آج ميں اپنی 10 جون 2009ء کو شائع شدہ تحرير کو مزيد وضاحت کے ساتھ دوبارہ شائع کر رہا ہوں ۔ اس وقت ميری عمر 70 سال سے زيادہ ہے اور يہ تحریر میری زندگی کے مطالعہ اور مشاہدوں کا نچوڑ ہے اسلئے اُميد رکھتا ہوں کہ قاريات اور قارئين اسے تحمل کے ساتھ پڑھ کر سمجھنے کی کوشش کريں گے
ميری يہ تحرير ميری اجازت سے درجن بھرفورمز پر شائع کی يا پڑھی جا چُکی ہے
“عقل” اور “سمجھ” دونوں ہی لطیف یعنی ايسی چيزيں ہيں جنہيں حواسِ خمسہ سے نہيں پہچانا جا سکتا ۔ البتہ انہیں دوسرے عوامل کی مدد سے پہچانا اور ان کا قیاس کیا جاتا ہے
عام طور پر انسان “عقل” اور “سمجھ” کو آپس میں گُڈ مُڈ کر دیتے ہیں حالانکہ یہ دونوں بالکل مُختلٍف عوامل ہیں
“عقل” بے اختیار ہے اور “سمجھ” اختیاری ہے یا یوں کہہ لیجئے کہ “عقل” آزاد ہے اور “سمجھ” غلام ہے
“عقل” وہ جنس ہے جسے اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے ہر جاندار میں کم یا زیادہ رکھا ہے
“عقل” کی نشو و نما اور صحت ۔ ماحول اور تربیت پر منحصر ہے ۔ سازگار ماحول اور مناسب تربیت سے “عقل” کی افزائش تیز تر اور صحتمند ہوتی ہے
جس کی “عقل” پیدائشی طور پر یا بعد میں کسی وجہ سے مفلوج ہو جائے ایسے آدمی کو عام زبان میں “معذور يا پاگل” کہا جاتا ہے
“عقل” اگر کمزور ہو تب بھی جتنا کام کرتی ہے وہ درست ہوتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بظاہر جسے لوگ پاگل کہتے ہیں وہ بعض اوقات بڑے عقلمند لوگوں کو مات کر دیتے ہیں ۔ کسی زمانہ میں برطانیہ کے ذہنی بیماریوں کے ہسپتال کا ایک واقعہ بہت مشہور ہوا تھا ۔ ایک دن دماغی امراض کا ماہر ڈاکٹر اپنے کام سے فارغ ہو کر شام کو گھر جانے لگا تو اُس نے دیکھا کہ اُس کی کار کے ایک پہیئے کی چاروں ڈھِبریاں [nuts] نہیں ہیں ۔ ڈاکٹر پریشان کھڑا تھا کہ ایک ذہنی مريض نے ہسپتال کی کھڑکی سے آواز دی
“ڈاکٹر ۔ کیا مسئلہ ہے ؟”
ڈاکٹر نے بتایا تو ذہنی مريض کہنے لگا “پريشانی کيا ہے ؟ باقی تین پہیئوں سے ایک ایک ڈھِبری اُتار کر اس پہیئے میں لگا لیں ۔ گاڑی آہستہ چلائيں اور راستے میں کسی دکان سے 4 ڈھِبریاں لے کر پوری کر لیں”
“عقل” جانوروں کو بھی تفویض کی گئی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی جانور نسل در نسل انسانوں کے درمیان رہے [چڑیا گھر میں نہیں] تو اس کی کئی عادات انسانوں کی طرح ہو جاتی ہیں
اصلی سیامی بِلی اس کی مثال ہے جو بدھ مت کے شروع میں بِکشوؤں نے اپنا لی اور پھر نسل در نسل وہ انسانوں کے ساتھ رہنے کی وجہ سے انسانوں کے کچھ اشاروں اور باتوں کو سمجھنے لگی
