Monthly Archives: April 2008

انسان بہتر یا جانور

میں نے 2 اپریل کو درویش اور کُتا کے عنوان کے تحت شیخ سعدی صاحب کی لکھی دو کہانیاں نقل کی تھیں ۔ جو کچھ آجکل دیکھنے کو ملتا ہے اس کے مطابق محسوس ہوتا ہے کہ آجکل انسان اور جنگلی جانور کے خصائل اگر آپس میں بدل نہیں گئے تو گڈ مڈ ضرور ہو گئے ہیں ۔

نیچے دی ہوئی تصاویر دیکھ کر سوچنا پڑتا ہے کہ آج کا انسان اچھا ہے یا جانور ؟

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

  

  

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

لمحۂِ فکریہ

لمحۂِ فکریہ
پچھلے پانچ دنوں میں جو ناگہانی واقعات دیکھنے میں آئے ہیں انہوں نے سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ ہر طرف سے پِٹے ہوئے پاکستانی عوام کو جو جمہوریت اور یکجہتی کا سندیسہ دیا گیا تھا اُس کی تعبیر کو روکنے کیلئے سازشیں زور شور سے جاری ہیں ۔

سندھ کی نئی اسمبلی کے ابتدائی اجلاس میں دروازے کا شیشہ توڑ کر اس میں ہاتھ ڈال کر کُنڈی کھول کر زبردستی داخل ہونا ۔
اسمبلی کے اجلاس کے دوران بے جا نعرے اور ہُلڑبازی
سابق وزیرِ اعلٰی کے ساتھ بدتمیزی
دوبارہ سابق وزیرِ اعلٰی کے ساتھ نہ صرف بدتمیزی بلکہ اُن کی پٹائی جس میں جوتیاں بھی استعمال کی گئیں
منگل 8 اپریل کو لاہور میں سابق صوبائی وزیر ڈاکٹر شیر افگن پر تشدد
بُدھ 9 اپریل کو پورے کراچی میں بلوے ہوئے

اس میں کوئی شک نہیں کہ دونوں سابق وزراء کا کردار بہت ہی غلط رہا اور وہ ناپسندیدہ اشخاص میں شامل ہو گئے ہیں لیکن دیکھنا یہ ہے کہ جو کچھ ہوا کیا وہ انسانیت کے کسی کھاتے میں ڈالا جا سکتا ہے ؟
یا اسے ابھی تک نا مکمل سیاسی حکومت یا وکلاء کے کھاتہ میں ڈالا جا سکتا ہے ؟

کراچی میں سندھ اسمبلی کے واقعات

کراچی ارباب غلام رحیم کے ساتھ پہلے دن کے واقعہ پر تو کہا جا سکتا ہے کہ بہت سے لوگ اسمبلی کی عمارت میں گھُس آئے تھے اور اُن میں سے کچھ نے بدتمیزی کی لیکن دوسرے دن جس طرح منصوبہ بندی کے ساتھ بدتمیزی اور غُنڈاگردی کی گئی اُس کا سوائے اسکے کیا جواز ہے کہ کوئی طاقت ہے جو رنگ میں بھنگ ڈالنے کا جامع منصوبہ رکھتی ہے ۔

لاہور کے 8 اپریل کا واقعہ

کیا 18 فروری کے بعد اور 8 اپریل سے قبل ڈاکٹر شیر افگن لاہور نہیں آئے تھے ؟
وہ ایک ذاتی کام کے سلسلہ میں اپنے وکیل سے ملنے گئے اس کا علم مخالفین کو کیسے ہوا ؟
لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر انور کمال اور لاہور بار ایسوسی ایشن کے صدر منظور قادر کی ہاتھ جوڑ کر التجائیں ہجوم پر اثر نہ کر سکیں تو اعتزاز احسن کو بلایا گیا ۔
وہ وکلاء جو انور کمال ۔ منظور قادر اور اعتزاز احسن کا ہر مشکل سے مشکل مشورہ خندہ پیشانی سے مانتے چلے آرہے تھے ۔ اُن کے کپڑے پھٹتے رہے جسم لہو لہان ہوتے رہے اوراپنے رزق کو داؤ پر لگا کر انور کمال ۔ منظور قادر اور اعتزاز احسن کے ماتحت متحد رہے اور کسی املاک کو یا انسان کو نقصان نہ پہنچایا ۔ پھر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ اعتزاز آحسن سمیت اپنے تینوں رہنماؤں کی ہاتھ جوڑ کر کی گئی التجائیں ٹھُکرا دیں ؟
اعتزاز احسن نے پاکستان بار ایسوسی ایشن کی صدارت سے اور منظور قادر نے لاہور بار ایسوسی ایشن کی صدارت سے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا مگر تشدد کرنے والوں پر کوئی اثر نہ ہوا ۔ اسلئے کہ وہ وکلاء نہیں تھے ۔

