Monthly Archives: August 2009

کاش

میں نے گذشتہ کل اپنی تحریر میں عنیقہ ناز صاحبہ اور نعمان صاحب کے اُٹھائے ہوئے سوالات اور اپنے 5 سوالات کے منطقی جوابات کی درخواست کی تھی ۔ بجائے میری درخواست اور اس میں مخفی حقائق پر غور کر کے منطقی حل پیش کرنے کے اکثر مبصرین نے سارا زور اس پر صرف کیا کہ میں نے چوری کو جائز قرار دیا ۔ کاش کوئی غور سے میری تحریر پڑھ کر بتائے کہ کہاں میں نے چوری کو جائز قرار دیا ہے ۔ دیگر جس زمانے میں [1985ء-1987ء] ہمارے محکمہ کے لوگوں نے کوڈ توڑا تھا اس زمانہ میں کوئی ایسا قانون نہ تھا کہ کوڈ توڑا یا نقل تیار نہیں کی جا سکتی ۔ اس زمانہ میں کوڈ توڑنے کا کام یورپ میں بھی عام تھا بلکہ اس پر فخر کیا جاتا تھا

مبصرین نے یہ عندیہ بھی دیا کہ میں یعنی افتخار اجمل بھوپال چوری کی سافٹ ویئر استمال کرتا ہوں اس لئے چوری کا دفاع کر رہا ہوں ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ میں نے چوری کا دفاع نہیں کیا بلکہ اجارہ داری کے خلاف احتجاج کیا اور قارئین سے مدد کا متمنی تھا مگر اُلٹا چور قرار دیا گیا ۔ سُبحان اللہ

ضرورت تو نہ تھی لیکن میں نہیں چاہتا کہ میری وجہ سے کسی کو بے چینی ہو اسلئے حقیقت کا اظہار کر رہا ہوں ۔ جب میں نے 1987ء کے شروع میں اپنا پہلا پی سی خریدا اُس وقت ڈاس يعنی ڈسک آپریٹنگ سسٹم ہوتا تھا ۔ جب میں نے پینٹیئم 2 خریدا تو فلاپی ڈسکس پر اصل ونڈوز دستیاب تھی ۔ پھر جب میں نے اسے اَپ گریڈ کر کے پینٹیئم 3 بنایا تو لوگ ابھی ڈی ایکس 2 استعمال کر رہے تھے ۔ میں نے ونڈوز 95 پھر 98 پھر 2000 پھر میلینیئم پھر ايکس پی انسٹال کی ۔ یہ سب اصل بازار میں ملتی تھیں اور میری دسترس سے باہر نہ تھیں ۔ اصل ایکس پی ابھی میرے پاس موجود ہے ۔ چند سال قبل اسی کے ذریعہ مائکروسافٹ کی ویب سائٹ سے پیک ون اور پیک ٹو ڈاؤن لوڈ کر کے انسٹال کئے تھے ۔ اس کے بعد ایکس پی پیک ٹو ایک عزیز نے مجھے برطانیہ سے لا کر دی ۔ چند ماہ قبل میں نے پيٹیئم 4 استعمال کرنا شروع کیا ۔ اس میں وزٹا انسٹال نہیں کروایا کہ اصل بہت ہی مہنگا ہونے کی وجہ سے مارکیٹ میں موجود نہ تھا ۔ دیگر وزٹا پر میرے اپنے بنائے ہوئے ایک دو اہم پروگرام نہیں چلتے ۔ اسلئے میں نے اپنی ایکس پی پیک ٹو انسٹال کی

ہم لوگ دین پر عمل کرنے پر بہت زور دیتے ہیں لیکن دین کے اصولوں کو فراموش کر دیتے ہیں اور انسان کا بنایا ہوا قانون بھی کہتا ہے کہ

A person is innocent until proved guilty

مگر عملی طور پر آجکل ساری دنیا مندرجہ ذیل پر عمل کر رہی ہے

A person is guilty until proved innocent

کاش کوئی صاحبِ علم ہو جو عنیقہ ناز صاحبہ اور نعمان صاحب کے اُٹھائے ہوئے سوالات کا منطقی جواب دے ؟
اور ہو سکے تو میرے اُٹھائے ہوئے 5 سوالوں کا بھی جواب دے

