Monthly Archives: July 2009

سانپ کی دوستی

سُنا ہے کہ سپیرے اس وقت سانپ کے ڈسنے سے مرتے ہیں جب سانپ سے پیار کرنے لگ جاتے ہیں ۔ پرویز مشرف نے بھارت سے دوستی کی خاطر يکطرفہ جنگ بندی کی اور بھارت نے پاکستان میں آنے والے دریاؤں پر بند باندھ لئے جس کا نتیجہ قوم بھگت رہی ہے ۔ زرداری بھی بھارت کی دوستی کا دم بھرتے ہیں اور پاکستان کے اندر کی گئی کاروائیوں پر پردہ ڈالے ہوئے ہیں کہ کہیں بھارت ناراض نہ ہو جائے ۔ بھارت ہمارے حکمرانوں کی مہربانیوں سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے ایک بہت خطرناک چال چل چکا ہے جس کا احوال لکھتے ہیں احمد قریشی

بھارت نے اپنے سرمائے اور وسائل سے کم و بیش پانچ سو دہشت گردوں کا ایک جتھہ تیار کیا ہے۔ ان دہشت گردوں کو افغانستان میں زبردست نوعیت کی خصوصی ٹریننگ سے آراستہ کیا گیا ہے اس فورس کی تیاری کا کام ”را“ اور حامد کرزئی کے گرگوں کے تعاون سے کیا گیا جس کے لئے بھارت نے ڈھائی کروڑ ڈالر فراہم کئے۔ پانچ سو کی ایک خصوصی تربیت یافتہ فورس میں پاکستانی، افغان اور کچھ بھارتی بھی شامل ہیں۔ یہ فورس ایک ایسے منصوبے پر عمل درآمد میں مرکزی کردار ادا کرے گی جس کے خدوخال بڑی ہنرمندی سے تیار کر لئے گئے ہیں۔ منصوبہ ان اجزاء پر مشتمل ہے

1 ۔ ایک ٹیم یا کئی چھوٹی چھوٹی ٹولیاں پاکستان کی مختلف ایٹمی تنصیبات پر اچانک یلغار کریں گی اور کوشش کریں گی کہ ان کے اندر گھس جائیں
2 ۔ دہشت گردوں کی ان ٹولیوں میں چند ایک جدید ترین ہتھیاروں سے لیس اور خصوصی تربیت سے آراستہ ہوں گے تاکہ وہ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچا سکیں
3 ۔ جہاں کہیں ممکن ہوا، یہ دہشت گرد ممبئی حملوں کے انداز میں عمارت کے اندر جاکر مورچے سنبھال لیں گے۔ وہ زیادہ سے زیادہ دیر تک قبضہ برقرار رکھنے کی کوشش کریں گے تاکہ اس دوران عالمی میڈیا اس خوفناک واقعے پر توجہ مرکوز رکھے اور پاکستان کی رسوائی کے چرچے ہوتے رہیں۔
4 ۔ بین الاقومی ذرائع ابلاغ خصوصاً امریکی اور برطانوی نشریاتی ادارے اسے ایک ”عالمی بحران“ کا درجہ دیتے ہوئے آسمان سر پر اٹھالیں گے
5 ۔ یہ واقعہ عالمی سطح پر ہیجان بپا کردے گا جس کے نتیجے میں یہ تاثر پایہ ثبوت کو پہنچ جائے گا کہ پاکستان اپنے ایٹمی اثاثوں کے تحفظ کی صلاحیت نہیں رکھتا لہٰذا اس پر دباؤ ڈالا جائے کہ وہ ان تنصیبات کے تحفظ کے بین الاقوامی بندوبست کو قبول کرلے
6 ۔ اس واقعے کے چند دنوں یا چند ہفتوں بعد، افغانستان میں امریکی یا نیٹو افواج کے خلاف یا کسی اور مقام پر ایک چھوٹا سا ایٹمی ہتھیار استعمال کیا جائے گا تاکہ اس امر کا ٹھوس ثبوت ”فراہم کردیا جائے کہ عالمی خدشات کے عین مطابق پاکستان کے ایٹمی ہتھیار اسلامی عسکریت پسندوں کے ہاتھ لگ گئے ہیں

