Monthly Archives: July 2009

کھری کھری باتیں

آج ہم ایسی دنیا میں رہ رہے ہیں کہ جہاں

سچ کو جھوٹ قرار دیا جاتا ہے اور جھوٹ کو عام کیا جاتا ہے
اپنے عیبوں پر سے نظر ہٹانے کے لئے وہی عیب دوسروں میں بتائے جاتے ہیں
سچ کی تلاش بہت مشکل بنا دی گئی ہے
متعصب شخص اپنے سے متفق نہ ہونے والے تمام لوگوں کو تعصب سے بھرا قرار دیتا ہے اور عام فہم بات میں سے اپنی مرضی کا مطلب نکالتا ہے

یہاں کوئی پنجابی بتایا جاتا ہے کوئی پختون
کوئی کہتا ہے میں بلوچی ہوں کوئی کہتا ہے میں سندھی ہوں
کوئی کہتا ہے میں سرائیکی ہوں
کوئی مہاجر بنا ہے اور کوئی حق پرست ہونے کا دعوٰی کرتا ہے

یہ پاکستان ہے جہاں پاکستانی تلاشِ بسیار کے بعد ملتا ہے

کہتے ہیں کہ پاکستان میں مسلمان بھاری اکثریت میں ہیں
نکلیں ڈھونڈنے تو ملتے ہیں
چوہدری ۔ سردار ۔ ملک ۔ سیّد ۔ شاہ ۔ مزاری ۔ زرداری ۔ پیر ۔ پیرزادہ ۔ صاحبزادہ ۔ صدیقی ۔ فاروقی ۔ راجپوت ۔ وغیرہ وغیرہ
مسلمان کا لفظ آتے ہی تصور دیا جاتا ہے کہ انتہاء پسند ہو گا یا جاہل

کاش یہ پڑھے لکھے لوگ تعلیم یافتہ بنتے نہ کہ جاہل

عام شنید ہے کہ انتہاء پسند مُلا یا اُن کے شاگرد ہیں
گھر سے نکلیں چاہے کار پر یا پیدل چاروں طرف دہشتگرد نظر آتے ہیں
ٹکر مارنے والا معذرت کرنے کی بجائے اُلٹا آنکھیں دکھاتا ہے اور کبھی ڈانٹ بھی پلاتا ہے
حد یہ ہے کہ کھڑی گاڑی کو مارنے والا ايک دم سر پر آ کے کہتا ہے یہاں گاڑی کھڑی کیوں کی تھی ؟

کہتے ہیں کہ مدرسوں میں پڑھنے والے انتہاء پسند ہوتے ہیں ان کی وجہ سے ملک کو بہت نقصان پہنچا ہے
ذرا غور کریں تو نقصان پڑھے لکھے خوش پوش شہریوں کے اعمال کا نتیجہ نظر آتا ہے جن میں سے کچھ یہ ہیں

جھوٹ برملا بولنا
وعدہ کر کے پورا نہ کرنا
کہنا کچھ اور کرنا کچھ
اپنی تفریح کی خاطر دوسروں کو نقصان پہنچانا
اپنے حقوق کا شور مچانا اور دوسروں کا حق مارنا
دوسروں پر احسان جتانا اور خود کسی کا احسان نہ ماننا
طاقتور کے جھوٹ کو سچ ماننا اور کمزور کے سچ کو رَد کر دینا

حقیقت یہ ہے کہ ملک میں جو حالات ہیں ان کا سبب صرف اور صرف پڑھا لکھا اور با اثر طبقہ ہے اور یہ دہشتگرد کہلانے والے طالبان بھی انہی کے کرتوت کا پھل ہیں

کہا جاتا ہے کہ طالبان ناپُختہ ذہنوں کی برین واشنگ [brain-washing] کرتے ہیں مگر جو برین واشنگ دینی مدرسوں سے بہت دُور شہروں میں ہو رہی ہے اُس پر کسی کی نظر نہیں اور وہ قوم کو اندر ہی اندر سے کھا رہی ہے paper1
پاکستان کے سب سے بڑے اور سب سے زیادہ پڑھے لکھوں کے شہر میں کی گئی برین واشنگ کا ایک ادنٰی نمونہ جو اتفاق سے میرے تک پہنچ گیا

