اوقاتِ نماز

بیسویں اور اکییسویں صدی عیسوی میں چند اشخاصں نے فرض نمازوں کی تعداد اور اوقات کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی ۔ اصل معاملہ کچھ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان چند اشخاص کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سُنت و حدیث پر یقین نہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ سُنت و حدیث سے مدد لئے بغیر قرآن شریف کو عربی زبان کا کوئی ماہر بھی درست طریقہ سے سمجھ نہیں سکتا ۔ جہاں تک نماز کے اوقات ۔ طریقہ اور اس میں پڑھنے کا تعلق ہے یہ تو سُنت و حدیث سے رہنمائی لئے بغیر کسی طرح ممکن ہی نہیں ۔ پانچ واجب نمازیں [جنہیں ہمارے ملک میں فرض کہا جاتا ہے] اوّل روز سے پڑھی جا رہی ہیں ۔ رسول کی اطاعت کرنے کیلئے اللہ کا حُکم قرآن شریف میں کئی جگہ مرقوم ہے ۔ پانچ نمازیں جن کا حُکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے دیا ان کو متنازعہ بنانا صرف رسول کی ہی نہیں اللہ کے حُکم کی بھی خلاف ورزی ہے

نماز کے اوقات سے متعلق میرے علم کے مطابق جو آیات قرآن شریف میں ہیں اُن کا ترجمہ نقل کر رہا ہوں ۔ کسی زبان کا ترجمہ دوسری زبان میں پیش کرتے ہوئے اصل صورتِ حال کو برقرار رکھنا مُشکل ہوتا ہے ۔ اس کے علاوہ اوّل نص قرآن شریف ہے ۔ اس کے بعد حدیث و سُنّت ۔ اسلئے قرآن شریف کو پڑھنا اور سمجھنا لازم ہے ۔ مندرجہ ذیل آیات سے مجھے جو سمجھ آئی وہ ہر آیت کے نیچے خطوط وحدانی میں درج ہے

سورت 11 ۔ ھود ۔ آیت 114
اور دن کے دونوں سروں اور رات کی چند ساعات میں نماز پڑھا کرو۔ کچھ شک نہیں کہ نیکیاں گناہوں کو دور کر دیتی ہیں۔ یہ ان کے لیے نصیحت ہے جو نصیحت قبول کرنے والے ہیں
[یہ فجر ۔ مغرب اور عشاء کی نمازوں کی تاکید ہے]

سورت 17 ۔ بنیٓ ارآءیل ۔ آیت 78
(اے محمدﷺ) سورج کے ڈھلنے سے رات کے اندھیرے تک نمازیں اور صبح کو قرآن پڑھا کرو۔ کیوں صبح کے وقت قرآن کا پڑھنا موجب حضور (ملائکہ) ہے
[یہ دوپہر کو سورج ڈھلنے سے لے کر اندھیرا ہونے تک کی نمازوں کی تاکید ہے یعنی ظہر ۔ عصر ۔ مغرب اور عشاء]

سورت 20 ۔ طٰہٰ ۔ آیت 130
پس جو کچھ یہ لغو باتیں کرتے ہیں اس پر صبر کرو۔ اور سورج کے نکلنے سے پہلے اور اس کے غروب ہونے سے پہلے اپنے پروردگار کی تسبیح وتحمید کیا کرو۔ اور رات کی ساعات میں بھی اس کی تسبیح کیا کرو اور دن کی اطراف تاکہ تم خوش ہوجاؤ
[یہ فجر ۔ عصر ۔ عشاء اور ظہر کی تاکید ہے]

سورت 24 ۔ النّور ۔ آیت 58
مومنو! تمہارے غلام لونڈیاں اور جو بچّے تم میں سے بلوغ کو نہیں پہنچے تین دفعہ یعنی (تین اوقات میں) تم سے اجازت لیا کریں۔ نماز صبح سے پہلے اور ظہر کے وقت جب تم کپڑے اتار دیتے ہو۔ اور تیسرے عشاء کی نماز کے بعد۔ (یہ) تین (وقت) تمہارے پردے (کے) ہیں ان کے (آگے) پیچھے (یعنی دوسرے وقتوں میں) نہ تم پر کچھ گناہ ہے اور نہ ان پر۔ کہ کام کاج کے لئے ایک دوسرے کے پاس آتے رہتے ہو۔ اس طرح اللہ اپنی آیتیں تم سے کھول کھول کر بیان فرماتا ہے اور اللہ بڑا علم والا اور بڑا حکمت والا ہے
[یہاں فجر ۔ ظہر اور عشاء کی نمازوں کا بالواسطہ ذکر ہے]

