ميں اس سے قبل اس سلسلہ ميں مندرجہ ذيل تحارير لکھ چکا ہوں ۔ تاریخ ولادت سيّدنا محمد صلی اللہ عليہ و آلہ و سلّم کے متعلق تاريخی خلاصہ نقل کر رہا ہوں
ربيع الاول ہی نہيں ہر ماہ ہر دن
عشقِ رسول
جشنِ عيد ميلادُالنبی کی تاریخ
اميرالدين مدرسہ تعليم القرآن نواں شہر ملتان ۔ سيرت طيّبہ ۔ ص76 ۔ لکھا ہے کہ قول مختار يہ ہے کہ 5 ربيع الاول کو آپ صلی اللہ عليہ و آلہ و سلّم پيدا ہوئے
زادالمعاد ۔ ج 1 ص 68 مترجم رئيس احمد جعفری ۔ حافظ ابن قيم متوفی 751ھ نے لکھا ہے کہ جمہور قول يہ ہے کہ 8 ربيع الاول کو آنحضرت صلی اللہ عليہ و آلہ و سلّم کی ولادت ہوئی
رحمت للعالمين ۔ قاضی سليمان منصور پوری ۔ ج 1 ص 43 ۔ لکھا ہے کہ ہمارے نبی موسم بہار دوشنبہ کے دن 9 ربيع الاول کو پيدا ہوئے
تاريخ اسلام ۔ اکبر شاہ نجيب آبادی ۔ حصہ اول ص 72 ۔ لکھا ہے کہ 9 ربيع الاول 571ء بروز سوموار بعد از صبح صادق اور قبل از طلوع آفتاب آنحضرت صلی اللہ عليہ و آلہ و سلّم پيدا ہوئے
تاريخ اسلام ۔ معين الدين احمد ندوی ۔ ج 1 ص 25 ۔ لکھا ہے کہ عبداللہ کی وفات کے چند مہينوں بعد عين موسم بہار اپريل 571ء 9 ربيع الاول کو عبداللہ کے گھر فرزند تولد ہوا ۔ بوڑھے اور زخم خوردہ عبدالمطلب پوتے کی پيدائش کی خبر سن کر گھر آئے اور نومولود کو خانہ کعبہ لے جا کر اس کيلئے دعا مانگی
محبوب خدا ۔ چوہدری افضل حق ۔ ص 20 ۔ لکھا ہے کہ 20 اپريل 571ء بمطابق 9 ربيع الاول دوشنبہ کی مبارک صبح کو قدسی آسمان پر جگہ جگہ سرگوشيوں ميں مصروف تھے کہ آج دعائے خليل اور نويد مسيحا مجسم بن کر دنيا ميں ظاہر ہو گی
رسول کامل ۔ ڈاکٹر اسرار احمد ۔ ص 23 ۔ لکھا ہے کہ 9 ربيع الاول کو پيدائش کا دن ٹھہرايا
قصص القرآن ۔ حفظ الرحمٰن سوہاری ۔ ج 4 ص 9 ۔ لکھا ہے کہ 9 ربيع الاول کو پيدائش کا دن ٹھہرايا
الطبقات الکبری لا بن سعد ۔ 1/100مطبوعہ بيروت ۔ لکھا ہے کہ ماہ ربيع الاول کی 10 راتيں گذری تھيں کہ دو شنبہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ عليہ و آلہ و سلّم پيدا ہوئے
دين مصطفٰی ۔ محمود احمد رضوی ۔ ص 84 ۔ لکھا ہے کہ واقعہ فيل کے پچپن روز بعد 12 ربيع الاول مطابق 20 اپريل 571ء حضور صلی اللہ عليہ و آلہ و سلّم کی ولادت ہوئی
ضياء القرآن ۔ پير کرم شاہ الازہری ۔ ج 5 ص 665 ۔ لکھا ہے کہ 12 ربيع الاول کو حضور صلی اللہ عليہ و آلہ و سلّم رونق افروز گيتی ہوئے