انسان کے عمومی اطوار مندرجہ ذیل اقتباس سے احاطہ کیا جا سکتا ہے جو مارچ 1975ء میں شائع ہونے والے میرے ایک تحقاتی مقالے سے ہے

4.4. Perceptions of communication vary according to the group involved as well as according to an individual’s frame of reference. The frame of reference of upper management, lower management and workers is quite different. This is bound to influence the perception of each group in communication. Management perceives conceptions through it’s own interests and values. What worker (the Employee) perceives in a message has a great bearing on his response. Past experience from all facets of living, that is, childhood, school, previous work and home along with past relations with the Supervisor affect his perception.

سافٹویئر چوری اور اسلام

یاسر عمران مرزا صاحب نے سافٹ ویئر کا استعمال جسے Piracy کا نام دیا گیا ہے کے متعلق لکھا اور مبصرین نے زبردست تبصرے کئے ان میں سے دو تبصرے منطقی جواب مانگتے ہیں ۔
ایک ۔ عنیقہ ناز صاحبہ کا کتابوں کے حوالے سے
دوسرا ۔ نعمان صاحب کا سوفٹ ویئر کی استحصالی فروخت کے حوالے سے

اپنا تجربہ اور نظریہ بیان کرنے سے قبل میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ

1 ۔ صرف فرنگیوں کے بنائے ہوئے اصولوں یا قوانین کی خلاف ورزی ہی جُرم کیوں ہے جبکہ وہ خود تمام انسانی حدوں کو توڑ کر جسے چاہیں ملیامیٹ کرتے رہتے ہیں ؟
2 ۔ اجارہ داری کا مقابلہ کرنا اگر چوری یا ڈکیتی ہے تو پھر جمہوریت کے نعرے کیوں لگائے جاتے ہیں ؟
3 ۔ اگر ہم بہت دیندار ہیں تو کیا صرف امریکا کے بنائے ہوئے قانون کی خلاف ورزی سے گناہگار بنتے ہیں ؟ اور کیا ہم نے اپنے باقی سارے اوصاف دین کے مطابق ڈھال لئے ہیں ؟
4 ۔ دورِ حاضر میں بہت سی اشیاء کی اصل اور نقل ملتی ہیں ۔ مثال کے طور پر نیشنل کی استری یا مولینکس کا گرائنڈر بلینڈر ۔ اصل کی قیمت اگر 4000 روپے ہے تو نقل 2000 روپے یا کم میں مل رہی ہے ۔ ایسا صرف پاکستان میں نہیں ساری دنیا میں ہے ۔ درمیانی یا کم آمدن والے لوگ اصل کی قیمت ادا نہیں کر سکتے اسلئے نقل خریدتے ہیں ۔ باقی اشیاء کی نقل خریدنا جُرم نہیں پھر امریکی سافٹ ویئر کی نقل خریدنا جُرمِ کیوں ؟
5 ۔ آخر یہ سارا نزلہ پاکستان پر کیوں گرایا جا تا ہے ؟ اور ہم خود ہی اپنے آپ کو امریکا کی استحصالی اجارہ داری میں کیوں جکڑنا چاہتے ہیں ؟

حقیقت کیا ہے ؟
سود خور دنیا کی اجارہ داری اور سودی نظام کے ساتھ ساتھ استحصالی نظام میں دنیا کو جکڑنا ۔ کیا اس استحصال کے خلاف کھڑے ہونا انسانیت کی خدمت نہیں ہو گا ؟ اگر امریکا کی preemptive strategy کے تحت دہشتگردی کے خلاف جنگ اور اپنے بغل بچہ اقوامِ متحدہ کے ذریعہ امریکا کا تسلط نہ ماننے والے ممالک پر تجارتی اور دوسری پابندیاں لگانا درست ہے تو امریکا کے مال کی نقل بنانا کیوں غلط ہے ؟