سورت 30 ۔ الروم ۔ آیت 17 و 18
تو جس وقت تم کو شام ہو اور جس وقت صبح ہو اللہ کی تسبیح کرو (یعنی نماز پڑھو) ۔ اور آسمانوں اور زمین میں اُسی کی تعریف ہے۔ اور تیسرے پہر بھی اور جب دوپہر ہو (اُس وقت بھی نماز پڑھا کرو)
[یہاں مغرب ۔ فجر ۔ عصر اور ظہر کی نمازوں کی تاکید ہے ۔ نماز کو اللہ کی تسبیح کہا گیا ہے ۔ یہ وہ تسبیح نہیں جو ہم دانوں پر گنتے ہیں]

سورت 40 ۔ المؤمن ۔ آیت 55
تو صبر کرو بےشک اللہ کا وعدہ سچا ہے اور اپنے گناہوں کی معافی مانگو اور صبح وشام اپنے پروردگار کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتے رہو
[روزانہ سب نمازیں پڑھا کرو]

سورت 50 ۔ قٓ ۔ آیت 39 و 40
تو جو کچھ یہ (کفار) کہتے ہیں اس پر صبر کرو اور آفتاب کے طلوع ہونے سے پہلے اور اس کے غروب ہونے سے پہلے اپنے پروردگار کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتے رہو ۔ اور رات کے کسی وقت میں بھی اور نماز کے بعد بھی اس (کے نام) کی تنزیہ کیا کرو
[یہاں فجر ۔ عصر اور عشاء کی نمازوں کی تاکید ہے]

سورت 73 ۔ مزمّل ۔ آیت 2 و 3
رات کو قیام کیا کرو مگر تھوڑی سی رات ۔ آدھی رات یا اس سے بھی کچھ کم کر لو
[يہ عشاء کی نماز کے دورانيئے کے متعلق حکم ہے]

سورت 76 ۔ الدھر ۔ آیت 25 و 26
اور صبح وشام اپنے پروردگار کا نام لیتے رہو ۔ اور رات کو اس کے سامنے سجدے کر و اور بہت رات تک اس کی تسبیح کیا کرو
[یہ پھر روزانہ سب نمازیں پڑھنے کی تاکید ہے جس میں رات کی نماز کا بالخصوص ذکر ہے]

This entry was posted in دین on by .

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

9 thoughts on “اوقاتِ نماز

  1. جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین

    اسلام کے تمام مکتبہِ فکر اسلام میں پانچ فرض نمازوں کو مانتے ہیں۔ اور انکے اوقات نماز بھی فجر، ظہر، عصر ، مغرب و عشاء تسلیم کرتے ہیں۔ جو لوگ فرض نمازوں کی تعداد پہ حجت کرتے ہیں دراصل وہ فتنہ پھیلانا چاہتے ہیں۔ اسلام میں اس طرح کے فتنئے کی سزا مقرر ہے۔

    اگر ممکن ہو تو آپ اُن لوگوں کے حوالہ جات بھی دیتے یو ایسی مذموم حرکات میں ملوث ہیں

  2. جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین

    محترم اجمل صاحب!
    غلام احمد پرويز اور نام نہاد “بزمِ طلوع اسلام” کے بارے میں، آپکی اجازت سے ایک معلوماتی مضمون یہاں نقل کر رہا ہوں۔ غالباََ آپ نے بھی اسی “غلام احمد پرویز” کے بارے لکھا ہے۔یہ مضمون علامہ محمد یوسف۔ جامعہ علوم اسلامیہ۔ بنوری ٹاؤن۔ کراچی۔ نے تحریر کیا ہے۔

    آخر میں اس مضمون کا ربط (لنک) بھی نقل کر رہا ہوں۔ مضمون اسلئیے یہاں نقل کرنا چاہ رہا ہوں کہ اگر کسی وجہ سے اصل لنک نہ کھلے تو قارئین کو “غلام احمد پرویز” کی لن ترانیوں کو سمجھنے میں آسانی رہے۔ جزاک اللہ

    روشن خیالی اورجد ید یت کی تاریخ منکرِ قرآن وحدیث غلام احمد پرویز
    روشن خیالی اورجدیدیت کی تاریخ
    منکرِ قرآن وحدیث غلام احمد پرویز