ہر شاخ پہ اُلو بیٹھا ہے

ہر شاخ پہ اُلو بیٹھا ہے ۔ حالِ چمن پھر کیا ہو گا

سینیٹ سیکریٹریٹ نے 1973ء کے آئین کے غیر آئینی نسخے شائع کرنے کی ذمہ داری پاکستان پیپلز پارٹی کی وزارت قانون پر عائد کردی ہے۔ ان غیر آئینی نسخوں میں اقتدار سے بے دخل کئے جانیوالے آمر جنرل (ر) پرویز مشرف کے 3 نومبر 2007ء کے غیر آئینی اقدامات کو آئین کا حصہ بنایا گیا ہے

سینیٹ سیکریٹریٹ کے ڈائریکٹر پبلک ریلیشنز نے واضح کیا ہے کہ ارکان سینیٹ کو آئین کی جو کاپیاں مہیا کی گئی ہیں وہ ہو بہو وہی ہیں جو وزارت قانون نے اپریل 2008ء میں تقسیم کی تھیں اور اُس وقت سینیٹ کے موجودہ چیئرمین فاروق نائیک وزیر قانون تھے ۔ اگرچہ سینیٹ سیکریٹریٹ کی وضاحت آئین کے غیر آئینی نسخے شائع کرنے پر ایک طرح سے معذرت کا اظہار ہے لیکن اس سے ایک سنجیدہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر موجودہ حکومت نے کس طرح سینیٹ سیکریٹریٹ تک آئین کی ایسی کاپیاں پہنچنے دیں جن میں پارلیمنٹ کی دو تہائی اکثریت کی منظوری کے بغیر پرویز مشرف کے اقدامات کو توثیق دیدی گئی

اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ شاید گیلانی حکومت نے بھی کسی رسمی اعلان کے بغیر مشرف کے غیر آئینی اقدامات کو آئین کا حصہ مان لیا ہے ۔ اگرچہ آئین اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ آئین میں بگاڑ پیدا کرنے والوں پر غداری کا مقدمہ چلایا جائے لیکن موجودہ حکومت پرویز مشرف کے خلاف ایسا کوئی تاثر نہیں دے رہی شاید ممکنہ طور پر پرویز مشرف کے بینظیر بھٹو کے ساتھ این آر او سے متعلق معاہدے کا قرض ادا کیا جا رہا ہے

غیر آئینی نسخوں کی تقسیم ۔ بشکریہ جنگ

انسان کے تخیّل سے باہر

دنیا میں کچھ ایسے عوامل یا واقعات ہوتے رہتے ہیں جو انسان کی عقل و سوچ سے باہر ہوتے ہیں شاید انہی کو معجزہ کہا جاتا ہے ۔ یہ اللہ سبحانُہُ و تعالٰی کا بنایا نظام ہے ۔ ایسے واقعات وقوع پذیر ہوتے رہتے ہیں جن کو اللہ پر یقین نہ رکھنے والے نہیں سمجھ سکتے

جڑواں کائری اور بری ایل 17 اکتوبر 1995ء کو میسا چوسیٹ میموریل ہسپتال میں پیدا ہوئیں ۔ پیدائش کے وقت ہر ایک کا وزن 2 پاؤنڈ تھا اور ان کی صحت کچھ ٹھیک نہ تھی ۔ اُن دونوں کو علیحدہ rescue_hug علیحدہ اِنکیوبیٹرز میں رکھا دیا گیا ۔ کائری کا وزن بڑھنا شروع ہو گیا اور وہ صحتمند ہوتی گئی لیکن بری ایل کا وزن نہ بڑھا اور اسے کوئی افاقہ نہ ہوا ۔ وہ روتی رہتی جس سے اس کی سانس بھی رُکنے لگتی اور رنگ نیلا ہو جاتا ۔ کچھ دن بعد بری ایل کی حالت خراب ہو گئی ۔ نرس نے بہت جتن کئے مگر کوئی فائدہ نہ ہوا ۔ آخر نرس نے ہسپتال کے قوائد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بری ایل کو کائری کے ساتھ اسکے اِنکوبیٹر میں ڈال دیا ۔ چند ہی لمحے بعد کائری نے کروٹ لے کر اپنا ایک بازو بری ایل پر رکھ دیا ۔ اس کے بعد بری ایل کی حالت سدھرنے لگی اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کی سانس ٹھیک ہو گئی اور رنگ بھی گلابی ہو گیا اور وہ صحتمند ہونے لگی

