Yearly Archives: 2010

SJK کون ہيں ؟؟؟ اور مدد کی ضرورت

جب مجھے اپنے بلاگ پر کوئی پرانی تحرير تلاش کرنا ہوتی تھی تو اس کا عنوان گوگل ميں لکھ کر تلاش کرتا تو اس کا ربط مل جاتا تھا ۔ کچھ دن قبل مجھے ضرورت پڑی تو ميں نے اسی طرح تلاش کرنے کی کوشش کی مگر نہيں ملا ۔ پھر ميں نے بلاگ کا عنوان ” ميں کيا ہوں” لکھ کر تلاش کيا تو بھی کچھ نہ ملا ۔ آج ميں نے اپنا نام اُردو ميں لکھ کر تلاش کيا تو کچھ پوسٹس ظاہر ہوئيں

ميں اس وقت حيران ہوا جب ميرے نام کے ساتھ اُردو مجلس کا نام بھی آيا جبکہ عرصہ ہوا احتجاج کے طور پر ميں نے اُردو محفل چھوڑ کر اپنی ساری تحارير مٹا دی تھيں ۔ اس ربط کو کھولا تو SJK صاحب نے ميرے بلاگ سے وہاں کافی ساری تحارير ميرے نام سے نقل کی ہوئی تھیں ۔ يہ ميرے مہربان کون ہيں ؟

مدد چاہيئے
کوئی صاحب اس سلسلہ ميں ميری مدد فرمائيں کہ کيا ہوا ہے جس کی وجہ سے ميرا بلاگ گوگل سرچ سے باہر ہو گيا ہے اور يہ کہ ميں کيا کروں کہ مجھے پہلے کی طرح بلاگ پر اپنی تحارير کے ربط گوگل سرچ پر مل جايا کريں ؟

کشمير ميں موت کا سفّاکانہ رقص جاری

جموں و کشمیر کے شمالی قصبہ سوپور میں فورسز کے ہاتھوں معصوم نوجوانوں کی پے در پے ہلاکتوں کے خلاف تشدد اور زور دار احتجاجی مظاہروں کی تازہ لہر کے بیچ سوموار سی آر پی ایف نے سوپور کی طرف مارچ کررہے دو جلوسوں پر اندھادھند فائرنگ کرکے 9 سالہ کمسن بچے اور ایک 17 سالہ نوجوان کو موت کی ابدی نیند سلا دیا

تفصيلات پڑھنے کيلئے يہاں کلک کيجئے

سکھوں کی باتيں

محمد رياض شاہد صاحب نے سوہنا پاکستان کے عنوان کے تحت سکھوں کے متعلق لکھا تھا ۔ اُن کی تحرير پڑھتے پڑھتے مجھے کچھ پرانے واقعات ياد آئے ۔ ميں نے وعدہ کيا تھا لکھنے کا ۔ الحمدللہ آج وعدہ پورا ہونے جا رہا ہے

آدھی صدی قبل جب ميں انجنيئرنگ کالج لاہور ميں زيرِ تعليم تھا ميں لاہور سے راولپنڈی روانہ ہونے کے کيلئے گورنمنٹ ٹرانسپورٹ کے اڈا پر پہنچا جو اُن دنوں ريلوے سٹيشن کے سامنے ہوتا تھا ۔ ميں نے پہلے سے نشست محفوظ کروائی ہوئی تھی مگر وہاں پہنچ کر مجھے کہا گيا “ذرا رُک جائيں”۔ بس چلنے کا وقت ہو گيا ۔ ميں نے دبے الفاظ ميں احتجاج کيا ۔ بس کے اندر سے آواز آئی “کيا بات ہے ؟” کنڈکٹر نے کہا ايک سواری ہے جس نے پہلے سے ٹکٹ ليا ہوا ہے”۔ پھر آواز آئی “کون ہے ؟” مجھے کنڈکٹر نے سامنے کيا ۔ ميں نے ديکھا کہ پوری بس سکھ عورتوں اور مردوں سے بھری ہے ۔ ايک بزرگ سکھ نے اپنے سے بڑے بزرگ سکھ سے کہا “کوئی گل نئيں جے اک سفر وچ تريمت نال وچھوڑا ہوے”۔ وہ صاحب اپنی بيوی کے ساتھ بيٹھے تھے ۔ مطلب تھا کہ اپنی بيوی کو پيچھے عورتوں ميں بھيج ديں مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوئے پھر کسی اور بزرگ نے اُن کی محبت پر جملہ کسا مگر کوئی اثر نہ ہوا ۔ چند منٹ چہ مے گوئياں ہوئيں پھر ايک عورت نے کہا “کوئی گل نيئں اپنا وير اے “۔ پھر اپنے ساتھ والی عورت کو پيچھے بھيجتے ہوئے کہا ” آ وير ايتھے بہہ جا ۔ ساری واٹ کھلا تے نئيں رہنا”۔ ميں خاموش کھڑا رہا ۔ پھر بس ميں کافی ہلچل ہوئی ۔ ايک جوان نے اُٹھ کر کسی کو اِدھر سے اُدھر کسی کو اُدھر سے اِدھر کيا سوائے اُس بزرگ ترين جوڑے کے سب عورتوں کو اکٹھا کر کے آگے ايک نشست ايک مرد کے ساتھ خالی کرا دی جہاں ميں بيٹھ گيا ۔ وہ سفر بڑا ہی اچھا کٹا سارا راستہ لطيفے سنتے وقت کا پتہ ہی نہ چلا ۔ اُس زمانہ ميں لاہور سے اسلام آباد بس 7 گھنٹے ميں پہنچتی تھی