تبرکات صدرالافاضل مرتبہ حسين الدين سواداعظم لاہور ۔ لکھا ہے کہ 12 ربيع الاول کی صبح صادق کے وقت مکہ مکرمہ ميں آپ کی ولادت ہوئی
چودہ ستارے ميں سيّد نجم الحسن کراروی ۔ص 28 ، 29 میں لکھا ہے کہ نے پيدائش کا دن 17 ربيع الاول ہے
البشر لاہور ہادی انسانيت نمبر فروری 1980 ص 50 مضمون چودہ معصومين کے مطابق فقہ جعفريہ کے علماء کے نزديک طے شدہ تاريخ ولادت 17 ربيع الاول ہے
[مندرجہ بالا حوالوں کے مطابق تاریخ ولادت مبارک ربی الاول کی 5 يا 8 يا 9 يا 10 يا 12 يا 17 ہے يعنی درست تاريخ کا تعيّن مشکل ہے
آپ کیوں ان معاملات کو لیکر بیٹھ گئے جن سے مزار والوں کا کاروبار سیاست چلتا ہے اور گھر کا چولھا بھی۔
محقیقین علما کے نزدیک 9 زیادہ معتبر ہے
عشق رسول خون میں ہوتا ہے اور جسم کی رگ رگ میں دوڑتا ہے آپ کی کوشش بجا مگر یہ قوم بدلنے و الی نہیں ہے لا لو شرط ۔
چچا ٹام صاحب
زيادہ تر رائے يہی ہے
کامران صاحب
ميں شرطيں نہيں لگايا کرتا
:smile:
بھتر یہ ہے کہ مسلمان لوگ آنحضور صل اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کو دھرایا کرین اور پڑھا کرین اگر بارہ یا 9 تاریخ منانی ایسی ضروری ہی ہو گئ ہے
لیکن یہ دیکھا گیا ھے کہ عیسائ لوگ حضرت عیسیٰ کا دن مناتے ھین تو ھم کیوں نہ اپنےنبی کا منایں
چھڈو جی۔ یہ تو اب کمرشلائز ہوگیا ہے سب کچھ۔ پیپسی کے تعاون سے عید میلاد مبارک کے اشتہار چھپتے ہیں۔
مولود النبی کا نام کیا تھا؟؟؟؟؟؟؟؟
مکی صاحب
کونسا نام ۔ ۔ ۔ کيسا نام ؟
عنوان میں آپ نے خود ہی تو لکھا ہے ” مولود النبی ”..!!
مکی صاحب
آپ تو عرب شريف ميں رہا کرتے تھے ۔ مولود پيدائش کو کہتے ہيں
مولود بچے کو کہتے ہیں پیدائش کو مولد کہتے ہیں..
مکی صاحب!
بیشک مولود بچے کو کہتے ہیں لیکن فیروز اللغات میں مولود کے ایک معنی “پیدائش کا دن” بھی لکھیں ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نیز آپ تو ما شاء اللہ عربی جانتے ہیں پس یہ بات بھی جانتے ہونگے کہ مولود اسم مفعول ہے اور مصدر اسکا مولد یا ولادت ہے اورعربی زبان میں مفعول مصدر کی جگہ استعمال کرلیا جاتا ہے جیسے قرآن کریم میں ہے:بایکم المفتون،یہاں مفتون فتنۃ کی جگہ استعمال ہوا ہے ایسے ہی اجمل صاحب نے مولود ولادت کی جگہ استعمال کیا ہوگا
محمد سعید صاحب آپ نے جو آیت دلیل کے طور پر پیش کی ہے ذرا غور فرمائیں تو وہ آپ ہی کے خلاف جاتی ہے.. دوسرا یہ کہ فیرزو اللغات عربی لغت نہیں ہے.. مولود اور مولد میں اتنا ہی فرق ہے جتنا بَر اور بُر میں ہے.. رہے نام اللہ کا..
