Monthly Archives: November 2009

تم جو بھی ہو ۔ ۔ ۔

میں نے 9 نومبر 2009ء کو اپنے بڑے بیٹے زکریا کے دوست انعام الحسن کے خاندان کا ذکر کیا تھا ۔ انعام الحسن کی ایک بہن جو سپیشلسٹ ڈاکٹر [Consultant Endocrinologist, The Aga Khan University Hospital, Karachi] ہیں اور کراچی میں رہتی ہیں نے تین چار ہفتے قبل ایک نظم بھیجی تھی جو نظرِ قارئین ہے

اس گلشن ہستی میں لوگو۔ تم پھول بنو یا خار بنو
تم جو بھی ہو ۔ تم پر اتنا تو لازم ہے کہ با کردار بنو

دنیا میں رستے دو ہی تو ہیں
اک کُفر کا ہے اک اسلام کا ہے
یا کُفر لگا لو سینوں سے
یا دین کے پہرے دار بنو
تم جو بھی ہو تم پر اتنا تو لازم ہے کہ با کردار بنو

کیوں حیراں ہو دوراہے پر
اک راہ پے تم کو چلنا ہے
اسلام کا ۔ یا تو نام نہ لو
یا جراءت کا معیار بنو
تم جو بھی ہو تم پر اتنا تو لازم ہے کہ با کردار بنو

ذلت سے جہاں میں جی لو تم
یا جامِ شہادت پی لو تم
یا بُزدل ہو کے چھپ جاؤ
یا ہمت کی تلوار بنو
تم جو بھی ہو تم پر اتنا تو لازم ہے کہ با کردار بنو

اک سمت گروہ فرعون کا ہے
اک سمت خدا کے عاشق ہیں
تم حق والوں سے مل جاؤ
یا باطل کے دلدار بنو
تم جو بھی ہو تم پر اتنا تو لازم ہے کہ با کردار بنو

اک سمت روش بو جہل کی ہے
اک سمت نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کا اُسوہ ہے
یا جھیلو آگ جہنم کی
یا جنت کے حقدار بنو
تم جو بھی ہو تم پر اتنا تو لازم ہے کہ با کردار بنو

یہ وقت نہیں ہے چھپنے کا
اب اصلی روپ میں آ جاؤ
تم دین کے پہرے دار بنو
یا فرعونوں کے یار بنو
تم جو بھی ہو تم پر اتنا تو لازم ہے کہ با کردار بنو

یہ ذوق تمہارا کتنا ہے
یہ فیصلہ اب تو ہو جائے
یا ساغر آب کوثر کے
یا مغرب کے مہ خوار بنو
تم جو بھی ہو تم پر اتنا تو لازم ہے کہ با کردار بنو

