Monthly Archives: August 2010

اوقاتِ نماز

بیسویں اور اکییسویں صدی عیسوی میں چند اشخاصں نے فرض نمازوں کی تعداد اور اوقات کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی ۔ اصل معاملہ کچھ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان چند اشخاص کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سُنت و حدیث پر یقین نہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ سُنت و حدیث سے مدد لئے بغیر قرآن شریف کو عربی زبان کا کوئی ماہر بھی درست طریقہ سے سمجھ نہیں سکتا ۔ جہاں تک نماز کے اوقات ۔ طریقہ اور اس میں پڑھنے کا تعلق ہے یہ تو سُنت و حدیث سے رہنمائی لئے بغیر کسی طرح ممکن ہی نہیں ۔ پانچ واجب نمازیں [جنہیں ہمارے ملک میں فرض کہا جاتا ہے] اوّل روز سے پڑھی جا رہی ہیں ۔ رسول کی اطاعت کرنے کیلئے اللہ کا حُکم قرآن شریف میں کئی جگہ مرقوم ہے ۔ پانچ نمازیں جن کا حُکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے دیا ان کو متنازعہ بنانا صرف رسول کی ہی نہیں اللہ کے حُکم کی بھی خلاف ورزی ہے

نماز کے اوقات سے متعلق میرے علم کے مطابق جو آیات قرآن شریف میں ہیں اُن کا ترجمہ نقل کر رہا ہوں ۔ کسی زبان کا ترجمہ دوسری زبان میں پیش کرتے ہوئے اصل صورتِ حال کو برقرار رکھنا مُشکل ہوتا ہے ۔ اس کے علاوہ اوّل نص قرآن شریف ہے ۔ اس کے بعد حدیث و سُنّت ۔ اسلئے قرآن شریف کو پڑھنا اور سمجھنا لازم ہے ۔ مندرجہ ذیل آیات سے مجھے جو سمجھ آئی وہ ہر آیت کے نیچے خطوط وحدانی میں درج ہے

سورت 11 ۔ ھود ۔ آیت 114
اور دن کے دونوں سروں اور رات کی چند ساعات میں نماز پڑھا کرو۔ کچھ شک نہیں کہ نیکیاں گناہوں کو دور کر دیتی ہیں۔ یہ ان کے لیے نصیحت ہے جو نصیحت قبول کرنے والے ہیں
[یہ فجر ۔ مغرب اور عشاء کی نمازوں کی تاکید ہے]

سورت 17 ۔ بنیٓ ارآءیل ۔ آیت 78
(اے محمدﷺ) سورج کے ڈھلنے سے رات کے اندھیرے تک نمازیں اور صبح کو قرآن پڑھا کرو۔ کیوں صبح کے وقت قرآن کا پڑھنا موجب حضور (ملائکہ) ہے
[یہ دوپہر کو سورج ڈھلنے سے لے کر اندھیرا ہونے تک کی نمازوں کی تاکید ہے یعنی ظہر ۔ عصر ۔ مغرب اور عشاء]

سورت 20 ۔ طٰہٰ ۔ آیت 130
پس جو کچھ یہ لغو باتیں کرتے ہیں اس پر صبر کرو۔ اور سورج کے نکلنے سے پہلے اور اس کے غروب ہونے سے پہلے اپنے پروردگار کی تسبیح وتحمید کیا کرو۔ اور رات کی ساعات میں بھی اس کی تسبیح کیا کرو اور دن کی اطراف تاکہ تم خوش ہوجاؤ
[یہ فجر ۔ عصر ۔ عشاء اور ظہر کی تاکید ہے]

سورت 24 ۔ النّور ۔ آیت 58
مومنو! تمہارے غلام لونڈیاں اور جو بچّے تم میں سے بلوغ کو نہیں پہنچے تین دفعہ یعنی (تین اوقات میں) تم سے اجازت لیا کریں۔ نماز صبح سے پہلے اور ظہر کے وقت جب تم کپڑے اتار دیتے ہو۔ اور تیسرے عشاء کی نماز کے بعد۔ (یہ) تین (وقت) تمہارے پردے (کے) ہیں ان کے (آگے) پیچھے (یعنی دوسرے وقتوں میں) نہ تم پر کچھ گناہ ہے اور نہ ان پر۔ کہ کام کاج کے لئے ایک دوسرے کے پاس آتے رہتے ہو۔ اس طرح اللہ اپنی آیتیں تم سے کھول کھول کر بیان فرماتا ہے اور اللہ بڑا علم والا اور بڑا حکمت والا ہے
[یہاں فجر ۔ ظہر اور عشاء کی نمازوں کا بالواسطہ ذکر ہے]