مکی صاحب
مولود پيدائش اور پيدا ہونے والے کو بھی کہتے ہيں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ نے جو آیت دلیل کے طور پر پیش کی ہے ذرا غور فرمائیں تو وہ آپ ہی کے خلاف جاتی ہے
مکی بھائی میں نے مزید غور و فکر کیا مگر اب بھی میری سمجھ میں یہ نہیں آیا کہ کہ یہ آیت میرے خلاف کیسے ہے ،میرے پاس موجود سبھی عربی تفسیروں میں مفسرین نے اس کو “فتنۃ” کی جگہ قرار دیا ہے اسکا میرے خلاف ہونا آپ مجھے کھل کربتایئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ویسے آپنے قاعدہ کے بارے میں کچہ نہیں بتایا کہ وہ صحیح ہے یا غلط؟ مزید اس مثال پر بھی غور فرمایئے فقل لہم قولا میسورا
دوسرا یہ کہ فیرزو اللغات عربی لغت نہیں ہے
بھائی تحریر اردو میں ہے تو حجت بھی اردو لغت ہی ہوگی
محمد سعید صاحب عربی میں سیاق وسباق اور آگے پیچھے کے الفاظ کی اہمیت ہوتی ہے خاص طور سے قرآن کی عربی اتنی آسان نہیں ہے جتنی ہمارے ہاں کے حلوائی مولیوں نے بنا رکھی ہے.. بایکم المفتون کی ب زائد یعنی فالتو ہے جیسے آیت کفی باللہ شہیدا میں ب زائد ہے چنانچہ یہاں دو صورتیں بنتی ہیں.. اگر تو ب زائد ہے تو مفتون کا مطلب انسان بنے گا نا کہ فتنہ اور اگر زائد نہیں ہے تو بھی مفتون فُتُون کا مصدر بنے گا نا کہ فتنہ کا مفعول.. عربی اتنی سادہ نہیں ہے جتنا عربی سے نا آشنا لوگ سمجھتے ہیں.. جہاں تک فیروز اللغات کی بات ہے تو آپ نے پہلے فیروز اللغات کی بات کی پھر قرآنِ مجید سے دلیل دی جو کہ عربی ہے اب آپ ہی فیصلہ کیجیے کہ عربی لغت حجت ہوگی یا اردو؟!
چچا جان بصد احترام گزارش ہے کہ اپنا آخری بیان ثابت کیجیے..
مکی صاحب
ميں نے عربی نہ سکول ميں پڑھی ہے نہ کالج ميں ۔ ميں صرف جيسے بولی جاتی ہے اس کی بات کر رہا تھا ۔ اگر گرامر ميں جائيں گے تو مولد پيدائش ہے اور مولود جو پيدا ہوا ۔
اب ذرا اسے ديکھيئے ۔ زوج کا مطلب خاوند ۔ زوجہ کا مطلب بيوی ۔ مگر عام طور پر زوج کو جوز بولتے ہيں ۔ زوج کا مطلب جوڑا بھی ہے اور بعض لوگ گنتی ميں دو کو بھی جوز کہتے جس طرح ہم لوگ بھی بعض اوقات دو کہنے کی بجائے جوڑا کہہ ديتے ہيں
آپ کو ناراض کرنا بُری بات ہے اسلئے ميں اپنی تحرير ميں تصحيح کر ديتا ہوں
:smile:
چچا جان بات لغت کی ہی ہے عام بولی جانے والی عربی کبھی معیار نہیں رہی ہے اور اس پر کبھی استدلال نہیں کیا جاسکتا.. کیا آپ مجھے کوئی ایسا عربی چینل بتا سکتے ہیں جس میں خبریں عام بولی جانے والی عربی میں پڑھی جاتی ہوں؟ کوئی ایسی کتاب بتا سکتے ہیں جو عام بولی جانے والی عربی میں لکھی گئی ہو؟ پھر بھی اگر عام بولی جانے والی عربی کو لیا جائے تب بھی جو دلیلیں آپ نے پیش کی ہیں ان اطلاق مولود اور مولد پر نہیں ہوتا.. مجھے خوش کرنے کے لیے تبدیلی نہ کریں بلکہ دلیل کی بنیاد پر تبدیلی کریں.. ہم وراثت سے مسلمان ہیں یا دلیل سے؟!
مکی صاحب
باقی بات رہنے ديجئے ۔ البتہ ميں مسلمان وراثت سے بھی ہوں اور دليل سے بھی
رہنے دیتا ہوں قبلہ تاہم اتنا ضرور عرض کرنا چاہوں گا کہ وراثت سے مسلمان ہونا قابل فخر نہیں بلکہ دلیل سے مسلمان ہونا قابل فخر ہے..
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر زائد نہیں ہے تو بھی مفتون فُتُون کا مصدر بنے گا نا کہ فتنہ کا مفعول..