    تاریخ گواہ ہے کہ اسلام کو دو قسم کے لوگوں نے ہمیشہ سخت نقصان پہنچایاہے‘ ایک کفار ومشرکین جن میں یہود وہنود اور نصاریٰ اورتمام ملت کفر شامل ہے‘ اور دوسرے ملحدین یعنی وہ لوگ جو دل سے منافقین اور دشمنانِ اسلام ہوتے ہوئے اسلام کا لبادہ اوڑھ کر مسلمانوں میں دینِ حق کے خلاف اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل چاہتے ہیں‘ پہلے والے گروہ سے تعلق رکھنے والے لوگ اسلام کے کھلے دشمن ہوتے ہیں‘ان کی دشمنی‘ ان کا وار اور ان کا خبثِ باطن کھل کر سامنے آتاہے اور ان سے بچاؤ کی تدبیر بھی نسبتاً آسان ہوتی ہے‘ جبکہ مؤخر الذکر دشمنانِ اسلام کا ظاہری حال چونکہ مسلمانوں جیسا ہوتا ہے‘ بلکہ کبھی اپنے آپ کو ظلِ نبی اور کبھی اہلِ قرآن وغیرہ بتاکر پکے مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں‘ لہذا ان کی اسلام دشمنی ‘ ریشہ دوانیاں اور خبثِ باطن بھی کھل کر سامنے نہیں آتا اور یہ لوگ مارے آستین بن کر مسلمانوں کو ڈستے رہتے ہیں۔ برٹش حکومت کے محکمہٴ انفارمیشن کے ایک وفادار ملازم چوہدری غلام احمد پرویز نے اپنے ملحدانہ سفر کا آغاز اس خطہ کے اکابر علمأ حق کے خلاف اپنی تند وتیز بلکہ سوقیانہ تحریروں سے کیا‘ اور پھر آہستہ آہستہ احادیثِ رسول اکرم ا پر ہاتھ صاف کیا‘ ابتداء میں چونکہ وہ اپنے آپ کو مسٹر محمد علی جناح اور علامہ اقبال کا شیدائی اور ان کے طریق پر کار بند ظاہر کرتے ہوئے اپنے آپ کو صحیح خادمِ دین گردانتا تھا‘ اس لئے اس کا دجل مسلمانوں پر فوراً واضح نہ ہو سکا‘ مگر علمأ حق نے جلدہی اس کا علمی تعاقب کیا اور اس کے دجل وفسوں کا پردہ چاک کیا۔
    پرویز کا خبثِ باطن اس وقت کھل کر سامنے آیا جب اس نے احادیثِ رسول اکرم ا کا انکار کیا اور بے باکانہ انداز میں برملا اظہار کیا کہ احادیث‘ قرآن کے خلاف عجمی سازش ہیں‘ اور یہ رسولِ اکرم ا کے دوسو سال بعد مرتب ہوئی ہیں‘ لہذا یہ ناقابلِ اعتبار ہیں‘ یہاں تک کہ پرویز نے ”اصح الکتب بعد کتاب اللہ“ (بخاری شریف) کے بارے میں بکواس کردی کہ: چنانچہ اس باطل نظریہ کے بموجب وہ منکرِ حدیث کے نام سے مشہور ہوا‘ اب جب بھی کہیں منکرِ حدیث کا ذکر آتاہے تو پوری دنیا کے مسلمانوں کے ذہنوں میں پرویز کا مکروہ چہرہ آجاتاہے۔
    پرویز اینڈ کمپنی چونکہ اپنے آپ کو اہلِ قرآن کہتے ہیں جس سے یہ تأثر ملتا ہے کہ وہ قرآنی تعلیمات پر سختی سے کار بند ہیں‘ لہذا عوام الناس کے ذہنوں میں یہ ایک عام تأثر پیدا ہوتا ہے کہ پرویز صرف منکرِ حدیث ہے اور وہ قرآنی تعلیمات پر سختی سے کار بند ہے۔ لہذا ہم یہ صراحت کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ پرویز جس طرح منکرِ حدیث ہے‘ اسی طرح وہ منکرِ قرآن بھی ہے‘ کیونکہ اس نے قرآنی آیات کے متعین اور متوارث معانی ومفاہیم کو بدل کر ان کو اپنا وضع کردہ لباس پہنایا ہے‘ اس کے نزدیک کلمہ‘ نماز‘ زکوٰة‘ روزہ‘ حج‘قربانی وغیرہ کے وہ معنیٰ نہیں ہیں جوکہ مسلمانوں میں عہد نبوی سے لے کر تاحال مشہور ومتعارف ہیں‘ بلکہ اصل معانی وہ ہیں جو تیرہ سو برس بعد صرف غلام احمد پرویز کو سمجھنا نصیب ہوئے ہیں اور جن سے آج تک پوری امت مسلمہ بے گانہ اور بے خبر رہی ہے‘ ذیل میں غلام احمد پرویز کی تصانیف کے اقتباسات کی روشنی میں اس کے باطل نظریات کی ایک جھلک دکھائی جاتی ہے‘ تاکہ مسلمان اپنے آپ کو اور اپنے دوست احباب کو اس مارّ آستین سے بچانے کی کوشش کرے۔
    ۱-کلمہ طیبہ کے معنی
    ”لاالہ الا اللہ“ قانون صرف خدا کا ہے‘ کسی اور کا نہیں۔ محمد رسول اللہ محمد کی پوزیشن اتنی ہے کہ وہ اس قانون کا انسانوں تک پہنچانے والا ہے‘ اسے بھی یہ کوئی حق نہیں کہ وہ کسی پر اپنا حکم چلائے“۔
    (سلیم کے نام خط ج:۲‘ص:۳۴)
    آپ نے دیکھا کہ پرویز نے الٰہ کا مشہور ترجمہ:”معبود“ کو چھوڑ کر اس کا ترجمہ قانون سے کیا۔ گویا عبادت کے لائق کسی ہستی کا وجود ہی نہیں‘ ہاں خدا کے نام سے کوئی ہستی ہے تو یہ صرف وہ ہے جس کا قانون ماننا چاہئے اور اس کی عبادت کا کوئی ذکر نہیں۔
    محمد رسول اللہ کے معنیٰ میں رسول اللہ ا کو صرف مبلغ یعنی پہنچانے والا بتایا گیا ہے اور آپ ا کو یہ اختیار نہیں کہ اپنی طرف سے اس کی تشریح وتوضیح کرے‘ یہ صراحةً انکارِ حدیث ہے۔
    ۲- حضرت آدم علیہ السلام ‘ ملائکہ اور ابلیس کے وجود کا انکار