آپ بیتی

میرا کمپیوٹر سے واسطہ ستمبر 1985ء میں پڑا جب مجھے جنرل منیجر منیجمنٹ انفارمیشن سسٹمز [Management Information Systems] تعینات کر کے انوینٹری منیجمنٹ سسٹم [Inventory Management System] کو کمپیوٹرائز کرنے کا پراجیکٹ دے دیا گیا ۔ ادارے میں موجود تھا آئی بی ایم کا مین فریم [IBM”s Main Frame] کمپیوٹر اور سافٹ ویئر ۔ دونوں کی قیمت ادا کر چکنے کے باوجود ہر ماہ ادائیگی کی جاتی جس کے عوض آئی بی ایم کا ایک نمائندہ ہمارے ادارے کی سیاحت کر کے سب ٹھیک کہہ جاتا ۔ اگر کوئی مسئلہ درپیش ہوتا تو اس کا ہرجانہ علیحدہ ادا کرنا پڑتا ۔ اسی پر بس نہیں ذرا ذرا سی بات کیلئے ہم آئی بی ایم کے محتاج تھے ۔ ہم نے آئی بی ایم کے متوازی آزادی دینے والے ادارے نارسک ڈاٹا سے ناطہ جوڑا ۔ اُن کے ماہرین نے میرے ساتھ بیٹھ کر تمام سافٹ ویئر تیار کی اور اللہ کے فضل سے پاکستان کا سب سے وسیع اور فعال انوینٹری منیجمنٹ سسٹم کمپیوٹرائز ہو کر 1988ء میں بھرپور طور پر چالو ہو گیا

جب مجھے اکتوبر 1988ء میں ایم آئی ایس کا سربراہ بنا دیا گیا تو میں نے آئی بی ایم سے اگلا کنٹریکٹ ماضی کی شرائط پر کرنے سے انکار کر دیا ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ آئی بی ایم والے ہمیں چھوڑ کر چلے گئے ۔ ہم نے ایک اور آزاد کمپنی سے رجوع کیا تو آئی بی ایم والوں نے ملک کی اعلٰی سطح پر رابطہ کیا کہ مجھے زیر کر سکیں ۔ اللہ کی مہربانی سے وہ کامیاب نہ ہوئے اور اُن کے بڑے میرے پاس بھاگے آئے اور ایک جدید کمپیوٹر سی ایس پی اور ایس کیو ایل کے ساتھ دینے پر راضی ہو گئے اس شرط پر کہ ماہانہ کرایہ ختم صرف جب ضرورت پڑے مینٹیننس چارجز ہوں گے ۔ اُن دنوں پاکستان میں آئی بی ایم کے سربراہ یوسف صاحب تھے ۔ کمپیوٹر کی وصولی کے وقت سربراہ نثار میمن صاحب تھے جو پرویز مشرف کی حکومت میں وزیر رہے ۔ نثار میمن صاحب عہدہ سنبھالتے ہی واہ تشریف لائے اور مجھ سے ملاقات کر کے خوشی کا اظہار کیا

آئی بی ایم کی مہیا کردہ سافٹ ویئر کا یہ حال تھا کہ ایک فلاپی ڈسک سے 4 بار سافٹ ویئر انسٹال کرنے سے وہ سافٹ ویئر بیکار ہو جاتی تھی چنانچہ آئے دن آئی بی ایم سے نئی فلاپی ڈسکس بڑی قیمت پر خریدنا پڑتی تھیں یعنی ہاتھی کی قیمت میں چیونٹی ۔ ہمارے لوگوں نے کوڈ توڑااور ایک فلاپی ڈسک سے کئی فلاپی ڈسکس تیار کر لیں ۔ اگر امریکی قانون کو ماننا لازم ہوتا تو میں اور میرا سابق ادارہ بہت بڑے مجرم قرار پاتے ۔ گویا نہ میرا یہ بلاگ ہوتا اور نہ اتنے سارے ہونہاروں سے تعارف ہو پاتا

