میرے ہموطنوں کی اکثریت کو ٹی وی نشریات اور اخبارات نے اتنا محصور [hypnotise] کیا ہے کہ وہ بھی افسانوی راگ الاپنے لگ گئے ہیں ۔ میں نے پہلے 25 جولائی 2008ء کو طالبان کی پوری تاریخ لکھی پھر سوات کے حوالے سے 24 اور 25 فروری 2009ء کو لکھا ۔ 7 مئی 2009ء کو اسی سلسلہ میں قارئین کے سوالات کے جوابات لکھے ۔ میرے ہموطنوں کے عمومی رویہ سے متعلق میں اپنی 25 فروری 2009ء کی تحریر میں سے ایک اقتباس نقل کر رہا ہوں
یہ واقعہ پینتیس چھتیس سال پیچھے کا ہے جب میں پاکستان آرڈننس فیکٹریز کی پانچ بڑی فیکٹریوں میں سے ایک ویپنز فیکٹری میں دس گیارہ سال نہ صرف گذار چکا تھا بلکہ اللہ کے فضل سے اُسے سمال آرمز گروپ سے ویپنز فیکٹری بنانے میں میرا بہت بڑا حصہ تھا اور اُن دنوں ویپنز فیکٹری کا قائم مقام سربراہ [Acting General Manager] تھا ۔ ایک دن میں ایک عوامی جگہ [public place] پر بیٹھا تھا ۔ میرے قریب ایک شخص بڑی سنجیدگی سے ویپنز فیکٹری کے متعلق اپنی معلومات کے خزانے اپنے دو ساتھیوں پر لُٹا رہا تھا اور وہ بڑے انہماک کے ساتھ سُن رہے تھے ۔ اُس شخص کی یاوہ گوئی جب ناممکنات کی حد پار کر گئی تو مجھ سے نہ رہا گیا ۔ میں نے معذرت طلب کرتے ہوئے مداخلت کی اور کہا “بھائی صاحب ۔ ایسا ممکن نہیں ہے”۔ وہ شخص بڑے وثوق سے بولا “جناب ۔ آپ کو نہیں معلوم میں سب جانتا ہوں ۔ بالکل ایسا ہی ہے”۔ میں نے اُسے پوچھا “آپ فیکٹری میں ملازم ہیں ؟” جواب ملا “نہیں”۔ میں نے پوچھا “آپ کا کوئی قریبی عزیز فیکٹری میں ملازم ہے ؟” جواب ملا “نہیں”
دورِ حاضر کی جواں نسل [عمر 20 تا 40 سال] کی اکثریت کی پہچان ہے کہ ان کا پہلا فقرہ یا ردِ عمل ہوتا ہے “آپ نہیں جانتے” بلکہ درست فقرہ یہ ہے “آپ کو کچھ پتہ نہیں”۔ کوئی اور مزید آگے بڑھے گا اور کہہ دے گا “آپ اب اپنے مصنوعی خول سے نکلیں اور حقائق کو تسلیم کر لیں”۔ پچھلے ماہ میں اپنے ایک ساتھی کے سامنے يہی بات کہہ رہا تھا تو ایک چونتیس پینتیس سالہ اعلٰی تعلیم يافتہ جوان بولا ” آجکل چھوٹے چھوٹے بچے ہمیں کہتے ہیں ۔ آپ کو کیا پتہ”
حقیقت یہ ہے دورِ حاضر کے اکثر لوگوں کو سطحی معلومات تو بہت ہوتی ہیں ۔کسی معاملہ کی گہرائی میں جانے کی یا تو وہ کوشش نہیں کرتے یا زیادہ سے زیادہ معلومات اکٹھا کرنے کی وجہ سے گہرائی میں جانے کا وقت نہیں ملتا ۔ بعض اوقات صورتِ حال یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ سچ سامنے رکھ دیا جائے تو اُسے کسی بہانے ٹالنے پر اصرار ہوتا ہے
مجھے ایک لطیفہ یاد آیا ۔ بے تکلّف احباب کی محفل میں بیٹھے اگر کوئی پوچھے “آجکل کیا ہو رہا ہے ؟” تو میں کہہ دیتا “اپنے تو دو ہی شوق ہیں ۔ کھانا اور سونا”۔ ایک دن جب میں نے ایسا کہا تو وہاں ایک پڑھا لکھا جوان جو مجھے نہیں جانتا تھا موجود تھا ۔ بعد میں اُس جوان کو کچھ عِلمی معلومات کی ضرورت پڑی تو اُس کے ایک بزرگ نے اُسے میرے پاس آنے کو کہا مگر وہ نہ آیا ۔ اتفاق ایسا ہوا کہ وہ معلومات اُسے حاصل نہ ہو سکیں ۔ اس پر اس بزرگ نے اسے کہا “کیا اجمل بھوپال صاحب کو بھی معلوم نہیں ؟” تو جوان بولا “جسے کھانے اور سونے سے فرصت نہیں وہ کیا بتائے گا”۔ اُس کے بزرگ نے اُسے صرف اتنا کہا ” تم لوگ بدقسمت ہو”