    ”واذ قال ربک للملائکة انی جاعل فی الارض خلیفة“ (البقرہ:۳۰)
    ترجمہ:․․․” جب زندگی اپنی ارتقائی مناظر طے کرتی ہوئی پیکر انسانی میں پہنچی اور مشیئت کے پروگرام کے مطابق وہ وقت آیا کہ اپنے سے پہلی آبادیوں کی جگہ زمین میں آباد ہو“۔ (مفہوم القرآن ص:۱۲)
    یہاں حضرت آدم علیہ السلام کی مٹی سے تخلیق جیسے کہ قرآن سے ثابت ہے‘ اس کا انکار کیا گیا ہے اور ڈارون کے نظریہ ارتقاء کو ٹھونسا گیا ہے۔ ڈارون کا نظریہ تھا کہ انسان ابتداء میں بندر تھا‘ رفتہ رفتہ اس نے انسان کی شکل اختیار کی ہے‘ پرویز بھی اس نظریہ کا مبلغ ہے‘ اس تشریح کے بموجب گویا حضرت آدم علیہ السلام کا وجود ہی نہیں تھا‘ انسان مختلف ارتقائی مراحل طے کرکے موجودہ شکل تک پہنچا ہے‘ نیز خلیفہ کا ترجمہ ”انسانوں کا پہلی آبادیوں کی جگہ لینے“ کا کیا گیا ہے ‘ آگے لکھتے ہیں:

    ”واذ قلنا للملائکة اسجدوا لآدم فسجدو الا ابلیس“ (البقرہ:۳۴)
    ترجمہ:․․․”اس پر کائناتی قوتیں سب انسان کے آگے جھک گئیں‘ لیکن ایک چیز ایسی بھی تھی جس نے اس کے سامنے جھکنے سے انکار کردیا‘ اس نے سرکشی اختیار کی‘ یہ تھے انسان کے خود اپنے جذبات‘ جس کے غالب آجانے سے اس کی عقل وفکر ماؤف ہوجاتی ہے“۔ (مفہوم القرآن ص:۱۳)
    ملائکہ کا ترجمہ” کائناتی قوتوں“ سے کرکے فرشتوں کے وجود کا انکار کیا گیاہے اور ابلیس کی تشریح ”انسان کے اندر کے سرکش جذبات“ سے کرکے ابلیس کے مستقل وجود سے انکار کیا گیا ہے‘ اگر ابلیس انسان کے اندر کے سرکش جذبات کا نام ہے تو ملائکہ کے سجدہ کے وقت پھر انکار کس نے کیا تھا؟!
    ۳- پرویز اور نماز

    ”وارکعوا مع الراکعین“۔ (البقرة :۴۳)
    ترجمہ:․․․”اور اسی طرح تم بھی اب ان کے ساتھی بن جاؤ جو قوانینِ خداوندی کے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہیں“۔ (مفہوم القرآن ص:۱۶)
    آیت کا مشہور ترجمہ ہے اور ”نماز پڑھو نماز والوں کے ساتھ“ گویا نماز باجماعت کی تاکید ہے ‘ پرویز نے نماز کے معنیٰ ہی اڑادیئے اور یوں نماز کا انکار کیا ‘ نیز دیکھیں :

