Monthly Archives: March 2010

چھوٹی چھوٹی باتيں ۔ فلسفی اور فلسفہ

پچھلے دنوں کچھ تحارير فلسفہ کے متعلق پڑھنے کو مليں جن ميں مسلمانوں ميں فلسفہ کا آغاز کندی سے شروع کر کے درميانی کچھ سيڑھياں چھوڑ کر اس کی مسلمانی ابنِ رشد پر ختم قرار دی گئی ۔ استدلال ليا گيا کہ فلسفہ کا عقيدہ مذہب سے متعلق نہيں ہے ۔ سوچا کہ لکھوں فلسفہ ہوتا کيا ہے تاکہ طويل تحارير اور الفاظ کے سحر ميں کھوئے ہوئے قارئين کم از کم فلسفہ کی اصليت تو سمجھ سکيں ليکن مصروفيت کچھ زيادہ رہی جس میں اسلام آباد بھی جانا پڑا اور خُشک موسم کی سوغات وائرس کيلئے بھی ميں مرغوب ثابت ہوا جس سے معالج اور دوائيوں کی دکان کی قسمت جاگ اُٹھی ۔ حاصل يوں ہے کہ اللہ نے اس کام کا سہرا محمد رياض شاہد صاحب کیلئے مختص کر ديا تھا کہ اُنہوں نے خوش اسلوبی سے لکھا “فلسفہ کيا ہے

میں پانچويں یا چھٹی جماعت ميں پڑھتا تھا کہ کتاب میں لفظ فلسفی آيا ۔ استاذ صاحب نے ماحول خوشگوار کرنے کی خاطر ايک لطيفہ سنايا “ايک فلسفی گھر ميں داخل ہوا تو اپنی چھتری کو بستر پر لٹا کر خود کونے ميں کھڑا ہو گيا”۔ پھر ميں نے ساتويں يا آٹھويں جماعت ميں کسی سے سُنا کہ فلسفی اگر پورا نہيں تو آدھا پاگل ہوتا ہے

اساتذہ کی تربيت کا اثر تھا کہ اللہ کی خاص مہربانی يا دونوں کہ ميں بچپن سے ہی ہر چيز و عمل کی بنياد پر غور و فکر کرنے کا عادی ہو گيا تھا ۔ سالہا سال محنت اور غور و فکر ميں گذرنے کے بعد مجھے متذکرہ بالا دونوں بيانات درست محسوس ہونے لگے ۔ ميرے طرزِ فکر و عمل کی وجہ سے متعدد بار ميرے گرد کے لوگوں نے مجھے پاگل کہا ۔ کبھی کبھی تو ميں خود بھی اپنے آپ کو پاگل کہہ ديتا

عصرِ حاضر ميں لوگ گريجوئيشن کے بعد چند سال کی محنت سے کسی چھوٹے سے مضمون کی بنياد پر ڈاکٹر آف فلاسفی کی سند حاصل کر ليتے ہيں ۔ ايک دور تھا جب کاغذ کی سند ناياب تھی اور لوگ ساری عمر عِلم کی کھوج اور غور و فکر ميں گذار ديتے تھے مگر اُنہيں ايسی سند نہ دی گئی صرف اُن ميں سے چند کا نام تاريخ ميں نظر آ جاتا ہے اگر کوئی تاريخ پڑھنے کی زحمت کرے ۔ يہ وہ زمانہ ہے جب عِلم کی بنياد ہی فلسفہ تھی اور ہر عالِم جنہيں دورِ حاضر ميں سکالر کہا جاتا ہے کا مطالعہ ہمہ جہتی ہوتا تھا کيونکہ وہ کتاب کے کيڑے نہيں بلکہ فلسفی ہوتے تھے اور ہر عالِم يا فلسفی بيک وقت کئی علوم کی بنياد کا مطالعہ کر رہا ہوتا تھا

ميرا خيال ہے کہ فلسفی بننے کيلئے کسی سکول يا مدرسہ ميں جانا ضروری نہيں ہے ۔ فلسفہ کا تعلق انسان کی سوچ ۔ محنت اور طرزِ عمل سے ہے ۔ ميں ساتھی طلباء کے ساتھ 1960ء ميں کراچی اليکٹرک سپلائی کمپنی کے مطالعاتی دورے پر گيا ۔ دورہ کے بعد ہميں جنرل منيجر صاحب نے بتايا کہ ايک شخص جو کہ چِٹا اَن پڑھ ہے وہ سب سے زيادہ اور اُن سے بھی زيادہ تنخواہ پاتا ہے کيونکہ وہ بھرتی تو بطور مستری ہوا تھا مگر فکر و عمل کے باعث فلسفی اور انجنيئر ہے ۔ وہاں موجود انجنوں اور اُن کے کام کا مطالعہ کر کے وہ ان کی بنياد پر پہنچنے ميں کامياب ہوا اور اس فلسفہ اور حاصل مطالعہ سے کام لے کر اس نے دو انجن کارآمد بنا ديئے ہيں اور تيسرے پر کام کر رہا ہے