سورت 30 ۔ الروم ۔ آیت 17 و 18
تو جس وقت تم کو شام ہو اور جس وقت صبح ہو اللہ کی تسبیح کرو (یعنی نماز پڑھو) ۔ اور آسمانوں اور زمین میں اُسی کی تعریف ہے۔ اور تیسرے پہر بھی اور جب دوپہر ہو (اُس وقت بھی نماز پڑھا کرو)
[یہاں مغرب ۔ فجر ۔ عصر اور ظہر کی نمازوں کی تاکید ہے ۔ نماز کو اللہ کی تسبیح کہا گیا ہے ۔ یہ وہ تسبیح نہیں جو ہم دانوں پر گنتے ہیں]

سورت 40 ۔ المؤمن ۔ آیت 55
تو صبر کرو بےشک اللہ کا وعدہ سچا ہے اور اپنے گناہوں کی معافی مانگو اور صبح وشام اپنے پروردگار کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتے رہو
[روزانہ سب نمازیں پڑھا کرو]

سورت 50 ۔ قٓ ۔ آیت 39 و 40
تو جو کچھ یہ (کفار) کہتے ہیں اس پر صبر کرو اور آفتاب کے طلوع ہونے سے پہلے اور اس کے غروب ہونے سے پہلے اپنے پروردگار کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتے رہو ۔ اور رات کے کسی وقت میں بھی اور نماز کے بعد بھی اس (کے نام) کی تنزیہ کیا کرو
[یہاں فجر ۔ عصر اور عشاء کی نمازوں کی تاکید ہے]

سورت 73 ۔ مزمّل ۔ آیت 2 و 3
رات کو قیام کیا کرو مگر تھوڑی سی رات ۔ آدھی رات یا اس سے بھی کچھ کم کر لو
[يہ عشاء کی نماز کے دورانيئے کے متعلق حکم ہے]

سورت 76 ۔ الدھر ۔ آیت 25 و 26
اور صبح وشام اپنے پروردگار کا نام لیتے رہو ۔ اور رات کو اس کے سامنے سجدے کر و اور بہت رات تک اس کی تسبیح کیا کرو
[یہ پھر روزانہ سب نمازیں پڑھنے کی تاکید ہے جس میں رات کی نماز کا بالخصوص ذکر ہے]

جو چاہيں زرداری کريں

سُنا تھا کہ رنجيت سنگھ کی حکومت ميں سارا ظُلم رنجيت سنگھ نے نہيں کيا تھا بلکہ زيادہ تر احکامات رنجيت سنگھ کی ترِيمت کے بھائی کے چلتے تھے جسے عام زبان ميں سالا کہتے ہيں ۔ سالا بطور گالی بھی شايد اسی لئے استعمال ہوتا ہے ۔ ہمارے ملک ميں يہ حال ہے کہ

ناحق ہماری پارليمنٹ پہ تُہمت ہے خُود مُختاری کی
جو چاہے وہ زرداری کرے جمہوريت کو فقط بدنام کيا
سالے جو دو تھے پار کئے ۔ سوتيلے اپنے استوار کئے
خُفيہ اور آئی ايس آئی والے دبئی سے بے اختيار کئے

صدر آصف علی زرداری کی سفارش اور زرداری ہاؤس دبئی کے حُکم پر ٤ ماہ کے عرصہ میں دبئی ميں پاکستانی قونصلیٹ سے 150 ہندوستانیوں اور 86 امریکیوں کو پاکستان کے ویزے جاری کرنے کا اسکینڈل

پاکستان میں بلیک واٹر کی موجودگی کی خبروں اور بعض امریکیوں کی غیرقانونی اور مشکوک سرگرمیوں کے بعد قومی سلامتی کے اداروں کے دباؤ پر وزارت خارجہ نے امریکیوں کو ویزے کی اجراء کو آئی ایس آئی اور وزارت داخلہ کی کلیرنس سے مشروط کردیا ہوا ہے لیکن جن مشکوک امریکیوں اور ہندوستانیوں کو یہ ویزے دیئے گئے ہیں ان میں سے کسی بھی امریکی یا ہندوستانی شہری کی دستاویزات کو مذکورہ پراسس سے نہیں گزارا گیا

ایوان صدر کے دباؤ پر بعض امریکیوں کو چھُٹی کے روز قونصل خانہ کھُلوا کر ویزے جاری کروائے گئے