اس چھ نکاتی منصوبے کا مرکزی سوال یہ ہے کہ وہ چھوٹا سا جوہری ہتھیارکہاں سے آئے گا جسے ”اسلامی عسکریت پسند“ امریکی یا نیٹو افواج کے خلاف استعمال کریں گے؟ ظاہر ہے کہ اس کا اہتمام بھی منصوبہ ساز ہی کریں گے۔کچھ عرصہ قبل بھارت کا ایک سینئر ایٹمی سائنسدان لوکاناتھن مہالنگم لاپتہ ہوگیا۔ مئی میں سینتالیس سالہ سائنسدان کی لاش ایک تالاب سے برآمد ہوئی۔ اس پر نہ تو بھارتی حکومت نے کوئی طوفان اٹھایا نہ میڈیا نے زیادہ اہمیت دی۔ قیاس کیا جارہا ہے کہ شاید اس سائنسدان کو منصوبے کی بھنک پڑ گئی تھی اور وہ جان گیا تھا کہ بھارتی جوہری اسلحہ خانہ سے ایک یا اس سے زیادہ چھوٹے جوہری ہتھیار چوری ہونے والے ہیں

اسرائیل اس منصوبے میں پوری طرح شامل ہے۔ ماضی میں اسرائیل اور بھارت پاکستان کی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنانے کی مشترکہ کوششیں کرچکے ہیں۔ کیا امریکہ اس پلان سے بے خبر ہے؟ کیا اسرائیل اور بھارت ، امریکیوں کو اعتماد میں لئے بغیر کسی ایسے منصوبے کو بروئے کار لاسکتے ہیں؟ ان سوالات کے جوابات تلاش کرنے کے لئے ہمیں بہت زیادہ غور و فکر اور عرق ریزی کی ضرورت نہیں۔ 16 مئی کو اسرائیلی سیکورٹی ویب سائٹ نے ایک اسٹوری جاری کی جس میں بتایا گیا ہے کہ ”بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ نے امریکی صدر بارک حسین اوباما کو بتادیا ہے کہ صوبہ سرحد میں واقع پاکستان کی ایٹمی تنصیبات پہلے ہی جزوی طور پر”اسلامی انتہا پسندوں“ کے ہاتھ لگ چکی ہیں۔ یہ اسٹوری معروف بھارتی اخبار ”ٹائمز آف انڈیا“ میں شائع ہوچکی ہے جس کی تردید بھارت کی طرف سے نہیں کی گئی۔ چند دن قبل صدر اوباما کے مشیر بروس رائیڈل کا ایک مضمون شائع ہوا ہے جس کا مجموعی تاثر یہی ہے کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثے محفوظ نہیں ہیں۔ بروس رائیڈل نے راولپنڈی میں ایک بس پر خودکش حملے کو ”کے آر ایل“کی بس پر حملہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایک لحاظ سے پاکستان کی جوہری صلاحیت پہلے ہی انتہاپسندوں کے نشانے پر ہے۔ سابق امریکی وزیر خارجہ کنڈولیزا رائس کے اس بیان کو بھی پیش نظر رکھنا چاہئے کہ ”ہم نے پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کے لئے ایک خصوصی پلان تیار کرلیا ہے لیکن فی الحال اس کی تفصیلات نہیں بتائی جاسکتیں“

مجھے یقین ہے کہ قومی سلامتی کے متعلقہ ادارے اس صورت حال سے پوری طرح باخبر ہوں گے۔ انہوں نے اس مکروہ منصوبے کو ناکام بنانے کے لئے بھی تیاری کر لی ہوگی۔ ماضی میں اسرائیل اور بھارتی گٹھ جوڑ کی ریشہ دوانیاں کامیاب نہیں ہوسکیں۔ کہوٹہ پر فضائی حملہ عین وقت پر ناکام بنادیا گیا۔ پاکستان کے ایٹمی اثاثے انتہائی موثر اور جامع کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم کے تحت ہیں۔ پورے وثوق کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان نے جوہری اثاثوں کے تحفظ کے لئے تمام دیگر ایٹمی ممالک سے کہیں زیادہ کڑا بندوبست کر رکھا ہے۔ اللہ کے فضل و کرم سے دشمن پہلے ہی کی طرح اب بھی ناکام رہیں گے

لیکن سوال یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں کو ”دشمن“ کا پتہ بھی ہے؟ آئے دن کسی نہ کسی دربار سے یہ بیان جاری ہوتا ہے کہ ہمیں بھارت سے کوئی خطرہ نہیں۔ یہ شگوفہ سب سے پہلے مشرف کے ذہن میں پھوٹا تھا اور اب تو یہ پورا چمنستان بن چکا ہے۔ پہلے امریکہ سے صدا بلند ہوتی ہے ”پاکستان کو بھارت سے کوئی خطرہ نہیں“۔ پھر اس صدا کی گونج برطانیہ سے بلند ہوتی ہے، پھر چابی بھرے کھلونوں کی طرح ہمارے حکمران بولنے لگتے ہیں ”ہمیں بھارت سے کوئی خطرہ نہیں، صرف دہشت گردوں سے ہے“

