سعدیہ سحر صاحبہ اخبار میں قربانی پر لکھا کوئی مضمون پڑھ کر پریشان ہو گئیں ۔ موصوف نے لکھا ہے
رسولِ کریم کی سوانح حیات کا مطالعہ کیا میں نے کہیں یہ نہیں پایا کہ رسولِ کریم نے ان ایام میں جب آپ نے حج نہیں کیا مکہ معظمہ یا مدینہ منورہ میں قربانی کا فریضہ ادا کیا ھو — قرآن میں بھی جو آیات قربانی سے متعلق ھیں وہ بھی حج سے ھی وابستہ ھیں
آجکل نجانے کیسے کیسے لوگ عالِم بن بیٹھے ہیں ۔ دورِ حاضر میں مسند دِینی کُتب آسانی سے دستیاب ہیں ۔ اصول یہ ہونا چاہیئے کہ اخبار رسالے وغیرہ کو عِلم کا منبع نہ سمجھا جائے اور عِلم حاصل کرنے کیلئے مستند کُتب سے استفادہ کیا جائے
قربانی
قربانی کے لئے قرآن کریم میں عموماً تین لفظ استعمال ہوئے ہیں
1 ۔ اذقربا قربانا ۔ جب دونوں نے قربانی کی
وَاتْلُ عَلَیہھمْ نَبَأَ ابْنَيْ آدَمَ بِالْحَقِّ إِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِن أَحَدِھِمَا وَلَمْ يُتَقَبَّلْ مِنَ الْآخَرِ قَالَ لَأَقْتُلَنَّكَ قَالَ إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللّہُ مِنَ الْمُتَّقِينَ
اور (اے محمد) ان کو آدم کے دو بیٹوں (ہابیل اور قابیل) کے حالات (جو بالکل) سچے (ہیں) پڑھ کر سنا دو کہ جب ان دونوں نے اللہ (کی جناب میں) کچھ نیازیں چڑھائیں تو ایک کی نیاز تو قبول ہو گئی اور دوسرے کی قبول نہ ہوئی (تب قابیل ہابیل سے) کہنے لگا کہ میں تجھے قتل کروں گا اس نے کہا کہ اللہ پرہیزگاروں ہی کی (نیاز) قبول فرمایا کرتا ہے
2 ۔ منسک : (الحج، 22 : 34) ۔
وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنسَكًا لِيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَى مَا رَزَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ
اور ہم نے ہر امت کے لئے ایک قربانی مقرر فرمائی کہ اللہ کا نام لیں، اس کے دیئے ہوئے بے ز بان چوپائیوں پر۔
3 ۔ نحر: (الکوثر، 108 : 1 – 3) ۔
إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَر 0 فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ 0 إِنَّ شَانِئَكَ ھُوَ الْأَبْتَر
(اے محمد) ہم نے تم کو کوثر عطا فرمائی ہے ۔ تو اپنے پروردگار کے لیے نماز پڑھا کرو اور قربانی دیا کرو ۔ کچھ شک نہیں کہ تمہارا دشمن ہی بےاولاد رہے گا
احادیث مبارکہ کی روشنی میں
٭ امام ترمذی وابن ماجہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
(مشکوٰۃ ص 128 باب الاضحیہ) ’’ابن آدم نے قربانی کے دن خون بہانے (قربانی کرنے) سے زیادہ خدا کے حضور پسندیدہ کوئی کام نہیں کیا اور بے شک وہ قربانی کا جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں بالوں اور کھروں کے ساتھ آئے گا اور بے شک خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ کے ہاں مقام قبول میں پہنچ جاتا ہے۔ لہذا خوش دلی سے قربانی کیا کرو‘‘۔
٭ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دو چتکبرے سینگوں والے مینڈھے اپنے ہاتھ سے قربانی کے لئے ذبح فرمائے۔ بسم اللہ پڑھ کر اور اللہ اکبر کہہ کر (بسم اللہ اللہ اکبر) کہتے ہیں، میں نے حضور کو ان کے پہلوؤں پر قدم رکھے دیکھا اور فرماتے جاتے بسم اللہ، اللہ اکبر۔ (بخاری، مسلم، مشکوۃ ص 127)
٭ امام مسلم سے بھی اسی طرح کی روائت ہے
٭ امام بخاری نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کی۔
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عید گاہ میں قربانی کے جانور ذبح فرمایا کرتے تھے‘‘۔ (مشکوۃ ص 127)
٭ حنش کہتے ہیں میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دو مینڈھے قربانی کرتے دیکھا، میں نے پوچھا یہ کیا؟ فرمایا
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے اس بات کی وصیت فرمائی تھی کہ میں حضور کی طرف سے قربانی کروں۔ سو میں سرکار کی طرف سے (بھی) قربانی کرتا ہوں‘‘۔ (ابوداؤد، ترمذی وغیرہ، مشکوۃ ص 128)
٭ حضرت براء کہتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عید بقر کے دن ہمیں خطبہ دیا اور فرمایا۔
’’آج کے دن سب سے پہلا کام جو ہم کریں گے وہ یہ ہے کہ نماز پڑھیں پھر واپس آ کر قربانی کریں۔ سو جس نے یہ کرلیا اس نے ہمارا طریقہ پالیا اور جس نے نماز سے پہلے ذبح کرلیا سو وہ گوشت کی بکری تھی جسے اس نے اپنے گھر والوں کے لئے جلدی تیار کرلیا۔ اس کا قربانی سے کوئی تعلق نہیں‘‘۔ (بخاری ومسلم، مشکوۃ ص 126)
’’جس نے نماز عید سے پہلے جانور ذبح کیا، اس کی جگہ دوسرا ذبح کرے‘‘۔ (بخاری ومسلم)
٭ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے۔ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ منورہ میں دس سال قیام پذیر رہے اور قربانی کرتے رہے‘‘۔ (ترمذی)
٭ زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں۔ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام نے عرض کی یارسول اللہ! یہ قربانیاں کیا ہیں؟ فرمایا تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے انہوں نے عرض کی یارسول اللہ ہمارے لئے ان میں کیا ثواب ہے؟ فرمایا ہر بال کے بدلے نیکی عرض کی یارسول اللہ! اون کے متعلق کیا ارشاد ہے؟ فرمایا اون کے بدلے نیکی ہے‘‘۔ (احمد، ابن ماجہ، مشکوۃ)
٭حضرت براء سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ ’’جس نے نماز عید کے بعد جانور ذبح کیا۔ اس کی قربانی مکمل ہوگئی اور اس نے مسلمانوں کا طریقہ پالیا‘‘۔ ( متفق علیہ، مشکوۃ ص 126)