آجکل جسے پائریٹڈ سافٹ ویئر کہا جاتا ہے وہ مفت تو نہیں ملتی ۔ اب جو شخص بازار سے یہ سسستی سافٹ ویئر خرید کر لاتا ہے وہ مجرم کیسے ہوا ؟ مجرم تو وہ ہے جس نے کوڈ توڑ کر نقل بنائی ۔ سب کی اطلاع کیلئے لکھ دوں کہ کوڈ توڑ کر نقل بنانے والے پاکستانی نہيں ہیں بلکہ ان کا تعلق امریکا اور يورپ سے ہے ۔

ایک اہم واقعہ یاد آیا ۔ جب امریکا نے لبیا سے خام تیل خریدنے پر اقوامِ متحدہ کو استعمال کر کے پابندی لگوا دی اُن دنوں میں لبیا میں تھا ۔ امریکا کے تیل بردار جہاز مالٹا کی بندرگاہ پر لنگر انداز ہوتے اور مڈل مين [Middle Man] کے ذریعہ سودے ہوتے ۔ کسی نجی کمپنی کے جہاز لبیا سے تیل لے کر جاتے اور امریکی جہازوں میں ڈال دیتے ۔ اس طرح امریکا مہنگا تیل سستے داموں خریدتا رہا ۔ کیا یہ جعلسازی اور دھوکا نہیں ؟

امریکا اور يورپ والوں کی دیانتداری کا پول ماضی کی تاریخ کھولتی ہے ۔ یونانی مصنّف مارک نے اپنی کتاب لائبر اگنیم میں جس تحقیقی مواد کو یونانی کا لاطینی ترجمہ بتایا تھا بعد کی تحقیق میں ثابت ہو چکا ہے کہ وہ دراصل عربی سے لاطینی ترجمہ تھا ۔ اسی طرح جس اُوزی مشین گن یا مشین پِسٹل پر اسرائیل کی واہ واہ ہوتی ہے وہ دراصل نئی ایجاد نہیں بلکہ چیکوسلواکيا کی سب مشین گن کی نقل یا اس کی ترمیم ہے

یہی حال کتابوں اور تحقیقاتی مقالاجات کا ہے فرنگیوں نے عربی سے ترجمے کر کے اپنے ناموں سے شائع کئے اور جس کا ترجمہ نہ ہو سکا اُن کُتب کو جلا دیا گیا ۔ اپنے ملک کو ہی لے لیجئے ۔ ہندوستان پر ہیراپھیری سے قبضہ کے بعد تمام محققین اور ہنر مندوں کو ہلاک کر دیا گیا ۔ میرے اپنے آباؤ اجداد برطانوی حکومت کی دہشتگردی کا شکار ہوئے

قانون ؟ ؟ ؟

خبر ہے کہ ہالینڈ میں 5 ہم جنس پرست جوڑے شادی کے بندھن میں بندھ گئے ۔ شادی کرنے والے پانچ افراد کا تعلق امریکی ریاست نیو یارک سے ہے جہاں قانونی طور پر ہم جنس پرستوں کی شادی ممنوع ہے ۔ اسی لئے امریکی ہم جنس پرست دیگر یورپی ممالک کا رُخ کرتے ہیں اور شادی کے بعد واپس امریکا آجاتے ہیں کیونکہ اس صورت میں امریکہ میں شادی سرکاری طور پر تسلیم کی جاتی ہے

پریشانی کی وجوہات

پریشانیوں کا اصل سبب جائز یا ناجائز توقعات ہوتی ہیں ۔ مثال کے طور پر

* دوسروں سے اچھائی کی توقع
* دوستوں سے اپنی تعریف کی توقع
* ہوائی جہاز یا ٹرین کے وقت پر پہنچنے کی توقع
* سب لوگوں سے دیانت داری کی توقع
وغیرہ

یہ سب توقعات معقول معلوم ہوتی ہیں لیکن اکثر پوری نہیں ہوتیں
نتیجہ مایوسی اور دِل شِکنی ہوتا ہے