میں جب بچپن میں قرآن شریف میں پڑھتا تھا ” اُن کی آنکھوں پر پردہ پڑا ہے”۔ تو سوچتا تھا کہ شاید اُس زمانہ کے لوگ بے علم تھے جب یہ آیت اُتری ۔ 1970ء کی دہائی کے عوامی دور میں معلوم ہوا کے بڑے بڑے تعلیم یافتہ کہلانے والوں کی عقل پر پردہ پڑ جاتا ہے ۔ سو یہ وصف ہماری قوم کی اکثریت کا ہے کہ نجانے کس انجانے خوف کے زیرِ اثر حقائق کا خود سامنا نہیں کرنا چاہتے اور دوسرے کو غیرمصدقہ بات کو حقیقت ماننے پر مجبور کرتے ہیں
اس صورتِ حال کے نتیجہ میں قوم ایک غیر معیّن تیر [misguided missile] بن کے رہ گئی ہے ۔ شور شرابا بہت ہے سُدھار کیلئے عملی طور پر آگے کوئی نہیں بڑھتا ۔ سال سے زائد عرصہ گذرا کہ غریب پختون بچوں کو تعلیم میسر نہ ہونے کا بہت واویلا تھا ۔ ساتھ یہ بھی کہا جاتا تھا کہ اگر وہ مدرسوں کی بجائے انگریزی سکولوں میں نہ گئے تو دہشتگرد بن جائیں گے ۔ میں نے اس سلسلہ میں اپنے بلاگ پر عملی تعاون کی درخواست کی ۔ دو تین جوانوں نے اسلام آباد میں میرے گھر آ کر میری ہمت افزائی کی ۔ میں نے صورتِ حال کی وضاحت کی ۔ بڑا نہیں چھوٹا سا منصوبہ تھا ۔ درجن سے زیادہ بچوں کی ایک اچھے سکول میں تعلیم کی کفالت کی جا چکی تھی ۔ اس سے قبل یہ بچے کوڑا کرکٹ اکٹھا کرتے تھے ۔ اس تعداد کو 24 تک لیجانا چاہ رہے تھے مگر مالی وسائل نہ تھے ۔ فی بچہ 600 روپیہ ماہانہ فیس ۔ اس کے علاوہ کتابیں کاپیاں پنسل وغیرہ اور روزانہ ایک وقت کا کھانا ۔ بس اتنا ہی کرنا تھا
ابھی پھر کوئی اسی طرح کا عنوان چھیڑ دیجئے ۔ اس پر لمبی لمبی تحاریر لکھی جائیں گی مگر جب باری عمل کی آئے گی تو شاید کوئی ڈھونڈے سے نہ ملے ۔ حقیقت یہ ہے کہ وطنِ عزیز کے خواندہ گنے لوگوں میں سے نصف مدرسوں سے پڑھے ہوئے ہیں ۔ دینی مدارس میں پڑھنے والوں کی جاہلیت کے متعلق پچھلے چند سالوں میں سینکڑوں مضامین لکھے گئے ہیں جن میں سے درجنوں بلاگرز نے لکھے ہیں ۔ ان سب لکھنے والوں میں کتنے ہیں جنہوں نے دور نہیں اپنے علاقے کے مدرسہ کی ہی بہتری کیلئے عملی کام کیا ہے ؟ اسے بھی چھوڑیئے کیا کسی نے کبھی کسی مدرسہ کا مطالعاتی دورہ بھی کیا ہے ؟ پوچھیئے تو محلے کی مسجد کے مدرسہ کی بات کریں گے جہاں بچوں کو طوطوں کی طرح قرآن شریف رٹایا جاتا ہے اور وہاں کا بھی مطالعاتی دورہ نہیں کیا ہو گا
بیت اللہ محسود جسے پاکستانی طالبان کا سربراہ کہا جاتا ہے ۔ اس کے متعلق معروف ہے کہ گونٹانامو بے میں 11 ماہ قید کے بعد رہا کر ديا گیا بلکہ کھُلا چھوڑ دیا گیا جبکہ 80 سالہ بوڑھے بیگناہ پاکستانی کو بھی ڈھائی سال بعد اُس وقت چھوڑا گیا تھا جب وہ قریب مرگ تھا اور بات بھی نہیں کر سکتا تھا ۔ باقی پاکستانی جو ڈھائی تین سال بعد وہاں سے چھوٹے وہ کسی اور جگہ قید ہیں ۔ اب شُنید ہے کہ بیت اللہ محسود کی ہلاکت کھیلے جانے والے ڈرامہ کا حصہ ہے اور وہ زندہ ہے مگر غائب ہے ۔ حقیقت جو میں ایک سے زیادہ بار لکھ چکا ہوں یہی ہے کہ پاکستان کے بے گناہ شہریوں کو ہلاک کرنے والے اور فوج کے خلاف لڑنے والے کرائے کے قاتل ہیں جن کے آقا غیر ملک یا ممالک کی حکومتیں ہیں ۔ ان کا افغانستان کے طالبان کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے البتٰہ افغانستان کی کٹھپتلی حکومت کے ساتھ تعلق ہو سکتا ہے