سوال پیدا ہوتاہے کہ
پولیس کو جائے واردات پر پہنچنے میں 3 گھنٹے کیوں لگے جب کہ یہ واقعہ لاہور شہر کے وسط میں ہوا اور کوئی سڑک بند نہ تھی ؟
تین گھنٹے بعد بھی پولیس کی بہت کم نفری بھیجی گئی ۔
اعتزاز احسن کی زیادہ پولیس بُلانے کی درخواست پر کوئی عمل نہ کیا گیا ۔
سابق وزیرِ اعلٰی پنجاب پرویز الٰہی کی بنوائی ہوئی اِیگل سکواڈ کہاں تھی جو مخالف سیاسی جماعتوں اور وکلاء مظاہرین پر تشدد کرنے کیلئے پندرہ بیس منٹ میں پہنچ جایا کرتی تھی ؟
ریسکیو 1122 یا ایگل سکواڈ کی بجائے ڈاکٹر شیر افگن کو لیجانے کیلئے ایدھی ٹرسٹ کی ایمبولنس کیوں بلائی گئی جس کی حفاظت کا کوئی بندوبست نہیں ہوتا اورجسے آسانی سے نقصان پہنچایا جا سکتا ہے ؟
جس آدمی نے ایدھی ایمبولنس کے اندر ڈاکٹر شیر افگن کی پٹائی کی وہ ایمبولنس کے ڈرائیور والے حصہ میں تھا ۔ ڈرائیور کہاں تھا اور ڈرائیور والے حصہ کو کھُلا کیوں چھوڑا گیا تھا ؟
پولیس افسروں کی یقین دہانی پر کہ پولیس کی کافی نفری سادہ کپڑوں میں موجود ہے اور یہ کہ کوئی شخص ڈاکٹر شیر افگن کو گزند نہیں پہنچا سکے اعتزاز احسن ڈاکٹر شیر افگن کو لے کر آئے ۔
جن لوگوں نے ڈاکٹر شیر افگن پر تشدد کیا وہ سب سادہ کپڑوں میں تھے ۔ ڈاکٹر شیر افگن کو بچانے کی کوشش میں اعتزاز احسن ۔ دوسرے دو رہنما اور دیگر وکلاء خود بھی دھکے اور تھپڑ کھاتے رہے ۔ ان کی مدد صرف دو پولیس والوں نے کی ۔
کیا ڈاکٹر شیر افگن پر تشدد کرنے والے سادہ کپڑوں میں لوگ ہی ایجنسیوں کے آدمی تھے ؟
کیا پولیس بھی اس سازش کا حصہ تھی ؟

یہ حقیقت کھُل کر سامنے آ چکی ہے کہ جو ہجوم لاہور میں جمع ہوا اُس میں کم از کم آدھے لوگ وکیل نہیں تھے کیونکہ جب اعتزاز احسن نے کہا کہ سب وکلاء حلف کیلئے ہاتھ اُوپر اُٹھائیں کہ وہ ڈاکٹر شیر افگن کو کوئی گزند نہیں پہنچائیں گے تو ہاتھ اُٹھانے والوں کی تعداد ہجوم کے 50 فیصد سے زیادہ نہ تھی ۔

کراچی کے 9 اپریل کا واقعہ

سٹی کورٹ بار ایسو سی ایشن کی جانب سے جنرل باڈی کا اجلاس ہو رہا تھا کہ ایم کیو ایم کے لوگوں نے مظاہرہ کیا اور نعرے لگاتے ہوئے بار میں گھُس گئے جہاں وکلاء کے علاوہ کسی کو جانے کی اجازت نہیں ہوتی ۔ میں راولپنڈی ڈسٹرکٹ کورٹس جاتا رہتا ہوں ۔ وہاں بار روم کے باہر جلی حروف میں لکھا ہے کہ وکلاء کے علاوہ کسی کو اندر جانے کی اجازت نہیں ۔ مظاہرہ کرنے والے ایم کیو ایم کے لوگ ایل ایل بی ہونگے لیکن وکیل نہیں تھے کیونکہ وہ ملازمت پیشہ تھے اور کسی وکیل کو ملازمت کرنے کی اجازت نہیں ہوتی ۔ وکلاء نے ایم کیو ایم کے آدمیوں کو باہر نکالنے کی کوشش کی جس پر جھگڑا ہوا اور ہاتھا پائی بھی ۔ بعد میں پولیس پہنچ گئی اور احتجاج کرنے والوں کو باہر نکال دیا ۔ سمجھا گیا کہ معاملہ ختم ہوگیا ۔