ميں پاکستان آرڈننس فيکٹری ميں اسسٹنٹ ورکس منيجر تھا اور واہ چھاؤنی ميں اپنی بہن بہنوئی کے ساتھ رہتا تھا ۔ 1964ء ميں سکھ ياتری پنجہ صاحب حسن ابدال آئے ۔ حسن ابدال کے ايک تاجر جو کسی زمانہ ميرے والد صاحب کے ملازم تھے سے رابطہ کيا کہ ہميں اس دوران پنجہ صاحب کی زيارت کا موقع مل جائے اُس نے ہم تينوں کيلئے اجازت نامہ حاصل کر ليا ۔ ہم پوليس کے ڈی ايس پی کی مدد سے پنجہ صاحب ميں داخل ہوئے تو اندر بہت اچھا گھريلو ماحول اور ميلے کا سا سماں پايا ۔ اندر داخل ہوتے ہی ہمارا تعارف سکھوں کے سربراہ سے کرايا گيا ۔ ميرے بہنوئی نے بتايا کہ ياتريوں کی موجودگی ميں آنے کا مقصد ان کے رسم و رواج سے واقف ہونا تھا ۔ اُس نے پہلے وہاں قريب موجود ايک خاندان سے ہمارا تعارف کرايا اور پھر ان سے کہا “کون جوان ان مہمانوں کو اچھی طرح سب کچھ دکھائے گا ؟” اُن ميں سے ايک راضی ہو گيا اور ہميں پوری قلعہ نما عمارت کے اندر پھرايا اور تمام سرگرميوں کی تفصيل بھی بتائی۔ آخر ميں ہمارے ساتھ اپنے پورے خاندان کی تصوير کچھوائی

ميں سرکاری کام سے 1966ء اور 1967ء ميں ڈوسل ڈورف جرمنی ميں تھا ۔ ميرے ساتھ ہمارے ادارے کے 3 اور انجنيئر بھی تھے ۔ ايک شام ميں اور ايک ساتھی انجيئر ڈوسل ڈارف کے مصروف علاقہ ميں جا رہے تھے کہ تين سکھ آتے ہوئے دکھائی ديئے ۔ ميرا ساتھی سُست رفتار تھا اور پيچھے رہ گيا تھا دوسرے ميں نے جرمنوں کی طرح کپڑے پہنے ہوئے تھے جبکہ ميرے ساتھی نے انگريزی سوٹ اور ٹائی پہن رکھی تھی اور رنگ بھی سانولا تھا ۔ سکھوں نے ميرے ساتھی کو روک کر پوچھا کہ کہاں سے آئے ہو ۔ اس نے پاکستان بتايا تو کہنے لگے کونسے شہر سے ؟ اس نے راولپنڈی بتايا تو اُنہوں نے اُسے گلے لگا ليا اور بولے “فير تے تُسی اپنے بھرا ہوئے”۔ بڑے خوش اُس سے پھر ملنے کا وعدہ لے کر چلے گئے ۔ وہ لوگ راولپنڈی سے 1947ء ميں جالندھر جا چکے تھے