    ”فول وجہک شطر المسجد الحرام“ ۔(البقرہ:۵۰)
    ترجمہ:․․․” تمہارے سامنے کوئی بھی پروگرام ہو اپنی نگاہ ہمیشہ مرکز کی طرف رکھو“ ۔(مفہوم القرآن ص:۵۵)
    مفسرین نے تصریح کی ہے کہ اس سے مراد حالتِ سفر یا حضر دونوں میں نماز کے دوران استقبالِ قبلہ مراد ہے‘ پرویز نے نماز سے مراد”کوئی بھی پروگرام“ لے کر اسلام کی سب سے عظیم عبادت کی دھجیاں بکھیر دی ہیں اور نماز کا صریح انکار کردیا ہے‘ نماز کے بارے میں پرویز کی مزید کفریات ملاحظہ کیجئے۔
    ”عجم میں مجوسیوں (پارسیوں) کے ہاں پرستش کی رسم کو نماز کہا جاتاہے‘ قرآنِ کریم نے نماز پڑھنے کے لئے نہیں کہا‘ قیامِ صلوٰة یعنی نماز کے قیام کا حکم دیا ہے․․․․ اب حالت یہ ہوچکی ہے کہ ”اقیموا الصلوٰة“ سے ذہن نماز پڑھنے کے علاوہ کسی اور طرف منتقل ہی نہیں ہوتا‘ ان کی (مسلمانوں کی) نماز ایک وقت معینہ کے لئے ایک عمارت (مسجد) کی چاردیواری کے اندر ایک عارضی عمل بن کر رہ جاتی ہے“۔
    (مفہوم القرآن ج:۴‘ ص:۳۲۸․․․قرآنی فیصلے ص:۲۶ تا ۲۷)
    قارئین اس عبارت سے خود اندازہ لگائیں کہ پرویز اس صلوٰة یعنی نماز کا قائل ہی نہیں‘ جس کے بارے میں رسولِ اکرم ا نے فرمایا کہ نماز ا سطرح پڑھو جس طرح مجھے پڑھتے دیکھتے ہو اور جس پر آج تک امت قائم چلی آرہی ہے‘ اس طریقِ نبوی ا کے بارے میں پرویز کس تمسخرانہ انداز میں تنقید کرتے ہوئے نفی کررہاہے‘ کیا اس کے بعد بھی پرویز کے دجال ہونے میں کوئی شک باقی رہ جاتاہے؟ وہ اس نماز کو مسلمانوں کی اپنی ایجاد کردہ نماز کہہ کر طعنہ دے رہاہے‘ اسی طرح کبھی وہ نماز اور دیگر عبادات کو ہندوانہ رسومات قرار دیتاہے‘ چنانچہ وہ لکھتاہے:
    ”ہماری صلوٰة وہی ہے جو (ہندو) مذہب میں پوجاپاٹ کہلاتی ہے‘ ہمارے روزے وہی ہیں جنہیں مذہب میں برت‘ ہماری زکوٰة وہی شئے ہے جیسے خیرات‘ ہمارا حج مذہب کی یاترا ہے‘ ہمارے ہاں یہ سب کچھ اس لئے ہوتا ہے کہ اس سے ثواب ہوتا ہے‘ یہ تمام عبادات اس لئے سر انجام دی جاتی ہیں کہ یہ خدا کا حکم ہے‘ ان امور کو نہ افادیت سے کچھ تعلق ہے‘ نہ عقل وبصیرت سے کچھ واسطہ‘ آج ہم اسی مقام پر ہیں جہاں اسلام سے پہلے دنیا تھی“۔ (قرآنی فیصلے ص:۳۰۱ تا ۳۰۲)
    یعنی رسول اکرم ا امت کو جہالت کے اسی گڑھے میں چھوڑ گئے ہیں‘ جہاں وہ اسلام سے پہلے تھے‘ اور تمام امت جو اعمال اتباع سنت میں ادا کررہی ہے‘ پرویز نے اسے ہندوانہ طور طریقوں کے مشابہ کردیا ہے۔ (نعوذ باللہ)
    پرویز پانچ نمازوں کا بھی قائل نہیں اور اپنی من گھڑت تاویل سے صرف دو نمازیں ثابت کرتا ہے‘ وہ حدیث کا تو صراحت کے ساتھ منکر ہے‘ دو نمازیں قرآن سے یوں ثابت کرتاہے:
    ”رسول اللہ ا کے زمانہ میں اجتماعاتِ صلوٰة (نماز باجماعت) کے لئے یہ دو اوقات متعین تھے‘ جب ہی تو قرآن کریم نے ان کا ذکر نام لے کر کیا‘ پرویز نے سورہٴ نور کی آیت ۵۸ کا حوالہ دیتے ہوئے یہ ثابت کیا ہے کہ چونکہ اس آیت میں صلوٰة الفجر اور صلوٰة العشاء کا ذکر ہے‘ لہذا دو نمازیں ثابت ہوئیں“۔ (لغات القرآن ج:۳‘ ص:۱۰۴۴)
    ۴- پرویز اور قربانی
    پرویز نے نہایت ڈھٹائی کے ساتھ سنتِ ابراہیمی یعنی قربانی کا نہ صرف انکار کیا ہے‘ بلکہ اس کا مذاق اڑایاہے‘ وہ لکھتا ہے:
    ”قربانی کے لئے مقام ِحج کے علاوہ اور کہیں حکم نہیں اور حج میں بھی اس کی حیثیت شرکائے کانفرنس کے لئے راشن مہیا کرنے سے زیادہ نہیں ہے‘ پرویز کے ہاں حج کا مفہوم ایک بین الاقوامی کانفرنس ہے) مقامِ حج کے علاوہ کسی دوسری جگہ قربانی کے لئے کوئی حکم نہیں ہے‘ یہ ساری دنیا میں اپنے اپنے طور پر قربانیاں ایک رسم ہے‘ ذرا حساب لگایئے‘ اس رسم کو پورا کرنے میں اس غریب قوم کا کس قدر روپیہ ہرسال ضائع ہوجاتاہے“۔ (قرآنی فیصلے ص:۶۹)
