Yearly Archives: 2009

سافٹویئر چوری اور اسلام

یاسر عمران مرزا صاحب نے سافٹ ویئر کا استعمال جسے Piracy کا نام دیا گیا ہے کے متعلق لکھا اور مبصرین نے زبردست تبصرے کئے ان میں سے دو تبصرے منطقی جواب مانگتے ہیں ۔
ایک ۔ عنیقہ ناز صاحبہ کا کتابوں کے حوالے سے
دوسرا ۔ نعمان صاحب کا سوفٹ ویئر کی استحصالی فروخت کے حوالے سے

اپنا تجربہ اور نظریہ بیان کرنے سے قبل میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ

1 ۔ صرف فرنگیوں کے بنائے ہوئے اصولوں یا قوانین کی خلاف ورزی ہی جُرم کیوں ہے جبکہ وہ خود تمام انسانی حدوں کو توڑ کر جسے چاہیں ملیامیٹ کرتے رہتے ہیں ؟
2 ۔ اجارہ داری کا مقابلہ کرنا اگر چوری یا ڈکیتی ہے تو پھر جمہوریت کے نعرے کیوں لگائے جاتے ہیں ؟
3 ۔ اگر ہم بہت دیندار ہیں تو کیا صرف امریکا کے بنائے ہوئے قانون کی خلاف ورزی سے گناہگار بنتے ہیں ؟ اور کیا ہم نے اپنے باقی سارے اوصاف دین کے مطابق ڈھال لئے ہیں ؟
4 ۔ دورِ حاضر میں بہت سی اشیاء کی اصل اور نقل ملتی ہیں ۔ مثال کے طور پر نیشنل کی استری یا مولینکس کا گرائنڈر بلینڈر ۔ اصل کی قیمت اگر 4000 روپے ہے تو نقل 2000 روپے یا کم میں مل رہی ہے ۔ ایسا صرف پاکستان میں نہیں ساری دنیا میں ہے ۔ درمیانی یا کم آمدن والے لوگ اصل کی قیمت ادا نہیں کر سکتے اسلئے نقل خریدتے ہیں ۔ باقی اشیاء کی نقل خریدنا جُرم نہیں پھر امریکی سافٹ ویئر کی نقل خریدنا جُرمِ کیوں ؟
5 ۔ آخر یہ سارا نزلہ پاکستان پر کیوں گرایا جا تا ہے ؟ اور ہم خود ہی اپنے آپ کو امریکا کی استحصالی اجارہ داری میں کیوں جکڑنا چاہتے ہیں ؟

حقیقت کیا ہے ؟
سود خور دنیا کی اجارہ داری اور سودی نظام کے ساتھ ساتھ استحصالی نظام میں دنیا کو جکڑنا ۔ کیا اس استحصال کے خلاف کھڑے ہونا انسانیت کی خدمت نہیں ہو گا ؟ اگر امریکا کی preemptive strategy کے تحت دہشتگردی کے خلاف جنگ اور اپنے بغل بچہ اقوامِ متحدہ کے ذریعہ امریکا کا تسلط نہ ماننے والے ممالک پر تجارتی اور دوسری پابندیاں لگانا درست ہے تو امریکا کے مال کی نقل بنانا کیوں غلط ہے ؟

آپ بیتی

میرا کمپیوٹر سے واسطہ ستمبر 1985ء میں پڑا جب مجھے جنرل منیجر منیجمنٹ انفارمیشن سسٹمز [Management Information Systems] تعینات کر کے انوینٹری منیجمنٹ سسٹم [Inventory Management System] کو کمپیوٹرائز کرنے کا پراجیکٹ دے دیا گیا ۔ ادارے میں موجود تھا آئی بی ایم کا مین فریم [IBM”s Main Frame] کمپیوٹر اور سافٹ ویئر ۔ دونوں کی قیمت ادا کر چکنے کے باوجود ہر ماہ ادائیگی کی جاتی جس کے عوض آئی بی ایم کا ایک نمائندہ ہمارے ادارے کی سیاحت کر کے سب ٹھیک کہہ جاتا ۔ اگر کوئی مسئلہ درپیش ہوتا تو اس کا ہرجانہ علیحدہ ادا کرنا پڑتا ۔ اسی پر بس نہیں ذرا ذرا سی بات کیلئے ہم آئی بی ایم کے محتاج تھے ۔ ہم نے آئی بی ایم کے متوازی آزادی دینے والے ادارے نارسک ڈاٹا سے ناطہ جوڑا ۔ اُن کے ماہرین نے میرے ساتھ بیٹھ کر تمام سافٹ ویئر تیار کی اور اللہ کے فضل سے پاکستان کا سب سے وسیع اور فعال انوینٹری منیجمنٹ سسٹم کمپیوٹرائز ہو کر 1988ء میں بھرپور طور پر چالو ہو گیا