امریکی کروسیڈ نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔ یہاں تک کہ دوست دشمن کی پہچان تک جاتی رہی ہے۔ زیاں کاری اور سود فراموشی کے ان موسموں میں یہ بنیادی حقیقت بھی بھلادی گئی کہ بھارت کا خبثِ باطن پہلے کیا کچھ کرچکا ہے، اب کیا کچھ کررہا ہے اور آئندہ کیا کچھ کرنے کے ناپاک منصوبے بنارہا ہے؟ کیا دنیا بھر میں کوئی قوم ایسی بھی ہوگی جس کے رہنما دوستوں اور دشمنوں کا تعین بھی دوسروں کے اشارے پر کریں؟

تلخ حقیقت

تلخ حقیقت یہ ہے کہ خودمُختار ہونا تو دُور کی بات ہے پاکستان کو ایک ھرکارے کی صورت میں پہنچا دیا گیا ہے ۔ مجھے بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ قائد اعظم کا پاکستان خودمُختار ریاست نہیں رہ گیا بلکہ یہ ایک غلام مُلک ہے جس کی کٹھ پتلی حکومت امریکا کی بنائی ہوئی ہے ۔ ہماری افواج کے سربراہان کیوں ماضی سے سبق حاصل نہیں کرتے ؟ وہ مُلک کی مغربی سرحدوں پر اپنے ہی ہموطنوں کے خلاف جنگ کر کے یقینی طور پر نئی تاریخ رقم کر رہے ہیں لیکن ۔ ۔ ۔

یہ ہے ایک چھوٹا سا اقتباس ایک ہوشرُبا مضمون سے جو يہاں کلِک کر کے پڑھا جا سکتا ہے

سیاسی قتل

انسانی حقوق کمشن کے سندھ چیپٹر کے مطابق صوبہ سندھ میں یکم جنوری تا 30 جون 2009ء صورتِ حال یہ رہی
ان میں مختلف حادثات یا انفرادی عداوت کے نتیجہ میں مرنے والے شامل نہیں ہیں

مہاجر قومی موومنٹ کے کارکن قتل ہوئے ۔ 38
متحدہ قومی موومنٹ کے کارکن قتل ہوئے ۔ 28
پیپلز پارٹی کے کارکن قتل ہوئے ۔ 11
عوامی نیشنل پارٹی کے کارکن قتل ہوئے ۔ 10
سندھ ترقی پسند پارٹی کے کارکن قتل ہوئے ۔ 4
پاکستان مسلم لیگ ( ن) کے کارکن قتل ہوئے ۔ 2
جماعت اسلامی کے کارکن قتل ہوئے ۔ 2
تحریک طالبان کے کارکن قتل ہوئے ۔ 2
پاکستان مسلم لیگ [فنکشنل] کے کارکن قتل ہوئے ۔ 1
جئے سندھ قومی محاذ کے کارکن قتل ہوئے ۔ 1
پنجابی پختون اتحاد کے کارکن قتل ہوئے ۔ 1

یعنی 6 ماہ میں کُل سیاسی قتل ۔ 100

حکومتی شعبدہ بازی

صدر پاکستان آصف علی زرداری سے ایک صدارتی آرڈی نینس پر آج یعنی جمعرات 9 جولائی کی علی الصبح دستخط کردیئے ہیں جس کے ذریعے پیٹرولیم کی مصنوعات پر پیٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی[Petroleum Development Levy] فوری طور پر لگا دی گئی ہے اور پٹرولیم پراڈکٹس [Petroleum Products] کی قیمتیں جنہیں کم کرنے کا نوٹیفیکیشن سپریم کورٹ کے حُکم پر کیا گیا تھا دوبارہ بڑھادی گئی ہیں ۔ یہ نیکی کمانے کیلئے وزارت پٹرولیم ، ایف بی آر ، اوگرا اور وزارت قانون کل سے آج صبح علی الصبح تک کام کرتے رہے

ذرائع کے مطابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی تحریری سفارش پر صدر زرداری نے آرڈیننس پر دستخط کئے اور نئی قیمتوں کا نوٹیفیکیشن فوری طور پر جاری کردیا گیا