جب تک غیرملکی مفاد کو چھوڑ کر ملکی مفاد کے تحت کام نہیں کیا جائے گا ملک کے حالات بد سے بد تر ہوتے رہیں گے اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ جنگجو حملہ آوروں کی تعداد پہلے سے کہیں زیاد ہو چکی ہے ۔ وہ پہلے سے زیادہ منظم ہیں اور پہلے سے زیادہ بے جگری سے لڑ رہے ہیں ۔ سب کچھ ہمارے سامنے ہو رہا ہے اور ہمیں پھر بھی سمجھ نہیں آتی ۔ اسلام آباد اقوامِ متحدہ کے امدادی دفتر پر حملہ ۔ پھر پشاور میں اہم شہری علاقہ میں دھماکہ پھر فوج کے ہیڈ کوارٹر میں داخل ہو کر حملہ اور آج لاہور شہر کے اہم علاقہ میں واقعہ ایف آئی اے کے دفتر مناواں میں پولیس کے تربیتی مرکز اور بیدیاں میں پولیس کمانڈو تربیتی مرکز پر حملے ہوئے ۔ بڑی ڈھٹائی سے کہہ دیا جاتا ہے کہ حملے کی پہلے سے اطلاع تھی
اسلام آباد میں جگہ جگہ ناکہ بندیاں ہیں ۔ میرے اپنے گھر کے تین راستے مکمل بند کر کے ایک راستہ میں جگہ جگہ بلاک رکھے ہیں جن میں سے بالکل آہستہ ہی گذرا جا سکتا ہے ۔ اقوامِ متحدہ کا امدادی دفتر میرے گھر سے آدھے کلو میٹر کے فاصلہ پر ہے ۔ اُس کی حفاظت کیوں نہ کی جا سکی ؟ آخر ان علاقوں کی درست حفاظت کا بندوبست کیوں نہیں کیا جاتا ؟ وزارتِ داخلہ کیا کر رہی ہے ؟ رحمٰن ملک صرف بیان داغنے کے کی بجائے کوئی عملی کام کیوں نہیں کرتا ؟
آنکھوں [عقل] پر پردہ پڑنا اور کسے کہتے ہیں ؟ اللہ ہمارے حکمرانوں اور ہموطنوں کو سیدھی راہ پر لگائے اور ہمارے ملک کو مزید تباہی سے بچائے
بس کیا کریں۔ ہمارے ہاں غداروں کی کمی نہیں ہے۔
طالبان مردہ باد
ملکی اصلاح کے لئے کچھ نہ کرنے کا آپ کا شکوہ بالکل بجا ہے۔ ہم سب اس میں قصوروار ہیں۔ لیکن حقائق سے تھوڑی بہت چشم پوشی تو ہم سب کرتے ہیں نا۔ اب آپ نے لکھا کہ ملک پر حملہ کرنے والے زیادہ بے جگری سے لڑتے ہیں، زیادہ منظم ہیں۔ ایک بات جو مجھے کھٹکتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ سب لڑنے والے پاکستانی ہیں اور یہ سب کچھ اپنے “اسلام” کے لئے کرتے ہیں۔ پیچھے ڈوریاں کوئی بھی ہلا رہا ہو، یہ سب کچھ ہو اسلام کے نام پر رہا ہے۔ اس بات پر تو کوئی دو آراء نہیں ہوسکتیں۔ اور یہ طالبان جو بنتے ہیں یہ منظم مدارس میں نہیں بلکہ پسماندہ علاقوں کے مدارس یا گلی محلوں کے مدارس میں بنتے ہیں جہاں مولوی صاحب کی بات ہی حرف آخر ہوتی ہے۔ شیعہ سُنی فسادات اس کا ایک حوالہ ہوسکتے ہیں۔ میں ایسے چند لوگوں کو جانتا ہوں جو پڑھے لکھے ہیں لیکن انتہائی شدت کے ساتھ شیعہ کو کافر نہ صرف مانتے ہیں بلکہ ہمیں ایسا نہ سمجھنے پر تجدید ایمان کا مشورہ بھی دیتے ہیں۔ ان لوگوں نے کسی عالم باعمل سے فیض نہیں حاصل کیا بلکہ صرف مُلا کی باتیں سُن کر آگے بڑھا دیا ہے۔ سچ پوچھئے تو جو ہمارا قومی رویہ ہے ڈنگ ٹپاؤ اس کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ دھڑا دھڑ “جہادی” تیار کئے ایک دور میں، ہم بھی گنہ گار ہیں ان جہادیوں کو چندہ دینے میں۔ اب جب ان “فسادیوں” کا رُخ پاکستان کی طرف مُڑا ہے تو مجھ سمیت سب حیران و پریشان ہیں۔ سچ پوچھئے تو جو بویا تھا وہی کاٹ رہے ہیں۔ ایک غیر منظم لڑاکا فورس تو ایک ان گائیڈڈ میزائل ہوتی ہے۔ سو اب اس میزائل کا رُخ پاکستان کی طرف ہے نام چاہے طالبان دے لیں یا کچھ اور۔ اور اس سے جان چھُڑانے کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے کہ اگر بات صلح صفائی کی ہے تو پھر پاکستان پر ان کی عملداری سے نیچے بات نہیں ٹلنے کی۔
خرم صاحب