تھوڑی ہی دیر بعد نقاب پوش کہیں سے وارد ہوئے اور بار پر فائرنگ شروع کر دی ۔ وکلاء نے بھاگ کر جانیں بچائیں ۔ ان حلمہ آوروں نے بار اور لائبریری کو آگ لگا دی ۔ اس کے بعد سٹی کورٹس کے قریب طاہر پلازہ جس میں کئی وکلاء کے دفتر ہیں میں کچھ وکلاء کے دفاتر کو آگ لگا دی جس کے نتیجہ میں 2 خواتین سمیت 6 لوگ زندہ جل کر مر گئے ۔ ملیر کورٹس پر بھی حملہ ہوا اور کراچی میں پرانے شہر سے لے کر نارتھ کراچی تک فائرنگ ۔ بلوے اور آگ لگانے کی وارداتیں شروع ہو گئیں ۔ ایک بنک ۔ کئی دوسری عمارتوں کے علاوہ سٹی بار ایسوسی ایشن کے ایک رہنما نعیم قریشی کی ملکیت ایک گھر اور گاڑی کو بھی آگ لگا دی گئی ۔ درجن بھر انسان ہلاک اور دو درجن کے قریب زخمی ہوئے ۔ 4 درجن کے قریب گاڑیاں جلا دی گئیں ۔
کیا یہ سٹی کورٹ میں ہونے والی وکیلوں کی جھڑپ تھی ؟

ایم کیو ایم کے رہنماؤں نے اس سارے غدر کو وکلاء کے سر منڈنے کی کوشش کی ۔ کیا اس سب کو وکیلوں کی لڑائی کہا جا سکتا ہے ؟
کیا یہ مانا جا سکتا ہے کہ سال سے زائد عرصہ ریاستی تشدد کے باوجود منظم تحریک چلانے والے وکلاء آن کی آن میں ایسے بگڑ جائیں کہ تصادم تو سٹی کورٹس میں ہو اور پورا کراچی بلوائیوں کا اکھاڑا بن جائے ؟
وکلاء اتنی سُرعت کے ساتھ سارے کراچی میں کیسے پھیل گئے اور کیا وہ اتنا سازو سامان رکھتے ہیں ؟

نقاب پوش کہاں سے آئے اور کس نے بھیجے تھے ؟
سٹی ایڈمنسٹریشن کہاں تھی جو زیادہ تر ایم کیو ایم ہے ؟
جل کر مرنے والے اور گولیوں سے مرنے والوں میں ایک بھی ایم کیو ایم کا نہیں ۔ زخمیوں میں بابر غوری اور فاروق ستار نے 6 ایم کیو ایم کے بتائے جس کی دوسرے ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی ۔ اگر اسے درست مان بھی لیا جائے تو باقی لوگوں کو کس نے مارا اور زخمی کیا ؟
کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ ماریں بھی وہی اور مریں بھی وہی ؟

کیا مندرجہ بالا واقعات سے آنے والی حکومت یا وکلاء کو کسی قسم کا فائدہ پہنچتا ہے ؟
نہیں بالکل نہیں ۔ بلکہ وکلاء کی ساکھ کو دھچکا لگنے کا اندیشہ ہے ۔
وکلاء کے نظم و ضبط کا ثبوت پچھلے ایک سال میں وکلاء کی منظم تحریک ہے ۔

پھر کون ہو سکتا ہے جو بدتمیزی اور تشدد کے یہ ڈرامے ڈائریکٹ اور پروڈیوس [direct and produce] کر رہا ہے ؟

ماضی قریب کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ آخری دموں پر ہونے والی حکومت اعلان کرتی کہ فلاں علاقہ میں اتنے دہشت گرد گھُس گئے ۔ اُس کے بعد دھماکہ ہوتا اور اس کا ذمہ دار پاکستان کے قبائلیوں یا القاعدہ کو ٹھہرا دیا جاتا ۔
دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں موزوں اسلحہ سے لَیس ایک لاکھ اَسی ہزار پاکستانی فوجی متعیّن ہیں ۔ انسان تو کیا چوپائے بھی بغیر پرویز مشرف کی اجازت کے نہ قبائلی علاقوں میں داخل ہو سکتے ہیں نہ وہاں سے باہر جا سکتے ہیں ۔