جب مجھے اکتوبر 1988ء میں ایم آئی ایس کا سربراہ بنا دیا گیا تو میں نے آئی بی ایم سے اگلا کنٹریکٹ ماضی کی شرائط پر کرنے سے انکار کر دیا ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ آئی بی ایم والے ہمیں چھوڑ کر چلے گئے ۔ ہم نے ایک اور آزاد کمپنی سے رجوع کیا تو آئی بی ایم والوں نے ملک کی اعلٰی سطح پر رابطہ کیا کہ مجھے زیر کر سکیں ۔ اللہ کی مہربانی سے وہ کامیاب نہ ہوئے اور اُن کے بڑے میرے پاس بھاگے آئے اور ایک جدید کمپیوٹر سی ایس پی اور ایس کیو ایل کے ساتھ دینے پر راضی ہو گئے اس شرط پر کہ ماہانہ کرایہ ختم صرف جب ضرورت پڑے مینٹیننس چارجز ہوں گے ۔ اُن دنوں پاکستان میں آئی بی ایم کے سربراہ یوسف صاحب تھے ۔ کمپیوٹر کی وصولی کے وقت سربراہ نثار میمن صاحب تھے جو پرویز مشرف کی حکومت میں وزیر رہے ۔ نثار میمن صاحب عہدہ سنبھالتے ہی واہ تشریف لائے اور مجھ سے ملاقات کر کے خوشی کا اظہار کیا

آئی بی ایم کی مہیا کردہ سافٹ ویئر کا یہ حال تھا کہ ایک فلاپی ڈسک سے 4 بار سافٹ ویئر انسٹال کرنے سے وہ سافٹ ویئر بیکار ہو جاتی تھی چنانچہ آئے دن آئی بی ایم سے نئی فلاپی ڈسکس بڑی قیمت پر خریدنا پڑتی تھیں یعنی ہاتھی کی قیمت میں چیونٹی ۔ ہمارے لوگوں نے کوڈ توڑااور ایک فلاپی ڈسک سے کئی فلاپی ڈسکس تیار کر لیں ۔ اگر امریکی قانون کو ماننا لازم ہوتا تو میں اور میرا سابق ادارہ بہت بڑے مجرم قرار پاتے ۔ گویا نہ میرا یہ بلاگ ہوتا اور نہ اتنے سارے ہونہاروں سے تعارف ہو پاتا

آجکل جسے پائریٹڈ سافٹ ویئر کہا جاتا ہے وہ مفت تو نہیں ملتی ۔ اب جو شخص بازار سے یہ سسستی سافٹ ویئر خرید کر لاتا ہے وہ مجرم کیسے ہوا ؟ مجرم تو وہ ہے جس نے کوڈ توڑ کر نقل بنائی ۔ سب کی اطلاع کیلئے لکھ دوں کہ کوڈ توڑ کر نقل بنانے والے پاکستانی نہيں ہیں بلکہ ان کا تعلق امریکا اور يورپ سے ہے ۔

ایک اہم واقعہ یاد آیا ۔ جب امریکا نے لبیا سے خام تیل خریدنے پر اقوامِ متحدہ کو استعمال کر کے پابندی لگوا دی اُن دنوں میں لبیا میں تھا ۔ امریکا کے تیل بردار جہاز مالٹا کی بندرگاہ پر لنگر انداز ہوتے اور مڈل مين [Middle Man] کے ذریعہ سودے ہوتے ۔ کسی نجی کمپنی کے جہاز لبیا سے تیل لے کر جاتے اور امریکی جہازوں میں ڈال دیتے ۔ اس طرح امریکا مہنگا تیل سستے داموں خریدتا رہا ۔ کیا یہ جعلسازی اور دھوکا نہیں ؟