عُلمائے ہِند ۔ علامہ اقبال ۔ قائداعظم اور دورِ حاضر

“سیکولر ہندوستان ایک ایسا شجر سایہ دار ہو گا جس میں ہندو کو اپنے مذہب کے مطابق اپنے بتوں کی پرستش اور اپنے طرز زندگی پر چلنے کی آزادی ہوگی۔ مسلمانوں کو اپنی مساجد اور عبادت گاہوں میں اپنے دین پر چلنے کی آزادی ہوگی اور میرے جیسے ”منکر خدا“ کو بھی اپنا عقیدہ رکھنے اور اس کا اظہار کرنے کا حق حاصل ہوگا”
یہ غیر منقسم ہندوستان کے مشہور کمیونسٹ لیڈر ڈاکٹر محمد اشرف صاحب کی تقریر کا اقتباس ہے جو اُنہوں نے 1940ء کے عشرے میں نمک منڈی چوک پشاور میں منعقدہ جمعیت علماء ہند کے جلسہ میں کی تھی

اسٹیج سیکرٹری میرے ماموں اور خسر مولانا محمد لطف اللہ صاحب تھے مجھے خود میرے ماموں جان نے بتایا کہ “میرا تو سُن کر خون کھولنے لگا لیکن مولانا حفظ الرحمن صاحب سیوہاروی نے جو ان دنوں جمعیت علماء ہند کے صدر تھے اور جلسے کی صدارت فرما رہے تھے مجھے سختی سے مداخلت کرنے سے منع کیا کیونکہ ان دنوں برطانوی استعمار سے آزادی ہی اصل مقصود تھا اور برطانوی استعمار کے ہر مخالف کو گلے لگانا جمعیت علمائے ہند کی پالیسی تھی”

میرے والد محترم 1930 کے عشرے کے آخر اور 1940 کے عشرے کے آغاز میں جمعیت علمائے ہند صوبہ سرحد کے صدر تھے ۔ پاکستان بننے کے بعد اسکول کے طالب علمی کے زمانے میں مولانا سید ابوالاعلیٰ کی فکر سے وابستہ ہوا تو میں نے اپنے والد گرامی سے پوچھا کہ “ابا جان آپ لوگ مسلم لیگ کے مقابلے میں ہندو کانگریس سے کیسے وابستہ ہوگئے تھے” ۔ میرے والد گرامی نے اپنا موقف بیان کیا کہ “دراصل ہم یہ سمجھتے تھے کہ اصل مقابلہ امت مسلمہ اور برطانوی استعمار کا ہے ۔ برطانوی استعمار نے امت مسلمہ سے عالمی قیادت چھینی ہے خلافت کی مرکزیت کا خاتمہ کر کے عالم اسلام کو ٹکڑیوں میں تقسیم کیا ہے ترکوں اور عربوں کو آپس میں لڑا کر عربوں کو بھی کئی ٹکڑیوں میں تقسیم کر دیا ہے ۔ مشرق و مغرب میں مسلمان ممالک پر استعماری گرفت مضبوط کر کے ان کے نظام تعلیم اور نظام قانون کو تبدیل کردیا ہے اور تہذیبی اور تمدنی لحاظ سے مسلمانوں کو مغربی رنگ میں رنگی ہوئی لیڈر شپ کی قیادت میں دے دیا ہے ۔ یا ان پر اپنے دست نگر بادشاہوں اور ڈکٹیٹروں کو مسلط کر دیا ہے اس لئے مسلمانوں کا اصل مسئلہ برطانوی استعمار سے آزادی ہے اور برطانوی استعمار کے خاتمے کے بعد امت مسلمہ کو عالمی سطح پر لیڈر شپ کا مقام واپس مل جائے گا ۔ ہمارے پیش نظر صرف ہندوستان نہیں تھا جس میں ہندوؤں کی اکثریت تھی بلکہ پورا عالم اسلام تھا جو کرہٴ ارض کے ایک چوتھائی حصہ میں پھیلا ہوا تھا اور جو اپنے وسائل اور افرادی قوت کے لحاظ سے قوموں کی امامت کی صلاحیت رکھتا ہے”