جن امریکیوں کو دبئی قونصل خانے سے غیرقانونی طور پر پاکستان کے ملٹی پل انٹری کے ویزے جاری کئے گئے ان میں ایک امریکی مرد کے علاوہ 6 ایسی امریکی خواتین بھی شامل ہیں جنہوں نے ویزا فارم میں اپنے دورہ پاکستان کا مقصد ایوان صدر یا زرداری ہاؤس کا وزٹ ظاہر کیا ہے ۔ امریکی خاتون مس کیتھلین مارگریٹ جن کا پاسپورٹ نمبر 208330960 ہے نے 3 مارچ 2010ء کو ویزے کے لئے درخواست دی اور ان کو اسی روز ویزا جاری کیا گیا۔ اس خاتون نے اپنے ویزا فارم میں دورہ پاکستان کا مقصد ایوان صدر اسلام آباد کا وِزٹ قرار دیا تھا اور انہیں 90 دن کا مَلٹی پَل اَينٹری وِِیزہ جاری کیا گیا ۔ دبئی قونصل خانہ کے مطابق ویزے کے اجراء کا حکم زرداری ہاؤس دبئی سے صدر مملکت کے سوتیلے بھائی اویس ٹپی نے جاری کیا تھا

دو مزید امریکیوں یعنی ایک خاتون مس میری جان پاسپورٹ نمبر 219245827 اور ایک مرد نیکولس لوئز پاسپورٹ نمبر 208266130 کو بھی اسی روز (3مارچ 2010) کو دبئی قونصل خانہ سے تین تین ماہ کے ملٹی پل اينٹری ویزے جاری کئے گئے اور ان دونوں کے لئے بھی حُکم زرداری ہاؤس دبئی سے اویس ٹپی نے جاری کیا تھا

اسی طرح 26 مارچ 2010ء کو 3 مزيد امریکی خواتین جن میں 2 بنیادی طور پر یوکرائن نژاد ہیں کو بھی پاکستان کے تين تين ماہ کے ملٹی پل اينٹری ویزے جاری کئے گئے ۔ مسز لیوبا ڈمبووسکی پاسپورٹ نمبر 217861895 ‘ مسز لاریسا ڈمبووسکی پاسپورٹ نمبر 212813645 اور مسز انجیلک اے ویکٹوریا نے بھی اپنے ویزے فارم میں اپنے دورہ پاکستان کا مقصد ایوان صدر اسلام آباد کی زیارت تحریر کیا ہے اور ان کو اسی روز بغیر کسی چھان بین کے ویزے جاری کرنے کا حُکم بھی زرداری ہاؤس دبئی سے اویس ٹپی نے جاری کیا تھا

صرف 5 روز بعد ایک اور امریکی خاتون مس نیکولی ورنیکا پاسپورٹ نمبر 203171445 کو بھی اسلام آباد اور کراچی کے دورے کے لئے 3 ماہ کا ملٹی پل اينٹری ویزہ جاری کیا گیا ۔ انہوں نے ویزہ فارم میں اپنے دورہ پاکستان کا مقصد ایوان صدر کی بجائے زرداری ہاؤس اسلام آباد تحریر کیا ہے

پراسرار سرگرمیوں میں ملوث امریکیوں نے پاکستان آنے کے لئے دبئی اور ایوان صدر اسلام آباد کا روٹ استعمال کرنا شروع کردیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ سینکڑوں کی تعداد میں امریکی اور ہندوستانی اپنے ممالک میں ویزہ لینے کی بجائے دبئی کے راستے سے پاکستان پہنچ رہے ہیں

سيلاب ۔ امداد کا حُجم اور انتظامات

ذيل ميں سيلاب سے متاءثرين کيلئے درکار مدد اور حکومت پاکستان کے انتظامات کا خاکہ نقل کر رہا ہوں
اللہ متاءثرين کی مدد فرمائے

اقوام متحدہ کے امدادی پروگرام کے ترجمان موریزیو گیلانیو نے گزشتہ روز اسلام آباد بین الاقوامی میڈیا کو سیلاب کی صورتحال سے پیدا شدہ مسائل کے بارے میں بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ پانی سے پھیلنے والے امراض باعث تشویش ہیں ۔ ان حالات سے ہر ممکن طریقے سے نمٹنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

بین الاقوامی امدادی ادارے ریڈ کراس نے کہا ہے کہ
سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں پانی سے جنم لینے والے امراض میں اضافہ ہو رہا ہے
سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں پینے کے صاف پانی تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے بچوں کی اموات ہو رہی ہیں
اموات کی نئی لہر سامنے آسکتی ہے جسے روکنا سب سے اہم ہے
پانی سے پھیلنے والی بیماریوں سے 60 لاکھ زندگیوں کو شدید خطرات لاحق ہیں
ٹائیفائڈ، ہیپاٹائٹس اے اور ای ان علاقوں میں پھیل سکتے ہیں
35 لاکھ بچوں کی زندگی کو سنگین خطرہ ہے
اس وقت اسہال اور ممکنہ طور پر ہیضے کے نتیجے میں ہونیوالی ہلاکتوں کو روکنا ہو گا
عالمی ادارہ صحت ایک لاکھ چالیس ہزار افراد کو امداد فراہم کرنے کیلئے تیار ہے
تاہم حکومت پاکستان نے ابھی تک کسی کیس کی تصدیق نہیں کی

