حکومت کا ايک اور چھکا

پاکستان کی ترقی اہلِ آزاد جموں کشمير کی بہت بڑی قربانیوں کی مرہونِ منت ہے ۔ 1961ء اور 1967ء کے درميان جہلم کے مضافات میں منگلا کے قريب ايک سدّ [Dam] تعمير ہوئی جس کے نتيجہ میں دريائے جہلم کا پانی روک کر آبپاشی کيلئے ذخيرہ بنايا گياجس کا سطحی رقبہ 253 مربع کلو ميٹر تھا اور اُس وقت پانی کے ذخيرہ کی گنجائش 5.88 ملين ايکڑ فٹ تھی ۔ ساتھ ہی بجلی کی پيداوار کيلئے ايک بجلی گھر بنايا گيا جس کی پيداواری گنجائش 1000 ميگا واٹ تھی ۔ منگلا منصوبے کی تکميل نے پاکستان کی ذرعی اور صنعتی ترقی ميں بہت اہم کردار ادا کيا

آزاد جموں کشمير کا جو 253 مربع کلو ميٹر علاقہ اس سدّ سے بننے والی جھيل ميں ڈوب گيا اس میں ميرپور شہر ۔ رٹہ اور ڈُڈيال سميت 280 ديہات کی سرسز و شاداب وادياں شامل تھيں ۔ ان ميں صديوں سے بسے ہوئے خاندانوں کے ايک لاکھ سے زائد افراد کو مجبور ہو کر اس علاقے سے کُوچ کرنا پڑا

پچھلے چار دہائيوں سے زيادہ عرصہ میں منگلا کی جھيل ميں پانی کے ساتھ بہہ کر آئی ہوئی مٹی اور ريت کی وجہ سے پانی ذخيرہ کرنے کی گنجائش 1.13 ملين مکعب فٹ کم ہو گئی تو حکومتِ پاکستان نے سدّ کو مزيد 40 فٹ اُونچا کرنے کی منصوبہ بندی کی جس پر کام شروع ہے ۔ اس کے نتيجہ ميں جو مزيد رقبہ پانی کے نيچے آئے گا اس سے 40 ہزار افراد بے گھر ہوں گے

پانچ دہائيوں قبل جو ايک لاکھ افراد بے گھر ہوئے تھے اُن کے ساتھ کئے گئے وعدے سب پورے نہيں ہوئے اور حکومت آزاد جموں کشمير نے نئے منصوبے پر متفق ہونے سے قبل حکومتِ پاکستان سے وعدہ ليا تھا کہ پرانے وعدوں کے مطابق بقيہ معاوضہ ادا کرنے کے علاوہ نئے منصوبے کا معاوضہ کام شروع کرنے سے پہلے ديا جائے ۔

پنجاب اور سندھ جنہوں نے پانی کی خاطر کوئی قربانی نہيں دی وہ پانی کے مسئلہ پر دست و گريباں رہتے ہيں اور ايک دوسرے کی گردنيں دبانے کے درپۓ ہيں ۔ دوسری طرف پاکستان کيلئے بے بہا قربانياں دينے والوں کے ساتھ کئے گئے وعدے تو جوں کے توں بے عمل پڑے ہيں کہ اب موجودہ حکومت کے اچھوتے فيصلے نے سب کو ورطہءِ حيرت ميں ڈال ديا ہے

حکومتِ آزاد جموں کشمير نے ارسا [IRSA] سے درخواست کی کہ منگلا جھيل کے زيريں علاقہ ميں موجود آزاد جموں کشمير کی قابلِ کاشت زمين کی آبپاشی کيلئے صرف 614 کيوسک پانی مہياء کيا جائے تو ارسا نے وزير اعظم پاکستان سيّد يوسف رضا گيلانی کی منظوری سے پانی مہياء کرنے سے يہ کہہ کر انکار کر ديا کہ آزاد جموں کشمير پاکستان کا حصہ نہيں ہے

خيال رہے کہ دريا جہلم مقبوضہ کشمير سے شروع ہو کر آزاد جموں کشمير سے گذرتا ہوا پاکستان ميں داخل ہوتا ہے اور منگلا کی جھيل پوری کی پوری آزاد جموں کشمير ميں ہے

جس علاقے کے باشندوں کی قربانيوں کے نتيجہ ميں پاکستان کے کھيت لہلہا رہے ہيں ۔ کارخانے چل رہے ہيں اور لوگوں کے گھر روشن ہو رہے ہيں وہ اس بہتے سمندر ميں سے دو چلُو پانی مانگيں تو اُنہيں غير مُلکی قرار دے ديا جائے ۔ جبکہ سندھ کی آواز پر صدر صاحب بغير پنجاب کے مندوب کو ميٹنگ ميں بُلائے پنجاب کا منظور شدہ پانی بند کر کے سندھ کو دے چکے ہيں ۔ کيا اسی کا نام جمہوريت ہے اور يہی ہيں جموں کشمير کے لوگوں کی حمائت کے حکومتی دعوے ؟

This entry was posted in خبر, منافقت on by .

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

2 thoughts on “حکومت کا ايک اور چھکا

  1. عبد اللہ لاہور

    بات تو سچ ہے ————-
    ان لوگوں کی قربانی اور کالا باغ پر سیاست بس اللہ رحم کرے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

:wink: :twisted: :roll: :oops: :mrgreen: :lol: :idea: :evil: :cry: :arrow: :?: :-| :-x :-o :-P :-D :-? :) :( :!: 8-O 8)

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.