    ”مذہبی رسومات کی ان دیمک خوردہ لکڑیوں کو قائم رکھنے کے لئے طرح طرح کے سہارے دیئے جاتے ہیں‘ کہیں قربانی کو سنتِ ابراہیمی قرار دیا جاتاہے‘ کہیں اسے صاحبِ نصاب پر واجب ٹھہرایا جاتاہے‘ کہیں اسے قربِ الٰہی کا ذریعہ بتایا جاتاہے اور کہیں اسے دوزخ سے محفوظ گذرجانے کی سواری بتا کردکھایا جاتاہے“۔ (قرآنی فیصلے ص:۶۹)
    ۵- پرویز اور زکوٰة پرویز نے جس طرح ”اقیموا الصلوٰة“ کی باطل اور من گھڑت تشریح کی ہے‘ اس طرح اسلام کے دوسرے عظیم الشان حکم ”واتوا الزکوٰة“ کی بھی باطل تاویل کی ہے‘ وہ سرے سے زکوٰة کی فرضیت کا قائل ہی نہیں ‘ بلکہ اسے ایک ٹیکس قرار دیتاہے وہ لکھتاہے:
    ”زکوٰة اس ٹیکس کے علاوہ کچھ نہیں جو اسلامی حکومت مسلمانوں پر عائد کرے‘ اس ٹیکس کی کوئی شرح مقرر نہیں کی گئی“۔ (قرآنی فیصلے ص:۳۵)
    وہ مزید لکھتاہے: ”آج کل زکوٰة کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا حکومت ٹیکس وصول کررہی ہے اگر یہ حکومت اسلامی ہو گئی تو زکوٰة ٹیکس ہو جائے گا“۔ (قرآنی فیصلے ص:۳۵)
    ۶- پرویز کے مزید کفریات
    جنت اور دوزخ قرآنِ کریم اور سنتِ نبوی کے ذریعہ ثابت شدہ اٹل حقیقت ہیں‘ مگر پرویز ان کا انکاری ہے‘ وہ لکھتاہے:
    ”جنت ودوزخ مقامات نہیں‘ بلکہ انسانی ذات کی کیفیات ہیں“۔(لغات القرآن ج:۱۲‘ ص:۴۴۹)
    ”آخرت سے مراد مستقبل ہے‘ ہمیشہ مستقبل پر نگاہ رکھنے کا نام ایمان بالآخرت ہے“۔
    (سلیم کے نام خط نمبر ۲۲۲۱ ص:۱۲۴)
    مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ رسول اکرم ا کی رسالت قیامت تک کے لئے اور تمام دنیا کے انسانوں کے لئے ہے‘ پرویز شریعتِ محمدیہ کو صرف عہدِ رسالت کے ساتھ خاص کرتا ہے اور یوں ختم نبوت کا منکر ٹھہرتاہے‘ وہ لکھتاہے:
    ”شریعت محمدیہ صرف آنحضرت ا کے عہد مبارک کے لئے تھی‘ نہ کہ ہرزمانہ کے لئے‘ بلکہ ہرزمانہ کی شریعت وہ ہے جس کو اس زمانہ کا مرکز ملت (یعنی حکومت) اور اس کی مجلس شوریٰ مرتب ومدون کرے“۔ (مفہوم عبادت‘ مقام حدیث‘ ج:۱‘ ص:۳۹)
    وہ مزید لکھتا ہے:
    ”مرکزِ ملت کو اختیار ہے کہ وہ عبادات ‘ نماز‘ روزہ‘ معاملات‘ اخلاق ‘ غرض جس چیز میں چاہے رد وبدل کردے“۔ (قرآنی فیصلے ص:۴۲۴)
    مسلمان اچھی طرح جانتے ہیں کہ اسلام کا سب سے زرین دور عہد مآب ا تھا ‘جاہلیت کے اندھیرے چھٹ کر اس زمانہ میں اسلام کا نور چار سو پھیلا‘ خود آنحضرت ا نے اپنے زمانہ کو خیر القرون کا لقب دیاہے‘ چنانچہ ارشاد فرمایا: ”خیر امتی قرنی ثم الذین یلونہم ثم الذین یلونہم“ میری امت کا بہترین زمانہ میرا زمانہ ہے پھر ان لوگوں کا زمانہ جو ان کے قریب اور متصل ہے پھر ان لوگوں کا زمانہ جو ان کے قریب ہے‘ مگر پرویز لعنتی اس تیرہ سو سال قبل کے زرین عہدکو وحشت کا دور کہتا ہے‘ وہ لکھتاہے:
    ”آپ (علمأ) اپنی قوم کے دامن پکڑ کر آج سے تیرہ سو سال پہلے کے دورِ وحشت کی طرف گھسیٹ رہے ہیں“۔ (قرآنی فیصلے)
    پرویز کے غلط اور گمراہ کن نظریات کی یہ ایک جھلک تھی‘ جس سے قارئین اس کے خبثِ باطن کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں‘ ورنہ پرویز کے تفصیلی عقائد سب گھناؤ نے ہیں‘ اس نے تمام معجزات کا انکار کیا ہے اور اس کی ایسی غلط تاویل کی ہے کہ وہ رب العالمین اور حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ہاں متعینہ مفہوم وتاویل کے بالکل برخلاف ہے۔
    پرویزیوں کے خلاف اکابرینِ امت کا فتویٰ