ہم نے ایک اصل سیامی بلی پالی تھی جو بستر پر سوتی تھی تکیئے پر سر رکھ کر ۔ ميں کہوں “بيٹھ جاؤ” تو بيٹھ جاتی ۔ مياؤں مياؤں کر رہی ہو تو ميرے “چُپ” کہنے يا اپنے منہ پر اُنگلی رکھنے سے چُپ ہو جاتی ۔ بلی کی یہ نسل دورِ حاضر میں بہت کم رہ گئی ہے جس کا ذمہ دار انسان ہی ہے
کچھ جانور انسان کے کچھ عوامل کی نقل کر لیتے ہیں مثال کے طور پر طوطا ۔ مینا ۔ بندر ۔ شِمپَینزی [chimpanzee] ۔ وغیرہ ۔ ایسا اُن کی عقل ہی کے باعث ہوتا ہے جو کہ اُن میں انسان کی نسبت کم اور محدود ہوتی ہے اسی لئے جانور انسان کی طرح ہمہ دان یا ہمہ گیر نہیں ہوتے
“عقل” پر ابلیس براہِ راست حملہ آور نہیں ہو سکتا چنانچہ اسے بیمار یا لاغر کرنے کی غرض سے وہ ماحول کا سہارا لیتا ہے ۔ لیکن یہ کام ابلیس کیلئے کافی مشکل ہوتا ہے
آدمی اپنی “عقل” کو عام طور پر ابلیس کے حملے سے معمولی کوشش کے ساتھ محفوظ رکھ سکتا ہیں
“سمجھ” وہ جنس ہے جو اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے صرف انسان کو تفویض کی ہے ۔ “سمجھ” جانوروں کو عطا نہیں کی گئی ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے انسان کو اس کی افزائش ۔ صحت اور استعمال کی آزادی دے رکھی ہے
ابلیس کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ وہ انسان کی “سمجھ” کی کمان اپنے ہاتھ میں لے لے
انسان کی فطری خود پسندی اور مادی ہوّس کو استعمال میں لا کر کُل وقتی نہیں تو جزو وقتی طور پر یا عارضی طور پر ابلیس اس میں عام طور پر کامیاب رہتا ہے
اگر ابلیس انسان کی “سمجھ” کو اپنے قابو میں کرنے میں کامیاب ہو جائے تو پھر متعلقہ انسان کو ہر چیز یا عمل کی پہچان ابلیس کے ودیعت کردہ اسلوب کے مطابق نظر آتی ہے ۔ اسی عمل کو عُرفِ عام میں ” آنکھوں پر پردہ پڑنا ” کہتے ہیں کیونکہ آدمی دیکھ کچھ رہا ہوتا ہے اور سمجھ کچھ رہا ہوتا ہے
اُخروی سزا و جزا کا تعلق “عقل” سے نہیں ہے بلکہ “سمجھ” سے ہے
بچے ميں “عقل” ابھی نشو و نما پا رہی ہوتی ہے اور “سمجھ” بہت کم ہوتی ہے ۔ يہی وجہ ہے کہ بچے کا کوئی عمل گناہ يا جُرم تصور نہيں ہوتا کيونکہ اُسے ابھی اتنی “عقل” يا “سمجھ” ہی نہيں ہوتی کہ جُرم يا گناہ کی پہچان کر سکے
“سمجھ” مادی جنس نہیں ہے اسلئے میرا مفروضہ ہے کہ “سمجھ” انسان کے جسم میں موجود روح کی ایک خُو ہے
“سمجھ” کی جانوروں میں عدم موجودگی کی وجہ سے جانوروں کو اچھے بُرے کی تمیز نہیں ہوتی اسی لئے اُنہیں اپنے عمل کے نتیجہ میں آخرت میں کوئی سزا یا جزا نہیں ہے ۔ اُن کی زندگی میں غلطیوں کی سزا اُنہیں اسی دنیا میں مل جاتی ہے اور اس کا تعلق ان کے جسم سے ہوتا ہے
اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی ہمیں درست سوچنے اور سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہماری “سمجھ” کو ابلیس کی گرفت سے محفوظ رکھے
اپنی سروائول کیلئے تو سروائول آف دی فٹسٹ کا سمجھنا ضروری ہے ۔ کسی بھی معاشرے کے پرنسیپلز سکسیس کے چانسز تو بڑھاتے ہیں مگر سکسیس کی گارنٹی نہیں دیتے ۔
ج ج س صاحب
ميں مترجم نہيں ہوں دوسرے 28 ستمبر کے حادثے نے ميرا دماغ گڑبر کر ديا ہے اسلئے ترجمہ کرنا مشکل ہو رہا تھا ۔ پہلے سکسيس کو ميں سمجھا کہ sexes لکھا ہے اور فوراً آنکھيں بند کر کے استغفار پڑی اور اعوذ باللہ پڑا کہ شيطان دور ہو ۔ پھر آنکھيں کھوليں تو success نظر آيا ۔ جناب آپ نے درست کہا ہے ۔ ہوتا تو يوں ہی ہے کہ جتنا گُڑ ڈاليں ميٹھا اُتنا ہی ہوتا ہے اور يہ عمل کرنے والے کا کام ہے پڑھانے والے کا کام نہيں
پھر تو کمپیٹنگ میتھوڈالیجیز کو بھی آزما لینے میں بھی کوئی ہرج نہیں ہوا نا ۔
ج ج س صاحب
يہ کيا ہوتی ہے ؟
Competing methodology
ہمارے آخری تبصرے میں استعمال ہوئے لفظ کمپیٹنگ کو کمپیوٹنگ کر دیا گیا ہے ۔ آپ کے بلاگ میں شائد کوئی سیکیوریٹی کا پرابلم ہے ۔
ج ج س صاحب
معذرت ۔ ميرے بلاگ ميں تحفظ کا کوئی مسئلہ نہيں ہے ۔ يہ خرابی ميرے دماغ کی ہے جس نے اسے تبديل کر ديا تھا ۔ اب درست ہو گيا ہے
ہم نے تو ڈسکشن کو انجینئرنگ کی ٹرمینالوجیز استعمال کرتے ہوئے بڑھانے کی کوشش کی ہے ۔ آپ اگر فوکس نہیں کر پا رہے ہیں تو اس میں ہماری غیر میعاری کمیونیکیشن کا ہی قصور ہوسکتا ہے ۔ ان فارچونیٹلی ہماری ذیادہ تر نان ٹریڈیشنل لرننگ انگلش میں ہی ہوئی ہے اور اردو ہماری مدر لینگویج بھی نہیں ہے ۔ یہ والی ڈسکشن تو پھر کبھی بھی ہوسکتی ہے اور اس دوران ہم وہ اردو سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں جس میں اپنی بات کو بہتر طریقے سے ایکسپلین کیا جا سکتا ہو ۔
ج ج س صاحب
ميں انجيئرنگ کی بات کرت ہوئے اسلئے ہچکچاتا ہوں کہ زيادہ لوگوں کے پلے نہيں پڑتی ۔ يہ انکشاف آپ پہلے کر ديتے تو ميں بات ہی انجيئرنگ کے قاعدہ سے کرتا ۔ اب اس وقت ميں تھک گيا ہوں اور ڈاکٹر کا مشورہ ہے کہ تھکنے سے پہلے بستر پر دراز ہو جاؤ ۔ مزيد بات اِن شاء اللہ 4 بجے بعد دوپہر کے بعد
ج ج س صاحب
بندہ سستانے کے بعد پھر حاضر ہے ۔ فرمايئے انجيئرنکگ کی کونسی اصطلاحات يا مسطلحات پر بات کرنا چاہتے ہيں ؟
Productivity, process layout, development, durability, sustainability, methodology, interchange-ability, compatibility, dependability ?