آپ نے درست لکھا ہے ۔ مجھے اللہ نے بچپن سے مطالع اور تحقیق کے شوق سے نوازہ ۔ دیکھئے دو قسمیں مسلمانوں کی بھی ہین ۔ ایک ۔ جو مسلمان ہیں ۔ اور ۔ دو ۔ جو صرف کہتے ہیں کہ وہ مسلمان ہیں یعنی جی میں آیا تو اسلام پر عمل کر لیا ورنہ نہیں ۔ ہمارے ہاں مُلا کی بھی دو قسمیں ہیں ۔ ایک کو میں جاہل کہتا ہوں اور دوسرے کو مولوي ۔ میرا خیال ہے آپ سمجھ گئے ہیں اسلئے تفصیل کی ضرورت نہیں ۔ میں اس کی تفصیل بہت پہلے اپنے بلاگ پر لکھ چکا ہوں ۔ جو لوگ خود کش بمبار بن رہے ہیں یا فائرنگ کرتے ہیں یہ زیادہ تر پاکستانی ہی ہیں اور ان کا تعلق صرف صوبہ سدرہد سے نہیں بلکہ پورے پاکستان سے ہے ۔ ان کی برین واشنگ اگر کی گئی ہے تو چند سالوں سے نہیں بلکہ ان کی پیدائش کے وقت سے کی گۓي ہے ۔ ہمارے ملک میں بہت سے بچے جن مین نوزائدہ بھی ہوتے ہیں ہر سال غائب ہو جاتے ہین ۔ پہلے تو جرائم پیشہ لوگ انہین چوری کرنے یا بھیک مانگنے کیلئے استعمال کرتے تھے مگر وہ اتنا خطرناک نہیں تھا ۔ جب سے یہ بچے غیر ملکیوں کے پاس جانے شروع ہوئے ہیں انہوں نے انہین کرائے کے قاتل بنا دیا ہے اور برین واشنگ بھی کی ہے
سب سے پہلے تو اجمل صاحب کا شکریہ کہ بقول۔۔۔
اجمل نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں!
اب آتے ہیں خرم صاحب کی طرف جو بڑی مہارت سے اپنا مظلب نکالتے رہتے ہیں بس مسئلہ یہ ہے کہ ان کے ہی مطلب کے لوگ بلاگز پر ہیں اب روز روز ہم اکا دکا لوگ کہاں تک سمجھاتے پھریں مگر جو ہوسکتا ہے وہ کرنا لازم ہے
جہاں تک لڑنے وڑنے کی بات ہے اس کا جواب تو اجمل صاحب گاہے بگاہے دیتے رہتے ہیں مگر اس کی آڑ میں خرم صاحب نے علماء پر جو تبراء بازی کی یے اسکی وضاحت کر دیتے ہیں
شیعہ اور سنی یا مسلم فسادات کی اصل وجہ مسلمانوں کے ملک میں صحابہ اور ازواج مطہرات پر گالیاں بکنا اور فاسق لٹریچر پھیلانا وغیرہ ہیں
شیعہ کو کافر کوئی انپڑھ یا پڑھا لکھا نہٰں کہتا نہ یہ ان کا کام ہے شیعت کو کفر خود اللہ پاک کہتا ہے۔ امام ابو حنیفہ کہتا ہے، کیا امام ابو حنیفہ جاہل ہے؟ استغفراللہ۔ شیعت کو کفر امام مالک کہتا ہے کیا امام مالک جاہل ہے؟ استغفراللہ۔ ۔ شیعت کو کفر امام حنبل کہتا ہے کیا وہ جاہل ہے؟ استغفراللہ۔ شیخ عبدالقادر جیلانی کہتا ہے اور کس کس کا نام بتایا جائے؟ کیا یہ سب جاہل ہیں؟ کیا یہ ان سب کا پروپاگنڈہ ہے؟ کیا ان کے پیچھے کوئی امریکہ ہے؟
بس مکاری ان کی دیکھو یہ ایسے دکھاتے ہیں کہ جیسے آج کا انسان یا صرف پاکستانی ان کو کافر کہتا ہے۔ پاکستان کا نظام اکثریت کے حوالے کیا جائے ملک مسلمانوں کا اور قابض شیعہ اور قادیانی، دشمن تو ملک میں ہر وہ کام کرے گا جس سے تباہی آئے۔
اس ملک کو واقعی ایک بار پھر سے بناناپڑے گا یا یوں کہیئے شاید آزاد کروانا پڑے گا ، کل کا پاکستان تو مسلمانوں سے دھوکہ تھا۔ بنتے ہی مرتد اوت منافق قابض ہو گئے نا صرف لوٹا بلکہ خون بھی بہایا مسلمانوں کا ۔ اسی خطے میں اس ملک کو ملا کر کشمیر ، اور افغانستان شامل کر کے ایک گریٹ مسلم ملک بنانا ہوگا جس کا اساس مدینہ ہو ، جو مدینے والوں کو نہ مانے قرآن کو غلط اور نا مکمل کہے وہ اقلیت بن کر رہے عیسائیوں کے ساتھ جیسے یورپ امریکہ میں مسلمان رہتے ہیں
ان تمام واقعات کے پیچھے، خاصکر ادروں کا انتخاب۔ انکے بارے میں صحیح صحیح معلومات ہونا۔ مکمل پلاننگ سے حملہ کرنا۔ دہشت گردوں کا۔انتہائی مہارت کی حد تک تربیت یافتہ ہونا۔دہشت پھیلانے اور انسانی جانوں کی قربانی لینے کے ساتھ ساتھ ایسے نفسیاتی اہداف مقرر کرنا جن سے عام آدمی اور عام سرکاری اہلکار شدید دباؤ اور خوف کا شکار ہوجائے اور متواتر شکار رہے۔ یہ سارے عوامل اس طرف اشارہ کرتے ہیں کہ اس کے پس پردہ مکمل تربیت یافتہ دشمن انٹیلی جنس ایجنٹوں کا ہاتھ ہے خواہ وہ مقامی ایجینٹ ہیں یا غیر ملکی۔ انکا نیٹ ورک پاکستان کے بڑے شہروں میں ایک آج سے نہیں بلکہ کئی سالوں سے کام کر رہا ہے جو ان شہروں میں مستقل سکونت رکھتے ہیں اور ایسے اہداف وغیرہ کے بارے میں انھوں نے پہلے سے ہر قسم کی معلومات اور تیاری کر رکھی ہوتی ہے۔ اور جب ان دشمن ایجنٹوں کے ممالک یا ملک کے مفادات کاری ہی کوئی ضرب لگتی ہے تو ان ممالک یا ملک سے ان ایجنٹوں کا اشارہ ہوتا ہے وہ پہلے سے بنے بنائے پلانز کے تحت ان دہشت گردوں کو میدان میں لے آتے ہیں جنہیں افغانستان میں پاکستان کے خلاف بھارت تربیت دے رہا ہے۔ مختلف پاکستان دشمن طاقتوں کے مفادات اکھٹے ہوگئے ہیں۔ امریکہ چاہتا ہے کہ پاکستان اسکے لیے قلیل ترین معاوضے پہ کام کرے اور اسکا ایک ہی آسان طریقہ ہے کہ پاکستان پہ دباؤ برقرار رہے۔ بھارت چاہتا ہے کہ کسی طریقے سے بھارت میں جاری لگ بھگ چودہ کے قریب علٰیحدگی کی تحریکوں اور خاص کر کشمیر کے مسئلے سے توجہ ہٹائی جاسکے اور پاکستان کی افواج کو اس کے اپنی پاکستانی خون سے نہلا دیا جائے۔ اور پاکستان کو ایک ناکام ، انتہاپسند اور جنونی لوگوں کی ریاست قرار دلوا دیا جائے۔ اسرائیل کے مفادات پاکستان کے جوہری اثاثوں کی وجہ سے اسکے اپنے خدشات ہیں کہ پاکستان کا ایٹمی طاقت ہونا اسرائیل کے پھیلاؤ اور علاقے کی چوہدراہٹ میں مستقبل میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔
اس شیطانی ٹرائیکا میں افغانستان کی شمالی اتحاد کے عناصر سے وجود میں آنے والی پاکستان مخالف حکومت جس کی سربراہی کرزئی کرتے ہیں۔ بھی شامل ہے۔
ممبئی پہ دہشت گرد حملوں کے جواب میں نئے نئے وزیرِ داخلہ بننے والے چدامپرم کا وہ بیان بھی ہمیں ذہن میں رکھنا چاہئیے جو موصوف نے ممبئے حملوں کا الزام ریاستِ پاکستان پہ رکھتے ہوئے یہ کہا تھا۔” کہ اب ھم (بھارت) جو جواب ہوگا وہ ساری دنیا دیکھے گی”۔ کیا وہ یہی جواب تھا ۔؟ جو آجکل پاکستان کے حساس ترین اداروں پہ حملے کر کے ساری دنیا کو یہ باور کرنے کوشش کی جارہی ہے کہ پاکستان دنیا کی غیر محفوط ترین ریاست ہے۔ افغانستان سے بھی زیادہ غیر محفوظ۔؟ تانکہ پاکستان سے لوگ اپنا سرمایہ سمیٹ کر نکل جائیں۔ پاکستان کے حالات بے یقینی ہونے سے پاکستان کی تجارت ، صنعت ۔ سب تباہ ہوجائیں۔ عام آدمی عدم تحفظ کا شکار ہوجائے۔ کیونکہ ممالک اور قومیں امداد کے سر پہ ترقی نہیں کرتیں بلکہ وہ اپنی اکنامکس کو ترقی دے کر ہی کوئی مقام حاصل کر سکتی ہیں۔
اس شیطانی اتحادِ ثلاثہ۔ امریکہ، اسرائیل اور بھارت کے گٹھ جوڑ اور پاکستان کے خلاف بے تحاشہ وسائل جھونکنے کے باوجود یہ اتحاد کبھی پاکستان کے خلاف کامیاب نہیں ہو سکتا جب تک ہماری حکومت اور حکومت میں شامل حد سے زیادہ امریکہ نواز طبقہ ان کڑوے حقائق پہ اپنی آنکھیں نہ بند کریں۔ یہ آنکھیں کیوں بند ہیں۔ یہ زبان پہ تالہ بندیاں کیوں ہیں۔ آخر اسقدر زیادہ ثبوت ہونے کے باوجود بھات کا نام کھل کر کیوں نہیں لیا جاتا ۔؟