میں اُن دنوں لبیا میں تھا ہمیں پاکستان سے ڈاک ڈپلومیٹک بیگ کے ذریعہ تین دن میں مل جایا کرتی تھی ۔ اپریل 1981ء میں میری بڑی بہن کا خط ملا کہ “والد صاحب تمہیں یاد کرتے ہیں”۔ میرے ذہن نے کہا کہ والد صاحب تو ہمیشہ ہی یاد کرتے ہیں ۔ یہ کچھ گڑبڑ ہے ۔ میں نے دو ہفتے کی چھٹی لی اور بیوی بچوں سمیت پاکستان پہنچا ۔ سٹیلائیٹ ٹاؤن راولپنڈی اپنے گھر پہنچا تو والد صاحب کو وہاں نہ پا کر سیدھا بڑی بہن کے گھر واہ چھاؤنی پہنچا ۔ دیکھا تو والد صاحب بے سُدھ بستر پر لیٹے ہیں اور خُون چڑھایا جا رہا ہے

میں نے اپنی بڑی بہن جو ڈاکٹر اور پیتھالوجسٹ ہیں کو کمرہ سے باہر لیجا کر پوچھا کہ ” کیا ہوا ؟” وہ آنسو بہاتے ہوئے بولیں “سپیشلسٹس بورڈ نے نااُمید کر دیا تھا اور کہا کہ ان کے بڑے بیٹے کو بُلا لیں تو میں نے آپ کو خط لکھ دیا”۔ ہم کمرہ میں واپس گئے تو میری بیوی اور بچے پریشانی میں گُم سُم کھڑے میرے والد صاحب کی طرف دیکھے جا رہے تھے ۔ باجی نے ابا جان کو ہلا کر کہا ” ابا جی ۔ دیکھیں اجمل آیا ہے اور ساتھ بچے بھی ہیں “۔ والد صاحب نے آنکھیں کھول کر میری طرف دیکھا اور کچھ کہنا چاہا مگر نہ کہہ سکے ۔ میں نے آگے بڑھ کر والد صاحب کا ہاتھ چُوما اور پھر اُن کا ہاتھ پکڑے اُن کے بستر پر بیٹھ گیا

دوسرے دن صبح ڈاکٹر صاحب دیکھنے آئے تو مجھے دیکھ کر کہنے لگے “اچھا کیاکہ آپ آ گئے ۔ ہم اپنے پورے جتن کر چکے تھے “۔ والد صاحب کے کمرے میں داخل ہوئے تو والد صاحب نحیف آواز میں بولے “ڈاکٹر صاحب ۔ یہ میرا بیٹا ہے “۔ میں نے دیکھا کہ ڈاکٹر صاحب کے چہرے پر خوشی کی لہر دوڑ گئی ۔ ڈاکٹر صاحب نے میری طرف دیکھ کر والد صاحب سے کہا “ہاں ۔ اب اِن شاء اللہ آپ جلد ٹھیک ہو جائیں”

ڈاکٹر صاحب روزانہ آتے تھے ۔ تین دن بعد والد صاحب بیٹھ کر یخنی پی رہے تھے کہ ڈاکٹر صاحب پہنچے اور والد صاحب کو دیکھتے ہی بڑے جوش سے بولے “بزرگوار ۔ آپ نے ہمیں فیل کر دیا اور اجمل صاحب پاس ہو گئے ۔ اب اللہ کے فضل سے آپ تیزی کے ساتھ صحتمند ہو رہے ہیں”

اللہ کی کرم نوازی کہ والد صاحب دس دن میں بالکل تندرست ہو گئے ۔ میں نے تو کچھ بھی نہیں کیا تھا ۔ صرف میرا قُرب تھا جس کو بہانہ بنا کر اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے شفاء دینا تھی

اللہ نہیں پوچھے گا

اللہ انسان سے یہ نہیں پوچھے گا کہ

تم کہتے کیا تھے ؟
تمہارے خواب کیا تھے ؟
تم کتنے پڑھے لکھے تھے ؟
تمہارے خیالات کیا تھے ؟
تمہارے منصوبے کیا تھے ؟
تمہارے دعوے کیا تھے ؟