ہمارا انٹریسٹ ویسے تو ان ایڈیپٹیبل پرنسیپلز میں ہے جن کی ویریفیکشن اپڈیٹیبل ٹولز سے ہو سکے ۔ دین اور مذہب کی فرق کا ہمیں کچھ خاص اندازہ نہیں لیکن ریلیجن کیلئے ہمارا ریفرنس وکیپیڈیا ہے ۔ ہماری آپ سے درخواست ہے کہ آپ ریلیجن کو ایز این انجینئرڈ ماسٹر پیس ڈیفائن کرتے ہوئے پرنسیپلز اور ٹولز کی صورت میں ایکسپلین کر دیں ۔ اگر آپ ہماری بات سے متفق نہ ہوں تو آپ اپنے فریم آف ریفرنس سے ایکسپلین کردیں اور ہم اس ایکسپلینیشن کی بیسز پر بات کو آگے بڑھانے کی کوشش کریں گے ۔
Adaptable Principles and Updatable Tools
مجھے تو یہ پڑھنے میں بڑا مزا آیا
انگریزی کو اردو میں لکھنا بڑا مشکل کام ھے ممکن ھے یہ جہالستان مین آسان ہو
لیکن جیسے آپ کے لیئے انجینئرنگ کی اصطلاحات آسان ہیں اسی طرح نیورالوجی کی میرے لئے ہیں
ج ج س صاحب
آپ کی بات کچھ کچھ سمجھ ميں آ گئی ہے مگر ابھی مجھے نيورولوجسٹ کی طرف سے دماغ پر زور دينے ۔ زيادہ پڑھنے لکھنے اور دماغی کام کرنے کی اجازت نہيں ہے ۔ اللہ کرے جلد ميرا بھيجہ معمول پر آ جائے تو اِن شاء اللہ اس پر بات ہو سکتی ہے
بھائی وھاج الدين احمد صاحب
ميں کئی دنوں سے چاہ رہا تھا کہ آپ سے تفصيلات معلوم کروں کہ ميرے سر يا دماغ کو کيا ہوا ہے جو لاہور والے نيورولوجسٹ صاحب نے 18 اکتوبر کو بھی کہا کہ ابھی دو ماہ اور لگيں گے اور آپ نے بھی مجھے زيادہ پڑھنے لکھنے سے منع کيا ؟ ميری ياد داشت جس کی لوگ مثال ديا کرتے تھے وہ حادثہ کے بعد اتنی خراب کيوں ہو گئی ہے کہ ميں نماز پڑھتے بھول جاتا ہوں کہ کتنی رکعتيں پڑھی ہيں ؟
نہایت اچھا موضوع ہے. اگر ہم چاہیں تو عقل اور سمجھہ کو انسانی اور حیوانی شعور بھی کہ سکتے ہیں.جیسا کہ آپ نے فرمایا کہ حیوانی شعور تقریباً تمام جاندار اشیا میں ہوتا ہے. جدید سائنس کے مطابق نباتات بھی کسی نا کسی سطع پر ضرور ہوتا ہے. یہ حیوانی شعور کسی بھی جاندار کی بقا کے لیے ضروری ہے اور جاندار کو اسکے ماحول کے مطابق ڈھالنے میں مدد دیتا ہے. حیوانی شعور الله سبحانہ و تعالہ کی طرف سے ودیعت کیا گیا علم ہے جو کہ فطری طور پر آپ میں موجود ہے، جبکہ انسانی شعور یا اعلیٰ شعور اگرچہ ہر انسان کو ودیعت کیا گیا ہے مگر شخصیت میں اسکا ظہور کچھہ عوامل کا محتاج ہوتا ہے. جیسے تعلیم و تربیت، ماحول، مطالعہ اور اسکے ذریعے سے شخصیت کی خود تعمیری وغیرہ. دقیق اور غور طلب مسئلہ یہ ہے کے کس طرح یہ اعلیٰ انسانی شعور یا عقل انسان کو الله سبحانه تعالہ کی پہچان میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے. کہنے کو تو بڑے بڑے دانشور اور فلسفی دنیا میں گزرے ہیں جنہوں نے علم کے طالبوں کو بہت متاثر کیا ہے لیکن انسانی شعور سے کہیں اوپر اور کہیں زیادہ درست چیز جسے ہم وحی کہتے ہیں، انسانی معاشرے میں بھانت بھانت کے نظریات کی صریح نفی کرتی ہے
ڈاکٹر جواد احمد خان صاحب