کیاپاکستان کی حکومت اور انتضامیہ ایسے بے غیرت عناصر شامل ہوچکے ہیں یا پہلے سے شامل تھے جو ریاستِ پاکستان کے مفاد پہ اپنا مفاد عزیز سمجھتے ہیں۔ مفادات جو لاذمی طور پہ کئی قسم کے ہوسکتے ہیں۔مالی ۔اور جان کی امان بھی اس میں شامل ہوسکتی ہے۔اور وہ گھٹیا مالی مفادات بھی جیسے مشرف کے دور میں مشرف کا پاکستان پہ آئے قیامت خیز زلزلے کی تباہیوں کو کئیش کروانا اوراربوں کی امداد کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونا۔ ریاست اور عوام کی خودمختاری و خود اداری کے عوض پاکستانی قوم کے افراد کو امریکیوں کے ہاتھ ملین ڈالرز وصول کرتے ہوئے بیچ ڈالنا، جنہیں امریکیوں نے پاکستانی دہشت گرد کی گردان کر کے اسے پھر سے پاکستان کے خلاف مذموم پروپگنڈے کے ذریعئے اپنے مذموم مقاصد کے لئیے استعمال کیا جو پاکستان پہ مہم جوئی کا دباؤ ڈالے رکھنا تھا۔کیا ایک بار پھر سے دہشت گردی کے خلاف جنگ اور اسمیں کام آئیں معصوم جانوں کو پھر سے کئیش کروا رہے ہیں۔
جہان بھارتی فوج اور خفیہ اداروں کے اسقدر اہلکار پاکستان مخالف کاروائیوں میں ملوث ہیں اور پاکستان کے شمال میں افغانستان میں سب بڑے شہروں میں بھارت نے اپنے قونصلیٹ جن مذموم مقاصد کے لئیے کھول رکھے ہیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ افغانستان میں چونکہ امریکہ کی عملداری ہے ۔ایک طریقہ یہ بھی ہوسکتا تھا کہ امریکہ سے سخت احتجاج کیا جاتا اور پاکستان کے اندر موجودہ دہشت گردی کی وجہ سے دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں امریکہ سے تعاون کو اسوقت تک محدود کر دیا جاتا جب تک امریکہ افغانستان کے اندر سے بھرتی قونصلیٹس اور پاکستان کے خلاف چلنے والے دہشت گردی کی تریبت کے کیمپس بند نہ کرواتا اور غیر ضروری طور پہ بھارتی خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں سے وہاں سے نہ نکالتا۔ اور ایسا نہ کرنے پہ اسے دہشت گردی کے خلاف پاکستانی تعاون کو مکمل طور پہ ختم کرنے کی دہمکی دی جاتی کہ اس دہشت گردی کی آگ متواتر پاکستان کے اندر لگی ہوئی ہے اور جب تک ہم اپنے گھر کے معاملعات پہ قابو نہیں پالیتے اسوقت تک ہم اپنی توانائی امریکی تعوان پہ خرچ نہیں کر سکتے ۔۔۔
مگر اسکے لئیے کیری، لوگر بل امداد خیرات وغیرہ سے نجات پانا ضروری ہے۔ جب تک ہم بھیک میں ملی خیرات پہ خوشی کے شادیانے بجاتے رہیں گے۔ تب تک ایسا ہونا ناممکن ہے۔ تو اسکا مطلب ہے کہ پاکستان کے اندر ہونے والی یہ ننگی جارحیت اور دہشت گردی ہمیں ٹھنڈے پیٹوں پینا پڑے گی
“بچپن سے مطالع”
مطالعہ
یہ بات درست ہے کہ طالبان میںاتنی صلاحیت نہیں کہ وہ اتنے منظم حملے کر سکیں۔ طالبان تو وہ تھے جو بے تیغ امریکہ کیخلاف میدان میںنکل پڑے اور وہیں بھون دیے گئے۔ المیہ یہ ہے کہ طالبان اور القاعدہ کا نام باعمل مسلمانوں کے لیے استعال کیا جا رہا ہے۔ کیونکہ اسلام کا دشمن باعمل مسلمانوں پر ایسے ہی وار کر سکتا ہے اور ایسے ہی بے عمل مسلمانوں کو گمراہ کر سکتا ہے تا کہ کوئی دشمن پر یہ الزام نہ لگائے کہ وہ اسلام کیخلاف جنگ لڑ رہا ہے۔
حسن محمود صاحب
لکھنے کی غلطی ہو گئی ہے ۔ مذاق تو نہ اُڑایئے ۔
افضل صاحب
میں عرصہ سے کہہ رہا ہوں لیکن لوگ ایک ہی رَٹ لگائے جا رہے ہیں ۔ کئی تو مجھے طالبان کا ساتھی کہہ دیتے ہیں ۔ ہمارے غلط رویئے اور غللط سوچ نے یہاں تک پہنچا دیا ہے
میرا پاکستان اور دیگر اس قسم کے بیانات پڑھ کر میں تو سوچتی ہوں کہ بھئ جس کا وقت لگے وہ اس ملک سے نکل جائے۔ یہاں تو اسلام کا بول بالا ہو کر رہے گا ۔ وہ نہیجو رسول اللہ لائے تھے بلکہ وہ جو ہمارے مظلوم، مسکین اور سورما قسم کے طالبان لائے ہیں اور انشاللہ لا کر رہیں گے۔ یہ الگ بات کہ میرا پاکستان جو اس وقت بھی امریکی حدوں کے اندر ہیں وہ اسوقت بھی امریکی شہری ہو جائیںگے اور اسی طرح اپنے جہادی مسلمان بھائیوں کا حوصلہ بڑھاتے رہیں گے۔ میں تو کود اس خیال سے متفق ہوں کہ ایک دفعہ ان جہادی طالبان کی حکومت کو قائم ہوجانا چاہئیے۔ لیکن ٹہر کر مجھے کہیں کی امیگریشن تو مل جائے۔ مجھے انکے ہاتھوں نہ ذبح ہونا پسند ہے اور نہ یہ کہ وہ میری دس سالہ بیٹی کی شادی کسی ساٹھ سال کے بڈھے سے کر دیں اور نہ یہ کہ وہ میری بیٹی کو محض بچے پیدا کرنے کی مشین بنا کر اور جہادیوں کو اس دنیا میں لانے کا ذریعہ بنا دیں اور ہاں میرا غاروں میں جا کر رہنے کا بھی پلان نہیں اور نہ ہی یہ خواہش کہ میرے شوہر اور بیٹے ہر وقت تلوار سونت کر دنیا سے کافروں کا قلع قمع کرتے پھریں یا خود کو بارودی جیکٹوں سے اڑاتے پھریں۔
میں بھی اسی مدینے میں رہنا چاہتی ہوں جہاں تمام مذاہب کے لوگ رہتے تھے اور ایک امام کے پیچھے نماز پڑھتے تھے۔ جہاں اس عہد کے مسائل کو اسوقت کے ذرائع کے لحاظ سے حل کیا جاتا تھا اور جہاں ہر ایک کو جینے کے بنیادی حقوق حاصل تھے۔
لیکن اب ان تمام تحریروں کو پڑھنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان کا مستقبل کتنا تاریک ہے۔ اور اگر مجھے بیرون ممالک کا ویزہ حاصل کرنے میں تین مہینے لگ جاتے ہیں تو قصور دراصل کس کا ہے۔ خدا آپ سب پر رحم فرمائیں، یا اللہ آپلوگوں کی آنکھوں کو کھول کر دیکھنے کی قوت دے، خدا ہمیں اس مرد دانا یا اس زن دانا کے وجود سے آشنائ دے جو آپ سب کے دلوں کو نرمی دے اور اسے انسانوں کے دل میں تبدیل کر دے۔
تب تک میں اپنے گھر والوں کے پیچھے پڑتی ہوں، خدا کے لئیے جب ہم اہلیت رکھتے ہیں تو کیوں اس ملک میں بیٹھے ہوئے ہیں یہ ملک تو طالبان اور انکے حامیوں کے لئیے بنایا گیا ہے۔ اس میں ہم جیسے بے عمل مسلمانوں کا کیا کام جو ایک انسان کو ذبح نہیں کر سکتے، جو دوسروں کو اس عمل کے لئیے تیار نہیں کر سکتے کہ وہ مزید انسانوں کو مارنے کے لئے خود کو بم سے اڑادیں۔ جو ہر وقت ہر کسی پہ کفر کے فتوے نہیں لگا سکتے۔ آخر ہم جیسے بے عمل مسلمانوں کو اس ملک کو کیا ضرورت۔ جن کی ضرورت ہے وہ ملک سے باہر بیٹھے ہیں تو میرا پاکستان صاحب تشریف لائیں اور ایک آدھ کو ذبح کرنے کی سعادت آپ بھی حاصل کریں اور اپنے بچوں کو اسلحے کی تربیت کہاں باہر بیٹھ کر دے پائیں گے۔ اسلحہ تو مسلمان کا زیور ہے ۔ انہیں بھی لائیے تاکہ وہ بھی صحیح سے مسلمان ہوں۔
یہی درخواست میں اجمل صاحب سے بھی کرونگی۔ اپنے تمام اہل خانہ کو پاکستان بلائیے ایک ایسے وقت میں جب عقبی اتنی سستی مل رہی ہو آپ نے کیوں انہیں کفار کی دنیا میں بھیجا ہوا ہے۔ وہ تمام لوگ جو اس کاذ سے دلچسپی رکھتے ہیں اور اس میں پاکستان کی بقا سمجھتے ہیں انہیں عملی طور پر اپنے اہل عیال کے ساتھ اس میں شامل ہونا چاہئیے۔ یقین جانیں اگر آپ سب اکٹھا س سر زمین پر ہونگے تو ہم جیسے بے عملوں کو ایک لمحہ بھی نہیں لگے گا کہ ہم اس پاک سرزمین کو چھوڑ کر راہ فرار اختیار کریں۔ جیت تو ویسے بھی حق کی ہوتی ہے۔ اور باطل مٹ جانے کے لئے۔
ہزاروں خواہشیں ایسی۔۔۔
کسی نے سچ کہا تھا ۔ پٹھان کو، آپ جنت میں بھی زبردستی نہیں بیجھ سکتے۔ وہ اڑ جائے کہ “خو ۔ کیوں غصہ سے کہا۔۔۔”
واضح رہے کہ سابق صدر پرویز مشرف نے ’این آر او‘ جاری کیا تھا جس کے تحت سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو اور موجودہ صدر آصف علی زرداری کے خلاف گزشتہ آٹھ برسوں سے مختلف عدالتوں میں زیر التویٰ مقدمات ختم کیے گئے تھے۔
’این آر او‘ کے تحت متحدہ قومی موومنٹ کے بیسیوں کارکنوں کے خلاف درجنوں مقدمات بھی واپس کیے گئے تھے جبکہ کئی بیوروکریٹس بھی اس سے مستفید ہوئے تھے۔
