کا ابھی فيصلہ ہونا باقی ہے ۔ اٹھارويں ترميم اسمبلی ميں پيش کرنے اور صدر کے خطاب کی سمری وزيراعظم نے صدر کو بھيجنا ہوتی ہے اور وزيراعظم نے ايسی کوئی سمری نہيں بھيجی تھی

ہم عوام صرف اتنا ہی صدر صاحب اور اُن باقی اداکاروں سے کہہ سکتے ہيں ” اس دل سے کھيلتے ہو بار بار کس لئے “

کزن ميرج ۔ ايک ڈاکٹر کا تبصرہ

ميری تحرير کزن ميرج پر متعلقہ مضمون ميں اعلٰی تعليم يافتہ اور 50 سالہ تجربہ رکھنے والے ڈاکٹر وھاج الدين احمد صاحب نے تبصرہ کيا ہے جو ميں نقل کر رہا ہوں ۔ اس کے بعد کسی کے دِل ميں کوئی خدشہ کزن ميرج کے متعلق نہيں رہنا چاہيئے ۔ 9 ستمبر 2004 ء سے 18 اگست 2006 تک ميں پاکستانی معمر ترين بلاگر تھا ۔ 19 اگست 2006ء کو ڈاکٹر وھاج الدين احمد صاحب معمر ترين پاکستانی بلاگر بن گئے ۔ ڈاکٹر وھاج الدين احمد صاحب نے اپنا اُردو بلاگ 14 ستمبر 2009ء سے شروع کيا

ڈاکٹر وھاج الدين احمد صاحب کا تبصرہ

مختصرا” عرض ہے
اب جب کہ انسان کا سارا جینوم [Genome۔ والَد يا والدَہ سے ايک کَروموسوم کا مُکَمَّل سيٹ جو اولاد ميں گيا ہو] نکالا جا چکا ہے اوپر لکھے ہوئے تمام تبصرے میرے خیال میں نامکمل ہیں

اجمل بھائی ۔ آپ کا مضمون بھی نا مکمل کیونکہ ان میں بنیادی کمی ہے آپ نے اپنے تجربات لکھے ہیں پنسلین والا وغیرہ جو سب اس لئے ہوئے کہ ڈاکٹرکی معلومات پوری نہیں تھیں ان کا تعلق زیر بحث ٹاپک سے نہیں ہے آپ کی انیکڈوٹس [واقعہ ۔ قصہ ۔ روائت] ہیں جو صرف مثال کے طور پر پیش کی جا سکتی ہیں مگر اصول بنانے میں کام نہیں آ سکتیں

یہ کہنا کہ کزن میرج کی وجہ سے بچوں میں کند ذہنی یا اور قسم کی تکلیف ہو جاتی ہے- غلط ہے بالکل اسی طرح یہ کہنا بھی غلط ہوگا کہ خاندان سے باہر شادی کرنے سے بچے غیر صحتمند یا ناقص العقل ہونگے

اب آٰئیں مضمون کی طرف ۔ تو صرف یہ کہا جائےگا کہ خاندان میں شادی کرنے سے جو نقائص خاندان میں موجود ہیں ان کےظہور پذیر ہونے کے چانس [مواقع ] زیادہ ہیں اور جو اچھی چیزیں ہیں ان کے ظاہر ہونے کے بھی چانس زیادہ ہیں میرے اپنے خاندان میں آپ کے خاندان جیسی مثالیں ہیں میری چھ بہنوں میں سے دو ناقص ا لعقل تھیں میرے والدین فرسٹ کزن تھے

اس کے باوجود میں اور میرے بڑے بھائی کزن میرج کے خلاف نہیں ھوئے کیونکہ ہماری سوچ تھی کہ اللہ پہ بھی چانس لینا چاہیئے میری اور میرے بڑے بھائی کی بحث رہی تھی کیونکہ ہم دونوں کے ای [کنگ ايڈورڈ ميڈيکل کالج] کے گريجوئیٹ ہیں اور ہم نے متفقہ فیصلہ کیا تھا ۔ میرے بڑے بھائی کے بيٹے اور بڑی بہن کی بيٹی کی شادی ہوئی اور ماشاء اللہ ان کے نو بچوں میں سے ایک بھی ناقص العقل نہیں ۔ میرے ذہن میں کوئی اچھا سائنٹفک مضمون نہیں ہے جس کا حوالہ دے سکوں

تو یہ کہنا کہ چانسز زیادہ ہیں کسی حد تک درست ہوگا لیکن یہ کہنا غلط ہے کہ کزن میرج کی وجہ سے بیماری پیدا ہوتی ہے۔ میں اس معاملے میں بہت کچھ پڑھ چکا ہوں اور ابھی تک پڑھ رہا ہوں خصوصا” “آلھائمر [Alzheimer’s ] ” بیماری کا سنا ہوگا آپ نے ۔ اس پر پچھلے 15 – 20 سالوں میں بہت ریسرچ ہوئی تھی۔ امریکہ میں بیسویں صدی کی آخری دہائی کو “ڈیکیڈ آف دی برین [Decade of the brain] قرار دیا گیا تھا اور۔۔۔۔ دراصل میرا فیلڈ ہے معاف کیجئےضرورت سے زیادہ لکھ گیا