میرے والد گرامی ایک مخلص اور عبادت گزار عالم دین تھے لیکن جس طرح جمعیت علمائے ہند نے اپنے تشخص کو ختم کر کے اپنی تنظیم کو انڈین نیشنل کانگریس میں ضم کر دیا اس سے بر صغیر ہند و پاک کے مسلمانوں کی عظیم اکثریت کو اتفاق نہیں تھا ۔ وطن کو قومیت کی بنیاد پر تقسیم کرنے سے قرآن و سنت کے واضح دلائل کی روشنی میں مولانا سید ابوالاعلی مودودی نے اتفاق نہیں کیا اور “مسئلہ قومیت” نامی کتاب لکھ کر واضح کیا کہ مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد عقیدہ لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ ہے وطن یا زبان نہیں ہے

علامہ اقبال نے اپنی فارسی کتاب مثنوی اسرار و رموز میں مسلمان فرد اور مسلم قوم کی حقیقت واضح کی اور وطن کو قومیت کی بنیاد ماننے سے انکار کیا ۔ انہوں نے اپنی اردو شاعری میں بھی صراحت کے ساتھ فرمایا

ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے
اقوام میں مخلوق خدا بٹتی ہے اس سے
قومیت اسلام کی جڑ کٹتی ہے اس سے
بازو تیرا توحید کی قوت سے قوی ہے
اسلام تیرا دیس ہے تو مصطفوی ہے
نظارہ دیرینہ زمانے کو دکھا دے
اے مصطفوی خاک میں اس بت کو ملا دے

علامہ اقبال نے اس موضوع پر اتنی تفصیل کے ساتھ اظہار خیال کیا ہے کہ اس موضوع کا حق ادا کر دیا ہے اور جو لوگ علامہ اقبال کو مفکر پاکستان مانتے ہیں ان کے لئے کوئی گنجائش نہیں چھوڑی کہ وہ سیکولرزم یا وطنیت کو پاکستانی قومیت کی بنیاد تسلیم کریں ۔ برصغیر ہند و پاک کے مسلمانوں نے کانگرس کے ساتھ اتحاد کو تسلیم نہیں کیا اور اسی وجہ سے علماء ہند کی قیادت سے نکل کر قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت قبول کر لی

پاکستان میں 62 سال بعد اب کچھ لوگ نظریہ پاکستان سے انکار کر رہے ہیں اور اس کے لئے قائد اعظم کی ایک تقریر کا حوالہ دے رہے ہیں جو انہوں نے ایک خاص پس منظر میں پاکستان میں رہنے والے غیر مسلموں کو تسلی دینے کی خاطر کی تھی کہ ان کی جان، مال اور آبرو پاکستان میں اسی طرح محفوظ ہو گی جس طرح مسلمانوں کی جان و مال اور آبرو اورا نہیں اپنے مذہب پر چلنے کی آزادی ہو گی ۔ اس ایک تقریر کو بنیاد بنا کر برصغیر ہند وپاک کے مسلمانوں کی اس عظیم الشان جدوجہد کی نفی نہیں کی جا سکتی جو انہوں نے پاکستان کی صورت میں پورے عالم اسلام کو ایک مرکز کے گرد جمع کرنے کے لئے کی تھی اور جس کی خاطر انہوں نے قائد اعظم کو قائد اعظم بنایا

مسلمانوں نے صرف اس بنا پر قائد اعظم کی قیادت قبول کی کہ انہوں نے قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق وطن کی بنیاد پر قومیت کا سیکولر نظریہ مسترد کر کے اسلامی قومیت اور اسلامی نظریہ حیات پر مبنی ایک ریاست کے قیام کا بیڑا اٹھایا ۔ قومیت کے اس اسلامی تصور کی بنیاد پر میری طرح کے بہت سے نوجوان جمعیت علمائے ہند کے اکابر کے گھرانوں میں پرورش پانے کے باوجود مولانا مودودی اور علامہ اقبال کے حلقہ بگوش بنے

پاکستان بننے کے بعد دستور اسلامی کا مطالبہ پاکستان کے مسلمانوں کا متفقہ مطالبہ تھا ۔ دستور ساز اسمبلی کے اندر شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی اور سردار عبدالرب نشتر اس کے سرگرم موئیدین میں سے تھے جبکہ مولانا مودودی نے اسمبلی کے باہر اس کے لئے آواز اٹھائی ۔ یہ مطالبہ بر وقت تھا اور اس کو اتنی عوامی تائید حاصل تھی کہ اس کا مسترد کرنا کسی کے لئے بھی ممکن نہیں تھا اس مطالبے کے نتیجے میں دستور ساز اسمبلی نے قرار داد مقاصد پاس کی اگر قرار داد مقاصد کو اس تقریر کی روشنی میں دیکھا جائے جو اس وقت کے وزیراعظم لیاقت علی خان نے اس کی تائید میں کی تھی تو دستور کی اساس کے طورپر اس قرارداد کی اہمیت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے

پاکستان کی سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے مطابق پارلیمنٹ کی اکثریت کو بھی اس قرار داد کو دستور سے نکالنے کا حق نہیں ہے کیونکہ یہ ریاست کی وہ بنیاد ہے جو پاکستان کی گزشتہ اور آئندہ نسلوں کی امانت ہے جو لوگ قرار داد مقاصد کی مخالفت کرتے ہیں وہ دراصل اس بنیاد کو جڑ سے اکھاڑنا چاہتے ہیں جس پر یہ ملک قائم ہے

اس وقت جب کہ علاقائی اور لسانی بنیادوں پر پاکستان میں مرکز گریز رجحانات کو تقویت مل رہی ہے اور جب کہ امریکہ اور یورپ کی حکومتیں بھی اسلام کے مقابلے میں سیکولر ازم کا پرچار کر رہی ہیں اس بات کی ضرورت ہے کہ اس بنیادی رشتے کو مضبوط کر دیا جائے جس کی وجہ سے ہم ایک پاکستانی قوم میں ڈھل سکتے ہیں قرار داد مقاصد میں پارلیمنٹ کو اللہ کی حاکمیت اور اقتدار اعلی [Sovereignty] ا ور قرآن و سنت کے دائرے میں رہ کر فیصلہ کرنے کا پابند بنا دیا گیا ہے ملک میں پھیلی ہوئی موجودہ بے چینی کو طاقت کے استعمال سے نہیں بلکہ قرار داد مقاصد اور دستور کی اسلامی دفعات پر صدق دل کے ساتھ عمل پیرا ہونے کے ذریعے ختم کیا جا سکتا ہے جو لوگ ان نازک حالات میں جن سے ملک گزر رہا ہے قرار داد مقاصد کو ہدف تنقید بنا رہے ہیں وہ ان طاقتوں کے آلہ کار ہیں جو ملک میں انتشار اور بے چینی پھیلا کر اس کا تیاپانچہ کرنا چاہتی ہیں

تحریر ۔ قاضی حسین احمد ۔ بشکریہ جنگ

اور منافقت کیا ہوتی ہے ؟

ایسا شاید ہی کوئی حافظہ گُم پاکستانی ہو جسے معلوم نہ ہو کہ الطاف حسین اور اس کے حواریوں نے پی سی او کے تحت ہٹائے گئے ججوں کی بحالی کی اپنی طاقت اور جسامت سے بڑھ کر مخالفت کی تھی اور چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری صاحب پر بہتان تراشی بھی کی تھی ۔ جب چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری صاحب کراچی گئے تھے تو اُنہیں ایئرپورٹ سے باہر نہ نکلنے دیا گيا تھا ۔ کراچی میں ججوں کی بحالی کے حامیوں پر حملے اور عدالتوں کا گھیراؤ کر کے وکلاء کو محصور کر دیا تھا

یہ بھی حقیقت ہے کہ 2006ء میں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری صاحب نے معاف کئے گئے قرضوں کے خلاف از خود کاروائی کا آغاز کیا تھا جو 9 مارچ 2007ء کو ان کے خلاف ہونے والی غیر قانونی اور غیرآئینی کاروائی میں دب کر رہ گیا تھا ۔ یہ معاملہ سپریم کورٹ کے مقدمات کی فہرست میں شامل ہے اور اِن شاء اللہ اس پر کاروائی ہو گی

اب متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری کے نام کھلا خط لکھا ہے جس میں چیف جسٹس کی توجہ ملکی حالات کی طرف دلاتے ہوئے ان سے کھربوں کے قرضے معاف کرانے والوں کے خلاف ازخود نوٹس لینے کی درخواست کی ہے

الطاف حسین کونسا کھیل کھیلنا چاہتے ہیں ؟
کیا یہ کاروائی این آر او کے تحت بری ہونے والے سینکڑوں ایم کیو ایم کے وڈیروں کی پردہ پوشی کے لئے ہے ؟

اب حکومت کیا کرے گی ؟

پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے بینچ نے کی ۔ سپریم کورٹ نے عبوری حکم دیا ہے کہ درخواستوں کے حتمی فیصلے تک کاربن ٹیکس وصول نہ کیا جائے جبکہ آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی کاربن ٹیکس وصول نہ کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کرے ۔