    پرویزیوں کی سرگرمیاں نہ صرف پاکستان بلکہ کویت اور سعودی عرب میں بھی جاری ہیں‘ اسلام کے خلاف ان کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کا تدارک کرنے کے لئے پاکستان‘ سعودی عرب‘ کویت‘ بھارت اور جنوبی افریقہ کے مفتیان نے پرویزیوں کے عقائد ونظریات کا مطالعہ اور تحقیق کرنے کے بعد پرویزیوں کے خلاف کفر کا فتویٰ جاری کیا اور غلام احمد پرویز‘ اس کے اتباع کرنے والے اور ہر وہ شخص اور جماعت جو ایسے کافرانہ عقائد ونظریات کی طرف دعوت دیتے ہوں‘ کو دائرہ اسلام سے خارج‘ کافر اور زندیق قرار دیا گیا۔ نیز ان کے ساتھ کسی قسم کے اسلامی تعلقات رکھنے‘ ان کی نمازِ جنازہ پڑھنے‘ مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنے اور مسلمان عورت کا ان کے ساتھ نکاح کرنے کی سخت ممانعت کی گئی‘ جو شخص یاجماعت ان کے عقائد کو درست سمجھے‘ اسے بھی دائرہ اسلام سے خارج قراردیا گیا اور ان لوگوں سے کسی مسلمان کا تعاون کرنا یا کسی بھی قسم کے تعلقات رکھنا ناجائز اور حرام قراردیا گیا۔ کویت کی وزارتِ اوقاف والشؤون کی فتویٰ کمیٹی نے کویت میں مقیم مولانا احمد علی سراج کی طرف سے ”پرویزی عقائد اور بزم طلوع اسلام“ کے خلاف دائر کردہ فتویٰ پر گرینڈ فتویٰ جاری کرتے ہوئے کویت میں غلام احمد پرویز اور ”بزم طلوع اسلام“ کوکافر اور مرتد قراردیا‘ کویت میں پہلی بار پرویزیوں کو کافر اور مرتد قرار دیا گیا‘ فیصلہ کے مطابق کویت میں عرصہ دراز سے غلام احمد پرویز کے پیرو کار عبید الرحمن ارائیں نے ”بزم طلوع اسلام“ کے نام سے تنظیمی سطح پر کام شروع کر رکھا تھا اور تبلیغ کے ذریعے ہزاروں پاکستانی مسلمانوں کو ورغلا اور گمراہ کرکے پرویزی بنا چکا تھا۔ کویت کے سرکاری فتویٰ بورڈ امور کمیٹی کے رئیس مشعل مبارک اور عبد اللہ احمد الصباح کے دستخطوں سے جاری گرینڈ فتویٰ کا متن درج ذیل ہے:
    ”فتویٰ کمیٹی اس استفتاء کا جائزہ لینے کے بعد اس نتیجے پر پہنچی کہ غلام احمد پرویز کے عقائد باطل‘ گمراہ کن اور اسلامی عقائد کے منافی ہیں‘ ہر وہ شخص جو ان کے عقیدے پر ایمان رکھتاہے‘ وہ کافر اور اسلام سے خارج ہوگا اور اگر پہلے مسلمان تھا اور پھر اس نے ان عقائد کو اختیار کیا ہو تو وہ مرتد شمار ہوگا“۔
    اس فتویٰ کے اجراء پر پرویزیوں نے اپنے لاہور کے ہیڈکوارٹر اور کویت کے لوکل آفس سے خوب واویلا مچایا اور وزارتِ اوقاف کویت میں فیصلے کے خلاف رٹ بھی دائرکی‘ لیکن ماسوائے رسوائی کے ان کے ہاتھ کچھ نہ آیا‘ سعودی عرب کے مفتی الشیخ عبد العزیز بن باز نے بھی پرویزیوں کو کافر اور مرتد قرار دیتے ہوئے اسلام سے خارج ہونے کا فتویٰ جاری کیا ہے۔
    پاکستان کے علماء کی طرف سے فتوی میں تحریرکیا گیا ہے کہ:
    پرویز کا نام نہاد فکر قرآن اور اسلامی شعائر کی من گھڑت تشریح‘ مسلمہ حقائق‘ قرآن کے انکار اور حدیث وسنت کی دشمنی پر مبنی ہے‘ تاکہ مسلمانوں میں رسول کریم ا کی ذات اقدس کو متنازعہ بناکر شکوک وشبہات پیدا کئے جائیں اور وہ انتشار کا شکار ہوکر ہمیشہ ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار رہیں‘ پاکستان میں پرویزیت اسلام کے خلاف ایسا خارجی مشن ہے‘ جسے پرویز کے بعد اس کے متبعین ”بزم طلوع اسلام“ کے پلیٹ فارم سے پایہٴ تکمیل تک پہنچانے میں مصروف ہیں۔ پرویزی تحریک جو غلام احمد پرویز کی رہائش گاہ سے شروع ہوئی تھی‘ آج جدید ٹیکنالوجی اور وسائل کی بدولت عالمی سطح پر ایک منظم اور طے شدہ منصوبے کے تحت متحرک ہے‘ حضرت رسالت مآب ا اور صحابہ کرام نے جس دین ِ حق کی خاطر بے پناہ قربانیاں دیں‘ آج اسے مٹانے کے لئے باطل قوتیں اکٹھی ہو رہی ہیں‘ جو اہل ایمان کے لئے ایک بہت بڑا چیلنج ہی‘ اس چیلنج سے نمٹنے کے لئے عالم ِاسلام میں اجتماعی بیداری پیداکرنے کی اشد ضرورت ہے‘ تاکہ مسلمانوں کو کفر کی آغوش میں جانے سے بچایا جاسکے‘اور الحادی فتنوں کی سرکوبی کی جاسکے‘ علماء کرام کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ممبروں پر اپنے خطبوں میں عامة الناس کو ان عقائد سے آگاہ کریں‘ نیز اہلِ استطاعت مسلمان اس مضمون کو پمفلٹ کی صورت میں چھپواکر مسلمانوں میں مفت تقسیم کریں۔