سکھ اور ہندو ميں واضح فرق يہ ہے کہ سکھ ايک رب کو مانتے ہيں ۔ نہ تو بتوں کی پوجا کرتے ہيں اور نہ کسی ديوی ديوتا کو مانتے ہيں ۔ چند گورو ہيں جنہيں وہ اپنا رہبر سمجھتے ہيں ۔ گورو کا مطلب اُستاد يا رہبر ہوتا ہے ۔ اپنے مُردے جلاتے نہيں دفن کرتے ہيں ۔ ہمارے نبی سيّدنا محمد صلی اللہ عليہ و آلہ و سلم کی عزت کرتے ہيں ۔ ميں نے بچپن ميں سکھوں ميں ايک عجيب بات ديکھی کہ اپنے علاقہ ميں رہنے والے يا اپنے سکول ميں پڑھنے والے مسلمانوں کو بھائی کہہ ليں گے مگر ہندو کو نہيں

پاکستان بننے سے پہلے سکول ميں ميری جماعت ميں کُل 16 بچے تھے ۔ جن ميں 10 لڑکے اور 6 لڑکياں ۔ 4 لڑکے اور ايک لڑکی مسلمان ۔ ايک لڑکا سکھ ۔ 5 لڑکے ہندو تھے ۔ لڑکيوں ميں ايک سکھ ۔ ايک عيسائی اور 3 ہندو ۔ سکھ لڑکی کی مسلمان لڑکی کے ساتھ دوستی تھی اور سکھ لڑکے کی ہم 4 مسلمان لڑکوں کے ساتھ ۔ سکھ لڑکا صاف کہا کرتا تھا “يہ مٹی کے بتوں کو پوجنے والے کسی کے دوست نہيں”

سکھوں کو برہمنوں نے بيوقوف بنا کر 1947ء ميں مسلمانوں کا قتلِ عام کروايا تھا اس ڈر سے کہ سکھ اعتقاد کے لحاظ سے مسلمانوں کے قريب ہيں ۔ اگر مسلمانوں کے ساتھ مل گئے تو پورا پنجاب نہيں تو کم از کم امرتسر چندی گڑھ پاکستان ميں چلا جائے گا اور ساتھ جموں کشمير بھی ۔ بعد ميں سکھوں کو سمجھ آ گئی تھی اور اُنہوں نے پاکستان يا مسلمان دُشمنی چھوڑ دی تھی ۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ بينظير بھٹو کے دورِ حکومت ميں سکھ تحريکِ آزادی کے متعلق جو معلومات پاکستان کے خُفيہ والوں کے پاس تھيں وہ بھارت دوستی کی خاطر بھارت کو پہنچا دی گئيں جس کے نتيجہ ميں بھارتی حکومت نے سکھوں کا قتلِ عام کيا اور خالصہ تحريک کا زور ٹوٹ گيا جس کے نتيجہ ميں بھارت نے يکسُو ہو کر پوری قوت کے ساتھ تحريک آزادی جموں کشمير کو کُچلنا شروع کيا

سواری

ميں نے اپنے ملک ميں ايک دن مياں بيوی اور 3 بچوں کو ايک موٹرسائيکل پر جاتے ديکھا تو پہلے پريشان ہوا اور پھر اُن پر ترس آيا کہ بيچارے کيا کريں ۔ مگر مشرقِ بعيد ميں

جموں کشمير کے در و ديوار پر “گو انڈيا گو بيک”