ميری نظر ميں وہ شخص بھی فلسفی ہے جس نے چار پانچ دہائياں قبل چاول کے ايک دانے پر ہاتھ سے پورا کلمہ طيّبہ لکھنے کا طريقہ دريافت کيا ۔ ميری نظر ميں پاکستان کا حسب نسب رکھنے والا وہ جوان بھی فلسفی ہے جس نے 1970ء کی دہائی ميں دوسری جنگِ عظيم ميں کالی ہو جانے والی لندن کی عمارات کو صاف کرنے کا ايک قابلِ عمل نسخہ تيار کيا تھا جبکہ برطانيہ کے بڑے بڑے سائنسدان اس میں ناکام ہو چکے تھے

دورِ حاضر ميں صيہونی پروپيگنڈہ اتنا ہمہ گير ہو چکا ہے کہ جو خبر اس منبع سے نکلتی ہے اسے من و عن قبول کيا جاتا ہے اور موجود تاریخ کا مطالعہ کرنا بھی گوارہ نہيں کيا جاتا ۔ محمد رياض شاہد صاحب نے اپنی متذکرہ بالا تحرير ميں ايک نہائت مُختصر مگر جامع تحرير لکھ کر حقائق کے ساتھ ايسی سوچ کا توڑ پيش کيا ہے

بلاشُبہ مسلمان کے دشمنوں نے تاتاريوں کے رُوپ میں بغداد کی بہترين عِلمی لائبريری فنا کر کے سوائے ناصر الدين طوسی کے جو اپنی جان بچانے کی خاطر اُن سے مل گيا تھا تمام اہلِ عِلم کو تہہ تيغ کر ديا ۔ فرنينڈس اور اُس کے حواريوں کی صورت ميں يہی کچھ غرناطہ ۔ اشبيليہ اور قرطبہ ميں ہوا ۔ 1857ء ميں ہندوستان ميں انگريزوں نے تمام علمی خزانہ تباہ کرنے کے بعد اہلِ عِلم و ہُنر کو تہہ تيغ کر ديا ۔ اور حال ہی ميں امريکہ اور اُس کے اتحاديوں نے بغداد کی نہ صرف قومی لائبريری بلکہ ہر يونيورسٹی کو تباہ کر ديا اور اہلِ عِلم کو نابود کر ديا

اس کے باوجود دورِ حاضر ميں تھوڑی سی موجود تاریخ کا ہی مطالعہ کيا جائے تو يہ حقيقت عياں ہو جاتی ہے کہ اعلٰی سطح کا پہلا مسلمان فلسفی يعقوب ابن اسحاق الکندی [800ء تا 873ء] نہيں تھے بلکہ ابو موسٰی جابر ابن حيّان تھے جو وسط آٹھويں صدی عيسوی ميں پيدا ہوئے اور 803ء ميں وفات پائی ۔ ان کا فلسفہ جديد علمِ کيمياء کی بنياد بنا ۔ دوسرے نامور فلسفی ابو عبداللہ محمد ابن موسٰی الخوازمی [780ء تا 850ء] ہيں جنہوں نے لوگرتھم اور ايلوگرتھم ۔ الجبراء اور عربی کے ہندسوں کا استعمال کرتے ہوئے اعشاریہ نظام کے نئے علم دريافت کئے ۔ مزيد يہ کہ صفر کو قيمت عطا کی ۔ يہی وہ فلسفہ اور عِلم ہے جو عصرِ حاضر کی کمپيوٹر اور ڈيجيٹل ٹيکنالوجی کی بنياد بنا ۔ اگر يہ علوم نہ ہوتے تو آج نہ کمپيوٹر ہوتا اور نہ ڈيجيٹل ٹيکنالوجی