دہشتگرد کون ؟

پاک بحریہ نے 1994ء میں تین فرانسیسی سب میرین خریدی تھیں ۔ ایک فرانسیسی اخبار کے مطابق صدر زرداری نے ان سب میرینوں کی خریداری پر 43 لاکھ ڈالرز وصول کیے۔ رپورٹ کے مطابق سال2001 میں برطانوی حکومت کی جانب سے پاکستان کے قومی احتساب بیورو کو بھیجی گئی دستاویزات میں صدر زرداری کے سوئس بینک اکاؤنٹس میں لبنان کے سرمایہ کار عبدالرحمان العسیر کے ذریعے بڑی رقم منتقل ہونے کا انکشاف کیا گیا تھا ۔ یہ رقم سال1994ء اور1995ء کے دوران ان کے اکاؤنٹس میں منتقل کی گئی تھی ۔ فرانس کی نیول ڈیفنس کمپنی کے سابق ایگزیکٹو کا کہنا ہے کہ فرانس کے حکام نے العصیر کو اس ڈیل میں مددگار کے طور پر چنا تھا ۔ جس نے مبینہ طور پر معاہدے سے ایک ماہ قبل 15 اگست1994 سے 30 اگست کے دوران صدر زرداری کے اکاؤنٹس میں 13 لاکھ ڈالرز جمع کرائے ۔ معاہدے پر دستخط کے ایک سال بعد 12 لاکھ اور 18 لاکھ ڈالرز جمع کرائے گئے ۔ طے کی گئی رقم مکمل ادا نہ کرنے پر ہی کراچی میں8 مئی2002 کو فرانس کی نیول ڈیفنس کمپنی کے 11 ملازمین کو دہشتگرد حملے میں ہلاک کردیاگیا ۔ رپورٹ کے مطابق فرانسیسی کمپنی کے ملازمین نے دہشت گردی کے اس واقعہ کی تفتیش کے دوران بتایا کہ معاہدے کے تحت خریدی جانے والی آبدوزوں کی قیمت کا 10 فیصد حصہ کمیشن کے طور پر دیا جانا تھا ۔ جس میں 6 فیصد یعنی49.5 ملین ڈالرز فوج اور 4 فیصد یعنی33 ملین یوروز سیاسی حلقوں کو کمیشن کے طور پر دینا تھا ۔ سال 2001ء میں پاک بحریہ کے سابق چیف آف اسٹاف منصور الحق کو اس ڈیل میں کردار ادا کرنے پر گرفتار کیا گیا اور ان پر ستر لاکھ ڈالرز واپس دینے کے لیے دباؤ بھی ڈالاگیا۔ رپورٹ کے مطابق صدر آصف زرداری ملک کے امیر ترین آدمی ہیں ایک اندازنے کے مطابق ان کے اثاثوں کی مالیت1.8 ارب ڈالرز ہے۔آصف زرداری کے صدر منتخب ہونے سے چند ماہ قبل اپریل2008 میں ان کے خلاف تمام مقدمات ختم کردیے گئے تھے

بشکریہ ۔ جنگ

عورت ۔ ۔ ۔ مرد کی زندگی میں

جب میں اس دنیا میں آیا تو عورت نے مجھے گود لیا ۔ ۔ ۔ میری ماں
جب میں اپنے پاؤں چلنے لگا تو عورت نے میرا خیال رکھا اور میرے ساتھ کھیلا ۔ ۔ ۔ میری بہن
جب میں پڑھنے لگا تو مجھے عورت نے پڑھنا سکھایا ۔ ۔ ۔ میری اُستاذہ
جب میں جوانی میں دُکھ کا شکار ہوا تو میرا غم عورت نے بانٹا ۔ ۔ ۔ میری بیوی
جب میں بڑھاپے میں چڑچڑا ہوا تو مجھے مسکراہٹ عورت نے دی ۔ ۔ ۔ میری بیٹی
جب میں مروں گا تو مجھے عورت ہی اپنی آغوش میں لے لے گی ۔ ۔ ۔ میرے وطن کی مٹی

اللہ کے بندے

ساڑھے 21 سال قبل ہمارا ایک خاندان سے تعارف ہوا اور چند ہی سالوں میں وہ لوگ ہم سے گھُل مِل گئے ۔ عظیم الدین صاحب کی وفات کا سُن کر جب ہم ان کے گھر پہنچے تو وہاں کسی کے رونے کی آواز نہیں آ رہی تھی اور گھر میں سب قرآن شریف کی تلاوت کر رہے تھے ۔ اُن کے بیٹے انعام الحسن سے گلے مل کر میں نے دکھ کا اظہار کیا تو اُس نے کہا ” اللہ کی مرضی ہے ۔ بس آپ دعا کیجئے”۔ بعد میں بھی جب ملاقات ہوئی تو ان کے گھر کے ہر فرد نے یہی کہا “دعا کیجئے”۔

عظیم الدین صاحب اول درجہ کے شریف اور قناعت پسند شخص تھے اور ویسا ہی میں نے ان کے بچوں کو پایا ۔ عظیم الدین صاحب تبلیغِ دین کے رسیا تھے اور اُن کے بعد یہ کام اُن کے بیٹے انعام الحسن نے اپنا فرض سمجھا