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے آفس کی ترجمان ایلزبتھ بائرز نے بتایا کہ
عالمی سطح پر پاکستان کی خراب ساکھ کے باعث سیلاب زدگان کی امداد کیلئے ریلیف پہنچانے والی ایجنسیوں کو فنڈز کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے ۔ ہم نے اکثر یہ بات نوٹ کی ہے کہ مغربی رائے عامہ میں پاکستان کی ساکھ خراب ہے جس کے نتیجے میں پاکستان یمن کی طرح ان ممالک میں شامل ہے جن میں سرمایہ کاری بہت کم کی جاتی ہے

ہومنٹیرین گروپ کئیر انٹرنیشنل [humanitarian group CARE International] کی ترجمان میلانی بروکس نے کہا کہ
اقوام متحدہ کو امداد دینے والی ریاستوں پر واضح کرنا ہوگا کہ ملنے والی امداد طالبان کے ہاتھوں میں نہیں جارہی۔ اقوام متحدہ کو بتانا ہوگا کہ سیلاب سے متاثرہ افراد کسان ، خواتین ، بچے اور غریب ہیں لیکن بد قسمتی سے ماضی میں پاکستان کو تعلق طالبان اور دہشت گردی سے ہی جوڑا جاتا رہا ہے
دیہی علاقوں کی تعمیر نو ، انفراسٹرکچر اور فصلوں کی تباہی سے ہونیوالے نقصان کو پورا کرنے کیلئے کھربوں روپے کی ضرورت ہوگی

حکومتِ پاکستان کے انتظام کی حالت روزانہ نجی ٹی وی چينل پر جو پيش کی جا رہی ہے اس کے علاوہ دی نيوز کے مطابق

نواز شریف کے ہمرا ہ اسلام آبا د میں بروز ہفتہ 14 اگست 2010ء کو کی گئی مشترکہ کانفرنس میں وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے سیلاب ریلیف فنڈ کو کنٹرول کرنے اور اس کے اخراجات کو مانیٹر کرنے کے لئے آزاد کمیشن کے قیام کے سلسل میں 3 ناموں کا اعلان کیا تھا اور کہا گیا تھا کہ ان اشخاص سے مشاورت کے بعد کميشن کے نام سامنے لائے جائینگے ۔ وہ 3 نام جن کا وزیراعظم نے اعلان کیا جسٹس (ر) فخر الدین جی ابراہیم ، جسٹس (ر) ناصر اسلم زاہد اور جسٹس (ر) رانا بھگوان داس ہیں جنہوں نے رابطہ کرن پر بتايا ہے کہ حکومت نے ابھی تک ان سے رابطہ نہيں کيا

مسلم لیگ ن میں موجود ذرائع نے بتایا کہ وزر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کی نواز شریف کے ہونے والی ملاقات کے دوران مذکورہ ناموں پر کوئی اعتراض سامنے نہیں آیا اور دونوں رہنماؤں کو اس امر پر اتفاق ہوا تھا کہ کمیشن کا جتنی جلدی ممکن ہو سکے اعلان کر دیا جائے۔مسلم لیگ ن کو امید تھی کہ حکومت کی جانب سے کمیشن کا پیر تک اعلان کر دیا جائے گا۔ اسحق ڈار سے کہا گیا ہے کہ وہ کمیشن کی تشکیل کے حوالے سے حکومت سے مسلسل رابطے میں رہیں

مسلم لیگ ن کے ساتھ ساتھ دیگر کو بھی کمیشن کی تشکیل کیلئے ایگزیکٹیو آرڈر یا صدارتی آرڈیننس کا انتظا ر ہے تاکہ کمیشن کام کا آغاز کرے

خیا ل کیا جا رہا ہے کہ کمیشن کیلئے جن نامور اور اہم شخصیات کے ناموں پر غور کیا جارہا ہے وہ کمیشن کا حصہ نہیں بنیں اگر حکومت نے صرف ان کے ناموں کو فنڈ جمع کرنے کیلئے استعمال کیا اور ان کو فنڈز کے استعمال کی اجازت نہ دی اگر ان افراد کو کرپشن روکنے اور شفّافیت برقرار رکھنے کا اختیار نہ ہوا تو بھی یہ مجوزہ کمیشن میں شامل نہیں ہو نگے

سيلاب ۔ بين الاقوامی ريڈ کراس کا بيان

لندن…انٹرنیشنل فیڈریشن آف ریڈ کراس اینڈ ریڈ کریسنٹ سوسائٹیز کے سیکریٹری جنرل بیکلے گیلیٹا نے برطانوی خبر ایجنسی کو انٹرویو میں کہا کہ