بلکہ اللہ پوچھے گا کہ تم نے بغیر دنیاوی غرض کے

کس کو تعلیم دی ؟
کس کی مدد کی ؟
کس کا سہارا بنے ؟
کس کو کھانا کھلایا ؟
کس کا قصور معاف کیا ؟
کس کی ڈھارس بندھائی ؟

جب ذمہ داری مجھ پر آن پڑی

جب میں آٹھویں جماعت میں تھا [1951ء] تو محترم والد صاحب [اللہ اُنہیں جنت میں اعلٰی مقام عطا فرمائے] نے مجھے گھر کے کاموں کی ذمہ داری دے دی ۔ 1962ء میں جب میں ملازم ہوا تو گھر کا خرچ چلانے کی ذمہ داری بھی مل گئی ۔ محترم والد صاحب 1987ء میں بیمار ہوئے اور میں گھربار چلانے کے علاوہ اُن کی تیمارداری بھی کرتا رہا ۔ اُن کی بیماری کے دوران اپنے سب سے چھوٹے بھائی کی شادی کا بندوبست بھی کیا ۔ اسلام آباد میں مکان جس میں اب ہم چاروں بھائی رہتے ہیں آدھا بنا تھا کہ والد صاحب بیمار پڑ گئے ۔ والد صاحب کے حُکم پر اُن کی بیماری کے دوران یہ مکان مکمل کرایا ۔ اس تمام عرصہ میں مجھے کوئی بوجھ محسوس نہ ہوا

جب 2 جولائی 1991ء کو محترم والد صاحب فوت ہو گئے تو مجھے یوں محسوس ہوا کہ میں ذمہ داریوں کے بوجھ تلے دب گیا ہوں ۔ وجہ یہ تھی کہ ہر کام کرنے سے قبل میں محترم والد صاحب کی منظوری یا خوشنودی حال کر لیتا تھا اور اُس کے بعد مجھے کوئی فکر نہ ہوتی تھی ۔ اُن کی وفات کے بعد ہر کام مجھے اپنی سوچ اور اپنی ذمہ داری پر کرنا تھا ۔ مجھ پر اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کی اتنی مہربانی رہی کہ میں نے کبھی محترم والد صاحب کی حُکم عدولی نہ کی ۔ اللہ الرحمٰن الرحیم کی کرم نوازی اور میرے والدین کی دعاؤں کا نتیجہ ہے کہ محترم والد صاحب کی وفات کے بعد سے پچھلے 18 سال میں سب کچھ بخیر و خُوبی ہوتا رہا اور سب بہنوں اور بھائیوں کو مجھ سے کوئی شکائت نہیں

مددگار

میں مخاطب ہوں اُن قارئین و قاریات سے جن کے کمپیوٹر پر اُردو نصب [install] نہیں ہے یا اُن کے کمپیوٹر کا کلیدی تختہ [keyboard] اُردو نہیں لکھتا اس لئے پریشانی اُٹھانا پڑتی ہے یا وہ مجبور ہو کر انگریزی حروف [English letters] میں اُردو لکھتے ہیں جسے رومن اُردو [Roman Urdu] بھی کہا جاتا ہے ۔ آپ سب کی مُشکل اللہ نے آسان کر دی ہے ۔ آپ مندرجہ ذیل ربط کو اپنے پاس محفوظ کر لیجئے
http://www.google.com/transliterate/indic/Urdu

جب بھی آپ اسے کھولیں گے تو ایک بڑا سا خانہ نظر آئے گا ۔ اس خانے میں آپ اگر مندرجہ ذیل لکھیں گے

Alslam o alaikum . aap ka kia hal hai

ہر لفظ لکھنے کے بعد جب آپ سپیس بار [Space Bar] یا اَینٹر [Enter] دبائیں گے تو انگریزی اُردو میں تبدیل ہوتی جائے گی اور لکھائی مندرجہ ذیل صورت میں ہو جائے گی

السلام علیکم . آپ کا کیا حال ہے

اگر آپ دیکھیں کہ اُردو کا لفظ درست نہیں لکھا گیا تو غلط لفظ پر چوہے کا بایاں بٹن [left button of mouse] دبایئے ۔ جو مختلف الفاظ ظاہر ہوں اُن میں سے درست کا انتخاب کر لیجئے

پورا لکھنے کے بعد جہاں آپ لکھنا چاہ رہے ہیں اسے وہاں پر کاپی پیسٹ [copy paste] کر لیجئے