    علامہ محمد یوسف۔ جامعہ علوم اسلامیہ۔ بنوری ٹاؤن۔ کراچی۔
    جملہ حقوق ۲۰۰۸-۲۰۰۵ محفوظ ہیں، جامعہ علوم اسلامیہ۔
    http://www.banuri.edu.pk/ur/node/397

  3. وھاج الدین احمد

    بھائ جاوید آپ کا اور بھائ اجمل کا شکریہ
    پرویز صاحب کا فتنہ اور اس کے متعلق بھت سن رکھا تھا اس مقالے سے معلومات میں اضافہ ہوئا اتفاق سے میرے چند احباب میں پچھلے ہفتے ہی نماز کے اوقات پر بحث ہوئ
    احادیث پہ نہیں کیوںکہ ہم سب اس مشہور حدیث پہ یقین رکھتے ہوئے بحث کر رہے تھے جس میں جبریل علیہ السلام نبی صل اللہ علیہ وسلم کو پاںچوں وقتوں کی ڈیمانسٹریشن دیتے ہیں –
    اللہ کا شکر ہے کوئ ‘پرویزی’ نہیں ملا مگر میں اس مقالہ کو ضرور ان احباب کو دکھانا چاہوں گا
    وجہ یہ ہے کہ کچھ “جدیدیت” کے دلدادہ پرویز کی کچھ باتین ضرور مان لیتے ھیں اس لئے ہم “جدیدوں” کو ہوشیار رھنا چاہیئے میں اپنے آپ کو روشن خیال سمجھتا ہوں لیکن ایمان پہ آنچ کسی طرح نہیں برداشت کر سکتا

  4. افتخار اجمل بھوپال Post author

    بھائی وھاج الدين احمد صاحب
    مجھے تو يوں لگتا ہے کہ ہر دور ميں پرويزی موجود رہے ہيں ۔ مجھے ان کے ہونے کی وجہ ايک ہی سمجھ آتی ہے کہ يہ لوگ احساسِ کمتری کا شکار ہو کر جديديت کا سہارا ليتے ہيں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

:wink: :twisted: :roll: :oops: :mrgreen: :lol: :idea: :evil: :cry: :arrow: :?: :-| :-x :-o :-P :-D :-? :) :( :!: 8-O 8)

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.