انعام الحسن میرے بڑے بیٹے زکریا کا سکول کے زمانہ میں بارہویں تک ہمجماعت تھا [اب بال بچے دار ہے] ۔ وہ بہت ذہین اور محنتی طالب علم تھا ۔ انعام الحسن کے والد عظیم الدین صاحب جن سے بچوں کی وجہ سے میری علیک سلیک ہو چکی تھی 1988ء میں اچانک دل کا دورہ پڑنے کے دو دن بعد فوت ہو گئے ۔ عظیم الدین صاحب بھارت کے صوبہ بہار سے 1947ء میں ہجرت کر کے پاکستان آئے تھے اور اُن کا بیوی بچوں کے علاوہ پاکستان میں کوئی رشتہ دار نہ تھا اور نہ کوئی جائیداد تھی ۔ انعام الحسن بہن بھائیوں میں سب سے بڑا ہے اور جب اس کے والد فوت ہوئے تو ابھی اس کا بارہویں جماعت کا نتیجہ نہیں آیا تھا ۔ والد کی تنخواہ کے علاوہ اُن کے خاندان کا کوئی ذریعہ معاش نہ تھا ۔ وہ سرکاری گھر میں رہتے تھے جو انہیں 6 ماہ بعد خالی کرنا تھا

ایسی صورتِ حال میں بظاہر چاروں طرف اندھیرا تھا لیکن اس خاندان نے اللہ پر بھروسہ رکھا اور ہمت باندھ کر محنت کی ۔ خاص کر انعام الحسن کا کردار بہت عمدہ رہا ۔ اللہ کی مہربانی سے یہ گھرانہ مثالی ثابت ہوا اور ظاہر ہے کہ اللہ بھی ان کی مدد کرتا ہے جو اللہ پر یقین رکھیں اور اپنی مدد آپ کریں ۔ انعام الحسن کی تین بہنیں اور ایک بھائی ہے ۔ دو بہنیں ڈاکٹر ہیں جن میں سے ایک سپیشلسٹ ہے ۔ ایک بہن ایم ایس سی ہے ۔ بھائی نے بی سی ایس کیا اور خود انعام الحسن ایم ایس سی انجنیئرنگ ہے ۔ یہ سب کچھ کیسے ہوا ؟ یہ سمجھ آنا تو مشکل ہے ہی ۔ اس کی تفصیل بیان کرنا بھی مشکل ہے ۔ علامہ اقبال صاحب کے شعر کو مروڑ کر میرا دسویں جماعت میں بنایا ہوا شعر شاید کچھ اشارہ دے سکے

یقینِ مُحکم عملِ پَیہم پائے راسخ چاہئیں
اِستقامت دل میں ہو لب پر خدا کا نام ہو

قربانی ؟ ؟ ؟

سعدیہ سحر صاحبہ اخبار میں قربانی پر لکھا کوئی مضمون پڑھ کر پریشان ہو گئیں ۔ موصوف نے لکھا ہے

رسولِ کریم کی سوانح حیات کا مطالعہ کیا میں نے کہیں یہ نہیں پایا کہ رسولِ کریم نے ان ایام میں جب آپ نے حج نہیں کیا مکہ معظمہ یا مدینہ منورہ میں قربانی کا فریضہ ادا کیا ھو — قرآن میں بھی جو آیات قربانی سے متعلق ھیں وہ بھی حج سے ھی وابستہ ھیں

آجکل نجانے کیسے کیسے لوگ عالِم بن بیٹھے ہیں ۔ دورِ حاضر میں مسند دِینی کُتب آسانی سے دستیاب ہیں ۔ اصول یہ ہونا چاہیئے کہ اخبار رسالے وغیرہ کو عِلم کا منبع نہ سمجھا جائے اور عِلم حاصل کرنے کیلئے مستند کُتب سے استفادہ کیا جائے

