“آپ بھی حیران ہوں گے کہ میں کیا لکھ رہا ہوں کیونکہ میں اس طرح کے کالم نہیں لکھا کرتا لیکن کیا کروں میرا دل کہتا ہے کہ اسلام کے نام پر بننے والے اس ملک کے افق پر شرابی، زانی اور راشی ڈکیت حکمرانوں کے کارناموں کی نحوست چھاچکی ہے اور جب تک یہ نخوست چھائی رہے گی پاکستان سے غربت ختم ہوسکتی ہے نہ پاکستان مسائل کے چنگل سے نکل سکتا ہے اور نہ ہی ترقی کرسکتا ہے”۔ لکھتے ہیں معروف محقق مؤرخ ڈاکٹر صفدر محمود
ماضی
“خبر وہ ہوتی ہے جس میں کوئی نئی بات ہو اور جس میں کوئی انکشاف ہو، باقی خبریں محض معمول اور روٹین کی ہوتی ہیں۔ میرے لئے یہ کوئی خبر نہیں تھی جو لندن کے ایک اخبار کے حوالے سے کئی پاکستانی اخبارات میں چھپی جس کے مطابق تین روز پہلے ہما رے سابق صدر اورمسلم لیگ (ق) کے بانی جنرل پرویز مشرف لندن کے ایک پوش علاقے کنزنگٹن کے ایک مہنگے چینی ریسٹورنٹ میں رمضان مبارک کے آخری عشرے کا ”احترام“ کرتے ہوئے چند دوستوں کے ساتھ کھانا کھاتے پائے گئے۔اس خبر کے مطابق مہنگے کھانے کو حلق سے ا تارنے کے لئے مہنگی شراب بھی موجود تھی۔ ہوسکتا ہے کہ میرے بہت سے سادہ لوح پاکستانی دوستوں کو یہ خبر پڑھ کر حیرت ہوئی ہو حالانکہ اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کیونکہ پرویز مشرف بنیادی طور پر سیکولر اور ترقی پسند واقع ہوئے ہیں۔ مذہبی اصولوں اور دینی پابندیوں کو پامال کرنا اور ہر اس شے سے لطف اندوز ہونا جسے قرآن نے حرام قرار دیا ہے ان کا ہمیشہ وطیرہ رہا ہے۔
پاکستانی عوام کو بے وقوف بنانے کے لئے وہ اکثر اپنے سیّد ہونے پر فخر کرتے تھے اور عوامی جلسوں میں سینہ تان کر کہا کرتے تھے کہ مجھے دوبار خانہ کعبہ کے اندر جانے کا اعزاز حاصل ہوا ہے اور میں نے اتنے عمرے اور حج کئے ہیں لیکن اس راز سے سبھی واقف تھے کہ جنرل صاحب ناؤ نوش کے رسیا اور شوقیہ جواء کھیلنے کے عادی تھے۔ خواتین سے عشق اور آنکھ مچولی ان کی فطرت ہے جس کا انہوں نے چسکے لے لے کر اپنی کتاب میں بھی ذکر کیا ہے لیکن ان کے جاننے والوں کا دعویٰ تھا کہ یہ انکشاف اصل کا عشر عشیربھی نہیں۔
یحییٰ خان نے مشرقی پاکستان کو ا پنے مدہوش جام میں ڈبو دیا جبکہ پرویز مشرف نے لال مسجد کے معصوموں کا خون اور اکبر بگٹی کو قتل کرکے بلوچستان اور پاکستان کے امن کو اپنے اس رنگین پیالے میں غرق کر دیا جسے وہ سر پر رکھ کر دوستوں کی محفل میں ڈانس کیا کرتے تھے۔ [ايک بسنت پر لاہور میں بھارتی اداکارہ کے ساتھ بھی] ۔ ان کے دوستوں اور دست و بازو کی فہرست میں احمدیوں کی تعداد زیادہ تھی اور ان کے دور میں ان کے احمدی دوستوں نے نہ ہی صرف اپنے فرقے کو نوازا بلکہ نہایت کاریگری سے دولت بھی بنائی جسے بیرون ملک بھجوادیا گیا۔فلاش، شراب اور عورت کے رسیا پرویز مشرف ایسے ہی لوگوں کے ہاتھوں میں کھیلتے رہے اور ملک کو تباہی کی جانب دھکیلتے رہے۔آج اسی لوٹی ہوئی دولت کے ذریعے پرویز مشرف اور ان کے دوست اندرون و بیرون ملک شہزادوں کی سی زندگی گزار رہے ہیں، ورنہ حلال کی آمدنی سے تو ریٹائرڈ سرکاری ملازم چند روز بھی لندن کے ہوٹلوں کی مار نہیں کھا سکتا۔ لیکچروں کی بڑھا چڑھا کر آمدنی کا ذکر پاکستانی عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کا آزمودہ طریقہ ہے۔یہ کتنی بڑی بدقسمتی ہے کہ ہمارے منتخب حکمرانوں نے ایسے شخص کو کلین چٹ دے دی ہے اور اس کے قومی جرائم پر مقدمہ چلانے سے معذوری کا اظہار کردیا ہے۔سپریم کورٹ کی واضح ہدایت کے باوجود ذوالفقار علی بھٹو نے یحییٰ خان پر سنگین غداری کا مقدمہ نہ چلا کر غلطی کی اور پٹاری سے ضیاء الحق نکل آیا۔ ایسی ہی غلطی کا ارتکاب بھٹو صاحب کے جانشین کررہے ہیں اور مجھے خدشہ ہے کہ تاریخ اپنے آپ کو پھر دہرائے گی اور پٹاری سے پھر کیا کچھ نہ نکلے گا۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب31دسمبر1999ء کا سورج غروب ہورہا تھا تو ساری دنیا میں نیو میلنیم یعنی نئی صدی کے آغاز کا بہت شور و غوغا تھا۔مغربی ممالک نئی صدی کے استقبال کے لئے وسیع پیمانے پر تیاریوں میں مصروف تھے۔ اتفاق سے دسمبر کے آخر سے لے کر جنوری تک رمضان کا مہینہ تھا تین چار جنوری2000ء کو ایک اہم شخص مجھے ملنے آیا تو گفتگو کرتے کرتے اس کی آنکھیں بھیگ گئیں۔
اس نے بتایا کہ جنرل صاحب نے اپنے دوستوں کے ساتھ نیو میلینیم کے استقبال کے لئے مری کے فلاں میس میں سحری تک خوب پی اور خوب ہنگامہ برپا کیا۔ چشم تصور سے دیکھئے کہ وہ ہنگامہ کیا ہوگا۔چند ماہ بعد ایک غیر معروف ملک کے سفیر نے مجھے کھانے پر بتایا کہ تمہارے صدر صاحب سے فلاں مشترکہ دوست کے گھر ملاقات ہوتی رہتی ہے ۔ وہ ہر بار ایک ہی فقرہ دہراتے ہیں کہ میں نارمل انسان ہوں۔ان کے نزدیک نماز روزے اور اسلامی اصولوں کے پابند لوگ ابنارمل ہیں۔12اکتوبر کو جب پرویز مشرف نے اقتدار پر شب خون مارا تو لاہور کا ایک دولت مند اسمگلر لندن بھاگ گیا اسے ڈر تھا کہ نئی حکومت اسے دھر لے گی ۔چھ ماہ بعد وہ واپس آیا تو اس کی اکڑ میں اضافہ ہوچکا تھا۔ ایک دن اس نے راز سے پردہ اٹھاتے ہوئے انکشاف کیا کہ اس نے جماعت احمدیہ لندن سے پرویز مشرف کے ایک قریبی دوست کو فون کروایا تھا جن کے تسلی دینے پر وہ واپس لوٹ آیا ہے اور اب اسے کوئی خطرہ نہیں”۔
حال
لکھتے ہیں حامد میر
“رمضان المبارک میں صدر آصف علی زرداری اور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے افطار عشائیوں کی بھرمار کئے رکھی۔ اگر وہ صرف ایک دن چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اور مرکزی و صوبائی رویت ہلال کمیٹیوں کے عہدیداروں کو افطار عشایئے پر مدعو کر لیتے اور ان سے گزارش کرتے کہ ملک میں ایک عید منانی چاہئے تو قوم کو ایک عید کا تحفہ آسانی سے مل سکتا تھا۔ بہرحال صدر اور وزیراعظم نے اس سلسلے میں غفلت کا مظاہرہ کر کے ہمارا کم اور اپنا نقصان زیادہ کیا ہے۔ اب کئی دن تک دو عیدوں کی وجہ سے حکومت کو کوسا جائیگا اور حسب معمول زیادہ تنقید آصف علی زرداری پر کی جائے گی کیونکہ وہ اپنی عید پاکستان میں نہیں بلکہ امریکا میں منا رہے ہیں۔ امریکا سے ان کی وطن واپسی سے پہلے ہی ان کے متعلق کئی کہانیاں وطن پہنچ چکی ہوں گی۔