سندھ اسمبلی کی حلف برداری سے ایک دن قبل وزارتِ داخلہ کی طرف سے [بغیر نئے وزیرِ اعظم کی منظوری کے] اعلان کیا گیا کہ سابق وُزراء کی جان کو خطرہ ہے ۔ جو نام لئے گئے تھے ان میں ڈاکٹر شیر افگن اور ارباب غلام رحیم شامل تھے ۔

مندرجہ بالا حقائق ہر محبِ وطن پاکستانی کو دعوتِ غور و فکر دیتے ہیں کہ کون ہے جو پاکستانیوں کو محروم رکھنا چاہتا ہے اور پاکستان کے بخیئے اُدھیڑنے پر تُلا ہے ؟

صرف تین ہی نام ذہن میں آتے ہیں ۔ پرویز مشرف ۔ ایم کیو ایم اور گجرات کے چوہدی برادران ۔

ساحل کی ہوا

ثانیہ رحمان صاحبہ نے سعدیہ سحر صاحبہ کی ایک نظم نقل کی ۔ اسے پڑھنے کے ساتھ ہی میرے ذہن میں کچھ الفاظ اُبھرے تھے جو میں نے وہاں تبصرہ کے خانہ میں لکھ دئیے تھے ۔ میں شاعر تو نہیں ہوں ۔ یونہی الفاظ کا جوڑ توڑ کر لیتا ہوں ۔ وہ الفاظ یہاں نقل کر رہا ہوں

میں جب دیکھتا ہوں ساحل کی ہوا
اِک نئی سحر کا سندیسہ ہے ملتا
کہ اب رُخ بدل چکی ہے بادِ سموم
اب زمیں سے نئی کونپلیں پھوُٹیں گی
جو پہلے کلیاں پھر وہ پھول بنیں گی
میرے وطن پہ ایک بار پھر آئے گی بہار
مسرت کی لہر پھر ہر طرف دوڑ جائے گی

پیشین گوئیاں

بلاشبہ مستقبل کا حال صرف اللہ ہی جانتا ہے ۔

کوئی انسان نہیں بتا سکتا کہ ایک لمحہ بعد کیا ہونے والا ہے ۔ تعلیم اور تجربہ سب ہیچ ہے ۔
بڑے نامور لوگوں کی کچھ پیشین گوئیاں نقل کر رہا ہوں ۔

آئی بی ایم کے چیئرمین تھامس واٹسن [Thomas Watson] نے 1943ء میں رائے دی “میرا خیال ہے کہ پوری دنیا میں شاید پانچ کمپیوٹوں کی مانگ ہو گی”۔

ڈیک کے فاؤنڈر ۔ چیئرمین اور پریزیڈنٹ کن اولسن [Ken Olson, founder, chairman & president of DEC] نے 1977ء میں باوثوق طریقہ سے کہا “کوئی وجہ نہیں کہ کوئی اپنے گھر میں کمپیوٹر چاہے گا”۔

بِل گیٹس [Bill Gates] نے 1981 میں فیصلہ دیا “640K کے ہر ایک کیلئے کافی ہو گی”۔

مشہور مستریوں نے [Popular Mechanics] سائینس کی ترقی سے مغلوب ہو کر 1949ء میں رائے دی “مستقبل کے کمپیوٹر کا وزن 1500 کلو گرام تو ہو گا ہی”۔

ایپل کمپیوٹر کے فاؤنڈر سٹیو جابز نے نتایا کہ اپنے اور سٹیو ووزنیاک کے پرسنل کمپیوٹر دلچسپی دلانے کیلئے ہم اٹاری [Atari] کے پاس گئے اور کہا “ہمارے پاس ایک حیران کُن چیز ہے جس میں کچھ پُرزے آپ کے بنائے ہوئے بھی ہیں ۔ ہمیں فنڈ مہیا کرنے کے سلسلے میں کیا خیال ہے ؟ یا پھر ہم اسے آپ کو دے دیتے ہیں کیونکہ ہم یہ کام کرنا چاہتے ہیں ۔ ہمیں تنخواہ دے دیں ہم آپ کیلئے کام کریں گے”۔ ہمیں جواب نہیں میں ملا ۔

پھر ہم اسی خیال سے ہولٹ پیکارڈ [Hewlett-Packard] کے پاس گئے تو انہوں نے کہا “ہمیں تمہاری ضرورت نہیں ہے ۔ تم نے تو ابھی کالج سے ڈگری بھی نہیں لی”۔