قربانی

قربانی کے لئے قرآن کریم میں عموماً تین لفظ استعمال ہوئے ہیں
1 ۔ اذقربا قربانا ۔ جب دونوں نے قربانی کی

وَاتْلُ عَلَیہھمْ نَبَأَ ابْنَيْ آدَمَ بِالْحَقِّ إِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِن أَحَدِھِمَا وَلَمْ يُتَقَبَّلْ مِنَ الْآخَرِ قَالَ لَأَقْتُلَنَّكَ قَالَ إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللّہُ مِنَ الْمُتَّقِينَ

اور (اے محمد) ان کو آدم کے دو بیٹوں (ہابیل اور قابیل) کے حالات (جو بالکل) سچے (ہیں) پڑھ کر سنا دو کہ جب ان دونوں نے اللہ (کی جناب میں) کچھ نیازیں چڑھائیں تو ایک کی نیاز تو قبول ہو گئی اور دوسرے کی قبول نہ ہوئی (تب قابیل ہابیل سے) کہنے لگا کہ میں تجھے قتل کروں گا اس نے کہا کہ اللہ پرہیزگاروں ہی کی (نیاز) قبول فرمایا کرتا ہے

2 ۔ منسک : (الحج، 22 : 34) ۔

وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنسَكًا لِيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَى مَا رَزَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ

اور ہم نے ہر امت کے لئے ایک قربانی مقرر فرمائی کہ اللہ کا نام لیں، اس کے دیئے ہوئے بے ز بان چوپائیوں پر۔

3 ۔ نحر: (الکوثر، 108 : 1 – 3) ۔

إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَر 0 فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ 0 إِنَّ شَانِئَكَ ھُوَ الْأَبْتَر

(اے محمد) ہم نے تم کو کوثر عطا فرمائی ہے ۔ تو اپنے پروردگار کے لیے نماز پڑھا کرو اور قربانی دیا کرو ۔ کچھ شک نہیں کہ تمہارا دشمن ہی بےاولاد رہے گا

احادیث مبارکہ کی روشنی میں

٭ امام ترمذی وابن ماجہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
(مشکوٰۃ ص 128 باب الاضحیہ) ’’ابن آدم نے قربانی کے دن خون بہانے (قربانی کرنے) سے زیادہ خدا کے حضور پسندیدہ کوئی کام نہیں کیا اور بے شک وہ قربانی کا جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں بالوں اور کھروں کے ساتھ آئے گا اور بے شک خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ کے ہاں مقام قبول میں پہنچ جاتا ہے۔ لہذا خوش دلی سے قربانی کیا کرو‘‘۔
٭ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دو چتکبرے سینگوں والے مینڈھے اپنے ہاتھ سے قربانی کے لئے ذبح فرمائے۔ بسم اللہ پڑھ کر اور اللہ اکبر کہہ کر (بسم اللہ اللہ اکبر) کہتے ہیں، میں نے حضور کو ان کے پہلوؤں پر قدم رکھے دیکھا اور فرماتے جاتے بسم اللہ، اللہ اکبر۔ (بخاری، مسلم، مشکوۃ ص 127)
٭ امام مسلم سے بھی اسی طرح کی روائت ہے
٭ امام بخاری نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کی۔
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عید گاہ میں قربانی کے جانور ذبح فرمایا کرتے تھے‘‘۔ (مشکوۃ ص 127)
٭ حنش کہتے ہیں میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دو مینڈھے قربانی کرتے دیکھا، میں نے پوچھا یہ کیا؟ فرمایا
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے اس بات کی وصیت فرمائی تھی کہ میں حضور کی طرف سے قربانی کروں۔ سو میں سرکار کی طرف سے (بھی) قربانی کرتا ہوں‘‘۔ (ابوداؤد، ترمذی وغیرہ، مشکوۃ ص 128)
٭ حضرت براء کہتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عید بقر کے دن ہمیں خطبہ دیا اور فرمایا۔
’’آج کے دن سب سے پہلا کام جو ہم کریں گے وہ یہ ہے کہ نماز پڑھیں پھر واپس آ کر قربانی کریں۔ سو جس نے یہ کرلیا اس نے ہمارا طریقہ پالیا اور جس نے نماز سے پہلے ذبح کرلیا سو وہ گوشت کی بکری تھی جسے اس نے اپنے گھر والوں کے لئے جلدی تیار کرلیا۔ اس کا قربانی سے کوئی تعلق نہیں‘‘۔ (بخاری ومسلم، مشکوۃ ص 126)
’’جس نے نماز عید سے پہلے جانور ذبح کیا، اس کی جگہ دوسرا ذبح کرے‘‘۔ (بخاری ومسلم)
٭ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے۔ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ منورہ میں دس سال قیام پذیر رہے اور قربانی کرتے رہے‘‘۔ (ترمذی)
٭ زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں۔ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام نے عرض کی یارسول اللہ! یہ قربانیاں کیا ہیں؟ فرمایا تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے انہوں نے عرض کی یارسول اللہ ہمارے لئے ان میں کیا ثواب ہے؟ فرمایا ہر بال کے بدلے نیکی عرض کی یارسول اللہ! اون کے متعلق کیا ارشاد ہے؟ فرمایا اون کے بدلے نیکی ہے‘‘۔ (احمد، ابن ماجہ، مشکوۃ)
٭حضرت براء سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ ’’جس نے نماز عید کے بعد جانور ذبح کیا۔ اس کی قربانی مکمل ہوگئی اور اس نے مسلمانوں کا طریقہ پالیا‘‘۔ ( متفق علیہ، مشکوۃ ص 126)