اب تک مطلوبہ ہنگامی امداد کا صرف ایک چوتھائی ہی پہنچ سکا ہے
عالمی برادری تباہی کو اموات کی تعداد سے جانچنے کی کوشش نہ کرے
سیلاب سے فصلیں برباد ہوگئی ہیں
نہری اور آب پاشی نظام سمیت زرعی اور دیگر انفرااسٹرکچر تباہ ہوگیا ہے
اس پورے نظام کی بحالی میں کم از کم پانچ سال کاوقت لگ سکتا ہے
بیرونی ممالک سے ہنگامی اور طویل مدتی امداد کے وعدے ناکافی ہیں
پاکستان جیسے ملک کیلئے سیلاب کی تباہ کاری سے اکیلے نمٹنا تقریباً ناممکن ہے
مقامی اور عالمی سطح پر سنگین صورت حال پر توجہ برابر مبذول کرانے کیلئے میڈیا کچھ عرصے تک سیلاب کو نمایاں کوریج دیتا رہے

گیلیٹا نے خدشہ ظاہر کیا کہ
اگر مطلوبہ امداد فوری طورپرنہ ملی تو صورت حال نہایت سنگین ہوسکتی ہے
وبائی امراض پھوٹنے اور غذائی قلت سے خاص کر بچے اور معمر افراد کی اموات کی شرح بڑھ سکتی ہے۔

ہم ۔کل اور آج ۔ فرق کيا ہے ؟

بلا شُبہ عصرِ حاضر ميں سائنس کی پچھلی آدھی صدی ميں روز افزوں ترقی کے نتيجہ ميں کئی نئے علوم متعارف ہوئے ہيں ۔ ترقی نے زندگی بظاہر بہت آسان بنا دی ہے اور فاصلے بہت کم کر ديئے ہيں ۔ وہ زمانہ تھا کہ اسلام آباد سے کراچی خط لکھ کر جواب کيلئے ايک ہفتہ انتظار کرنا پڑتا تھا ۔ يورپ ۔ امريکا يا جاپان کی صورت ميں چار چھ ہفتے معمولی بات تھی ۔ آج اسلام آباد ميں بيٹھے براہِ راست امريکا اور جاپان بات ہو سکتی ہے اور ايک دوسرے کو ديکھا بھی جا سکتا ہے ۔ بہت سی ديگر سہوليات بھی ميسّر ہو گئی ہيں ۔ يہ سب کچھ ہميں دساور سے دستياب ہوا ہے ۔ اس ميں اپنی محنت اول ہے ہی نہيں اور اگر ہے بھی تو نہ ہونے کے برابر ۔ ہم نے دساور سے ان سہوليات کے ساتھ فرنگيوں کی فضوليات تو بہت لے ليں ہيں مگر اُن کی خُوبيوں کو نہيں اپنايا

ميرا موضوع البتہ يہ نہيں بلکہ يہ ہے کہ کيا آج سے آدھی صدی قبل ہم زيادہ تربيت يافتہ تھے يا کہ آج ہم زيادہ تربيت يافتہ ہيں ؟

پانچ سال قبل زلزلہ نے ہميں پريشان کيا اور آج ہميں سيلاب نے اس سے بھی زيادہ پريشان کر ديا ہے ۔ پريشانی کی بنيادی وجوہ دو ہيں

ايک ۔ مال کی محبت نے بے راہ رَو بنا ديا ہے
دو ۔ مربوط عمل سے نا آشنائی

ہم ايسے نہ تھے بلکہ ايسے بن گئے ہيں
ہمارے دين نے ہميں سيدھی راہ اور مربوط عمل کا سبق ديا مگر ہم نے دين کو ترقی کی راہ ميں رکاوٹ سمجھنا شروع کر ديا
معمارانِ قوم جن کی فراست و محنت کے نتيجہ ميں اللہ نے ہميں يہ مُلک عطا کيا ہم نے اُن کے ترتيب ديئے ہوئے نظام کو نام نہاد ترقی کے نام پر تج ديا

آدھی صدی قبل کا طريقہ تعليم

چھَٹی جماعت سے ہی نصاب سے متعلق کُتب کے ساتھ ساتھ غير نصابی يا ہم نصابی کُتب پڑھنے کی حوصلہ افزائی کی جاتی تھی ۔ خلاصہ يا ماڈل پيپر وغيرہ کسی طالبعلم کے پاس ديکھا جائے تو چھين ليا جاتا تھا
روزمرہ اور فلاحی کاموں ميں عملی تربيت کی ترغيب دی جاتی تھی جن ميں سے چند درج کر رہا ہوں