امریکا اور يورپ والوں کی دیانتداری کا پول ماضی کی تاریخ کھولتی ہے ۔ یونانی مصنّف مارک نے اپنی کتاب لائبر اگنیم میں جس تحقیقی مواد کو یونانی کا لاطینی ترجمہ بتایا تھا بعد کی تحقیق میں ثابت ہو چکا ہے کہ وہ دراصل عربی سے لاطینی ترجمہ تھا ۔ اسی طرح جس اُوزی مشین گن یا مشین پِسٹل پر اسرائیل کی واہ واہ ہوتی ہے وہ دراصل نئی ایجاد نہیں بلکہ چیکوسلواکيا کی سب مشین گن کی نقل یا اس کی ترمیم ہے

یہی حال کتابوں اور تحقیقاتی مقالاجات کا ہے فرنگیوں نے عربی سے ترجمے کر کے اپنے ناموں سے شائع کئے اور جس کا ترجمہ نہ ہو سکا اُن کُتب کو جلا دیا گیا ۔ اپنے ملک کو ہی لے لیجئے ۔ ہندوستان پر ہیراپھیری سے قبضہ کے بعد تمام محققین اور ہنر مندوں کو ہلاک کر دیا گیا ۔ میرے اپنے آباؤ اجداد برطانوی حکومت کی دہشتگردی کا شکار ہوئے

قانون ؟ ؟ ؟

خبر ہے کہ ہالینڈ میں 5 ہم جنس پرست جوڑے شادی کے بندھن میں بندھ گئے ۔ شادی کرنے والے پانچ افراد کا تعلق امریکی ریاست نیو یارک سے ہے جہاں قانونی طور پر ہم جنس پرستوں کی شادی ممنوع ہے ۔ اسی لئے امریکی ہم جنس پرست دیگر یورپی ممالک کا رُخ کرتے ہیں اور شادی کے بعد واپس امریکا آجاتے ہیں کیونکہ اس صورت میں امریکہ میں شادی سرکاری طور پر تسلیم کی جاتی ہے

پریشانی کی وجوہات

پریشانیوں کا اصل سبب جائز یا ناجائز توقعات ہوتی ہیں ۔ مثال کے طور پر

* دوسروں سے اچھائی کی توقع
* دوستوں سے اپنی تعریف کی توقع
* ہوائی جہاز یا ٹرین کے وقت پر پہنچنے کی توقع
* سب لوگوں سے دیانت داری کی توقع
وغیرہ

یہ سب توقعات معقول معلوم ہوتی ہیں لیکن اکثر پوری نہیں ہوتیں
نتیجہ مایوسی اور دِل شِکنی ہوتا ہے

مسخرا اور بھانڈ وغیرہ منافق نہیں ہوتے

آج کے زمانہ میں لوگ ترقی تو بہت کر گئے ہیں اور دولتمند بھی ہو گئے ہیں مگر چہروں سے بشاشت غائب ہو گـئی ہے۔ اس دور میں مسخرے اور بھانڈ کی شائد زیادہ ضرورت ہے مگر اب کم از کم شہروں میں تو نظر نہیں آتے۔ ہماری نوجوان نسل نے تو شايد انہیں دیکھا بھی نہیں ہو گا۔

کیا مہارت ہوتی تھی ان میں ۔ محفل میں کتنا ہی افسردہ شخص کیوں نہ ہو ہنسے بغیر نہ رہ سکتا تھا ۔ مسخرے اور بھانڈ کی شخصیت بھی عجیب ہوتی ہے ۔ بظاہر خوش اور لاپرواہ مگر اندر سے بعض اوقات غم کے مارے ہوئے ۔ مسخرے اور بھانڈ منافق نہیں ہوتے وہ تو اپنے بول اپنی حرکات اور چہرہ بھی صرف دوسروں کو خوش کرنے کے لئے بدلتے ہیں ۔