جموں و کشمیر میں آزادی پسندوں کی طرف سے “کشمیر چھوڑ دو” مہم کے پروگرام پر عمل کرتے ہوئے ریاستی عوام نے اتوار کو دیواروں،سڑکوں اوردکانوں پر “گو انڈیا گو بیک” کا نعرہ مختلف علاقوں میں تحریر کیا جبکہ کئی ایک علاقوں میں “گو انڈيا گو بيک” کے بینر بھی آویزاں دیکھے گئے۔ واضح رہے کہ حریت کانفرنس (گ) نے “کشمیر چھوڑ دو” مہم کیلئے 25 جون سے 13 جولائی 2010ء تک مختلف پروگرام ترتیب ديئے ہیں جن میں سے “گو انڈيا گو بيک” کا نعرہ دیواروں ،دکانوں اور سڑکوں پر تحریر کرنے کیلئے کہا گیاتھا۔ مذکورہ احتجاجی پروگرام پر عمل کرتے ہوئے سرینگر کی مختلف سڑکوں اوردکانات پر نوجوانوں کو یہ نعرہ تحریر کرتے ہوئے دیکھا گیا جبکہ وادی کے دیگر علاقوں سے بھی مذکورہ احتجاجی پروگرام عملانے کی اطلاعات ہیں۔پائین شہر کے مختلف علاقوں میں دکانوں، دیواروں، مکانوں اور اہم سڑکوں پر ”گو انڈیا گو” کے نعرے تحریر کئے گئے وہیں شہر کے مضافاتی علاقے لسجن میں بھی ”گو انڈیا گو ” کے بینر آویزان رکھے گئے تھے۔ ادھر بٹہ مالو ، حبہ کدل، آبی گذر اور دیگر مقامات پر بھی سڑکوں کے بیچوں بیچ ”گو انڈیا گو ” کے نعرے درج کئے گئے۔

[13 جولائی 1931ء کو جموں کشمير کے مسلمانوں پر جو ايک جگہ جمع تھے پر ہندو آفیسر نے بغیر وارننگ دیئے پولیس کو گولی چلانے کا حکم دے دیا تھا جس سے 22 مسلمان شہید اور بہت سے زخمی ہوئے تھے]

بقيہ يہاں کلک کر کے پڑھيئے

دہشگرد کون ؟

سیّد ابوالحسن علی بن عثمان الہجویری معروف بہ داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ 400ھ تا 465ھ] ۔ نے شروع میں ہجویر جو کہ غزنی کا گاؤں ہے ميں قیام کيا اس لئے ہجویری کہلائے ۔ سلسلہ نسب حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے ۔ اپنے مُرشد کے حکم سے آپ لاہور پہنچے ۔ کشف المحجوب آپ کی مشہور تصنیف ہے ۔ علی ہجويری رح اُن چند بزرگوں ميں سے ہيں جن کے عمل اور محنت کے نتيجہ ميں پنجاب اسلام کا گھر بنا۔ وہ پنجاب جو موجودہ شمالی سندھ سميت موجودہ خيبر پختونخواہ ميں دريائے سندھ تک اور مشرق ميں دہلی آگرہ تک تھا ۔ ان کے متعلق ايک نيک بزرگ نے کہا تھا

گنج بخشِ فيضِ عالم مظہرِ نورِ خدا
ناقصاں را پيرِ ۔ کامِل کاملاں را رہنما

جمعہ 2 جولائی 2010ء کو صبح سويرے علی ہجويری رح صاحب کے مزار المعروف دربار داتا گنج بخش میں خودکش حملوں کی خبر پڑھی تو کچھ دير کيلئے ميرا ذہن ماؤف ہو گيا ۔ ميں بِٹر بِٹر اخبار کو ديکھتا رہا پھر مجھے اخبار نظر آنا بند ہو گيا اور 1957ء سے چند سال قبل تک آدھی صدی کے دوران ميں جب جب بھی اس مزار پر فاتحہ کہنے گيا اور ملحقہ مسجد ميں نماز پڑھی جو کچھ ميں نے ديکھا وہ آنکھوں کے سامنے گھومنے لگا ۔ وہاں عورتوں اور مردوں کو ميں نے کس کس حال ميں کيا کيا کرتے ديکھا سب ايک ايک کر کے ذہن کے پردہ سيميں پر اُبھرتا رہا ۔ ميں نے اپنے آپ کو جھٹکا ديا ۔ ميرے دل نے پُر زور کہا “نہيں نہيں ۔ یہ حملہ کسی مسلمان نے نہيں کیا”۔ قطع نظر اس کے کہ اس جملہ سے کيا مراد ہے کچھ لوگ کہيں گے کہ “مسلمان نے نہيں کيا تو پھر کس نے کيا ؟” ميرا جواب ہے کہ اگر ميرے پاس ثبوت نہيں کہ مسلمان نے نہيں کيا تو اعتراض کرنے والوں کے پاس کيا ثبوت ہے کہ مسلمان نے کيا ؟