ايک رضاکار ادارہ ہوتا تھا “جنرل نالج سوسائٹی” جو معلوماتِ عامہ کی چھوٹی چھوٹی کتابيں شائع کرتا تھا اور ہر سال گرميوں کی تعطيلات ميں امتحان منعقد کيا کرتا تھا ۔ يہ کتب برائے نام قيمت پر دستياب ہوتی تھيں ۔ اساتذہ چھٹی جماعت سے ہی يہ امتحان پاس کرنے کی ترغيب ديتے ۔ ان امتحانات کی چار مختلف سطحيں ہوتی تھيں ۔ ہم لوگوں نے نويں جماعت تک تيسری سطح تک کے امتحان پاس کئے ۔ پاس کرنے کيلئے 80 فيصد نمبر حاصل کرنا لازم تھے ۔ يہ معلومات قومی تاريخ ۔ مشہور ملکی اور غيرملکی لوگ اور ان کے کارناموں ۔ تاريخی مشہور واقعات ۔ مشہور جغرافيائی مقامات اور زندگی کے ہر شعبہ کے متعلق ہوتی تھيں

ايک سِول ڈيفنس کا ادارہ ہوتا تھا اور ايک فرسٹ ايڈ کا ۔ يہ بھی رضاکار ادارے تھے ۔ يہ ادارے آٹھويں سے بارہويں جماعت کے طلباء کو چھُٹيوں ميں يا سکول کالج کے وقت کے بعد آگ بُجھانے ۔ ہوائی حملہ کی صورت ميں اقدامات ۔ عمارت ميں پھنسے لوگوں کو نکالنے ۔ زخميوں کو ابتدائی طِبی امداد دينے ۔ زخميوں کو ہسپتال پہنچانے ۔ وبائی امراض کی صورت ميں گھر گھر جا کر ٹيکے لگانے ۔ محلوں ميں لوگوں کو بچاؤ کے طريقوں پر معلومات فراہم کرنے کے بارے ميں تعليم و تربيت ديتے تھے
يہ بھی تربيت دی جاتی تھی کہ
اگر سٹريچر نہ ہو تو دو آدمی مل کر کس طرح سٹيچر کا کام کرتے ہيں
اگر ايمبولنس يا گاڑی نہ ہو تو دو بائيسائيکلوں کو جوڑ کر کيسے گاڑی بنائی جاتی ہے کہ زخمی کو ہسپتال پہنچايا جائے
اور اگر سٹريچر اور بائسائيکل نہ ہوں تو کيسے چار آدمی مل کر مريض کو ہسپتال پہنچاتے ہيں
مشق کيلئے جھوٹے فضائی حملے ہوتے اور جھوٹی آگ لگائی جاتی اور ہميں کام کرتے ہوئے ديکھا جاتا کہ تربيت مں کوئی کمی تو نہيں رہ گئی
ان کے تحريری اور عملی امتحانات ہوتے تھے
تربيت کے بعد محلوں کے گروپ بنا ديئے جاتے ہر گروپ کا ايک ليڈر ہوتا ۔ بلکہ وارڈ ہوا کرتے تھے جو بڑے محلوں ميں ايک سے زيادہ تھے
جب رضاکاروں کی ضرورت پڑتی سِول ڈيفنس والوں کے پاس فہرستيں ہوتی تھيں ہميں بُلا ليا جاتا تھا ۔ ہم سے مختلف فلاحی کام لئے جاتے ۔
کچھ محلوں ميں رمضان کے مہينہ ميں خود سے سب رضاکار مل کر سحری کيلئے لوگوں کو باجماعت بلند آواز ميں”جاگو جاگو” کہہ کر جگايا کرتے تھے

سکول اور کالج ميں بارہويں تک اخلاقيات کے ہفتہ وار ليکچر ہوا کرتے تھے جن ميں ہميں بتايا جاتا تھا کہ
گھر کے اندر کيسے رہتے ہيں
محلے ميں کيسے رہتے ہيں
دوسروں کے ساتھ کيسا سلوک کرنا چاہيئے
کمزور يا بوڑھے يا معذور آدمی کی مدد کرنا چاہيئے
پانی يا اناج ضائع نہيں کرنا چاہيئے
بس ميں کيسے سفر کرتے ہيں
پکنک پر کيا کرتے ہيں
اور کيا کيا نہيں کرنا چاہيئے

دو اصول ہميں بار بار ياد کرائے جاتے تھے

آدمی اپنی مدد تو کرتا ہی ہے ۔ زندگی کا مقصد دوسروں کے کام آنا ہے
By being polite and saying thank you, you lose nothing but you may gain