پچھلے دنوں ایک ملاقات میں ایسی ہی کہانیوں کے بارے میں ان سے تفصیلی بات چیت ہوئی۔ میں نے انہیں کہا کہ میریٹ ہوٹل اسلام آباد کے مالک صدرالدین ہاشوانی کے حوالے سے یہ کہانی گردش کر رہی ہے کہ آپ اس کا ہوٹل زبردستی خریدنا چاہتے ہیں۔ یہ سن کر زرداری صاحب نے پوچھا کہ کیا تمہارے پاس ہاشوانی کا فون نمبر موجود ہے؟ میں نے انہیں نمبر فراہم کر دیا۔ زرداری صاحب نے یہ نمبر اپنے ملٹری سیکرٹری کو دیا اور کہا کہ ہاشوانی سے بات کراؤ۔ نمبر مل گیا تو پہلے زرداری صاحب نے خود ہاشوانی کے ساتھ سندھی زبان میں گفتگو کی اور پھر فون مجھے پکڑا کر اسپیکر آن کر دیا۔ اب وہاں موجود سب افراد ہاشوانی صاحب کی گفتگو سن سکتے تھے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ کیا یہ درست ہے کہ آپ آصف علی زرداری کے خوف سے پاکستان چھوڑ کر بھاگ گئے ہیں؟ ہاشوانی نے پریشان لہجے میں کہا کہ ایسا بالکل نہیں ہے۔ میں نے پوچھا کہ آپ نے کئی لوگوں کو کہا ہے کہ زرداری مجھ سے میرا فائیو سٹار ہوٹل چھیننا چاہتا ہے اور اسی لئے میں بھاگ کر دبئی آ گیا ہوں۔ ہاشوانی نے اپنے اس مبینہ بیان کی تردید کر دی۔ میں نے جرح جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ایسی کیا مجبوری تھی کہ آپ نے اپنی بیٹی کی شادی بھی دبئی میں کی اور پاکستان نہیں آئے؟
اس سے پہلے کہ ہاشوانی جواب دیتے وزیر اطلاعات قمر زمان کائرہ نے ملٹری سیکرٹری کو اشارہ کیا کہ فون بند کر دیا جائے لہٰذا فون بند کر دیا گیا۔ میں نے زرداری صاحب سے کہا کہ ہاشوانی نے آپ کے سامنے تو تردید کر دی ہے لیکن ایک اور بزنس مین علی محمود اسی قسم کے الزام کے تحت آپ کے خلاف عدالت میں جا رہا ہے۔
صدر پاکستان نے اس شخص کو فراڈ قرار دے کر بات گول کر دی۔ ہو سکتا ہے کہ یہ شخص واقعی فراڈ ہو لیکن جس ملک میں دو عیدیں منائی جائیں اس ملک کے عوام اپنی حکومت کو زیادہ بڑا فراڈ سمجھتے ہیں۔ جس ملک کی حکومت میں شامل ایک خاتون وزیر ٹیلی ویژن پر کسی کو طوائف کہہ دے تو اس حکومت کو مذاق نہیں تو کیا سمجھا جائے؟ خاتون وزیر نے جن موصوفہ کو ٹیلی ویژن پر طوائف کہا ان کا تعلق مسلم لیگ (ق) سے ہے۔ کچھ عرصہ قبل وزیراعظم سے کہا گیا کہ مسلم لیگ (ق) کی اس خاتون ایم این اے کو وفاقی وزیر تجارت بنا دیا جائے۔ وزیراعظم نے چپکے سے یہ بات مسلم لیگ (ق) کے صدر چوہدری شجاعت حسین کو بتا دی اور انہوں نے موصوفہ کو پارٹی سے نکال دیا۔
خاتون وزیر کو چاہئے کہ وہ پتہ لگائیں کہ جسے وہ طوائف قرار دیتی ہیں اسے وزیر تجارت بنانے کی سفارش کس نے کی تھی؟ ایسا لگتا ہے کہ اس معاملے پر بھی حکومت تقسیم ہو چکی ہے۔ جس ملک کی حکومت ہر اہم معاملے پر قوم کو تقسیم کر دے اور چھوٹے چھوٹے معاملات پر خود بھی تقسیم ہو جائے اس حکومت کو سوچنا چاہئے کہ اسے حکومت میں رہنے کا حق ہے یا نہیں؟