پرانی بات ہے ایک مسخرے سے پوچھا کہ اس نے یہ پیشہ کیوں اختیار کیا ؟ بولا ” اپنے غم تو دوسروں کو دے نہیں سکتا ۔ لوگوں کو ہنسا کر مجھے اپنے غم بھول جاتے ہیں”۔ مسخرے اور بھانڈ اپنی اصلیت چھپا کر دوسروں کی مسرت کا سامان کرتے ہیں اور اس لئے وہ منافق نہیں ہوتے

ہائے کیا کروں ؟

ہائے کیا کروں ؟ وقت نہیں ملتا۔ بہت مصروف ہوں ۔ ۔ ۔
سوری ۔ سر کھجانے کی بھی فرصت نہیں ۔ ۔ ۔
کیا کروں یہاں تو مرنے کی بھی فرصت نہیں ۔ ۔ ۔

آجکل اس طرح کے الفاظ ہر جگہ اور ہر دم سننے میں آتے ہیں ۔ یہ تکیہ کلام بیس سال قبل بہت بڑے افسروں سے شروع ہوا ۔ پھر نیچے کی طرف سفر شروع کیا ۔ چھوٹے افسروں نے بڑے لوگوں کی نشانی سمجھ کر اپنایا ۔ پھر جوانوں نے ترقی کا راستہ سمجھتے ہوئے اختیار کیا ۔ گویا یہ تکیہ کلام وباء کی صورت اختیار کر گیا ۔ اب تو نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ سکول کے بچے ۔ بالخصوص بچیاں ۔ یہی کہتے ہوئے سنے جاتے ہیں۔ بچوں کی سطح پر ابھی یہ مرض زیادہ تر بڑے گھرانوں اور اپنے آپ کو ترقی یافتہ یا ماڈرن سمجھنے والے گھرانوں میں پھیلا ہے مگر ڈر ہے کہ درمیانے طبقہ کے لوگ جو آئے دن روشن خیالی کا راگ سنتے ہیں ۔ وہ بھی اس مرض میں مبتلا ہو جائیں گے کیونکہ آخر ان کا بھی دل چاہتا ہے بڑا آدمی بننے کو ۔ اصل میں تو بیچارے بڑا بننے سے رہے۔ کم از کم گفتار میں تو بن جائیں ۔ اس کے لئے تو کوئی روپیہ پیسہ بھی درکار نہیں

اللہ سبحانہ و تعالٰی کی بڑی مہربانی رہی مجھ پر کہ میرے بچے اس سے محفوظ رہے بڑے بیٹے زکریاکا ایک واقعہ مجھے یاد ہے ۔ اس کا انجنئرنگ کا تھرڈ ایئر کا سالانہ امتحان تھا۔ اگلے دن صبح پرچہ تھا۔ ایک لڑکا جو کسی اور کالج کا طالب علم تھا ۔ شام سے پہلے سوال سمجھنے آیا ۔ سمجھتے سمجھتے رات کے نو بج گئے ۔ ہم لوگ آٹھ بجے کھانا کھاتے تھے ۔ مجھ سے رہا نہ گیا ۔ میں نے ڈرائنگ روم میں جا کر کہا “بیٹے آپ نے ابھی کھانا بھی کھانا ہے اور پھر سونا کب ہے ؟ کل آپ کا پرچہ ہے”۔ یہ سن کر وہ لڑکا ایک دم یہ کہتے ہوۓ اٹھا۔” ہیں ؟ امتحان ؟ اس نے مجھے بتایا ہی نہیں” اور اپنی کتابیں سمیٹ کر یہ جا وہ جا