اور پیئو مِلک پَیک

جب تازہ خالص دودھ ملنا بہت ہی مشکل ہو گیا تو ہم نے ولائتی طریقہ سے موٹے کاغذ کے ڈبے میں بند دودھ استعمال کرنا شروع کیا گو میرا دماغ کہتا تھا کہ پانی ملا دودھ ڈبے والے دودھ سے بہتر ہے کیونکہ جتنا دودھ ڈبوں میں بند کر کے بیچا جا رہا ہے اتنی ہمارے مُلک میں گائے بھینسیں نہیں ہیں ۔ میں اکیلا کیسے عقلمند ہو سکتا ہوں جب باقی سب ڈبے والے دودھ کے حق میں ہوں ۔ اور کئی تو اچھے خاصے پڑھے لکھے خواتین و حضرات نیسلے کا ایوری ڈے [Every Day] خالص اور عمدہ دودھ سمجھ کر استعمال کرتے ہیں اور تعریفیں کرتے نہیں تھکتے حالانکہ ایوری ڈے میں دودھ ہوتا ہی نہیں

میرے عِلم میں ایک درخواست آئی ہے جو لاہور ہائیکورٹ میں داخل کی گئی تھی اور 2 نومبر 2009ءکو ہائیکورٹ نے متعلقہ سرکاری اہلکار کو 17 نومبر کو پیش ہونے کا حُکم دیا تھا ۔ داخل کی گئی درخواست میں مصدقہ اعداد و شمار دیئے گئے ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ گذشتہ 5 سال میں ڈبوں میں بند دودھ [نیسلے کا ملک پیک ۔ ہلّہ ۔ گُڈ ملک ۔ اولپر ۔ وغیرہ] کے 19718 نمونے حاصل کر کے ان کا معائینہ کیا گیا تو ان میں سے 17529 نمونوں کا دودھ مضرِ صحت تھا اور انسانوں کے پینے کے قابل نہ تھا ۔ یعنی 88 فیصد نمونوں میں مُضرِ صحت دودھ تھا ۔کئی نمونوں میں مُختلف کیمیائی [chemical] اجزاء اور دیگر زہریلی اشیاء کی ملاوٹ بھی پائی گئی تھی