وقتی طور پر مزاروں کے متعلق اپنے نظريات کو بھول کر ميں صرف وہاں عام طور پر جانے والوں کے نظريات کی بنياد پر بات کروں گا ۔ زائرين اس اعلٰی کردار کے انسان کے مزار سے جو عقيدت رکھتے ہيں کوئی بے عمل مسلمان بھی اس مقام پر قتل تو کيا کسی جُرم کا بھی نہيں سوچ سکتا خواہ اس کا تعلق کسی بھی مسلک یا دہشت گرد گروہ سے ہو ۔ لوگ اسے داتا دربار کہتے ہيں اور روحانیت کا منبع سمجھتے ہيں ۔ وہاں روحانی فیض قلبی سکون اور دنیاوی مسائل کے حل کے لئے دعائیں مانگنے آتے ہیں ۔ لوگ وہاں عبادت ۔ چلہ کشی اور وظائف میں مصروف بلکہ مگن ہوتے ہیں ۔ وہاں منتیں ماننے اور اپنی عقیدت کا اظہار کرنے آتے ہيں

روحانی و دنیاوی مسائل میں الجھے ہوئے لوگوں کے علاوہ داتا دربار کو بھوکوں بے روزگاروں دوسرے شہروں اور دیہاتوں سے آئے ہوئے مزدوروں اور گھروں سے بھاگے ہوئے نوجوانوں کی آخری پناہ گاہ سمجھا جاتا ہے جہاں غریبوں اور بھوکوں کو روزانہ بلاناغہ تينوں وقت کھانا مفت ملتا ہے اور رات گزارنے اور استراحت کے لئے داتا دربار کا صاف ستھرا وسیع فرش بستر کا کام دیتا ہے

یہ جگہ ہر قسم کی فرقہ واریت ۔ گروہ بندی اور مذہبی مناظروں سے بالکل پاک ہے اور یہاں آنے والوں کی بہت بڑی تعداد کا تعلق غریب و نادار طبقوں سے ہوتا ہے ۔ کوئی چاہے اسے کج فہمی ہی کہہ لے ليکن داتا گنج بخش کا دامن پریشان حالوں غم اوربھوک کے ماروں یا پھر روحانی بالیدگی اور قلبی روشنی کے متلاشیوں ہر کسی کو پناہ دیتا اور سکون بخشتا ہے ۔ حقيقت يہ ہے کہ جرائم پيشہ لوگ بھی جب کبھی تکليف محسوس کرتے ہيں تو وہاں سکونِ قلب حاصل کرنے آتے ہيں ۔ يہ حقيقت ہے کہ پنجاب کے سکھ عيسائی اور ہندو بھی اس مقام کو عقدت و احترام کی نظروں سے ديکھتے ہيں

کہا جاتا ہے کہ لاہور ميں دہشتگری ہونے کی اطلاع تھی مگر وفاقی وزيرِ داخلہ نے گورنر پنجاب کی زندگی کو خطرے کا خدشہ ظاہر کيا تھا ۔ کيا خطرہ صرف اُن کو ہی ہوتا ہے جو قلعہ نما گھروں ميں رہتے ہيں اور بُلٹ پروف گاڑيوں ميں سفر کرتے ہيں جن کے آگے پيچھے ايليٹ فورس کے کمانڈو ہوتے ہيں ؟

پہلے احمديوں کی عبادت گاہ پر حملہ ہوا اور درجنوں بيگناہ پاکستانی ہلاک ہوئے ۔ اس کے بعد داتا دربار جسے شايد احمديہ بھی مقدس مقام سمجھتے ہيں پر ويسا ہی حملہ ہوا ۔ کيا ايسا نہيں کہ يہ دونوں حملے ايک ہی شخص يا ادارے کی منصوبہ بندی ہوں ؟

کراچی جسے ملک کا معاشی مرکز سمجھا جاتا ہے وہاں آئے دن لاشيں گر رہی ہيں ۔ جنہيں بيانات ميں اُڑايا جا رہا ہے ۔ صرف اس سال ميں 600 آدمی ہلاک ہو چکے ہيں ۔ کيا يہ مرنے والے انسان نہيں ہيں يا پاکستانی نہيں ہيں ؟

پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی اور لاہور ہيں ۔ کراچی معاشی گڑھ اور لاہور تمدن کا گھر ۔ کيا يہ وارداتيں کراچی اور لاہور کے لوگوں کو پريشان رکھنے کيلئے نہيں کی جا رہيں ؟ کيا ان وارداتوں کا مقصد پاکستان کو معاشی اور تمدنی لحاظ سے تباہ کرنا نہيں ہے ؟

اپنی لوٹ مار سے عوام کی نظر ہٹانے کيلئے ہر لحظہ ايک نئی اختراع ايجاد کی جاتی ہے ۔ جب پاکستانی طالبان کی اختراع گھِس پِٹ گئی تو پنجابی طالبان کا شوشہ چھوڑ ديا گيا ۔ يہيں بس نہ کيا گيا بلکہ پنجاب کو دہشتگردوں کی پناہ گاہ اور نرسری کہہ ديا گيا ۔ کيا ان باتوں سے حکمرانوں کی لوٹ مار پر پردہ پڑ جائے گا ؟ ايک طرف مُلک کی بنياديں کھوکھلی کی جا رہی ہيں تو دوسری طرف صوبوں اور مسلکوں کو آپس ميں لڑانے پر پورا زور لگايا جا رہا ہے ۔ تاريخی حقيقت يہ ہے کہ ايک دن اچانک امريکہ کے کسی اخبار نے پنجابی طالبان کا ذکر کيا ۔ چند دن بعد کسی پاکستانی صحافی نے لکھا کہ کسی کا ٹيليفون کہيں سے موصول ہوا کہ “ميں پنجابی طالبان کا سربراہ بول رہا ہوں”۔ اس کے بعد وفاقی سطح پر اس کی تشہير پورے زور و شور سے شروع ہو گئی

کے ای ايس سی سميت پورے پاکستان ميں بجلی پيدا کرنے والوں کو اُن کے واجبات ادا کرنے کی بجائے مہنگے کرائے پر پرانے پاور سٹيشن لئے جا رہے ہيں جن ميں سے پہلا پاور سٹيشن جو ايک ماہ قبل چلنا تھا آج تک نہيں چل سکا ۔ بايں ہمہ اس عمل کا کيا جواز ہے کہ 1991ء کی پانی کی تقسيم سے اپنا 3 فيصد حصہ سندھ کو دينے پر راضی ہونے کے باوجود پنجاب حکومت کو 18000 کيوسکس پانی روزانہ کم ديا جا رہا ہے جبکہ باقی تين صوبوں کو اپنا اپنا حصہ پورا ديا جا رہا ہے ؟ کيا يہ اسلئے نہيں کيا جا رہا کہ پنجاب کی حکومت دباؤ ميں آ کر سندھ کی حکومت کے خلاف بيان دے اور پھر صوبوں کی حکومتيں آپس ميں گتھم گتھا ہوں تاکہ بادشاہ سلامت موج ميلہ کرتے رہيں

دہشتگردوں سے نپٹنے کيلئے پوليس کمانڈو تيار کئے گئے تھے ۔ اُنہيں عوام کی حفاظت کی بجائے قلعہ نما گھروں ميں رہنے اور بُلٹ پروف گاڑيوں ميں گھومنے والوں کی حفاظت پر مامور کر ديا گيا ہے

دہشگرد کو واردات سے پہلے روکنے کی ذمہ داری خُفيہ والوں کی ہوتی ہے ۔ يوں لگتا ہے کہ خُفيہ والوں کو بھی اس طرح مصروف رکھا گيا ہے کہ کچھ تو بڑے صاحب کی تجوريوں کو مزيد وزنی کرنے کيلئے شکار کی تلاش ميں رہتے ہيں اور کچھ مخالفين کی سرکوبی کيلئے مختص ہيں باقی ان پر نظر رکھتے ہوئے اپنے موج ميلے ميں مصروف رہتے ہيں ورنہ يہ کيسے ممکن ہے کہ شہر کی ناکہ بندی کے علاوہ شہر کے اندر جگہ جگہ ناکہ بندی ہو ۔ دہشتگردی کا خدشہ بھی ظاہر کيا جا چکا ہو ۔ داتا دربار ميں داخل ہونے والوں کو خاص ميٹل ڈيٹيکٹر دروازوں ميں سے بھی گذرنا پڑے اور دہشتگرد بارودی جيکٹ سميت اندر پہنچ جائے ؟ مزيد يہ کہ وہاں کلوزڈ سرکٹ ٹی وی سسٹم لگا ہے ۔ کيا اس کے کنٹرول روم ميں کوئی موجود نہيں تھا يا سويا ہوا تھا ؟