ہم پرانے وقتوں کے لوگ ہیں ۔ سکول کے ٹیسٹ میں دس میں سے دس کی بجائے نو نمبر آ جائیں تو گھر والے یوں گھورتے تھے جیسے کھا ہی جائیں گے ۔ عام دن ہوں یا سالانہ امتحان چند دن بعد ہوں ۔ روزانہ تھیلا اور پیسے ہاتھ میں تھما کر کہا جاتا ۔ جاؤ سبزی منڈی سے سبزی لے کر آؤ ۔ روزانہ اپنے سکول جانے سے پہلے بہن کو سکول چھوڑنا اور چھُٹی کے بعد اُسے گھر لے کر آنا بھی میرا فرض تھا ۔ روزانہ انگریزی کا اخبار پڑھنا بھی میرے فرائض میں داخل تھا کہ اس سے انگریزی فرفر ہو جاتی ہے ۔ پہلے سول اینڈ ملٹری گزٹ پڑھتا رہا ۔ وہ بند ہو گیا تو پاکستان ٹائیم ۔ ایک ماہ میں دو بار چکی سےگندم پسوا کر لانا بھی میرا کام تھا ۔ ہفتہ وار چٹھی کے دن گھر کی جھاڑ پونچھ کرنا ہم سب بھائی بہنوں کا کام تھا ۔ روزانہ ایک گھنٹہ ہاکی یا بیڈمنٹن یا باسکٹ بال کھیلنا بھی میرے لئے ضروری تھا کیونکہ والد صاحب کہتے تھے کہ صحت نہیں ہو گی تو پڑھائی کیسے کرو گے ۔ رات کو نو بجے سو کر صبح ساڑھے تین چار بجے اٹھنا اور صبح سویرے سیر کے لئے جانا بھی صحت کے لئے ضروری تھا ۔ لیکن مجال ہے کبھی دل میں یہ خیال گھُسا ہو کہ میں مصروف ہوں ۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے میرے سب ساتھی لڑکوں کا بھی کم و بیش یہی حال تھا

میرا خیال ہے ہماری تعلیم کے زمانہ میں ایک دن میں شاید چوبیس گھنٹے کام کے لئے اور آٹھ گھنٹے آرام کے لئے ہوتے ہوں گے

منافقت [Hypocrisy] ۔ مزید وضاحت

یہ تو میں واضح کر چکا ہوں کہ منافقت اپنے میں ایسی خصوصیات کا دعوٰی یا تصنع ہے جو موجود نہیں ۔ یا اس طرح کہا جا سکتا ہے کہ خُوبی یا مذہب کی غلط شکل پیش کرنا ۔ منافق میں پائی جانے والی عداوت یا کینہ ویسے ہی ہیں جیسے کہ جھوٹے میں پائے جانے والے ۔ دونوں میں جو آدمی کے دماغ میں ہے یا سوچ ہے اور جو وہ ظاہر کرتا ہے میں تفاوت یا اختلاف ہوتا ہے ۔ البتہ کسی کا اپنے جُرم یا گناہ کو اس وقت تک چھپانا جب تک اس کی تفتیش کوئی شرعی یا قانونی عہدہ یا اختیار رکھنے والا نہ کرے کو ہُپوکریسی یا منافقت نہیں کہا جا سکتا ۔

دو عناصر میں فرق کو سمجھنا از بس ضروری ہے ۔ ایک ہے ۔ نیکی کی خواہش ۔ اور دوسرا ہے ۔ نیکی کی خواہش کا بہانہ کرنا ۔ اور اگر کوئی دونو بیک وقت ہونے کا دعوٰیدار ہو تو وہ بھی منافقت ہے ۔

اس محرک پر تفتیش ضروری ہے جس کی بنا پر کوئی شخص ریاکارانہ یا پُرفریب عمل میں ملوّث ہوتا ہے ۔ اگر وہ کسی کا منظورِ نظر بننے یا کسی کی محبت جیتنے کیلئے اپنے آپ کو غلط طریقہ سے پیش کرتا ہے تو وہ منافقت میں ملوّث ہے

قانونِ قدرت ۔ پریشانی سے نجات

اگر قانونِ قدرت سمجھ آ جائے تو ہم بہت سی پریشانیوں سے بچ جاتے ہیں
ہم اپنے آپ کو مظلوم سمجھنا چھوڑ دیتے ہیں
ہم پیش آنے والے واقعات سے نبٹنا سیکھ لیتے ہیں

قانونِ قدرت کو ذاتی سطح پر لینا درست نہیں ۔
ہمیں اِسے سمجھنا اور اس کے ساتھ چلنا سیکھنا چاہیئے
ظاہر ہے کہ ہم قانونِ قدرت بدل نہیں سکتے
تجربات کا حاصل یہ ہے کہ شکست کامیابی کا پیش خیمہ ہوتی ہے ۔
کامیاب لوگ زیادہ بار ناکامیوں سے گذرتے ہیں مگر کامیابی کے لئے وہ زیادہ بیج بوتے ہیں