جمعہ کو جب وزیر مملکت برائے قانون و انصاف محمد افضل سندھو نے ’این آر او‘ منظوری کے لیے قومی اسمبلی میں پیش کیا تو حزب مخالف کے بعض اراکین نے شیم شیم کے نعرے لگائے۔
یاد رہے کہ عدالت نے سابق صدر پرویز مشرف کی جانب سے تین نومبر سنہ دو ہزار سات کو آئین معطل کرکے ایمرجنسی لگانے سمیت ان کے تمام اقدامات کو غیر آئینی قرار دیا تھا۔ عدالت نے ’این آر او‘ سمیت پرویز مشرف کے جاری کردہ سینتیس آرڈیننسز جو خارج المدت ہوچکے تھے، انہیں تیس نومبر تک پارلیمان سے منظور کرانے کی مہلت دی تھی۔
حکومت نے چھبیس آرڈیننس پارلیمان میں پیش کرچکی اور جمعہ کو انتہائی متنازعہ آرڈیننس ’این آر او‘ بھی پیش کردیا ہے۔ حزب مخالف کی بیشتر جماعتیں اس قانون کی منظوری کے خلاف ہیں۔ جبکہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ انہیں اس قانون کی منظوری کے لیے مطلوبہ تعداد سے زیادہ اراکین کی حمایت حاصل ہے۔
پارلیمانی امور کے وزیر ڈاکٹر بابر اعوان نے گزشتہ روز صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ’این آر او‘ کا پارلیمان میں بھرپور دفاع کریں گے۔ ان کے مطابق وہ پاکستان میں انیس سو اٹھاون سے جاری ہونے والے ’این آر اوز‘ کی تاریخ پیش کریں گے کہ کس کس نے اس طرح کے قوانین سے فوائد حاصل کیے ہیں۔
بشکریہ بی بی سی اردو نیوز
بی بی!
مانا کہ آپ کی باتیں آپ کے نزدیک درست ہیں مگر کچھ اس انتہاء پسندی کے بارے میں بھی آپ روشنی ڈالتیں ۔۔ جب تک پاکستان میں غربت کرپشن بے ایمانی اور اعلٰی سرکاری سطح پہ بدترین بدیانتی جاری ہے اور اسے ایوانوں میں چور لوگوں کے مفادات اکھٹے ہوجانے سے ایسے ایوانوں کا تقدس کیا ہوگا ۔ وہ تو چوروں کو ہر قسم کی پناہ دینے والے ادراے ہونگے ۔ جب پاکستان میں یہ بھونڈے تماشے ہو رہے اس دوران پاکستان کے کروڑوں عوام ایک وقت کی روٹی کے لئیے مجبور ہیں۔
بی بی! آپ کے خیال میں دہشت گردی کو روکنے کے لئیے کیا یہی ہتیار باقی بچے ہیں ۔ جب تک بادشاہ لوگ پاکستان کے تقدس اور پاکستان کے قانون ساز اداروں کا مزاق اڑاتے رہیں گے ۔ لوگ بھوک کے ہاتھوں خود کشیاں کرتے رہیں گے ۔ نانصافی کے ہاتھوں محرومی اور مایوسی بڑھتی رہے گی۔ پاکستان کی دہشت گرد تنظیموں کو ۔ اغیار کو پیٹ پہ بم باندھ کر اپنے آپ کو اڑانے والے ملتے رہیں گے ، اور یاد رکھیں اسمیں مذہب کے ہونے یا نہ ہونے کا جواز نہیں۔ اسکا تعلق پاکستان کی عیاش اور بدیات ترین حکومتوں اور اشرافیہ کی اس خواہش سے ہے کہ وہ اپنے نوے فیصد عوام کو بنیادی سہولتیں دینا تو درکنار ان کے منہ سے روٹی کا نوالہ بھی اپنی رضا سے دینا اور نہ دینا چاہتے ہیں۔
ایسے میں دہشت گردی کا الاؤ بھڑکتا رہے گا۔ کیونکہ۔۔۔۔۔۔۔ کیونکہ پاکستان میں اسکا ایندھن این آر او ساختہ اور دوسرے ملتے جلتے طریقوں سے ملک اور غریب عوام کا خون نچوڑنے والوں نے خود اس ایندھن کا بندو بست کر رکھا ہے۔
جاوید گوندل صاحب
ایم کیو ایم کے بیسیوں نہیں بیس درجن سے زائد ملزمان مستفید ہوئے
احمد صاحب آپ نے اچھی خبر لی خرم بھای کی ،،،، ایک دفعہ ایک فورم پر جب شیعہ کافر کے نعرے لگے تھے تو انہوں نے اس فرقہ واریت کو روکنے کے لیے وہاں دیوبندی بریلوی پھڈا شروع کروا دیا تھا ۔۔ سمجھ نہیں آتی کہ انکو شیعہ سے اتنی محبت کیا ہے ۔۔ میرا خیال ہے اس وجہ سے بریلوی اب بھی انکو گالیاں دیتے ہوں گے