يعقوب ابن اسحاق الکندی کا نام تيسرے نمبر پر آتا ہے

مزيد يہ کہ عبدالوحيد محمد ابن احمد ابن محمد ابن رشد [1126ء تا 1198ء] کے بعد دو صديوں ميں کم از کم 5 اعلٰی پائے کے مسلمان فلسفی ہوئے ہيں جن ميں سے آخری عبدالرحمٰن ابن محمد [1332ء تا 1395ء] تھے جو ابن خلدون کے نام سے مشہور ہوئے ۔ ان کا فلسفہ تاریخ اور عمرانيات سے متعلق ہے

ڈيجيٹل ٹيکنالوجی ؟؟؟

ہم مياں بيوی بالخصوص نئے پاسپورٹ بنوانے کيلئے 5 فروری 2010ء کو اسلام آباد گئے اور 6 فروری 2010ء کو اسلام آباد آفس ميں اپنے نئے پاسپورٹ بننے کيلئے ديئے ۔ ہميں بتايا گيا تھا کہ پاسپورٹ تيار ہو کر 18 فروری کو مل جائيں گے ۔ ہم 13 فروری کو لاہور آ گئے ۔ پيچھے ميرا بھائی پاسپورٹ لينے گيا تو بتايا گيا کہ يکم مارچ 2010ء کو مليں گے ۔ آج يعنی 3 مارچ کو پھر ميرا بھائی پاسپورٹ لينے گيا تو بتايا گيا ہے کہ 25 مارچ کو مليں گے ۔ 25 مارچ کو بھی مليں گے يا نہيں يہ اللہ بہتر جانتا ہے ۔ اسے کہتے ہيں ہمارے مُلک ميں ڈيجيٹل ٹيکنالوجی

جب مشين ريڈايبل پاسپورٹ شروع کئے گئے تھے تو ببانگِ دُہل بتايا گيا تھا کہ پرانے والے پاسپورٹ جعلی بن جاتے تھے يہ نہيں بن سکتے ۔ اب زيادہ اچھی خبر پڑھيئے

سپریم کورٹ نے جعلی مُہروں، ویزوں اور پاسپورٹس کے خلاف از خود نوٹس لیتے ہوئے ہدایت کی تھی کہ اس کے خلاف مربوط کارروائی عمل میں لائی جائے۔ جس پر کارپوریٹ کرائم سرکل نے سرجانی ٹاؤن کراچی میں کارروائی کرکے ایک ملزم فرید اللہ خان کو گرفتار کرکے اس کے قبضے سے جعلی مشین ریڈ ایبل [Machine Readable] پاسپورٹس ، مختلف ممالک کے ویزے، ڈرائیونگ لائسنس، جعلی کرنسی اور ان کو بنانے والی ڈائیاں برآمد کرلیں۔ ڈائریکٹر ایف آئی اے کے مطابق ملزم کے دیگر ساتھی بھی شہر میں موجود ہیں جن کی گرفتاری کیلئے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ اس کام میں کسی سرکاری اہلکار کے ملوث ہونے کو رد نہیں کیا جاسکتا

حکومت کا ايک اور چھکا

پاکستان کی ترقی اہلِ آزاد جموں کشمير کی بہت بڑی قربانیوں کی مرہونِ منت ہے ۔ 1961ء اور 1967ء کے درميان جہلم کے مضافات میں منگلا کے قريب ايک سدّ [Dam] تعمير ہوئی جس کے نتيجہ میں دريائے جہلم کا پانی روک کر آبپاشی کيلئے ذخيرہ بنايا گياجس کا سطحی رقبہ 253 مربع کلو ميٹر تھا اور اُس وقت پانی کے ذخيرہ کی گنجائش 5.88 ملين ايکڑ فٹ تھی ۔ ساتھ ہی بجلی کی پيداوار کيلئے ايک بجلی گھر بنايا گيا جس کی پيداواری گنجائش 1000 ميگا واٹ تھی ۔ منگلا منصوبے کی تکميل نے پاکستان کی ذرعی اور صنعتی ترقی ميں بہت اہم کردار ادا کيا

آزاد جموں کشمير کا جو 253 مربع کلو ميٹر علاقہ اس سدّ سے بننے والی جھيل ميں ڈوب گيا اس میں ميرپور شہر ۔ رٹہ اور ڈُڈيال سميت 280 ديہات کی سرسز و شاداب وادياں شامل تھيں ۔ ان ميں صديوں سے بسے ہوئے خاندانوں کے ايک لاکھ سے زائد افراد کو مجبور ہو کر اس علاقے سے کُوچ کرنا پڑا