ہمیں ڈبوں کا دودھ شروع کئے چار پانچ ماہ ہی ہوئے تھے لیکن اس کے ذائقہ سے ہم بد دِل ہو رہے تھے ۔ اللہ کا شکر ہے کہ دوہفتے قبل ہمیں اچھا تازہ دودھ ملنا شروع ہوگیا ورنہ اس خبر پر ہمیں نجانے قے شروع ہو جاتیں یا اسہال

پنجابی کوئی زبان نہیں

تیرہ چودہ سال گذرے میں سابق وائس چانسلر این ای ڈی انجنیئرنگ یونیورسٹی اور سابق سپیکر قومی اسمبلی الٰہی بخش سومرو صاحب کے ساتھ بیٹھا تھا کہ کسی کا ٹیلیفون آيا اور وہ بات کرنے لگ گئے ۔ ایک بات اُنہوں نے ایسی کہی کہ میں مسکرائے بغیر نہ رہ سکا ۔ ٹیلیفون بند کرنے کے بعد سومرو صاحب بولے “آپ تو کہتے تھے کہ سندھی نہیں آتی ۔ میں سندھی میں بات کر رہا تھا اور آپ بالکل درست ہنسے”۔ میں نے کہا “آپ 70 فیصد پُرانی پنجابی بول رہے تھے”۔ سومرو صاحب تو حیران ہوئے ہی مجھ پر بھُوت سوار ہو گیا کہ پنجابی اور سندھی کا رشتہ معلوم کروں جس کیلئے ان کا ماخذ معلوم کرنا ضروری تھا

دورِ حاضر میں تو سب علاقوں کی زبانیں بدل چکی ہیں ۔ نہ اُردو اُردو رہی ہے اور نہ پنجابی پنجابی ۔ ان میں انگریزی ضرورت سے زیادہ شامل کر لی گئی ہے اور کچھ الفاظ تروڑ مروڑ اور غلط اِملا کا شکار ہو گئے ہیں [جس طرح طالب کی جمع طلباء ہے جسے طلبہ لکھا جا رہا ہے]۔ جواز بتایا جاتا ہے کہ زندہ زبانیں دوسری زبانوں کے الفاظ اپنے اندر سمو لیتی ہیں ۔ بیان تو درست ہے مگر زندہ زبانیں اپنے اندر دوسری زبانوں کے وہ الفاظ داخل کرتی ہیں جو ان زبانوں میں موجود نہیں ہوتے ۔ ہماری قوم نے تو اچھے بھلے الفاظ کی موجودگی میں انگریزی کو فخریہ ترجیح دے رکھی ہے ۔ چچا ماموں خالو پھوپھا سب کو اَنکل [uncle] سڑک کو روڈ [road] غسلخانہ کو باتھ روم [Bathroom] باورچی خانہ کو کِچن [Kitchen] بستر کو بَیڈ [Bed] کہنے سے پنجابی یا اُردو میں میں کونسی خوبصورتی پیدا ہو گئی ہے ؟ کتنا پیارا اور شیریں لفظ ہے امّی جس کو ممی [Mammy] مامی [Mommy] بنا دیا ۔ ممی [Mummy] مُردے کو بھی کہتے ہیں ۔ خیر اپنے موضوع کی طرف واپس آتے ہیں

پنجابی زبان کی ہئیت بدل جانے کے باوجود سندھ اور پوٹھوہار میں ابھی بھی کچھ قدرِ مشترک ہے جیسے سندھ میں پگاڑا کا پگاڑو اور کھوسہ کا کھوسو ہو جاتا ہے ایسے ہی پوٹھوہار میں ہے ۔ جس طرح ہند و پاکستان کے ہر ضلع میں فرق فرق اُردو بولی جاتی تھی اسی طرح پنجابی بھی پنجاب کے ہر ضلع میں فرق فرق تھی اور شاید ہے بھی ۔ لیکن اگر کسی نے چار دہائیاں قبل یا اُس سے بھی پہلے ایبٹ آباد بلکہ مانسہرہ سے تھٹہ تک کا سفر کیا ہوتا تو وہ کہتا کہ راستہ میں زبان پوٹھوہاری سے سندھی میں بتدریج اس طرح تبدیل ہو جاتی ہے کہ زیادہ محسوس نہیں ہوتا