مندرجہ بالا کے علاوہ
بيت بازی ۔ مضمون نويسی اور تقريری مقابلے ہوتے ۔ پہلے سيکشن ميں ۔ پھر پوری جماعت کا ۔ پھر پورے سکول يا کالج کا
سکول اور کالج ميں صبح سويرے پڑھائی شروع ہونے سے ايک گھنٹہ قبل جسمانی تربيت المعروف پی ٹی [Physical Training] کے لئے بُلايا جاتا اور پی ٹی کرائی جاتی
نصابی مضامين کی حاضری 80 فيصد اور ورزش کی حاضری 70 فيصد ہونا ضروری تھی بصورتِ ديگر سالانہ امتحان ميں بيٹھنے نہيں ديا جاتا تھا

مندرجہ بالا صورتِ حال اُس زمانہ کی ہے جو آج کے جوانوں کے مطابق شايد جاہليت کا دور تھا ۔ يہ نظام 1966ء ميں بے توجہی کا شکار ہونا شروع ہوا اور ذوالفقار علی بھٹو کے دور ميں بجائے درستگی کے اسے ختم کر ديا گيا
آج کا پڑھا لکھا طبقہ ڈھيروں اسناد حاصل کر کے اچھی ملازمت کی تلاش ميں سرگرداں رہتا ہے مگر معاشرے کے فرد کی حيثيت سے اپنی ذمہ داريوں سے ناواقف ہے

پاکستانی ابھی زندہ ہے

آج کے دبئی کے انگريزی اخبار “گلف نيوز” ميں ايک خبر پڑھ کر تازہ ہوا کا جھونکا آيا اور سينہ کشادہ ہو گيا ۔ ايک 32 سالہ پاکستانی بايزيد شفارس خان 2003ء سے متحدہ عرب امارات ميں ٹيکسی چلا کر اپنی روزی کما رہا ہے اور پاکستان ميں اپنے خاندان کی کفالت کرتا ہے ۔ پچھلے ماہ اپنے کمرے ميں آرام کر رہا تھا کہ ايک ساتھی نے بتايا کہ تين آدميوں نے ايک چور کو پکڑ ليا ہے ۔ بايزيد باہر نکلا تو ديکھا کہ چور ان کی گرفت سے نکلا جا رہا ہے ۔ اُس نے جاکر چور کو قابو کيا ہی تھا کہ وہ تين لوگ چھوڑ کر چلے گئے

بايزيد خان کہتا ہے کہ “ارد گرد کے لوگوں پر مجھے حيرت ہوئی کہ وہ کہہ رہے تھے چھوڑ دو ۔ خواہ مخوا اپنے گلے کيوں مصيبت ڈالتے ہو ۔ اُس کے ساتھی کل کو تُم سے بدلہ ليں گے ۔ ہم نے تو اچھائی کا ساتھ دينا اور برائی کو روکنا سيکھا ہے ۔ اس لئے ميں نے اسے نہ چھوڑا حالانکہ اس نے اپنے آپ کو چھڑانے کی بہت کوشش کی ۔ پوليس کو آنے ميں دير لگی مگر ميں نے اُسے نہ چھوڑا”

کاش ميرے ہموطن اس غريب ٹيکسی ڈرائيور سے ہی کچھ سبق سيکھيں جس نے غير ملک ميں بھی اچھائی اور برائی کو درست طريقہ سے ياد رکھا

يومِ آزادی ۔ کچھ حقائق

my-id-pak
ميں نے کل يہ تحرير صبح سويرے ہی شائع کر دی ۔ بعد ميں ديکھا تو تحرير ميرے بلاگ سے غائب ہو گئی تھی مگر اُردو سيّارہ پر موجود تھی ۔ بڑی تگ و دو کے بعد دوبارہ شائع کی تو درست نہ کيا ہوا مسؤدہ شائع ہو گيا ۔ وہ نامعلوم کہاں سے آ گيا تھا ۔ اب ميں نے درست تحرير شائع کر دی ہے اور عنوان بھی درست کر ديا ہے

آج ہمارے ملک کی عمر 63 شمسی سال ہو گئی ہے اور قمری مہينوں کےحساب سے 64 سال سے تين ہفتے کم

تمام پاکستانی بزرگوں بہنوں بھائيوں بچوں اور بچيوں کو يومِ آزادی مبارک ۔ اس وقت پورے ملک کی 10 فيصد آبادی صدی کے بدترين سيلاب سے متاءثر ہو چکی ہے جن ميں ايک کروڑ صرف پنجاب ميں متاءثر ہوئے ہيں اور 40 لاکھ بچے متاءثر ہوئے ہيں ۔ بقايا 90 فيصد ہموطنوں کا فرض ہے کہ اپنے ان بزرگوں ۔ بہنوں ۔ بھائيوں اور بچوں کی ہر طرح سے مدد کريں ۔ اللہ ہمارے حکمرانوں کو بھی ديانتداری سے اپنے فرائض جلد از جلد پورے کرنے کی توفيق عطا فرمائے ۔ آمين ثم آمين

