ميری تحرير ” جنہوں نے مجھے انسان بنایا” پڑھ کر کچھ قارئین کرام نے تقاضہ کیا ہے کہ میں اپنے تاریخی مشاہدات کے حوالے سے وجوہات لکھوں کہ “ہم بحیثیت قوم اخلاق اور کردار کے بحران میں کیوں مبتلا ہیں؟”
وقتاً فوقتاً مُختلف موضوعات کے تحت میں قومی انحطاط کی وجوہات لکھتا رہا ہوں ۔ سب تحاریر تلاش کرنا بہت وقت مانگتا ہے ۔ جو تلاش کر سکا ہوں مندرجہ ذیل ہیں ۔ وقت ملے تو انہیں بھی پڑھ لیجئے
کچھ بات تنزّل کی
کسوٹی
معاشرہ ۔ ماضی اور حال
نیا سال ۔ معاشرے کی ترقی
اِرد گِرد کا ماحول اور ہماری مجبوریاں
اِنتخابات سے پہلے [اگر سب اِس اصول پر عمل کریں]
اب صرف اساتذہ کے تعلق سے لکھنا مقصود ہے ۔ جب میری تعلیم کا آغاز ہوا تو اُستاذ خواہ وہ پہلی جماعت کا ہو بڑے سے بڑا عہديدار بھی اس کا احترام کرتا تھا ۔ اس کی بہت سی مثالیں میرے مشاہدہ میں آئیں ۔ میں صرف اپنے ساتھ پیش آنے والا ايک واقعہ بیان کرتا ہوں ۔ میں نے 1962ء میں بی ایس سی انجیئرنگ کرنے کے بعد تدریس کا پیشہ اختیار کیا ۔ کچھ دن بعد میں بائیسائکل پر جا رہا تھا کہ پولیس والے نے میرا چالان کر دیا ۔ دوسرے دن میں ضلع کچہری پہنچا ۔ کسی نے بتایا کہ اے ڈی ایم صاحب کے پاس جاؤں ۔ میں ان کے دفتر گیا تو پتہ چلا کہ ڈی سی صاحب کے دفتر گئے ہیں ۔ میں ڈی سی صاحب کے دفتر چلا گيا ۔ چپڑاسی نے کہا “چِٹ پر اپنا نام اور کيا کام کرتے ہيں لکھ ديں”۔ چپڑاسی نے واپس آ کر اندر جانے کا کہا ۔ ڈی سی اور اے ڈی ایم صاحبان نے کھڑے ہو کر میرا استقبال کیا اور آنے کا سبب پوچھا ۔ میرے بتانے پر ڈی سی صاحب بولے “جناب ۔ آپ اُستاذ ہیں ۔ ہم آپ سے شرمندہ ہیں کہ آپ کو یہاں آنے کی زحمت کرنا پڑی ۔ آئیندہ کوئی کام ہو تو ٹیلیفون کر دیں یا کسی کو بھیج دیں ۔ ويسے آپ تشریف لائیں ہمیں آپ سے مل کر خوشی ہو گی”
ایک اس سے بھی پرانہ واقعہ ہے 1953ء کا جب میں دسویں جماعت میں پڑھتا تھا ۔ ہمارے سيکشن میں غلام مرتضٰے نامی ایک لڑکا بہت شرارتی تھا اور پڑھائی کی طرف بھی بہت کم توجہ دیتا تھا ۔ اس کے متعلق عام خیال یہی تھا کہ وہ کسی اُستاذ کی عزت نہیں کرتا ۔ ایک دن کوئی باہر کا آدمی سکول میں پرائمری کے ایک اُستاذ سے ملنے آیا اور اس کے ساتھ جھگڑنے لگا اور نوبت ہاتھا پائی تک پہنچی ۔ غلام مرتضٰے گولی کی طرح کمرے سے نکلا اور باہر سے آنے والے آدمی کو دبوچ کر دھکے دیتے ہوئے سکول سے باہر لے گیا ۔ اتنی دیر میں کچھ اساتذہ پہنچ گئے ۔ غلام مرتضٰے نے جو دیکھا تھا بیان کیا تو ہیڈ ماسٹر صاحب نے پوچھا کہ “تم نے ایسا کیوں کیا”۔ غلام مرتضٰے بولا “اُستاذ پر کوئی ہاتھ اُٹھائے ۔ میں بے غيرت نہیں ہوں کہ دیکھتا رہوں”
میرے طالب علمی کے زمانہ میں صورتِ حال ایسے تھی کہ نہ صرف میرے بلکہ سب طلباء کے والدین اساتذہ کا بہت احترام کرتے تھے ۔ اُستاذ کسی طالب علم کی پٹائی کرے تو طالب علم کی پوری کوشش ہوتی تھی کہ اسکے گھر والوں تک بات نہ پہنچے کيونکہ اسکی مزید پٹائی والدین سے ہونے کا خدشہ ہوتا تھا کہ اُستاذ نے کسی غلط حرکت کی وجہ ہی سے پٹائی کی ہو گی ۔ نہ صرف طلباء بلکہ اُن کے والدین بھی ساری عمر اپنے اور اپنے بچوں کے اساتذہ کی عزت و احترام کرتے تھے