تشريف آوری کا شکريہ ۔ آپ نے سو فيصد درست بات کی ہے ۔ ميرے خيال يا نظريہ کہہ ليجئے کے مطابق ۔ اگر اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کی وحی کی سمجھ پيدا نہ ہو تو شعور کا عروج پر جانا ناممکن ہے ۔ ميرا ايمان ہے کہ ميں جو کچھ بھی ہوں يہ سب کچھ ميرے اللہ کی کرم نوازی ہے ۔ ميرے اللہ کی قدرت کے کرشمے ہر جگہ بکھرے پڑے ہيں ۔ صرف ان کو ديکھنے والی آنکھ اور سمجھنے کی کوشس ضروری ہے
آپ نے جديد سائنس کے حوالے سے نباتات کی بات کی ہے ۔ ميں جب سکول ميں پڑھتا تھا توميں نے اپنے ساتھيوں سے کہا “ديکھو اين پودوں مين بھی عقل ہے” ۔ ايک دو نے ہنس ديا مگر دو تين جو ميرے قريبی ساتھی تھے سنجيدگی سے مزيد سننے کيلئے تيار ہو گئے ۔ ميں کہا “ديکھو ۔ اس پودے کا پھول اُس طرف رُخ کرتا جاتا ہے جس طرف سورج جاتا ہے اور جب سورج غروب ہو جاتا ہے تو پھول جھُک جاتا ہے ۔ دوسرے اس درخت کو ديکھو ۔ يہ ٹيڑا اسلئے ہو گيا ہے کہ جہاں يہ اُگا تھا وہاں دھوپ نہيں جاتی تھی ۔ اب جہاں يہ پہنچ گيا ہے وہاں دھوپ ہے”۔
جیسے میں نے عرض کیا تھا
کن کشن کا اثر ہے دو تین ماہ لگ جاءیں گے مگر حافظہ پھر اپنی جگہ پہ آ جائے گا یعنی باتیں ٹھیک یاد رہا کریں گی
اس وقت آپکے دماغ میں وہ قوت نہیں رہی ہے جو بیس پچیس سال پہلے ہوا کرتی تھی اس میں آپ کا کوئ زور نہیں ہے
میں اپنے دماغ کی بات کر رہا ہوں اس کا بھی یہی حال ہے مثا ل کے طور پر مجھے نئ آیات یاد کرنے میں اب اتنی دقت ہے کہ پچاس مرتبہ دہرانی پڑتی ہیں جب کہ تیس سال پہلے ایسا نہیں تھا
حافظہ کا کچھ نہ کچھ اثر آپ دیر تک محسوس کریں گے اچھی خاصی چوٹ تھی بغیر -ہیلمٹ- کے دماغ ایسے زیادہ اثر سے بچ گیا یہ بڑی بات ہے
بھائی وھاج الدين احمد صاحب
مطلع کرنے کا شکريہ ۔ بلاشُبہ وہ پہلے والی ذہانت نہيں رہی تھی مگر ايسا تو نہيں تھا کہ نماز پڑھتے پڑھتے بھول جاؤں کہ کتنی رکعتيں پڑھ چکا ہوں ۔ بہرحال اب کچھ صورتِ حال بہتر ہونے لگی ہے ۔ کچھ پرانی باتيں بھی ياد آنا شروع ہو گئی ہيں ۔ يہاں ميرے نيورولوجسٹ نے بھی يہی کہا تھا کہ چار پانچ ماہ لگيں گے مارمل ہونے ميں ۔ ان کا نام طارق صلاح الدين ہے اور کسی زمانہ ميں نيو يارک ۔ امريکا ميں تھے ۔
آپ نے ہيلمٹ کا ذکر کيا ہے ۔ ميں موٹر سائيکل پر نہيں تھا ۔ مجھے تو موٹر سائيکل چلائے ہوئے 40 سال ہو چکے ہيں ۔ ميں سڑک پر کھڑا انتظار ميں تھا کہ ٹريفک تھمے تو ميں سڑک پار کروں ۔ اس کے بعد کيا ہوا مجھے کچھ ياد نہيں سوائے اس کے کہ ميں سٹريچر پر تھا اور مجھے ايمبولنس ميں ڈالا جا رہا تھا ۔ جب دوسری بار ہوش آيا تو ميں ہسپتال کی آئی سی يو ميں تھا اور 20 گھنٹے گذر چکے تھے ۔ کسی نے ريسکيو 1122 کو بتايا تھا کہ تيز رفتار موٹر سائيکل نے مجھے ٹکر ماری تھی مگر کسی کی سمجھ ميں يہ نہيں آ رہا کہ سر کو اتنی شديد چوٹ کيسے لگی ؟