1946ء کے بلوچستان ۔ سندھ ۔ خيبر پختونخواہ ۔ پنجاب اور بنگال کے علاوہ باقی ہندوستان سے پاکستان آئے ہوئےچند مسلمان يا اُن کی اولاد جن ميں الطاف حسين صاحب جيسے روشن خيال اور محمود مدنی صاحب جيسے مُلا بھی شامل ہيں تحريکِ پاکستان اور پاکستان کے قيام کے بارے ميں اُؤٹ پٹانگ بيانات ديتے رہتے ہيں ۔ اسلئے قارئين کی معلومات کيلئے تاريخی کُتب سے ايک مختصر ترين خاکہ رقم کر رہا ہوں

پاکستان اور بھارت میں شائع ہونے والی تاریخی کُتب کے مطابق دسمبر 1945ء میں مرکزی قانون ساز اسمبلی کے نتائج کا اعلان ہوا تو مسلم لیگ کو 90 فیصد مسلمان ووٹ ملے تھے اور اس نے 30 مسلم نشستوں میں سے 30 ہی حاصل کر لی تھیں ۔ ان میں غیر مسلم علاقے [صوبے] بھی شامل تھے ۔ کانگریس نے 62 عمومی [ہندو] نشستوں میں سے 57 جیتی تھیں

مسلم لیگ کی سو فیصد کامیابی تاریخ کا ایک حیرت انگیز واقعہ تھا ۔ 1946ء کے آغاز میں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہوئے تو یو پی کی 66 مسلم نشستوں میں سے 54 ۔ سی پی کی 14 میں سے 13 ۔ اڑیسہ کی 4 میں سے 4 ۔ بمبئی کی 30 میں سے 30 ۔ آسام کی 34 میں سے 33 اور بہار کی 40 میں سے 34 مسلم لیگ نے حاصل کر لیں ۔ 1946ء کے انتخابات میں یو پی کے شہری علاقوں میں کانگریس کو ملنے والے مسلمان ووٹ ایک فیصد سے بھی کم تھے ۔ مسلم لیگ نے یہ انتخابات ایک ہی انتخابی نعرے پر لڑے اور وہ تھا ”پاکستان”

15 اگست 1947ء کو مولانا ظفر علی خان کا لکھا ہوا مندرجہ ذيل قومی ترانہ نشر ہوا تھا . ميری عمر اس وقت دس سال تھی ۔ مجھے پہلا مصرع اور چند اور مصرعے ياد تھے ۔ مکمل مہياء کرنے کيلئے ميں شکر گذار ہوں فرحت کيانی صاحبہ کا

توحید کے ترانہ کی تانیں اڑائے جا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مطرب تمام رات یہی نغمہ گائے جا
ہر نغمہ سے خلا میں ملا کو ملائے جا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہر زمزمہ سے نُور کے دریا بہائے جا
ایک ایک تیری تال پہ سُر جھومنے لگيں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایک ایک سُر سے چوٹ جگر پہ لگائے جا
ہر زیر و بم سے کر تہہ و بالا دماغ کو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہر گٹکری سے پیچ دلوں کے گھمائے جا
ناسوتیوں سے چھین کے صبر و قرار و ہوش ۔ ۔ ۔ لاہوتیوں کو وجد کے عالم میں لائے جا
تڑپا چُکیں جنھیں تیری رنگیں نوائیاں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان کو یہ چند شعر مرے بھی سنائے جا
اے رَہ نوردِ مرحلہ ہفت خوانِ عشق ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اِس مرحلہ میں ہر قدم آگے بڑھائے جا
خاطر میں لا نہ اس کے نشیب و فراز کو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو سختیاں بھی راہ میں آئیں اٹھائے جا
رکھتا ہے لاکھ سر بھی اگر اپنے دوش پر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نامِ محمدِ عربی پر اسے کٹائے جا
وہ زخم چُن لیا جنہیں پُشتِ غیر نے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حصے میں تیرے آئیں تو چہرے پہ کھائے جا
کرتا رہ استوار اساسِ حریمِ دیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ساتھ ساتھ کُفر کی بنیاد ڈھائے جا
چھلکائے جا پیالہ شرابِ حجاز کا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دو چار گھونٹ اس کے ہمیں بھی پلائے جا
سر پر اگر ہو تاج تو ہو دوش پر گلیم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دُنیا کو شان یثربیوں کی دکھائے جا
رکھ مسندِ رسول کی عزت برقرار ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسلام کے ہلال کا پرچم اُڑائے جا

معنی بشکريہ محمد وارث صاحب
ملا ۔ ظاہر ۔ واضح
خلا ۔ غائب
گٹکری ۔ وہ سریلی اور پیچ دار آواز جو کلاسیکی یا پکے راگ گانے والے اپنے حلق سے نکالتے ہیں