پھر ايک دور آیا جسے “عوامی” کا نام دیا گیا ۔ اُس دور میں سب کو یہ سکھایا گیا کہ مُلکی نظامِ تعلیم کے پیروکار تعلیمی اداروں کے اساتذہ نیچ ہیں اور قابلِ سرزنش ہیں ۔ اساتذہ کے ساتھ گستاخی کے واقعات ہونے لگے ۔ کسی غلط عمل پر طالب علم کی سرزنش کرنا اساتذہ کے لئے مُشکل ہو گیا ۔ اسی پر بس نہ ہوا ۔ تعلیمی ترقی کے نام پر غیرسرکاری درسگاہیں ماسوائے غیرمُلکیوں کی ملکیت کے قومی تحویل میں لے کر اکثر اساتذہ کو کم تعلیم یافتہ ہونے کے بہانے سے چلتا کیا گیا ۔ اُن دنوں سرکاری درسگاہیں بہت کم تھیں مگر اکثر غير سرکاری درسگاہوں میں تعلیم کا معیار بلند تھا ۔ قومی تحویل میں لی گئی درسگاہوں میں حکومت کے منظورِ نظر تعینات ہوئے جن کو حکومت سے وفاداری کا زیادہ اور بچوں کی تعلیم کا کم خیال تھا جس کے نتیجہ میں تعلیمی انحطاط شروع ہوا
عوامی حکومت کی منصوبہ بندی کے نتیجہ میں مہنگائی یکدم بڑھی تو حکومت کے منظورِ نظر اساتذہ نے ٹیوشن سینٹر کھول لئے اور درسگاہوں ہی میں ان ٹیوشن سینٹروں کی اشتہار بازی کرنے لگے ۔ دیکھتے ہی دیکھتے او اور اے لیول کے جھنڈے بلند ہونا شروع ہوئے ۔ ذرائع ابلاغ نے اپنی کمائی کے لئے اُن کی بھرپور اشتہاربازی کی ۔ ان او لیول والوں کی قابلیت کا مُختصر ذکر میں نے اپنی 16 مئی 2007ء کی تحریر میں کیا تھا
حکومت نے جلسوں اور جلوسوں کو بھرنے کے لئے درسگاہوں میں سیاست کو عام کیا اور درسگاہیں سياسی کٹھپتلیاں بن کر رہ گئے ۔ طُلباء اور طالبات میں محنت کا رحجان کم ہوا تو اسناد بکنے لگیں ۔ پرانے زمانہ میں دوران امتحان کبھی کبھار کوئی نقل کرتا پکڑا جاتا تو منہ چھپاتا پھرتا پھر برسرِعام نقل ہونے لگی اور امتحانی مراکز بکنے لگے ۔ سفید پوش والدین کے محنتی اور دیانتدار بچے مُشکلات کا شکار ہونے لگے مگر مجبور تھے کہ ان کے پاس بھاری فیسوں کیلئے رقوم نہ تھیں
کسی زمانہ میں خاندان کی بڑھائی کا نشان تعليمی قابلیت ۔ شرافت اور دیانتداری ہوتے تھے پھر بڑھائی یہ ہونے لگی کہ “ميرا بيٹا امریکن سکول یا سِٹی سکول ۔ یا گرامر سکول یا بيکن ہاؤس میں پڑھتا ہے۔ اور او لیول یا اے لیول کر رہا ہے”۔ استاذ کی خُوبیوں کی بجائے دولت اور اعلٰی عہديداروں سے تعلق کی عزت ہونے لگی
جس استاذ نے مجھے آٹھویں جماعت میں انگریزی پڑھائی تھی وہ خود دس جماعت پاس تھے مگر جیسا اُنہوں نے پڑھایا ويسا پڑھانا تو کُجا دورِ حاضر کا ایم اے انگلش ويسا لکھ بھی نہیں سکتا
بھت خوب تجزیھ کیا ھے
مین نے چونکہ پاکستان 1961 مین چھوڑا تھا اس لیئے اس تجزیھ سے میری معلومات مین اضافھ ہوا ھے
میری اپنی تنقید میڈیکل تعلیم کے متعلق ھے کہ پاکستان مین اس تعلیم کا معیار کس طرح گرنا شروع ہوا اور اب جب کہ ھر بڑے شھر مین میڈیکل کالجز چل رھے ھین معیار کا کیا حال ھے اللھ ھی حافظ ھے۔ کیسے ڈاکٹر بن بن کر نکل رھے ھین
استاذ کی عزت سے یاد آیا مین پشاور میڈیکل کالج مین پڑھا رھا تھا لڑکے شور کر رھے تھے۔ سب سے شرارتی لڑکا انھین ڈانٹ رھا تھا چپ کرو ڈاکٹر صاحب کلاس شروع کر رھے ھین اور مین محض سینیئر لیکچرر تھا
آپ کی سیر حاصل تحریر پر کچھ اضافہ کرنا کا اہل نہیں۔۔۔
ایک چھوٹی سی بات ہے بس۔۔۔
تعلیم پر تو بہت توجہ دی ہم نے
تربیت کو نظر انداز کردیا۔۔۔۔
جعفر صاحب
مفيد پڑھائی میں تربیت کو جمع کیا جائے تو تعلیم بنتی ہے ۔ تنزل کی وجہ یہ ہے کہ دورِ حاضر میں اسناد اکٹھا کرنے کو تعلیم سمجھ لیا گیا ہے ۔ بقول میرے اساتذہ کے “گدھے پر جتنی چاہے کتابیں لاد دی جائیں وہ گدھا ہی رہتا ہے