درویش اور کُتا

ماضی میں معاشرہ کا ایک اہم پہلو جو نمعلوم کیوں اور کس طرح غائب ہو گیا ۔ وہ ہے حکائت گوئی ۔ سردیوں میں چونکہ راتیں لمبی ہوتی ہیں اس لئے چھُٹی سے پچھلی رات سب لحافوں میں گھُس کر بیٹھ جاتے ۔ پلیٹوں میں خُشک میوہ لیا ہوتا اور ایک بزرگ کہانی سنانا شروع کرتے ۔ یہ بھی ایک ادارہ تھا جو نہ صرف بچوں بلکہ جوانوں کی بھی تربیت غیرمحسوس طریقہ سے سرانجام دیتا تھا ۔ کہانی چاہے جِن کی ہو یا شہزادہ شہزادی کی اسے اتنا دلچسپ بنا کر سنایا جاتا کہ خشک میوہ ہماری پلیٹوں ہی میں پڑا رہ جاتا ۔ ان سب کہانیوں میں قدرِ مشترک اس کا سبق آموز اختتام ہوتا جسے زور دے کر بیان کیا جاتا ۔

نیز ہمارے سکول اور کالج کے زمانہ میں چھوٹی چھوٹی کہانیاں پڑھی اور سنائی جاتی تھیں جو پانچ چھ سال کے بچے سے لے کر بوڑھوں تک میں مقبول ہوتی تھیں اور ہر ایک کو اُس کی عمر کے مطابق محسوس ہوتی تھیں ۔ ان میں سب سے زیادہ مشہور شیخ سعدی صاحب کی گلستانِ سعدی کی کہانیاں تھیں ۔ یہ کتاب فارسی زبان میں تھی اور میں نے آٹھویں جماعت [1951] میں پڑھی تھی ۔ یہی کتاب ایم اے فارسی کے کورس میں بھی تھی ۔ میں نے اس سلسلہ میں اپنے ایک استاذ سے استفسار کیا تو اُنہوں نے بتایا “آپ کیلئے امتحان میں آٹھویں جماعت کی سطح کے سوال ہوتے ہیں اور اُن کیلئے اُن کی تعلیمی سطح کے مطابق”۔ اس کتاب کی دو کہانیاں درویش اور کُتے کی ۔

درویش اور کُتا ۔ پہلی کہانی ایک درویش کو ایک کُتے نے کاٹ لیا ۔ درد کے مارے درویش کے آنسو نکل آئے ۔ اس کی ننھی بیٹی پوچھنے لگی “بابا ۔ روتا کیوں ہے ؟” وہ بولا “کُتے نے کاٹا ہے”۔ بیٹی بولی “کُتا آپ سے بڑا تھا؟” درویش بولا “نہیں ۔ بیٹی”۔ پھر بیٹی بولی” تو آپ بھی اُس کو کاٹ لیتے”۔ درویش بولا”بیٹی ۔ میں انسان ہوں اسلئے کُتے کو نہیں کاٹ سکتا”۔

آج کتنے انسان ہیں جو اپنے ہر عمل سے پہلے اُسے انسانیت کی کَسوَٹی پر پرکھتے ہیں ؟

درویش اور کُتا ۔ دوسری کہانی ایک درویش نے ایک کُتا پال رکھا تھا ۔ بادشاہ کا وہاں سے گذر ہوا تو از راہِ مذاق درویش سے پوچھا “تم اچھے ہو یا تمہارا کُتا ؟” درویش نے کہا “یہ کُتا میرا بڑا وفادار ہے ۔ اگر میں بھی اپنے مالک کا وفادار رہوں تو میں اس کُتے سے بہتر ہوں کہ میں انسان ہوں ورنہ یہ کُتا مجھ سے بہتر ہے”۔

آج کتنے لوگ ہیں جو اپنے خالق و مالک کے وفادار ہیں ؟
اللہ ہمیں اصل کو پہچاننے کی توفیق عطا فرمائے ۔

چیف جسٹس دہشتگردوں کے حمائتی

کسی مُلک کا صدر صرف اپنی کُرسی بچانے کیلئے اخلاقی طور پر اتنا گر جائے شاید دنیا کا ہوئی راہنما ماننے کیلئے تیار نہ ہو لیکن یہ حقیقت ہے کہ پرویز مشرف نے ایسا کیا اور اپنے 3 نومبر 2007ء کا غیر قانونی اور غیر آئینی قدم اُٹھانے سے قبل انتہائی عیّاری اور مکّاری سے امریکی حکمرانوں کو باور کرایا کہ پاکستان کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری دہشتگردو کے حمائتی ہیں ۔

پرویز مشرف نے اس کیلئے کیا طریقہ اختیار کیا ؟ یہاں کلک کر کے پڑھیئے ۔