دوسرے ممالک ميں کوتاہی کے ذمہ دار محکمہ کے سربراہ کو فوری طور پر فارغ کر ديا جاتا ہے مگر ہمارے ہاں اُسے ترقی دے دی جاتی ہے ۔ بينظير کی حکومت ميں اُس کے سگے بھائی کو ہلاک کر ديا جاتا ہے اور قاتل ترقياں پاتے ہيں ۔ بينظير کو ہلاک کر ديا جاتا ہے تو اس کا خاوند حکمران آئيں بائيں شائيں ميں ڈھائی سال گذار ديتا ہے اور مزيد سال بھی اسی طرح گذر جائيں گے

ان حالات کی موجودگی ميں عوام کی ہلاکتوں کی کسے پرواہ ہے ؟ ذمہ دار کسی کو بھی ٹھہرا دو ۔ پوچھنے والے حکمران ہوتے ہيں اور جب الزام ہی حکمران لگائيں تو ؟

پچھلے دنوں کسی نے لکھا تھا کہ انگريزوں کا حکومت کرنے کا اصول تھا
Divide and rule
اور ہمارے حکمرانوں کا اصول ہے
Divide, rule and loot

کشمير چھوڑ دو مہم کا آغاز

حریت کانفرنس (گ) کے احتجاجی پروگرام کے پہلے روزجمعہ 25 جون 2010ء کو وادی میں مکمل اور ہمہ گیر ہڑتال سے زندگی کا پہیہ جام رہا ۔جنوبی کشمیر کے اسلام آباد ، کولگام ، پانپورجبکہ شمالی کشمیر کے سوپوراوربارہ مولہ میں پُر امن احتجاجی مظاہروں کے دوران تشدد بھڑکا اور بارہ مولہ میں مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے پولیس نے ٹیئر گیس شيلنگ کی جسکے نتیجے میں نصف درجن افراد زخمی ہوئے۔اس دوران آزادی پسند لیڈران و کارکنان کے خلاف پولیس نے کریک ڈائون کا سلسلہ جاری رکھا۔پولیس نے تحریک حریت کے ایک کارکن کو گرفتار کر لیا جبکہ مسلم لیگ اور پیپلز فریڈم لیگ کے صدر دفتر پر بھی چھاپہ مارا۔ حریت کانفرنس (گ) کی طرف سے جاری کئے گئے احتجاجی کلینڈر کے پہلے روزجمعتہ البارک ‘کشمیر بندھ’ کی کال کے تحت وادی میں ہڑتال رہی ، تمام دکانیں اور کاروباری ادارے بند رہے جبکہ اسکولوں اور بینکو ں میں کام کام کا ج ٹھپ ہوکر رہ گیااور سڑکوں سے ٹرانسپورٹ غائب رہا۔ انتظامیہ نے امکانی مظاہروں اور سنگبازی کے واقعات کو روکنے کیلئے پائین شہر میں فورسز کی بھاری تعداد کوتعینات کیا تھا۔ نمازجمعہ کے بعد پائین شہر کے نوہٹہ، راجوری کدل، نواب بازار، صراف کدل اور دیگر علاقوں میں ہلاکتوں، گرفتاریوں اور زیادتیوں کیخلاف لوگوں نے احتجاجی مظاہرے کئے اور اسی بیچ سنگباز بھی نمودار ہوئے تاہم اِکا دُکا جھڑپوں کو چھوڑ کر پائین شہر میں صورتحال پُر امن رہی۔ چنانچہ وادی کے کئی علاقوں میں نماز جمعہ کے موقعہ پر پُر امن احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری رہا۔ سیر ہمدان کولگام میں نماز جمعہ کے بعد چوگل گام کے مقام پر لوگوں نے زیادتیوں کیخلاف احتجاجی مظاہرے شروع کئے اور دیکھتے ہی دیکھتے لوگوں کی ایک بڑی تعداد جمع ہوئی۔

بقيہ يہاں کلِک کر کے پڑھيئے