پچھلے چار دہائيوں سے زيادہ عرصہ میں منگلا کی جھيل ميں پانی کے ساتھ بہہ کر آئی ہوئی مٹی اور ريت کی وجہ سے پانی ذخيرہ کرنے کی گنجائش 1.13 ملين مکعب فٹ کم ہو گئی تو حکومتِ پاکستان نے سدّ کو مزيد 40 فٹ اُونچا کرنے کی منصوبہ بندی کی جس پر کام شروع ہے ۔ اس کے نتيجہ ميں جو مزيد رقبہ پانی کے نيچے آئے گا اس سے 40 ہزار افراد بے گھر ہوں گے

پانچ دہائيوں قبل جو ايک لاکھ افراد بے گھر ہوئے تھے اُن کے ساتھ کئے گئے وعدے سب پورے نہيں ہوئے اور حکومت آزاد جموں کشمير نے نئے منصوبے پر متفق ہونے سے قبل حکومتِ پاکستان سے وعدہ ليا تھا کہ پرانے وعدوں کے مطابق بقيہ معاوضہ ادا کرنے کے علاوہ نئے منصوبے کا معاوضہ کام شروع کرنے سے پہلے ديا جائے ۔

پنجاب اور سندھ جنہوں نے پانی کی خاطر کوئی قربانی نہيں دی وہ پانی کے مسئلہ پر دست و گريباں رہتے ہيں اور ايک دوسرے کی گردنيں دبانے کے درپۓ ہيں ۔ دوسری طرف پاکستان کيلئے بے بہا قربانياں دينے والوں کے ساتھ کئے گئے وعدے تو جوں کے توں بے عمل پڑے ہيں کہ اب موجودہ حکومت کے اچھوتے فيصلے نے سب کو ورطہءِ حيرت ميں ڈال ديا ہے

حکومتِ آزاد جموں کشمير نے ارسا [IRSA] سے درخواست کی کہ منگلا جھيل کے زيريں علاقہ ميں موجود آزاد جموں کشمير کی قابلِ کاشت زمين کی آبپاشی کيلئے صرف 614 کيوسک پانی مہياء کيا جائے تو ارسا نے وزير اعظم پاکستان سيّد يوسف رضا گيلانی کی منظوری سے پانی مہياء کرنے سے يہ کہہ کر انکار کر ديا کہ آزاد جموں کشمير پاکستان کا حصہ نہيں ہے

خيال رہے کہ دريا جہلم مقبوضہ کشمير سے شروع ہو کر آزاد جموں کشمير سے گذرتا ہوا پاکستان ميں داخل ہوتا ہے اور منگلا کی جھيل پوری کی پوری آزاد جموں کشمير ميں ہے

جس علاقے کے باشندوں کی قربانيوں کے نتيجہ ميں پاکستان کے کھيت لہلہا رہے ہيں ۔ کارخانے چل رہے ہيں اور لوگوں کے گھر روشن ہو رہے ہيں وہ اس بہتے سمندر ميں سے دو چلُو پانی مانگيں تو اُنہيں غير مُلکی قرار دے ديا جائے ۔ جبکہ سندھ کی آواز پر صدر صاحب بغير پنجاب کے مندوب کو ميٹنگ ميں بُلائے پنجاب کا منظور شدہ پانی بند کر کے سندھ کو دے چکے ہيں ۔ کيا اسی کا نام جمہوريت ہے اور يہی ہيں جموں کشمير کے لوگوں کی حمائت کے حکومتی دعوے ؟

انعام نہيں نام

پیپلز پارٹی شعبہ خواتین کی صوبائی صدر و رکن اسمبلی ثمینہ رزاق اور صوبائی وزیر غزالہ اشفاق گولہ نے رکشے میں پیدا ہونے والے نومولود بچے کے گھر جا کر اس کے والد مومن خان کو 5 لاکھ روپے کی امداد دی

بچے کے والد مومن خان نے بتایا ہے کہ ہم نے بچے کا نام ظفر خان رکھا تھا صوبائی وزیر نے کہا کہ صدر صاحب کی خواہش ہے کہ اس کا نام آصف خان رکھا جائے تو ہم نے ان کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے نام آصف خان رکھ دیا ہے

انہوں نے مزید بتایا کہ ہمیں 5 لاکھ رقم دے دی بعد میں ہم سے رقم لے لی کہ یہ ہم بینک میں رکھیں گے آپ کے پاس چوری ہو جائیں گے یا غلط خرچ کرلیں گے اور ہمیں 10 ہزار روپے دے کر باقی رقم وہ ساتھ لے گئیں ہیں

بشکريہ ۔ جنگ يکم مارچ 2010ء