مکی صاحب! کتابوں میں جہاں مذکورہ بالا قاعدہ آیا ہے اگر آپ ان جگہوں کو دیکھیں تو آپکو نحات اس قاعدہ کی تحت مفتون کی مثال پیش کرتے ہوئے ملیں گے،پس ان کا اس مثال کو مذکورہ قاعدہ کے تحت لانا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اسکو مفعول مان رہیں ہیں نہ کہ مصدر،اور جن حضرات نے مصدر مانا ہے ان سے سیبویہ کہ رہے ہیں: ان تلک الالفاظ و نظائرھا لیست مصادر فی المعنی،و ان کل واحد منھا ہو اسم مفعول فی صیغتہ و فی معناہ۔ النحو الوافی۔198 م:مصر
ویسے اسی ایک مثال پر کنڈلی مار کے بیٹھنے کی کیا ضرورت ہے،دوسری بےغبار مثال لیتے ہیں،فقل لہم قولا میسورا،میسور یہاں کس معنی میں ہے،آپ اس پر کلام فرمائں
افتخار اجمل صاحب! اگر چہ آپ عنوان بدل چکے ہیں مگر امید ہے کہ آپ گفتگو کو آگے جاری رکھنے کی اجازت دیں گے
مکی صاحب
آپ کی رائے ماحول کا احاطہ کئے بغير ہے ۔ اصل بات يہ ہے کہ اگر ايک شخص موروثی مسلمان ہے تو اس کے والدين نے اس کی تربيت کے سلسلہ ميں اپنے مسلمان ہونے کا فرض ادا کيا ہے يا نہيں ؟ اللہ کی کرم نوازی ہے کہ ميرے والدين نے ميری تربيت ميں اس عنصر کو اہميت دی کہ ہم مسلمان ہيں ۔ يہی وجہ ہے کہ ميرے دل ميں دين کا بغور مطالعہ کرنے کی خواہش پيدا ہوئی اور ميں نے اس سلسلہ ميں لڑکپن سے ہی کوشش شروع کر دی ۔ جب مجھے انجنيئرنگ کالج ميں داخلہ ملا تو روانگی کے وقت والد صاحب نے مجھے قرآن شريف کا اُردو ترجمہ والا نسخہ ديتے ہوئے کہا تھا “بيٹا ۔ يہ تمہاری ہر طرح کی رہنمائی کرے گا اور ہر وقت تمہارا مددگار ہو گا”۔
اس لئے مجھے موروثی اور بدليل مسلمان اپنی دونوں حيثيتوں پر فخر ہے
محمد سعید پالن پوری صاحب
ميں بحث ميں اُلجھنا نہيں چاہتا تھا اسلئے عنوان ميں تبديلی کر دی ۔ آپ کے علم سے ميں استفادہ کرتا رہوں گا کہ ميں نے آج تک سب کچھ دوسروں ہی سے سيکھا ہے
بہت خوب محمد سعید صاحب اس بار آپ نے واقعی خوب گھیرا ہے..
مجھے آپ کی بات سے انکار نہیں ہے لیکن آپ کی پہلی مثال اس پر پوری نہیں اترتی تھی.. البتہ یہ مثال درست ہے، یہاں فاعل کے معنوں میں مفعول استعمال کیا گیا ہے (اگرچہ مصدر پھر بھی نہیں ہے) تاہم آپ کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ ایسا مبالغہ آرائی کے لیے کیا جاتا ہے وہ بھی اس صورت میں جب ابہام یا غلط فہمی کا اندیشہ نہ ہو، ملاحظہ فرمائیں:
خلق من ماء دافق
یہاں دافق سےمراد مدفوق ہے لیکن مفعول کو فاعل اس لیے کیا گیا کیونکہ اس میں مفعول سے زیادہ بلاغت اور زور ہے لیکن مطلب واضح اور غیر مبہم ہے، یہ حرکت اہلِ حجاز کا خاصہ تھا اور شاید یہی وجہ ہے کہ قرآن میں یہی انداز استعمال کیا گیا اگرچہ امام سیوطی کہتے ہیں کہ ایسا صرف پانچ مقامات (تراب ساف، عیشہ راضیہ، ماء دافق، سر کاتم، لیل نائم) پر کیا گیا ہے لیکن حقیقت میں یہ اس سے کہیں زیادہ ہے اور نثر اور شعر میں بہت مستعمل ہے تاہم مولد کو مولود لکھنے پر اچھی خاصی غلط فہمی پیدا ہوجاتی ہے، ذرا غور فرمائیں:
کنا فی مولود محمد سعید
مولد محمد سعید شاطر فی دراستہ
تجربہ کے طور پر یہ دونوں باتیں کسی عرب کو کہیں پھر دیکھیے وہ کیسے چکرا جاتا ہے..
اب آپ یہ فرمائیں کہ مولد کی م مضموم ہے یا مفتوح؟
چچا جان مقصد بجز اصلاح کے اور کچھ نہ تھا، کچھ ناگوار گزرا ہو تو معذرت خواہ ہوں.. آپ کے چرن کہاں ہیں..