پنجابی کے نام سے دورِ حاضر میں جو زبان بولی جاتی ہے دراصل یہ فارسی ۔ عربی ۔ انگریزی اورسنسکرت کا ملغوبہ ہے ۔ جس زبان کا نام انگریزوں نے پنجابی رکھا وہ اس سے قبل گورمُکھی کہلاتی تھی ۔ دراصل گورمُکھی بھی کوئی زبان نہ تھی ۔ گورمُکھی کا مطلب ہے گورو کے منہ سے نکلی بات ۔ کیونکہ اس زبان میں گورو کے ارشادات رقم کئے گئے تھے اسلئے اس کا نام گورمُکھی رکھ دیا گیا تھا ۔ یہ زبان حقیقت میں براہمی تھی ۔ کہا جاتا ہے کہ براہمی چوتھی یا پانچویں صدی عیسوی سے تعلق رکھتی ہے ۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ براہمی سے سنسکرت نے بھی جنم لیا ۔ یہ زبان اپنی افزائش شدہ شکل میں اُنیسویں صدی عیسوی میں بھی بولی جاتی رہی اور بیسویں صدی عیسوی کی شروع کی دہائیوں میں بھی موجودہ پنجاب ۔ موجودہ سندھ اور ان کے قریبی علاقوں ۔ موجودہ صوبہ سرحد (خیبر پختونخوا) اور گجرات کاٹھیاواڑ میں بھی بولی جاتی تھی ۔ یہی زبان جسے بعد میں پنجابی کا نام دیا گیا اُردو زبان کی بنیاد بھی بنی ۔ یہاں تک کہ اُنیسویں صدی کی شروع کی دہائیوں میں جو اُردو یا ہندی بولی جاتی رہی وہ اُس زبان کے اکثر الفاظ پر مشتمل تھی جو پنجابی کہلائی ۔ اُردو چونکہ ہند کی زبان تھی اسلئے اسے ہندی بھی کہا جاتا تھا ۔ ہندوستان کا لفظ ہند کو اپنے سے منسوب کرنے کیلئے ہندوؤں نے ایجاد کیا تھا

مولوی محمد مسلم صاحب کا مجموعہ کلام “گلزارِ آدم” جو 1230ھ یعنی 1829ء میں لکھا گیا میں سے ایک اُردو کا شعر

اِک دِن دِل وِچ گُذریا ۔ میرے اِہ خیال
ہندی وِچ پیغمبراں دا کُجھ آکھاں میں حال

مندرجہ بالا شعر کو اگر دورِ حاضر کی اُردو میں لکھا جائے تو کچھ یوں ہو گا
ایک دن دل میں آیا ميرے یہ خیال
اُردو میں پیغمبروں کا کُچھ کہوں میں حال

پرانی اردو ۔ ۔ ۔ جدید اُردو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پرانی اردو ۔ ۔ ۔ جدید اُردو
ہَور ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اجُوں تک ۔ ۔۔ ۔ ابھی تک
بھار ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ باہر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ کِدھن ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ کس سمت میں
کُوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ کو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ دِستے ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ نظر آتے
کنے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پاس ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مُنج ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ مجھ
نال ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ساتھ

اُوپر دیئے گئے پرانی اُردو کے الفاظ اُن الفاظ میں سے چند ہیں جو کہ شمال مغربی ہند [گجرات کاٹھیاواڑ ۔ سندھ ۔ پنجاب اور گرد و نواح] میں بولی جانے والی زبان سے اُردو میں شامل ہوئے ۔ اِن الفاظ میں سے اکثر اب بھی پنجابی میں بولے جاتے ہیں ۔ حیدر آبادی صاحب کا مشکور ہوں کہ اُن کی وساطت سے مندرجہ بالا شعر اور الفاظ تک میری رسائی ہوئی